Wednesday 21 June 2017

فوصلی ریکارڈ ارتقاءکی تردید کرتا ہے

فوصلی ریکارڈ ارتقاءکی تردید کرتا ہے

 سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب:#42

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

نظریہ ارتقاءکے مطابق ہر جاندار نسل کا ایک پرکھا ہے ۔ ہر نسل جو کبھی کسی وقت میں رہی ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسری کسی نسل میں تبدیل ہوگئی ہے اور یہی عمل جانداروں کے وجود میں آنے کا سبب ہے۔ اس نظریئے کے مطابق یہ منتقلی اور تبدیلی کا عمل لاکھوں سالوں کے عرصے پر محیط ہے۔لیکن اگر یہی صورتحال ہوتی تو پھر ان تبدیلیوں کے درمیان کی بے شمار وسطی نوعیت کی نسلوں کا نشان بھی ملنا چاہئے تھا۔ مثال کے طور پر ماضی میں کسی آدھی مچھلی آدھے رینگنے والے جانور کے کوئی آثار نہیں ہیں جنہوں نے رینگنے والے جانوروں کی خصوصیات کے علاوہ مچھلیوں کی خصوصیات بھی حاصل کرلی ہوں۔ نہ ہی ماضی میں کسی آدھے رینگنے والے جانور یا آدھی چڑیا نما جانور کے آثار ہیں جن کے اندر رینگنے والے جانوروں کی خصوصیات کے ساتھ پرندوں کی بھی خصوصیات موجود ہوں۔ ارتقاءپسند ان ماضی کے تصوراتی جانوروں کو وسطی اشکال کا نام دیتے ہیں۔ اگر ایسے جانداروں کا حقیقتاً کوئی وجود ہوتا تو دنیا میں ان کی تعداد لاکھوں اور کروڑوں میں ہوتی اور ان کے تمام ثبوت فوصلی ریکارڈ میں موجود ہوتے ۔ نہ صرف ان وسطی اشکال کے جانداروں کی تعداد دورِ حاضر میں موجود جانداروں کی تمام نسلوں سے زیادہ ہوتی بلکہ ان کے بقایا جات بھی پوری دنیا میں بکھرے ہوتے ۔اپنی کتاب ”اوریجن آف اسپیشیس“ میں ڈارون نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے:

”اگر میرا نظریہ درست ہے تو جانداروں کی لاتعداد وسطی اشکال کئی نسلوں کا آپس میں تعلق دکھاتی ہوئی موجود ہوتیں اور ان کے وجود کا ثبوت فوصلی ریکارڈ میں با آسانی مل جاتا۔“ ۳۲

سچ تو یہ ہے کہ ڈارون کو خود بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ ان خیالی وسطی جانداروں کی کوئی حقیقت اور کوئی وجود نہیں ہے۔ اس کو صرف امید تھی کہ شاید مستقبل میں ان جانداروں سے متعلق کوئی ثبوت برآمد ہوجائے۔ اس تمام پر امیدی کے باوجود اس کواس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ یہ غیر موجود وسطی جاندار ہی اس کے نظریئے کے لئے سب سے ناموافق صورتحال ہیں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی کتاب کے باب ”نظریئے کی مشکلات“ میں لکھا ہے:

”اگر ایک نسل دوسری نسل کا بسلسلہ تدریجی ترقی نتیجہ ہے تو ہم کو ہر جگہ بے شمار وسطی اشکال کے جانداروں کے نشان کیوں نہیں ملتے؟ قدرت میں ہر چیز بے ترتیب کیوں نہیں ہے بجائے نسلوں کی موجودہ منظم ترتیب؟ س نظریئے کے حساب سے لاتعداد وسطی نوعیت کے جانداروں کا وجود دنیا میں موجود ہونا چاہئے تھا تو پھر یہ جاندار ہم کو زمین کی مختلف سطحوں میں دھنسے ہوئے کیوں نہیں ملتے؟ زمین کی ہر ارضیاتی تہہ اور ساخت ان وسطی کڑیوں سے پر کیوں نہیں ہے؟ علم ِارضیات میں ایسے کسی باریک بین مربوط سلسلے کا کوئی نشان نہیں ہے۔ میرے نظریئے کاشاید یہی سب سے واضح اور سنجیدہ اعتراض ہے۔“ ۴۲

اس اعتراض کے جواب میں ڈارون صرف ایک ہی وضاحت پیش کرسکتا تھا اور وہ یہ کہ اس کے وقت تک حاصل کئے جانے والا فوصلی ریکارڈ نامکمل تھا۔ اس نے اس بات پر زوردیا کہ جب فوصلی تحقیق مزید تفصیل سے مکمل کی جائے گی تو یہ گمشدہ کڑیاں بھی نمودار ہوجائیں گی۔ ڈارون کی پیشن گوئی پر یقین کرتے ہوئے ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات انیسویں صدی کے وسط سے ساری دنیا میں ان گمشدہ کڑیوں کی تلاش میں فوصلوں کی کھدائی میں مصروف ہیں لیکن ان کی بہترین کوششوں کے باوجود کسی وسطی نوعیت کا کوئی بھی فوصل آج تک برآمد نہیں ہوا۔ ارتقاءپسندوں کی ہر خواہش کے خلاف ہر کھدائی سے ملنے والے فوصلوں نے صرف اور صرف یہ ثابت کیا ہے کہ زمین پر زندگی اچانک اور مکمل اشکال میں نمودار ہوئی۔ اپنے نظریئے کو درست ثابت کرنے کی کوششوں میں ارتقاءپسندوں نے الٹا اپنے ہی نظریئے کو زمین بوس کردیا۔ ایک ارتقاءپسند ہونے کے باوجود مشہور انگریز ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات ڈیرک۔ وی۔ ایگر اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے:

”اگر ہم فوصلی ریکارڈ کا تفصیلی معائنہ کریں تو یہ نقطہ جانداروں کے سلسلوں اور نسلوں کے متعلق اٹھتا ہے کہ ہم کو یہاں کسی طرح کی درجہ بہ درجہ ارتقاءکا پہلو نہیں ملتا بلکہ ایک نسل کا دوسری نسل سے مختلف دھماکوں کی صورت میں زندگی کی رونمائی نظر آتی ہے۔“ ۵۲

ایک اور نامور ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات تبصرہ کرتا ہے کہ:

”اس نظریئے کو ثابت کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ فوصلی ریکارڈ کا ہے جو کہ گمشدہ نسلوں کے ارضیاتی ساخت میں نشانات ہیں۔نشانات کے اس ریکارڈ نے ڈارون کے نظریئے کے کسی بھی نقطے کی تصدیق نہیں کی ہے۔اس کے برعکس جاندار نسلیں اچانک نمودار اور غائب ہوتی نظر آتی ہیں۔ اس بے ربطگی نے اس بحث کو مزید جلا بخشی ہے کہ تمام جاندار نسلیں صرف خدا کی تخلیق ہیں۔“ ۶۲

فوصلی ریکارڈ کا یہ خلایہ کہہ کر ہرگز پر نہیں کیا جاسکتا کہ ابھی تک کافی فوصل ملے ہی نہیں لیکن ایک دن جب فوصلی تحقیق مکمل ہوجائے گی تو ڈارون کا نظریہ بھی ثابت ہوجائے گا۔ ایک اور امریکی ادب دان رابرٹ ویسن اپنی ۱۹۹۱ءمیں چھپنے والی کتاب ”انتخابِ طبعی سے آگے“ میں لکھتا ہے کہ فوصلی ریکارڈ میں موجود خلا اصل اور پر معنی ہے۔ اپنے اس دعوے کی وضاحت وہ اس طرح کرتا ہے:

”فوصلی ریکارڈ میں موجود خلا اصل ہے اور اس معاملے میں کسی تردیدی ثبوت کی غیر موجودگی ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ نسلیں اکثر لمبی مدتوں کے لئے ساکت رہتی ہیں اور دوسری نسل کے اندر ارتقائی تبدیلی کا کوئی مظاہرہ نہیں کرتیں بلکہ نئی نسلوں کی موجودگی اچانک رونما ہوتی ہے۔“ ۷۲

زمین پر زندگی اچانک اور پیچیدہ اشکال میں نمودار ہوئی

جب ارضیاتی تہوں اور فوصلی ریکارڈ کا معائنہ کیا جاتا ہے تو ظاہر ہوتا ہے کہ تمام جاندار اچانک ایک ہی وقت میں نمودار ہوئے۔ زمین کی سب سے قدیم ارضیاتی تہہ جس میں جانداروں کے فوصل برآمد ہوئے ہیں وہ ۰۰۵ سے ۰۵۵ لاکھ سال پرانی کیمبرین دور کی ارضیاتی تہہ ہے۔ اس دور میں نمودار ہونے والے تمام جاندار فوصلی ریکارڈ میں اچانک بغیر کسی پرکھا کے نمودار ہوئے۔ اس دور کی فوصل گھونگوں، قدیم دور کے سنگواروں، اسفنج، کیچوﺅں، فالودہ مچھلی، سمندری خار پشت اور دوسرے پیچیدہ غیر فقاری جانداروں کے ہیں ۔ یہ پیچیدہ نوعیت کی وسیع اور رنگین جوڑ بندی اتنی زیادہ تعداد اور مختلف انواع و اقسام کے جانداروں کی اچانک نمودار ی ہے کہ اس معجزانہ واقعے کو ارضیاتی ادب میں ”کیمبرین دھماکے“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس دور کے زیادہ تر جاندار بے انتہا پیچیدہ نظام اور ساخت رکھتے ہیں مثلاً آنکھیں، گلپھڑے اور نظامِ دورانِ خون ۔ یہ تمام نظامات دورِ حاضر کے انہیں جانداروں کے نظامات کے عین مشابہ ہیں ۔

قدیم حیاتی دور کے سنگوارے ٹریلوبائٹ کی آنکھوں کا دوعدسہ شہد کے چھتے نما ساخت تخلیق کا ایک حیران کن عجوبہ ہے۔ امریکہ کی ہارورڈ روچسٹر اور شکاگو یونیورسٹی کے ارضیات کے پروفیسر ڈیوڈ راوئپ کا کہنا ہے کہ ۰۵۴ لاکھ سال پہلے رہنے والے ٹرےلو بائٹ کی آنکھوں کا نظام ایسا تھا گوےا اس کو تشکیل دینے کے لئے ایک نہایت اعلیٰ سطح کا تربیت یافتہ اور تخلیقی صلاحیت رکھنے والا بصری انجینئر سے کام لیا گیا  ہو۔ ۸۲

کیمبرین پتھروں سے ملنے والے فوصل گھونگے، قدیم حیاتیاتی دور کے سنگوارے ،اسفنج ، کیچوے، فالودہ مچھلی، ستارہ مچھلی، آبی خولدار جانور اور آبی کنول جیسے پیچیدہ غیر فقاری نسلوں کے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ یہ تمام مخصوص نسلیں اچانک ہی نمودار ہوئیں۔ اس وجہ سے اس معجزاتی واقعہ کو ارضیاتی کتب میں ”کیمبرین دھماکے“ کا نام دیا جاتا ہے۔

یہ نہایت پیچیدہ غیر فقاری حیوان مکمل شکل میں اچانک زمین پر نمودار ہوئے۔ ان سے پہلے زمین پر صرف یک خلیہ جانداروں کا بسیرا تھا اور ٹریلوبائٹ اور ان کے بیچ نہ تو کسی طرح کی ارتقائی نوعیت کی مشابہت تھی اوار نہ ہی ان دونوں کے درمیان کسی وسطی شکل کے دوسرے جاندار موجود ہیں۔ مشہور سائنسی جریدے ”سائنس نیوز “ کا سائنسی صحافی رچرڈ موناسٹرسکی کیمبرین دھماکے کو نظریہ ارتقاءکے لئے موت کا پھندا تصور کرتا ہے اور کہتا ہے:

”آدھ کروڑ سالوں پہلے قابل غور اور نہایت پیچیدہ نوعیت کے وہ جاندار اچانک نمودار ہوئے جو کہ ہم کو آج بھی نظر آتے ہیں۔ ۰۵۵ لاکھ سال پہلے زمین کے کیمبرین دور کی شروعات میں اس ارتقائی دھماکے کے نتیجے میں سمندر پیچیدہ انواع و اقسام کے جانداروں سے بھرگئے۔ یہ وسیع جاندار خلقت جس کی ابتداءکیمبرین دور میں ہوئی وہ آج بھی نظر آتی ہے اور آج بھی ایک دوسرے سے اتنی ہی مختلف ہے جتنی کہ لاکھوں سال پہلے تھی۔“ ۹۲

کیمبرین دھماکے کی مزید گہرائیوں میں تحقیق اس پریشانی سے پردہ اٹھاتی ہے جو کہ یہ نظریہ ارتقاءکے لئے پیش کرتا ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق دنیاکی تقریباً ساری ہی حیوانی نسلیں اچانک کیمبرین دور میں نمودار ہوئیں۔ رسالہ ”سائنس“ میں چھپنے والے ۱۰۰۲ءکے اس مضمون کے مطابق ۵۴۵ لاکھ سال پہلے کیمبرین دور کی شروعات نے فوصلی ریکارڈ میں تقریباً ان تمام حیوانی نسلوں کی اچانک نموداری دیکھی جو کہ آج بھی حیوانی زندگی پر راج کرتی ہیں۔ (۰۳ )اسی مضمون میں مزید لکھا ہے کہ:

” ان تمام پیچیدہ اور واضح طور پر امتیازی جاندار گروہوں کی وضاحت نظریہ ارتقاءکے حساب سے کرنا صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب فوصلی ریکارڈ زرخیزی سے ان جانداروں کی سلسلہ وار تدریجی ترقی کے ثبوت بھی پیش کریں لیکن ابھی تک ایسا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔اس تفرقی ارتقاءکی موجودگی اور پھیلاﺅ کی بنیادی وجہ کوئی ایسا تاریخی گروہ تو ضرور ہوگا جس کا کوئی فوصلی ثبوت موجود نہیں ہے۔“ ۱۳

ارتقاءکو سراسیمہ کرنے والا تخلیق کا معجزہ

کیمبرین دور میں اچانک نمودار ہونے والے قدیم حیاتیاتی دور کا مفصل پا سنگوارہ ٹریلوبائٹ ایک نہایت ہی پیچیدہ آنکھ کی ساخت کا حامل تھا۔ اس کی آنکھیں لاکھوں شہد کے چھتے نما ساخت کے نیچے ذرات اور دوعدسہ طریقہ عمل پر مشتمل تھیں۔ یہ بصارت کا اس قدر بہترین نظام تھا کہ ارضیات کے پروفیسر ڈیوڈ راپ کے الفاظ میں :’آج کے دور میں ایسا نظام تشکیل کرنے کے لئے نہایت قابل اور پر تخیل بصری انجینئر درکار ہوگا‘۔

ٹریلوبائٹ کی آنکھ کی ۰۳۵ لاکھ سال پہلے مکمل حالت میں نموداری میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس بہترین اور اعلیٰ نقشے کی اچانک نموداری ارتقاءکے ذریعے بیان کرنا ناممکن ہے اور یہ تخلیق کا واضح ثبوت ہے۔ ٹریلوبائٹ کی شہد کے چھتے نما آنکھ کی ساخت دورِ حاضر میں بھی بغیر کسی تبدیلی کے موجود ہے۔شہد کی مکھیوں اور بھنبھیریوں میں بھی ٹریلوبائٹ جیسی آنکھ کی ساخت پائی جاتی ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ ارتقائی مفروضہ کہ جانداروں کی ترقی قدیم سے پیچیدہ اشکال میں ارتقاءکے ذریعے بتدریج ہوئی مکمل طور پر غلط ثابت ہوجاتاہے۔

(٭ آر۔ایل۔ گریگوری، آنکھ اور دماغ۔ ”دافیزیولوجی آف سیپنگ“ آکسفورڈ یونیورسٹی ۵۹۹۱ءصفحہ ۱۳ ٹریلوبائٹ کی آنکھ)

زمین پر لاتعداد قسم کی حیوانی نسلوں کا اچانک بغیر کسی پرکھا کے نام و نشان کے نمودار ہونا ایک ایسا معمہ ہے جس کا حل ارتقاءپسند آج تک ڈھونڈ رہے ہیں۔ رچرڈ ڈاکنز آکسفورڈ یونیورسٹی کا ماہرِ حیوانات ہے جس کا شمار دنیا میں ارتقائی سوچ کے سب سے بڑے حمایتیوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکنز کا اس حقیقت پر تبصرہ اس بحث کی بنیادوں کو ہی کھوکھلا کردیتا ہے جس کی وہ دراصل حمایت کرنا چاہ رہا ہے۔ مثال کے طور پر کیمبرین دور کی پتھریلی ساخت سب سے قدیم ساخت ہے جس میں سب سے اہم غیر فقاری جانداروں کے گروہ دریافت ہوئے ہیں۔ کئی جانداروں کے فوصل ان کو دریافت کے وقت سے ہی نہایت ترقی یافتہ ارتقائی حالت میں پیش کرتے ہیں۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے ان کو وہاں بغیر کسی ارتقائی تاریخ یا پس منظر کی بودیا ہو۔“ ۲۳

ڈاکنز زبردستی اس بات کا اعتراف کرنے کے لئے مجبور ہے کہ کیمبرین دھماکہ تخلیق کا مضبوط ثبوت ہے کیونکہ صرف تخلیق ہی ان مکمل اور بے عیب جانداروں کی نموداری کی وجہ ہوسکتی ہے۔ ڈگلس فوٹائما ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات ہے اور اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے:

”جاندار زمین کے اوپر یا تو مکمل تخلیق شدہ حالت میں نمودار ہوئے یا پھر بالکل نہیں ہوئے۔ ان کے نہےں ہونے کا مطلب ہے کہ وہ کسی پہلے رہنے والی نسل کی تدریجی شکل ہیں۔ لےکن اگر ان سے پہلے کوئی نسل ہی موجود نہ ہو جس کی یہ تدریجیشکل ہوسکتے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کو کسی قادر مطلق طاقت نے تخلیق کیا ہے۔“ ۳۳

اس بات کا امکان ڈارون نے خود ظاہر کیا تھا جب اس نے لکھا کہ ”اگر جانداروں کے ایک ہی خاندان کی کئی نسلیں اچانک ہی نمودار ہوئی ہیں تو یہ حقیقت تدریجی ترقی بذریعہ انتخاب طبعی کے نظریئے کے لئے موت ہے۔“ (۴۳ ) کیمبرین دھماکہ ڈارون کے نظریئے کے لئے ایک مہلک وار ہے۔

سوئڈن کے ارتقائی ماہرِ قدیم بشری رکازیات اسٹیفن بینگسٹن کیمبرین دور میں وسطی کڑیوں کی غیر موجودگی کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ”کیمبرین دور ڈارون کے لئے تو ایک وجہ شرمندی ہے ہی مگر ہمارے لئے بھی چکاچوند کر دینے والا واقعہ ہے۔“ ۵۳

فوصلی ریکارڈ واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ جاندار نسلیں ارتقاءکے ذریعے قدیم سے ترقی یافتہ اشکال میں نہیں ڈھلیں بلکہ اچانک اور مکمل ہیئتوں میں نمودار ہوئیں۔ قصہ مختصر یہ کہ جاندار کسی تدریجی ترقی کا نہیں بلکہ تخلیق کا نتیجہ ہیں۔

سالمی موازنے ارتقاءکے کےمبرین تعطل کو مزیدگہرا بنادیتے ہیں

ارتقاءپسندوں کو کیمبرین دھماکے سے متعلق مزید الجھن کا سامنا مختلف جاندار نسلوں کا آپس میں موازنے کی صورت میں کرنا پڑتا ہے۔ اس موازنے سے پتہ چلا ہے کہ ارتقاءپسندوں کے حساب سے جو جاندار ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار تصور کئے جاتے ہیں وہ دراصل جینیاتی تحقیق کے مطابق ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں۔ حالیہ وقتوں میں آشکار ہونے والی یہ حقیقت ”وسطی اشکال“ کے نظریئے کو مزید پریشانی میں ڈال دیتی ہے۔ رسالہ ”پروسیڈنگز آف نیشنل اکیڈمی آف سائنس“ کی ۰۰۰۲ءکی رپورٹ میں چھپنے والے ایک مضمون کے تحت DNA کے مادے کی تحقیق نے ماضی میں وسطی اشکال تصور کئے جانے والے سب جانداروں کے امکانات کو رد کردیا ہے:

”DNA مادے کی سلسلہ وار تحقیق سے درختوں کی کچھ خصوصیات کا ارتقاءایک نئے مفہوم کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ میٹازوا درختوں کی وہ نسلیں جو کہ درختوں کی سلسلہ وار تدریجی ترقی کی بنیاد تصور کی جاتی تھیں لیکن اب وہ مکمل طور پر رد کردی گئی ہیں۔ اس سے ارتقائی ”وسطی “ اشکال کے تمام امکانات کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور ہم دو طرفہ تکوین کے متعلق غور کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں“۔ ۶۳

دلچسپ ریڑھ کی ہڈیاں

کیمبرین دور میں اچانک نمودار ہونے والی ایک مخلوق ہیلوسےجینیا بھی تھی۔ اس کے اور کئی دوسری مخلوق کے فوصلوں میں سخت اور نوکیلی ریڑھ کی ہڈیوں کے آثار ملے ہیں جو ان کو حملوں سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتے تھے۔ ارتقاءپسند اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مخلوقات میں اتنے اعلیٰ دفاعی نظام کی موجودگی کی کیا وجہ تھی جبکہ ان کے آس پاس خطرناک شکاری بھی موجود نہیں تھے۔ ایسے شکاریوں کی غیر موجودگی کا ان ریڑھ کی ہڈیوں کی انتخاب طبعی کی رو سے وضاحت کرنا ناممکن ہے۔

اسی مضمون میں ارتقائی مصنف خاص طور پر اس نقطہ پر روشنی ڈالتے ہیں کہ:

” اسفنجوں، نائڈیرین اور سمندری پٹاری نما حیوانی گروہوں کے درمیان وسطی اشکال تصور کئے جانے والے حیوانات کی نئی جینیاتی تحقیق کے مطابق کوئی حقیقت نہیں ہے اور اسی لئے اب نظریہ ارتقاءکے پاس کسی بھی ایسے ارتقائی شجرہ نسب کو تعمیر کرنے کابھی کوئی جواز نہیں ہے۔ سالموں کی تحقیق پر مبنی جاندار نسلوں کی خصوصیات کئی اہم دلائل سامنے لاتی ہیں جس میں سے سب سے اہم اسفنجوں، نائڈیرین اور سمندری پٹاری نما گروہ کے درمیان وسطی اشکال کی غیر موجودگی ہے جو نتیجتاً ماضی میں خیال کئے گئے دو طرفہ جانداروں کے درمیان ہر رشتہ ختم کر کے ایک وسیع تعطل کو پیدا کرتا ہے۔

ہم نے ہر وہ امید چھوڑدی ہے جو کہ پچھلی ارتقائی منطقوں کا خاصہ تھی اور جس سے ہم جانداروں کے پرکھا کو سلسلہ وار تدریجی ترقی کے ذریعے قدیم سے ترقی یافتہ اشکال میں بدلتے ہوئے دکھاتے تھے۔ ان قدیم ”خاندانوں“ کی تعمیر اب ممکن نہیں رہی۔“ ۷۳
جاری ہے۔۔۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...