Friday 17 November 2017

مردانہ شہوت اور جسم فروش عورت

مردانہ شہوت اور جسم فروش عورت

(ترمیم و حذف:عمران شہزاد تارڑ )

عورت کو رنڈی، گشتی، فاحشہ اور آوارہ کے القابات دینا بہت آسان ہے، مرد اپنی حوس پوری کرنے کو جرم نہیں سمجھتا، مگر عورت کا اپنی ضرورت پوری کرنا اس کو ناگوار لگتا ہے، اگر کسی جسم فروش کے پاس جائے تو اس کے جسم سے لطف اندوز تو ہوتا ہے مگر بعد ازاں اس کو گالی بھی دیتا ہے اور برے القاب سے بھی نوازتا ہے، اس کے وجود کو گناہ اور برائی کا باعث بھی سمجھتا ہے۔ جب مرد کا دماغ جنسی ہیجان سے نجات پاتا ہے تو مرد اپنے کئے پر پچھتاتا ہے، یہ بھول جاتا ہے کہ فاحشہ تو اپنا پیٹ پالنے کے لئے اپنا جسم بیچ رہی ہے، مگر یہ خود تو صرف اور صرف اپنی شہوت کے باعث اس کے پہلو میں آ کر سویا تھا۔ اسی لئے پدرانہ معاشرہ طوائف اور فاحشہ کے پہلو میں سوتا تو ضرور ہے مگر اپنی ندامت چھپانے کے لئے اس کو برا بھی ضرور کہتا ہے۔
بہت سے مرد طرح طرح کی عورتوں سے جسمانی و رومانوی تعلقات رکھتے ہیں، عورت کے حسن سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں، مگر خود پر مرنے والی عورتوں کو فاحشہ اور گھٹیا سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ عورتیں ان مردوں کی کسی خصوصیت سے حقیقی معنوں میں متاثر ہوتی ہیں۔ شاعروں، مصنفوں، ادیبوں، فنکاروں، گلوکاروں اور اس طرح کے بہت سے مردوں پر بہت سی خواتین فدا رہی ہیں اور وہ ان سےجنسی تعلقات استوار کرنے میں دیر بھی نہیں کرتا، مشاہیر ہمیشہ ہی عورتوں کی توجہ اور کرم فرمائی کا مرکز بنے رہے ہیں، مگر ان میں سے کچھ ایسے سطحی ذہن رکھنے والے بھی گزرے ہیں، جو اپنی مداح عورتوں کی عزت نہیں کر پائے۔
اس طرح کے مردوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایک عورت جو ان کی مداح ہے وہ تو ان کی کسی خوبصورت ادا کے باعث ہے، مگر یہ خود شہوت کے مارے ہوئے ہیں، ان معاملات میں بہت سی عورتوں کا مقصد صرف اپنے پسندیدہ شخص کے قریب آنا ہے، یہ ضروری نہیں کہ عورت واقعی اس کے ساتھ سونا چاہتی ہو، مگر جب اس مرد نے اصرار کیا تو اس نے اس کے ساتھ جسمانی تعلق بھی قائم کر لیا۔ فرق صاف ظاہر ہے ایک طرف ایک شخص کی قدر و منزلت ہے تو دوسری طرف ایک شخص کی شہوت۔
پدرانہ معاشرے نے عورت کو ایک انسان کے طور پر رد کیا ہے، یہ عورت کو صرف اور صرف ایک جنسی آلہ سمجھتا ہے، یعنی عورت کی کسی بھی مرد کی طرف پیش قدمی کو جنسی نوعیت میں لیا جاتا ہے، صرف اور صرف اس عورت کو عزت کے قابل سمجھا جاتا ہے، اور اس کے باکردار ہونے کی گواہی دی جاتی ہے جو اپنے وارث مردوں)باپ، بھائی، شوہر( کے ماتحت رہے، چاہے وہ اب تک رشتہ ازدواج میں نہ بندھی ہو۔ معاشرہ اپنی روش سے بغاوت کرنے والی عورت کو برا جانتا ہی ہے مگر اس سے تعلق استوار کرنے والا مرد بھی اس کو برا ہی سمجھنا دھرے معیار کی انتہا ہے ، خود تو شہوت کی خاطر فاحشہ کو مال و دولت  دیتے ہیں، خواتین کو شیشے میں اتارتے ہیں، اور ایسا کرنے پر فخر کرتے ہیں،اور دوستوں کو اپنے کارنامے بڑے مزے سے شئر کرتے ہیں ۔ مگر عورت کو اپنی مرضی کے مرد کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر گھٹیا سمجھتے ہیں۔ عورت کے کردار کو پرکھنے کا معیار کس طرح سے انسانیت کے تقاضوں پر پورا اتراتا ہے یہ میں آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں۔
عورت اور مرد کی جنسی فطرت میں بھی فرق ہے عورت اگر مجبور نہ ہو تو اس کے ساتھ جنسی تعلق استوار کرتی ہے جسے وہ کسی نہ کسی صورت پسند کرتی ہو، جبکہ مردوں کی اکثریت جب شہوت کی مار کھاتی ہے تو کسی بھی عورت سے جنسی تعلق استوار کرنے پر رضامند ہو سکتے ہیں۔
اس لئے خود پر مرنے والی خواتین کو گھٹیا سمجھنے والے مردوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو ان کے پیچھے آتی ہیں وہ گھٹیا نہیں، بلکہ وہ خود گھٹیا ہیں جو ہر عورت کو اس کی خصوصیات دیکھنے کے بجائے ایک جنسی لذت کا آلہ سمجھتے ہیں۔
جبکہ کہ اسلامی نکتہ نظر سے مرد و عورت دونوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کا برابر حکم دیا گیاہے ۔
لہذا وہ برے القاب  رنڈی، گشتی، فاحشہ اور آوارہ وغیرہ جو عورتوں پر چسپاں کئے جاتے ہیں اتنے ہی مردوں پر صادر ہوتے ہیں۔

بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...