Tuesday 14 November 2017

تزکیہ نفس کے لیے چند غور طلب پہلو

تزکیہ نفس کے لیے  چند غور طلب پہلو

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#123

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

حسد کی اقسام و اسباب،نقصانات اور علاج

مسلم معاشرہ آج جن برائیوں کا شکار ہے ان میں ایک اہم اور خطرناک برائی حسد ہے، حسد معاشرے میں بغض وعداوت اور نفرت کے بیج بوتا ہے۔حسد سے آپسی محبت، خوش گوار تعلقات اور رشتے داریاں متاثر ہوتی ہیں۔ صالح معاشرہ کی تشکیل میں حسد سب سے بڑی رکاوٹ اور سماج کے لیے زہر ہلاہل (جان لیوا) ہے۔ذیل کے سطور میں ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں حسد کی اقسام و اسباب،نقصانات اور علاج پر روشنی ڈالیں گے۔

حسد کی ساری بیماری اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ انسان اپنی طرف دیکھنے کے بجائے دوسروں کی طرف دیکھتا ہے۔ خود اپنے آپ کو جو نعمت حاصل ہے ان کا تو دھیان اور خیال ہی نہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی توفیق نہیں مگر دوسروں کی نعمتوں کی طرف دیکھ رہا ہے، اسی طرح اپنے عیوب کی طرف تو نظر نہیں مگر دوسرے کے عیوب تلاش کر رہا ہے۔ اگر انسان اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی ہر وقت نازل ہونے والی نعمتوں کا شکر ادا کرے تو پھر دوسرے پر کبھی حسد نہ کرے تم کیسی بھی حالت میں ہو’ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تمہیں نعمتوں کی ایسی بارش میں رکھا ہے اور صبح سے شام تک تمہارے اوپر نعمتوں کی بارش برسا رہا ہے کہ اگر تم اس کا تصور کرتے رہو تو دوسروں کی نعمت پر کبھی جلن پیدا نہ ہو۔
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ۔(سورة الرحمٰن:13)
"پس تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟"
آج کل ہمارے معاشرے میں لوگوں کو دوسروں کے معاملات میں تاک جھانک اور تفتیش کرنے کا بڑا ذوق ہے’ مثلاً فلاں آدمی کے پاس پیسے کس طرح اور کہاں سے آ رہے ہیں؟ اور اس کے حالات کیسے ہیں؟ ایک ایک کا جائزہ لینے کی فکر ہے اور پھر اس تفتیش اور تحقیق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی ایسی چیز سامنے آتی ہے جو خوشنما اور دلکش ہے لیکن اپنے پاس موجود نہیں تو پھر اس سے حسد پیدا نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا؟

ایک جملہء معترضہ کے طور پر یہ بات بھی سمجھ لیں کہ محض کسی کی کوئی چیز (مکان،کپڑے اور  کاروبار وغیرہ) اچھا لگنا حسد نہیں۔مزید یہ کہ اس شے کوجائز حدود میں حاصل کرنے کی کوشش کرنا بھی بذاتِ خود برا عمل نہیں بلکہ اس سے مقابلے کی فضا پروان چڑھتی اور ترقی کی راہیں کھلتی ہیں۔اسی طرح وہ وسوسے بھی حسد کے زمرے میں نہیں آتے جو اچانک غیر ارادی طور پر آپ کے دل میں آجائیں البتہ ان خیالات کو پختہ ارادے کے ساتھ پروان چڑھانا قابلِ نکیر ہے۔جس کی تفصیلات آگے آ رہی ہے۔

حسد کا مطلب ہے کہ’’کسی دوسرے کی خوش حالی پر جلنا اور تمنا کرنا کہ اس کی نعمتیں اور خوشحالی چھن جائے یا مجھے مل جائیں۔
بسا اوقات یہ کیفیت دل تک رہتی ہے اور بعض اَوقات بڑھتے بڑھتے اس مقام تک آ پہنچتی ہے کہ حاسد (حسد کرنے والا) محسود (جس سے حسد کیا جائے) کے خلاف کچھ عملی قدم اٹھانے پہ آ جاتا ہے۔ اس کی کیفیات کا اظہار کبھی اس کی باتوں سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا عمل اندرونی جذبات و اِحساسات کی عکاسی کرتا ہے۔حسد کی کیفیت جب تک حاسد کے دل ودماغ تک محدود رہے ، محسود کے لیے خطرہ کا باعث نہیں بنتی بلکہ وہ سراسر حاسد کے لیے ہی وبالِ جان بنا رہتا ہے اور یوں وہ اپنی ذات کا خود ہی بڑا دشمن بن بیٹھتا ہے، لیکن جب وہ اپنی جلن کو کھلم کھلا ظاہر کرنے لگے تو یہی وہ مقام ہے جس سے پناہ مانگنے کے لیے اللہ سبحانہ وتعالی نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے:وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَد۔َ(الفلق:5)
(میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں) اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وه حسد کرے۔"
اس آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ’’حاسد کے شر سے پناہ مانگو جب وہ حسد کرنے لگے‘‘
کیونکہ جب تک اس کا حسد ظاہر نہیں ہوتا تب تک وہ ایک قلبی وفکری بیماری ہے جس کا تعلق حاسد کی ذات سے ہے اور یہ درجہ محسود کے حق میں نقصان دہ نہیں ہے۔
قرآن میں مختلف مقامات پر آیات وارد ہوئی ہیں جن میں اللہ تبارک تعالیٰ نے حسد کا ذکر کیا ہے۔ ان آیات سے حسد کا معنی اور زیادہ واضح ہو جائے گا۔
{...حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِھِمْ...}(سورہ البقرۃ:109) 
’’اپنے دلوں میں حسد کی وجہ سے۔‘‘
{أمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اﷲُ مِنْ فَضْلِہٖ}(سورہ النساء:54)
’’کیا وہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا کیا ہے۔‘‘
{..فَسَیَقُوْلُوْنَ بَلْ تَحْسُدُوْنَنَا..} (الفتح:15)
’’پس عنقریب وہ کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔‘‘

مذکورہ بالا آیات میں حسد کی بات کی گئی ہے جو دلوں تک محدود رہتا ہے اور کینہ وبغض کی شکل اختیار کر چکا ہوتا ہے،لیکن سورہ فلق میں "إذا حسد" کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ جب وہ حسد کا عملی مظاہرہ کرنے لگے۔
حسد کی مذمت میں نبی اکرم ﷺسے مختلف اَحادیث مروی ہیں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔

ارشاد نبو ی ﷺ ہے:’’کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوسکتے۔‘‘ (سنن نسائی:3111،حکم البانی حسن)

نبی اکرمﷺ نے فرمایا:تمہاری طرف پچھلی قوموں کی برائیاں حسد اور بغض سرایت کر آئیں گی جو مونڈ ڈالیں گی۔ میں نہ کہتا کہ یہ بالوں کو مونڈیں گی بلکہ یہ دین کو مونڈ دیں گی۔"(سنن ترمذی:2510،حکم البانی حسن)

مزید رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم حسد کی بیماری سے بہت بچو حسد اِنسان کی نیکیوں کو اِس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے“۔ (سنن ابی داود:4903،حکم البانی ضعيف)
انتباہ: یہ روایت اگرچہ کمزور ہے ، مگر حسد کی ممانعت کی صحیح احادیث بھی موجود ہیں،
چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ایک دوسرے کے مقابلے میں بغض نہ رکھو ایک دوسرے کے مقابلے میں حسد نہ کرو ، ایک دوسرے کے مقابلے میں قطع تعلق نہ کرو اور اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔"(صحیح بخاری: 6065)

درحقیقت حسد ایک عذاب ہے جو دنیا اور دین دونوں میں تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ حسد اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں اِظہار ناراضگی ہے اور جو چیزیں رب ذوالجلال نے اپنے بندے کو عنایت کی ہیں حاسد اُن سے اِنکار کرتا ہے اور اس جلن میں ابلیس کا شریک کار بن جاتا ہے۔

مذکورہ بالااحادیث  و آیات  آج کے معاشرے میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتیں ہیں، آیات و احادیث سے معلوم ہواحسد و کینہ سے جہاں سماج و معاشرہ بگڑتا ہے وہیں یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور آخرت کی تباہی و بربادی کا بھی ذریعہ ہے۔متعدد احادیث میں مسلمان بھائی کے ساتھ خیر خواہی کا حکم دیا گیا ہے اور ان سے قطع تعلق کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں ۔(صحیح بخاری:5989)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔(سنن ترمذی:2320،حکم البانی صحیح)

حسد کی اقسام:

حسد کی پہلی قسم یہ ہے کہ حاسد چاہتا ہے کہ نعمت، صاحب نعمت سے چھن کر مجھے مل جائے،
یہ کیفیت ایمان کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔

حسد کی دوسری قسم یہ ہے کہ دل میں یہ خواہش ہو کہ یہ نعمت اس سے کسی طرح چھن جائے اور اس نعمت کی وجہ سے اس کو جو مقام و مرتبہ  حاصل ہوا ہے اس سے وہ محروم ہو جائے پھر چاہے وہ نعمت مجھے ملے یا نہ ملے یہ حسد کا سب سے رزیل ترین، ذلیل ترین، خبیث ترین درجہ ہے۔

حسد کا رشک کے ساتھ فرق : 
رشک ایک ایسا احساس ہے کہ جس کے نتیجے میں آدمی یہ چاہتا ہے کہ جو نعمت کسی دوسرے کو عطا ہوئی ہے۔صاحب نعمت اس سے محروم ہوئے بغیر مجھے بھی مل جائے اور اللہ سے یہ دعا کرے، تو اللہ بڑے فضل اور وسعت والا ہے۔تو اللہ کی قدرتِ کاملہ سے کیا بعید ہے کہ وہ اس کو صاحب نعمت سے بڑھ کر مالا مال کر دے یہ اللہ پر ایمان اور سوچ کا فرق ہے۔
یعنی اگر انسان کسی دوسرے پر اللہ کا فضل و کرم دیکھے اور پھر اللہ سے اپنے لیے بھی وہی کچھ یا اس سے بڑھ کر طلب کرے تو یہ رشک کہلاتاہے اور جائز ہے،کیونکہ اُس نے دوسرے انسان یا صاحب نعمت کی نعمت کا زوال نہیں چاہا، نہ چھن جانے کی تمنا کی۔ حسد کی بُرائی ہی یہ ہے کہ اس میں مبتلا ہو کر ایک بھائی دوسرے بھائی کی خوشیوں اور نعمتوں کے زوال کی یا چھن جانے کی آرزو کرتا ہے۔

سورۃ القصص میں اللہ تعالیٰ نے قارون کا واقعہ بیان کیا ہے وہ صاحب نعمت تھا۔ بے تحاشا مالدار تھا، لیکن اپنے مال کو اللہ کی راہ میں یا لوگوں کی خیرخواہی میں خرچ کرنے کی بجائے بخیل بن بیٹھا۔ متکبر بن گیا اور اپنے مال کو لوگوں کے لیے آزمائش بنا دیا۔ اس کے مال پر دنیا پرست افراد نے رشک کیا اور اہل علم نے پناہ مانگی تو صاحب نعمت جب نعمت کو صرف دنیا حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے اور اس کو فخر و ریا کا ذریعہ بنا لے تو ایسی نعمت کو حاصل کرنے کے لیے اہل علم کے لیے رشک جائز نہیں ہے۔ رشک صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں۔ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ
’’دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے۔ایک وہ جس کو اللہ نے قرآن دیا ہو اور وہ راتوں کو بھی اس کی تلاوت کرتا اور اس پر عمل کرتا ہو اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ دن رات اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو۔‘‘ (صحیح بخاری:5025)

حسد کے اسباب

حسد کرنے کے عام طور پر مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں۔

تفوق کی خواہش:
انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند وبرتر رہنا چاہتا ہے۔جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر حال و مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے ۔ لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ یہ نعمت اس سے چھن جائے تاکہ ہم دونوں برابر ہو جائیں۔یہ حسد کی بنیادی علت ہے۔
حسد عموماً ہمسر اور ہم پلہ اَفراد میں ہوتا ہے۔ مثلاً بہن بھائیوں میں، دوستوں میں، افسران میں،تاجر تاجر سے حسد کرے گا،سیاستدان سیاستدان سے حسد کرے گا، طالب علم طالب علم سے اور اہل قلم اہل قلم سے حسد کریں گے اور حسد کی جڑ اس فانی دنیا کی محبت ہے۔ اس کے اور بھی بہت سے اَسباب ہیں۔ ایمان کی کمزوری بھی حسد کا باعث بنتی ہے۔حاسد اللہ کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا، وہ سمجھتا ہے کہ یہ نعمت جو دوسرے کو عطا کی گئی ہے اس کا اصل حق دار میں ہوں۔ وہ اپنے قول و عمل سے یہ اظہار کرتا ہے کہ اللہ نے کیسی ناانصافی کی ہے اور اپنے فضل و کرم کے لیے غلط انسان کا انتخاب کیا ہے۔ یہ تصورات و خیالات اس کے ایمان کو متزلزل کردیتے ہیں اور اس کے اللہ کے ساتھ تعلق کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسی سوچ کی وجہ سے ابلیس ملعون و مردود قرار پایا تھا۔ ایسا کردار و مزاج رکھنا در حقیقت ابلیس کے نقش قدم پر چلنا ہے جس کا انجام نامرادی کے سوا کچھ بھی نہیں، کیونکہ حاسد کا حسد اللہ کے فیصلے کو نہیں بدل سکتا۔
ہر انسان کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اپنے کردار و مزاج کی خامیوں کو سمجھتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کرنا مثبت و تعمیری سرگرمی ہے، لیکن اگر اپنی خامیوں کی اِصلاح کی بجائے دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں پر انسان جلنا کڑھنا شروع کردے تو یہ حسد کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ایسا انسان احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اپنی اور دوسروں کی زندگی اجیرن کر لیتا ہے۔اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں پر اس کی نظر نہیں جاتی۔وہ ہر وقت دوسروں پر نظر رکھتا ہے۔ اللہ سے شکوہ کناں رہتا ہے اور حاسد بن جاتا ہے۔

محرومی یا احساسِ کمتری:
حسد کا بنیادی سبب تو یہی ہے کہ حاسد اس نعمت سے محروم ہے جو دوسرے کو مل گئی ہے(لیکن کبھی کبھی نعمت کی موجودگی میں بھی حسد ہو جاتا ہے)۔ مثال کے طور پر جب ایک بس کا مسافر ائیر کنڈیشن کار میں بیٹھے لوگوں کو دیکھتا ہے تو فطری طور پر اسے اپنی محرومی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ اس احساس کا ہونا غیر اختیاری ہے لیکن کار والوں کی برائی چاہنا اختیاری اور گناہ کا عمل ہے۔

اللہ کے فلسفہء آزمائش سے لا علمی:
فلسفہء آزمائش سے لا علمی اور دنیاوی نعمتوں کو دائمی سمجھ لینا بھی حسد کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اللہ نے جو شکل وصورت ،دولت ، گاڑی، مکان ،اولاد اور دیگر سامانِ زندگی عطا کیا ہے یا عطا نہیں کیا ہے اس کی بنیادی وجہ آزمائش ہے۔ وہ کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی سے لے کر۔ اس کے نزدیک اس دنیاوی سازو سامان کی حیثیت ایک مردہ بکری کے بچے سے بھی کم ہے۔ ایک حاسد شخص ان نعمتوں کو حقیقی اور مقصود سمجھ کر ان کے حصول کو کامیابی اور ان سے محرومی کو ناکامی گردانتا ہے۔ وہ دنیا کی محبت اور حرص میں پاگل ہو جاتا اور دوسروں کی نعمتوں کو دیکھ کر جل اٹھتا ہے ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو حسد کرنے والے کا معترض ہونا بالواسطہ طور پر خدا کی تقسیم اور اس کی حکمت پر اعتراض کرنا ہے۔ لیکن یہ شخص حسد کی آگ میں جلتے جلتے خدا کی مخالفت بھی گوارا کر لیتا ہے۔

غرورو تکبر:
بعض اوقات غرور اور تکبر بھی حسد کا سبب ہوتا ہے بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی کامیابیوں سے جلتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی ہر نعمت اور کامیابی پر ان کی اجارہ داری اور ان کا حق ہے ۔اس سے نمٹنے کے لئے تکبر سے نجات ضروری ہے کہ استکبار صرف اللہ ہی کو زیبا ہے اور انسان کا تکبر اسے جہنم میں لے جا سکتا اور جنت کی ابدی نعمتوں سے محروم کر سکتا ہے۔لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ دنیاوی نعمتوں کی قربانی پر اکتفا کر لیا جائے۔ مزید یہ کہ تمام خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے وہ جس کو چاہے اور جس طرح چاہے نوازے۔ اس پر کسی قسم کا اعتراض براہِ راست اللہ تعالی کی حکمت پر اعتراض کے مترادف ہے۔

منفی سوچ:
کچھ لوگوں کی سوچ منفی خیالات پر ہی مشتمل ہوتی ہے ۔ یہ لوگ ہر مثبت یا نیوٹرل بات میں منفی پہلو نکالنے اور نکتہ چینی کے ماہر ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ کسی کی کامیابی پر ناخوش اور اس کی نعمتوں میں کیڑے نکالتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ زندگی کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کر کے لوگوں کی کامیابیوں کو سراہا جائے اور ان کی خوشیوں میں شریک ہو کر اپنے حسد اور منفی طرزِعمل کی تطہیر کی جائے۔

تنگ دلی:
 دل کی تنگی بھی اَسباب حسد میں سے ہے۔ بعض اوقات نہ تو انسان میں تکبر ہوتا ہے اور نہ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے،لیکن جب اس کے سامنے کسی پر اللہ کے انعام یا احسان کا تذکرہ کیا جائے تو اسے یہ بات بری معلوم ہوتی ہے اور جب کسی شخص کی بدحالی یا مصیبت کا تذکرہ کیا جائے تو اُسے خوشی محسوس ہوتی ہے۔ لوگوں کی بدحالی اُسے بھلی لگتی ہے اور خوشحالی اُسے غمگین کر دیتی ہے وہ بندوں پراللہ کی نعمتوں کا بخل کرتا ہے حالانکہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہوتی اور اس کے اس موجود نعمتوں میں کچھ کمی بھی نہیں ہو رہی ہوتی تو یہ نفس کی خباثت اور شرانگیزیاں ہیں جو انسان کو اس بُرے کردار و عمل کی طرف لے جاتی ہیں اور نفس کا پہلے پہل یہی کام ہوتا ہے کہ وہ انسان کو بُرائی پر اکساتا ہے۔
( مزید معلومات کے لیے "تنگ دلی" کے اعنوان سے سابقہ مضمون کا مطالعہ کریں)

علم وفن میں برتری کی خواہش:
بعض اَوقات انسان اپنے فن، علم، حیثیت، عہدے، دین اور صلاحیتوں میں ممتاز ہوتا ہے، یگانۂ روز گار ہوتا ہے اور جب اُسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور علاقے یا جگہ میں اس کی طرح کا ایک اور انسان موجود ہے تو اس کے دل میں حاسدانہ جذبات نمو پانے لگتے ہیں۔یا اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے اور وہ اُس فرد کے مرجانے یا اس کی نعمت کے زائل ہو جانے کی تمنا کرنے لگتا ہے اور یہ جذبات حسد کا شاخسانہ ثابت ہوتے ہیں۔

بغض وعناد:
بغض و عداوت بھی حسد کی وجہ بن جاتے ہیں۔ انسان کسی کے خلاف دل میں غصہ یادشمنی پال لے اور اس کو ختم کرنے پر آمادہ نہ ہو تو وہ کینہ بن جاتا ہے۔اس سے انتقام کا جذبہ جنم لیتاہے اور حضرت انسان کو اپنے دشمن کا نقصان اور مصیبت اچھی لگتی ہے اور دشمن کو ملنے والی نعمت یابھلائی اُسے بری لگتی ہے اور وہ اس کے ختم ہو جانے کی آرزو کرتا ہے اور یہی تو حسد ہے۔ گویا عداوت، کینہ اور حسد لازم و ملزوم ہیں اور جس نے حسد کی بیماری کا علاج کیا ہے اُسے عداوت اور بغض کا علاج بھی کرنا ہوگا، کیونکہ اگر اسباب باقی رہے تو بیماری کبھی بھی پلٹ کر حملہ آور ہوسکتی ہے۔حسد کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اَسباب کا خاتمہ ضروری ہے۔

بد گمانی:
بدگمانی بھی حسد کا ایک بڑا سبب ہے،قرآن پاک میں تجسس اور بد گمانی سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے، انسان اپنے دل میں کسی شخص کے بارے میں ایسے نظریات قائم کر لیتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، پھر اسی کے سہارے حسد کی ایک ایسی دیوار تعمیر ہوتی ہے جو آپسی محبت و مودت کے درمیان ہمیشہ کے لیے حائل ہو جاتی ہے۔(مزید تفصیلات کے لئے بد گمانی سے متعلقہ سابقہ مضمون کا مطالعہ کریں)

جادو کی وجہ:
جادو کی ایک بڑی وجہ حسد ہے۔جادو کفر اور جادوگر کافر ہے۔اس کی سزا قتل ہے۔ گویا حسد میں مبتلا ہوکر اٹھایا جانے والا قدم حاسد کو دائرہ ایمان سے بھی خارج کر سکتا ہے۔
حاسد اپنے رب سے بدگمان ہوجاتا ہے۔تعلق باللہ میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے او یہ بہت بڑا نقصان ہے اور جو شخص اللہ رب العزت جیسی ہستی سے بدگمان ہوسکتا ہے اس کا انسانوں کے ساتھ کیسا معاملہ ہوگا۔

دنیاوی نقصانات:
حاسدکے تعلقات کسی کے ساتھ بھی خوشگوار نہیں رہ سکتے وہ ہرایک سے بدگمان ہونے لگتا ہے۔
حاسد دوسرے کا احترام نہیں کرسکتا نتیجتاً اُسے بھی احترام نہیں ملتا۔
حاسددوسروں کے لیے باعث عذاب ہوتا ہے ایسے لوگ خود مسکرانا جانتے ہیں نہ دوسروں کو مسکراتا دیکھ سکتے ہیں۔
حاسد خود پر اللہ کے فضل کو محسوس نہیں کرسکتا لہٰذا خوش نہیں ہوتا اور دوسروں پر اللہ کا فضل بھی برداشت نہیں کرسکتا اور ناشکرا بن جاتا ہے۔
حسد کی وجہ سے قطع رحمی جیسی شنیع قباحت پیدا ہوجاتی ہے۔
حاسد کی نظر کسی کوبھی لگ سکتی ہے۔ انسان کی نگاہ کی شعاعیں اثر میں سب سے زیادہ تیز ہیں۔ الٹرا ساؤنڈ مشین کی شعاعیں اندر تک کی رپورٹ لاسکتی ہیں، لیزر شعاعیں اندر سے مرض کی جڑ کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں توانسان کی نگاہ کی شعاعیں تاثیر میں ان سے بڑھ کر ہیں۔
حسد کی وجہ سے دو افراد کا باہمی اعتماد ختم ہوجاتاہے۔
حسد سے بداخلاقی، الزام تراشی اور بہتان جنم لیتے ہیں۔
حاسدسے کسی کی جان، مال، عزت و آبرو محفوظ نہیں ہوتی۔ حسد کی آگ حاسد کو محسود کے قتل پرآمادہ کرسکتی ہے۔ 
عداوت و بغض حسد کا اور حسد عداوت و بغض کا باعث بنتا ہے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔
خاندان تباہ اور گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔
جسمانی امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔
اسی لیے اہل جنت کے دلوں سے اللہ تعالیٰ کینے نکال دیں گے تاکہ وہ خوشیوں کا حقیقی لطف اٹھا سکیں۔نعمتوں پر حقیقی خوشی اور لذت جنت میں ہی محسوس ہوگی،کیونکہ وہاں کوئی حاسد نہیں ہوگا۔

اِنفرادی و معاشرتی نقصانات:
حاسد، محسود کے خلاف جب نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتا ہے،اور اس کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے نتائج صرف محسود کے حق میں برے نہیں ہوتے بلکہ حاسد کے لیے بھی یہ کیفیت انتہائی تباہ کن ہوتی ہے اس کے اثرات اِنفرادی اور معاشرتی سطح پر رونما ہوتے ہیں،چونکہ معاشرہ افراد سے تشکیل پاتاہے لہٰذا ایک فرد کا بگاڑ پورے معاشرے کے بگاڑ کا باعث بنتا ہے اور جس معاشرے کے اَفرادباہم حسد کرنے لگیں تو ان کے ذاتی نقصان کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ترقی کا عمل زوال پذیر ہونے لگتا ہے۔سب ایک دوسرے کواوندھے منہ گرانے کی کوشش میں ملک و قوم کے مفاد کو فراموش کردیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اندھی لگن مقصد سے غافل کردیتی ہے اور تمام تعمیری صلاحیتیں تخریبی قوتوں میں بدل جاتی ہیں۔ 
صلاحیتیں کند ہوکر ضائع ہوجاتی ہیں۔ ایسے افراد مثبت سوچ اور تعمیری فکر سے محروم ہوجاتے ہیں۔وہ اپنے حال ومستقبل کو بہتر سے بہترین کی طرف لے جانے کی بجائے موجودہ حالت سے بھی کئی گنا پیچھے چلے جاتے ہیں۔
ذہن انتشار کا شکار ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں کبھی مایوسی اور کبھی ڈیپریشن غلبہ پالیتا ہے۔
شخصیت عدم توازن کا شکار ہوکر ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔
دلوں میں حسد پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ خوف خداکا نہ ہونا بھی ہے، صاف دل اور پاکیزہ خصلت افراد کبھی کسی کی نعمت پر حسد نہیں کرتے، وہ تو سب کی بھلائی اور خیر خواہی چاہتے ہیں،اس کے علاوہ دیگر اسباب بھی ہو سکتے ہیں ۔

حاسد کی چال:
ایک حاسد شخص کسی خاص شخص کے حسد میں مبتلا ہو جاتا ہے اور تب تک سکون سے نہیں بیٹھتا ہے جب تک کہ اپنے مدّمقابل کو براہِ راست چند طنزیہ جملے نہ کہہ لے۔ یہ اپنی باتوں اور اپنے ریمارکس سے مدّمقابل کو پریشان کر کے خوش ہوتا ہے۔ اس طرح کی باتوں اور حرکتوں سے متاثرہ شخص بعض اوقات اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور اس میں خود اعتمادی کی کمی آ جاتی ہے۔حاسد شخص کو اس وقت خوشی ہوتی ہے جب اس کا مدّمقابل کسی معاملے میں ناکام ہو جاتا ہے مگر یہ بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی کہ اگر مدِّمقابل کا کوئی نقصان ہوتا ہے تو حاسد کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ ’’اگر میں نہیں جیت سکا تو تمھیں بھی جیتنے نہیں دُوں گا۔‘‘ بہرحال یہ تو طے ہے کہ حاسد شخص کبھی فاتح نہیں ہوتا ہے۔حسد سے بچنے کے لیے آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے اِردگرد ایک حفاظتی حصار قائم کریں۔ کبھی بھی غلط ریمارکس کا اثر قبول نہ کریں اور نہ انھیں اہمیت دیں۔ آپ کو خود بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں آپ بھی حسد میں تو مبتلا نہیں ہیں۔

حسد کے نقصانات:
حسد بظاہر ایک گناہ ہے لیکن وہ متعدد گناہوں کا مجموعہ اور دنیا و آخرت کی تباہی و بر بادی کا ذریعہ ہے،حاسد محسود کی نعمتوں کے زوال کا خواہش مند ہوتا ہے،حسد کا جذبہ اسے اپنے اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہر اس عمل پر ابھارتاہے جس کے ذریعہ محسود کو تکلیف پہنچے، بسا اوقات وہ حسد کے نتیجے میں قتل و غارت گری تک بھی پہنچ جاتا ہے، حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والتسلیم کے بیٹے ہا بیل و قابیل کے درمیان پیش آنے والا قتل کا واقعہ بھی حسد ہی کا نتیجہ تھا۔
حسد حاسد کو حق بات قبول کر نے سے روکتا ہے، محسود کے ذریعہ کہی گئی حق بات بھی وہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، بلکہ وہ حسد کی وجہ سے مزید سر کشی پر آمادہ ہو جاتا ہے، انسان حسد میں گرفتار ہو کر حق و باطل کے در میان امتیاز کھو بیٹھتا ہے۔ ابلیس نے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والتسلیم سے حسد کیا، حسد نے اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری سے روکا اور دنیا وآخرت میں ہمیشہ کے لیے ذلیل ہوا۔حاسد محسود کو ذلیل کرنے کے تمام حربے اپناتا ہے، دوسروں کی نظر میں اسے ذلیل اور بے وقعت کرنے کے لیے غیبت، چغل خوری اور بہتان تراشی جیسے افعال کا عادی ہو جاتا ہے، جب کہ یہ چیزیں گناہ ہیں۔حسد حاسد کو اپنے بھائیوں کے حقوق کو پامال کرنے پر آمادہ کرتا ہے، حالاں کہ حاسد کے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے انعامات کو روکنے کی قوت نہیں ہوتی، نتیجہ کے طور پر اس کو افسردگی اور بے چینی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا، حاسد کی زندگی بدحال، بدمزاج اور پریشان حال گزرتی ہے، وہ کبھی بھی خوشی کی زندگی نہیں گزار پاتا، کبھی وہ مال ودولت کے حصول کے لیے سر گرداں رہتا ہے تو کبھی دوسروں کی خوش حالی دیکھ کر پریشان، در حقیقت حاسد پر یہ اللہ کا دنیاوی عذاب ہے۔غرض کہ حسد بے شمار دنیاوی و اخروی پریشانیوں کا سبب ہے۔

حسد کی چند مثالیں:
حسد ایک ایسی برائی ہے جو آغاز کائنات سے چلی آرہی ہے۔تاریخی مطالعہ سے ہمیں حسد کی کچھ مثالیں ملتی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کیا ہے۔
اِبلیس کا انسان سے حسد:
آسمان میں سب سے پہلا جو گناہ سرزد ہوا وہ حسد تھا، جو ابلیس نے سیدنا آدم علیہ السلام سے محسوس کیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سمیت ابلیس کو آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کہا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:
قَالَ اَنَا خَیْرٌمِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (ص:۷۶)
’’کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیاہے اور اس کو مٹی سے تخلیق کیا ہے۔‘‘

اس نے سوچا کہ جو مقام سیدنا آدم علیہ السلام کو عطا کیا گیا ہے وہ اصل میں تو میرا حق تھا۔ میں اعلیٰ عنصر یعنی آگ سے تخلیق کیا گیا ہوں اور آدم ؑ کو ادنیٰ عنصر یعنی مٹی سے بنایا گیا ہے تو تخلیقی اعتبار سے اور عبادت و ریاضت کے لحاظ سے میںاس مرتبہ کا حقدار تھا جس پر آدمؑ کو فائز کیا گیا ہے۔مجھ سے کمتر مخلوق کو مجھ پر برتری دی گئی ہے۔ اس نے تکبر بھی کیا اور احساس کمتری میں بھی مبتلا ہوا۔ لہٰذا حسد میں مبتلا ہوکر اس نے خالق بشر کو چیلنج کردیا کہ میں تیری اس مخلوق کو راہ راست سے بھٹکا کر رہوں گا جس صفت کی بنیاد پر آدم ؑ کو مجھ پربرتری دی گئی ہے اس کی اُسی صفت کو میں تیری نافرمانی میں استعمال کرواؤں گا۔
سیدنا آدم کو سجدہ نہ کرنے کے جرم میں اللہ نے ابلیس لعین کو جنت سے نکل جانے کا حکم دیا۔چنانچہ دنیا کے سب سے پہلے حاسد نے آدم ؑ و بنی آدم کو اُسی جنت سے نکالنے کا ہدف طے کیا تھا اور آج تک وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں مصروف عمل ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر یہ واقعہ بیان کیاگیا ہے۔ آج جو بھی مبتلائے حسد ہے وہ اوّلین حاسد ابلیس کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور ابلیس کی طرح وہ بھی اللہ سے شکوہ کناں ہوتا ہے کہ نوازے جانے کا حق دار تو میں تھا تونے دوسرے کو یہ فضیلت کیوں عطا کی؟فضیلت اور برتری کے خواہش مند ابلیس کے حسد نے اُسے کس انجام بد سے دوچار کیا تھا؟یقینا اس بر ے انجام سے انسان کو ڈرنا چاہیے۔

قابیل کا ہابیل سے حسد:
زمین پر بھی سب سے پہلا گناہ حسد کی وجہ سے ہوا۔ جس کے نتیجے میں قابیل نے اپنے سگے بھائی ہابیل کو قتل کردیا گویا پہلا قتل حسد کا نتیجہ تھا۔کتب تفاسیر میں آتا ہے کہ قابیل اور ہابیل دونوں نے اللہ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی۔ ہابیل کی قربانی عمدہ اور قابیل کی ردّی اور بے کار تھی۔ دونوں نے قربانیوں کو میدان میں رکھا تو ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلا دیا جو کہ قبولیت کی علامت تھی جبکہ قابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے نہیں جلایا۔چنانچہ اسی حسد میں کہ ’’ہابیل کی قربانی کیوں قبول ہوئی ہے؟‘‘ قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا حالانکہ کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کی اِصلاح کر لیتا۔ سورہ مائدہ میں اللہ نے اس واقعہ کا تفصیلی ذکر کیا ہے:

وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الاٰخَرِ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اﷲُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ۔(المائدۃ:۲۷)
’’اور ان کو آدم کے بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنائیے جب دونوں نے قربانی پیش کی تو ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ اُس (قابیل) نے کہا۔ میں ضرور تمہیں قتل کردوں گا۔ اُس (ہابیل) نے کہا اللہ پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے۔"

قابیل کو یہ حسد محسوس ہوا کہ ہابیل کا درجہ و قبولیت بارگاہ الٰہی میں بڑھ گیا ہے حالانکہ ہابیل نے اس کی وجہ بیان کردی تھی کہ ’’اللہ پرہیزگاروں سے قبول کرتا ہے۔‘‘ ہابیل کی عمدہ قربانی اور خالص نیت نے اُسے بارگاہ اِیزدی میں قرب و شرف عطا کیا تھا۔پیچھے رہ جانے اور ناکامی کے احساس نے قابیل کو ہابیل کے قتل پراُکسایا۔ حالانکہ کرنے کا کام یہ تھا کہ وہ اپنی غلطی کی اِصلاح کر لیتا۔ حسد کی یہ قسم ہمارے معاشرے میں اُس جگہ پائی جاتی ہے جہاں افراد کسی بااختیار ہستی کی نظر میں بلند مقام،قرب و شرف کے متلاشی ہوتے ہیں۔خواہ وہ کلاس روم ہو،دفتر ہو،ادارہ ہو یا گھر ہو اور قابیل کی طرح وہ اپنے ساتھی کو ترقی کرتا دیکھ کر احساس ناکامی و نامرادی میں گھر کر اُسے نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے ہیں۔

برادرانِ یوسف کا یوسف ؑسے حسد:
تاریخ سے حسد کی ایک اور بڑی مثال برادرانِ یوسف کی ملتی ہے۔ حضرت یوسفؑ اپنی بہترین عادات،اعلیٰ کردار اور معصوم وبے مثال حُسن کی وجہ سے اپنے والد حضرت یعقوبؑ کی آنکھ کا تارا تھے۔ بھائیوں کو اپنے والد کی یوسف ؑسے بے پناہ محبت ناگوار گزرتی تھی اور انہوں نے یوسف ؑ کے قتل کا ارادہ کیا جو بعد میں بڑے بھائی کے مشورے پر بدل دیا اور انہوں نے یوسف ؑ کو کنویں میں پھینکنے پر اکتفا کیا۔ سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:
اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلحِیْنَ۔(یوسف:9)
’’مار ڈالو یوسف کو یا کہیں پھینک آؤ تا کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو یوسف کے بعد تم لوگ اچھے رہو گے۔‘‘
مگر اس سب کے باوجود نہ تو وہ والد کی آنکھ کا تارا بن سکے نہ یوسف ؑ کے مقام کو پہنچ سکے۔ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے بلکہ اللہ نے انہی اسباب سے یوسف ؑ کو پیغمبری اور بادشاہی سے سرفراز کیا۔
یہود و نصاریٰ کا اسلام اور اہل اِسلام سے حسد
یہود ونصاریٰ اسلام،اہل اسلام،نبی معظم اور قرآن سے دلی طور پر بغض وحسد رکھتے ہیں اور ان کا یہ خبث باطن اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ علمائے یہود منتظر تھے کہ آخری نبی ہم میں یعنی بنی اسحاق میں مبعوث ہوگا۔ مگرجب اللہ نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت آخری نبی بنی اسماعیل میں مبعوث فرمایا تو یہود بنی اِسماعیل کی برتری برداشت نہ کر سکے۔ وہ اپنی سرداری اور برتری کے زعم میں مبتلا تھے، لہٰذا نبی مرسل ﷺ پر ایمان لانے کی بجائے حسد کرنے لگے۔ قرآن اس کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے۔

وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الَانَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ۔(آل عمران:119)
’’اور جب وہ اکیلے ہوتے ہیں تو غصہ کے مارے تم پر اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ آپ کہو کہ تم اپنے غصہ میں جل مرو۔‘‘
اسی حسد کی وجہ سے یہود نے نبی اکرم ﷺ پر کئی قاتلانہ حملے بھی کئے، جادو کیا۔ قرآن کو وحی ماننے سے انکار کیا، دین اسلام پراعتراضات کئے، شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی اور اہل اسلام کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھا۔اہل کتاب آج تک اس حسد میں جل رہے ہیں اور جلتے رہیں گے۔ فضیلت اور برتری کا خود ساختہ زعم انہیں لے ڈوبا ہے۔

مشرکین مکہ کا قرآن اور اہل قرآن سے حسد: 
مشرکین مکہ بھی اپنی سرداری اور برتری کے زعم میں گرفتار تھے وہ اپنے سوا یا اپنے قبیلے کے کسی آدمی کے سوا کسی دوسرے شخص کا چراغ جلتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔اسی لیے جب نبیﷺنے اعلان نبوت کیا تو وہ بنو ہاشم کی برتری برداشت نہ کرسکے۔ابوجہل رسول اللہﷺکی مخالفت کی وجہ خود بیان کرتا ہے کہ 
’’ہمارا اور بنی عبدمناف کا باہم مقابلہ تھا۔ انہوں نے کھانے کھلائے توہم نے بھی کھلائے، انہوں نے لوگوں کو سواریاں دیں تو ہم نے بھی دیں، انہوں نے عطیے دیئے توہم نے بھی دیئے،یہاں تک کہ وہ اور ہم جب عزت و شرف میں برابر کی ٹکر ہوگئے تو اب وہ کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے۔بھلا اس میدان میں ہم کیسے ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ خدا کی قسم …! ہم ہرگز نہ اس کو مانیں گے اور نہ اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘ (ابن ہشام:جلد۱وّل)
اس پر کفارِ مکہ نے اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں حد کردی۔نبی ﷺ کے قتل کے منصوبے بنائے۔شعب ابی طالب میں محصور کیا۔ مسلمانوں پر مکہ کی سرزمین تنگ کردی۔ قرآن کا انکار کیا اور جنگیں لڑیں۔ ان سب افعال کا محرک ’حسد‘ تھا۔

ذاتی محاسبہ 
جس طرح حسد کا علاج ضروری ہے اُسی طرح خود حسد کرنے سے بچانا بھی از حد ضروری ہے۔ اگر کوئی آپ سے حسد کرتا ہے تو اس کو روکنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے مگر اپنے نفس کو حسد میں مبتلا ہونے سے روکنا اختیار میں ہوتا ہے۔ پس ہر ایک کو اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ ’’یہ بیماری میرے اندر تو نہیں ہے؟‘‘ ہر شخص کے اندر تھوڑی یا زیادہ ، یہ بیماری پائی جاتی ہے۔ البتہ عقل مند ہیں وہ انسان،جو اس کا اِدراک کرکے اس پر قابو پالیتے ہیں اور تعمیری سرگرمیوں میں مصروف عمل ہو جائے ہیں۔ ان مواقع پر اپنا جائزہ لیں۔
جب آپ کسی کو حالت نعمت یا خوشی میں دیکھتے ہیں تو …!
"کیا آپ خوش ہوتے ہیں؟
اگر ہاں تو، الحمدﷲ یہ مؤمنانہ صفت ہے۔
کیا آپ مایوس اور غمگین ہوجاتے ہیں؟
جلتے کڑھتے ہیں؟ ڈیپریشن ہونے لگتا ہے؟
اُس سے نعمت چھن جانے کی آرزو کرتے ہیں؟
اس کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟
اگر ان سوالوں کے جواب ’ہاں‘ میں ہیں تو یہ خطرہ کی گھنٹی ہے۔کسی ایک سوال کا جواب بھی ہاں میں ہے تو آج سے اور ابھی سے اصلاح کا آغاز کر دیجئے،کیونکہ حسد کے بیج موجود ہیں۔ ان کو پھیلنے پھولنے سے روک لیں۔
جائزہ کے بعد اگر معلوم ہو کہ یہ بیماری میرے اندر بھی ہے تو پھر بیماری کا علاج شروع کر دیجئے،جب مرض کا علاج نہ کیا جائے وہ پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

حسد کاعلاج:
پہلے مرحلے میں آپ حسد کی نوعیت اور اس کا سبب معلوم کریں
پہلے مرحلے میں یہ معلوم کریں کہ آپ حسد کا شکار ہیں یا نہیں۔اسکا ٹیسٹ یہ ہے کہ اگر آپ کو دوسروں کی تکلیف پر خوشی اور انکی کامیابی پر دکھ ہوتا ہے یا آپ اس کے نقصان کے متمنی اور اسکی نعمت چھننے کے منتظر ہیں تو آپ حسد میں مبتلا ہیں۔پھر اس سبب کے مطابق اس کا تجویز کردہ علاج آزمائیں۔اس کے ساتھ ہی ذیل میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔

* سب سے مضبوط قلعہ اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔
حاسد نے جو کچھ آپ کے ساتھ کیا وہ اس کے علم اور ظرف کے مطابق تھا۔ آپ اپنے علم اور ظرف کے مطابق جوابی رد عمل ظاہر کردیں۔ خیر خواہی کے علاوہ کچھ نہ چاہیں۔
خوف ِ خدا اور تقویٰ کی روش پر قائم رہیں۔
جب کبھی موقع ملے تو حاسد کے ساتھ احسان یا بھلائی کا معاملہ کریں۔ قطع نظر اس کے کہ اس سے حاسد کے حسد میں کمی ہو رہی ہے یا نہیں؟
کچھ معاملات میں رازداری سے کام لیں۔ کام کرنے سے پہلے اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹنا شروع کر دیں۔
حسد کے جواب میں حسد کرنا یا غیر شرعی طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔
رسول اللہﷺ سے مسنون دعائیں ثابت ہیں جو حسد سے اور نظر ِ بد سے بچاؤ کے لیے ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئیں۔ مثلاً :معوذتین پڑھیں:
عبداللہ بن عابس الجہنی کی روایت نسائی، بیہقی، بغوی اور ابن سعد نے نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’ابن عابس، کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ پناہ مانگنے والوں نے جتنی چیزوں کے ذریعے سے اللہ کی پناہ مانگی ہے ان میں سب سے افضل کون سی چیزیں ہیں؟میں نے عرض کیا ضرور یارسول اللہﷺ! فرمایا:
{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ}اور {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ}یہ دونوں سورتیں۔‘‘ (سنن نسائی:۸۶۳،حکم البانی صحیح)
ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ پر یہ دُعا پڑھتے تھے۔
"أعیذکما بکلمات اﷲ التامۃ من کل شیطان وھامۃ ومن کل عین لامۃ"
میں تم کو اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان اور موذی سے اور ہر نظر بد سے۔‘‘ (صحیح بخاری:3371 ،سنن ابو داود:4737 حکم البانی صحيح)
اسی طرح دیگر دعائیں کتب احادیث میں موجود ہیں ان کو صبح و شام پڑھنے کا اہتمام کریں ۔ 

* حسد کی بیماری کا علاج یہ بھی ہے کہ وہ شخص یہ تصور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں اپنی خاص حکمتوں اور مصلحتوں سے انسانوں کے درمیان اپنی نعمتوں کی تقسیم فرمائی ہے کسی کو کوئی نعمت دے دی، کسی کو کوئی نعمت دیدی’ کسی کو صحت کی نعمت دے دی تو کسی کو مال و دولت کی نعمت دے دی، کسی کو عزت کی نعمت دے دی تو کسی کو حسن و جمال کی نعمت دے دی، کسی کو چین و سکون کی نعمت دے دی اور اس دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں ہے جس کو کوئی نہ کوئی نعمت میسر نہ ہو اور کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔
اردو میں ایک مثل مشہور ہے کہ ”اللہ تعالیٰ گنجے کو ناخن نہ دے” یہ بڑی حکیمانہ مثل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں مال و دولت کی نعمت حاصل نہیں ہے’ اگر تم کو مل جاتی تو ناجانے تم اس کی وجہ سے کیا فساد برپا کرتے اور کس عذاب میں مبتلا ہو جاتے اور اس کی کیسی ناقدری کرتے اور تمہارا کیا حشر ہوتا اب اگر اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت تمہیں نہیں دی ہے تو کسی مصلحت کی وجہ سے نہیں دی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے جس کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ اُتنا ہی زیادہ پریشان ہے اور جس کے پاس جتنی زیادہ دنیاوی تعلیم ہے وہ بھی اُتنا ہی زیادہ پریشان ہے کہ تعلیم کے مطابق ملازمت نہیں ملتی۔وغیرہ

* وہ مادی چیزیں جو آپ کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد کریں۔

* نفس کو جبراََ غیر کی نعمتوں کی جانب التفات سے روکیں اور ان وسوسوں پر خاص نظر رکھیں۔

* محسود(جس سے حسد کیا جائے) کے لئے دعا کریں کہ اللہ اس کو ان تمام امور میں مزید کامیابیاں دے جن پر آپ کو حسد ہے۔
اور ساتھ ساتھ اپنے حق میں بھی دعا کرے کہ یا اللہ میرے دل میں اس کی نعمت کی وجہ سے جو کڑھن اور جلن پیدا ہو رہی ہے اپنے فضل و رحمت سے اس کو ختم فرما۔
البتہ جائز چیزوں کے متعلق ہی دعا کی جائے کیونکہ ناممکن چیزوں کی خواہش سے ذہن مزید پراگندگی کا شکار ہو سکتا ہے۔

* محسود سے محبت کا اظہار کیجئے اور اس سے مل کر دل سے خوشی کا اظہار کریں۔
ممکن ہو تو محسود کے لئے کچھ تحفے تحائف کا بندوبست بھی کریں۔
اگرپھر بھی افاقہ نہ ہو تو ہو تو محسود سے مل کر اپنی کیفیت کا کھل کر اظہار کردیں اور اس سے اپنے حق میں دعا کے لئے کہیں۔لیکن اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کہیں بات بگڑ نہ جائے۔

* سوچ کو بدلیں، منفی کے بجائے مثبت اندازِ فکر اپنایا جائے۔کسی اچھی چیز کو دیکھ کر ماشاء اللہ پڑھیں۔ اور جیسے ہی کسی کے متعلق حسد کا شبہہ ہو تو فورا برکت کے جملے اس کے حق میں ادا کریں۔

* اپنی نعمتوں پر نظر رکھیں۔ دوسروں کی نعمتوں پرنظر نہ رکھیں۔
حسد کو رشک میں تبدیل کردیں مگر یہ یاد رہے کہ رشک صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔
اچھا مطالعہ کریں۔ وسعت فکر سے وسعت ظرف بھی پیدا ہوگا اور وسعتِ قلب بھی نصیب ہوگا۔
اچھے دوستوں کا انتخاب کریں جو آپ کو اللہ سے قریب کرنے والے ہوں۔ آپ کے ایمان کے محافظ ہوں اور آپ کی خامیوں کی اصلاح کرنے والے ہوں۔
تذکیر کے لیے اچھی مجالس و محافل میں شرکت کریں۔
صاحب نعمت کے حق میں ضرور دعا کریں بلکہ اسی موقع پر اس کو دعائیہ کلمات سے نوازیں۔
نفس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔ أعوذ باﷲ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا....
نفس کی رذیل خواہشات کو کچلنے کی عادت پیدا کریں وگرنہ نفس اَمارہ تو بُرائی پہ ہی اُکساتا ہے اور اگر نفس ہم پر غلبہ پالے تو پھر معاذ اللہ۔
حسد دل کی بہت بڑی بیماریوں میں سے ہے اور اَمراض قلوب کا علاج علم و عمل سے ہوتا ہے۔
اپنی نعمتوں اور صلاحیتوں پر اللہ کا شکر اَدا کریں۔ان کو محسوس کریں اور جو فضیلت اور برتری اللہ نے کسی اور کو عطا کی ہے، اس کا اعتراف کریں۔
ہرنعمت اور صلاحیت کی تمنا مت کریں۔ اللہ کا ارشاد ہے:
{وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اﷲُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ} (النساء:۳۲)
"اوراس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعﺚ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر بزرگی دی ہے۔"
جب کبھی کسی کے خلاف حاسدانہ جذبات پرورش پانے لگیں تو اس کو شیطان کا وسوسہ سمجھ کر استغفار کریں۔ رجوع الی اللہ کریں۔ اس سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ سے دعا کریں۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو حسد اور حاسد سے محفوظ رکھے۔آمین

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...