Saturday 23 September 2017

تزکیہ نفس کیا ہے اور کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟

تزکیہ نفس کیا ہے اور کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟

سلسلہ:تخلیق انسان اور نظریہ ارتقاء کی حقیقت#109

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

نفس اور اس کی اقسام بیان کرنے کے بعد ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ قارئین کو تزکیہ نفس کے حوالہ سے بھی کچھ مختصر معلومات پہنچا دی جائے ۔اگرچہ یہ ہمارا موضوع نہیں ہے کہ ہم اس پر تفصیلی بات کریں۔لہذا مکمل تفصیلات کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کریں ۔

تزکیہ کا مادہ عربی زبان میں "ز' ک' و" ہے۔ لفظ زکوۃ اسی سے ہے جو عربی اور اردو میں عام مستعمل ہے۔ جسے ہم عرف عام میں ’زکوۃ‘کہتے ہیں وہ دراصل ’زکوۃ المال‘ ہے یعنی مال کی زکوۃ نکالنا۔ ز ' ک 'و ، میں لغوی لحاظ سے دو مفہوم شامل ہوتے ہیں: ایک اسے میل کچیل سے اور گردوگندگی سے پاک وصاف کرنا اور دوسرے اس کی چمک دمک میں اضافہ کرنا، اسے جلا دینا۔ گویا زکوۃ المال کا مفہوم یہ ہے کہ مال کماتے ہوئے اور اسے خرچ کرتے ہوئے ہم سے جو کوتاہی ہو گئی، جو معصیت ہو گئی مال پر سے اس کے برے اثرات مٹانے کے لیے کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کر دینا تا کہ وہ پاک وصاف ہو جائے، اجلا ہو جائے۔ ہمیں یاد آجائے کہ مال تو دراصل اللہ تعالیٰ کا ہے ہم تو محض اس کے امین ہیں اور ہمارا کام یہ ہے کہ اسے کمانے اور خرچ کرنے میں اللہ تعالیٰ (یعنی اصل مالک) کے احکام وتعلیمات کا خیال رکھیں، تاکہ ہمارے دل مال کی بڑھی ہوئی اور اپنی اصل سے تجاوز کرتی ہوئی اس کی محبت سے پاک ہو جائیں اور جو لوگ کسی وجہ سے مال کمانے میں پیچھے رہ گئے ہیں، ان محتاجوں اور مسکینوں کی کچھ مدد بھی ہو جائے۔

اسی طرح جب تزکیے کی نسبت نفس کی طرف ہو اور ہم ’تزکیۂ نفس‘ کی اصطلاح استعمال کریں تو اس کا مطلب ہوتا ہے نفس کو میل کچیل(گناہوں) سے بچانا اور اس کے اجلے پن میں اضافہ کرنا ،اور اس کو نشوونما دے کر پروان چڑھایا جائے۔ اور اللہ کی تعلیمات پر کما حقہ عمل کر کے اسے مزید اجلا کرنا۔
اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ نفس کی ایسی تربیت اور ایسی حالت کہ وہ طبعاً اور بخوشی ان باتوں پر عمل کرنے لگے جن کا اللہ حکم دیتا ہے (یعنی اوامر) اور ان امور سے بچنا پسند کرنے لگے جن سے بچنے کا اللہ حکم دیتا ہے (یعنی نواہی)۔

تزکیۂ نفس، قرآن مجید کی ایک معروف اصطلاح ہے۔  اگر قرآن کریم کی ساری تعلیم کو نفس انسانی کے حوالے سے ہم ملخص کرنا چاہیں تو دو تین نکات کی صورت میں اس کو بیان کیا جا سکتا ہے۔
ایک تو اس کائنات سے متعلق اور اس کائنات کے مالک سے متعلق اور بطور ایک مخلوق کے خود انسان سے متعلق کچھ ایسے حقائق کی یاد دہانی اور تذکیر جن کو جاننا اور ماننا اور ان کے مطابق عمل کرنا انسان کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ الحمد سے لے کر الناس تک آپ قرآن کے سارے مطالب کا خلاصہ نکالیں تو بنیادی نکتہ یہی ہوگا۔ کہ انسان کو یہ رہنمائی فراہم کی جائے کہ اس دنیا اور اس کائنات سے متعلق اور خود انسان سے متعلق وہ کون سے بنیادی حقائق ہیں جن کی صحیح معرفت انسان کی نجات کے لیے، اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ حقائق جو بیان کیے گئے، ان کا مخاطب نفس انسانی ہے۔
انسانی جسم میں روح کو ایک خاص مقام و فضیلت حاصل ہے۔یہ روح اگر عقل اور بدن کو متوازن نہ رکھے ،بلکہ خود بہکنے لگے یا شیطانی وساوس اور برائیوں کی طرف مائل ہونے لگے تو اس کا اثر انسان کی پوری شخصیت پر ہوگا ۔پھر وہی انسان جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا تھا دنیا کا رذیل اور خسیس سمجھا جائے گا اور جسے اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بناکر دنیا میں بھیجا تھا وہ نفسانی خواہشات کا غلام بن کر شیطان کی ترجمانی کرنے لگے گا۔ اس لحاظ سے نفسِ انسان کا تزکیہ لازمی ہے تاکہ اس کا نفس پاک و صاف ہو کر  اللہ کا قرب حاصل کرکے کامیابی کی منزل پاسکے۔

ہمارے نفس میں ہر دم خیر وشر کی کشمکش برپا ہے۔ مہد سے لے کر لحد تک ہمیں زندگی کے ہر ہر مرحلے میں خیر و اصلاح اور شر وفساد میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ گھر کے معاملات ہوں یا کاروباری امور ہوں یا باہمی روابط کے عام تقاضے، یا عبادات وغیرہ  ہر صورت میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ نیکی کی راہ اختیار کی جائے یا بدی کی۔ زندگی کی یہی کشمکش ہے، جہاں دین چاہتا ہے کہ مسلمان کے نفس میں نیکی کا داعیہ اور جذبہ قوی تر اور برائی کا رجحان اور اس کی طرف میلان کمزور ہو جائے۔ برائی مغلوب اور نیکی کی حیثیت ایک غالب قوت کی ہو، یہاں تک کہ خیر و شر کی اس کشمکش میں شر شکست کھا جائے اور خیر کو فتح حاصل ہو۔
اس معاملے میں ادھر اُدھر سے ترکیبیں پوچھنے کے بجائے اس راستے پر گامزن رہنا چاہیے جو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے اور جس پر صحابۂ کرام چلے۔
تزکیہ نفس کے لیے ہمارے نزدیک سب سے اعلیٰ و ارفع نمونہ و عمل اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات با برکت ہے۔ اعلیٰ ترین صفات کا اس قدر حسین امتزاج ہمیں کسی اور شخصیت میں نظر نہیں آتا۔
کیونکہ رسول اکرم ﷺ پر نوع انسانی کی اصلاح کےحوالے جو اہم ذمہ داری ڈالی گئیں ان میں سے ایک خاص تزکیہ نفس یا انسانی ہے۔
اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے ایمان ، عمل اور اخلاق کو پاکیزہ بنائے اور اس کا طریقہ قرآن مجید کی تعلیمات کو سمجھنا ، ماننا اور اپنانا ہے۔ چونکہ یہ سارا عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک کامل نمونے کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتا ہے اس لیے وہی سمجھ، رویہ ، ایمان اور عمل معتبر ہے جو حضور ﷺکے اسوہ کے مطابق ہو۔
قرآن مجید ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ تزکیۂ نفس کے اس عمل کا نقطۂ کمال کیا ہے۔ اس کے نزدیک نفس مزکیٰ کی آخری منزل نفس مطمئنہ ہے اور نفس مطمئنہ’راضیۃ مرضیۃ‘ کی بادشاہی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: 
یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُ. ارْجِعِیْٓ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً. فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ. وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ. (الفجر ۸۹: ۲۷۔۳۰) 
’’اے نفس مطمئن، اپنے رب کی طرف آؤ۔ اس طرح کہ تو اپنے رب سے راضی اور تیرا رب تجھ سے راضی۔ میرے بندوں میں شامل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ۔‘‘

نفس کے اندر صحیح اور غلط کو پہچاننے کا خاصا موجود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے:
وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا۔فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ۔قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا۔وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ۔
"اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا۔پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی۔کہ جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا۔اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا۔"(سورہ الشمس آیت:7تا 10)
یہ آیات بیان کر رہی ہے کہ اچھے اور برے کی سمجھ انسان کے اندر اللہ رب العزت نے ودیعت کر رکھی ہے۔اور جس نے اس سے رہنمائی لی وہ کامیاب ٹھہرا ۔
سب سے پہلے اپنا محاسبہ کر کے دیکھنا کہ ہم میں کیا کیا برائیاں ہیں اور پھر انہیں دور کرنے کی کوشش کرنا ۔ اور پھر یہ دیکھنا کہ ہم میں کیا کیا اچھائیاں نہیں ہیں اور پھر انہیں اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرنا ۔ 
جو عقل مند شخص اس مہم کا بیڑا اٹھا لے کہ اپنے نفس سے برائیاں دور کروں اور اس میں اچھائیاں پیدا کروں ، اس کے لیے سب سے زیادہ غور طلب امر یہی ہو جاتا ہے کہ وہ کون کون سے اعمال ہیں جو مجھے اس مہم کامیاب ہونے میں امداد دے سکتے ہیں اور وہ کون کون سے افعال ہیں جن کو اگر چھوڑ ا نہ گیا تو یہ مہم کبھی بھی سر نہ ہو سکے گی ۔ 

دوسرے الفاظ میں یوں کہ لیجیئے کہ جو شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرنے کا خواہشمند ہو گا ، اس کی سب سے بڑی سوچ یہی ہو گی کہ کیا کروں کہ گنہگار نفس گناہوں کے بے پنہاں نقصانات کا صحیح احساس کر کے اس سے متنفر ہو جائے ۔ 
اور کیا کیا قدم اٹھاؤں کہ غافل دل نیکیوں کے لا محدود فوائد اور برکات کو بچشم سر دیکھ کر اس کی طرف بے باکانہ لپکے ۔ 

لہٰذا تزکیہ نفس سے مراد یہ ہوئی کہ نفس انسانی میں موجود شر کے فطری غلبہ کو دور کرنا اور اسے گناہوں کی ان آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک کرنا جو روحانی نشوونما میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ ان تمام بدی کی خواہشات پر غلبہ پا لینے کا عمل تزکیۂ نفس کہلاتا ہے۔

واضح رہے کہ انسانی نفس ان اعمال کو ہمیشہ بے فائدہ اور لا حاصل سمجھتا ہے جن کے فوائد اس کے ذہن نشین نہ ہوں ۔ اس لیے تزکیہ نفس کا خیال بھی صرف اس شخص کے دل میں آ سکتا ہے ، جسے اچھی طرح پتہ چل چکا ہو کہ برائیاں میرے لیے ہلاکت خیز اور اچھائیاں میرے لیے فائدہ مند ہیں ۔ اس لیے انسان کے لیے پہلی ضروری بات تو یہی ہے کہ اسے قلبی یقین حاصل ہو جائے کہ اللہ تعالی نے مجھے جن باتوں سے روکا ہے ، اس سے اسی لیے روکا ہے کہ وہ ہلاک کرنے والی ہیں اور جن کے کرنے کا حکم دیا ہے ، وہ میرے لیے فائدہ مند ہیں اسی لیے کہ مجھے دنیوی اور اخروی دونوں سعادتوں سے ہمکنار کرنے والی ہیں ۔ یعنی اسے اپنے خالق و مالک کی شفقت و محبت پر پورا سچا قلبی یقین ہو چکا ہو اور اس کا ایمان ہو کہ وہ رو‎ؤف و رحیم ہادی صرف میرے ہی فائدے کی خاطر بعض امور سے منع تو بعض کی اجازت دیتا ہے۔

انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد:

تبلیغ و اشاعت کے ساتھ تزکیہ نفس کا کام انبیاء علیہم السلام سے لیا جاتا رہا مگر نبی آخر الزماں ﷺ کی اس آخری امت میں اس کی ذمہ داری علمائے اسلام پر عائد ہوتی ہے۔جو ورثۃ الانبیاء ہیں اور ہر مادی اور الحادی دور کی تحریکیوں میں روشن چراغ کی مانند ہوتے ہیں ۔موجودہ دور پر فتن میں اس ذمہ داری کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے اس دور میں اسلام کی زبوں حالی اور مسلمانوں کی دینی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہےکہ اللہ تعالیٰ اور نبی اکرم ﷺ سے ان کا روحانی تعلق برائے نام ہی رہ گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے حق کی حفاظت اپنے ذمہ لے رکھی ہے اور اس کی رحمت یہ کب گوارہ کر سکتی ہےکہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتا چھوڑ دے ۔چنانچہ ہر دور میں وہ اپنے خاص بندوں کے ذریعے حق کی حمایت اور اصلاح خلق کی خدمت لیتا رہا اور محدثین نے جس خلوص اور للہیت سے یہ خدمات انجام دی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔
قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ تمام انبیائے کرام کی بعثت ، اور تمام آسمانی کتابوں کے نزول کا اصلی مقصد و ہدف تزکیہ نفس ہی رہا ہے۔
چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی بعثت کے لیے دُعاء فرمائی، اس میں آپ کی بعثت کا اصل مقصد یہی بیان فرمایا ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کا تزکیہ فرمائیں۔ 
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ(بقرہ ١٢٩)
"اور اَے ہمارے رب! تو ان میں اُنہیں میں سے ایک رسول بھیج، جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بے شک تو غالب حکمت والا ہے۔"

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دُعاء کے مطابق جب حضرت محمدﷺ کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکی بعثت اور اس کے مقاصد کا حوالہ ان الفاظ میں دیا:
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ۔
 "جس طرح ہم نے تم میں تمہی میں سے رسول بھیجا جو ہماری آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب وحکمت اور وه چیزیں سکھاتا ہے جن سے تم بےعلم تھے۔
 (سورہ البقرہ: ١٥١)"

مزید فرمایا:
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیات پڑھتا، ان کو پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔(آل عمران ۱۶۴:۲)

ان آیات پر اگر غور کیا جائے تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیغمبر کے تین فرائض بیان ہوئے ہیں ۔ پہلا کام اللہ کی آیات پڑھنا، دوسرا کام تزکیہ کرنا اور تیسرا کام کتاب و حکمت کی تعلیم دینا۔ لیکن اگر ذرا غور سے جائزہ لیا جائے تو اصل کام تزکیہ یعنی پاک کرنا ہی ہے۔ اسی کے لئے اللہ کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور اسی تزکیہ کے لئے شریعت اور اس کے فلسفے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ تزکیہ کا کام شروع ہوجاتا ہے تو لوگوں کو صراط مستقیم مل جاتی اور وہ راہ راست پر آکر گمراہی سے نکل جاتے ہیں۔

اسی طرح سورہ جمعہ میں آپﷺ کی بعثت اور اس کے اغراض و مقاصد کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل پر ان الفاظ میں اپنے احسان کا اظہار فرمایا ہے:
2. ۤ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی خدا ہے جس نے امیوں (بنی اسمٰعیل) میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بے شک اس سے پہلے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔
ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ مذکورہ بالا آیات میں نبی ﷺکی بعثت کے مقاصد میں جہاں تزکیّہ کا ذکر آیا ہے وہیں تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت کا ذکر بھی آیا ہے تو ہم نے آنحضرت ﷺکی بعثت کا اصلی مقصد صرف تزکیہ ہی کو کیسے قرار دیا؟ آخر دوسری چیزیں بھی تو اسی اہمیت کے ساتھ مذکور ہوئی ہیں وہ کیوں اصلی مقصد قرار پانے کی مستحق نہیں ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خود قرآن مجید کے اسلوبِ بیان نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ مذکورہ آیات میں نبی ﷺ کے اصلی مقصد بعثت کی حیثیت سے جس چیز کا ذکر ہوا ہے وہ تزکیہ ہے۔ باقی اس کے ساتھ دوسری چیزیں ۔(تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت)جو مذکور ہوئی ہیں تو وہ اصلی مقصد کی حیثیت سے نہیں، بلکہ اصلی مقصد کے وسائل و ذرائع کی حیثیت سے مذکور ہوئی ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں سے ایک آیت میں تزکیہ کا لفظ سب سے آخر میں آیا ہے اور دوسری آیت میں سب کے شروع میں آیا ہے۔ آیت کے اس تقدیم و تاخیر سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نبی ﷺکی تمام جدوجہد اور اس کی تمام سرگرمیوں کا محور و مقصود دراصل تزکیہ ہی ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد ہی کی یہ اہمیت ہوتی ہے کہ وہ شروع میں بھی ایک کام کرنے والے کے پیش نظر ہوتا ہے اور آخر میں بھی، وہی اس کی تمام سرگرمیوں کا نقطہ آغاز بھی ہوتا ہے اور وہی نقطہ اختتام بھی ،وہیں سے وہ اپنا سفر شروع بھی کرتا ہے اور وہیں اس کو ختم بھی کرتا ہے۔
اس مثال کو سامنے رکھ کر آپ اگر انبیائے کرام کی بعثت کے مقصد کو سمجھنا چاہیں تو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا اصلی مقصد تو لوگوں کے نفوس کا تزکیہ ہی ہوتا ہے اور اسی نقطہ نظر سے وہ اپنی تمام دعوتی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہیں لیکن اس مقصد کی خاطر انہیں بہت سے ایسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں جو اس مقصد کے حصول کا وسیلہ و ذریعہ ہوتے ہیں۔اس کے لیے وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کتاب اللہ کی تعلیم دیتے ہیں، اس کے لیے وہ حکمت کا درس دیتے ہیں۔ مگر مقصود ان سارے کاموں سے صرف تزکیہ ہوتا ہے جو شروع میں بھی ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے اور آخر میں بھی وہی ان کی تمام جدوجہد کی غایت بنتا ہے۔ چنانچہ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ بالا آیات میں سے ایک آیت میں اس کو نبی ﷺکی تمام سرگرمیوں کے نقطہ آغاز کی حیثیت سے نمایاں کیا ہے اور دوسری آیت میں اس کی غایت اورمنتہا کی حیثیت سے۔

محسنِ انسانیتؐ کی پوری زندگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح آپؐ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کا تزکیہ کیا۔ جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر سپیدۂ سحر کی طرح منور کیا، دلوں کو آلودگی سے پاک کیا۔ رحم و کرم کی صفات سے متصف کیا۔ یہی تزکیہ کا عمل ہے جس نے صحابہ کرامؓ کو تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر پہنچا دیا۔
یہ ایک فریضہ بھی ہے جو دیگر فرائض کے ساتھ سونپا گیا۔ یہ سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمدؐ سے شروع نہیں ہوا بلکہ قبل ازیں بھی اللہ تعالیٰ نے انبیاے کرام ؑ کو تزکیۂ نفسِ انسانی کی ہدایت کی ہے۔ ذرا حضرت موسٰی ؑ کے تذکرے میں اس کام کو انجام دینے کے حکم پر غور کیجیے:

ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی oاِِذْ نَادٰہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًیoاِذْہَبْ اِِلٰی فِرْعَوْنَ اِِنَّہٗ طَغٰی oفَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِِآٰی اَنْ تَزَکّٰیoوَاَھْدِیَکَ اِِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی o(النازعات ۷۹:۱۵۔۱۹)
" کیا تمھیں موسٰی ؑ کے قصے کی خبر پہنچی ہے، جب اس کے رب نے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا تھا کہ فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہہ: کیا تو اس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور مَیں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو اس کا خوف تیرے اندر پیدا ہو۔"

جنت میں داخلے کی شرط تزکیہ:

جنت میں داخلے کے لئے ضروری ہے کہ انسان نے خود کو ہر طرح کے گناہوں اور لغزشوں سے پاک کرنے کی کوشش کی ہو۔ یعنی جنت کی شہریت کے لئے تزکیہ کا حصول لازمی ہے۔ قرآن میں بیان ہوتا ہے:

جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّى۔(طہ ۲۰ :۷۶)
: سدا بہار باغات جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کے لئے جزا ہے جس نے اپنا تزکیہ ( خود کو گناہوں سے پاک)کیا۔"

ایک اور جگہ بیان ہوتا ہے:
یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔اور وہ نامراد ہوگا جس نے اسے آلودہ کیا۔(الشمس ۹۱ آیات ۹ تا ۱۰)
یہی مضمون ایک اور آیت میں بیان ہوا ہے:
فلاح پاگیا جس نے تزکیہ کیا (پاکیزگی اختیار کی)۔(الاعلیٰ ۱۶:۸۷)

تزکیہ میں ناکامی کا انجام جہنم:

آخرت میں ایک انسان اگر گناہوں کےساتھ خدا کے حضور پیش ہو لیکن اس کی نیکیاں برائیوں سے سبقت لے جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان گناہوں کو دور کرکے اسے پاک کردیتے اور جنت میں داخلے کے قابل بنادیتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے طاہری و باطنی وجود کو گناہوں سے آلودہ رکھا اور اسی حالت میں آخرت میں اللہ کے حضور پہنچ گئے ان کی آلودگی کو پاک کرنے سے اللہ نے صاف انکار کیا ہے۔ اس سے علم ہوتا ہے کہ تزکیہ کی ابتدا انسان کا اپنا عمل ہے ۔
درج ذیل آیت میں عمل کی نجاست میں لتھڑے ہوئے اور دنیا کے عوض آخرت کو داؤ پر لگانے والے انسانوں کو اللہ نے پاک کرنے سے انکار کردیا ارشاد فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴿77﴾

"بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(آل عمران ۷۷:۳)”

اوپر کے مباحث سے تین باتیں واضح ہوتی ہیں
1. ایک یہ کہ تزکیہ تمام دین و شریعت کی غایت اور تمام انبیاء کی بعثت کا اصلی مقصود ہے، دین میں جو اہمیت اس کو حاصل ہے وہ اہمیت دوسری کسی چیز کو بھی حاصل نہیں ہے۔ دوسری ساری چیزیں وسائل و ذرائع کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ چیز غایت و مقصد کی حیثیت رکھتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سرگرمیاں، خواہ ظاہر میں کتنے ہی مختلف پہلو رکھتی ہوں لیکن باطن میں ان کا ہدف انسان اور انسانی معاشرہ کے تزکیہ ہے۔
2. دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ تزکیہ کا سرچشمہ اور اس کا منبع و مصدر اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اسی کی تعلیم سے تزکیہ کا آغاز ہوتا ہے اور پھر اسی کے اسراروحقائق ہیں جو نبی ﷺ کے ذریعہ سے واضح ہو کر اس تزکیہ کی تکمیل کرتے ہیں۔ 
3. تیسری حقیقت یہ واضح ہوئی کہ تزکیہ کا عمل انسانی معاشرہ کے کسی گروہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمام افراد اور تمام گروہوں بلکہ پورے معاشرہ سے یکساں طور پر ہے، کوئی شخص بھی اس کے بغیر آخرت میں نجات اور فلاح حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی حیثیت دین میں صرف ایک فضیلت کی نہیں ہے بلکہ ہر شخص کے لیے ایک ناگزیر انفرادی ضرورت کی ہے۔ یہ نجات اور فلاح آخرت کے لیے ایک ضروری شرط ہے ۔

تزکیہ کون کرتا ہے:

قرآنِ مجید انسان کے علم اور عمل دونوں کا تزکیہ کرتا ہے۔قرآن حکیم علم کے تزکیے کے لیے جو تعلیم دیتا ہے اسے اپنی اصطلاح میں حکمت سے تعبیر کرتا ہے اور جو تعلیم عمل کے تزکیے کے لیے دیتا ہے اسےشریعت سے تعبیر کرتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جو ہدایات ایمانیات کے بارے میں ہیں، وہ علم کا تزکیہ کرتی ہیں اور جو ہدایات قانون اور ضابطوں سے متعلق ہیں، وہ عمل کا تزکیہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب قرآنِ مجید شرک کی تردید کرتا ہے تو وہ ذاتِ خداوندی کے بارے میں ہمارے علم کا تزکیہ کرتا ہے اور جب خالص اسی کی عبادت میں سرگرمی کی ترغیب دیتا ہے تو عمل کا تزکیہ کرتا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ تزکیہ دین کرتا ہے، کوئی انسان نہیں کرتا۔ ہر زمانے میں بہت سے اہلِ علم پیدا ہوتے ہیں۔ ان سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اللہ کی کتاب بالکل محفوظ شکل میں ہمارے پاس موجود ہے ، اس کا مطالعہ کر کے یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ کون سی بات صحیح اور کون سی بات غلط ہے۔کوئی عالم یا دینی تربیت کرنے والا صرف یہ کام کرتا ہے کہ وہ آپ کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کرتا ہے اور دینی ماحول اور اچھی صحبت فراہم کرتا ہے۔گویا وہ بذاتِ خود ہمارا تزکیہ نہیں کرتا ، بلکہ تزکیہ کرنے والے دین سے ہمیں وابستہ کر دیتا ہے۔یعنی وہ مزکی (تزکیہ کرنے والا) نہیں ہوتا، بلکہ معلم (تعلیم دینے والا) ہوتا ہے۔

عام خیال یہ ہے تزکیہ نفس  سے مراد مقدس ہستیوں یا تصورات سے وابستگی، عقل اور حواس سے ماوریٰ روحانی تجربات و مشاہدات، مراقبہ، ترک دنیا ، زہد و ریاضت ورد و وظائف اور ضبط نفس پر مبنی افعال اور اعتقادات لئے جاتے ہیں۔
اور بالعموم، تزکیۂ نفس کے لیے کسی شیخ یا پیر کی رہنمائی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ یہ شیخ اس کام کے لیے کچھ ورد اور وظیفے اور کچھ چلے اور مراقبے وغیرہ  تجویز کرتا اور ان کی تکمیل کے مختلف مراحل میں اپنے مرید کی رہنمائی کرتا ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیوی لذتوں اور گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرنے سے تزکیہ نفس یا روحانی تسکین ملتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض لوگ چِلّوں،مراقبوں اور  مختلف وظائف کے ذریعے تزکیہ نفس کو تلاش کرتے ہیں۔ بعض جسم کو مختلف طریقوں سے اذیتیں دیتے ہیں۔درحقیقت تزکیہ نفس حاصل کرنے کے لیے درج ذیل چیزوں میں سے کسی چیز کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
یہ تزکیہ نفس کے تصورات خصوصا ہندومت، بدھ مت اور جین مت میں بھی راسخ ہیں۔ ان کے علاوہ بھی تقریباٗ ہر بت پرست اور مظاہر پرست مذہب میں بھی اس سے کچھ ملتے جلتے نظریات ضرور موجود ہیں۔ ان مختلف مذاہب کے روحانی لوگوں کی مشترکہ اقدار عموما ایک سے ہی ہوتے ہیں۔ البتہ اپنے اپنے مذہب کے زیر اثر مقدس شخصیات، زہد و عبادت کے طریقے اور روحانی تجربات کی نوعیت میں کچھ فرق ضرور دیکھائی دیتا ہے۔

لیکن قرآن حکیم کی روشنی میں دیکھیں تو اس تصور کی کوئی بنیاد نظر نہیں آتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تزکیہ نفس کے لئے مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔
نبی کریم ﷺ تزکیہ کے علم کو نامکمل چھوڑ کر دنیا سے تشریف نہیں لے جا سکتے تھے،اس کی وجہ یہ ہے کہ تزکیہ کو آپ کے مقاصد بعثت میں محض ایک ضمنی جگہ حاصل نہیں ہے بلکہ اصل مقصد بعثت یہی ہے ،پھر جو چیز اصل مقصد ِ بعثت ہو،اس کو پیغمبر نا تمام اور ناقص چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے؟تزکیہ کی اس اہمیت کا  لازمی تقاضا یہ ہے کہ جس طرح شریعت کے تمام اصول کتاب وسنت کے اندر منضبط ہوں،جس طرح شریعت کے اندر کسی بے روی کے لئے گنجائش نہیں چھوڑی گئی ہے،اسی طرح تزکیہ کے اندر بھی کسی بے راہ روی کی گنجائش باقی نہ رہے ،جس طرح شریعت کے اندر ایک خاص دائرہ میں اجتہاد کی آزادی کے باوجود کسی شخص کو اس بات کا موقع حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے ذوق یا ذاتی رجحانات یا اپنے شخصی تجربات کو اس کے اندر گھُسا دے،اسی طرح تزکیہ کے اندر بھی ایک خاص دائرہ میں اجتہاد کی آزادی کے باوجود ایسی حد بندیاں ہونی چاہئیں کہ اشخاص وافراد کے اپنے میلانات ورجحانات کی دراندازیوں کے لئے کوئی منفذ باقی نہ رہے ۔جس طرح شریعت کے اندر ہر مجتہد اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کو کتاب وسنت ہی کے اشارات کی کسوٹی پر پرکھتا اور پرکھواتا ہے اور اس کے بغیر اس کا اجتہاد بھی لائق قبول نہیں ٹھیرتا ،اسی طرح تزکیہ کے اندر بھی اگر کوئی شخص کوئی بات اپنے اجتہاد سے کہے تو اس کے لئے ناگزیر ہو کر وہ کتاب وسنت کےاشارات اور نبیﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل سے کوئی دلیل لائے ۔محض اپنے ذوق ووجدان کا حوالہ نہ دے ورنہ اس کے اجتہاد کا کوئی وزن نہیں۔

تزکیہ کا علم کیا کوئی اہم راز ہے؟:

تزکیہ کا علم کوئی ایسا راز نہیں ہو سکتاجو صرف خاص خاص اشخاص ہی کو معلوم ہو اور انہیں سے سینہ بسینہ وہ دوسروں کو منتقل ہو رہا ہو۔تزکیہ ایک عام ضرورت کی چیز ہے،پھر ایک عام ضرورت کا تقاضا ایک ایسے علم سے کیسے پورا ہو سکتا ہے۔جو صرف چند سینوں کا ایک راز ہو۔
ہر شخص آخرت کی نجات وفلاح کے لئے اس کا محتاج ہے۔جو چیز اس قدر عمومی ضرورت کی ہو اس کو صرف چند خاص خاص افراد کے سینہ کا راز بنا کے کس طرح چھوڑا جا سکتا ہے ؟یہ الگ بات ہے کہ ہر شخص ،ہر علم کا اہل نہیں ہوا کرتا ،اس وجہ سے اگر ایک شخص اس علم کا ذوق رکھنے والا نہ ھو گا  تو وہ اس سے محروم رہے گا، ہذا القیاس اہل علم میں فرق مراتب بھی ہوتا ہے۔اس وجہ سے اس کے سارے جاننے والے ایک درجہ کے نہیں ہو سکتے ،لیکن یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ یہ کوئی "پر اسرار'علم ہے جس کے جاننے والے صحابہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی چند ہی افراد تھے اور بعد میں بھی خال خال افراد ہی ہوئے ۔جو چیز ہوا اور پانی کی طرح ہر شخص کے لئے ضروری ہے یہ کس طرح ممکن ہے کہ نبی ﷺاس کو بس ایک دو آدمی کے کانوں میں پھونک کے چلے جائیں۔دوسروں کو اس کی خبر ہی نہ ہونے پائے اور یہ دو ایک آدمی بھی اس کو عام کرنے کی بجائے ،اس کو راز بنا کر رکھ چھوڑیں اور صرف انہی اشخاص پر اس راز کو کھولیں جو ان کے محرم راز بن جائیں ۔دنیاوی علوم میں تو یہ راز داری چل سکتی ہے لیکن تزکیہ اگر عام ضرورت کی چیز ہے۔(جو کہ یقینا ہے)تو اس میں اس راز داری کا چلنا نہ ممکن ہے اور نہ قرینِ مصلحت ۔

پس کوئی ایسا علم جو قرآن وحدیث میں مذکور نہیں یا اس سے ماخوذ نہیں ذات اقدس ﷺکی طرف منسوب نہیں ہو سکتا ۔لہذا بغیر زبان کی گویائی اور کان کی شنوائی کے آنحضرت ﷺ سے کوئی علم منقول نہیں کیا جا سکتا۔

فرض کیا اگر کوئی شخص اپنی کسی بات کو سینہ بسینہ علم سے منسوب کرتا ہے تو کیا دلیل ہے اس کے پاس کہ یہ وہی علم یا راز ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں صحابہ کو عنایت فرمایا۔فرض کیا اگر اس کی بات کو ایک لمحہ کے لئے مان بھی لیا جائے لیکن پھر کوئی دوسرا شخص اس بات کے خلاف دعوی کرتا ہے کہ نہیں وہ بات(پہلے شخص کا قول)غلط ہے اور میں جو کہہ رہا ہوں اصل راز یا سینہ بسینہ یہ میری والی بات درست ہے۔اگرچہ دونوں کا دعوی علم راز(سینہ بسینہ) ہےاگر وہ ایک کی بات کو صحیح اور دوسرے کی بات غلط کہتا ہے تو کیا یہ گستاخی اور انحراف نہیں ہو گا۔

آخر وہ کون سا طریقہ ہو جس سے ایک متلاشی حق کو یہ پتہ چلے کہ فلاں آدمی کا قرآن و سنت سے استدلال صحیح ہے اور فلاں آدمی کا غلط؟ اسلام جو کہ ایک کامل، عالمگیر و ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے اس نے کوئی طریقہ تو بتلایا ہی ہو گا جو قرآن کریم کی ایک ہی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حدیث سے دو بالکل متضاد عقائد و اعمال ثابت کرنے والے دو اشخاص میں سے کسی ایک کے حق اور دوسرے کے باطل ہونے کا یقینی پتا دے سکے۔ 

جی ہاں ! بالکل اسلام نے ایسا طریقہ ضرور بتایا ہے، لیکن افسوس کہ آج مسلمان اس سے مسلسل دور ہو رہے ہیں اور یقیناً روز بروز بڑھتے ” اسلامی فرقوں“ کے پیچھے یہی دوری کار فرما ہے۔ اگر حق کو پرکھنے کے لیے اس کسوٹی کو استعمال کیا جاتا تو بالیقین ایسی صورت حال سے مسلمانوں کو پالا نہ پڑتا۔ یہ طریقہ خود قرآن و حدیث نے بیان کیا ہے۔ 
وہ طریقہ سلف صالحین کا فہم ہے۔ اگر ہم تمام اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کا وہی مفہوم لینا شروع کر دیں جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین لیتے تھے۔ ان کے بارے میں خیر و بھلائی کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یقیناً یہ لوگ اہل حق تھے صراط مستقیم پر تھے، لہٰذا اگر ہم قرآن و سنت کو ان کی طرح سمجھنے لگیں گے تو باہمی اختلافات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور صحیح اسلام ہمیں مل جائے گا، یوں ہم بھی صراط مستقیم پر چلنے لگیں گے۔فہم سلف کی حجیت میں محدثین کرام اور ائمہ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ سب فہم سلف کو حجت سمجھتے تھے۔ 

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ضروری ہے کہ ہم دین کا صحیح مفہوم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کے طریقہ سے لیں۔

کتاب و سنت کا وہی فہم معتبر ہے، جو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین نے لیا ہے۔ اگر کوئی بعد والا شخص قرآن کریم کی کسی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کا ایسا مفہوم لیتا ہے جو سلف صالحین کے خلاف ہو تو اس پر عمل کرنا سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ یہی سبیل المؤمنین ہے جس کے التزام کا حکم قرآن و حدیث نے کتاب و سنت کے التزام کے ساتھ ہی دیا ہے۔ یہی ائمہ دین اور محدثین کا طریقہ ہے اور یہی اہل حق کا منہج ہے۔ 
اگر یہ معیار سینہ بسینہ علم کو پرکھنے کا ہے تو پھر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ علم راز(سینہ بسینہ علم) بھی باطل و مردود ہے۔
کیونکہ جس امر کو خدا تعالیٰ نے بواسطہ اپنے رسولوں کے علی الاعلان الفاظ میں ظاہر کیا اور اس کی فرمانبرداری بندوں پر لازم کر دی اور اس کی نا فرمانی سے اپنی ناراضی صاف و صریح الفاظ میں ذکر کر دی۔تو پھر اس اہم راز کو ایک مخصوص طبقہ تک محدود کیوں رکھا جا رہا ہے۔

بعض احادیث سے غلط استدلال:

ہمارے ہاں ایک طبقہ اس علم (تزکیہ نفس)کو ایک پر اسرار علم ثابت کرنے پر نہایت مُصر ہیں،وہ اپنے اس دعوے پر جہاں بہت سے اقوال سے دلیل لاتے ہیں وہاں بعض احادیث اور بعض آثار بھی پیش کرتے ہیں ان کے اقوال واشارات  سے تو یہاں بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا موضوع ہے۔ لیکن جن احادیث وآثار سے انہوں نے استدلال کیا ہے ،ان کی حقیقت واضح کرنا ہمارے لئے ضروری ہے ورنہ بہت سے لوگوں کے دلوں میں کھٹک باقی ہی رہے گی۔ان حضرات کا سب سے بڑا استدلال حضرت ابوہریرہ  کی ایک روایت سے ہے جو بخاری شریف میں مندرجہ ذیل الفاظ میں وارد ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت  ہے میں نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو برتن یاد کیے ہیں جن میں سے ایک تو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا ایسا ہے کہ اگر میں اسے پھیلاؤں تو یہ شہ رگ کاٹ دی جائے ۔ [صحیح بخاری کتاب العلم باب حفظ العلم (۱۲۰)]

اس حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس نبی ﷺسے اخذ کردہ ایک ایسا ذخیرہ علم بھی تھا جس کی حیثیت بالکل ایک سر مخفی کی تھی،جس کے حقائق اور باریکیوں کو سمجھنا ہر شخص کا کام نہ تھا بلکہ صرف خاص خاص لوگ ہی اس کو سمجھ سکتے تھے۔یہ علم ان حضرات کے خیال کے مطابق جمہور کے فہم و رجحان سے اس قدر مختلف بلکہ اس کے مخالف تھا کہ حضرت ابوہریرہ  ڈرتے تھے کہ اگر اس علم سے وہ پردہ اٹھا دیں تو لوگ ان کو جیتا نہ چھوڑیں ۔

اس حدیث کے الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے علم کے دونوں برتن ظاہر کیے ہیں ۔ ہاں ایک کو پھیلایا ہے اور دوسرے کو پھیلایا نہیں ہے ۔
اس دوسرے برتن کو وہ تلمیحات واشارات کے ذریعہ ظاہر کرتے رہے ہیں ۔ اور یہ علم خلافت وامارت اور فتن کے متعلق تھا ۔ جسے انہوں نے واضح لفظوں میں صرف اس لیے بیان نہیں کیا کہ انہیں قتل کا خدشہ تھا ۔
جو حضرات اس روایت سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ علم جو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے چھپا کر رکھا تھا وہ باطنی یا طریقت کا علم ہے ۔
ہرگز ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس قسم کی کوئی بات منقول نہیں ہے ۔اور اگر وہ کہیں کہ انہوں نے بیان ہی نہیں کی تو منقول کیسے ہوسکتی ہے ۔ تو ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے بیان ہی نہیں کی تو تمہیں کہاں سے معلوم ہو گئی ؟

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی کوئی بھی بات چھپائی نہیں ہے ۔ بلکہ سب کچھ بیان کر دیا ہے ۔ ہاں کچھ باتیں سب کے سامنے بیان کی ہیں اور کچھ خاص خاص لوگوں کو بتائی ہیں ۔ اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم بھی اس طرح کر لیا کرتے تھے ۔ الغرض جو کچھ بھی انہوں نے سنا ہے وہ بیان فرمایا ہے ۔
کیونکہ اللہ تعالى کا فرمان ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (البقرة : 159)

"یقینا وہ لوگ جو ہماری نازل کردہ آیات بینات اور ہدایت کو چھپاتے ہیں حالانکہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں بیان کر دیا ہے تو ایسے لوگوں پر اللہ تعالى اور لعنت کرنے والے سبھی لعنت کرتے ہیں ۔"

اگر یہ مان لیا جائے کہ علم دین صرف اتنا ہی نہیں ہے جتنا قرآن وحدیث میں نظر آتا ہے بلکہ علم دین کا بہت بڑا حصہ عوام کے اندیشوں سے خواص کے سینوں ہی میں محفوظ رہا اور اگر ان سے منتقل ہوا بھی تو صرف خواص ہی تک محدود رہا۔عام اہل علم کو ان کی ہوا تک نہیں لگنے پائی ،عام اہل علم جنہوں نے قرآن وحدیث کے الفاظ وکلمات کے واسطہ سے دین کو سیکھا ہے وہ تو صرف علم بالا حکام کے وارث ہوئے ہیں۔اصلی علم تو علم باللہ ہے اور اس کی وارث صرف ان لوگوں کو منتقل ہوئی ہے ۔جنہوں نے اس علم سینہ بسینہ میں سے کوئی حصہ پایا ہے۔اس منطق کو ماننے سے اسرار وکشوف کے لئے دین میں بڑی گنجائش نکل آتی ہے۔اس طرح تو کوئی بھی دعوی کر سکتا ہے کہ ہمارے پاس جو علم ہے وہ ایک خاص راز یعنی علم سینہ بسینہ ہے۔ یہاں سے یہ حضرات ایک قدم اور آگے بڑھا دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اہل حقیقت اور اہل ظاہر کے معیارات بالکل الگ الگ ہیں،اس وجہ سے ایک کی باتوں کو دوسرے کی کسوٹیوں پر جانچنا اصولی طور غلط ہے ،اہل ظاہر جو کچھ کہتے ہیں وہ الفاظ کو دیکھ کر کہتے ہیں اور اہل حقیقت کی نگاہیں معانی کی رازداں ہوتی ہیں۔
ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ نتائج خاصے سنگین ہیں اور ان کی زد ہماری پوری شریعت پر پڑتی ہے ،اس وجہ سے نہایت ضروری ہے کہ ہم اس کا صحیح مطلب واضح کرنے کی کوشش کریں،
سلف صالحین اور ہمارے نزدیک حضرت ابو ہریرہ کے اس قول کے تین پہلو ہو سکتےہیں :
ایک پہلو تو یہ ہو سکتا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے حضرت ابوہریرہ کو جب یہ باتیں بتائی ہوں تو ساتھ ہی ان کو یہ ہدایت فرمائی گئی ہو گی یہ دوسروں کو بتانے کی نہیں ہیں بلکہ پوشیدہ رکھنے کی ہیں ،اگر تم نے ا ن کو ظاہر کیا تو یہ اندیشہ ہے کہ تمہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں۔
دوسرا پہلویہ ہو سکتا ہے کہ نبی ﷺ نے یہ باتیں بطور راز کے تو نہ بتائی ہوں بلکہ تعلیم وتبلیغ ہی کے لئے بتائی ہوں لیکن حضرت ابوہریرہ کی زندگی ہی میں ماحول اس قدر بدل چکا ہو کہ وہ باتیں لوگوں کے لئے بالکل اوپری(بیگانی) بن کے رہ گئی ہوں اور ان کو پیش کرنا پیش کرنے والے کے لئے خطرے سے خالی نہ رہ گیا  ہو۔
تیسرا پہلویہ ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں ایسی ہوں جن کے بیان واظہار میں وقت کے ارباب ِاقتدار اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہوں ۔اس وجہ سے حضرت ابوہریرہ کو اندیشہ ہو کہ اگر وہ باتیں وہ بیان کرنی شروع کر دیں تو وقت کے اربابِ اقتدار کے ہاتھوں ان کی جان کی خیر نہ رہے۔

ان میں پہلی صورت تو بداہتًہ غلط معلوم ہوتی ہے،
اول تو یہ ہے کہ اس طرح کی پراسرار باتوں کا کوئی ذخیرہ آں حضرت ﷺ کو محفوظ کرنا ہی ہوتا تو اس امانت کے لئے ان فقہا صحابہ میں سے کسی کا ہو سکتا تھا جو فہم وفقاہت اور رازدارین ہونے کے لحاظ سے تمام صحابہ میں ممتاز تھے۔اس کے لئے موزوں شخص حضرت ابو بکر ،حضرت عمر،حضرت عثمان اور حضرت علی،حضرت زید بن ثابت ،حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو الدردا  اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما ہو سکتیں تھیں۔یہ لوگ صحابہ میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتے تھےاور دین وشریعت کی باریکیوں کے سمجھنے اور مختلف چیزوں کے مدارج ومراتب کے امتیاز میں نمایاں درجہ رکھتے تھے اس وجہ سے بجا طور پر اس علم کے حامل اور امین ہونے کے زیادہ اہل تھے ۔
حضرت ابوہریرہ کا ایک محدث اور کثیر الروایہ صحابی ہونے کے لحاظ سے جو درجہ ہے اس سے کسی کو مجال ِانکار نہیں لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ دین کی باریکیاں سمجھنے میں ان کا وہ مرتبہ نہیں ہے جو طبقہ اول کے صحابہ کا ہےاور اس حقیقت کو نبی ﷺسے زیادہ جاننے پہچاننے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
دوسری وجہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے صحابہ کو جو تعلیم وتلقین بھی فرمائی وہ چھپانے اور راز رکھنے کے لئے نہیں بلکہ سیکھنے اور سکھانے کے لئے ہی فرمائی ۔ہمیں قرآن وحدیث میں کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے آنحضرت ﷺکی زندگی میں یا دوسرے انبیاء کی زندگی میں اس قسم کی راز داری کا پتہ چلتا ہو خصوصاًنبی کریم ﷺ نے بار بار صحابہ کو اس بات کی تاکید فرمائی کہ وہ جو کچھ آپﷺ کی صحبت میں سنیں اور دیکھیں ،اس کو دوسروں کو بتائیں ،آپ نے فرمایا:
میری طرف سے پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ:میرے منہ سے جو کچھ سنو اس کو محفوظ کرلو کیوں کہ میرے منہ سے کوئی بات غلط نہیں نکلا کرتی۔آپﷺ حجتہ الوداع کے موقع پر سامعین کو یہ ہدایت فرمائی کہ جو لوگ موجود ہیں،وہ ان لوگوں کو یہ ساری باتیں بتائیں جو موجود نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگ دوسروں سے سن کر براہ راست سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھتے ہیں۔آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ حق بات جانتے ہوئے دوسروں کو اس کے بتانے سے گریز (چھپائے)کریں گے۔اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنا کر لایا جائے گا''۔اس طرح کی متعدد تاکیدات مختلف پہلوؤں سے ہمیں احادیث میں آپﷺ کی طرف سے ملتی ہیں لیکن کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ آپﷺ نے کسی ایک صحابی سے بھی کوئی بات فرمائی ہو اور پھر یہ تاکید کی ہو کہ اس کو اپنے ہی تک راز رکھنا۔
بہر حال تزکیۂ نفس دین کا بنیادی موضوع اور قرآن مجید کی اہم اصطلاح ہے۔ اس کے باوجود، اصل کی جگہ ایک بالکل غلط تصور نے لے لی اور اس کے حوالے سے وہ چیزیں رائج ہو گئیں، جن کی قرآن و سنت میں کوئی بنیاد نہیں۔ گویا، قرآن مجید میں جو بات بڑی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے، اسی کے لیے قرآن مجید سے رجوع نہیں کیا گیا۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ قرآن مجید کی سب سے زیادہ مظلوم اصطلاح نظر آتی ہے، جبکہ صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین انسانوں کی رہنمائی کے لیے ہر لحاظ سے مکمل ہے اور اس میں ایسی کوئی کمی نہیں، جسے پورا کرنے کے لیے ہمیں کسی دوسری طرف دیکھنے کی ضرورت محسوس ہو۔ عبادات ہوں یا انسانوں کے ساتھ تعلق کا معاملہ، انفرادی اور باطنی اصلاح پیش نظر ہو یا معاشرے اور ریاست کی تعمیر و تطہیر، دین اسلام میں، انسان کے لیے، پوری رہنمائی موجود ہے۔ یہی حقیقت ہے ،جسے قرآن مجید نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کار رسالت کی تکمیل پر ایک واضح اعلان کی صورت میں بیان کر دیا تھا:

اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْإِسْلاَمَ دِیْنًا.(المائدہ ۵: ۳) 
’’آج میں نے تمھارے لیے، تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘

اس کا نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے تھا کہ ہم رہنمائی کے لیے صرف قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے اور اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کرتے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف اسلام ہی بطور دین ہمارے لیے پسند ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت پوری طرح مکمل ہے اور اس میں اب کسی ترمیم و اضافے کی کوئی گنجایش نہیں۔ چنانچہ، یہی حقیقت خود قرآن مجید نے بھی واضح کی ہے اورحک و اضافے کی ہر کاوش کو مذموم ٹھہرایا ہے، ارشاد ہے:
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْْرَ الْإِسْلاَمِ دِیْناً فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ.(آل عمران ۳: ۸۵)
’’اور جس نے اسلام کے سوا کسی دوسری چیز کو دین بنانا چاہا تو اس کا یہ عمل ہرگز قبول نہیں ہو گا۔ اور یہ شخص یومِ آخرت گھاٹا پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘

لیکن اس کے برعکس جس دین کے بارے میں قرآن مجید نے یہ کہا تھا کہ ’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ‘ (آل عمران ۳: ۱۹) ’’دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔‘‘ ہم نے اسے بطور خاص، تزکیۂ نفس کے معاملے میں کافی نہ سمجھا، دوسری وادیوں میں اترتے چلے گئے اور اس طرح دین کی اصل روح اور صحیح توازن سے محروم ہو گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
نوٹ: تزکیہ نفس سے متعلقہ سابقہ اور اگلی قسط کا مطالعہ کریں ۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔

whatsApp:00923462115913

fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter

www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...