Wednesday 22 November 2017

*اندھی عقیدت اور مسلم معاشرہ*

بہت جلد آر رہا ہے۔۔۔۔

*اندھی عقیدت اور مسلم معاشرہ*

آنے والی آرٹیکل کی چند جھلکیاں باقی تفصیلات مکمل آرٹیکل میں پڑھیں!

قبل مسیح کے یونان میں دیوتاؤں کا راج تھا۔ یہ سب غیر حقیقی کردار ہوا کرتے تھے۔ اُن کی عبادت کی جاتی اور بڑی بڑی عبادت گاہیں تعمیر کر کے اُن میں اِن دیوتاؤں کے مجسمے رکھے جاتے۔ یونانی کبھی کبھار کسی غیر معمولی انسان کو بھی دیوتا کے درجے پر پہنچا دیا کرتے۔

وقت کا پہیہ گھوما اور دیوتاؤں یا مذہبی شخصیات پر عیاشی، شراب اور جنس حرام ٹھہری۔ مذہب جیسا طاقتور جذبہ بھی بعض اوقات انسانی فطرت کو بدلنے میں ناکام رہتا ہے چنانچہ ہزارہا سال کے عمل تطہیر کے بعد بھی تمام مذاہب میں ڈیانوسس دیوتا کی خوبیوں سے لبریز مذہبی شخصیات تواتر سے آتی رہی ہیں اور ڈرامہ بھی ہوتا ہی رہا۔ تمام مذاہب میں گناہ و جزا کا تصور مضبوط تر ہونے کے باوجود ایسے افراد آتے رہے جو اسلام کا لبادہ اُوڑھ کر مذکورہ بالا کارروائیاں کرتے رہے۔ کچھ اُموی، عباسی، عثمانی اور مغل فرمانروا کردار میں کیا ڈیانوسس سے کم تھے؟
پھر خانقاہی دور آیا۔ اسلام نے ابتدا میں رہبانیت کی سختی سے تردید کی تھی اور اپنے پیروکاروں کو معاشرتی دھارے میں شامل رہ کر عبادات کا حکم دیا تھا، بہت کم عرصہ تک جاری رہ سکا۔ اس میں کچھ ایسے افراد اُبھر آئے جنہوں نے مذہبی احکامات کے متوازی ایک نظام بنا ڈالا۔ اس نظام میں راگ کی گنجائش بھی تھی اور تاریک الدنیا ہونے کی بھی۔ انہیں صوفیا کہا جانے لگا۔

وقت کا پہیہ پھر گھوما اور یہ خانقاہی نظام جو صدیوں کی محنت و ریاضت سے وجود میں آیا تھا اور شریعت و معاشرت کے درمیان ایک توازن قائم کر چکا تھا۔ نااہل، موقع پرست جاگیر داروں اور دولت کے پجارویوں کے ہتھے چڑھ گیا۔
ان لوگوں نے صوفیا کی قبروں کی مجاوری سنبھال لی، گدی نشین ،مخدوم اور پیر ذادے بن گئے اور اس کے پردے میں وہ سب ڈرامہ شروع کر دیا جو کبھی ڈیانوسس دیوتا ویرانوں میں کیا کرتا تھا۔

لیکن جب آستانوں کی باہمی رقابت شروع ہوئی تو حالات ایک نئی نہج پر چلنا شروع ہو گئے پیران کرام کی ایک فوج ظفر موج سامنے آگئی۔ ویرانوں میں بنے آستانے خواتین کی عصمت دری، فقیری بوٹی، بھنگ، چرس اور کبھی شراب کے بڑے ٹھکانے بن گئے۔ اس طرح ایک بدعت و خرافات کا ایک لمبا بازار گرم ہوتا چلا گیا جس کی تفصیلات مکمل مضمون میں پڑھیں ۔۔
سو فیصد ایسا بھی نہیں لیکن سوائے چند کے یہ آستانے ان قباحتوں میں سے کسی نہ کسی سے ضرور جڑے ہوتے ہیں۔ سادہ لوح اور اندھی عقیدت میں گوندھے خواتین و حضرات کی آواز وہیں دفن ہو جایا کرتی تھی اور ہے۔

وقت کا پہیہ اور گھوما۔ اب عقیدت کے آبگینے کچھ باشعور ہو گئے لیکن بنیادی فطرت اور خوف کی تلوار سر پر ہی رہی۔ خوف جو گناہ سرزد ہونے پر ضمیر کو خلش کے کچوکے لگاتا ہے۔ اب عقیدت مند گناہ جھاڑنے کے لیے اُدھر رُخ کرنے لگے۔ گناہ جو محض پیسوں اور کبھی کبھار عصمت کے سودے پر ہی جھڑ سکتے ہیں۔ پیران و مریدین نے مل کر عقیدت مندوں پر نذر نیاز کی اہمیت ثابت کر دی۔اس طرح کل کے ککھ پتی گدی نشین اور مخدوم آج کے لکھ پتی بنتے چلے گے اس کی تفصیلات بھی مکمل مضمون میں ہی پڑھیں ۔

پھر وقت کا پہیہ آج کے دور تک پہنچا۔ اب بات خلاؤں کے پار بھی جا پہنچی۔ انٹرنیٹ اور میڈیا نے لوگوں کے اذہان کی نئی پرتیں کھول دیں۔ لیکن عقیدت کے اندھے آبگینے جوں کے توں رہے۔ ذرا بھر فرق ضرور آیا لیکن اُس ذرا بھر فرق کے نہاں خانوں میں بھی خوف کا شائبہ باقی ہے۔

اور رہی بات سچے متقین ولی اللہ حضرات کی
تو اولیاء اللہ اور ان کے کارنامے اپنی مثال آپ ہیں۔
ان کی شہرت و عظمت کئی صدیوں پر محیط ہے۔
دنیا سے رخصت ہوئے ، توچند سکے ان کی ملکیت میں تھے ،مگر ان کی یاد میں آنسو بہانے والوں کا ہجوم تھا ، ان کے کارناموں سے متأثر ہونے والے افراد بے شمار تھے۔دولت و شہرت عزت و ناموس کے حریص نہیں تھے ،دولت کا انبار نہیں لگاتے تھے۔عوام کا استحصال نہیں کرتے تھے۔ دھوکہ ان کی سرشت میں شامل نہیں تھا۔

باشعور ، باعقل اور باغیرت بندہ جو عورتوں کو اپنی عصمتوں کو گھر کی چاردیواری سے باہر نکالتے ہوئے شرماتا ہے ان کے معاشرتی حقوق سلب کر دیتا ہے ۔ صرف اس لیے کہ اس کی ماں ،بہن ، بیٹی پر کسی کی بری نظر نہ پڑے وہی مرد اپنی عورتوں کو اپنی عزتوں اور عصمتوں کو ایسے ہوس کے پجاریوں کے ہاتھوں میں خود جا کر سونپ دیتے ہیں کسی بھی اللہ کے نیک بندے کی تعلیمات میں اس کے طرزتخاطب ، طرزگفتاراور طرز معاشرت میں کہیں بھی ایسی بے ہودہ اور بے دین باتوں کا یا اعمال کا ذکر نہیں کہ عورتوں کو پانی کے تالاب سے شفا ملتی ہو یا کوئی روحانی بزرگ ایک نامحرم عورت کو گلے لگا کر دین و دنیا میں کامیاب و کامران کرتا ہو۔ اور عقل و فہم اس کو قبول کرے۔ یہ ہماری اندھی عقیدت اور دین سے مایوسی اور دوری کی نشانی ہے کہ ہم جانتے بوجھتے ایسے عاملوں ، جادوگروں ٹھگوں پیروں گدی نشینوں اور شعبدہ بازوں سے وہ کچھ مانگنے نکل پڑتے ہیں جو ہم خود صدق لب اللہ سبحانہ وتعالی سے مانگیں تو زیادہ آسانی سے مل سکتا ہے ۔
جعلی عاملوں اور پیروں فقیروں کی شکل میں معاشرے کا یہ مکروہ چہرہ کتنے بڑے معاشرتی مذہبی ، اخلاقی اور قانونی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ اس کی سرکوبی بے حد ضروری ہے ۔ بے راہ روی ، گمراہی اور جہالت کو فروغ دینے والے عناصر کا قلع قمع بے حد ضرور ی ہے اور ساتھ سب سے قابل ذکر اور اہم اقدام خود کو سنوارنا ،اپنے دین ، مذہب ، معاشرے ، اقتدار کو سمجھنا اور اپنے خاندان اور معاشرے کو اس جعلی خانقاہی نظام سے دور رکھنا ہے ۔ حکومت کا ہر برائی سے آنکھیں میچ لینا تو کوئی نئی بات نہیں کیونکہ حکمرانوں کو کرپشن ، پیسہ اور کرسی اقتدار کے علاوہ شاید ہی کسی کام سے غرض ہو ، ہرفرد کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا ، اچھے برے کی پہچان کرنی ہو گی اور حقیقی اللہ کے نیک بندوں اور بزرگوں کی پہچان کرنی ہو گی ، خود کو کم از کم اس حد باشعور کرنا ہوگا کہ اچھے برے کی پہچان کر کے اپنے خاندان اور اقرباء کو ایسی گمراہ کن برائیوں سے بچایا جا سکے ۔
ہماری اس ادنی سی کاوش کا حصہ بن کر اپنے بھٹکے ہوئے بھائیوں کی اصلاح میں اپنا حصہ ڈالیں۔۔۔
ہمارا یہ آرٹیکل جو عنقریب مکمل پوسٹ کر دیا جائے گا اسے اپنے دوست آحباب تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

(مولف عمران شہزاد تارڑ ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)
واٹس اپ:00923462115913
www.dawatetohid.blogspot.blogspot.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...