Sunday 20 August 2017

روح سے ملاقات



روح سے ملاقات
سلسلہ تخلیق انسان اور نظریہ ارتقا کی حقیقت#96
مولف عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ.....۔(سورة آل عمران:185)
ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے۔
کیا موت کی صورت انسان کا اختتام ہو گیا
﴿انسان کبھی نہیں مرتا اجسام مر جاتے ہیں۔ ﴾
جی ہاں ابھی فقط جسم کی موت ہوئی ہے انسان کی نہیں۔ اس لیے کہ انسان محض جسم نہیں۔ موت جسم کے بے روح بے حرکت اور پھر بے نشان یعنی فنا ہو جانے کا نام ہے اس موت کا شکار فقط مادی جسم ہوتا ہے۔
کیا مادی جسم کے ساتھ انسان کا خاتمہ ہو جاتا ہے ؟اس کا جواب ہے نہیں۔ انسان کبھی نہیں مرتا یا اصل انسان یعنی اس کی روح کبھی نہیں مرتی۔
ہم تجربے و مشاہدے میں آنے والے بے شمار واقعات کو محض اس لئے فریبِ نظر قرار دیتے ہیں کیونکہ ہم اس عمل کی حقیقت سے نا واقف ہیں۔ جب کہ یہ انکار محض لاعلمی پر مبنی غیر حقیقی رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مردہ اجسام کے علاوہ اصل انسان اور اس کی حقیقت اور خصوصیات تک سے نا آشنا ہیں۔ یعنی ہم اپنے آپ ہی سے بے خبر ہیں۔ ہم روح و نفس سے ناواقف ہیں یعنی اپنے آپ سے نا واقف ہیں۔
جسم مردہ ہوا ہے انسان جوں کا توں موجود ہے ہاں وہ جسم کی موت کی صورت میں کہیں اور منتقل ہو گیا ہے۔ یہ جسم تو فقط لباس تھا جو انسان نے اتار پھینکا۔ اور خود تو انسان اپنی منزل کی طرف گامزن ہے۔
زندگی کے بعد زندگی
مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ اس کی حقیقت کی جانب اشارات قرآن و احادیث میں ملتے ہیں۔ لیکن کیا کوئی شخص اپنے ذاتی مشاہدے سے یہ بتا سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے؟ اس کا جواب نفی ہی میں ہے ۔ اس لئے آئندہ اسطور میں ذکر کردہ خیالات سائنسدانوں اور فلاسفروں کے ذاتی ہیں لہذا ان کی ہر بات ہر متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہر قسم کے مشاہدات کو قرآن و احادیث کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اگر قرآن و سنت کے موافق ہوئے تو لئے جائیں گے ورنہ رد کر دئے جائیں گے۔
کتاب کا نام Life after Life (زندگی کے بعد زندگی) اور یہ ایک امریکی ڈاکٹر ریمنڈ اے مودی(Raymond A. Moodi) کی لکهی ہوئی ہے، ڈاکٹر مودی اصلا فلسفے کے پی ایچ ڈی ہیں پهر انہوں نے میڈیکل سائنس کے مختلف شعبوں میں کام کیا ہے، بالخصوص نفسیات اور فلسفہ ادویہ سے انہیں خصوصی شغف ہے. ان صاحب کو سب سے پہلے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر جارج رچی کے بارے میں یہ معلوم ہوا تها کہ ڈبل نمونیا کے دوران ایک مرحلے پر وه موت کے بالکل قریب پہنچ گۓ، اور پهر ڈاکٹروں نے مصنوعی تنفس وغیره کے آخری طریقہ (Resuscitation) استعمال کۓ، جس کے بعد وه واپس آۓ، اور صحتمند ہوگۓ، صحت مند ہونے کے بعد انہوں نے بتایا کہ جب انہیں مرده سمجهـ لیا گیا تها، اس وقت انہیں نے کچهـ عجیب و غریب مناظر کا مشاہده کیا، ڈاکٹر مودی کو اس قسم کے چند مزید واقعات علم میں آۓ، تو انہوں نے اہمیت کے ساتهـ ایسے لوگوں کی جستجو اور ان سے ملاقاتیں شروع کیں، یہاں تک کہ تقریبا ڈیڑهـ سو(150) افراد سے انٹرویو کے بعد انہوں نے یہ کتاب لکهی.
یہ کتاب جب شائع ہوئی تو اسکی تیس لاکهـ کاپیاں ایک ہی سال میں فروخت ہوگئیں، ڈاکٹر مودی نے اس کے بعد بهی اس مسئلے کی مزید تفتیش جاری رکهی، اور اسکے بعد اس موضوع پر مزید کئی کتابیں لکهیں، ان میں سے تین کتابیں
مندرجہ ذیل ہیں
1. Life After Life
2. The Light Beyond
3. Reflections on Life After Life
ان تینوں کتابوں میں صرف ان لوگوں کے حالات بیان کۓ گۓ ہیں جنہیں بیماری کی انتہائی شدت میں مرده (Clinically dead) قرار دے دیا گیا، لیکن ایسی حالت میں آخری چاره کار کے طور پر ڈاکٹر صاحبان دل کی مالش اور مصنوعی تنفس دلانے کی جو کوششیں کرتے ہیں، وه ان پر کامیابی سے آزمائی گئیں، اور وه واپس ہوش میں آگۓ، ڈاکٹر مودی کا کہنا ہے کہ جن لوگوں سے انہوں نے انٹرویو کیا وه مختلف مذاہب سے تعلق رکهتے تهے، اور مختلف جگہوں کے باشندے تهے، ان میں سے ہر ایک نے اپنی نظر آنے والی کیفیت کو اپنے اپنے طریق پر بیان کیا، کسی نے کوئی بات زیاده کہی، کسی نے کوئی بات کم بتائی، لیکن بحیثیت مجموعی جو مشترک باتیں (Common Elements) ان میں سے تقریبا ہر شخص کے بیان میں موجود تهیں ان کا خلاصہ یہ ہے:
“ایک شخص مرنے کے قریب ہے، اسکی جسمانی حالت ایسی حد پر پہنچ جاتی ہے کہ وه خود سنتا ہے کہ اس کے ڈاکٹر نے اس کے مرده ہونے کا اعلان کردیا، اچانک اسے ایک تکلیف ده سا شور سنائی دیتا ہے، اور اس کے ساتهـ ہی اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وه انتہائی تیز رفتاری سے ایک طویل اور اندهیری سرنگ میں جا رہا ہے، اسکے بعد اچانک وه یہ محسوس کرتا ہے کہ وه اپنے جسم سے باہر آ گیا ہے، وه اپنے ہی جسم کو فاصلے سے ایک تماشائی بن کر دیکهتا ہے، اسے نظر آتا ہے کہ وه خود کسی نمایاں جگہ پر کهڑا ہے، اور اس کا جسم جوں کا توں چارپائی پر ہے، اور اس کے ڈاکٹر جسم پر جهکے ہوئے اس کے دل کی مالش کر رہے ہیں، یا مصنوعی تنفس دینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
تهوڑی دیر میں وه اپنے حواس بجا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس نئی حالت میں بهی اس کا ایک جسم ہے، لیکن وه جسم اس جسم سے بالکل مختلف ہے، جو وه چهوڑ آیا ہے، اسکی کیفیات بهی مختلف ہیں، اور اس کو حاصل قوتیں بهی کچهـ اور طرح کی ہیں، اسی حالت میں کچهـ دیر بعد اسے اپنے وه عزیز اور دوست نظر آتے ہیں جو مرچکے تهے، اور پهر اسے ایک نورانی وجود (Being of light) نظر آتا ہے، جو اس سے یہ کہتا ہے کہ تم اپنی زندگی کا جائزه لو، اس کا یہ کہنا ماوراء الفاظ (Nonverbal) ہوتا ہے، اور پهر وه خود اس کے سامنے تیزی سے اس کی زندگی کے تمام اہم واقعات لا کر ان کا نظاره کراتا ہے، ایک مرحلے پر اسے اپنے سامنے کوئی رکاوٹ نظر آتی ہے، جس کے بارے میں وه سمجهتا ہے کہ یہ دنیوی زندگی اور موت کے بعد کی زندگی کے درمیان ایک سرحد ہے، اس سرحد کے قریب پہنچ کر اسے پتہ چلتا ہے کہ اسے اب واپس جانا ہے، ابهی اس کی موت کا وقت نہیں آیا، اس کے بعد کسی انجانے طریقے پر وه واپس اپنے اسی جسم میں لوٹ آتا ہے، جو وه چارپائی پر چهوڑ کر گیا تها۔
صحت مند ہونے کے بعد وه اپنی یہ کیفیت دوسروں کو بتانا چاہتا ہے، لیکن اول تو اس کیفیت کو بیان کرنے کے لۓ اسے تمام انسانی الفاظ ناکافی معلوم ہوتے ہے، دوسرے اگر وه لوگوں کو یہ باتیں بتاۓ بهی تو وه مذاق کرنے لگتے ہیں، لہذا وه خاموش رہتا ہے۔
ڈاکٹر مودی نے ڈیڑهـ سو(150) افراد کے انٹرویو کا یہ خلاصہ بیان کرتے ہوے ساتهـ ہی یہ وضاحت بهی کی ہے کہ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ڈیڑهـ سو افراد میں سے ہر شخص نے یہ پوری کہانی اسی ترتیب کے ساتهـ بیان کی، بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ کسی نے یہ پوری کہانی بیان کی، کسی نے اس کے کچهـ حصے بتاۓ ، کچهـ چهوڑ دیۓ، کسی کی ترتیب کچهـ تهی، کسی کی کچهـ اور، بلکہ اس بات کو بیان کرنے کے لۓ اکثر افراد نے مختلف الفاظ اور مختلف تعبیرات اختیار کیں، اور یہ بات تقریبا ہر شخص نے کہی کہ جو کچهـ ہم نے دیکها ہے، اسے لفظوں میں تعبیر کرنا ہمارے لۓ سخت مشکل ہے، ایک خاتون نے اپنی اسی مشکل کو قدرے فلسفیانہ زبان میں اس طرح تعبیر کیا:
“میں جب آپ کو یہ سب کچهـ بتانا چاہتی ہوں تو میرا ایک حقیقی مسئلہ یہ ہے کہ جتنے الفاظ مجهے معلوم ہیں، وه سب سہ ابعادی (Three- dimensional) ہیں، (یعنی طول، عرض، عمق کے تصورات میں مقید ہیں) میں نے اب تک جیومیڑی میں یہی پڑها تها کہ دنیا میں صرف تین ابعاد ہیں، لیکن جو کچهـ میں نے (مرده قرار دیۓ جانے کے بعد) دیکها اس سے پتہ چلا کہ یہاں تین سے زیاہ ابعاد ہیں۔ اس لۓ اس کیفیت کو ٹهیک ٹهیک بتانا میرے لۓ بہت مشکل ہے، کیونکہ مجهے اپنے ان مشاہدات کو سہ ابعادی الفاظ میں بیان کرنا پڑ رہا ہے۔
بہر کیف! ان مختلف افراد نے جو کیفیات بیان کی ہے، ان میں سے چند بطور خاص اہمیت رکهتی ہیں، ایک تاریک سرنگ، دوسرے جسم سے علیحدگی، تیسرے مرے ہوے رشتہ داروں اور دوستوں کو دیکهنا، چوتهے ایک نورانی وجود، پانچویں اپنی زندگی کے گذرے ہوے واقعات کا نظاره، ان تمام باتوں کی جو تفصیل مختلف افراد نے بیان کی ہے، اس کے چند اقتباسات قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوں گے:
تاریک سرنگ سے گذرنے کے تجربے کو کسی نے یوں تعبیر کیا ہے کہ میں ایک تاریک خلا میں تیر رہا تها، کسی نے کہا ہے کہ یہ ایک گهٹا ٹوپ اندهیرا تها، اور میں اس میں نیچے بیٹهتا جا رہا تها، کسی نے اسے ایک کنویں سے تعبیر کیا ہے، کسی نے اسے اندهیرے غار کا نام دیا ہے، کسی نے کہا ہے کہ وه ایک تاریک وادی تهی، کوئی کہتا ہے کہ میں اندھیرے میں اوپر اٹهتا چلا گیا، مگر یہ بات سب نے کہی ہے کہ یہ الفاظ اس کیفیت کو بیان کرنے کے لۓ ناکافی ہیں۔
جس مشاہدے کو تمام افراد نے بڑی حیرت کے ساتهـ بیان کیا، وه یہ تها کہ وه اپنے جسم سے الگ ہوگۓ، ایک خاتون جو دل کے دورے کی وجہ سے ہسپتال میں داخل تهیں، بیان کرتی ہے کہ اچانک مجهے ایسا محسوس ہوا کہ میرا دل دهڑکنا بند ہو گیا، اور میں اپنے جسم سے پهسل کر باہر نکل رہی ہوں، پہلے میں فرش پر پہنچتی، پهر آہستہ آہستہ اوپر اٹهنے لگی، یہاں تک کہ میں ایک کاغذ کے پرزے کی طرح اڑتی ہوئی چھت سے جا لگی، وہاں سے میں صاف دیکهـ رہی تھی کہ میرا جسم نیچے بستر پر پڑا ہوا ہے، اور ڈاکٹر اور نرسیں اس پر اپنی آخری تدبیریں آزما رہے ہیں، ایک نرس نے کہا، اوه خدایا! یہ تو گئی، اور دوسری نرس نے میرے جسم کے منہ سے منہ لگا کر اسے سانس دلانے کی کوشش کی، مجهے اس نرس کی گدی پیچهے سے نظر آرہی تهی، اور اس کے بال مجھے اب تک یاد ہیں، پهر وه ایک مشین لاۓ جس نے میرے سینے کو جهٹکے دۓ، اور میں اپنے جسم کو اچهلتا دیکهتی رہی۔
جسم سے باہر آنے کی اس حالت کو بعض افراد نے اس طرح تعبیر کیا ہے کہ ہم ایک نئے وجود میں آگۓ تهے جو جسم نہیں تها، اور بعض نے کہا ہے کہ وه بهی ایک دوسری قسم کا جسم تها جو دوسروں کو دیکهـ سکتا تها، مگر دوسرے اسے نہیں دیکهـ سکتے تهے، اس حالت میں بعض افراد نے نظر آنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں سے بات کرنے کی بهی کوشش کی، مگر وه ان کی آواز نہ سن سکے، یہ بات بهی بہت سے افراد نے بتائی کہ وہ ایک بےوزنی کی کیفیت تهی، اور ہم اس بےوزنی کے عالم میں نہ صرف فضا میں تیرتے رہے، بلکہ اگر ہم نے کسی چیز کو چهونے کی کوشش کی تو ہمارا وجود اس شے کے آر پار ہوگیا ، بہت سے لوگوں نے نے یہ بهی بتایا کہ اس حالت میں وقت ساکت ہو گیا تها، اور ہم یہ محسوس کر رہے تهے کہ ہم وقت کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں۔
اسی حالت میں کئی افراد نے اپنے مرے ہوے عزیزوں دوستوں کو بهی دیکها، اور کچهـ لوگوں نے بتایا کہ ہم نے بہت سی بهٹکتی ہوئی روحوں کا مشاہده کیا، یہ بهٹکتی ہوئی روحیں انسانی شکل سے ملتی جلتی تهیں، مگر انسانی صورت سے کچهـ مختلف بهی تهیں، ایک صاحب نے ان کی کچهـ تفصیل اس طرح بتائی:
“ان کا سر نیچے کی طرف جهکا ہوا تها، وه بہت غمگین اور افسرده نظر آتے تهے، وه سب آپس میں ایک دوسرے میں اسطرح پیوست معلوم ہوتے تهے جیسے زنجیروں میں بندها ہوا کوئی گروه ہو، مجهے یاد نہیں آتا کہ میں نے ان کے پاؤں بهی دیکهے ہوں، مجهے معلوم نہیں وه کیا تها، مگر ان کے رنگ اڑے ہوے تهے، وه بالکل سست تهے، اور مٹیالے نظر آتے تهے، ایسا لگتا تها کہ وه ایک دوسرے کے ساتهـ گتهے ہوے خلا میں چکر لگا رہے ہیں، اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ انہیں کہاں جانا ہے، وه ایک طرف کو چلنا شروع کرتے، پهر بائیں کو مڑجاتے، چند قدم چلتے، پهر دائیں کو مڑجاتے اور کسی بهی طرف جا کر کرتے کچهـ نہ تهی، ایسا لگتا تها کہ وه کسی چیز کی تلاش میں ہیں، مگر کس چیز کی تلاش میں؟ مجهے معلوم نہیں، ایسا لگتا تها کہ جیسے وه خود اپنے بارے میں بهی کوئی علم نہیں رکهتے کہ وه کون اور کیا ہیں؟ ان کی کوئی شناخت نہیں تهی، بعض اوقات ایسا بهی محسوس ہوا کہ ان میں سے کوئی کچهـ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا.(Reflections P.19)
ڈاکٹر مودی نے جتنے لوگوں کا انٹرویو کیا، ان کی اکثریت نے اپنے اس تجربے کے دوران ایک ” نورانی وجود” (Being of Light) کا بهی ضرور ذکر کیا ہے، ان لوگوں کا بیان ہے کہ اسے دیکهـ کر یہ بات تو یقینی معلوم ہوتی تهی کہ وه کوئی وجود ہے، لیکن اس کا کوئی جسم نہیں تها، وه سراسر روشنی ہی تهی، ابتدا میں وه روشنی ہلکی معلوم ہوتی، لیکن رفتہ رفتہ تیز ہوتی چلی جاتی، لیکن اپنی غیر معمولی تابانی کے باوجود اس سے آنکهیں خیره نہیں ہوتی تهیں، بہت سے لوگوں نے بتایا کہ اس نورانی وجود نے ان سے کہا کہ تم اپنی زندگی کا جائزه لو، بعض نے اس کی کچهـ اور باتیں بهی نقل کیں، لیکن یہ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اس نورانی وجود نے جو کچهـ کہا، وه لفظوں اور آواز کے ذریعے نہیں کہا، یعنی اس کے کوئی لفظ انہیں سنائی نہیں دیتے، بلکہ یہ بالکل نرالا انداز اظہار تها، جس کے ذریعے اس کی باتیں خود بخود ہمارے خیالات میں منتقل ہو رہی تہیں۔
جن لوگوں نے اس بےجسمی کی حالت میں ایک نورانی وجود کو دیکهنے کا ذکر کیا ہے، ان میں سے اکثر کا کہنا یہ ہے کہ اس نورانی وجود نے ہم سے ہماری سابق زندگی کے بارے میں کچهـ سوال کیا، سوال کے الفاظ مختلف لوگوں نے مختلف بیان کۓ ہیں، مگر مفہوم سب کا تقریبا یہ ہے کہ تمہارے پاس اپنی سابق زندگی میں مجهے دکهانے کے لۓ کیا چیز ہے؟
پهر ان لوگوں کا بیان ہے کہ اس نورانی وجود نے ہماری سابق زندگی کے واقعات ایک ایک کر کے ہمیں دکهانے شروع کۓ، یہ واقعات کس طرح دکهاۓ گۓ؟ اس کی تفصیل اور زیاده دلچسپ ہے،
جو کسی شدید بیماری یا حادثے کے نتیجے میں موت کے دروازے تک پہنچ کر واپس آگۓ، ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہ بتایا کہ ایک تاریک سرنگ سے گذرنے کے بعد انہیں ایک عجیب و غریب نورانی وجود نظر آیا، اس نے ہم سے ہماری پچهلی زندگی کے بارے میں سوال کیا، اور پهر اس نے پل بهر میں خود ہی ہمیں ہماری زندگی کے سارے واقعات ایک ایک کرکے دکها دیۓ، مثلا ایک خاتون اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوے کہتی ہیں:
جب مجهے وه نورانی وجود نظر آیا تو اس نے سب سے پہلے مجهـ سے یہ کہا کہ تمہارے پاس اپنی زندگی میں مجهے دکهانے کے لۓ کیا ہے؟ اور اس سوال کے ساتهـ ساتهـ پچهلی زندگی کے نظارے مجهے نظر آنے شروع ہوگۓ، میں سخت حیران ہوئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیونکہ اچانک ایسا لگا کہ میں اپنے بچپن کے بالکل ابتدائی دور میں پہنچ گئی ہوں، اور پهر میری آج تک کی زنگی کے ہر سال کا نظاره ایک ساتهـ میرے سامنے آ گیا، میں نے دیکها کہ میں ایک چهوٹی سی لڑکی ہوں، اور اپنے گهر کے قریب ایک چشمے کے پاس کهیل رہی ہوں، اسی دور میں بہت سے واقعات جو میری بہن کے ساتهـ پیش آۓ تهے، مجهے نظر آۓ، اپنے پڑوسیوں کے ساتهـ گذرے ہوے واقعات دیکهے، میں اپنے آپ کو کنڈر گارٹن میں نظر آئی، میں نے وه کهلونا دیکها جو مجهے بہت پسند تها، میں نے اسے توڑدیا تها، اور دیر تک روتی رہی تهی، پهر میں گرلز اسکاؤٹس میں شامل ہوگئی، اور گرامر اسکول کے واقعات میرے سامنے آنے لگے، اسی طرح میں جونیر ہائی اسکول سینئر ہائی اسکول اور گریجویشن کے مراحل سے گذرتی رہی، یہاں تک کہ موجوده دور تک پہنچ گئی.
تمام واقعات میرے سامنے اسی ترتیب سے آرہے تهے جس ترتیب سے وه واقع ہوے، اور یہ سب واقعات انتہائی واضح نظر آرہے تهے، مناظر بس اس طرح تهے جیسے تم ذرا باہر نکلو اور انہیں دیکهـ لو، سب واقعات مکمل طور پر سہ ابعادی (Three- dimensional) تهے، اور رنگ بهی نظر آرہے تهے، ان میں حرکت تهے، مثلا جب میں نے اپنے آپ کو کهلونا توڑتے دیکها تو میں اسکی تمام حرکتیں دیکهـ سکتی تهی.
جب مجهے یہ مناظر نظر آرہے تهے، اس وقت میں اس نورانی وجود کو دیکهـ نہیں سکتی تهی، وہ یہ کہتے ہی نظروں سے اوجهل ہوگیا تها کہ تم نے کیا کچهـ کیا ہے؟ اسکے باوجود میرا احساس یہ تها کہ وه خود یہ معلوم کرنا چاہتا ہو، کہ میں نے اپنی زندگی میں کیا کیا ہے؟ وہ پہلے ہی سے یہ ساری باتیں جانتا تها، لیکن وه یہ واقعات میرے سامنے لا کر یہ چاہتا تها کہ میں انہیں یاد کروں۔
یہ پورا قصہ ہی بڑا عجیب تها، میں وہاں موجود تهی، میں واقعة یہ سب مناظر دیکهـ رہی تهی، اور یہ سارے مناظر انتہائی تیزی سے میرے سامنے آ رہے تهے، مگر تیزی کے باوجود وه اتنے آہستہ ضرور تهے کہ میں ان کا بخوبی ادراک کر سکتی تهی، پهر بهی وقت کا دورانیہ اتنا زیادہ نہ تها، مجهے یقین نہیں آتا، بس ایسا معلوم ہوتا تها کہ ایک روشنی آئی اور چلی گئی، ایسا لگتا تها کہ یہ سب کچهـ پانچ منٹ سے بهی کم میں ہو گیا، البتہ غالبا تیس سیکنڈ سے زیادہ وقت لگا ہو گا، لیکن میں آپ کو ٹهیک ٹهیک بتا ہی نہیں سکتی۔
ایک اور صاحب نے اپنے اس مشاہدے کا ذکر اس طرح کیا:
“جب میں اس طویل اندهیری جگہ سے گذر گیا تو اس سرنگ کے آخری سرے پر میرے بچپن کے تمام خیالات، بلکہ میری پوری زندگی مجهے وہاں موجود نظر آئی جو میرے بالکل سامنے روشنی کی طرح چمک رہی تهی، یہ بالکل تصویروں کی طرح تهی، بلکہ میرا اندازه ہے کہ وه خیالات سے زیاده ملتی جلتی تهی، میں اس کیفیت کو آپ کے سامنے بیان نہیں کرسکتا، مگر یہ بات طے ہے کہ میری ساری زندگی وہاں موجود تهی، وه سب واقعات ایک ساتهـ وہاں نظر آ رہے تهے، میرا مطلب ہے کہ ایسا نہیں تها کہ ایک وقت میں ایک چیز نظر آۓ، اور دوسری وقت دوسری، بلکہ ہر چیز بیک وقت نظر آرہی تهی، میں وه چهوٹے چهوٹے برے کام بهی دیکهـ سکتا تها جو میں نے کۓ تهے، اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہورہی تهی کہ کاش میں نے یہ کام نہ کۓ ہوتے، اور کاش میں واپس جا کر ان کاموں کو منسوخ (Undo) کرسکتا۔
(Life after Life P. 65-69)
جن لوگوں نے اپنے یہ مشاہدات ڈاکٹر مودی کے سامنے بیان کۓ، ان میں سے بعض نے یہ بهی بتایا کہ اس مشاہدے کے آخری مرحلے پر انہوں نے کوئی ایسی چیز دیکهی جیسے کوئی رکاوٹ ہو، اور یا تو کسی نے کہا یا خود بخود ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ ابهی ان کے لۓ اس رکاوٹ کو عبور کرنے کا وقت نہیں آیا، اور اسی کے بعد وه دوباره اپنے جسم میں واپس آ گۓ، اور معمول کی دنیا کی طرف پلٹ اۓ، بعض لوگوں نے بتایا کہ یہ رکاوٹ پانی کے ایک جسم کی سی تهی، کسی نے کہا کہ یہ ایک مٹیالے رنگ کی دهند تهی، کسی نے اسے دروازے سے تعبیر کیا، کسی نے کہا کہ وه اس طرح کی ایک باڑهـ تهی جو کهیت کے گرد لگادی جاتی ہے، اور کسی نے یہ بهی کہا که وه صرف ایک لکیر تهی۔
ڈاکٹر مودی کی یہ کتاب Life after Life جس میں انہوں نے آٹهـ سال تک سینکڑوں افراد سے انٹرویو کے نتائج بیان کۓ تهے، ساتهـ ہی انہوں نے یہ بهی کہا تها که ابهی ان کی یہ ریسرچ نہ پوری طرح سائنٹفک ثبوت کہلانے کی مستحق ہے، نہ وه اس قسم کے واقعات کے ذمہ دارانہ اعداد و شمار دینے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن ان کی اس کتاب نے دوسرے بہت سے ڈاکٹروں کو اس موضوع کی طرف متوجہ کیا، اور ان کی بعد بہت سے لوگوں نے اس قسم کے مشاہدات کو اپنا موضوع بنایا، اور اس پر مزید کتابیں لکهیں، ان میں سے ایک کتاب ڈاکٹر میلون مورس (Melvin Morse) نے لکهی ہے جو Closer To the Light کے نام سے شائع ہوئی ہے، یہ صاحب بچوں کے امراض کے اسپیشلسٹ ہیں، اور انہوں نے اس بات کی جستجو شروع کی کہ کیا اس قسم کے مشاہدات بچوں کو بهی پیش آۓ ہیں؟ ان کا خیال تها کہ بالغ لوگ اپنے ذہنی تصورات سے مغلوب ہوکر کچهـ نظارے دیکهـ سکتے ہیں، لیکن بچے اس قسم کے تصورات سے خالی الذہن ہوتے ہیں، اس لۓ اگر ان میں بهی ان مشاہدات کا ثبوت ملے تو ان نظاروں کی واقعی حیثیت مزید پختہ ہو سکتی ہے، چنانچہ اس کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ بہت سے بچوں نے بهی اس قسم کے مشاہدات کۓ ہیں، اور انہوں نے خود ان بچوں سے ملاقات کر کے ان کے بیانات کو مختلف ذرائع سے ٹیسٹ کیا ہے، اور ان کا تاثر یہ ہے کہ ان بچوں نے جهوٹ نہیں بولا، بلکہ واقعة انہوں نے یہ مناظر دیکهے ہیں. 236 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اسی قسم کے بیانات اور ان کے سائنٹفک تجزیے پر مشتمل ہے.
ایک اور صاحب پالسٹر جارچ گیلپPollster George Gallup نے پورے امریکہ میں ایسے لوگوں کا سروے کیا جو اس قسم کے مشاہدات سے گذر چکے تهے، ان کے سروے کا چونکا دینے والا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی کل آبادی کے تقریبا پانچ فیصد افراد موت کے قریب پہنچ کر اس قسم کے مشاہدات سے گذر چکے ہیں. ڈاکٹر مودی نے بهی اپنی تحقیق مزید جاری رکهی، اور اپنی دوسری کتاب The Light Beyond میں انہوں نے لکها ہے کہ پہلے ڈیڑهـ سو افراد کے بعد انہوں نے مزید ایک ہزار افراد سے انٹرویو کیا، اور اس کے نتائج بهی کم وبیش وہی تهے، البتہ اس دوران بعض افراد نے کچهـ نئی باتیں بهی بتائیں، مثلا پہلے ڈیڑهـ سو افراد میں سے کسی نے صراحة جنت یا دوزخ قسم کی کسی چیز کا ذکر نہیں کیا تها، لیکن اس نئی تحقیق کے دوران کئی افراد نے ایک روشنیوں کے خوبصورت شہر کا ذکر کیا، بعض نے بڑے خوبصورت باغات دیکهے، اور اپنے بیان میں انہیں جنت سے تعبیر کیا، بعض افراد نے صاف صاف دوزخ کے مناظر بهی بیان کۓ، ایک صاحب نے بتایا کہ میں نیچے چلتا گیا، نیچے اندهیرا تها، لوگ بری طرح چیخ چلا رہے تهے! وہاں آگ تهی، وه لوگ مجهـ سے پینے کے لۓ پانی مانگ رہے تهے، انٹرویو کرنے والے نے پوچها کہ کیا آپ کسی سرنگ کے ذریعے نیچے گۓ تهے؟ انہوں نے جواب دیا نہیں، وه سرنگ سے زیاده بڑی چیز تهی، میں تیرتا ہوا نیچے جا رہا تها، پوچها گیا کہ وہاں کتنے آدمی چیخ پکار کر رہے تهے؟ اور ان کے جسم پر کپڑے تهے یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ اتنے تهے کہ آپ انہیں شمار نہیں کر سکتے، میرے خیال میں ایک ملین ضرور ہوں گے، اور ان کے جسم پر کپڑے نہیں تهے.
(The Light Beyond P.26, 27)
ڈبلیوایچ مائرز (Fredric W. H. Myers) نے اپنی کتاب Human Personality and its survival of Bodily Deathمیں سینکڑوں واقعات کا سائنسی تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جسمانی موت کے بعد انسان کی شخصیت کا وہ حصہ باقی رہتا ہے جسے سپرٹ (Spirit)کہتے ہیں۔
افلاطون کی تحریروں میں بھی موت کے تجربات کثرت سے بیان ہوئے ہیں مثال کے طور پر افلاطون کہتا ہے کہ زندہ آدمی کا مادی جسم جب روحانی وجود سے الگ ہو جاتا ہے تو یہ مردہ حالت میں چلا جاتا ہے اور انسان کا روحانی وجود اپنے مادی جسم کی پابندیوں سے مبراء ہو جاتا ہے جو اس مادی بدن کی وجہ سے ہیں۔ یعنی یہ مادی بدن اپنے بوجھ کی وجہ سے حرکت اور رفتار وغیرہ کے سلسلہ میں محدود ہے لیکن روحانی وجود ان بندھنوں سے آزاد ہے افلاطون کا وقت کے بارے میں یہ نظریہ تھا کہ یہ اس طبعی زندگی ہی کا ایک عنصر ہے۔ اور موت کے بعد والی زندگی میں وقت کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہاں پہ دوسرے ابدی عناصر ہیں۔ جو وقت پہ بھی غالب ہیں۔ یعنی موت کے بعد ہم ابدیت میں داخل ہو کر وقت کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
نیز انسانی نفس جب مادی جسم سے الگ کیا جاتا ہے تو اس کی ملاقات ان نفوس سے ہوتی ہے جو اس سے پہلے دنیا سے جا چکے ہوتے ہیں۔ وہ ان سے بات چیت بھی کرتا ہے اور وہ بھی اس سے دنیا کے حالات معلوم کرتے ہیں۔ وہ نو وارد کی تسلی تشفی بھی کرتے ہیں اور درپیش آئندہ سفر میں اس کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ نیز مرنے والے نفوس کے ذہن میں ہوتا ہے کہ موت کے وقت ایک کشتی آئے گی جو ان کو اس دنیا کے پار دوسرے کنارے تک لے جائے گی۔ جہاں انہیں موت کے بعد رہنا ہو گا۔ افلاطون اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ یہ ارضی جسم انسان کے لئے ایک قید خانہ ہے۔ موت ان قیود سے آزادی کا نام ہے۔ اور پھر انسان ایک وسیع تر جہان میں پہنچ کر سکھ کا سانس لیتا ہے۔ افلاطون کے مطابق یہ دنیاوی زندگی نہ سمجھی کی زندگی ہے اپنی پیدائش سے پہلے انسانی نفس شعور کی اونچی منازل پہ قائم ہوتا ہے۔ وہاں سے اتر کر وہ اس مادی جسم میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ ہستی (مادی جسم ) اس کے لئے سو جانے والی بات کی مانند ہے دنیاوی جسم میں داخل ہونے سے پہلے انسانی نفس کے پاس جو اونچا ادراک تھا وہ مادی جسم کی کثافت کی وجہ سے دھندلا جاتا ہے اور وہ سب حقائق اور سچائیاں جو اس سے پہلے معلوم تھیں انہیں بھول جاتا ہے۔ اس لئے موت درحقیقت جاگنے پرانی یادیں واپس لانے کا نام ہے۔ جس کے بعد انسان کا شعور بہت تیز ہو جاتا ہے۔
پادری لیڈبیٹر اپنی کتاب (Invisible Helpers) میں لکھتا ہے موت کے بعد آسٹرل باڈی آسٹرل ورلڈ میں چلی جاتی ہے اگر مرنے والا بدکار ہو تو وہ زمین کے پاس بھٹکتا رہتا ہے۔ وہ اپنی وراثت دوسروں کے پاس دیکھ کر کڑھتا اور جلتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کی ترقی اور دشمنوں کی زندگی پر دانت پیستا ہے۔ ذہنی اضطراب کی اس آگ میں صدیوں جلنے کے بعد اسے طبقۂ بالا میں جانے کی اجازت ملتی ہے۔
ان نظریات کے علاوہ آجکل اور اچکراز کا مشاہدہ بھی کیا جا رہا ہے۔ O.B.E (Out Of Body Experience) بھی کیے جا رہے ہیں جن میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ایک زندہ آدمی اپنے مادی جسم کے بغیر جسم سے الگ ہو کر ہوا میں اڑ رہا ہے۔ دیوار کے آر پار گزر جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے جسم سے باہر ہو تو اس کے جسم پر چوٹ کا اثر نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح روزنامہ جنگ کراچی مورخہ
۔1998۔ 28-1 بروز بدھ کالم 'ناقابل فراموش میں ڈاکٹر سید امجد علی صاحب نے اپنا ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ ان پر دل کا دورہ
1984۔ 3-23کو پڑا وہ اس دور ے کی طویل تفصیل تحریر فرماتے ہیں اور اس تفصیل میں تحریر فرمایا کہ میں 20 منٹ تک مردہ رہا اور اس کے بعد مجھے مردہ قرار دے دیا گیا ۔مرنے سے پہلے میں نے نور کا بنا ہوا ایک فرد اپنے جسم کی طرح نہایت تیزی کے ساتھ پاؤں کی طرف سے شروع ہو کر سر کی طرف سے نکل گیا اور میں مکمل روشنی کا ایک ہلکا پھلکا سا فرد بن گیا،میں اس نور کے آدمی کی رفاقت میں پر سکون تھا۔میں نے تمام وارڈ اور پھر شدید نگداشت جھپکنے میں ہوا میں روشنی کے آدمی کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے قریب ہی رہا اور دیکھتا رہا کہ میرے جسم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے میرے دائیں جانب نور کا ایک سرخ ہالہ آناً فاناًمیں بن چکا تھا۔میں پر سکون حالت میں سرنگ کے اس ہالہ کی رشنیوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا جیسے میں اپنے آپ کو ایک اور دنیا کا فرد محسوس کرنے لگا تھا،اپنے جسم سے کئے جانے والے طبی عمل سے لاتعلق تھا،ہسپتال کے مختلف حصوں سے توانائی کی لہریں اوپر جا رہی تھیں مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ لوگوں کی دعائیں ہیں جب مجھے ٹیلی پیتھی سے پیغام ملا کہ تمہیں واپس جانا ہے تو مجھے اچھا نہیں لگا مگر اس کے علاوہ کوئی چاراکار نہیں تھا۔میں ہوا میں تیرتا ہوا اپنے خالی جسم میں حلول)(داخل) کر گیا اور مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ماضی میں بھی وزن کواٹھائے ہوئے پھرتا رہا ہوں اور آئندہ بھی وقت معین تک اس بوجھ کو گھسیٹنا ہے پھر جب میری آنکھ کھلی تو میں دنیا میں واپس لوٹایا جا چکا تھا۔
اب آئیے ان واقعات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہاں تک ان میں صداقت ہے۔ان تمام مشاہدات کی حقیقت کیا ہے؟
بعض حضرات کا خیال ہے کہ کہ مغربی ملکوں میں پر اسراریت کا شوق ایک جنون (craze) کی حد تک بڑهتا جا رہا ہے، اور یہ کتابیں اسی جنون کا شاخسانہ ہو سکتی ہیں، اگرچہ اس احتمال سے بالکلیہ صرف نظر نہیں کیا جا سکتا، لیکن سنہ 1975 کے بعد سے جس طرح مختلف سنجیدہ حلقوں نے ان واقعات کا نوٹس لیا ہے، اور ان پر جس طرح ریسرچ کی گئی ہے، اس کے پیش نظر یہ احتمال خاصا بعید ہوتا جا رہا ہے، ڈاکٹر مودی نے اس احتمال پر بهی خاصی تفصیل سے بحث کی ہے کہ جن لوگوں سے انہوں نے انٹرویو کیا وه بےبنیاد گپ لگانے کے شوقین تو نہیں تهے، لیکن بالاخر نتیجہ یہی نکلا ہے کہ اتنے سارے آدمیوں کا جو مختلف علاقوں اور مختلف طبقہ ہاۓ خیال سے تعلق رکهتے ہیں، ایک ہی قسم کی گپ لگانا انتہائی بعید از قیاس ہے۔
بعض ڈاکٹروں نے یہ خیال بهی ظاہر کیا کہ بعض منشیات اور دواؤں کے استعمال سے بهی اس قسم کی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں، جن میں انسان اپنے آپ کو ماحول سے الگ محسوس کرتا ہے، اور بعض اوقات اس کا دماغ جهوٹے تصورات کو مرئی شکل دیتا ہے، ایسے میں اسے بعض پر فریب نظارے (Hallucinations) نظر آنے لگتے ہیں،
یا پیرانائے(Parania)دیوانگی شدید دماغی خلل Psychosis کی وہ صورت ہو سکتی۔ جس میں وسوسوں یا خبطوں کا ایک منظّم گروہ مریض کے ذہن میں رس بس جاتا ہے۔یہ وسوسے Delusions اکثر کسی ایک ہی مرکزی خیال کے گرد گھومتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ ان افراد کو اسی قسم کی کسی کیفیت سے سابقہ پیش آیا ہو، لیکن ڈاکٹر مودی نے دونوں قسم کی کیفیات کا الگ الگ تجزیہ کرنے کے بعد یہی راۓ ظاہر کی ہے کہ جن لوگوں سے انہوں نے انٹرویو کیا بظاہر ان کے مشاہدات ان پر فریب نظاروں سے مختلف تهے، ڈاکٹر میلون مورس نے اس احتمال پر زیاده سائنٹفک انداز میں تحقیق کرنے کے بعد اپنا حتمی نتیجہ یہ بتایا ہے کہ یہ مشاہدات (Hallucinations) نہیں تهے۔
انہوں نے اس احتمال پر بهی گفتگو کی ہے کہ ان لوگوں کے مذہبی تصورات ان کے ذہن پر اس طرح مسلط تھے کہ بےہوشی یا خواب کے عالم میں وہی تصورات ایک محسوس واقعے کی شکل میں ان کے سامنے آگۓ، ڈاکٹر مودی نے اس احتمال کو بهی بعید قرار دیا جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جن لوگوں سے ان کی ملاقات ہوئی، ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بهی تهے جو مذہب کے قائل نہ تهے، یا اس سے اتنے بےگانہ تهے کہ ان پر مذہبی تصورات کی کوئی ایسی چهاپ غالب نہیں آ سکتی تهی۔
پهر یہ مشاہدات کیا تهے؟ ان سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
یہ بات تو واضح ہے کہ ان لوگوں کو موت نہیں آئی تهی، اگر موت آ گئی ہوتی تو یہ دوباره دنیا میں واپس نہ آتے، خود ڈاکٹر مودی جنہوں نے ان لوگوں کے بیانات قلمبند کۓ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے موت نہیں دیکهی، البتہ موت کے نزدیک پہنچ کر کچهـ عجیب و غریب مناظر ضرور دیکهے، چنانچہ ان مشاہدات کے لۓ انہوں نے جو اصطلاح وضع کی ہے، وہ ہے Near-death Experiences (قریب الموت تجربات) جسے مخفف کرکے وه N.D.E. سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہی اصطلاح بعد کے مصنفین نے بهی اپنا لی ہے، لہذا اگر ان لوگوں کے بیانات کو سچ مان لیا جاۓ، اور ڈاکٹر مودی کی حتمی راۓ یہ ہے کہ اتنے بہت سے افراد کو بیک وقت جهٹلانا ان کے لۓ آسان نہیں، تو بهی یہ بات ظاہر ہے کہ انہوں نے موت کے بعد پیش آنے والے واقعات کا مشاہده نہیں کیا، البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ از خود رختگی کے عالم میں انہیں اس جہان کی کچهـ جهلکیاں نظر آئیں جس کا دروازه موت ہے۔
میڈیکل سائنس چونکہ صرف ان چیزوں پر یقین رکهتی ہے جو آنکهوں سے نظر آ جائیں، یا دوسرے حواس کے ذریعے محسوس ہو جائیں، اس لۓ ابهی تک وه انسانی جسم میں روح نام کی کسی چیز کو دریافت نہیں کر سکی، اور نہ روح کی حقیقت تک اسکی رسائی ہوسکی ہے، (اور شاید روح کی مکمل حقیقت اسے جیتے جی کبهی معلوم نہ ہو سکے، کیونکہ قرآن کریم نے روح کے بارے میں لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوے یہ فرما دیا ہے کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے ہے، اور تمہیں بہت تهوڑا علم دیا گیا ہے) لیکن قرآن و سنت سے یہ بات پوری وضاحت کے ساتهـ معلوم ہوتی ہے کہ زندگی جسم اور روح کے مضبوط تعلق کا نام ہے، اور موت اس تعلق کے ٹوٹ جانے کا۔
تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں جہاں اس قسم کے لوگوں نے عالم بالا کے کچهـ مناظر کا مشاہده کیا، جن لوگوں کے بیانات پیچهے ڈاکٹر مودی کے حوالے سے نقل کۓ ہیں اگر یہ تسلیم کرلیا جاۓ کہ وه جهوٹ اور دهوکے کے عمل دخل سے خالی ہیں تو ان کے یہ مشاہدات بهی اسی نوعیت کے ہوسکتے ہیں، لیکن انکے بارے میں چند باتیں ذہن نشین رکهنی ضروری ہیں:
(1) جن لوگوں کو یہ مناظر نظر آۓ انہیں ابهی موت نہیں آئی تهی، لہذا جو کچهـ انہوں نے دیکها وه دوسرے جہاں کی جهلکیاں تو ہو سکتی ہیں، لیکن مرنے کے بعد پیش آنے والے واقعات نہیں.
(2) جس حالت میں ان لوگوں نے یہ مناظر دیکهے وه زندگی ہی کی ایک حالت تهی، اور کم از کم دماغ کے مخفی گوشوں میں ابهی زندگی باقی تهی، لہذا ان نظاروں میں دماغ کے تصرف کا امکان بعید از قیاس نہیں.
(3) جن لوگون نے اپنے مشاہدات بیان کۓ وه سب اس بات پر متفق ہیں کہ ان مشاہدات کی تفصیل وہ لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے، پهر بهی انہوں نے یہ کیفیات بیان کرنے کے لۓ محدود لفظوں ہی کا سہارا لیا، چنانچہ یہ بات اب بهی مشکوک ہے کہ وه الفاظ کے ذریعے ان کیفیات کو بیان کرنے میں کس حد تک کامیاب رہے؟ نیز انہیں کون سی بات کتنی صحت کے ساتهـ یاد رہی؟
(4) ان وجوه سے ان مشاہدات کی تمام تفصیلات پر تو بهروسہ نہیں کیا جا سکتا، نہ انہیں مابعد الموت کے بارے میں کسی عقیدے کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے، مابعد الموت کے جتنے حقائق ہمیں معلوم ہونے ضروری ہیں وه وحی الہی کے بےغبار راستے سے آنحضرت صلی الله علیه وسلم نے ہمیں پہنچادۓ ہیں، اور وه اپنی تصدیق کے لۓ اس قسم کے بیانات کے محتاج نہیں، لیکن ان مشاہدات کی بعض باتوں کی تائید قرآن و سنت کے بیان کرده حقائق سے ضرور ہوتی ہے، مثلا ان تمام بیانات کی یہ قدر مشترک قرآن و سنت سے کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہے کہ زندگی صرف اس دنیا کی حد تک محدود نہیں جو ہمیں اپنے گرد و پیش میں پهیلی نظر آتی ہے، بلکہ دنیا کے اس پار ایک عالم اور ہے جس کی کیفیات کا ٹهیک ٹهیک ادراک ہم مادی کثافتوں کی قید میں رہتے ہوے نہیں کر سکتے، وہاں پیش آنے والے واقعات زمان و مکان کے ان معروف پیمانوں سے بالاتر ہیں جن کے ہم دنیوی زندگی میں عادی ہوچکے ہیں، یہاں ہم یہ تصور نہیں کر سکتے کہ ایک کام جسے انجام دینے کے لۓ سالہا سال درکار ہوتے ہیں وه ایک لمحہ میں کیسے انجام پا سکتا ہے؟ لیکن وہاں پیش آنے والے واقعات وقت کی اس قید سے آزاد ہیں، قرآن کریم فرماتا ہے:
«إن یوما عند ربک کألف سنة مما تعدون»
“تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال کے برابر ہے” (سوره الحج، 47)
یہ عالم کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ اور اس تک پہنچنے کے لۓ کس قسم کی تیاری ضروری ہے؟ یہی باتیں بتانے کے لۓ انبیاء علیہم السلام تشریف لاتے ہیں، کیونکہ یہ باتیں ہم صرف اپنے حواس اور اپنی عقل سے معلوم نہیں کر سکتے، آخری دور میں یہ باتیں ہمیں حضور نبی کریم صلی الله علیه وسلم نے اسلامی شریعت کے ذریعے بتادی ہیں، اور جسے اس عالم کے لۓ ٹهیک ٹهیک تیاری کرنی ہو، وه اس شریعت کو سیکهـ لے، اس پر عالم کے حقائق بهی واضح ہو جائیں گے، اور وہاں تک پہنچنے کا صحیح طریقہ بهی آ جاۓ گا۔
روحوں سے فیض اور ملاقات کرنے کے مسلم معاشرے میں بے شمار طریقے رائج ہیں۔ہم بطور مثال دو طریقے بیان کرتے ہیں ۔
1:حاضراتِ ارواح کا زندہ و جاوید عمل جس کے ذریعے نادر و نایاب طلسماتی آئینہ میں ہر شخص چاہے نابالغ ہو یا بالغ جب اور جہاں چاہے روحانیات کی پراسرار مخفی مخلوق کو حاضر کر کے انتہائی عجیب و غریب اور حیرت انگیز کمالات کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ خفیہ باتوں اور پوشیدہ رازوں کا انکشاف کر سکتا ہے۔ گمشدہ انسان و حیوان کی روح کو حاضر کر کے اس کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
سالہا سال کے مردہ انسانوں، شہداء اور اپنے اسلاف کی روحوں سے ملاقات کر کے دنیا و عالم برزخ کے پوشیدہ حالات کو معلوم کرنا، ایسے جنسی حالات و واقعات جن کا تصور خواب کی دنیا میں ابھی ناممکن ہو، اس آئینہ میں روحانیات کی مدد سے دیکھے اور معلوم کیے جا سکتے ہیں۔
آگے اس آئینہ کو استعمال کرنے کے خود ساختہ طریقے بتائے گئے ہیں۔جن کی تفصیلات یہاں ضرورت نہیں ہے۔(ماہ نامہ:آئینہ قسمت،اسٹرولجر علی زنجانی)
2:مزید مسلم گروہ کے ہاں بھی روحوں سے ملاقات اور فیض حاصل کرنے کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ بطور مثال ایک واقعہ پیش خدمت ہے
بعض مسلم گروہ اس پر متفق ہیں۔کہ ارواح سے ملاقات اور فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔۔ روح کو حاضر کیا جا سکتا ہے۔روح سے کلام کیا جا سکتا ہے۔روح علین میں ہو اور بدن صیح ہو تو روح کا تعلق بدن سے کس طرح ہوتا ہے،
نبی اکرمﷺ کے جسم اقدس جس صورت میں ہے ، دیکھا جا سکتا ہے۔ انبیاء ؑ کی روحوں سے ملاقات کی جا سکتی ہے۔وغیرہ وغیرہ
(حوالہ: الغزالی فورم ویب سائٹhttp://algazali.org)
اسی طرح رسالہ عبقری،روحانی ڈائجست،روحانی علوم،جنتریاں اور دیگر اخبارات و رسائل،ویب سائٹ ، بلاگز ،فورم وغیرہ بھی روحوں سے ملاقات کرانے کے خود ساختہ طریقے بتائے جاتے ہیں جس کی تفصیلات انٹر نیٹ کی دنیا میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
مزید روحوں سے ملاقاتوں کے خود ساختہ طریقوں کے لئے ان کتب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔طوالت کے پیش نظر ہم یہاں تمام واقعات درج نہیں کر رہے۔روحوں سے ملاقات،طلسماتی دنیا کے کرشمے۔مردہ روح سے بات کرنا،روح کو بلانے کے طریقے۔کشف اعمال،دلائل السلوک، کامل عامل،اور دیگر کتب وغیرہ ۔
اوپر ذکر کردہ اقتباسات کو سامنے رکھ کر کئی سوال جنم لیتے ہیں کہ کیا برزخ کی زندگی اتنی کھلی زندگی کی طرح ہے؟ کہ جو چاہے اس کے کھلے مشاہدے کر سکے؟
دنیا بھر کے سائنسدانوں اور فلاسفروں کو تو روح کیا ہے؟کا ذرا بھر بھی پتہ نہ چل سکا اور نام نہاد روحانی علوم کے ماہر چند دنوں میں ہر قسم کی ارواح سے ملاقات کروا دیتے ہیں؟
کیا کوئی خیر القرون میں کوئی "عارف کامل" گزرا ہے جو خود بھی روحوں سے ملاقات کرتا تھا اور، اُوروں کو بھی روحوں سے ملاقات کرواتا تھا؟
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام کو روحوں سے کلام اور استفادہ کرواتے تھے ؟
کیا صحابہ کرام وتابعین عظام لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارک سے ملاقات کرواتے تھے؟
کیا ائمہ اربعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام وتابعین عظام کی ارواح
ملاقات یا مشاہدات کروائے؟
اسی طرح کے بے شمار سوالات جنم لیتے ہیں ۔
آئیے اب اسلامی نکتہ نظر دیکھتے ہیں کہ کیا روحوں کو حاضر یا ملاقات کی جا سکتی ہے۔
روحوں کو حاضر كرنا:
بہت سے مصنفين حضرات اور ان کے علاوہ کے درميان یہ بات عام ہو گئی ہے، جسے روح کی حاضری کا علم کہتے ہیں، یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنے ایجاد کردہ جھاڑ پھونک (موجودہ دور کے جدید آلات ) کے ذریعہ مردہ روحوں کو حاضر کرتے ہیں، اور ان سے مردوں کے حال دریافت کرتے ہیں کہ وہ جنت میں ہیں یا جہنم میں، اور ان کے علاوہ ديگر چیزوں کا علم جو ان کے گمان کے مطابق مردہ کو ان کی زندگی میں حاصل تھا۔یہ ایک جھوٹا علم اور شیطانی جھاڑ پھونک ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کے عقیدے اور ان کے اخلاق میں بگاڑ پیدا کرنا اور علم غیب کو دوسری چیزوں کی جانب منسوب کرنا ہے۔
روح کا مسئلہ ان امور میں سے ہے جس کی حققیقت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے ، تو اس میں داخل ہونا صرف شرعی دلیل کے ساتھـ ہی ہو سکتا ہے، الله تعالى کا فرمان ہے: ﻭﮦ ﻏﯿﺐ ﰷ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﯿﺐ ﭘﺮ ﻛﺴﯽ ﻛﻮ ﻣﻄﻠﻊ ﻧﮩﯿﮟﻛﺮﺗﺎ ۔ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮ ﻛﮯ ﺟﺴﮯ ﻭﮦ ﭘﺴﻨﺪ ﻛﺮﻟﮯ،ﻟﯿﻜﻦ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﮩﺮﮮ ﺩﺍﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﻛﺮﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی نے سورة النمل میں فرماتا ہے: ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍللہ ﻛﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﻏﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ۔
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺭﻭﺡ ﻛﯽ ﺑﺎﺑﺖ ﺳﻮﺍﻝ ﻛﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺁﭖ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ دیجئے ﻛﮧ ﺭﻭﺡ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻛﮯ ﺣﻜﻢ ﺳﮯ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮨﯽ ﻛﻢ ﻋﻠﻢ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ۔ بعض نے کہا: وہ روح ہے جو بدن میں ہے اس بناپر آیت اس بات کی دلیل ہے کہ روح اللہ کا امر ہے، جس کے بارے میں اللہ کے سوا کسی کو کوئی علم نہیں ہے، مگر صرف اتنا جتنا اللہ نے بتا دیا ہے؛ اس لئے کہ یہ ان علوم میں سے ہے جس کا علم اللہ نے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے اور مخلوق سے چھپا رکھا ہے، اور اس بات پر قرآن کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی صحیح حدیث دلالت کرتی ہے کہ مردہ کی روح بدن کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے، اور اس پر اللہ تعالی کا یہ قول دلالت کرتا ہے: ﺍللہ ﮨﯽ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﻛﻮ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻣﻮﺕ ﻛﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﻛﯽ ﻣﻮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻛﮯ ﻭﻗﺖ ﻗﺒﺾ ﻛﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﺟﻦ ﭘﺮ ﻣﻮﺕ کا ﺣﻜﻢ ﻟﮓ ﭼکا ﮨﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﻭک ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ( ﺭﻭﺣﻮﮞ ) ﻛﻮ ﺍﯾک ﻣﻘﺮﺭ ﻭﻗﺖ ﺗک ﻛﮯ ﻟﯿﮯﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ۔
"اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن سردرانِ قریش میں سے چوبيس آدمیوں کے بارے میں حکم دیا، تو وہ بدر کے گندے ناپاک ایک کنویں میں پھینک ديئے گئے، اور آپ جب کسی قوم پر غالب آتے، تو اس جگہ تین رات قیام کرتے، تو جب بدر کے مقام پر تیسرا دن تھا، تو آپ نے کوچ کرنے کا حکم دیا، تو کجاوہ باندھا گیا، پھر آپ چلے اور آپ کے صحابہ پیچھے پيچھے چلے، اور ان لوگوں نے کہا: ہمارا خیال ہے کہ آپ اپنی بعض ضرورت کی وجہ سے گئے ہیں، یہاں تک کہ کنواں کے ایک کنارہ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کو ان کے نام اور ان کے آباء واجداد کے نام لے کر آواز دینے لگے، اے فلاں ابن فلاں، اے فلاں ابن فلاں، تمہارے لئے یہ بات آسان تھی کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کر لیتے، بلا شبہ ہم نے وہ باتیں ٹھیک پالی ہیں جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا، کیا تم نے ٹھیک پا لیا جو تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ راوی کہتے ہیں: تو حضرت عمر نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ایسے جسموں سے کیسے باتیں کر رہے ہیں جن میں روح نہیں ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے قدرت میں محمد کی جان ہے، میں جو باتیں کہہ رہا ہوں اسے وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں؛ لیکن وہ لوگ جواب دینے پر قادر نہیں ہیں"۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ: مردہ دفن کرنے والوں کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے جب وہ اسے دفنا كر لوٹتے ہیں۔علامہ ابن قیم رحمة الله عليہ نے کہا: "اسلاف کا اس بات پر اتفاق ہے اور ان سے بہت سارے آثار منقول ہیں کہ میت زندہ آدمی کی زیارت کو جانتا ہے اور اسے اس کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ اور علامہ ابن قیم سے منقول ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما اللہ تعالی کے اس قول:ﺍللہ ﮨﯽ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﻛﻮ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻣﻮﺕ ﻛﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﻛﯽ ﻣﻮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﻛﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻛﮯ ﻭﻗﺖ ﻗﺒﺾ ﻛﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ، ﭘﮭﺮ ﺟﻦ ﭘﺮ ﻣﻮﺕ کا ﺣﻜﻢ ﻟﮓ ﭼکا ﮨﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﻭک ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ( ﺭﻭﺣﻮﮞ ) ﻛﻮ ﺍﯾک ﻣﻘﺮﺭ ﻭﻗﺖ ﺗک ﻛﮯ ﻟﯿﮯﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ۔
کی تفسیر میں کہا: مجھے یہ بات پہونچی ہے کہ زندوں اور مردوں کی روحیں خواب میں ملتی ہیں، تو وہ لوگ آپس میں پوچھـ تاچھـ کرتے ہیں، تو اللہ تعالی مردوں کی روحوں کو روک لیتے ہیں اور زندوں کی روحوں کو ان کے جسموں کی طرف لوٹا دیتے ہیں" پھر ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا: "اور يہ بات زندوں اور مردوں کی روحوں کی ملاقات پر دلالت کر رہی ہے کہ زندہ اپنے خواب میں میت کو دیکھتا ہے، تو وہ اس سے باتیں دریافت کرتا ہے اور میت اسے وہ باتیں بتاتا ہے، جن سے زندہ ناواقف ہے، تو اس کی خبر اس کے مطابق ہو جاتی ہے جیسا اس نے خبر دی ہے"۔تو یہی وہ بات ہے جس پر سلف قائم ہیں کہ اللہ جب تک چاہے میت کی روحیں باقی رہتی ہیں اور وہ سنتی ہیں، لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے کہ وہ زندوں سے خواب کے علاوہ میں ملتی ہیں، جیسا کہ یہ بھی صحیح نہیں ہے جس کا دعوی مداری یعنی جادوگر(جدید سائنسی طریقے) کرتے ہیں کہ مردوں میں سے جس کی روح کو چاہیں ان کو حاضر کرنے پر ان کو قدرت ہے اور یہ کہ وہ ان سے باتیں کرتے ہیں اور ان سے پوچھتے ہیں، یہ سب باطل دعوے ہیں جس کی تائید عقل ونقل سے نہیں ہوتی ہے، بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہی ان ارواح کے بارے میں جاننے والا ہے اور وہی اس میں تصرف کرنے والا ہے اور وہی جب چاہے اسے اس کے جسموں کی طرف لوٹانے والا ہے، تو وہ تن تنہا اپنی سلطنت اور اپنی مخلوق میں تصرف کرنے والا ہے کوئی بھی اس سے نہیں جھگڑ سکتا ہے۔ بہر حال جو اس کے علاوہ کا دعوی کرے تو وہ ایسا دعوی کرتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اور اس بات میں وہ لوگوں پر جھوٹ بولے گا جو وہ روحوں کی خبروں کے بارے میں عام کرے گا- یہ یا تو مال کمانے کے لئے ہوتا ہے، یا اپنی قدرت ثابت کرنے کے لئے جس پر اس کے علاوہ کوئی اور قدرت نہیں رکھتے ہیں۔ یا دین وعقیدہ کو بگاڑنے کے واسطے اور لوگوں پر اشتباہ پیدا کرنے کے لئے۔اور یہ جھوٹے دھوکے باز روحوں کے حاضر کرنے کا جو دعوی کرتے ہیں تو یہ شیاطین کی روحیں ہیں، یہ ان کی عبادتوں اور ان کے مطالبوں کو پورا کرنے کے ذریعہ ان کی خدمت کرتے ہیں اور وہ یعنی شیاطین کی روحیں ان کے مطالبے کو پورا کرتی ہیں جھوٹ اور الزام تراشی کے ذریعہ ایسے ناموں کی طرف منسوب کر کے جس کو وہ لوگ مردوں میں شمار کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻧﺒﯽ ﻛﮯ ﺩﺷﻤﻦ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﭘﯿﺪﺍ ﻛﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﻛﭽﮫ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﻛﭽﮫ ﺟﻦ، ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﻌﺾ ﺑﻌﻀﻮﮞ ﻛﻮ ﭼﻜﻨﯽ ﭼﭙﮍﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﰷ ﻭﺳﻮﺳﮧ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎﻛﮧ ﺍﻥ ﻛﻮ ﺩﮬﻮﻛﮧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮟ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﰷﻡ ﻧﮧ ﻛﺮﺳﻜﺘﮯ، ﺳﻮ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻛﭽﮫ ﯾﮧ ﺍﻓﺘﺮﺍ ﭘﺮﺩﺍﺯﯼ ﻛﺮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻛﻮ ﺁﭖ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻛﮧ ﺍﺱ ﻛﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﮯ ﻗﻠﻮﺏ ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﺁﺧﺮﺕ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﻛﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻛﮧ ﺍﺱ ﻛﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﻛﺮﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻛﮧ ﻣﺮﺗﻜﺐ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻥ ﺍﻣﻮﺭ ﻛﮯ ﺟﻦ ﻛﮯ ﻭﮦ ﻣﺮﺗﻜﺐ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ الله تعالى فرماتا ہے: ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻼﺋﻖ ﻛﻮ ﺟﻤﻊ ﻛﺮﮮ ﮔﺎ، ( ﻛﮩﮯ ﮔﺎ ) ﺍﮮ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺟﻨﺎﺕ ﻛﯽ !ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺳﺎتھ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﻛﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﻛﮧ ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ! ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾک ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﻣﻌﯿﻦ ﻣﯿﻌﺎﺩ ﺗک ﺁﭘﮩﻨﭽﮯ ﺟﻮ ﺗﻮﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﻣﻌﯿﻦ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ،ﺍللہ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻛﮧ ﺗﻢ ﺳﺐ ﰷ ﭨﮭﲀﻧﮧ ﺩﻭﺯﺥ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺭہو ﮔﮯ، ﮨﺎﮞﺍﮔﺮ ﺍللہ ﮨﯽ ﻛﻮ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ۔ ﺑﮯ ﺷک ﺁﭖ ﰷ ﺭﺏ ﺑﮍﯼ ﺣﻜﻤﺖ ﻭﺍﻻ ﺑﮍﺍ ﻋﻠﻢ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ۔اور علماء تفسير نے ذکر کیا ہے کہ جنات کا انسان سے جو فائدہ اٹھانا ہوتا ہے وہ ذبائح، نذر ونیاز اور ان کا ان کی عبادتوں کے ذریعہ ہوتا ہے، اور انسان کا جنات سے جو فائدہ اٹھانا ہوتا ہے وہ اپنی ان ضرورتوں کی تکمیل کے ذریعہ جو وہ ان سے طلب کرتے ہیں، اور ان بعض غیبیات کی خبر دینے کے ذریعہ جس پر جنات بعض دور دراز گوشوں پر مطلع ہو جاتے ہیں، یا یہ کہ اسے آسمانی باتوں ميں سے چھپ کر سنتے ہیں یا یہ کہ وہ اس سے جھوٹ بولتے ہیں اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، اور اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ یہ انسان تھوڑی عبادت کے ذریعہ بھی ان روحوں سے قربت حاصل نہیں کرتے ہیں جن کو وہ حاضر کرتے ہیں، تو بلا شبہ یہ چیز اس کے حلال اور مباح یعنی جائز ہونے کو واجب نہیں کرتی ہے؛ اس لئے کہ شیاطین جوتشیوں کاہنوں اور نجومیوں سے سوال کرنا شرعی طور پر ممنوع ہے، اور ان کی باتوں کی تصدیق کرنا تو حرمت کے لحاظ سے اور عظيم ہے اور بہت بڑا گناہ ہے؛ بلکہ وہ تو کفر کی شاخوں میں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی وجہ سے:جو شخص کسی جوتشی (نجومى) کے پاس آیا اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا، تو چالیس رات اس کی نمازیں قبول نہیں کی جاتیں۔ اور مسند احمد اور سنن میں رسول الله صلى الله عليہ وسلم سے روایت ہے كہ آپ نے فرمايا: جو شخص کسی کاہن کے پاس آئے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے، تو اس نے كفر كيا اس چیز کا کفر کیا جو محمد صلى الله عليہ وسلم پر نازل كيا گيا اور اس معنی ميں بہت ساری احادیث اور آثار وارد ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے گمان کے مطابق جن روحوں کو حاضر کرتے ہیں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منع کردہ امور میں داخل ہیں؛ اس لئے کہ وہ ان روحوں کی قبیل سے ہیں جو شیطانی قسم کے لوگ نجومیوں اور کاہنوں سے ملی ہوئی ہیں، تو ان کا حکم بھی وہی حکم ہوگا، تو ان سے سوال کرنا، ان کی حاضری کو طلب کرنا اور نہ ہی ان كی تصديق كرنا جائز ہے، بلكہ يہ سب حرام اور منكر ہیں، بلکہ باطل ہیں، ان احادیث اور آثار کی وجہ سے جو آپ نے اس كے متعلق سنا، اور اس لئے بھی کہ وہ لوگ ان روحوں سے جو باتیں نقل کرتے ہیں اسے علم غیب سمجھتے ہیں، اور بے شک الله سبحانہ وتعالى نے فرمايا: ﻛﮩﮧ ﺩﯾﺠﺌﮯ ﻛﮧ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍللہ ﻛﮯ ﻛﻮﺋﯽ ﻏﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ.اور كبھی کبھی یہ روحیں شیاطین ہی ہوتے ہیں، جو ان مردوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں جن کے روحوں کو انہوں نے طلب کیا ہے، تو میت کے احوال کے بارے میں اس کی زندگی میں سے جو جانتے ہیں اسے اس دعوی کے ساتھـ بتاتے ہیں کہ وہ میت کی روح ہے جو اس کے ساتھـ تھی، تو اس کی تصدیق کرنا، اس کے حاضر ہونے کو طلب کرنا اور اس سے سوال کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ اس بات پر دلیل گذر چکی ہے، اور جسے وہ حاضر کرتا ہے وہ شیاطین اور جنات ہی ہوتے ہیں، وہ انہیں ان عبادتوں کے مقابل میں استعمال کرتا ہے جن سے وہ ان کا تقرب حاصل کرتا ہے، جن عبادتوں کو اللہ کے علاوہ کی طرف لوٹانا جائز نہیں ہے، تو وہ اس کے ذریعہ شرک اکبر کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے، جو اپنے ماننے والوں کو ملت سے خارج کردیتا ہے۔ ہم اللہ تبارک وتعالی کی اس سے پناہ چاہتے ہیں۔
مقناطیسی تنویم کے متعلق ایک فتوی جاری کیا جو کہ روحوں کو حاضر کرنے کا ایک طریقہ ہے، اس فتوی کی اصل عبارت یہ ہے: "مقناطیسی تنویم جنات کو استعمال کرنے کے ذریعہ کہانت کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، سلانے والا جس کو سلایا جائے، اس پر مسلط ہو جاتا ہے اور وہ اس کی زبان سے باتیں کرتا ہے اور وہ اس کے بعض اعمال پر اپنے غلبہ پانے کے ذریعہ طاقت حاصل کر لیتا ہے بشرطيکہ وہ سلانے والے کے ساتھـ سچ بولے، اور وہ اس کا مطیع ہو جاتا ہے، اس چیز کے مقابلے میں جس کے ذریعہ سلانے والا اس سے قربت حاصل کرتا ہے، اور یہ سلانے والا جِن سلانے والے کے ارادہ کے تابع ہو جاتا ہے، وہ اس چیز کو انجام دیتا ہے، جس کام کا وہ اس سے مطالبہ کرتا ہے، اس کے جِن کے تعاون کے ذریعہ بشرطيکہ وہ جِن اس سلانے والے کے ساتھـ سچائی کے ساتھـ پیش آئے، بایں صورت مقناطیسی تنویم سے فائدہ اٹھانا اور اسے چوری کی جگہ یا گمشدہ چیز یا مریض کے علاج کی رہنمائی کے لئے ایک راستہ اور وسیلہ بنا لینا، یا منوم یعنی سلانے والے کے ذریعہ کوئی دوسرا کام انجام دینا ناجائز ہے؛ بلکہ وہ شرک ہے اس وجہ سے جو کہ بات گذر چکی ہے، اور اس لئے کہ یہ غیر اللہ سے پناہ لینا ہے جو ان عادی اسباب کے ماوراء ہے جسے اللہ نے مخلوقات کے لئے بنایا ہے اور ان کے لئے جائز کیا ہے" کمیٹی کی بات مکمل ہوگئی۔ (بشکریہ:سعودی عرب كے دار الافتاء كی علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی)
اور جنہوں نے اس باطل دعوی کی حقیقت کا انکشاف کیا ان میں ڈاکٹرمحمد محمد حسین ہیں انہوں نے اپنی کتاب "الروحية الحديثة حقيقتها وأهدافها" میں انکشاف کیا، اور یہ وہ ہیں جنہوں نے اس کرتب بازی یعنی جادوگری سے ایک لمبے زمانے تک دھوکا کھایا ہے، پھر اللہ نے انہیں حق کی ہدایت دی اور انہوں نے اس میں گھسنے کے بعد اس دعوی کے جعلی ہونے کا انکشاف کیا، اور اس میں خرافات اور جھوٹ وفریب کے علاوہ کچھـ بھی نہیں پایا، انہوں نے بتایا کہ روحوں کے حاضر کرنے کا شغل رکھنے والے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں، ان میں سے جو نو آموز ہوتے ہیں وہ چھوٹے پیالے پر اعتماد کرتے ہیں یا پیالی پر جو ايک ميز پر لکھے ہوئے حروف کے درمیان منتقل ہوتی ہے، اور - ان کے گمان کے مطابق - وہ حاضر کردہ روحوں کے جوابات پر مشتمل ہوتا ہے ان حروف کے مجموعے کے ذریعہ جو اس میں منتقل ہونے کی ترتیب کے مطابق ہے۔ اور ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو ٹوکری کے طریقے پر بھروسہ کرتے ہیں ، اس کے کنارے میں ایک قلم رکھا جاتا ہے جو سوال کرنے والوں کے سوالات کے جوابات لکھتا ہے، اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو واسطے پر بھروسہ کرتے ہیں جیسے کہ مقناطیسی تنویم کا واسطہ۔اور انہوں نے ذکر کیا کہ روحوں کے حاضر کرنے کا دعوی کرنے والوں پر وہ شک کرتے ہیں، اور یہ کہ ان کے پیچھے کوئی ہے جو ان کا پروپیگنڈہ قائم کرنے کے ذریعہ ان کو آگے بڑھا رہا ہے، ان کی خبروں کو تلاش کرنے اور ان کے پروپیگنڈے کو پھیلانے کے لئے ان اخبارات ومجلات نے سبقت دکھائی جس نے اس سے پہلے کسی بھی ایسی چیز میں تیزی نہیں دکھائی جو روح یا اخروی زندگی سے متعلق ہو، اور وہ اخبارات و مجلات کبھی بھی دین یا اللہ پر ایمان رکھنے کی دعوت دینے والے نہ رہے۔ اور انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ وہ لوگ فرعونی دعوت اور اس کے علاوہ جاہلی دعوتوں کو زندہ کرنے کا اہتمام کر رہے ہیں، جیسا کہ یہ بھی ذکر کیا کہ اصلاً جن لوگوں نے اس فکر کو رواج دیا، وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے عزیز کو کھو دیا، تو وہ ان اوہام وخرافات کے ذریعہ اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں، اور اس بدعت کو رواج دینے میں جو سب سے زیادہ مشہور ہے وہ مسٹر اولیفر لودج ہے، جس نے پہلی جنگ عظیم میں اپنے لڑکے کو کھو دیا، اور اسی طرح مصر میں روحی تحریک کا بانی ابو الخیر احمد فہمی ہے، جس کا لڑکا 1937ء میں وفات پا گیا، اور اسے بہت اتنظار کے بعد وہ لڑکا نصیب ہوا تھا۔اور ڈاکٹر محمد محمد حسین نے ذکر کیا کہ اس نے اس بدعت کی پریکٹس کی تو اسے پیالی اور تپائی کے طریقے سے شروع کیا، تو اس نے اس میں کوئی ایسی بات نہ پائی جو اطمینان دلائے، اور وہ وسيط کے مرحلہ تک پہنچ گئے، انہوں نے اس کے مشاہدہ کی کوشش کی جس کا وہ لوگ دعوی کرتے ہیں روح کا جسم اختیار کرنے یا بلا واسطہ آواز کے بارے میں، اور وہ لوگ اسے اپنے دعوی کی دلیل خیال کرتے ہیں، تو یہ اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ کامیاب نہیں ہوئے؛ اس لئے کہ حقیقی بات تو یہ ہے کہ اس کا وجود ہی نہیں ہے، ا ور یہ سب ایسے پختہ کھیل ہیں جو باریک ماہرانہ چالوں پر مبنی ہیں جو دین کو مسمار کرنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔اور عالمی تخریب کار صہیونی طاقت اس سے کچھـ دور نہیں ہے۔ جب وہ ان فاسد افکار اور کشف حقيقت سے مطمئن نہیں ہوئے، تو اس سے کنارہ کش ہو گئے اور لوگوں کے لئے حقیقت کو واضح کرنے کا ارادہ کر لیا، وہ کہتے ہیں: یہ منحرف یعنی دین سے پھرے ہوئے لوگ لوگوں کے ساتھـ برابر لگے رہتے ہیں؛ تاکہ ان کے دلوں سے ایمان ویقین اور ان کے دلوں میں جو بیٹھے ہوئے عقائد ہیں، ان کو چھین لیں اور ان لوگوں کو شکوک وشبہات اور اوہام وخرافات کے پریشان کن عقائد کے حوالے کر دیں۔ روحوں کے حاضر کرنے کا دعوی کرنے والے رسولوں - صلوات اللہ و سلام علیہم - کو صرف روحانی واسطوں کی صفت کے طور پر ثابت کرتے ہيں، جیسا کہ ان کے لیڈر اتھر فنڈلای نے اپنی کتاب "علی حافۃ العالم الاثری" میں انبیاء کے بارے میں لکھا ہے کہ " وہ وساطت یعنی درمیانی ہونے کے درجات میں اعلی درجہ کے درمیانی ہیں، اور وہ معجزات جو ان کے ہاتھـ پر جاری ہوئے وہ صرف روحانی ظاہر ہونے والی چیزیں ہیں، ان ظاہر ہونے والے کی طرح جو روحوں کے حاضر کرنے کے کمرہ میں پیش آتے ہیں"۔اور ڈاکٹر حسین کہتے ہیں: جب وہ لوگ روحوں کو حاضر کرنے میں ناکام ہو جاتے ہيں تو کہتے: واسطہ کامیاب نہیں ہوا یا یہ کہ وہ کمزور ولاغر ہو گیا ہے یا یہ کہ مجلس کے موجود لوگ موافق نہیں ہیں، یا یہ کہ ان کے درمیان ایسے لوگ ہیں جو اجتماع میں شک کی نیت یا چیلنج کی نیت سے حاضر ہوئے ہیں ۔اور ان لوگوں کے باطل دعووں میں سے یہ بات بھی ہے کہ ان لوگوں نے خیال کیا کہ جبرئیل علیہ السلام ان کے جلسوں میں حاضر ہوتے ہیں اور اسے برکت عنایت کرتے ہیں، اللہ ان کا برا کرے۔ ڈاکٹر محمد محمد حسین کے کلام سے مقصود مکمل ہوگیا۔اور ہم نے شروع جواب میں جو ذکر کیا اور کمیٹی نے اور ڈاکٹر محمد محمد حسین نے مقناطیسی تنویم کے بارے میں جو ذکر کیا وہ روحوں سے بات کرنے والوں کے دعوی کے بطلان کو واضح کرتا ہے کہ وہ لوگ مردوں کی روحوں کو حاضر کرتے ہیں اور ان سے جو وہ چاہتے ہیں سوال کرتے ہیں، اور یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ سب شیطانی اعمال ہیں اور باطل شعبدہ بازی ہے جو ان باتوں میں داخل ہیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈرایا ہے یعنی کاہنوں، جوتشیوں، نجومیوں اور ان جیسوں سے سوال کرنے سے، اور اسلامی ممالک کے ذمہ داروں پر اس باطل کو روکنا، اس کا خاتمہ کرنا اور اس کے کرنے والوں کو سزا دینا واجب ہے؛ تاکہ وہ اس سے رک جائیں، جیسا کہ اسلامی مجلات کے ایڈیٹروں پر واجب ہے کہ وہ اس باطل کو نقل نہ کریں اور اس کے ذریعہ اپنے مجلات کو گندا نہ کریں، اور اگر اس کو نقل کرنا ہی ہو، تو انس و جن کے کھیل، ان کے مکر وفریب، اور ان کا لوگوں پر التباس پیدا کرنے سے ڈرانے کو، اس کو باطل ٹھہرانے کو اور اس کی تردید کو نقل کریں، اور اللہ تعالی حق کہتا ہے اور وہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے، وہی سبحانہ وتعالی مسئول ہے کہ مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرما دے، اور انہیں دین کی سمجھـ عنایت کرے، اور مجرموں کے دھوکوں اور شیاطین کے دوستوں کی خلط ملط سے انہیں پناہ میں رکھے۔
(بشکریہ:سعودی عرب دار الافتاء علمی تحقیقات اور فتاوی جات دائمی کمیٹی.alifta.com)
جاری ہے۔۔۔۔ مزید اسلامی نکتہ نظر آئندہ قسط نمبر97 میں پڑھیں
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہم سے رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...