Saturday 4 November 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#122

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اسلام کے بنیادی پانچ ارکان اور تزکیہ نفس
5:حج اور تزکیہ نفس

حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔ارکانِ اسلام میں حج پانچواں اہم رکن ہے۔ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح حج کا انکار کرنے والا شخص بھی اسلام کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے اور اس مسئلے پر امت میں کوئی اختلاف نہیں۔ حج زندگی میں ایک بار ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔
ہماری سوسائٹی میں دو قسم کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو حج کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسستطاعت کے اسباب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیں اور حج کی نیت رکھیں ۔ممکن ہے اللہ کوئی راستہ نکال دے۔ ورنہ نیت کا اجر تو پکا ہے۔
باقی وہ لوگ جو استطاعت رکھنے کے باوجود محض سستی، کنجوسی، لاپرواہی یا دیگر بہانوں سے تاخیر کر رہے ہیں وہ اپنے ایمان کا ازسرِ نو جائزہ لیں۔وہ یہ جانیں کہ حج کی دین میں کیا اہمیت ہے، اور ایک دن آنے والا ہے جب وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر حج نہ کرنے کا عذر بیان کریں گے اور اگر اللہ نے وہ عذر تسلیم نہ کیا تو انجام خطر ناک بھی ہو سکتا ہے۔

 حج کی فرضیت اور اہمیت قرآن و حدیث میں بڑی واشگاف الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ:۔ 
فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًاوَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ(آل عمران:97)
"جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اس میں جو آ جائے امن واﻻ ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راه پا سکتے ہوں اس گھر کا حج فرض کر دیا گیا ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواه ہے۔"

اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم ؑ کو یہ حکم دیا:
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ۔لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُم...(الحج:27،28)
"اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پا پیاده بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی اور دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے۔
اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں۔"

یوں حج دین اسلام کا ایک اہم ترین رکن بنا۔

حضرت ابراہیم ؑ نے یہ دعا فرمائی:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِن ذُرِّیَّتِنَا أُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَآ إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔(البقرہ:128)
"اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں بھی فرمانبردار امت پید فرما اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے سکھلا اور ہماری توبہ قبول فرما یقیناً تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔"

احادیث نبویہ میں حج بیت اللہ کی خاص اہمیت اور متعدد فضائل احادیث نبویہ میں وارد ہوئے ہیں ، چند احادیث حسب ذیل ہیں:

ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا : اللہ کے رسول ! اعمال میں سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ” اللہ پر ایمان لانا “ ، اس نے پوچھا : پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا : ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنا “ ، اس نے پوچھا : پھر کون سا عمل ؟ آپ نے فرمایا : ” پھر حج مبرور (مقبول)۔(سنن نسائی،حج کے احکام ومناسک:2625حکم البانی صحيح)
دوسری حدیث میں ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی گناہ تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا ۔ (یعنی تمام گناہوں سے پاک)صحیح بخاری،کتاب الحج:1521)
مزید ایک حدیث میں ہے
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” حج و عمرہ ایک ساتھ کرو ، کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہ کو اسی طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے ، اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے ۔ اور حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
(سنن نسائی: 2632،حکم البانی: حسن صحيح)

سیدنا ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کفارہ ہو جاتا ہے بیچ کے گناہوں کا اور حج مقبول کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔(صحیح مسلم:حج کے احکام ومسائل:3289)

حج تاریخی ورثہ اور تزکیہ نفس

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر کے سامنے اپنا خواب بیان کیا،میں تمھیں اللہ کی راہ میں قربان یعنی ذبح کر رہا ہوں۔
بیٹے کی زبان پر ایک ہی جواب تھا:﴿یا أبت افعل ما تؤمر﴾ ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں اور انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، اس جواب سے جہاں حضرت اسماعیل عليه السلام کے بے مثال، جذبہٴ جانثاری کی شہادت ملتی ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کم سنی ہی میں اللہ نے انھیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطا کیا تھا نیز :﴿ستجدني إن شاء ا للہ من الصٰبرین﴾کے جملے میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا غایت ادب اور کمال تواضع کو دیکھئے کہ ان شاء اللہ کہہ کر معاملہ اللہ کے حوالے کردیا اور اس وعدہ میں جو دعویٰ کی ظاہری صورت پیدا ہوسکتی تھی اسے ختم فرمادیا، دوسرے آپ یہ بھی فرما سکتے تھے کہ ”ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے“ لیکن اس کے بجائے آپ نے فرمایا کہ ”آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“ جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرمادیا کہ صبر وضبط تنہا میرا کمال نہیں، بلکہ دنیا میں اور بھی بہت سے صبر کرنے والے ہوئے ہیں ،ان شاء اللہ میں بھی ان میں شامل ہوجاؤں گا،اس طرح آپ نے اس جملہ میں فخر وتکبر، خود پسندی اور پندار کے ہر ادنی شائبے کو ختم کر کے اس میں انتہا درجہ کی تواضع وانکساری کا اظہار فرمایا۔
حج اور عمرے کے ذریعے امتِ مسلمہ کی ہر نسل اپنے اسلاف کے کارناموں اور ان کے تاریخی ورثے سے روشناس ہوتی رہتی ہے کہ کس طرح ابرہیم ؑ نے اپنے رب کے حکم پر اپنی بیوی اور بچے کو ایک بنجر وادی میں بسایا، اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کی سعی کی، کعبہ تعمیر کیا، لوگوں کو حج کی جانب بلایا ،اور مکہ کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی دعا کی۔ اسی طرح مکے کی پہاڑیاں اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں کی جدوجہد، قربانیوں ، ان پر ہونے والے مظالم اور آخر میں ان کی ہجرت کی داستان بیان کرتی ہیں۔
حج کا ایک اور مقصد تزکیہ نفس کا حصول ، دنیا سے دوری اور روحانیت(تقرب الہی) کو فروغ دینا ہے۔
حج درحقیقت شیطان کے خلاف ایک تمثیلی جنگ کا اظہار بھی ہے۔ چنانچہ بندہ مومن جب شیطان سے برسرِ پیکار ہونے کے لئے اپنے رب کی پکار سنتا ہے تو ان سلے کپڑوں کی وردی زیب تن کر لیتا ہے ۔ یہ احرام اس بات کی علامت ہے اس پر اب تمام جائز زیب و زینت ، شہوانی لذت اور دنیا سے قربت کی ہر علامت حرام ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دشمن ابلیس پر سنگباری کر کے اسے مسمار نہ کر دے۔
اور یہ کہتے ہوئے نکل کھڑا ہوا کہ
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَك۔َ 
" اے رب میں حاضر ہوں ، حاضر ہوں کہ تیرا کوئی شریک نہیں، تعریف تیرے ہی لئے، نعمت تیری ہی ہے اور تیری ہی بادشاہی ہے جس میں تیرا کوئی شریک نہیں۔"
یہ ترانہ پڑھتے ہوئے اپنی وفاداری کا اظہار کرتا، شیطان کی دعوت کا انکار کرتا، اپنا مورال بلند کرتا، اور یقینی فتح میں جھومتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔
میدانِ عرفات میں جمع ہو کر اپنے رب کی حمد و ثنا کرتا ہوا ماضی کی کوتاہیوں پر نادم ہو کر مغفرت کا طلب گار ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
...فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَام...ِ۔(سورہ البقرہ:198)
"جب تم عرفات سے لوٹو تو مشعر حرام کے پاس ذکر الٰہی کرو۔
خاتم الانبیاء نے خطبہ حجۃ الوداع یہیں ارشاد فرمایا تھا اور اسی دوران آپﷺپر یہ قرآنی آیت نازل ہوئی تھی:
...الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا...۔ ‘(سور المائدہ 3)
’’آج کے دن ہم نے تمھارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام تمام کر دیا اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔‘

یہاں مسلمانوں کو تین خوش خبریاں سنائی گئیں۔ "تکمیل دین"تکمیل قرآن" اور "ﷲ تعالیٰ کا دین اسلام پسند کرنا۔"
عرفات کے میدان میں مبارک اجتماع ایک طرف مسلم امہ کی عظمت اور اتحاد کی علامت ہے،تو دوسری جانب مسلمانوں کو مساوات، بھائی چارے اور وحدت کا درس دیتا ہے،ﷲ تعالی کے عظیم نمائندے حضرت محمدصلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے تاریخی خطبے میں اسی لفظ پر شدید اصرار کیا،اس مبارک خطبے کے بعض حصے درج ذیل ہیں۔
اے لوگو! یقینا تمہارا خون اور مال تم پر حرام ہیں،جن کے پاس امانت ہو،اسے حوالے کر دیں، جاہلیت میرے قدموں کے نیچے ہیں، عورتوں کے بارے میں ﷲ تعالی سے ڈرو، اگر ﷲ تعالی کی کتاب اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کرو گے، تو کبھی بھی راستے سے نہیں بھٹک جاؤ گے،ہرمسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔اے لوگو!تمہارا رب ایک ہے،تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے،یقینا تم میں بہتر وہ شخص ہے، جو ﷲ تعالی سے زیادہ ڈرتا ہو۔
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس تاریخی خطبے میں مسلمانوں کوصرف اتحاد کیلئے نہیں بلایا،بلکہ اتحادواتفاق کی موانع اور اختلافات کے اسباب مثلا خون بہانا، مال غصب کرنا،جاہلیت کے عادات کو اپنانا ، سود کھانا، نسب پر فخر کرنا،عورتوں پر مظالم اور ان کے حقوق کو پامال کرنا وغیرہ کے بار ے میں پرلطیف وصیت کی تھی۔
اور عرفات یہ سبق بھی دیتا ہے کہ ہر میدان میں حوصلے پست نہیں کرنے بلکہ اس ازلی دشمن (شیطان) کا مقابلہ کرنا ہے۔
پھر میدان عرفات کے بعد مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ پہنچ کر اپنے دشمن کا سامنا کرتا ہے۔آج یہ حاجی اسی راہ پر ہے جہاں تقریبا چار ہزار سال قبل ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام تھے ۔ جب انہوں نے اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کو لیا اور اسے قربان کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ اسی اثنا میں ابلیس آ دھمکا اور ابراہیم  علیہ السلام  کے کان میں سرگوشی کی کہ پاگل ہوئے ہو؟ کیا اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرو گے ؟ ابراہیم  نے اس پر سنگباری کی اور دھتکار دیا۔ (اکثر علماء نے اسی قول کو لیا ہے۔مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ”جب ابراہیم علیہ السلام اپنی نور نظر کو ذبح کرنے کے لیے بحکم اللہ لے چلے تو سعی کے وقت شیطان سامنے آیا لیکن ابراہیم علیہ السلام اس سے آگے بڑھ گئے، پھر جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ آپ جمرہ عقبہ پر پہنچے تو پھر شیطان سامنے آیا، آپ علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں ماریں“۔ امام ابن کثیر بھی اسی حدیث کو تفسیر ابن کثیر میں لائے ہیں ۔

حضرت ابرہیم کا شیطان کو  کنکریاں مارنے(سنگباری) کا عمل اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ یہ عمل مناسک حج کی ادائیگی کا حصہ بنا دیا گیا۔
جس کے مطابق ہر سال حاجی اللہ کے احکام اور سنتِ ابراہیمی ؑ و رسول اللہؐ کے مطابق شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ عمل ایک علامتی درجے میں ہے، جس کا مقصد ہر مسلمان کو تربیت دینا ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے میں شیطان جہاں جہاں بھی ورغلانے اور کسی نیک کام سے روکنے کی کوشش کرے، اسے مار بھگایا جائے اور اپنے آپ کو شیطانی اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔اور  اپنے مخالف اور دشمن کے خلاف نفرت و حقارت کی علامت کے طور پر ہے، کوئی شخص بھی یہ ہر گز نہیں سمجھتا کہ اس اقدام سے شیطان یا مخالف کا عملی طور پر سر کچلا جاتا اور اس کا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتاہے۔ جیسا کہ بعض اسلام مخالف پروپیگنڈا باز یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مسلمان اتنے سو سالوں سے شیطان کو کنکریاں مارتے چلے آ رہے ہیں، پھر بھی شیطان زندہ رہ گیا ہے؟ حج کے موقع پر جمرات کو ماری جانے والی ننھی اور چھوٹی کنکریاں شیطان کو کیا نقصان پہنچا سکتی ہیں؟ مسلمانوں کو بے نتیجہ کار گزاری میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ غیر مسلموں کے پراپیگنڈے کا مقصد مسلمانوں کو اسلامی شعائر سے متنفر اور مایوس کرنا ہے،جبکہ اپنے مخالف اور دشمن کو سنگسار کرنے اس کے علامتی نشان پر پتھر پھینک کر اظہارِ نفرت و حقارت کرنا ہے۔
آج اس بندے نے بھی شیطانی وسوسوں سے مغلوب نہ ہوتے ہوئے شیطان کو سنگسار کر کے طاغوت کا انکار کر دیا ہے۔
آج اسی شیطان کی پٹائی لاکھوں فرزندان توحید کے ہاتھوں ہو رہی ہے۔اہل ایمان نے پہلی کنکری مار کر شیطان کے شرک کا انکار اور اللہ کی توحید کا اقرار کیا۔ دوسری کنکری مار کر انکار آخرت اور الحاد کے فتنے کا بطلان کیا۔ تیسری کنکری شیطان کی جنسی ترغیبات کو ماری۔ چوتھی کنکری معاشی ظلم و عدوان پر پھینکی۔ پانچویں کنکری شیطان کی پرفریب دجالی تہذیب پر ماری۔ چھٹی کنکر ی ابلیس کے قتل انسانیت کے فتنے پر پھینکی اور آخری کنکری اخلاقی بگاڑ کے عوامل پر ماردی۔ اہل ایمان کے یہ سنگ ریزے اس پر ایٹم بم کی طرح برس رہے تھے کیونکہ ان میں قوت ایمانی موجود تھی۔
جس طرح جمرات پر باہر کے شیطان کو کنکریاں مار کر اظہارِ نفرت کیا جاتا ہے،اِسی طرح ہر شخص کو چاہئے کہ باطن کے شیطان کو بھی سنگسار کرنے کی راہ اختیارکرے، کیونکہ نفسِ امارہ کو مارنا بھی ایک جہاد ہے،
ذوق نے کیا خوب کہا ہے:

ننگ و اژدھا و شیر نر مارا تو کیا مارا

بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا

اب لبیک کا تلبیہ ختم ہوچکا تھا کیونکہ اہل ایمان اپنے رب کے بلاوے پر حاضر ہوچکے اور شیطان کو سنگسار کرچکے تھے۔اب اللہ کی حمد ثنا اور بڑائی بیان کی جا رہی تھی۔
تلبیہ دراصل حاجی کا روحانی ترانہ ہے اور جس وقت ایک جم غفیر یہ ترانۂ جاں نواز پڑھتا ہے تواس سے ایک ایسا روحانی ماحول پیدا ہوتا ہے کہ قلوب خودبخود اللہ کی اطاعت وبندگی کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں اور تسلیم و رضا کے جذبات اس درجہ غالب آجاتے ہیں کہ دل و دماغ میں کسی اور جذبہ وخیال کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ۔ محبت کے اس زمزمۂ جنوں انگیز کو سن کر ممکن ہی نہیں کہ دل کی دنیا میں کوئی ہنگامہ نہ ہواور سفینۂ حیات جذبات محبت کی تلاطم خیزی میں ہچکولے نہ کھانے لگے۔ ’’حاضر ہوں ،حاضرہوں ‘‘کی پرجوش صداؤں سے عالم ناسوت تو کیا عالم لاہوت بھی گونج اٹھتا ہوگا ، اور فرشتے محبت الٰہی کا یہ عدیم المثال منظر دیکھ کریقیناًآئینۂ حیرت بن جاتے ہوں گے ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد
اللہ بڑا ہے اللہ بڑا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ بڑا ہے اللہ بڑا ہے اور اللہ کے لئے ہی تمام تعریفیں ہیں۔
پھر منیٰ کے میدان میں جو قربانی کی جاتی ہے ، وہ بھی حضرت ابراہیم کی قربانی ( ذبح اسماعیل) کی یادگار ہے۔وہاں سنتِ سیدنا رسول اللہ  ﷺ بھی ہے۔
ایک طرف اکلوتے بیٹے کی محبت تھی اور دوسری طرف اللہ  تعالی کا حکم کہ اس کو اللہ کی رضا کے لیے اپنے ہاتھوں سے ذبح کرو۔ بڑا کڑا امتحان تھا۔ یہ عین ممکن تھا کہ بیٹے کی محبت جو مرغوبات نفس میں داخل ہے، اللہ کا حکم بجا لانے میں حارج ہوتی اور نفس حیلہ جو کے فریب میں آ کر خدا کی حکم عدولی کر بیٹھتے ، لیکن وہ اس عظیم امتحان میں پورے اترے۔ انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اللہ کے بندے ہیں نہ کہ نفس کے، انھیں اللہ کی رضا عزیز ہے نہ کہ دنیا کی متاع چند روزہ ، جو خس وخاشاک کی طرح بے وقعت ہے۔ دل کی پوری رضا کے ساتھ اللہ  کی کامل فرماں برداری کا نام قرآن مجید کی زبان میں تقویٰ ہے جو تمام عبادات کا مقصود ہے۔ فرمایا گیا ہے :
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ...۔(الحج:37)
اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اس کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری(تقوی) پہنچتی ہے۔

ہر حاجی ابراہیم علیہ السلام  تو نہیں کہ اپنی اولاد کو قربان کرنے کی ہمت کر پائے۔ البتہ جانور کی قربانی علامتی اظہار بھی ہے کہ وقت پڑنے پر یہ اپنی جان ، اپنا مال، اپنی اولاد اور سب کچھ اللہ کے نام نچھاور کر دے گا۔
اگر وہ مال یا جان میں سے کوئی حصہ مانگے تو اپنی دی ہوئی چیز ہی مانگ رہا ہے۔ پھر اگر وہ آزمائش کے لئے کچھ چھین لیتا ہے تو اس دنیا اور آخرت میں کئی گنا عطا کر دیتا ہے۔آج کی قربانی میں حاجی نفس کے ہر اس تقاضے پر چھری پھیر دیتا ہے جو اسے اللہ سے دور اور شیطان کے قریب کرے۔
حضرت ابراہیم ؑ کے اس عزیمت والے عمل کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے:

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنُ -وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَّا إِبْرَاہِیْمُ ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا ج إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ إِنَّ ھَذَا لَہُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِیْنُ ۔ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ ۔ وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ۔(الصافات:(103تا108)"
"آخر کو جب ان دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا اور ابراہیم ؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیم ؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لئے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔"

قربانی کے واقعہ سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ قربانی صرف اس لیے مشروع کی گئی ہے؛ تاکہ انسانوں کے دل میں یہ احساس، یہ علم اور یہ معرفت پیداہو کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہر چیز پر فوقیت رکھتا ہے، دین در حقیقت اتباع کا نام ہے اور جب اللہ تبارک وتعالیٰ کا حکم آجائے تو عقلی گھوڑے دوڑانے کا موقع نہیں، حکمتیں اور مصلحتیں تلاش کرنا مناسب نہیں، ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی گم راہیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اللہ کے ہر حکم میں حکمت اور مصلحت تلاش کرتے ہیں، عقلی فائدے ڈھونڈتے ہیں، کوئی مصلحت اور فائدہ نظر آجائے تواس پر عمل کرتے ہیں، ورنہ اس کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں، یہ کوئی دین نہیں ہے اور اس کا نام اتباع نہیں ہے، اتباع وہ ہے جو حضرت ابراہیم اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہما السلام نے کر کے دکھایا۔

قربانی ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ دین اللہ کے حکم کی اتباع کا نام ہے، جب اللہ کا کوئی حکم سامنے آجائے تو چوں وچراں کے بغیر اپنا سر جھکا دے اور اس حکم کی اتباع کرے ،چاہے اس میں کوئی حکمت، مصلحت اور دنیوی فوائد ہمیں معلوم ہوں یا نہ ہوں، نیز قربانی کے اس واقعہ سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ اولاد کو ہر حال میں والدین کے حکم کی اتباع کرنی چاہیے،(بشرطیکہ وہ حکم شریعت کے خلاف نہ ہو)اور اس میں ہمیں پس وپیش اور لیت ولعل سے کام نہیں لینا چاہیے، والدین کے ہر حکم کو سر آنکھوں پر رکھنا چاہیے، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس واقعہ میں ہمارے نوجوانوں کے لیے بہت مکمل نمونہ موجود ہے، جو والد کے حکم پر اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار ہوگئے۔ 

اب یہ سرفروش کعبہ کے سامنے کھڑا ہے جو اللہ کے جلال ، اس کی عظمت ، اس کی ہیبت اور اس کے انوارو تجلیات کا مرکز ہے۔ یہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے تیار اور بے تاب ہے تاکہ وہ اپنی خوہشات، رغبات، شہوات، مفادات اور تعصبات کو اللہ کی رضا اور اس کے حکم پر قربان کرنے کا اظہار کر سکے۔ہر چکر پر حجرِ اسود کا بوسہ یا استلام درحقیقت اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ میں دینے کی تعبیر ہے تاکہ اللہ سے کئے ہوئے عہد کی تجدید کی جا سکے۔
عمل سعی؛
سعی کے لغوی معنی کوشش کے ہیں۔ مسلمانوں کی معروف روایات کے مطابق سعی حضرت حاجرہ  رضی اللہ عنہا کی اضطرابی کیفیت کی نقالی ہے جو انہوں نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کر کی۔
لیکن اب ہر مسلمان پانی کے لئے نہیں بلکہ اپنی روحانی ماں کی بے پناہ خدائی محبت‘بے مثال قربانی اور ممتا کی یاد تازہ کرنے کے لئے دوڑ لگاتا ہے۔اس کا ہر قدم اور صفا اور مروہ کے درمیان کا ایک ایک چکر‘ اللہ کی رضا اور خوشنودی کو ظاہر کرتا ہے۔
اللہ کے لئے جو لوگ جذبۂ ایثار و قربانی سے کام لیتے ہیں اور اس کی آزمائش میں پورے اترتے ہیں اللہ ان کی اداؤں تک کو محفوظ کر دیتا ہے۔ آج صفا اور مروہ کی پہاڑیاں اور ان کے درمیان صدیوں سے چلی آ رہی انسانوں کی دوڑ ‘ اسی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ اللہ کے واسطے محبت اور اس کی خوشنودی کیلئے نیک اعمال کی انجام دہی امتوں کو مثالی اور ان کے کارناموں کو سنت کا درجہ اور تاریخی بنا دیتی ہے۔
قرآن مجید میں کہا گیا ہے :
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَآءِرِ اللّٰہِ  فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ أَن یَطَّوَّفَ بِہِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَیْراً فَإِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ
"یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔لہذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کرلے (البقرہ:۱۵۸)۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔
واپسی:

واقعہ مختصر اسی طرح حج کے دیگر مناسک مکمل ہوچکے تھے۔ اہل ایمان وقوف عرفات ، قیام مزدلفہ، رمی ، قربانی ، حلق ،طواف وداع اور منی میں ۱۲ ذولحج تک قیام کرکے حج کے تمام ظاہری مناسک پورے کر چکے تھے۔  یعنی شیطان کے خلاف تمثیلی جنگ اور تزکیہ نفس کا اختتام ہو چکا تھا۔(اس تمثیلی جنگ کے نتائج آگے آ رہے ہیں)
اب بندہ (حاجی)اس علامتی مشق کے بعد دوبارہ اس دنیا میں واپسی کا سفر شروع کرتا ہے جہاں شیطان بھی ہے اور نفس بھی۔ امید ہے اللہ کی نصرت سے اس دنیا کی جنگ میں بھی کامیابی ملے گی ۔
یہ وہی مرحلہ ہے جہاں شیطان نے چیلنج دیا تھا کہ میں انسان کے دائیں ، بائیں ، آگے اور پیچھے غرض ہر جگہ سے آؤں گا اور اسے جنت کے راستے سے بھٹکا کر جہنم کے دہانے تک لے جاؤں گا۔ جب غور کیا تو علم ہوا کہ شیطان نے بڑی عیاری سے انسان کے گرد اپنے فریب کا جال بنا اور اکثریت کو راہ راست سے دور لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔
اب منظر بالکل واضح ہے۔ ایک طرف اہل ایمان ہیں اور دوسری جانب شیطان کا لشکر بھی ڈیرے ڈال چکا ہے۔ شیطانی خیموں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان میں ایک ہل چل بپا ہے۔ رنگ برنگی روشنیوں سے ماحول میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بے ہنگم موسیقی کی تھاپ پر شیطانی رقص جاری ہے۔
اس بازار کے ارد گرد شیاطین کے مختلف خیمے نصب ہیں۔سب سے پہلا خیمہ شرک و الحاد اور بدعت کا ہے۔ اس خیمے پر ان گنت بتوں،بزرگوں اور جمادات کی تصاویر ہیں۔ خیمے میں موجود شیاطین اپنے سردار کے سامنے ماضی کی کارکردگی پیش کر رہے ہیں کہ کس طرح انہوں نے انسانیت کو شرک و الحاد اور بدعت کی گمراہیوں میں مبتلا کیا۔نیز وہ اس عظیم موقع پر مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں  کہ آئندہ کس طرح انسانیت کو شرک والحاد اور  بدعت میں مبتلا کرنا اور اللہ کی توحید سے دور کرنا ہے۔ان کا طریقہ واردات بہت سادہ ہے جس میں اللہ کی محبت دل سے نکال کر اور مخلوق کی محبت دل میں ڈالنا، اللہ کے قرب کے لئے ناجائز وسیلے کا تصور پیدا کرنا ، کامیابی کے لئے شارٹ کٹ کا جھانسا دکھانا وغیرہ جیسے اقدام شامل ہیں
ایک اور خیمے پر فحش مناظر کی مصوری ہیں ۔ یہ عریانیت(پورنوگرافی) کے علمبرداروں کی آماجگاہ ہے۔ ان شیاطین کے مقاصد فحاشی عام کرنا، انسانیت کو عریانیت کی تعلیم دینا، نکاح کے مقابلے میں زنا کو پرکشش کر کے دکھانا، ہم جنس پرستی کو فطرت بنا کر پیش کرنا،عورت کو شو پیس کے طور پر استعمال کرنا وغیرہ ہیں۔ یہاں کے عیار ہر قسم کے ضروری اسلحے سے لیس ہیں ۔ ان کے پاس جنسی کتابیں، فحش سائیٹس، عریاں فلمیں، فحش شاعری و ادب، دل لبھاتی طوائفیں، جنسیاتی فلسفہ کے دلائل، دجالی تہذیب کے افکار سب موجود ہیں ۔ ان کا نشانہ خاص طور پر نوجوان ہیں جنہوں نے ابھی بلوغت کی دنیا میں قدم ہی رکھا ہے اور وہ ان ایمان فروش شیاطین کے ہتھے چڑھ چکے ہیں ۔(فحاشی و عریانیت پر مزید  تفصیلات رقم الحروف کتاب:پورنوگرافی کی مسلم معاشرے پر یلغار میں ملاحظہ کریں )
ایک اور خیمے پر ہتھیاروں کی تصویر(جنگی پلان) آویزاں ہیں ۔ یہ انسانوں کو لڑوانے والوں کا کیمپ ہے۔ یہاں کا لیڈر اپنے چیلوں سے ان کی کامیابیوں کی رپورٹ لے رہا ہے۔ چیلے فخریہ بتا رہے ہیں  کس طرح انہوں نے انسانیت میں اختلافات پیدا کئے، ان میں تعصب و نفرت کے بیج بوئے، ان کو ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ کیا، انہیں اسلحہ بنانے پر مجبور کیا جنگ کے ذریعے لاکھوں لوگوں کا قلع قمع کیا۔ اس کیمپ کی ذیلی شاخ کا مقصد خاندانی اختلافات پیدا کرنا، بدگمانیاں ڈالنا، حسد پیدا کرنا،خود غرضی اور نفسا نفسی کی تعلیم دینا ہے۔دہشت گردی اور ملکی حالات خراب کرنا ہے۔
ایک خیمے پر ایک بڑی سی زبان بنی ہوئی ہے
جو اس بات کی علامت ہے کہ یہاں زبان سے متعلق گناہوں ترغیب دی جاتی ہے۔ یہاں کے شریر شیاطین اس بات پر مامور ہیں کہ لوگوں کو غیبت ، جھوٹ، چغلی، گالم گلوج، فحش کلامی، بدتمیزی، لڑائی جھگڑا،بد اخلاقی اور تضحیک آمیز گفتگو میں ملوث کر کے انہیں اللہ  کی نافرمانی پر مجبور کریں۔
ایک اور خیمے پر بلند وبالا عمارات اور کرنسی(مال دولت کا لالچ) کی تصاویر چسپاں ہیں ۔ یہ دنیا پرستی کو فروغ دینے اور آخرت سے دور کرنے والوں کا کیمپ ہے۔ اس کیمپ میں اسراف، جوا، سٹہ، کرپشن،مال سے محبت، استکبار، شان و شوکت،سیاست، دھوکے بازی، ملاوٹ، چوری و ڈاکہ زنی، سود اور دیگر معاشی برائیوں کو فروغ دئے جانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ یہاں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ انسانیت بالعموم اور مسلمان بالخصوص آخرت کو بھول چکے ہیں۔ اب ان کی اکثر سرگرمیوں کا مقصود دنیا کی شان و شوکت ہی ہے۔
ایک آخری کیمپ بڑے اہتمام سے بنایا گیا ہے۔ یہ خاص طور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنے لئے بنایا گیا ہے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر کے دنیا کی راہنمائی کا سبب نہ بن جائیں۔ یہاں مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے قرآن و احادیث  سے دور رکھنے کی باتیں اور منصوبہ بندی ہو رہی ہے، یہاں ان کو نماز روزہ حج اور زکوٰۃ کی ادائگی سے روکنے کا منصوبہ تشکیل دیا جا رہا ہے، یہاں ان کی اخلاقی حالت کو پست کرنے کی پلاننگ ہے، انہیں آخرت فراموشی کی تعلیم دی جاتی ہے، مغرب پرستی اور دنیا کی محبت کا درس دیا جا رہا ہے۔ان کے تعلیمی مراکز کا سلیبس بڑی چالاکی سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔اسلام کے مقابلے میں دین خانقاہی متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی یہاں مسلمانوں کو فرقہ پرستی میں مبتلا کرنے کا بھی اہتمام ہے تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے رہیں اور غیر مسلم اقوام تک اللہ کا آخری پیغام پہنچانے سے قاصر رہیں۔ایسے اور ان گنت شیطانی خیمے بھی ہیں جن کا تصیلی ذکر یقینا طوالت سے خالی نہیں ہے ۔لہذا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ جس انسان نے حج کی مشقوں کے دوران جو کچھ سیکھا اور اپنے مالک سے وعدہ کیا۔اب وہ اس پر عمل پیرا ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔؟ اہل ایمان کے رحمانی خیموں کو آباد کرتا ہے یا شیطان کے شیطانی خیموں کو۔۔۔۔۔
شیطان کے ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لئے اللہ مسلمانوں کو پہلے بھی کئی ہتھیاروں سے لیس کر چکا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ شرک و الحاد اور بدعت  کا توڑ اللہ کی وحدانیت ، اسے تنہا رب ماننے اور اسے اپنے قریب محسوس کرنے میں ہے۔ فحاشی و عریانی کی ڈھال نکاح ، روزے اور نماز صبر اور تقوی صورت میں موجود ہیں۔ فرقہ واریت کا توڑ اخوت و بھائی چارے اور یگانگت میں ہے۔ معاشی بے راہ روی کا علاج توکل و قناعت میں پوشیدہ ہے۔ دنیا پرستی کا توڑ آخرت کی یاد ہے۔ دین خانقاہی سے بیزاری اور دین محمدی سے پیار ہے۔

تمثیلی جنگ کے نتائج:

سوال یہ تھا کہ اس جنگ میں فتح کس کو نصیب ہوئی۔ اس کا ایک جواب تو بہت سادہ تھا کہ طاغوتی لشکر کو شکست اور اہل ایمان کو فتح نصیب ہوئی تھی۔ لیکن اس فتح میں اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا بھی ضروری تھا۔ مسلمانوں میں تین گروہ تھے جنہوں نے اپنے تقوی اور استطاعت کے مطابق حج سے استفادہ اور تزکیہ نفس کیا۔
ایک گروہ سابقون کا تھا ۔ اس گروہ کے مسلمانوں نے اپنی نیت خالص رکھی، اپنا مال اللہ کے لئے خاص کر دیا، اپنے جسم کے ہر عضو کو اللہ کی اطاعت میں دے دیا ، اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ کی حمدو ثنا کی ، اس کی بڑائی بیان کی۔ یہ وہ ہر اول دستہ تھا جس نے اس تمثیلی جنگ سے تربیت حاصل کی کہ کس طرح شیطانی چالوں سے نبٹنا ہے اور نفس کے گھوڑے کو لگام دے کر اپنا مستقبل اللہ کی غلامی میں دینا ہے۔ ان کے حج کو اللہ نے قبول کر لیا اور انہیں اس طرح کردیا جیسے وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں ۔ ان کی خطائیں معاف ہو گئیں۔ انھوں نے اپنا تزکیہ نفس کر لیا تھا۔ اور ان کا حج حج مبرور ہو گیا جس کا صلہ جنت کے سوا کچھ نہ تھا۔
مسلمانوں کا دوسرا گرو ہ تقوی کے اس مقام پرنہ تھا۔ اس گروہ میں علم کی کمی تھی، عمل میں کوتاہیاں تھیں اور نیت میں اتنا اخلاص نہ تھا۔ یہ لوگ حج کی اسپرٹ سے بھی پوری طرح آگاہ نہ تھے بس ظاہری فقہی احکامات مان کر حج کی رسومات انجام دے رہے تھے۔ لیکن یہ اپنے خالق و مالک اللہ رب العزت  کے وفادار تھے۔ انہوں نے اپنا دامن شرک کی گندگی سے پاک رکھا تھا۔ یہ اپنی کوتاہیوں پر شرمسار تھے، یہ معافی کے خواستگار تھے، جنت کے طلبگار تھے۔ یہ جانتے تھے کہ اللہ اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہے اور اس نے اعلان کیا ہوا ہے کہ اگر تم چل کر آو ٔگے تو میں تمہارے پاس دوڑ کر آؤنگا۔ چنانچہ وہ مالی اور بدنی مشقتیں جھیل کر اپنے بادشاہ کے دربار میں چل کر آ گئے تھے۔ چنانچہ یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ دوڑ کر ان کے پاس نہ آتا، ان کی کوتاہیوں پر چشم پوشی نہ کرتا، ان کی خطاؤں سے درگذر نہ کرتا،ان کا تزکیہ نہ کرتا، اور ان کے عمل کی کمی کو دور نہ کر دیتا۔
مسلمانوں میں تیسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو حج اللہ کو راضی کرنے کی بجائے کسی اور نیت سے کرنے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے نام کے ساتھ حاجی لگوانا چاہتے تھے، کچھ اپنے حرام کی کمائی پر سیر سپاٹے کے لئے نکلے تھے اور کچھ شاپنگ کی غرض سے آئے تھے۔اور حج کی ادائیگی کے بعد اپنی زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی نہ لائے اسی طرح دنیا میں پھر مگن ہو گئے جیسے حج سے پہلے تھے۔ظاہری مناسک توا نہوں نے بھی کئے تھے لیکن کسی اور نیت اور مقصد کے ساتھ۔ ان کی حیثیت قابیل کی مانند تھی جو قربانی کے لئے کچھ اناج تو لایا لیکن یہ ردی اور فالتو اناج تھا ۔ اس کی نیت یہی تھی کہ اگر قربانی قبول ہوگئی اور آگ نے اسے جلا دیا تو خو امخواہ اعلی درجے کا اناج ضائع ہوجائے گا۔یعنی اس نے قربانی کی ظاہری شکل تو پوری کی لیکن اس کی نیت میں فتور ہونے کی بنا پر اسے قبول نہ کیا گیا۔ بہر حال ان حاجیوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے وہ جو چاہے فیصلہ کرے۔
اللہ سے دعا ہے کہ کہ ہمیں حج کی سعادت اور تزکیہ نفس کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...