Sunday 18 June 2017

بائبل کے دفاع میں ملحدین کے دلائل اورتحریف بائبل-عہد نامہ جدید تاریخ کے آئینے میں

بائبل کے دفاع میں ملحدین کے دلائل اورتحریف بائبل-عہد نامہ جدید تاریخ کے آئینے میں

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب:#34

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

موجودہ بائبل تحریف شدہ ہیں اور اس میں تحریف ایک ایسی مسلمہ حقیقت ہے کہ عیسائی علما بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے. بائبل شاید دنیا کی واحد کتاب ہے جس پر اتنی بار نظر ثانی ہو چکی ہے کہ جس کی نظیر کسی بھی الہامی کتاب کے لئے نہیں ملتی , عجیب بات یہ ہے کہ یہاں عیسائی نہیں بلکہ اک  ملحد نے اپنی قرآن کے  خلاف لکھی تحریر میں اسی قرآن ہی  سے بائبل کے غیر محرف ہونےپر دلائل دیے ہیں . بائبل میں تحریف   کوئی ایسی بات نہیں  کہ جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ ان ملحدین کو اس کے بارے میں علم نہیں ہے ،انکی یہ چشم پوشی بے مقصد معلوم نہیں  ہوتی .

ملحدکے بائبل کے دفاع میں پیش کیے گئے دلائل کا مختصر جائزہ

ملحد لکھتا ہے :

سورۃ انعام زمانۂ آخر کی مکی سورتوں میں سے ہے لیکن اگر غور سے اس سورۃ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آیت 91 کا اضافہ ضرور بالضرور مدینہ میں ہی انجام دیا گیا۔ پہلے اس آیت پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

‘‘اور ان لوگوں نے خدا کی قدر جیسی جاننی چاہیے تھی، نہ جانی۔ جب انھوں نے کہا کہ خدا نے انسان پر (وحی اور کتاب وغیرہ) کچھ بھی نازل نہیں کیا۔ کہو جو کتاب موسیٰ لے کر آئے تھے، اسے کس نے نازل کیا تھا جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی اور جسے تم نے علیحدہ علیحدہ اوراق (پر نقل) کررکھا ہے ، ان (کے کچھ حصے) کو تو ظاہر کرتے ہو اور اکثر کو چھپاتے ہو۔ اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے اورنہ تمھارے باپ دادا۔ کہہ دو (اس کتاب کو) خدا ہی نے (نازل کیا تھا) پھر ان کو چھوڑ دیا کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں۔’’

مندرجہ بالا آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے توریت پر تحریف کا الزام نہیں لگایا بلکہ کچھ آیات کے ‘‘چھپانے’’ کا ذکر کیا ہے ۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مطلب صاف ہے کہ یہودی تورات کی تفسیریں غلط پیش کرتے ہیں تاکہ انھیں جھٹلا دیں اور ان کے دعووں کو مسترد کردیں۔ ممکن ہے کہ جس طرح قرآن کی ہزاروں تفسیریں پیش کی جاتی رہی ہیں اور ہر تفسیر دوسری تفسیر سے علیحدہ ہوتی ہے، اسی طرح یہود بھی توریت کی تفسیریں پیش کرتے رہے ہوں۔ لیکن تفسیروں کی بنیاد پر جس طرح قرآن کو تحریف شدہ قرار نہیں دیا جا سکتا، اسی طرح توریت کو تحریف شدہ قرار دینا غلط ہوگا۔ سورۃ بقرہ ، سورۃ آل عمران، سورۃ المائدہ وغیرہ کی بھی کچھ آیات کو ہمارے علما جواز کی شکل میں پیش کرتے ہیں کہ توریت میں تحریف ہوئی ہے لیکن چونکہ مجھے ڈر ہے کہ میں نفس موضوع سے کہیں دور نکل نہ جاؤں، لہٰذا یہاں ان آیات پر تفصیلی رائے پیش کرنے کی گنجائش نہیں پاتا لیکن ان تمام آیات میں جو مدنی ہیں ، کہیں بھی کھلم کھلا یہ نہیں کہا گیا کہ تورات میں تحریف ہوئی ہے بلکہ یہ دعویٰ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ کیا گیا ہے کہ یہودی انھیں اس لیے چھپاتے ہیں تاکہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کے منصب رسالت کی بشارت کی تصدیق نہ ہوسکے۔

تبصرہ:

قرآن مجید نے یہودیوں کی تحریف کرنے کے ہرانداز کو بیان فرمایا ہے۔چاہے وہ لفظی تحریف ہو یامعنوی یا پھر تحذیف۔لفظی تحریف تو تورات میں جا بجا ہے جس کی گواہی گذشتہ صدی میں وادی قمران سے دریافت ہونے والی دو ہزار قدیم صحف بھی دے رہے ہیں کہ مروجہ تورات کا عبرانی متن اور اس قدیم متن میں بعد المشرقین ہے حتی کہ محققین کو اقرار کرنا پڑا کہ قمرانی صحائف ہمیں اس دور میں لے جاتے ہیں کہ مروجہ متن کی حیثیت پر شک ہونے لگتا ہے۔(بحوالہ معتدبہ کلام مقدس)دوسری بات یہ کہ یہودیوں کے مطابق تورات موسیٰ علیہ السلام نے لکھی تو کیا تورات کی کتاب استثناء کے آخری باب میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا حال بھی موسیٰ علیہ السلام نے کیا قبر سے اٹھ کر لکھا؟؟یہ تحریف نہیں تو پھر اور کیا ہے؟

ملحد لکھتا ہے:

مجھے پورے قرآن میں کہیں بھی ایک ایسی آیت نہیں ملی جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہو کہ توریت میں کوئی تحریف یا تبدیلی کی گئی ہو بلکہ اس کے برخلاف سورۃ المائدہ (آیت نمبر 44) میں توریت کی صحت پر اصرار کیا گیا ہے، ‘‘بے شک ہم نے توریت نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے، اسی کے مطابق انبیا جو (خدا کے )فرماں بردار تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علما بھی کیوں کہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کیے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الٰہی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سے قیمت نہ لینا اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔ ’’

تبصرہ:

مروجہ تورات میں جس قدر تحریفات موجود ہیں اس پر پورے دفاتر لکھے جاسکتے ہیں ایک مثال تو ہم نے اوپر ہی دے دی ہے کہ تورات میں موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا حال کس نے لکھا؟دوسری بات یہ کہ قرآن مجید صاف صاف کہتا ہے کہ یہ یہودی و نصاری اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ کر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔اور مروجہ بائبل میں شامل تمام کتب اسی صفت سے متصف ہیں کیونکہ ان کے مصنف ہی گمنام ہیں جس کا اقرار یہودی ومسیحی دونوں کے ہی علماء کو ہے بائبل میں شامل کتب کا فقط انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف انتساب ہے اور انتساب ہونے سے ہرگز یہ انہی برگزیدہ انبیاء کی تحاریر نہیں بن سکتی ہیں۔

ملحد لکھتا ہے:

مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہے کہ اگر توریت کی تحریف و تنسیخ ہوجاتی تو قرآن اسے ہرگز صحیح اور قابل قبول نہ گردانتا۔ پھر وہ اسی آیت میں توریت کی نگہبانی کا بھی ذکر کررہا ہے۔ چنانچہ جو مسلمان توریت کی تحریف و تنسیخ کی بات کرتے ہیں دراصل وہ خود قرآن کی توہین و تکذیب کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یعنی اگر قرآن نے توریت کی حفاظت و نگہبانی کا دعویٰ کیا تو وہ محض دعویٰ تھا۔

تبصرہ :

قرآن نے کہیں یہ دعوی نہیں کیا پرانی کتابیں محفوظ ہیں،  قرآن مجید نے اُن کتب کونور وہدایت کہا جو موسیٰ وعیسیٰ علیہاالسلام پر نازل ہوئی تھیں جبکہ یہودی موسیٰ علیہ السلام اور عیسائی عیسیٰ علیہ السلام پر کتاب نازل ہونے کے منکر ہیں اور مروجہ تورات اور انجیل موسیٰ وعیسیٰ علیہماالسلام کے بہت بعد میں لکھی گئی ہیں لہذا قرآن مجید نے ان جعلی کتابوں کو محرف اور اصلی کتابوں کو نور اور ہدایت کہا ہے۔ ان کتابوں میں مذکور ان واقعات   اور مسائل  کو جنکی تفصیل میں تحریف کر لی گئی تھی ، دوبارہ ٹھیک تفصیل کے ساتھ قرآن میں بیان کیا گیا۔

ملحد لکھتا ہے:

اصل بات یہ ہے کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )
کو خود توریت کی صحت پر کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں تھا لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ اب یہودیوں سے کوئی غرض و مطلب نہیں تو یہی بہتر سمجھا کہ اس کو غیر معتبر قرار دے دیں ، حتیٰ کہ قبلہ بھی یروشلم سے مکہ منتقل کردیا ۔ پھر شروع ہوا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے منتقمانہ مزاج کی گھڑ دوڑ نے مدینہ کے تینوں یہودی قبیلے یعنی بنو قینقاع، بنو نضیراور بنو قریضہ کو روند ڈالا، ان کے قلعوں اور ذراعتی فارموں پر قبضہ کرلیا، ان کے مردوں کو قتل کردیا، ان کے بچوں اور عورتوں کو غلاموں کے بازار میں بیچ دیا گیا ۔ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان کی کچھ عورتوں کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیا اور ریحانہ نام کی خوب صورت دوشیزہ کو اپنے لیے منتخب کرلیا لیکن ریحانہ نے جب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) سے نکاح کرنے سے انکار کردیا تو محسن انسانیت نے اسے بغیر نکاح کے ہی اپنے حرم میں ڈال لیا۔(نعوذ باللہ)

تبصرہ:

تاریخ سے یہ واضح ہے  کہ یہودی اپنی شریر فطرت کی وجہ سے ان سزاؤں کے حقدار بنے وگرنہ پیغمبراسلام ﷺ تو ان کی شرارتوں کو نظرانداز کرتے رہے مگر یہ سرکش اپنی شرارتوں میں حد سے متجاوز ہوگئے تو تبھی ان کو ازروئے تورات دھوکہ دہی کی سزا دی گئی اور ملک بدر کر دیا گیا۔یہ سزا پیغمبراسلام ﷺ نے اپنی طرف سے نہیں دی بلکہ تورات کی رو سے ان کی یہی سزا بنتی تھی جیساکہ انہوں نے خدا کے ساتھ دھوکہ کیا تو خدا نے چالیس سال تک ان کو وادی سینا میں دربدر رکھا اسی طرح ان کوسزا دی گئی۔اب جہاں تک مدینہ کے یہودیوں کو قتل کرنے کا معاملہ ہے تو یہودیوں نے اپنا فیصل اپنے فقیہ،سردار اور شریعت کےعالم حضرت سعد  کو مقرر کیا تھا کہ وہ جو ہمارے متعلق فیصلہ کریں گے وہ ہمیں قبول ہوگا اور سعد رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے مطابق وہ قتل کئے گئے تو قتل کی سزا تو خود انہوں نے ہی منتخب کی ۔یہ سز ا بھی انکی کتاب کے مطابق  تھی (تفصیل کےلیے لنک
 http://ilhaad.com/2016/04/banu-qurayza-and-prophet-muhammad/ )
۔نیز اس قتل میں بھی عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا اور جہاں تک باندی والا قصہ ہے تو یہ سب بلاسند بکواس اور افتراء ہے۔جس کی تفصیلات ہم آئندہ کسی قسط میں بیان کریں گے۔

ملحد لکھتا ہے:

توریت کی تحریف و تنسیخ کی رد میں آخری دلیل یہ پیش کی جا سکتی ہے کہ قرآن کا دعویٰ کسی دوسری کتاب کے لیے حجت تسلیم نہیں کیا جا سکتا چونکہ وہ خود آسمانی کتاب ہونے کا مدعی ہے لہٰذا ایک مدعی اپنا گواہ نہیں ہوسکتا۔ کیا مسلمانوں کے پاس وہ توریت موجود ہے جس سے اس توریت کا موازنہ کیا جا سکے جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ تحریف شدہ ہے؟

تبصرہ :

مروجہ تورات کے متعلق تو یہودی بھی اقرار کرتے ہیں کہ اس کی گواہی اتنی بھی معتبر نہیں کہ اسے کسی عدالت میں بطور شہادت پیش کیا جاسکے۔(بحوالہ مقدمہ تناخ،جیوش پبلیکیشن سوسائٹی فلاڈفلیا)تو جب یہودی ہی اس کی حیثیت کو نہیں مانتے تو قرآن کیسے مان سکتاہے؟دوسری بات یہ کہ تورات یہودیوں کو دی گئی نہ کہ مسلمانوں کو۔جب اہلیان تورات ہی تورات کی حفاظت نہ کرسکے تو مسلمانوں سے تورات کی حوالگی کا مطالبہ کرنے کٹ حجتی ،ہٹ دھرمی اور جہالت کے سواکچھ نہیں۔

دوغلا پن ملاحظہ فرمائیے

 ایک طرف ملحد قرآن سے بائبل  کے غیر محرف ہونے کو اس دلیل سے ثابت کررہا ہے کہ

 ” مجھے پورے قرآن میں کہیں بھی ایک ایسی آیت نہیں ملی جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہو کہ توریت میں کوئی تحریف یا تبدیلی کی گئی ہو بلکہ اس کے برخلاف سورۃ المائدہ (آیت نمبر 44) میں توریت کی صحت پر اصرار کیا گیا ہے”

 دوسری طرف اسے  اسی قرآن کے انسانی کلام ہونے پر بھی اصرار ہے ۔۔!!

یہاں یہ سوال بھی  اٹھایا جاسکتا ہے کہ ایک ملحد  تورات کے غیر منحرف ہونے کے بن مانگے دلائل  کیوں پیش کر رہا ہے ؟؟؟؟؟

اسکی ایک  وجہ  یہ  ہے کہ ملحد کی  تحریر ایک عیسائی مستشرق   کی مہربانی کا نتیجہ ہے ، جب عیسائی مصنف نے قرآن کے خلاف پراپیگنڈے میں  اتنی مہربانی کی ہے   تو ملحد کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ  تھوڑی رعایت کرتے ہوئے اس نے جو اپنی کتاب بائبل  کا دفاع کیا ہوا ہے  وہ  بھی پیش کردیاجائے ۔۔  دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ  اس سے ملحدین کی صفوں میں موجود  عیسائی جو اسلام کے خلاف ملحدین کے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں  جنکی وجہ سے کوئی  ملحد عیسائیت کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کرتا’  وہ بھی خوش ہوجائیں گے ۔ الکفر ملۃ الواحدہ
(بشکریہ : عبداللہ غازی)

تحریف بائبل-عہد نامہ جدید تاریخ کے آئینے میں

بائبل مقدس مسیحی دنیا کے لئے خدا کا ناقابل تغیرکلام ہے۔۔ مسیحی علماء کے مطابق یہ دعوی بنی اسرائیل/یہودیوں کی تاریخ وحی کےاندر اپنی جڑیں رکھتا ہے، لہٰذا یہ دلیل بحیثیت ثبوت تاریخی طور پرناقابل مواخذہ ہے!

تاہم ، تاریخ کا مطالعہ کرنے پرہمیں کچھ ایسےحقائق سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے، جوعیسائی دعوی کے خلاف جاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔۔ بائیبل مقدس کی انگریزی اور دنیاکی دیگر زبانوں میں ترجمے (Translation Process) کی داستان بہت عجیب مگر دلچسپی سے بھرپو رہے۔۔ دنیا بھر کی زبانوں میں ہونے والے “بائبلی تراجم” کی بنیاد عصر حاضر کے انگریزی ترجمہ ورژن (English Versions) ہیں، جن کو دیگر اقوام بطور”سند” (Certified Text) استعمال کرتی ہیں اور ان پر اندھا اعتماد رکھ کر وہ اپنی اپنی زبانوں میں بائبل کے ترجمہ کا کام کر رہے ہیں۔۔ مثال کے طور پربائبل کے ایک اہم “اُرْدُو ترجمہ” کی بنیاد انگریزی زبان کا 1978ء میں شائع ہونے والا “نیوانٹرنیشنل ورژن” (NIV) ہے۔اِس سے ایک چیزواضح طور پرثابت ہوتی ہے کہ بائبل کے 99 % تراجم درحقیقت کسی”ترجمے کا ہی ترجمہ” ہیں، جبکہ دنیاکی کسی بھی معتبر زبان میں پائے جانے والے ترجمے اور بائبل کےعہدنامہ ہائے جدیدوقدیم (New & Old Testaments) کےاصل متن کے مابین کوئی براہ راست تعلق اور ربط ضبط موجود نہیں ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جن مختلف یونانی “متون /مخطوطات” (Greek Manuscripts) پر آج تک کیےجانے والے انگریزی تراجم کی بنیاداستوار ہے، وہ بھی کم ازکم ” چار” (4) بنیادی قِسموں میں منقسم ہیں۔۔ لہٰذا ہم بادلیل کہہ سکتے ہیں کہ آج کم از کم “چارعدد عہدنامہ جدید” مسیحی دنیا میں موجود ہیں، جوکہ اصل ہونے کے دعویدار ہیں۔۔ تاہم ان میں سے کسی کے متعلق بھی سوفیصد (100%) یقین سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہی اصل عہد نامہ جدید ہے۔۔ اِس پرمزید حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک دریافت ہونے والے 14 ہزارسےزائد قدیم مخطوطات میں سے کوئی ایک مخطوطہ یا متن بھی مکمل شکل میں دستیاب نہیں ہے۔۔ مزید برآں، اس سے بڑھ کردلچسپ امریہ ہےکہ ان ہزاروں مخطوطات میں سے کوئی سے دونسخے بھی باہم مشابہت نہیں رکھتے۔۔

آج مسیحی دنیا کے پاس سب سے قدیم نسخہ ” کوڈکس ویٹیکانس ” (Codex Vaticanus) ہے، جو310 ء سے 325ء کے لگ بھگ کہیں لکھا گیا۔۔ دوسرا قدیم ترین واہم ترین نسخہ ” کوڈکس سیناٹیکس” (Codex Sinaiticus) ہے، جوکہ 375ء یا اس کے بعد تحریرکرکے صحیفے (Codex) کی شکل میں تشکیل دیا گیا ۔ جبکہ تیسرا قدیم ترین یونانی نسخہ “کوڈکس الیگزینڈرینوس” (Codex Alexandrinus) کہلواتا ہے، جس کے لکھے جانے کا زمانہ پانچویں صدی عیسوی ہے۔۔ مسیحیت کے پاس تصدیق عہدجدید کےلئے فخرکئےجانےکے قابل کل اثاثہ یہی 3 قدیم نسخے ہیں۔۔ تاہم یہ سب نسخے عہدجدید کے لکھے جانے کے اصل زمانہ سے کم از کم 2 سے 4 صدیاں بَعْد کی پیداوار ہیں اور اصل متن کی نمائندگی نہیں کرتے۔۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی نسخہ مکمل عہد نامہ جدید یعنی موجود 27 کتابیں اپنے اندر نہیں رکھتا۔۔ دوسرے لفظوں میں، عیسائی “صحیفائی قانون” (Scriptural Canon) کی توثیق بھی ان مسودات سےکسی طور ممکن نہیں ہے! مزید برآں، مسیحی فاضلین تسلیم کرتےہیں کہ ان مسودات میں کثرت سے “کاتبین کی غلطیاں” اور بعد کی “تحریفات واضافہ جات” (Scribal Errors & interpolations) موجود ہیں، جن کی ایک لمبی فہرست اضافوں کے ساتھ فاضل مغربی مسیحی علماء متعدد بارشائع بھی کرچکے ہیں۔ ان میں سے اکثر تحقیقی نتائج پر مشتمل شائع ہونےوالی کتابوں کے حقوق “United Bible Society” کے ہاتھ میں ہیں۔۔

ان نسخوں کی بنیاد پر”عہدنامہ جدید” کے جو 4 اہم یونانی ورژن (Greek Versions) یونانی متن کی تعمیرنوکےبعد تخلیق کئےگئے ہیں، وہ یہ ہیں:

1۔”ویسٹکاٹ اینڈ ہورٹ” (Westcott & Hort) — انیسویں صدی عیسوی!

2۔ “نیسلے ـ الاند” (Nestle-Aland) — انیسویں صدی عیسوی!

3۔ ” UBS گریک نیو ٹیسٹامنٹ ” (United Bible Society Greek New Testament) — بیسویں صدی عیسوی!

(آج کے جدیدترین بائبلی ورژن، مثلاً نیو انٹرنیشنل ورژن (NIV) ، نیو امریکن اسٹینڈرڈ ورژن (NASB) ، ریوائزڈ اسٹینڈرڈ ورژن ( RSV) ، امریکن ریکوری ورژن (ARV) وغیرہ انہی 3 مختلف المتن یونانی متنوں پرمبنی انگریزی تراجم ہیں۔)

4۔ ” ٹیکٹوس ریسپٹوس ” (Textus Receptus) ۔

1881ء میں شائع ہونےوالے بائبل کے “ریوائزڈ ورژن” (Revised Version) نے “ویسٹکاٹ اینڈ ہورٹ” کے متن کو کام میں لاتے ہوئے زمانہ قدیم میں “مقدس گائے” سمجھی جانے والی “کنگ جیمس ورژن بائیبل” (KJV) کی قانونی ومذہبی حیثیت کو چیلنج کردیا تھا۔

“کنگ جیمس ورژن بائبل” (1611ء) کا انگریزی ترجمہ سولہویں صدی عیسوی میں کیتھولک چرچ کے تحت تشکیل دئےگئے یونانی متن “ٹیکٹوس ریسپٹوس” پر استوار کیا گیا تھا۔

“ٹیکٹوس ریسپٹوس” کیتھولک اِسْکالَر”اراسمس” (Desiderius Erasmus) کا تیار کیا ہوا متن تھا، جواس نے “سینٹ جیروم” (Saint Jerome) کے مشہورزمانہ لاطینی ترجمہ “وولگاتا” (Vulgate) اور کچھ یونانی مسودات کی مدد سے تیار کیا تھا۔ یاد رہےکہ تشکیل متن کےدوران کئی ایک مقامات پر”اراسمس” نے یونانی مسودات میں عہدنامہ جدید کی کسی غیردستیاب (Missing) آیت کو رائج الوقت لاطینی متن سے اٹھا کرواپس یونانی میں ترجمہ کردیا اوراسکو عہدنامہ جدید کا اصلی متن قراردے دیا۔۔ مثال کے طور پر، کتاب مکاشفہ (Revelation) کی آخری 8 آیات (باب 22 ، آیات 13 تا 21) ، 1 یوحنا 5 : 7-8 (باب 5 ، آیات 7 تا 8) وغیرہ اسی زمرے میں آتی ہیں۔ مزید حیران کن امریہ ہےکہ اِس سے قبل کم ازکم پورے ایک ہزار سال تک مسیحی دنیا کے پاس عہدنامہ جدید کا کوئی باقاعدہ “متفق الآراء” یونانی متن سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ اس لئےکیتھولک چرچ نے سینٹ جیروم کے “وولگاتا” (Latin Vulgate) کو ہی “خدا کے الہامی کلام” کا درجہ دے رکھا تھا ، جس کی یہ حیثیت کسی نہ کسی طورآج بھی برقرار ہے!

بازنطینی سلطنت کی سرکاری زبان لاطینی میں بائبل کے ترجمے کےاس منصوبے کی شروعات سینٹ جیروم کی نگرانی میں 382 عیسوی میں ہوئی اوریہ منصوبہ 405ء میں مکمل ہوا۔۔ اس ترجمہ کولاطینی زبان میں “Vulgate” یعنی “روزمرہ عام فہم زبان” کا نام دیا گیا۔۔ جیروم کے “Latin Vulgate” پرمبنی انگریزی زبان میں کیا گیا ترجمہ “Douay-Rheims English Bible” کہلاتا ہے، جوکہ صرف “کیتھولک عیسائیوں” کے ہاں استعمال کیا جاتا ہے۔۔

مسیحی دنیا میں آج بھی یہ تنازعہ بڑی شدت کے ساتھ موجود ہے کہ یونانی زُبان میں موجود عہدنامہ جدید کے ان چاروں ورژنز میں سے اصلی “مسیحی عہدنامہ” کے قریب ترین کون سا ہے؟ لیکن اِس بات کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔۔ البتہ مسیحی اسکالرز متن کی تعمیرنو (Reconstruction) کرتے ہوئے اسے اے (A)، بی (B)، سی (C)، ڈی (D)، ای (E)، اور ایف (F) کے درجوں میں تقسیم کرتے ہیں، جس کا مطلب مندرجہ ذیل ہے:

☜ “اے” سے مراد وہ متن ہے جو ہر طرح سے تصدیق شدہ ہے۔۔

☜ “بی” سے مراد وہ متن ہے اکثریت سے تصدیق شدہ ہے۔۔

☜ “سی” سے مراد وہ متن ہے جو کافی مخطوطات میں موجود ہو۔۔

☜ “ڈی” سے مراد وہ متن ہے جو بہت کم نسخوں میں پایا گیا ہو۔۔

☜ “ای” سے مراد وہ متن ہے جوایک یا دو نسخوں میں موجود ہو، لیکن اس پرعلماء کی پختہ رائے موجود ہو کہ یہ قابل اعتماد ہے۔۔

☜ “ایف” سے مراد وہ متن ہے جومحض ایک نسخہ میں یا صرف بعدکےزمانہ کے مسودات میں پایا گیا ہو،اورمتن کےنقاد ماہرین اسے ‘ناقابل اعتماد’ قرار دے چکے ہوں۔۔

مثال کے طور پر، انجیل مرقس کے 16 ویں باب کا طویل اختتام (آیات 9 تا 20) جس میں “یسوع مسیح کی حیات ثانیہ” (Resurrection) کا ذکر ہے،اسےمتن کے ماہرین”ایف” کا درجہ دے کر مسترد کر چکے ہیں۔ لہٰذا بائیبل کےہرجدید ورژن کے حاشیہ میں اِس بات کا ذکر ضرور موجود ہوتا ہے کہ یہ تحریرقدیم نسخوں میں نہیں پائی جاتی،لہٰذا یہ مشکوک ہے۔ اسی طرح ماہرین متن انجیل یوحنا کے 8 ویں باب میں موجود “بدکارعورت اور اس کی سزا” والے واقعہ (آیات 1 تا 11) کو بھی “ایف” کا درجہ دے چکے ہیں۔۔ اِس کے علاوہ بھی بائبل کے مسیحی عہدنامہ کے اندر کم از کم 22 ایسے مقامات موجود ہیں، جن کو خود مسیحی علماء کی طرف سے “ایف” کا درجہ مل چکا ہے اوراب ان کوعلمی حلقوں میں مسترد کیاجاتا ہے۔۔ یہی وجہ ہےکہ “کنگ جیمس ورژن بائبل” اور بائبل کے دیگر جدید تراجم کے درمیان ضخامت اورمضامین کا واضح فرق موجود ہے!

☚ لہٰذا، آخرمیں سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ باقی ماندہ بائبل پراب کس حد تک اعتماد کیا جائے اوران مسائل کی واضح موجودگی میں آخرکیسےکیا جائے؟ مزید یہ کہ اِس شعبہ میں ہونے والی جدیدعلمی پیش رفت کے بَعْد کیا “قرآن کریم” کا یہ دعویٰ سچ ثابت نہیں ہوجاتا کہ یہودی اورمسیحی علماء اورکاتبین بلاشبہ الہامی کتابوں کے متن میں دانستہ ونادانستہ “تحریف” کرتے رہے ہیں؟

( واضح رہےکہ یہاں بحث محض “عہدنامہ جدید” تک محدود رکھی گئی ہے، جبکہ “عہد نامہ قدیم” کے بارے میں بحث علیحدہ مضمون میں کی جائے گی!)۔

نوٹ : مسیحی بھائیوں کے سامنے میدان کھلا ہےکہ وہ اِس تحریر میں پیش کیے گے حقائق کو ثبوت کی بنیاد پراگر جھٹلا سکتے ہیں تووہ ضرور ایسا کر دکھائیں…خوش آمدید! جاری ہے۔۔۔۔
(استفادہ تحریر سید وقاص حیدر)

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
0096176390670
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...