Monday 6 November 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#119

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

ریاکاری کی اقسام و اسباب اور علاج

اخلاص اور ریا:
کسی بھی عمل کی قبولیت کے لئے دو بنیادی شرطوں کا پایا جانا بے حد ضروری ہے،ان میں سے کسی ایک شرط کا فقدان اس عمل کی قبولیت سے مانع ہو گا،پہلی شرط یہ ہے کہ وہ عمل خالص اللہ کی ذات کے لئے کیا گیا ہو ،
دوسری شرط یہ ہے کہ وہ سنت نبویﷺکے مطابق ہو،اللہ رب العزت نے ان دونوں شرطوں کو مختلف آیات میں بیان فرمایا  ہے،تاہم درج ذیل آیت کریمہ میں دونوں شرطیں یکجا بیان فرمائی ہیں،ارشاد ہے:
... فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاء رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا -(سورہ الکھف:110)
"پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو، اسے چاہیے کہ وہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ ٹھرائے۔" 

اخلاص کا مطلب ہے کوئی کام خالص ﷲ کیلئے کرنا جبکہ ریا کاری کا مطلب ہے ﷲ کو چھوڑ کر دوسروں کو دکھانے کے لئے کوئی کام کیا جائے تاکہ وہ تعریف کریں ، عزت افزائی کریں یا ان سے کوئی اور دنیاوی فائدہ حاصل ہو۔ اس قبیح عادت کے لئے ’’ ریاء ‘‘ ( دکھلاوے ) کی تعبیر قرآن پاک میں جابجا استعمال ہوئی ہے۔
جبکہ احادیث میں اس مفہوم کے لئے ریاء کے علاوہ ’’ سمعہ ‘‘ ( سنانے ) کی تعبیر بھی آئی ہے۔ ریا کا تعلق قوت بصارت ( دیکھنے دکھانے ) سے ہے جبکہ سمعہ کا تعلق قوت سماعت ( سننے سنانے ) سے چنانچہ بعض اہل علم نے ان دونوں میں یہ فرق بھی کیا ہے کہ کوئی عمل لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا جائے اور لوگ اس کو دیکھ لیں تو یہ ’’ ریاء ‘‘ ہے جبکہ ’’ سمعہ‘‘ یہ ہے کہ بندہ کوئی عمل اور نیکی ﷲ کے لئے کرے یا چھپ کر کرے لیکن پھر شہرت پانے یا لوگوں کی خوشنودی پانے یا ان سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنی نیکی کا چرچا کرے اور لوگوں کو سنائے کہ میں نے فلاں کام کیا اور فلاں نیکی بھی میں نے کی وغیرہ ۔ الغرض ریاء وسمعہ( نیکی اور عمل صالح پر لوگوں کی خوشنودی اور ان سے فائدہ حاصل کرنے کا جذبہ ) نہایت قبیح عبادت اور اﷲ کو سخت ناپسند ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی سخت مذمت بیان ہوئی ہے ۔ اخلاص کے بجائے ایسی مذموم اور فاسد نیت سے نہ صرف یہ کہ نیکی ضائع ہوجاتی اور بندہ اجر وثواب سے محروم رہ جاتا ہے بلکہ یہ شدید عذابِ الٰہی کا بھی باعث ہے۔ﷲ تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے ، اسے وہ نیکی ہرگز قبول نہیں جس کے کرنے میں بندہ مخلص نہ ہو ، ﷲ کی رضا جوئی چھوڑ کر کسی اور کو خوش کرنے یا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے وہ نیکی انجام دی گئی ہو ۔ ریا کاری اور اخلاص کے منافی اور اس کی ضد ہے۔

موجودہ دور میں ہر شخص اپنی ظاہری حالت بہتر بنانے میں مگن ہے اور کسی کو باطن کی فکر ہی نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب لوگ ظاہری طور پر بالکل سادہ مگر اندر سے علم و عمل کا سمندر ہوتے تھے مگر آج کل کا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ آج معاشرے کا ہر شخص ظاہر بینی میں دوسروں پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عبادات، جو کہ خالصتاً ﷲ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں، ان میں بھی ریاکاری اور دکھاوے کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ کئی لوگ عبادتیں اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ انہیں نیک و پرہیز گار کہیں۔

ایک تعریف یہ کی گئ ہے کہ اخلاص یہ ہے کہ بندے کے اعمال ظاہر و باطن ہر دو صورت میں برابر ہوں،اور ریا کاری یہ ہے کہ بندے کا ظاہر اس کے باطن سے بہتر ہو اور سچا اخلاص یہ ہے کہ بندے کا باطن اس کے ظاہر سے زیادہ پختہ اور پائیدار اور ہو
اخلاص ایک تعریف یہ کی گئی ہے کہ عمل کو ہر طرح کی آمیزش سے پاک صاف رکھنا اخلاص کہلاتا ہے۔
ان تعریفوں سے واضح ہوا کہ اخلاص ،عمل کو اللہ کی واحد کی طرف پھیرنے اور اس سے قربت حاصل کرنے کا نام ہے۔جس میں کوئی ریاونمود ،مال ودولت کی طلب اور بناوٹ نہ ہو،بلکہ بندہ صرف اللہ واحد کی طرف سے ثواب کی امید رکھے،اس کے عذاب سے ڈرےاور اس کی رضا مندی کا حریص ہو۔
ائمہ اسلام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اخلاص دل کے اہم ترین اعمال میں سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ،اللہ پر توکل،اس کے لئے اخلاص،اس سے ڈرنے اور امید وابستہ کرنے کے لئے دل کے اعمال ہی اصل اور بنیاد ہیں ،اور اعضاء وجوارح کے اس کے تابع ہوتے ہیں کیونکہ نیت کی حیثیت روح کی اور عمل کی حیثیت اعضائے جسمانی کی ہے ۔جب جسم کا رشتہ روح سے ٹوٹتا ہے تو وہ مرجاتا ہے ،چنانچہ دل کے احکام کی معرفت اعضاء وجوارح کے احکام کی معرفت سے زیادہ اہم ہے۔
لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اللہ عزاوجل کے لئے مخلص ہو،ریاونمود اور لوگوں کی مدح وستائش کی خواہش نہ کرے ،بلکہ محض اللہ کی ذات کا ارادہ کرے ،اسی کی خوشنودی کے لئے نیک اعمال انجام دے اور لوگوں کو اللہ کی طرف ہی دعوت دے۔

اخلاص کے فوائد:
اخلاص کے فوائد وثمرات اوردنیا وآخرت میں اس کے نیک انجام کی معرفت حاصل کرنا،ان ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ اخلاص امت کی نصرت ،اللہ کے عذاب سے نجات ،دنیاو آخرت میں منازل ودرجات کی بلندی،دنیا میں گمراہی سے حفاظت ،اللہ عزوجل کی اور اہل ارض وسما کی بندے سے محبت سے شرفیانی ،نیک نامی ۔دنیا وآخرت کی مصیبتوں سے نجات ،نیک بختی اور توفیق الہی کا احساس وشعور اور اس سے اطمینان ،پریشان اور دشواریوں کے برداشت کی قوت ،دلوں میں ایمان کی آرائش وزیبائش ،دعا کی قبولیت ،نیز قبر میں نعمت اور خوشی کی بشارت کا سبب ہے۔ اخلاص عبادات کی روح ہے،اس کے بغیر ساری عبادتیں بے جان ہیں۔
لہذا جس مسلمان کو اللہ کی خوشنودی اور اپنی نجات کی طلب اور اللہ کی محبت کی چاہت ہو اسے چاہیے کہ اخلاص کے حصول اور ریا کاری سے بچنے کی بچنے کی بھرپور کوشش کرے۔

ریا کاری کی اقسام:
1:ایک ریا منافقین کی ہے کہ وہ لوگوں کو دکھانے کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا دعوی کرتے اور نام لیتے ہیں- مگر ان کے دلوں میں کفر پوشیدہ ہوتا ہے- یہ ریا اور طرز عمل، توحید کے منافی اور اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے- 

2:بندے کا مقصود اللہ کے علاوہ کچھ اور ہو اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ اس کے کارنامے کو جانیں،اخلاص بالکل مقصود نہ ہو،تو یہ نفاق کی ایک قسم ہے۔ اور توحید کے اعلی درجہ کے منافی ہے-

3:بندہ اللہ کے لئے عبادت میں داخل ہواور اللہ ہی کے لئے عبادت سے نکلے ، پھر اس چیز کا لوگوں کو علم ہو جائے اور اس پر اس کی تعریف ہو تو اس تعریف سے اس کے دل کو سکون واطمنان حاصل ہو اور وہ مزید اس بات کی تمنا کرے کہ لوگ اس کی تعریف وتوصیف کریں،یہ خوشی ومسرت ،تعریف کی مزید خواہش اور اپنے مطلوب کے حصول کی تمنا وغیرہ پوشیدہ ریا کاری پر دلالت کرتی ہیں۔

4:جسمانی ریاکاری:جیسے کوئی شخص چہرے کی زردی اور جسم کی کمزوری ظاہر کرے،اس سے لوگوں کو یہ دکھانا مقصود ہو کہ وہ بڑا عبارت گزار ہے اور اس پر آخرت کا خوف غالب ہے اور کبھی کبھار ریا کاری آواز کی پستی اور ہونٹوں کی پژمردگی سے بھی ہوتی ہے تا کہ لوگوں کو یہ شعور دے کہ وہ روزے سے یا بھوکا ہے۔

5:لباس یا وضع قطع کے ذریعے ریا کاری :جیسے کوئی شخص پیوند لگے کپڑے پہنے یا اسلامی حلیہ اپنائے تا کہ لوگ کہیں کہ یہ دنیا سے بڑا بے رغبت انسان ہے،یا کوئی ایسا لباس پہنے جسے ایک خاص طبقے کے لوگ پہنتے ہوں جنہیں لوگ علما کی فہرست میں شمار کرتے ہوں،وہ یہ لباس اس لئے پہنے تا کہ اسے بھی عالم یا متقی کہا جائے۔

6:قولی ریاکاری:یہ عام طور پر وعظ نصیحت نیز بحث و تکرار ،مناظرہ اور علم کے اظہار کے لئے احادیث وآثار کے حفظ کے ذریعہ دین داروں میں پائی جاتی ہے۔

7:عملی ریا کاری :جیسے دکھاوے کے لئے نمازی کا نماز ،رکوع اور سجدہ وغیرہ طویل کرنا اور خشوع وخضوع ظاہر کرنا،نیز روزے ،حج اور صدقہ میں ریا کاری وغیرہ ۔

8:ساتھیوں اور ملاقاتیوں کے ذریعے ریا کاری:جیسے کوئی شخص بہ تکلیف کسی عالم کی ملاقات کرے،تاکہ یہ کہا جائے کہ فلاں تو فلاں کی زیارت ملاقات کے لئے گیا تھا۔اسی طرح اپنی زیارت کے لئے لوگوں کو دعوت دینا ،تا کہ یہ شہرہ ہو کہ دیندار لوگ اس کے پاس آتے ہیں۔

9:لوگوں کے درمیان اپنی ذات کی مذمت کے ذریعے ریا کاری:اور اس سے اس کا مقصد لوگوں کو یہ دکھانا ہو کہ وہ بڑا متواضع اور خاکسار آدمی ہے،تا کہ ان کے نزدیک اس کا مقام لوگوں کو یہ دکھانا ہو کہ وہ بڑا متواضع اور خاکسار آدمی ہے،تا کہ ان کے نزدیک اس کا مقام بڑھ جائے اور اسے بیان کر کے لوگ اس کی مدح وستائش کریں،یہ ریا کاری کی باریک قسموں میں سے ہے۔

10:ریا کاری کی باریکیوں اور اسرار میں سے یہ بھی ہے کہ عمل کرنے والا اپنی نیکی چھپائے ،اس طرح کہ وہ یہ نہ چاہے کہ لوگوں کو اس کی نیکیوں کی اطلاع ہو اور نہ اس کے ظاہر ہونے سے اسے خوشی ہی ہو ،لیکن اس کے باوجود جب وہ لوگوں کو دیکھے تو اس کی خواہش یہ ہو کہ لوگ اس سے سلام کرنے میں پہل کریں،اس سے خندہ پیشانی اور احترام سے ملیں ،اس کی تعریف وتوصیف کریں،گرمجوشی سے اس کی ضرورت پوری کریں اور خرید وفروخت میں اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں اور اگر یہ سب کچھ نہ حاصل ہوتو اپنے دل میں رنج وتکلیف محسوس کرے،گویا وہ اپنی نیکیوں پر عزت واحترام کا طلبگار اور خواہش مند ہے۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ریاکاری کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے: 
وَالَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا (4-النساء:38)
"جو لوگ اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئےخرچ
 کرتے ہیں اور اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر
 ایمان نہیں رکھتےاور جس کا ہم نشین اور ساتھی شیطان ہو ، وه بدترین ساتھی ہے۔"

قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر ﷲ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِر...۔( سورۃ البقرہ آیت 264)
"اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وه شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر،"

ان دونوں آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ریا کار اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ﷲ سے اس کو اجر کی توقع نہیں،کیوں کہ جس سے توقع ہوگی اُسی کے لیے عمل کیا جائے گا اور ریاکار کو خالق کے بجائے مخلوق سے اجر کی توقع ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا آخرت پر بھی ایمان نہیں کہ اگر ایمان ہوتا تو ہرگز خالق کو چھوڑ کر مخلوق سے اجر کی توقع نہ رکھتا اور آخرت کی باز پرس سے ڈرتا۔

چنانچہ ایک دوسرے مقام پر ریاکاری کو منافقین کی خصلت قرار دیا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا﴿سورہ النسا:142﴾
"بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وه انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے واﻻ ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں، اور یاد الٰہی تو یوں ہی سی برائے نام کرتے ہیں۔ "
مزید فرمایا:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ﴿8﴾يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ﴿9﴾
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن درحقیقت وه ایمان والے نہیں ہیں۔وه اللہ تعالیٰ کو اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن دراصل وه خود اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں، مگر سمجھتے نہیں۔(سورہ البقرہَ9،10)

اسی طرح ایک مقام پر نماز میں سستی و غفلت کرنیوالے ریا کاروں کیلئے ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے:
فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ﴿4﴾ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ﴿5﴾ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ﴿6﴾
ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ہلاکت و بربادی ہے اُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے غافل ہیں وہ جو ریا کاری کرتے ہیں ۔‘‘(الماعون6-4 )۔

قرآن پاک کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی نبی اکرمﷺ نے ریا کاری کی مذمت کی ہے اور ہر عمل خالصتاً ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنے کا حکم فرمایا ہے۔
ریاکاری مسلمان کے لئے مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا میں تمہیں اس چیز کی خبر نہ دوں جو میرے نزدیک تمہارے لئے مسیح دجال سے بھی زیادہ خوفناک ہے؟راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا:ہاں کیوں نہیں ،فرمایا:شرک خفی ہے کہ آدمی کھڑا نماز پڑھے تو کسی شخص کو اپنی طرف دیکھتا ہوا دیکھ کر اپنی نماز اور سنوار لے۔(حکم البانی: حسن.،سنن ابن ماجہ:4204)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے روز جس کی آمد میں کوئی شک نہیں جمع کرے گا،تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائے گا :جس نے اللہ کے لئے کیے ہوئے کسی عمل میں کسی غیر کو شریک کیا ہو وہ اس کا ثواب بھی اسی غیر اللہ سے طلب کرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک سے تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہے(حکم البانی: حسن ،سنن الترمذی،3154)

مزید نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
جوشخص شہرت کے لئے کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے عیوب ظاہر کر دے گا اور جو دکھاوے کے لئے عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اسے رسوا کر دے گا۔(صحیح البخاری:6499)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعمال وہی قابل قبول ہیں جو خالصتاً اللہ عزوجل کی خوشنودی اور اُس کی رضا کے لیے کیے جائیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
...فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ۔(سورہ الزمر:2)
"پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے۔"
جب کہ ایسے اعمال جو اللہ کے بجائے کسی اور کو دکھانے کے لیے کیے جائیں وہ رسوائی کا سبب بنیں گے۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ”پہلے قیامت میں جس کا فیصلہ ہو گا وہ ایک شخص ہو گا ۔ جو شہید ہوا ۔ جب اس کو اللہ کے پاس لائیں گے تو اللہ اپنی نعمت اس کو بتلا دے گا وہ پہچانے گا ، اللہ تعالیٰ پوچھے گا : تو نے اس کے لیے کیا عمل کیا ہے ؟ وہ بولے گا : میں لڑا تیری راہ میں یہاں تک کہ شہید ہوا ۔ اللہ تعالیٰ فرما دے گا : تو نے جھوٹ کہا تو اس لڑا تھا اس لیے کہ لوگ بہادر کہیں اور تجھے بہادر کہا گیا ، پھر حکم ہو گا اس کو اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیں گے ۔ اور ایک شخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا ۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لائیں گے وہ اپنی نعمتیں دکھلائے گا وہ شخص پہچان لے گا تب کہا جائے گا تو نے اس کے لیے عمل کیا ہے ؟ وہ کہے گا : میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن پڑھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹ بولتا ہے تو نے اس لیے علم پڑھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھا تھا کہ لوگ قاری کہیں تجھ کو عالم اور قاری دنیا میں کہا گیا پھر حکم ہو گا ، اس کو منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیں گے ۔ اور ایک شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا تھا اور سب طرح کے مال دیئے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا وہ پہچان لے گا اللہ تعالیٰ پوچھے گا : تو نے اس کے لیے کیا عمل کیے وہ کہے گا : میں نے کوئی راہ مال خرچنے کی جس میں خرچ کرنا پسند کرتا تھا نہیں چھوڑی تیرے واسطے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹا ہے تو نے اس لیے خرچا کیا لوگ سخی کہیں تو تجھے لوگوں نے سخی کہہ دیا دنیا میں ، پھر حکم ہو گا ، منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دیں گے۔"صحیح مسلم:2986 (4923)
اس حدیث مبارکہ سے ریا کاری کی تباہ کاری کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ وہ نیکیاں جو درحقیقت انسان نے کی تھیں، وہی نیکیاں اُسے جہنم میں لے کر جا رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ریا کاری والی عبادات بھی بندے کے لیے وبال بن گئی۔ بندے کو چاہیے کہ ہمیشہ جو بھی نیکی کرے وہ خالصتاً ﷲ کی رضا کے لیے کرے۔

اگر کوئی بندہ اپنے کسی عمل صالح میں اللہ کی رضا کے ساتھ ساتھ غیر اللہ کی خوشنودی کا خواہشمند بھی ہو تو اللہ تعالی ایسے شرک سے مستغنی ہے- وہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے حو محض اسی کی رضا جوئی کے لیے کیا جائے-

ریاکار شخص اگرچہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ اپنی چالاکی سے لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالی کو کس طرح دھوکا دے گا قیامت کے دن اس کے اچھے برے سب اعمال ظاہر ہوجائیں گے اور اس کی ریاکاری سخت عذاب کا موجب بنے گی ۔

آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا میں تم کو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتا دوں جو میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے “ ؟ ہم نے عرض کیا : ” کیوں نہیں “ ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ پوشیدہ شرک ہے جو یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے ، تو اپنی نماز کو صرف اس وجہ سے خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے۔"(ابن ماجہ: 4204،حکم البانی: حسن )
مسیح دجال کا معاملہ تو واضح ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول کر بیان فرما دیا ہے (اور اس سے بچنا آسان ہے) لیکن ریا عام طور پر دل میں اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ یہ انسان کو آہستہ آہستہ اللہ تعالی کی بجائے لوگوں کی طرح متوجہ کر دیتی ہے (اور اس سے بچنا انتہائی مشکل ہے)- اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتنہ دجال سے زیادہ خوفناک اور شرک خفی قرار دیا ہے-

محمود بن لبید سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میں‌ تمہاری بابت سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں‌ وہ چھوٹا شرک(شرک اصغر) ہے صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹا شرک کیا ہے ؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ریاکاری ، قیامت کے دن جب لوگوں‌ کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں‌ سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں‌ کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اور دیکھو کیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو(صحیح ،مسند احمد:2363)
یعنی وہ  عمل جس میں ریا پایا جائے وہ ضائع ہو جاتا ہے اور بندہ اس کے اجر و ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ اور اللہ کے پاس ایسے شخص کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔

ریا کاری کے اسباب ومحرکات:
ریا کاری کی بنیاد اور اصل "جاہ مرتبہ"کی محبت ہے اور جس کے دل پر اس چیز کی محبت غالب آ جاتی ہے اس کی ساری فکر مخلوق کی رعایت ،ان کا چکر لگانے اور ان کے دکھاوے میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ اپنے تمام تر اقوال وافعال اور جملہ تصرفات میں ہمیشہ ان چیزوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جن سے لوگوں کے نزدیک اس کا مقام ومرتبہ اونچا ہو۔بیماری اور مصیبت کی یہی جڑ اور اساس ہے،کیونکہ جس شخص کو بھی اس کی خواہش ہوتی ہے اسے عبادت میں ریا کاری اور ممنوع وحرام کاموں کا ارتکاب لامحالہ کرنا پڑتا ہےیہ بڑا دقیق اور پیچیدہ باب ہے جسے اللہ عزوجل کا علم ومعرفت رکھنے اور اس سے محبت کرنے والے ہی جان سکتے ہیں۔
اگر اس سبب اور تباہ کن مرض کی تفصیل بیان کی جائے تو وہ درج ذیل تین اصولوں کی طرف لوٹے گا:
٭حمدوثنا اور مدح وستائش کی لذت کی محبت وچاہت ۔
٭دوسروں کی طرف سے اپنی مذمت برائی سے نفرت ۔
٭لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس کی لالچ۔
یہ تین چیزیں ریا کاری کا سبب اور اصل محرک ہیں،لہذا ان سے بچ کر رہیں۔

ریا کاری کے ازالہ وعلاج اور اخلاص کے حصول کے چند طریقے:
1:دنیا کی خاطر عمل اور ریا کاری کے انواع واقسام اور اسباب ومحرکات کی معرفت حاصل کرنا اور انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔اسباب ومحرکات کا تذکرہ گزشتہ صفحات  میں ہو چکا ہے۔
2:کتاب وسنت پر مبنی اللہ کے اسماء وصفات اور افعال کی صحیح معرفت کے ذریعے اللہ کے جلال وعظمت کا علم حاصل کرنا،کیونکہ جب بندے کو اس بات کا علم ہو گا کہ اللہ واحد ہی تنہا نفع ونقصان ،عزت وذلت۔پستی وبرتری ،دینے نہ دینے اور مارنے جلانے کا مالک ،خیانت کرنے والی آنکھوں اور سینوں میں پوشیدہ رازوں کا جاننے والا ہے،نیز یہ کہ اللہ وحدہ لاشریک ہی تنہا مستحق عبادت ہے،تو یہ ساری چیزیں اخلاص اور اللہ کے ساتھ سچائی پیدا کریں گی،لہذا  توحید کی تمام قسموں صحیح معرفت حاصل کرنا ضروری ہے۔
3:آخرت میں اللہ عزوجل کی تیار کردہ نعمت وعذاب ،موت کی ہولناکیوں اور عذاب قبر وغیرہ کی معرفت حاصل کرنا،کیونکہ جب بندے کو ان چیزوں کا علم ہو گا اور وہ سمجھ دار ہو گا تو ریاکاری ترک کر کے اخلاص اپنائے گا۔
4:دنیا کے لئے عمل کرنے نیز عمل کو ضائع کرنے والی ریا کاری کی خطرناکی سے ڈرنا،کیونکہ جو کسی چیز سے ڈرتا ہے وہ اس سے بچتا رہتا ہے اور نجات پاتا ہے اور جو ڈرتا ہے وہ منہ اندھیرے سفر شروع کرتا ہے اور جو منہ اندھیرے سفر شروع کرتا ہے وہ منزل پا لیتا ہے۔
لہذا آدمی کے لئے مناسب بلکہ ضروری ہے کہ جب اس کی خواہش مدح وستائش کی آفت کی طرف آمادہ کرے تو اپنے نفس کو ریا کاری کی آفتوں اور اللہ کی ناراضی کی یاد دلائے اور جسے لوگوں کی محتاجی اور کمزوری کا علم ہوتا ہے وہ راحت محسوس کرتا ہے جیسا کہ بعض سلف نے کہا ہے:اپنی ذات سے ریا کاری کے اسباب زائل کرنے کے لئے نفس سے جہاد کرو اور کوشش کرو کہ لوگ تمہارے نزدیک بچوں اور چوپایوں کی طرح ہوں،ان کے وجود اور عدم وجود میں اور انہیں تمہاری عبادت کے علم ہونے یا نہ ہونے میں ان تمام صورتوں میں تم اپنی عبادت میں کوئی فرق نہ کرو بلکہ تنہا اللہ کے باعلم ہونے پر اکتفا کرو۔

5:بندہ جب لوگوں سے ڈرتا ہے اور اللہ کو ناراض کر کے لوگوں کو راضی کرتا ہے ،تو اللہ عزوجل اس سے ناراض وغضبناک ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے ناراض کر دیتا ہے تو کیا آپ لوگوں کی ناراضی سے ڈرتے ہیں؟اگر آپ دعوائے اخلاص میں واقعی سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔
6:جن چیزوں سے شیطان دور بھاگتا ہے ان کی معرفت حاصل کرنا،کیونکہ شیطان ریاکاری کا منبع اور مصیبت کی جڑ ہے،شیطان بہت ساری چیزوں سے بھاگتا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:اذان ،تلاوتِ قرآن ،سجدہ تلاوت،شیطان سے اللہ کی پناہ طلبی،گھر سے نکلتے اور مسجد  میں داخل ہوتے وقت"مسنون دعائیں"پڑھنا اورصبح وشام کے اذکار کی ،نماز کے بعد کے اذکار کی اور اقسام مشروع اذکار کی پابندی کرنا۔
کثرت سے خیر کے کام اور خفیہ عبادتیں انجام دینا اور انہیں پوشیدہ رکھنا ،جیسے قیام اللیل،خفیہ صدقہ ،تنہائی میں اللہ کے خوف سے رونا،نفل نمازیں ،دینی بھائیوں کے لئے ان کی عدم موجودگی میں دعا کرنا،کیونکہ اللہ عزوجل خفیہ متقی پرہیز گار بندے سے محبت کرتا ہے۔

7:لوگوں کی مذمت اور تعریف کی پروا نہ کرنا،کیونکہ اس سے نہ تو نقصان پہنچتا ہے نہ نفع بلکہ ضروری ہے کہ اللہ کی مذمت کا خوف ہو اور اللہ کے فضل واحسان سے خوشی۔

8:سوء خاتمہ کا خوف ،چنانچہ بندے کو ڈرنا چاہیے کہ ریا اور دکھاوے کے یہ اعمال ہی اس کا آخری عمل اور اس کی زندگی کا آخری لمحہ نہ ہو جائیں کہ اس کے نتیجے میں بڑا عظیم خسارہ اٹھانا پڑے،کیونکہ لوگ اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے اور سب سے بہتر اعمال آخری اعمال ہوا کرتے ہیں۔
9:مخلص وتقوی شعار افراد کی صحبت اور ہم نشینی اختیار کرنا،کیونکہ مخلص ہم نشین آپ کو خیر سے محروم نہ کرے گا اور آپ اس سے اپنے لیے نیک نمونہ پائیں گے،لیکن اگر ریا کار اور مشرک شخص کا عمل اپنائیں گے تو وہ آپ کو جہنم کی آگ میں جلا دے گا۔
10:لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس کا لالچ نہ کرنا،کیونکہ اخلاص اورمدح وثنا کی محبت اور لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے اس کے لالچ کا ایک دل میں اکھٹا ہونا اسی طرح ناممکن ہے جس طرح آگ اور پانی کا اور گوہ اورمچھلی کا یکجا ہونا محال ہے۔چنانچہ جب آپ کے دل میں اخلاص کی چاہت پیدا ہوتو سب سے پہلے لالچ کی طرف متوجہ ہو کر اسے لوگوں کے ہاتھوں جو کچھ ہے اس کی ناامیدی کی چھری سے ذبح کر دیں،لالچ کے ذبح کرنے کو اس بات کا یقینی علم آسان اور سہل بنا دیتا ہے کہ ہر چیز کا خزانہ اللہ واحد ہی کے ہاتھ میں ہے ،نہ اللہ کے علاوہ کوئی اس کا مالک ہے نہ اس کے علاوہ کوئی بندہ اس میں سے کچھ عطا کر سکتا ہے۔(الفوائدازابن القیم ،ص:267،268)

یاد رکھیے شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ پہلے تو کسی کو بھی کوئی نیک اعمال کرنے نہیں دیتا، لیکن پھر بھی اگر کوئی نیک اعمال کرتا ہے تو شیطان اس پر مختلف قسم کے حملے کرتا ہے۔ کسی کی نیت میں غرور و تکبر اور کسی کی نیت میں ریاکاری اور دکھاوا شامل کردیتا ہے اور ان کی نیکیاں ضائع کروا دیتا ہے۔ اسی لیے بروز قیامت نیکیوں کی گنتی کے بجائے ان کا میزان پر وزن کیا جائے گا تاکہ اخلاص کا پتا چل سکے۔ ﷲ کی رضا کے لیے ایک روپیہ دینے والے کا وزن پہاڑ سے زیادہ ہوجائے گا اور پہاڑ جتنے وزن کے مال و دولت کا وزن ریاکاری کی وجہ سے ایک روپے سے بھی گھٹ جائے گا۔
لہذا تزکیہ نفس کے لئے ریا کاری کو اپنے دل و دماغ سے نکالنا بہت ضروری ہے۔ رب تعالیٰ ہر مسلمان کو رب کی رضا کے لیے نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ریاکاری، جو کہ آج ایک معاشرتی برائی بن گئی ہے، اس سے معاشرے کو پاک فرمائے۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...