Thursday 2 November 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#121

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اسلام کے بنیادی پانچ ارکان اور تزکیہ نفس

3:روزہ اور تزکیۂ نفس

روزے کو عربی میں ”صوم کہتے ہیں جس کے لفظی معنی ”رک جانے“ کے ہیں اصطلاح شریعت میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور شہوانی خوہشات کے روکے رکھنے کا نام روزہ ہے ۔
اگر یہ بھوک ۔پیاس اور نفسانی خواہشات سے رُکے رہنا اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ہو تو یہ اسلامی روزہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل اجر وثواب ہے اور اگر یہ بھوک ،پیاس اور جذبات جنسیہ سے رُکے رہنا اپنے کسی خیال یا نفس کشی یا کسی طبیب معالج کے کہنے اور محض ریاضت و مشقت کا عادی بننے کے لئے ہے
تو پھر یہ اسلامی روزہ نہیں بلکہ معدہ و خون کی اصلاح کا نسخہ ہے یا راہبانہ و سادھوانہ فاقہ ہے گویا ”الصوم“ کا اطلاق اسی روزہ پر ہو گا جو شرعی احکام و تعلیمات کے مطابق ہے اور یہی آخرت کی نجات اور ذریعہ فلاح دارین ہے۔

روزہ اسلام کی ایسی اہم عبادت ہے جسے اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
روزہ اپنے اندر ایک عجیب خصوصیت رکھتا ہے کہ یہ ریاکاری اور دکھلاوے سے کوسوں دور اور چشم اغیار سے پوشیدہ، سراپا اخلاص اور عابد و معبود، ساجد و مسجود کے درمیان ایک راز ہے۔ اس کا علم روزہ دار اور حق تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں ہوتا۔ جیسے دیگر عبادات نماز، حج، جہاد وغیرہ کی ایک ظاہری ہیئت و صورت ہوتی ہے روزے کی اس طرح کوئی ظاہری شکل و صورت موجود نہیں جس کی وجہ سے کوئی دیکھنے والا اس کا ادراک کر سکے۔
سیدھی سی بات ہے کہ ہم اللہ کی رضا کی خاطر صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک حلال اور طیب چیزوں سے بھی اپنے آپ کو روکے رکھتے ہیں۔ جو لوگ دن میں باہر تلاش معاش کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں ان کے لیے آج کل کا روزہ جس میں پیاس کی بہت شدت ہوتی ہے کتنا مشکل ہوتا ہے۔ بہرحال اللہ کے لیے انسان برداشت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ صبر بھی دے دیتا ہے ورنہ عام دنوں میں سوچنا بھی محال ہے کہ انسان صبح سے شام تک اتنی شدید گرمی میں پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پیئے۔ اتنی سختیاں اُٹھا کر اگر ہم حلال چیزیں جو عام زندگی میں طیب ہیں کے قریب نہیں جا رہے لیکن وہ چیزیں جو شریعت میں ممنوع ہیں ،جو گناہ کے کام ہیں، جو اللہ کو ناپسند ہیں وہ کام ہم سارا دن کرتے رہیں تو گویا یہ ہم دین کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔اس طرح ہم کسی کو دھوکہ نہیں دے رہے سوائے اپنے آپ کو ۔ اصل روزہ یہ ہے کہ انسان ہر قسم کے صغیرہ گناہوں سے لے کر  کبیرہ گناہوں تک اپنے آپ کو بچائے۔تب وہ بامعنی روزہ ہو گا اور اس کے اجر کے حوالے سے بھی اللہ کا وعدہ سچا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد نبوی نقل فرماتے ہیں:
"آدم کے بیٹے کے تمام اعمال بڑھا دئے جائیں گے۔ ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جائے گی۔ ﷲ تعالیٰ فرمائے گا روزہ چونکہ صرف میرے لئے ہی رکھا گیا ہے میں ہی اس کی جزا عطا کروں گا۔ (دنیا میں) روزہ دار نے اپنی خواہش اور کھانا میری خاطر ترک کیا تھا۔"
(صحيح مسلم:1638:حکم البانی، صحيح)

ایک اور ارشاد نبویؐ ہے:
" جب رمضان المبارک کا مہینہ (مومنوں پر) داخل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے (اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے) کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔"
(صحيح البخاري: 2103حکم البانی،صحيح)

روزہ انسان کو ایسی قوت برداشت سکھاتا ہے جس کی بنا پر انسان اپنے نفس پر کنٹرول کر سکتا ہے اور روزہ رکھنے سے انسان کے اندر ایسا ملکہ پیدا ہوتا ہے جس کے باعث آدمی اپنے آپ کو تمام اعمال سیہ، اخلاق رذیلہ اور عادات شنیعہ سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس کے لیل و نہار رسومات قبیحہ سے مبرا اور صاف و شفاف ہو جاتے ہیں۔ شب و روز ذکر باری تعالیٰ ، تقویٰ و پرہیزگاری، حلاوت ایمانی، انابت الی اللہ ، زہد و تقویٰ ، رکوع و سجود ، تسبیح و تہلیل ، خشوع و خضوع ، صبر و تحمل ، بردباری ، سنجیدگی و متانت جیسی صفات عالیہ میں مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔
روزہ انسان کو ایسی عظیم خوبی سے ہمکنار کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ محرمات سے اجتناب کر سکتا ہے اور دورانِ روزہ جو اشیاء ﷲ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہیں ان سے بچ کر یہ سبق سیکھ لیتا ہے کہ اگر میرے لئے وقتی طور پر حرام اشیاء سے پرہیز کرنا آسان ہے تو مستقل اور ابدی حرام چیزوں سے بچنا کوئی مشکل نہیں۔

روزہ نفس کا تزکیہ کرنے کا اہم ترین عمل ہے ذیل میں چند احادیث پیش خدمت ہیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ گناہوں کو بخش دیتا ہے‘‘۔ (صحیح بخاری: 2014 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسرا  جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو وہ بہت خوش ہو گا‘‘۔ (صحیح بخاری: 2218حکم البانی صحیح)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ’’رَیَّان‘‘ ہے۔ اس میں سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ پوچھا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں؟ تو جواباً روزے دار کھڑے ہو جائیں گے۔ اور جب داخل ہوں گے تو دروازہ بند ہو جائے گا۔ اور اس میں کوئی اور داخل نہ ہو سکے گا‘‘۔ (صحیح بخاری:1896)
اس سے بڑھ کر روزہ دار کے لئے کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ جس کے لئے جنت میں داخل ہونے کے لئے ایک اسپیشل (v i p) دروازہ مقرر کر دیا گیا ہو جس سے روزہ دار کے علاوہ کوئی دوسرا داخل نہ ہو سکے گا۔

مزید ماہِ رمضان کی برکتوں کا بڑا حصہ قرآنِ کریم سے وابستہ ہے اس مہینے میں ہمیں اپنے دلوں کی کھیتی میں قرآن کے نورانی احکامات (فہم و تلاوت)کا بیج بونا چاہئے تاکہ وہ ٹھیک ٹھیک نشو ونما پائے ہمیں اپنی روح کی غذا کے لئے اس ماہ میں قرآنی پھلوں(آحکام) سے استفادہ کرنا چاہئے اور اس مہینے میں قرآنی برکات کے زیر سایہ اپنے قلب کی قوت کو بڑھانا چاہئے۔اور تزکیہ نفس کی مکمل کوشش کرنی چاہیے ۔

اس ماہ رمضان المبارک میں روزہ داروں کے لئے ایک خاص رحمت کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور وہ ہے لیلہ القدر،ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لیلۃ القدر کی فضیلت کے بیان میں پوری سورت نازل فرمائی۔ ارشاد ہوتا ہے : 

إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴿1﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ﴿2﴾ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ﴿3﴾ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ﴿4﴾ سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴿5﴾(سورہ القدر)
" یقیناً ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا۔ (1) تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟۔ (2)شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (3) اس [میں ہر کام] کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح [جبرائیل] اترتے ہیں۔ (4) یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک [رہتی ہے]۔(5)"

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے، اسی کا نام «اللَّيْلَةُ الْمُبَارَكَةُ» بھی ہے۔ 

ایک جگہ ارشاد ہے «إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ» (الدخان:3) اور یہ بھی قرآن سے ثابت ہے کہ یہ رات رمضان المبارک کے مہینے میں ہے، جیسے فرمایا «شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ..» (البقرۃ:185) "ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا ۔"

پھر اللہ تعالیٰ لیلۃ القدر کی شان و شوکت کا اظہار فرماتا ہے کہ اس رات کی ایک زبردست برکت تو یہ ہے کہ قرآن کریم جیسی اعلیٰ نعمت اسی رات اتری، تو فرماتا ہے کہ ” تمہیں کیا خبر کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ “ پھر خود ہی بتاتا ہے کہ ” یہ ایک رات ایک ہزار مہینہ سے افضل ہے “۔ 

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”مطلب یہ ہے کہ اس رات کا نیک عمل اس کا روزہ اس کی نماز ایک ہزار مہینوں کے روزے اور نماز سے افضل ہے جن میں لیلۃ القدر نہ ہو“ اور مفسرین کا بھی یہ قول ہے۔ 

اسی طرح کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں پس مطلب یہ ہے کہ مراد ایک ہزار مہینے سے وہ مہینے ہیں جن میں لیلۃ القدر نہ آئے جیسے ایک ہزار راتوں سے مراد وہ راتیں ہیں جن میں کوئی رات اس عبادت کی نہ ہو اور جیسے جمعہ کی طرف جانے والے کو ایک سال کی نیکیاں یعنی وہ سال جس میں جمعہ نہ ہو۔

مسند احمد میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو تم پر رمضان کا مہینہ آ گیا یہ بابرکت مہینہ آ گیا اس کے روزے اللہ نے تم پر فرض کیے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں شیاطین قید کر لیے جاتے ہیں اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینے سے افضل ہے اس کی بھلائی سے محروم رہنے والا حقیقی بد قسمت ہے“ ۔ (مسند احمد230/2:صحیح) 

نسائی شریف میں بھی یہ روایت ہے چونکہ اس رات کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہے اس لیے بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص لیلۃ القدر کا قیام ایمانداری اور نیک نیتی سے کرے اس کے تمام سابقہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں“ ۔ (صحیح بخاری:2014) 

پھر فرماتا ہے کہ اس رات کی برکت کی زیادتی کی وجہ سے بکثرت فرشتے اس میں نازل ہوتے ہیں۔ فرشتے تو ہر برکت اور رحمت کے ساتھ نازل ہوتے رہتے ہیں جیسے تلاوت قرآن کے وقت اترتے ہیں اور ذکر کی مجلسوں کو گھیر لیتے ہیں اور علم دین کے سیکھنے والوں کے لیے راضی خوشی اپنے پر بچھا دیا کرتے ہیں اور اس کی عزت و تکریم کرتے ہیں "روح" سے مراد یہاں جبرائیل علیہ السلام ہیں، یہ خاص کا عطف ہے عام پر۔ 

شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس رات میں فرشتے مسجد والوں(عبادت کرنے والوں) پر صبح تک سلام بھیجتے رہتے ہیں“۔ 
یہ رات سراسر سلامتی والی ہے کوئی برائی صبح ہونے تک نہیں ہوتی“۔ 

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”لیلۃ القدر آخری دس راتوں میں ہے جو ان میں طلب ثواب کی نیت سے قیام کرے اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیتا ہے یہ رات اکائی کی ہے یعنی اکیسویں یا تیسویں یا پچیسویں یا ستائیسویں یا آخری رات،(انتیس)۔

اکثر محدثین نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اس سے مراد طاق راتیں ہیں یہی زیادہ ظاہر ہے اور زیادہ مشہور ہے گو بعض اوروں نے اسے جفت راتوں پر بھی محمول کیا ہے جیسے کہ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اسے جفت پر محمول کیا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» 

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ستائیسویں رات ہے اس کی دلیل صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”یہ ستائیسویں رات ہے“ ۔ (صحیح مسلم:762)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (21,23,25,27,29)میں شب قدر کی جستجو کرو“ ۔ (صحیح بخاری:2020،82حکم البانی: صحيح)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہآپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری:2025) 

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آخری دس راتیں رمضان شریف کی رہ جاتیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات جاگتے اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور کمر کس لیتے ۔(صحیح بخاری:2024)
یہ بھی یاد رہے کہ یوں تو ہر وقت دعا کی کثرت مستحب ہے لیکن رمضان میں اور زیادتی کرے اور خصوصاً آخری عشرے میں اور بالخصوص طاق راتوں میں اس دعا کو بکثرت پڑھے «اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي»، اللہ تو درگزر کرنے والا اور درگزر کو پسند فرمانے والا ہے مجھ سے بھی درگزر فرما۔ (مسند احمد:183/6:صحیح) 
 یہ دعا سنن ابن ماجه:3850، الشيخ الألباني صحیح۔ امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔
(استفادہ ابن کثیر)

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم معاشرے کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حقیقت نظر آتی ہے کہ رمضان المباک کا مہینہ بھی ہمارے اندر کوئی خاص تبدیلی نہیں لا پاتا، اس کی ممکنہ وجوہات درج ذیل ہو سکتیں ہیں:
۱:عبادات کا محض رسما ادا کیا جانا۔
۲: اس جذبے سے دل کا خالی ہونا کہ اپنے اندر کچھ تبدیلی لانا ہے۔
۳: محض سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان جملہ عبادات کو انجام دینا۔
۴: روزوں کو ایک بوجھ سمجھ کر جیسے تیسے گنتی پوری کرنا۔
۵: قرآن کریم کو طلب ہدایت کی غرض سے نہ پڑھنا۔
6: قرآن سمجھ کر نہ پڑھنا ۔
ان وجوہات کے علاوہ اور بھی ممکنہ اور قابل توجہ اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن بہر حال اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ تزکیہ نفس کے اس الہی پروگرام کی ناشکری ہم اجتماعی طور پر کر رہے ہیں۔ کاش ہمیں اس کا شعور حاصل ہو جائے۔

روزہ اللہ تعالی سے تعلق میں مضبوطی ، شکر گذاری اور تقوی کا حصول ہے۔ جس نے یہ(تقوی) پا لیا اس نے سب کچھ پا لیا۔ اور جو اس سے محروم رہا ، وہ نہ صرف جسمانی طور پر بھوکا پیاسا رہا بلکہ روحانی طور پر بھی بھوکا اور پیاسا ہی رہا۔
جس طرح پودے کی نشوونما کے لیے اس کو خاردار برگ وبار سے محفوظ رکھنا اور وقت پر پانی، کھاد اور جنگلی جانوروں سے بچاؤ کی تدابیر ضروری ہیں، اسی طرح شخصیت کے ترقی و فلاح کے لیے غلط افکار وخیالات نیز باطل نظریات سے بچنا بھی ضروری ہے۔
انسانی سیرت اور شخصیت کی تعمیر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرنے کا نام تزکیہ نفس ہے، یعنی اگر کسی فرد کی تربیت اسلامی ماحول میں ہو رہی ہے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس کا تزکیہ بھی ہو رہا ہے۔
اسلام نے صرف جسمانی تکلیف کے لئے بھوک اور پیاس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک مکمل نظام مرتب کیا کہ علی الصبح اٹھتے ہی حلال و طیب رزق سے روزے کا آغاز اور ساتھ ہی فکر کو پاکیزہ کرنے کے لئے نیت کی تعلیم دی اور حکم دیا کہ روزے کے دوران نہ تو کسی کو برا کہیں اور نہ کسی کے لئے برا سوچیں ،ورنہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے صرف بھوکے پیاسے رہنے کی حاجت نہیں ہے۔
اسی طرح فرمایا : ''جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔''(صحیح  البخاری:2362،سنن ابن ماجہ: 1689۔حکم البانی صحيح)
مزید رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہئے اور نہ شور مچائے ، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں۔(صحیح بخاری:1904سنن نسائی:2218 حکم البانی صحيح)
قرآن مجید کی بیشتر سورتوں کا مرکزی مضمون تقوی ہی ہے کہ جنت میں داخلہ صرف اسی کو ملے گا جس میں کچھ نہ کچھ تقویٰ ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کسی کو معاف کر دے تو اس کا اختیار ہے لیکن اس کا جو اصول ہے وہ قرآن مجید کے تقریبا ہر دوسرے صفحے پر بیان ہوا ہے ۔

سورہ العصر (جس کا ترجمہ و عربی عبارت سابقہ اسطور میں گزر چکی ہے) میں ارشاد باری تعالی ہے،
جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے وہی تو متقی ہیں اور ان کے لیے ہی جنت کی گارنٹی ہے ۔
اس عظیم کامیابی کے لیے تقویٰ بنیادی شرط ہے جو ہم سب کی سب سے اہم ضرورت ہے اور روزہ اس کے لئے ایک بہترین ذریعہ ہے۔
روزہ ایک طرح کی ٹریننگ ہے جس میں انسان اللہ کی رضا کی خاطر اور اللہ کا حکم مانتے ہوئے حلال چیزوں سے بھی بچتا ہے ۔ اس طرح انسان میں گناہوں اور معصیت سے بچنے کی صلاحیت
سے  تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ یعنی روزے کی عبادت کا حاصل تقویٰ ہے اور تقویٰ کا بھی قرآن مجید کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔

سورہ البقرہ (البقرة:185)جہاں رمضان کا قرآن کے حوالے سے تعارف کرایا گیا ہے وہاں یہ بھی ارشاد ہے :
''لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ۔'' اور  قرآن مجید کے بالکل آغاز میں جہاں قرآن کا تعارف کروایا گیا وہاں ارشاد فرمایا :هُدًى لِلْمُتَّقِينَ۔(البقرہ:2) '' ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے۔"
ان دونوں آیات میں تطبیق یہ ہے کہ قرآن potentally پوری نوع انسانی کے لیے ہدایت ہے۔ انسانوں میں سے کوئی بھی اگر ہدایت کا طالب بنے گا قرآن سے اس کو ہدایت مل جائے گی، اس میں ہر انسان کی راہنمائی کا سامان موجود ہے لیکن سب فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے ۔فائدہ وہی اٹھائیں گے جن میں تقوی موجود ہو۔آج قرآن ہمارے پاس موجود ہے لیکن کتنے فیصد لوگ اس کی راہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ زیادہ تر نے کپڑے میں لپیٹ کر اونچی جگہ پر رکھ دیا ہے ۔ اس کی تلاوت مشکل کام لگتا ہے۔ کہاں یہ کہ اس کو سمجھنے کے لیے پڑھا جائے اور اس کے لیے عربی زبان سیکھنا اور پھر روزمرہ زندگی کے معاملات میں راہنمائی اور ہدایت حاصل کرنا۔کتنے فیصد لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہوں گے ؟یہ کام وہی کریں گے جن کے دل میں اللہ کا کچھ نہ کچھ خوف ہو گا ۔

تقویٰ کی تھوڑی بہت رمق، اللہ نے ہر انسان میں رکھی ہوئی ہے اسی کا ظہور ہے کہ انسان کہتا ہے کہ جھوٹ بولنا غلط ہے ، ناحق کسی کا مال کھینچ لینا ظلم ہے ۔لیکن جب انسان اپنے ضمیر کو بالکل دبا دیتا ہے ،گناہ پہ گناہ کیے جاتا ہے تو گویا اس کے اندر کا انسان (ضمیر)مر جاتا ہے ۔ تب آپ اسے قرآن بھی سنائیں گے تو اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ ابو جہل، ابولہب ، ولید بن مغیرہ اور کتنے ہی سرداران قریش محروم رہے حالانکہ وہ حضور ۖ کی زبان سے قرآن سنتے رہے۔لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ قرآن میں potentially ہدایت تو ہر انسان کے لیے موجود ہے لیکن اس ہدایت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ تقویٰ چاہیے اور روزے کی عبادت کا اصل حاصل تقویٰ ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔(البقرہ :183 )
"اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔"

مفسرین’’قرآن کریم کے الفاظ ’الذین من قبلکم‘  کے متعلق فرماتے ہیں یہ الفاظ عام ہیں،حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک کی تمام شریعتیں اور امتیں شامل ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح نماز کی عبادت سے کوئی امت اور کوئی شریعت خالی نہیں رہی، اسی طرح روزہ بھی ہر شریعت میں فرض رہا ہے‘‘۔
تقوی کی قوت حاصل کرنے میں روزہ کو بڑا دخل ہے، کیونکہ روزہ سے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ایک ملکہ پیدا ہوتا ہے، وہی تقوی کی بنیاد ہے‘‘
ثابت ہوا روزہ ہر لحاظ سے تزکیہ نفس اور تقوی کا موجب ہے اور تقوی و تزکیہ نفس سے ہی معرفت خداوندی کی عظیم نعمت سے سرفراز کیا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں روزہ کے مقاصد پورے کرتے ہوئے تزکیہ نفس کی توفیق دے ۔آمین!

4:زکوۃ سے تزکیہ نفس:

زکوة ادا کرنا بھی اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اور عبادات میں اہم عبادت ہے۔

نبوت کے بنیادی عناصر اور اجزاء میں اہم ترین ایک جزو یہ ہے کہ اعتبار سے فرد،معاشرے اور تمام  شعبہ ہائے زندگی کا تزکیہ کیا جائے۔
معاشیات کا تزکیہ یہ ہے کہ اسے رزق حلال کے اصولوں پر استوار رکھتے ہوئے صدقہ و خیرات اور سال بھر کی جمع شدہ رقم میں باقاعدہ زکوٰة کی ادائیگی کا التزام کیا جائے۔اس سے مال دار کا مال پاک اور معاشرے کو غربت سے نجات اور ضمیر کا تزکیہ اور دل کو تسکین و لذت محسوس ہوتی ہے۔اور آدمی بخل اور دولت کے تکبر و غرور سے پاک ہو جاتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى۔
"جو پاکی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال دیتا ہے۔"(سورہ اللیل:18)

زکوة کا مادہ زکی ہے جس کے معنی پاک ہونا ہیں۔ قرآن کی رو سے زکوة ادا کرنے سے مال پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ اور زکوٰة کو زکوٰة کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہے ، اور مال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے،
مثلا: مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل وتکبر وغیرہ۔ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لیے زکوٰة و صدقات کو مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ زکوٰة سے مال میں ظاہری یا معنوی بڑھوتری اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی زکوٰة کا نام زکوٰة رکھا گیا
شریعت کی اصطلاح میں زکوة مال کی ایک مقررہ مقدار کا نام ہے جو ہر اس مسلمان پر واجب ہے جو دولت کی ایک مخصوص متعین مقدار کا مالک ہو۔ ایسے شخص کو صاحب نصاب کہتے ہیں۔
زکوة کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک پاکیزگی دوسرے نشوونما۔ ان دو اصطلاحوں سے زکوة کا پورا تصور بنتا ہے۔
شرعی اصطلاح میں زکوة کا اطلاق دو معنی میں ہوتا ہے ایک وہ مال جو مقصد تزکیہ کے لیے نکالا جائے دوسرے زکوة بجائے خود تزکیہ کا فعل ہے۔
یعنی ایک اللہ کا حق اور دوسرا مسلمان کا حق۔ پہلے حق سے مراد نماز اور دوسرے سے مراد زکوة ہے۔

قرآن کریم میں صرف وہ مقامات جہاں نماز کے ساتھ زکوٰة کا حکم ہے تقریبا اسی(80) سے زائد ہیں جبکہ وہ مقامات جہاں منفرد طور پر زکوٰة کا حکم ہے اس کے علاوہ ہیں۔ عبادات بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں (۱) بدنی عبادات مثلاًنماز( ۲) مالی عبادت مثلاً زکوٰة۔ اسی لئے قرآن وحدیث میں عام طور سے عبادت کے بیان میں نماز اور زکوٰة کے تذکرے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سورہ بقرہ کے آغاز میں اہل تقویٰ کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں بھی نماز اور انفاق کو اہمیت سے ذکر کیا ہے۔
ارشاد فرمایا:
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُون۔َ (2-البقرة:3)
"جولوگ غیب پر ایمان ﻻتے ہیں اور نماز کو قائم 
رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے (مال) میں سے 
خرچ کرتے ہیں۔"
نماز اور زکوٰة کا باہمی اس قدر گہرا اور مضبوط تعلق ہے کہ جو شخص نماز ادا کرتا ہو مگر زکوٰة نہ دیتا ہو، اس کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ:
” ﷲ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتے جو زکوٰة ادا نہ کرے، اس لئے کہ ﷲتعالیٰ نے(قرآن میں) زکوٰة کو نماز کے ساتھ جمع کیاہے، پس ان دونوں میں فرق نہیں ہے ۔زکوٰة مال کا وہ حصہ ہے جس کا ادا کرنا فرض ہے۔
اور آج مسلمانوں کی شومئی قسمت کہ وہ اس فرض سے نہ صرف غافل ہیں بلکہ مسلمان کہلانے والوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو اس فرض کا نام یا تذکرہ سن کر تنگ دل ہونے لگتا ہے اسے ﷲ کے نام پر مال کی ادائیگی گراں لگتی ہے، بہت سے مسلمان زکوة کی فرضیت سے غافل ، بہت سے لوگ حیلوں اور بہانوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی بدولت زکوٰة سے بچ جائیں، کچھ مسلمان زکوة ادا کرتے ہیں مگر پورا حساب کتاب کئے بغیر محض اندازے سے یا ذوق کے مطابق کچھ مال زکوة کے نام سے نکال دیا حالانکہ یہ بھی بڑی کوتاہی ہے، زکوٰة نکالنے کے لئے پہلے پورا حساب کتاب کیا جائے تاکہ زکوٰة کی اصل رقم معلوم ہو اور پھر اس کی ادائیگی کی ترتیب بنائی جائے ۔
زکوٰة کے بارے میں قرآن وحدیث میں کثرت اور وضاحت کے ساتھ تمام ضروری احکام و ہدایات موجود ہیں اور زکوٰة ادا نہ کرنے پر بہت سخت وعیدات و تنبیہات سنائی گئی ہیں اور یہ سب اہتمام ہم جیسے ایمان والوں کے لئے  کیا گیا ہے جو نفس اور شیطان کے بہکاوے میں آ کر اسلامی احکامات سے دور ہو جاتے ہیں تو ﷲ اور اس کے رسول نے مختلف عنوانات اور قسما قسم کی ترغیب سے ان احکامات پر عمل کا شوق ابھارنے کا سامان فراہم کیا ہے۔ یوں تو قرآن وحدیث میں اس موضوع پر بہت سا مواد موجود ہے ہم یہاں
چند آیات و احادیث ذکر کرتے ہیں۔تا کہ زکوٰة کے ذریعہ سے تزکیہ نفس کی حیثیت واضح ہو جائے۔
قرآنی آیات:
(۱) ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ ۔(البقرة:43)
"اور نمازوں کوقائم کرو اور زکوٰة دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔"

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ۔ (البقرة:110)
" تم نمازیں قائم رکھو اورزکوٰة دیتے رہا کرو اور جو کچھ بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے ، سب کچھ اللہ کے پاس پالو گے ، بےشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب دیکھ رہا ہے۔"

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (الأعراف:156)
" اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے ۔ تو وه رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سےڈرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور جو ہماری
 آیتوں پر ایمان ﻻتے ہیں۔"

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ (الروم:39)
"تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وه اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا ۔ اور جو کچھ صدقہ زکوٰة تم اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنے (اورخوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی اپنا دو چند کرنے والے ہیں۔"

اس آیت میں سود اور زکوة کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے اور دونوں میں فرق بیان کیا گیا ہے کہ سود سے بظاہر مال بڑھتا ہے لیکن ﷲ کے ہاں ایسے مال کی کوئی قدر و قیمت نہیں اس کے برعکس زکوة جو محض ﷲ کی رضا کے لئے دی جائے بظاہر اس میں اپنا مال کم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ عمل ان کے لئے بہت مفید ہے اس طرح ان کا مال ﷲ کی ہاں بڑھتا رہتا ہے اور قیامت کے دن جب اہل ایمان اپنے اموال کا ثواب دیکھیں گے تو ان کی خوشی دوگنا ہو جائے گی۔

اس آیت میں جو قابل غور نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ زکوة یا جو مال بھی فی سبیل ﷲ دیا جائے جیسے صدقات نافلہ اورھدیہ وغیرہ اس سے مقصود محض ﷲ کی رضا ہو، دنیا کا کوئی معاوضہ مطلوب نہ ہو، مثلاً اگر ہدیہ دیا تو اس امید پر نہ دیا جائے کہ وہ بھی بدلے میں ہدیہ دے گا یا زکوة دی تو اس میں یہ نیت نہ ہوکہ اب وہ شخص میرا احسان مند رہے ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر یہ معاملہ بہت خطرناک ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ۔(البقرة:264)
"اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وه شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کےلئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہےجس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زوردار مینہ برسے اور وه اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے، ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو
(سیدھی) راه نہیں دکھاتا۔"

اس آیت میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے صدقات و خیرات کو منت سماجت و احسان رکھ کر اور تکلیف پہنچا کر برباد نہ کرو، اس احسان کے جتانے اور تکلیف کے پہنچانے کا گناہ صدقہ اور خیرات کا ثواب باقی نہیں رکھا۔ پھر مثال دی کہ احسان اور تکلیف دہی کے صدقے کے غارت ہو جانے کی مثال اس صدقہ جیسی ہے جو ریاکاری کے طور پر لوگوں کو دکھاوے کیلئے دیا جائے۔ اپنی سخاوت اور فیاضی اور نیکی کی شہرت مدنظر ہو، لوگوں میں تعریف و ستائش کی چاہت ہو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی طلب نہ ہو نہ اس کے ثواب پر نظر ہو، اسی لیے اس جملے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہ ہو تو اس ریاکارانہ صدقے کی اور اس احسان جتانے اور تکلیف پہنچانے کے صدقہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی صاف چٹیل پتھر کی چٹان ہو جس پر مٹی بھی پڑی ہوئی ہو، پھر سخت شدت کی بارش ہو تو جس طرح اس پتھر کی تمام مٹی دُھل جاتی ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتی، اسی طرح ان دونوں قسم کے لوگوں کے خرچ کی کیفیت ہے کہ گو لوگ سمجھتے ہوں کہ اس کے صدقہ کی نیکی اس کے پاس ہے جس طرح بظاہر پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن جیسے کہ بارش سے وہ مٹی جاتی رہی اسی طرح اس کے احسان جتانے یا تکلیف پہچانے یا ریاکاری کرنے سے وہ ثواب بھی جاتا رہا اور اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچے گا تو کچھ بھی جزا نہ پائے گا، اپنے اعمال میں سے کسی چیز پر قدرت نہ رکھے گا، اللہ تعالیٰ کافر گروہ کی راہِ راست کی طرف رہبری نہیں کرتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ان بندوں کی مدح و تعریف کرتا ہے جو خیرات و صدقات کرتے ہیں اور پھر جسے دیتے ہیں اس پر احسان نہیں جتاتے اور نہ اپنی زبان سے یا اپنے کسی فعل سے اس شخص کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں، ان سے ایسے جزائے خیر کا وعدہ فرماتا ہے کہ ان کا اجر و ثواب رب دو عالم کے ذمہ ہے۔ ان پر قیامت کے دن کوئی ہول اور خوف و خطرہ نہ ہو گا اور نہ دنیا اور بال بچے چھوٹ جانے کا انہیں کوئی غم و رنج ہو گا، اس لیے کہ وہاں پہنچ کر اس سے بہتر چیزیں انہیں مل چکی ہیں۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت نہ کرے گا نہ ان کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے گا نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کیلئے درد ناک عذاب ہے،ان میں سے  ایک دے کر احسان جتانے والا بھی ہے۔(صحیح مسلم:106) 

سونا،چاندی اور دیگراموال جمع کرنا ہر حال میں برا نہیں بلکہ یہ اس وقت برا ہے جب اس کی زکوٰة نہ دی جائے اور اس میں سے جہاد میں خرچ نہ کیا جائے( فی سبیل ﷲ سے اولاً جہاد مراد ہے) دوسری بات زکوٰة ادا کرنا جس طرح بڑے اجر و ثواب کا سبب ہے اسی طرح اس کی برکت سے باقی مال پاک صاف اور طیب بن جاتا ہے تیسرا فائدہ جاننے کے لئے پہلے ایک حدیث پڑھ لیں جو اسی آیت سے تعلق رکھتی ہے۔ مفہوم اس کا یوں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضورﷺ نے فرمایا:” سونے چاندی کا ناس ہو یہ کیسی بری چیز ہے“۔ تین مرتبہ یہ بات فرمائی اس پر صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ خزانہ کے طور پر جمع کرنے کے لئے کیا چیز بہتر ہے؟حضورﷺنے فرمایا: ذکر کرنے والی زبان، ﷲ سے ڈرنے والا دل، اور وہ نیک بیوی جو دین کے کاموں میں معاون و مددگار ہو۔
(سنن ابن ماجہ:1856،حکم البانی صحيح)
اس طرح انسان عمر بھر اور مرتے دم تک دین کا کام کر سکتا ہے ورنہ اگر بیوی دین کے کاموں میں معاون نہ ہو تو الٹا شوہر کو بھی دین کے کام سے محروم کر دیتی ہے۔(معاذ ﷲ)

 فریضہ زکاة کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں، وہاں اس زکاة کی ادائیگی میں غفلت برتنے والوں کے لیے قرآن و احادیث میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں صرف چند ایک حوالہ ذکر کیے جاتے ہیں:
يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ۔(سورة توبہ:35)
"جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو۔"
اس آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو نہ خرچ کرنے والے اور اسے چھپا چھپا کر رکھنے والے درد ناک عذابوں سے مطلع ہو جائیں۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب تپا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور کمر داغی جائے گی اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو۔ 
 وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ۔(سورة آل عمران:180)
"جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وه اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وه ان کے لئے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آگاه ہے۔"

ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیا ہوا خزانہ ہوں۔(صحیح البخاري:1403)

الغرض اصل مقصد تو زکوٰة کی فضیلت تزکیہ نفس  بتلانا ہے کہ اس کی برکت سے نہ صرف اجر و ثواب ملتا ہے بلکہ انسان کا باقی مال پاک و صاف اور طیب بن جاتا ہے۔ اور تزکیہ نفس بھی ہوتا ہے۔
زکوٰة کی اہمیت و فضیلت اور ترغیب کے چند پہلووں پر مشتمل یہ چند آیات اور احادیث ان تمام مسلمانوں کے لئے کافی ہونی چاہئیں جو صاحب نصاب ہیں اور ان پر زکوٰة فرض ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی تکمیل نہیں ہوتی، پھر قابل غور بات یہ بھی تو ہے کہ یہ مال ﷲ نے ہی دیا ہے اب اگر اسی کے دیئے ہوئے مال سے تھوڑا سا حصہ اس کے نام پر نکال لیا جائے اور اس کی برکت سے اپنا باقی تمام مال پاک صاف اور محفوظ بنالیا جائے تو یہ کتنی بڑی غنیمت ہے اور ﷲ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل اور احسان ہے جس سے اس نے نوازا ہے۔ بس ہم ﷲ کے فرماں بردار بنیں اور ہر قسم کی سرکشی اور نافرمانی سے اس کی پناہ مانگیں کیوں کہ:”یہ ﷲ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے عطاء فرماتا ہے“۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...