Monday 19 June 2017

نظریہ ارتقاءکی مختصر تاریخ

نظریہ ارتقاءکی مختصر تاریخ

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#40

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

 نوٹ:اس مختصر مضمون کا تمام قارئین ضرور مطالعہ کریں۔اس سے آنے والی اقساط کو سمجھنے میں کافی آسانی ہو گی۔

ارتقائی سوچ کی جڑیں زمانہ قدیم تک جاتی ہیں جب یہ تخلیق سے انکار کرنے کے ایک کٹر عقیدے کے طور پر پیدا ہوا۔ قدیم یونان کے زیادہ تر گمراہ اور بے دین فلسفہ دان ارتقاءکے مکمل حمایتی تھے۔ اگر فلسفے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ارتقاءکا خیال کئی گمراہ فلسفوں میں ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتا رہا ہے۔ لیکن جدید سائنس کے پیدا ہونے اور فروغ پانے کی وجہ یہ قدیم بے دین فلسفہ نہیں بلکہ ﷲ پر ایمان ہے۔ زیادہ تر لوگ جو کہ جدید سائنس کے بانی تصور کئے جاتے ہیں وہ اللہ تعالی کی ذات پر یقین رکھتے تھے۔ سائنس کو پڑھنے کے دوران وہ اللہ کی بنائی ہوئی کائنات اس میں موجود جاندار اور اس کے اصولوں کو پرکھنے کی مستقل سعی کرتے رہے۔ کوپرنیکس، کپلر اور گیلیلیو جیسے نجومی، علمِ معدوم حیوانات و نباتات کے بانی کوویر، علمِ نباتات اور علمِ حیوانات کے بانی لینایس اور نیوٹن جس کو سب سے عظیم ترین سائنسدان کہا جاتا ہے، سب نے سائنس کا مطالعہ اللہ پر یقین اور ایمان رکھتے ہوئے کیا۔ ان کے نقطہ نظر میں اس نظریئے کا بھی دخل تھا کہ تمام کائنات اللہ تعالی کی تخلیق کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے . ۶

ہمارے دور کا ایک اور عظیم سائنسدان آلبرٹ آئنسٹائن ایک اور خدا کا عقیدہ مند سائنسدان تھا۔ اس کے الفاظ میں:

”میں گہرے ایمان سے عاری کسی سچے سائنسدان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ دین کے بغیر سائنس معذور ہے۔“ ۷

جدید طبیعات کے ایک بانی جرمن سائنسدان میکس پلانک کا کہنا ہے کہ ”کسی بھی سنجیدہ نوعیت کے سائنسی کام میں ملوث ہونے والے سائنسداں کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کی عبادتگاہ کے داخلی دروازے کے اوپر یہ الفاظ آویزاں ہیں ”تمہارے اندر ایمان بالغیب لازمی ہے“۔ یہ وہ وصف ہے جس کے بغیر سائنسدان کا سائنسدان ہونا ناممکن ہے۔“ ۸

نظریہ ارتقاءاس مادی فلسفہ کا نتیجہ ہے جو قدیم مادی فلسفوں کے اچانک سر اٹھانے کی وجہ سے سطح پر آ گیا اور انیسویں صدی کے دوران تیزی سے پھیلتا چلا گیا۔ جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے مادیت قدرت کی وضاحت صرحاً مادی نقطہ نظر سے کرتی ہے۔ چونکہ یہ تخلیق کا انکار شروع سے ہی کرتی ہے اس لئے اس کا یہ بھی کٹر دعویٰ ہے کہ قدرت میں ہر چیز، جاندار اور غیر جاندار، کسی بھی تخلیق کار کے بغیر وجود میں آگئی اور رفتہ رفتہ اتفاقی حالات کے ذریعے ہی منظم ہوتی چلی گئی۔ لیکن انسانی دماغ کی ساخت اور سوچ کی اہلیت اتنی اعلیٰ ہے کہ وہ کسی بھی مکمل نظام کاکسی تنظیمی مرضی کے بغیر موجود ہونا قبول نہیں کرتی۔فلسفہ مادیت انسانی دماغ کے اس وصف کے خلاف جاتا ہے اور نتیجتاً انسانی سوچ کے اس پہلو کو زیرکرنے کے لئے اس فلسفے نے انیسویں صدی کے بیچ میں نظریہ ارتقاءدنیا کے آگے پیش کردیا۔

ڈارون کے ذہن کی تخلیق

چارلس ڈارون

نظریہ ارتقاءکی دورِ حاضر میں حمایت کردہ شکل کا بانی ایک مطالعہ قدرت کا غیر پیشہ ور شائق انگریز چارلس رابرٹ ڈارون تھا۔ ڈارون نے حیاتیات میں کسی قسم کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس کا قدرت اور جانداروں کے موضوع سے صرف ایک شائق کی حد تکِ واسطہ تھا۔ اس شوق کے ہاتھوں وہ اپنی مرضی سے ایچ۔ ایم۔ ایس بیگل نامی بحری جہاز کے سفر پر روانہ ہوگیا جو انگلستان سے ۲۳۸۱ میں روانہ ہو اور اگلے پانچ سالوں تک دنیا کے مختلف خطوں میں پھرتارہا۔ نوجوان ڈارون اپنے مختلف ممالک کی اس سیر کے دوران کئی طرح کے انواع و اقسام کی جاندار نسلوں کے مشاہدے سے بے پناہ متاثر ہوا۔ اس کو خاص طور پر ہرگالا پاگوس کے جزیرے پر پائی جانے والی زرد چڑیوں یا فنچس نے خاص طور پر حیران کیا۔ ان چڑیوں کے چونچیں اندر کی طرف مڑی ہوئی ہوتی ہیں اور ڈارون کا یہ خیال تھا کہ ان کی چونچوں کی ساخت ان کے ماحول کا نتیجہ ہے۔ ذہن میں اس خیال کو بنیاد بناتے ہوئے اس نے فرض کیا کہ زندگی کی ابتداءاور جانداروں کا وجود ان کا اپنے آپ کو ماحول میں ڈھال لینے کے عمل پر مشتمل ہے۔

ڈارون اس حقیقت سے انحراف کرتا تھا کہ خدا نے مختلف جاندار نسلیں الگ الگ تخلیق کی ہیں۔ اس کے ذاتی نظریئے کے مطابق تمام جاندار نسلیں ایک مشترک پرکھے سے مختلف قدرتی حالات کے تحت الگ الگ جانداروں میں تبدیل ہوگئیں۔

ڈارون کا مفروضہ کسی سائنسی دریافت یا تحقیق پر مبنی نہیں تھا لیکن اس دور کے مشہور ارتقائی ماہرِ حیاتیات نے اس کے اس مفروضے کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی۔ خیال یہ تھا کہ جن جانداروں کے اندر اپنے ماحول میں ڈھل جانے کی بہترین خصوصیات تھیں وہی اپنی نسلوں کو آگے چلانے کے لائق تھے۔ وقت کے ساتھ ان کی نسلیں مزید ترقی یافتہ ہوتی گئیں اور ایک ایسی نسل کا روپ ڈھال لیا جو کہ اپنے پرکھا سے بالکل مختلف تھے۔ اس وقت ان ترقی یافتہ اوصاف کا بھی کسی کو علم نہیں تھاجو کہ ڈارون کے حساب سے نسلیں آنے والی نسلوں میں منتقل کرتی گئیں یا مزید کرتی جاتیں ۔ ڈارون کے نزدیک انسان اس خیالی عمل درآمد کا سب سے ترقی یافتہ نتیجہ تھا۔

ڈارون نے اس پورے عمل کو ارتقاءبذریعہ انتخاب طبعی کا نام دیا۔ اس کے خیال سے اس نے جانداروں کی ابتداءکا سراغ لگالیا تھا۔ وہ سراغ یہ تھا کہ ایک جاندار نسل کی ابتداءدراصل کوئی اور نسل تھی۔ اس نے ۹۵۸۱ءمیں ان تمام نظریوں کو کتابی شکل دے دی جس کا نام تھا ”دا اوریجن آف اسپیشیز بائے مینز آف نیچرل سلیکشن“ یا قدرتی انتخاب کے ذریعے نسلوں کی ابتدائی ۔ ڈارون کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس کے نظریئے کے اندر بے حساب جھول ہیں۔ ان کمزوریوں کا اعتراف اس نے کتاب کے باب ”نظریئے کی مشکلات“ میں کیا۔ ان مشکلات کی نوعیت فوصلی ریکارڈ کی دریافت، جانداروں کے آنکھ جیسے پیچیدہ عضو جو کہ محض اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتے اور جانداروں کی حسیات تھیں۔ ڈارون کو امید تھی کہ جدید تحقیق ان مشکلات کا حل نکال لے گی لیکن اس نے پھر بھی اپنے طور پر ان سوالات کے غیر منطقی جوابات تشکیل کرلئے۔

امریکی ماہرِ طبعیات لپسن نے ڈارون کی مشکلات کا مندرجہ ذیل الفاظ میں جائزہ کیا ہے۔

”ڈارون کی کتاب پڑھنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ڈارون اپنے نظریئے کے بارے میں اتنا خود اعتماد نہیں تھا جتنا وہ خود کو ظاہر کرتا تھا۔ ”نظریئے کی مشکلات“ والے باب میں وہ بڑی حد تک ذاتی شک و شبہ کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایک ماہرِ طبیعیات کی حیثیت سے مجھے اس کی آنکھ کے وجود میں آنے سے متعلق مفروضوں نے حیران کردیا۔“ ۹

ڈارون کے وقت کا قدیم سائنسی اور تکنیکی معیار

جس وقت ڈارون نے دنیا کے آگے اپنے مفروضے پیش کئے تھے اس وقت سائنس میں جینیاتی، خردحیاتیاتی اور حیاتیاتی کیمیا کے شعبے موجود نہیں تھے۔ اگر یہ شعبے اس وقت موجود ہوتے تو ڈارون کو اسی وقت اپنے نظریئے کی غیر سائنسی نوعیت کااندازہ ہوجاتا اور وہ ان بے معنی دعوﺅں کو آگے بڑھانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔ نسلوں کا تعین کرنے والی تمام معلومات جینیات میں موجود ہوتی ہیں اور انتخابِ طبعی اور جینیاتی تبدیلی کے ذریعے کئی نسلوں کا وجود میں آنا ایک ناممکن فعل ہے۔

اسی طرح ان دنوں میں سائنس کو خلئے کی ساخت اور طریقہ عمل کے بارے میں بھی صرف سطحی اور بے ڈھنگی معلومات حاصل تھیں۔ اگر ڈارون برقیہ خوردبین کے ذریعے خلئے کا معائنہ کرتا تو اس کو خلئے کی بے انتہا پیچیدہ اور غیر معمولی ساخت کا اندازہ ہوجاتا۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا کہ اس تفصیلی اور پیچیدہ نظام کا ارتقاءکی معمولی تبدیلیوں کے ذریعے تشکیل ہوجانا قطعی ناممکن ہے۔ اگر اس کو حیاتیاتی ریاضی کے بارے میں علم ہوتا تو وہ خود اس بات کے امکان سے انکار کردیتا کہ خلیہ تو بہت دور کی بات، لحمیہ کا ایک واحد سالمہ بھی اتفاق سے وجود میں نہیں آسکتا۔

خلئے کا تفصیلی معائنہ برقیہ خوردبین کی دریافت نے ممکن بنایا۔ ڈارون کے وقت میں صرف یہ قدیم خوردبین موجود تھی جوکہ صرف خلئے کی بیرونی سطح دکھاتی تھی۔ جاندار خلیہ تو تخلیق کا ایسا شاندار نمونہ ہے جس نے سائنسدانوں انگشت بدندان کردیا ہے۔ برقیہ خوردبین خلئے کی متحرک ساخت کو عیاں کردیتی جس کی حرکت اور اندرونی مصروفیت کا نظام شہد کے چھتے کے مشابہ ہے۔جسم میں روزانہ مرنے والے لاکھوں خلئے فوراً نئے خلیوں سے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ کروڑوں خلئے باہمی اتحاد اور نظام کے ساتھ مل کر انسانی جسم کی زندگی کا سہارا بنتے ہیں۔

یہ ایک نہایت غیر منطقی اور نامعقول سوچ ہے کہ خلیوں نے اپنی حرکت کا مخصوص اور پیچیدہ نظام خود اپنے آپ سے اپنے اندر پیدا کرلیا۔ اﷲ تعالیٰ نے خلیوں کے اندر کاملیت اور حد درجہ کمال پیدا کیاہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس کو برقیہ خوردبین کے بغیر دیکھنا ہی ناممکن ہے۔ تخلیق کی ہر شکل میں اﷲ تعالیٰ کا بے مثل نظام اور لامحدود حکمت اتنی نمایاں ہے کہ اس کی تردید ناممکن ہے۔

اپنے نظریئے کی تشکیل کے دوران ڈارون اپنے سے پہلے کے ارتقائی ماہرِ حیاتیات بالخصوص لامارک سے کافی متاثر تھا . ۱۔لامارک کے مطابق جاندار اپنی زندگی کے دوران حاصل کئے گئے اوصاف اپنی اگلی نسل میں منتقل کردیتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتارہتا ہے جس کے ذریعے ارتقاءممکن ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جرافے سینگوں والے ہرن نما جانوروں کی تدریجی شکل ہیں۔ ایک نسل سے دوسری نسل میں جیسے جیسے یہ جانور کھانے کی تلاش میں اونچی اونچی ٹہنیوں تک اپنی گردن دراز کرتے گئے اسی حساب سے ان کی گردنیں بھی لمبی ہوتی چلی گئیں۔ ڈارون نے لامارک کے طے شدہ اوصاف کو آگے منتقل کرنے کے مفروضے کو اپنے بھی نظریئے میں ارتقائی پہلو دے کر بنیادی اصول بنالیا۔ حقیقتاً دونوں لامارک اور ڈارون سخت غلطی پر تھے کیونکہ ان کے دور میں زندگی کا مشاہدہ نہایت قدیم سائنسی تکنیک کے ذریعے معمولی سطح پر کیا جاتا تھا۔ جینیات اور حیاتیاتی کیمیا جیسی جدید سائنسی شاخیں اس وقت وجود میں بھی نہیں تھیں اس لئے ڈارون اور اس کے ساتھی سائنسدانوں کے نظریئے کا سارا دارومدار ان کی قوتِ تخیل پر تھا۔

جیسے جیسے ڈارون کی کتاب کی شہرت دنیا میں گونجنے لگی گریگور مینڈل نامی ایک آسٹرین ماہرِ نباتات نے ۵۶۸۱ءمیں میراث کے قانون دریافت کئے۔ مینڈل کی اس دریافت نے فوراً کسی قسم کا تہلکہ نہیں مچایا اور ۰۰۹۱ کے اول سالوں میں اس دریافت کو اہمیت ملنی شروع ہوئی۔ یہ دراصل جینیاتی سائنس کی بنیاد تھی۔ ۰۵۹۱ءمیں DNAیا کروموسومی مادے کی ساخت کی دریافت نے جینیات کی تحقیق کے ساتھ مل کر نظریہ ارتقاءکو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا۔ اس کی وجہ زندگی سے متعلق وہ زبردست پیچیدگیاں تھیں جو اس تمام نئی دریافت سے منظر پر آئیں۔ اس نئے تحقیق نے اب تک پیش کئے گئے ڈارون کے ارتقائی نظام کو منسوخ قراردے دیا۔ ان تمام حالات کا اصولاً تو یہ نتیجہ ہونا چاہئے تھا کہ ڈارون کا نظریہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کوڑے کے ڈھیر کا حصہ بن جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس کی وجہ کچھ مخصوص حلقوں کی اس نظریئے کی اس حد تک تصیح اور تجدید تھی کہ یہ آخر کار ایک سائنسی نوعیت کے نظریئے میں ڈھل گیا۔ ان تمام کاوشوں کا مفہوم اس وقت واضح ہوتا ہے جب ہم اس کے پیچھے کسی بھی سائنسی قدر سے زیادہ فکریاتی مقاصد کا جائزہ لیں جنہوں نے نظریہ ڈاورن کو اس اہمیت تک پہنچادیا جس کا وہ بطور ایک عام نظریہ کبھی بھی لائق نہیں ہوسکتا تھا۔

نوڈ اروینیت کی مایوس کوششےں

نوڈاروینیت ڈارون کے نظریہ انتخاب طبعی کا نیا روپ ہے جس میں جینیات کی دریافتوں کو بھی شامل کرلیا گیا۔ بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں نظریہ ڈارون کو ان دریافتوں کے ہاتھوں شدید خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن سائنسدانوں کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جو کہ ڈارون کا اس حد تک وفادار تھا کہ اس نے اس خطرے کا حل نکالنے کے منصوبے تشکیل کرنے شروع کردیئے۔ امریکہ کی ارضیاتی سوسائٹی کے زیر صدارت منعقد ہونے والے ۱۴۹۱ءکے ایک اجلاس میں یہ تمام سائنسدان اکھٹا ہوئے۔ان میں ماہرِ جینیات لڈےارڈ ایسٹےبنز اورتھیوڈوسیس ڈوبزہانسکی، ماہرِ حیوانات ارنسٹ میئر اور جولین ہکسلی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات جورج گیلارڈ سمسن اور گلین جپسن اور ماہرِ ارضیات رانلڈ فش اور سیول رائٹ شامل تھے ۔تفصیلی مذاکرات کے بعدان سب لوگوں نے نظریہ ڈارون کو لاحق بیماریوں کا علاج کرنے کا ارادہ کرلیا۔

ان کے علاج کا مرکز وہ فائدہ مند تبدیلیاں تھیں جنہوں نے جانداروں کو تدریجی ترقی کے عمل سے گزارا۔ یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب خود ڈارون کے پاس بھی نہیں تھا اور اس نے اس معاملے میں لامارک کے نظریوں کا سہارا لیا تھا۔ ان سائنسدانوں نے نظریہ ارتقاءکے اس نئے پہلو کو بے ترتیب جینیاتی تبدیلی ‘ کہتے ہوئے ’جدید مصنوعی ارتقاءنظریئے‘ کا باقاعدہ نام دیا جس میں جینیات کی دریافت بھی ڈارون کے انتخاب طبعی نظریئے کے ساتھ ملادی گئی۔ تھوڑے ہی عرصے بعد یہ نظریہ نوڈاروینیت کہلانے لگا۔ آنے والے سال نوڈاروینیت کی صداقت کو ثابت کرنے کی مایوس کن کوشش سے بھرپور تھے۔ اس بات کا علم تو ہمیشہ سے تھا کہ جانوروں کی جینیات میں بے ترتیبی یا حادثات نقصان دہ ہوتے ہیں۔ نوڈارون نظریہ رکھنے والوں نے فائدہ مند جینیاتی بے ترتیبی کا سائنسی وجود ثابت کرنے کے لئے ہزاروں جینیاتی تجربے کرنے شروع کردیئے جو کہ سب ناکام رہے۔ انہوں نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اولین جاندار نہایت قدیم ماحولیاتی اثرات میں اتفاقاً وجود میں آئے لیکن یہ تمام تجربے بھی شدید ناکامی کا شکار رہے۔

ممکنہ توجیہہ کے ہر حساب نے ثابت کیا کہ زندگی بنانے کی اکائی لحمیات کا اتفاقاً وجود میں آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ ارتقاءپسندوں کے حساب سے وہ واحد خلیہ جو کہ قدیم اور بے ترتیب ماحولیاتی اثرات میں اتفاقاً وجود میں آگیا اس کو بیسویں صدی کی جدید ترین سائنسی تجربہ گاہیں بھی تشکیل نہیں کرسکیں۔

نوڈاروینیت نظریئے کو فوصلی ریکارڈ نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس نظریئے کے مطابق ان عارضی نوعیت کی نسلوں کا پوری دنیا میں کوئی نام و نشان نہیں ہے جو کہ جانداروں کی قدیم شکل سے جدید شکل کے مابین کی اشکال ہوں اور ارتقاءکو ثابت کریں۔ جن نسلوں کو نظریہ ارتقاءکے پیروکار ایک دوسرے کی تدریجی شکل قراردیتے ہیں ان کی تشریح الاعضاءکے موازنے نے ان کے اعضاءمیں اتنے وسیع پیمانے پر عدم مماثلت ظاہر کی ہے کہ ان نسلوں کا آپس میں کسی قسم کے تعلقکا معمولی سا بھی جواز نہیں ہے۔ نوڈاروینیت کبھی بھی ایک سائنسی نظریہ نہیں تھا بلکہ صرف ایک فکریاتی عقیدہ تھا جس کو ایک طرح کا غلط مذہب بھی کہا جاسکتا ہے۔ کینیڈا کے سائنسی فلسفہ دان اور کٹر ارتقاءپسند مائیکل روس نے ۳۹۹۱ءمیں ایک جلسے میں دی گئی تقریر میں اس بات کا اعتراف کیا ہے۔

”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں اورمیرے خیال سے حال میں بھی بہت سے ارتقاءپسندوں کے لئے نظریہ ارتقاءکے کئی نقطے اس کو ان کی لئے ایک لادین مذہب بنادیتے ہیں۔ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ ایک بنیادی سطح پر ارتقاءایک سائنسی نظریئے کے طور پر مادی فلسفے پر مبنی نظام سے وابستہ ہے۔“ ۱۱

ان وجوہات کی روشنی میں یہ سمجھنا آسان ہے کہ نظریہ ارتقاءکے سورما پیروکار آج بھی تمام شواہد کے موجود ہوتے ہوئے بھی ارتقاءکی حمایت کے لئے کمربستہ ہیں جبکہ وہ ایک بات جس پر وہ آج بھی متفق نہیں ہیں وہ یہ ہے کہ ارتقاءکے متعلق پیش کئے گئے مختلف خاکوں یا نقشوں میں کون سا نقشہ درست ہے۔ ان تمام نقشوں میں سب سے اہم اوقافی توازن نامی پر تخیل منظر نامہ ہے۔

اوقافی توازن: آزمائشی تجربات

نوڈاروینیت نظریئے کے پیروکار زیادہ تر سائنسدان آہستہ اور سلسلہ وار تدریجی ترقی پر یقین رکھتے ہیں۔ البتہ پچھلی کچھ دہائیوں میں ایک مختلف نقشہ پیش کیا گیا ہے جس کا نام اوقافی توازن ہے۔ اس نقشے کے حساب سے جاندار نسلیں ڈارون کے خیال کے مطابق ایک آہستہ تدریجی ترقی کے ذریعے نہیں بلکہ اچانک اور جامع تبدیلیوں کے ذریعے دوسری ہیئتیں اختیار کرگئیں۔ اس خیال کے سب سے پہلے پر جوش حمایتی ۰۷۹۱ءکے شروع میں نمودار ہوئے۔ نائلز ایلڈرج اور اسٹیفن جے گولڈ کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ فوصلی ریکارڈ نے نوڈاروینی نظریئے کے ہر دعوے کو ناقص کردیا ہے۔ فوصلوں نے دنیا کو بتادیا کہ جاندار نسلوں کا نقطہ آغاز تدریجی ترقی نہیں بلکہ وہ اپنی مکمل اور بے عیب شکلوں میں اچانک ہی روئے زمین پر نمودار ہوئیں۔ نوڈاروینی طبقے کی یہ زبردست خواہش اور خوش فہمی تھی کہ کسی نہ کسی دن کسی عارضی نوعیت کا کوئی فوصل دریافت ہو ہی جائے گا جو کہ ارتقاءکو ثابت کردے گا۔

اس انداز ے کے باوجود کہ یہ امید فضول ہے، ایلڈرج اور گولڈ اپنے کٹر عقیدے سے دستبردار ہونے کے لئے پھر بھی تیار نہیں تھے۔ انہوں نے اچانک ہی ارتقاءسے متعلق ایک نیا نقشہ پیش کیا، اوقافی توازن ۔اوقافی توازن کا یہ دعویٰ ہے کہ تدریجی ترقی کا عمل معمولی تبدیلیوں کی شکل میں پیش نہیں آیا بلکہ یہ ایک اچانک اور جامع سطح پر پیش آنے والی تبدیلی کا نام ہے۔ یہ نیا نقشہ ایک پر تخیل رنگین خیالی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ مثال کے طور پر یورپی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات شنڈوولف، جسکے خیالات نے ایلڈرج اور گولڈ کے لئے راہیں ہموار کی تھیں ،یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پہلی چڑیا رینگنے والے جانور کے انڈے سے ایک زبردست جینیاتی بے ترتیبی یا حادثے کے نتیجے میں برآمد ہوئی۔ ۲۱

اسی نظریئے کے مطابق زمین پر رہنے والے کچھ بڑے جانور اچانک اور پیچیدہ جینیاتی تبدیلیوں کے باعث عظیم الجثہ وہیل مچھلیوں میں ڈھل گئے۔ یہ تمام دعوے جینیات، حیاتیاتی طبیعیات اور حیاتیاتی کیمیا کے تمام اصولوں کو رد کرتے ہوئے ایسی کہانی پیش کرتے ہیں جس میں مینڈک شہزادے کا روپ ڈھال لیتا ہے۔

آج دنیا بھر میں لاکھوں سائنسدان’ خاص طور پر متحدہ ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپ کے ممالک میں‘ نظریہ ارتقاءکی تردید کرتے ہیں اور اس نظریئے کے عدم جواز کے اوپر کئی کتابیں شائع کرچکے ہیں۔ اس کی کچھ مثالیں اوپر ہیں۔ان کتب کے نام امیج میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔

لیکن ان تمام پریشانیوں کے باوجود جو کہ نوڈاروینیت کو لاحق ہوئی تھی، کئی ارتقائی ماہر ِمعدوم حیونات و نباتات نے اس نظریئے کا گرم جوشی سے استقبال کیا حالانکہ ان کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ اوقافی توازن کا یہ نیا پہلو نوڈاروینیت سے بھی زیادہ گیا گزرا اور عجیب ہے۔ اس نئے نقشے کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ فوصلی ریکارڈ اور نوڈاروینیت سے متعلق جن سوالات کے جوابات ارتقاءپسندوں کے پاس نہیں تھے وہ اب حاضر کردیئے جائیں لیکن ان کو یہ اندازہ نہیں تھاکہ ”چڑیاں اچانک ہی رینگنے والے جانوروں کے انڈوں سے ا چھل پڑیں“ کہہ دینا ان سوالات کا جواب ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس وقت تک ارتقاءپسندوں کا خود یہ کٹر دعویٰ رہا تھا کہ ایک جاندار نسل کی دوسری نسل میں منتقلی ایک سلسلہ وار اور آہستہ عمل ہے جو کہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے جس میں فائدہ مند جینیاتی منتقلی بھی بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن کوئی بھی جینیاتی بے ترتیبی کسی جاندار کی جینیات کے اندر مثبت اثرات نہیں پیدا کرسکتی اور نہ جینیات میں اضافہ کرسکتی ہے۔ جینیاتی بے ترتیبی جینیاتی معلومات کو بگاڑ سکتی ہے، سنوار نہیں سکتی۔ اسی لئے وہ وسیع جینیاتی بے ترتیبی جو کہ اوقافی توازن کا نقشہ پیش کرتی ہے وہ صرف ’ وسیع‘ اور’ بے ترتیبی ‘پیدا کرتے ہوئے جینیات میں کمی، انتشار اور معذوری پیدا کرسکتی ہے مگر ایک نسل کو دوسری مکمل اور بے عیب نسل نہیں بناسکتی۔

عبوری اشکال کا کوئی وجود نہیں ہے

نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ جاندار جینیاتی تبدیلی کے ذریعے مختلف نظریہ نسلوں میں تبدیل ہوگئے۔ جدید سائنس نے واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ یہ مفروضہ سراسر فریب ہے۔ڈارون خود کہتا ہے:

”اگر نسلیں دوسری نسلوں سے واقعی غیر محسوس تدریجی تبدیلی کے ذریعے وجود میں آئی ہیں تو ہم کو لاتعداد عبوری اشکال کے جانداروں کا ثبوت کیوں نہیں ملتا؟ قدرت میں ہرچیز منتشر ہونے کی بجائے اس قدر منظم اور واضح کیوں ہے؟ اس نظریئے کے مطابق اگر عبوری اشکال موجود ہیں تو پھر یہ ہمیں زمین کی تہوں میں دھنسی ہوئی کیوں نہیں ملتیں؟ مختلف ارضیاتی تہیں ان عبوری اشکال کے جانداروں سے بھری ہوئی کیوں نہیں ہیں؟ علمِ ارضیات کسی بھی ایسے نفیس بدریج مربوط زنجیر کا نشان نہیں دیتا اور شاید میرے نظریئے کے خلاف یہی سب سے واضح اور سنجیدہ اختلاف ہے“۔ )چارلس ڈارون ”دا اوریجن آف اسپیسز“ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نیویارک، )۱۴۱،۷۲۲، ، ۸۹۹۱ ءصفحہ ۰۴

نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ جاندار جینیاتی تبدیلی کے ذریعے مختلف نسلوں میں تبدیل ہوگئے۔ جدید سائنس نے واضح طور پر ثابت کردیا ہے کہ یہ مفروضہ سراسر فریب ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر جاندار واقعی دوسری مخلوق میں تبدیل ہوئے ہیں تو اس تبدیلی کے ثبوت کے طور پر وسطی اشکال کے جانداروں کی موجودگی لازم ہے۔ ارضیاتی ریکارڈ ایسے وسطی اشکال جانداروں سے بھرا ہوا ہونا چاہئے )یعنی کہ ایسے جانداروں کے فوصل جوکہ تدریجی ترقی ۰۰۱ لاکھ کے قریب ملنے والے ً کے مراحل میں ہیں(۔ لیکن اب تک تقریبا فوصل صرف ا ن مکمل جانداروں کے ہیں جوکہ آج بھی دنیا میں موجود ہیں۔ اگر ارتقاءکا عمل واقعی ایک سچائی ہوتا تو زمین میں آج کروڑوں کے حساب سے ہر وضع اور قطع کے فوصل موجود ہوتے جو کہ ارتقاءکی تصدیق کرتے۔ اس کے علاوہ ان مخلوقات میں سے کئی تو جینیاتی تبدیلی کے باعث بدہیئت اور غیر معمولی طور پر بدشکل پیدا ہوتیں۔ ارتقاءپسندوں کے دعوے کے مطابق جسم کا ہر عضو بے ترتیب جینیاتی تبدیلی کے ذریعے وجود میں

اس کے علاوہ اوقافی توازن کا نقشہ پہلے ہی قدم پر زمین بوس اس لئے بھی ہوجاتا ہے کیونکہ یہ زندگی کی ابتداءکے متعلق کوئی جواب پیش نہیں کرتا۔ یہ سوال نوڈاروینیت کے نقشے کو بھی پہلے قدم پر ناقص بنادیتا ہے کیونکہ کسی ایک بھی لحمیات کااتفاقاً وجود میں آجانے کا ہر امکان رد کیا جاچکا ہے۔ اس لئے جانداروں کا اوقافی توازن کے ذریعے ارتقاءیا کسی بھی اور طریقے سے ارتقاءکا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہر جاندار جسم کروڑوں اربوں لحمیات کا مرکب ہے۔ اس تمام سائنسی منطق کے باوجود آج بھی ارتقاءسے متعلق نوڈاروینیت ہی لوگوں کے ذہن میں سمائی ہوئی ہے۔

آنے والی اقساط میں پہلے نوڈاروینیت کے نقشہ کے دو تصوراتی طریقہ عمل کا جائزہ لیا جائے گا اور پھر فوصلی ریکارڈ کے ذریعے اس نقشے کوپرکھا جائے گا۔اس کے بعد زندگی کی ابتداءکے متعلق سوالات کا جواب دیا جائے گا جو کہ نظریہ ارتقاءکو نوڈاروینیت سے لے کر ایک ہی جست میں ہونے والی تدریجی ترقی کے پہلو تک ناقص ثابت کردے گا۔ پڑھنے والوں کو یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ ہر قدم پر آشکار کی جانے والی حقیقت ان کے لئے نظریہ ارتقاءکو ایک پریوں کی حکایت سے مشابہ کہانی ثابت کرے گی۔ نظریہ ارتقاءکا اصل دھوکہ حقیقی دنیا سے اس کی مکمل غیر ہم آہنگی ہے جس کے فریب میں دنیا ۰۴۱ سال سے گم ہے۔ لیکن جدید سائنسی تحقیقات نے اب اس دھوکے کے خلاف جنگ ممکن بنادی ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر جاندار ایک شکل سے دوسری میں تبدیل ہوئے ہیں تو پھر ان کی تبدیلی کے مراحل کے ثبوت کے طور پر کئی وسطی اشکال کے جانداروں کے نشانات بھی زمین پر موجود ہونے چاہئے تھے۔ ارتقاءپسندوں کے دعوے کے حساب سے بے ترتیب جینیاتی تبدیلی کے ذریعے ایسے جاندار وجود میں آنے چاہئے تھے جوکہ تین دماغ ،چار آنکھیں، پنجہ نما ہاتھ اور ایسی ہی کئی عجیب و غریب خصوصیات کے مالک ہوتے۔

آیا ہے۔ اپنی کارگزاری صلاحیتوں کی تشکیل کے دوران ہر غیر معمولی عضو کئی جینیاتی تبدیلیوں سے گزرا جس نے اس کی موجودہ غیر معمولی ساخت کو ایک نئی پرغیرمعمولی ساخت میں تبدیل کردیا۔ اس دعوے کا اصرار ہے کہ زمین میں لاکھوں کے حساب سے یہ بدہیئت اور غیر معمولی اعضاءرکھنے والی مخلوقات موجود ہیں جو کہ ارتقاءکے ہر مرحلے کی غیر معمولی خصوصیات کی نمائش کرتی ہیں ۔ لیکن اس نوعیت کا ایک بھی فوصل آج تک دریافت نہیں ہوسکا۔ اس دعوے اور نظریئے کی سچائی ثابت کرنے کے لئے دو، تین، چار اور پانچ سروں والے، کیڑے مکوڑوں کی طرح کئی آنکھوں والے، کئی میٹر لمبے ہاتھ پیروں والے اور ایسی ہی کئی بے ڈھنگی تبدیلیوں والے انسان بھی زمین پر موجود ہونے چاہئے تھے۔

اسی طرح لاتعداد ، بدہیئت حیوانات اور نباتات کے نمونے بھی ارتقاءکے ثبوت کے طور پر موجود ہونے چاہئے تھے ۔لیکن ایسے کسی بھی حیوان یا پودے کا فوصل آج تک دریافت نہیں ہوسکا۔ تمام آبی حیوانات کو بھی اپنے پیچھے بدہیئت وسطی اشکال جانداروں کی لمبی زنجیر چھوڑنی چاہئے تھی ۔لیکن اس طرح کا کوئی بھی کوئی ثبوت ندارد ۔ آج تک ملنے والے تمام فوصل مکمل طور پر تشکیل ہوئے جانداروں کے ہی ہیں۔ یہ حقیقت اپنے آپ ہی نظریہ ارتقاءکی تباہی کا مکمل ثبوت ہے۔ اس نظریئے کی حمایت اس امید پر کرنا کہ شاید کسی دن کسی کو ایسا وسطی نوعیت کا فوصل مل جائے گا باوجود اس کے کہ پچھلے ۰۴۱ سال میں ملنے والا ہر فوصل ارتقاءکی تردید کرتا ہے، ایک نہایت نامناسب اور نامعقول امید ہے۔

۰۴۱ سال کے عرصے کی مکمل کھدائی کے بعد اب کوئی بھی ایسی ارضیاتی تہہ بچی نہیں ہے جس کی کھدائی کرنا باقی ہو۔ کڑوڑوں ڈالر اس تحقیق پر خرچ ہوچکے ہیں لیکن ڈارون کے دعوے کے مطابق وسطی اشکال کے کوئی بھی جاندار کسی بھی ارضیاتی تہ سے دریافت نہیں ہوپائے جوکہ ارتقاءکی تصدیق کرسکیں۔ اس کے برعکس لاکھوں زندہ فوصلوں کے نمونے دریافت ہوچکے ہیں جوکہ تخلیق کا حتمی ثبوت ہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
 (ماخوذ از:نظریہ ارتقاء- ایک دھوکہ)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
0096176390670
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...