Sunday 19 November 2017

خواتین نے دوپٹہ یا آنچل استعمال کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟

خواتین نے دوپٹہ یا آنچل استعمال کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟

(مولف:عمران شہزاد تارڑ، ڈائریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان )

اسلام نے نگاہ اور زنا کے فتنے سے بچنے کے لئے پردے کی پابندی لگائی ہے۔ عورت عفت و عصمت کی پیکر ہے۔ یہ حیا کی چادر ہے ۔اسلام نے حجاب کی شکل میں عورتوں کو اپنا علیحدہ تشخص عطا کیا ٗ انہیں اپنے مستقل وجود کا احسا دِلایا ٗ مردوں کی ہوس کا اسیر ہونے سے بچایا ٗ بلکہ وہ ہتھیار عطا فرمایا کہ جو ان کے تحفظ کا ضامن ہے۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
"حیاء اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ان میں سے کوئی ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا بھی خود بخود اٹھ جاتا ہے۔"
( راوی حضرت ابن عمر بہیقی فی شعب الاایمان140/6 حدیث 7727 )

آزادئ نسواں آخر صرف پردہ اتروانے تک کیوں محدود ہے ؟
آزادئ نسواں کا مطالبہ اس حد تک ٹھیک ہے کہ عورت کو تعلیم کا حق حاصل ہو ، ایک بہن، بیوی اور بیٹی کی صورت میں تحفظ حاصل ہو اور پیار و محبت ، شفقت کا سلوک میسر ہو ،
آزادئ نسواں کا مطلب اخلاقی بےراہ روی نہیں ہونا چاہئے!
مغرب کی نقالی میں یہ مت بھولیں کہ آپ ایک مسلمان بھی ہیں اور اسلام وہ پاک مذہب ہے جس نے عورت ذات کو اس وقت عزت دی جب پوری دنیا میں عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی بد تر سمجھا جاتا تھا ،
ایک وقت تھا دوپٹہ صنف نازک کی پہچان تھا مگر آج یہ صنف نازک کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ بازار ہو یا شادی کا فنکشن یا کوئی ٹی وی چینل غرض جس جگہ بھی ملاحظہ فرمائیں خواتین دوپٹے سے جان چھڑاتی نظر آتی ہیں۔دوپٹہ عورت کے لباس کا ایک اہم جز ہے مگر بدن صنف نازک پر یہ ایک لاوارث لاش کی طرح پڑا نظر آتا ہے۔
پتا نہیں عورت ذات کو ڈوپٹہ سے کیا الرجی ہو گئی ہے؟ ایک وقت تھا کہ یہ رنگین ڈوپٹہ ماحول کو رنگین بناتے تھے۔ آنچل سے ماحول سات رنگی ہو جاتا تھا۔آج دوُپٹہ ایک فیشن ہے پردہ نہیں۔
آج کی صنف نازک چند نام نہاد آرڈیننس کا سہارا لیکر اپنے آپ کو ایکسپوز کروا رہی ہیں۔ایک طرف تو یہ خواتین اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں دوسری طرف اس قسم کے فیشن اور رسمیں (اللہ اکبر)۔ کوئی درمیانہ راستہ ہی اختیار کر لیں۔
دوپٹہ تو چلو گیا سو گیا اوپر سے قمیض کے بازو بھی غائب ہو رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی آگے پیچھے سے گلہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔اور رہی سہی کسر جدید فیشن نے پوری کر دی ہے کہ شلوار پنڈلیوں تک،قمیص کے چاک پسلیوں تک کھلے اور لباس اتنا تنگ کہ جسم کا ایک ایک اعضاء ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔ایک دن آئے گا کہ بدن پر چند برائے نام کپڑے ہی ہوں گے جو فیشن کہلائے گا۔
میڈیا اور یہ رئیس لوگ اس کام میں پیش پیش ہیں۔ خواتین میڈیا کی اندھا دھند نقالی کرتی ہیں بلکہ اس کو اختیار کرنا باعث فخر سمجھتی ہیں
آج مسلمانوں کو اسی فحاشی و بے حیائی میں ترقی نظر آرہی ہے ٗ وہ کہتے ہیں کہ انگریزوں اور مغرب کے لوگوں نے اتنی ترقی کی ہے ٗ ملاں کلچر نے ہمیں کیا دیا ہے ؟ آج یورپی معاشرہ جس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور ان کی تہذیب کا طلسماتی مینار جس طرح زمین بوس ہو رہا ہے اس کے پیچھے کار فرما عوامل میں بے حیائی ٗ فحاشی اور عورت کا مادر پدر آزاد ہونا ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔
عورتوں کی اس حالت کے مرد بھی برابر کے ذمےدار ہیں جو پردے کے ذکر پر کہتے ہیں کہ ہماری بیوی نیک ہے ، ہمیں اپنی بیوی پر پورا بھروسہ ہے اور پردہ تو نظر کا ہوتا ہے ، یہاں تک دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ بعض مردوں نے اپنی با پردہ بیوی کو مجبور کر کے برقعہ اتروا دیا .
اب کوئی ان مردوں سے یہ تو پوچھے کہ ان کی بیوی جتنی بھی نیک پارسا ہو ، امہات المؤمنين رضى الله عنها سے بڑھ کر تو نیک ، پارسا اور عبادت گزار تو ہر گز بھی کسی صورت بھی نہیں ہو سکتی، جب امہات المؤمنين رضى الله عنهاکو بھی پردے کا حکم تھا تو پھر آج کی عورت کو کیوں نہیں؟ اور پھر عورت کے لفظی معانی ہی پردے کے ہیں !
عورت وہ چاند نہیں ہونا چاہئے جس کو ہر کوئی بےنقاب دیکھےبلکہ عورت وہ سورج ہونی چاہئے
جسے دیکھنے سے پہلے ہی آنکھ جھک جاۓ !
الله تعالیٰ کا فرمان ہے...!
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ﻇاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ﻇاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ﻇاہر نہ کریں... (سورہ النور:31)
لہذا اللہ تبارک وتعالی کی عدالت میں کھڑے ہونے سے پہلے توبہ کیجئے ! اللہ کو آپ کی توبہ کا انتظار ہے .آپ کی توبہ سے آپ کے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جائیں گے اللہ کا وعدہ ہے،
دیکھئے الله تعالیٰ کا یہ فرمان.....!
"...جو کوئی تم میں نادانی سے کوئی بری حرکت کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور نیکوکار ہوجائے تو وہ(اللہ) بخشنے والا مہربان ہے۔"(الأنعام:54)
مزید فرمایا:
"مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور اللہ تو
بخشنے والا مہربان ہے۔"(الفرقان:70)
 
دوسری طرف مغرب کی عورت تو مکمل طور پر بے حجاب ہو چکی ہے ٗ تو کیا مردوں کے ہاتھوں اس کی عزت وعصمت محفوظ ہو چکی ہے کیا وہ اپنے آپ کو عفت مآب تصور کرتی ہے کیا یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات رہ گئی ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عصمت دری انہی مغرب کی آزاد اور قلیل اللباس عورتوں کی جاتی ہے۔

اب بھی اگر ہماری مائیں بہنیں پردہ کرنے کا تہیہ کر لیں تو کبھی بھی عصمت دری کی نوبت نہ آئے ہمارے رسائل ٗ جرائد پر بے پردہ خواتین کی تصاویر بڑے اسٹائلش انداز میں پیش کرکے عورت کے دل سے پردے کی اہمیت کو بالکل ختم کِیا جاتا ہے۔ہماری خواتین اگر ماں ٗ بیٹی ٗ بہن اور بہو غرض کسی بھی رُوپ میں معاشرے میں مقام و عزت حاصل کرنا چاہتی ہیں تو یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ پردے کو کسی حالت میں نہ چھوڑیں اس کے برعکس اگر خواتین پردے کو اپنی توہین سمجھتی رہیں تو پھر اسی طرح ذلیل و رسواہوتی رہیں گی جس طرح آج ہو رہی ہیں۔مُسلمان عورت پردہ میں رہ کر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کرتعلیم و تربیت اور تبلیغ کا فریضہ انجام دے کر آزادی نسواں کا نعرہ لگانے اور مغربی تہذیب کو گلے لگانے والی خواتین کو شکست فاش دے سکتی ہیں اور اسلام کی فتح مبین اور اس کی سربلندی کا باعث بن سکتی ہیں۔ (ان شاء اللہ

نوٹ؛"پردہ کی شرعی حیثیت" کے اعنوان سے راقم الحروف کا ایک جامع مضمون عنقریب آ رہا ہے جس میں تفصیلی معلومات پیش کی جائے گی۔

بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...