Sunday 18 June 2017

الحاد کا چیلنج اور علماء و دانشوران کی ذمہ داری

الحاد  کا چیلنج اور علماء و دانشوران کی ذمہ داری

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#22

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

بات کرنے سے پہلے ہم  لفظ مستشرق پر مختصر وضاحت پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں کیوں اس مضمون میں ہم لفظ مستشرق استعمال کریں گے۔
لفظ مستشرق کی جمع مستشرقین ہے، مستشرق کے لغوی معنی ہیں وہ فرنگی جو مشرقی زبانوں اور علوم کا ماہر ہو، مستشرقین کے وضاحتی معنی یہ ہیں کہ مغرب (مراد یورپی ممالک) کے جو لوگ علوم اسلامیہ کو مسخ کرنے، اسلامی تعلیمات میں شکوک و شبہات پیدا کرنے، اسلام کی تشکیل جدید اور قرآن و حدیث و فقہ کی نئی ترتیب و تہذیب کے نعرے لگانے اور امت مسلمہ میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کی غرض سے اسلامی علوم و فنون اور تاریخ اسلام کی تعلیم و مطالعہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں۔ ان لوگوں میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں، ان کو مستشرقین کہا جاتا ہے۔ ہمارا سلسلہ چونکہ" الحاد کا علمی تعاقب "کے اعنوان سے ہے اس لئے جب بھی ہم اپنے مضامین میں لفظ مستشرق یا الحاد استعمال کریں تو ہماری اس سے مراد ملحدین اور مستشرقین دونوں ہی مراد ہوں گے۔ استشراق کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں عیسائی دنیا صلیبی جنگوں میں ناکام ہوئی تو تحریک استشراق شروع کی گئی جس کے بیک وقت دو نشانہ تھے۔ اس کا اولین مقصد یہ تھا کہ اسلام کی غلط تصویر پیش کرنا اور مذہب عیسوی کی برتری ظاہر کرنا اور دوسرا مقصد اہل مغرب کو مشرق میں اقتدار کی راہ پیدا کرنا تھا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عیسائی پادری اور یہودی علماء اسلامیات کے مطالعہ کے لئے وقف کئے گئے۔ خفیہ مقامات پر تعلیم گاہوں کا انتظام کیا گیا جہاں قرآن، حدیث، فقہ، کلام، تاریخ اور دیگر متعلقات علوم کا درس دیا جانے لگا لیکن تشریح و تفہیم اس طرح ہوتی کہ مسیحی مغرب کے افکار و اقدار کی عظمت سامنے آتی اور اسلام کے دینی افکار اور اقدار کی کوئی وقعت اور قیمت نہ ہوتی اور یہ ذہن نشین کرایا جاتا کہ اسلام موجودہ زندگی کے مزاج کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اس قسم کی تعلیم گاہوں کے فارغین کے ذریعہ ملک مصر میں ”فرعونی“ اور ملک عراق میں ”آشوری“ شمالی افریقہ میں ”بربری“ فلسطین ولبنان کے ساحل پر ”ہٹی“ تہذیب و زبان کی احیاء کی تحریکیں شروع ہوئیں، انکے مستقل داعی پیدا کئے گئے، انھوں نے اسلامی تہذیب اور عربی زبان کو نقصان پہنچانے کے لئے شدومد کے ساتھ یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن کی فصیح عربی زبان موجودہ زمانہ کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی اس کے بجائے عوامی اور مقامی زبانوں کو رواج دیا جائے اور ان ہی کو اخبارات اور کتابوں کی زبان بنا دیا جائے۔ مستشرقین کے چیلے مشرقی ممالک میں آئے تو اپنے آپ کو روشن خیال، تجدد پسند، مصلح دین، محقق، مفکر ظاہر کیا اور اپنے باطل طریقہ کار کو سائنٹفک اور سسٹمیٹک بتایا اس کے بالمقابل علماء حقانی، سلف صالحین اور مصلحین و مجددین کے طریقے کو دقیانوسی اور نامعقول بتایا، اس سے بھی آگے بڑھ کر مستشرقین نے یورپ و امریکہ اور کناڈا میں قائم کردہ اسلام کی تحقیق کے نام نہاد تعلیمی اداروں کے دروازے مسلمانوں کے لئے کھول دئیے۔ اور بڑے بڑے وظیفے دے کر مسلمانوں کے ذہین اور تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنی طرف کھینچا اور اپنے سانچے میں ڈھال لیا۔ ان میں سے بعض مستشرقین کا آلہ کار بنے۔ یہ ادارے گاہ بگاہ سیمناریں اور مجالس مذاکرات منعقد کرتے رہتے ہیں ان میں اسلامی عقائد اور اسلامی تہذیب پر تحقیر آمیز تنقید کرتے ہیں اور علماء کرام کا مذاق اڑاتے ہیں۔جو کہ سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے۔

عالم اسلام  کی طرف مغرب کی یلغار دو جانب سے دنیا میں تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف مغرب کی سیکولر حکومتیں اور سیکولر لابیاں مسلم معاشرہ میں سیکولر ازم اور لادینیت کو فروغ دے کر اور اس کے لیے اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں پوری طرح جھونک کر ہماری نئی نسل کی دینی اساس اور فکر وعقیدہ کی بنیادوں کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ عالم اسلام کے بارے میں ان کے تمام تر ایجنڈے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی معاشرتی زندگی میں مذہب کے کردار سے دست بردار ہو جائیں اور مذہب کے فکر وفلسفہ کو من وعن قبول کرتے ہوئے اپنی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھال لیں۔ دوسری طرف مسیحی مشنری سرگرمیاں دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں سادہ لوح مسلمانوں کو مسیحیت کے دائرے میں شامل کرنے کی تگ ودو کر رہی ہیں۔ افریقہ کے کم وبیش سب ممالک، انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور افغانستان سمیت وسطی ایشیا میں مسیحی مشنریوں اور مسیحی رفاہی این جی اوز کی تبلیغی سرگرمیاں دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو عیسائیت کا حلقہ بگوش کرنے کے لیے کس تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ مغرب کی سیکولر حکومتوں اور مسیحی مشنری اداروں کو ایک دوسرے کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں باقاعدہ منصوبے اور انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ عالم اسلام کو مغلوب اور فتح کرنے کی مہم میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

دوسری طرف عالم اسلام کی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے بیشتر حلقوں اور افراد کو سرے سے اس صورت حال کا ادراک ہی نہیں ہے۔ مغرب کی اس مذہبی اور تہذیبی یلغار کا مقابلہ صرف دینی شعبہ سے تعلق رکھنے والے بعض حلقے(علماء و دانشور) کر رہے ہیں اور انھیں نہ صرف یہ کہ مسلم حکومتوں کا تعاون حاصل نہیں ہے بلکہ اکثر ممالک میں مسلم حکومتوں کا وزن دینی بیداری کے لیے کام کرنے والے علماء و دانشوروں (حلقوں) کے بجائے ان کے مخالف پلڑے میں ہے۔ اس طرح مسلم معاشرہ میں دینی بیداری، مذہبی وابستگی اور اسلامی تہذیب وثقافت کے تحفظ وبقا کی جدوجہد کرنے والوں کو مغرب کی حکومتوں اور این جی اوز کے ساتھ ساتھ اپنی حکومتوں اور مقتدر طبقات کی مخالفت اور دباؤ کا بھی سامنا ہے اور انھیں دو طرفہ جنگ لڑنا پڑ رہی ہے۔

ان حالات میں علماء کرام کی ذمہ داریوں اور کردار کے حوالے سے سب سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارا سب سے پہلا اور اہم فریضہ معروضی صورت حال سے آگاہی حاصل کرنا ہے، کیونکہ ہماری غالب اکثریت اس صورت حال سے آگاہ نہیں ہے اور اسے حالات کی سنگینی کا سرے سے کوئی ادراک نہیں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب حالات پر ہماری نظر نہیں ہوگی اور ہم معروضی صورت حال سے باخبر نہیں ہوں گے تو اس کشمکش میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ یہ درست ہے کہ ہم سیاسی، معاشی، عسکری، سائنسی اور صنعتی وتجارتی میدانوں میں مغرب کا مقابلہ کرنے اور اس کا راستہ روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، لیکن فکر وفلسفہ، تہذیب وثقافت، تعلیم وتربیت اور دعوت وتبلیغ کے میدان ہمارے لیے اجنبی نہیں ہیں اور ان محاذوں پر اگر ہم نئی نسل کی ذہن سازی اور صف بندی کے کام کو صحیح کر لیں تو نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کو فتح کرنے کی مغربی مہم کا کم از کم ان میدانوں میں کامیابی کے ساتھ سامنا کر سکتے ہیں بلکہ زندگی کے دوسرے شعبوں کے باشعور افراد کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ لیں۔ جو کام ہم کر سکتے ہیں، اس کی منصوبہ بندی کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی فضا قائم کریں۔ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں اور مل جل کر نئی نسل کو دین کے ساتھ وابستہ رکھنے، اسے موجودہ صورت حال سے آگاہ کرنے اور بحیثیت مسلمان اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوشش کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اگر فکری بیداری کے ماحول کو قائم رکھ سکیں اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہیں تو حالات میں بہت حد تک سدھار آ سکتا ہے

عالم اسلام پر مستشرقین کے جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اس کے لیے لازم ہے کہ ایسے صالح الفکر مسلمان محققین و مصنفین تیار ہوں جو اسلامی موضوعات پر جدید طرز تحقیق اور ماخذ و مراجع کی صحت و استناد کے حوالے سے ریسرچ کریں اور ایسے علمی و تحقیقی اسلوب، استدلال و استنتاج اور طرز نگارش کو بروئے کار لائیں جو مستشرقین پر ہر لحاظ سے فوقیت لے جائیں ‘ساتھ ہی ان کی علمی کوتاہیوں، دسیسہ کاریوں اور افتر پردازیوں کا پردہ چاک کر کے واضح اور درست خطوط فراہم کریں۔ ایسا نہ کیا گیا تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ مستشرقین کے مسموم افکار و خیالات اور ان کی فکری غلامی سے اپنے آپ کو زیادہ دیر تک آزاد نہیں رکھ سکے گا۔

مغرب کی سیاسی و معاشی بالا دستی عالم اسلام کو ہر محاذ پر کمزور کرنے کی اپنی سازش میں پوری طرح کامیاب ہے وہ اپنے مشنری مقاصد کے فروغ کے لیے حیات انسانی کے ہر گوشے پر قابض ہیں اور اس کے لیے جس خاموش حکمت عملی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ہم پوری طرح اس سے نابلد ہیں۔وہ اسلام کے تئیں اپنے رویے میں لاکھ نرمی اور اخلاص کا اظہار کریں۔ شوق علم و تحقیق، ایثار و وفا اور انصاف پسندی کا خوب ڈھنڈورا پیٹیں لیکن قرآن کا یہ اعلان ہمہ وقت ہمارے پیش نظر رہے کہ ’’تم سے یہود و نصاریٰ ہر گز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں‘‘(البقرۃ:۱۲۰)

مستشرقین کا سب سے اہم ہتھیار جس سے انھوں نے مسلمانوں کو متاثر کرنا چاہا اس کا تعلق سیرة سے ہے،(سیرہ سے متعلقہ اقساط آگے آ رہی ہیں )ان کی تحقیقات کا مقصد سیرت طیبہ کی اصلی روح مجروح کرنا ، واضح صداقتوں کا انکار کرنا اور سیرت نگاری کرتے ہوئے غلط فہمیوں کو جگہ دینا اور لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں غلط تاثر پھیلانا۔ سیرت کے کسی موضوع پر لکھنے سے پہلے اس کے متعلق ایک موقف قائم کر لیتے ہیں پھر اس کے لیے وہ کمزور سے کمزور روایات ڈھونڈتے اور ان سے غلط استدلال اور معنی اخذ کرتے ہیں ۔ مثلا یشار بن بود، ابونواس جیسے مشاہیر فُسانی اور زناوقہ کی تحریریں “کتاب الاغانی“، “کتاب اخوان الصفا”، ابو نعیم کی “کتاب الفتن“ اور اس قسم کی دوسری کتابوں سے مواد لیتے ہیں۔ بعض بالکلیہ جعلی کتابیں جو کسی قدیم مصنف کی طرف منسوب کر دی گئی ہیں۔ مثلا عبداللہ بن ابن داود کی طرف منسوب کتاب “المصحف“، زبیر بن بکار کی طرف منسوب “کتاب نسب قریش“، بو علی سینا کی طرف منسوب “رسالہ حشر الاجسار“ وغیرہ ان کے مقاصد کے لیے بڑی کار آمد ثابت ہوتی ہیں۔ان کے ہرکارنامے کے پیچھے کچھ زہریلے جراثیم چھپےہوتے ہیں، جو اسلامی تاریخ کو کھاتے چلے جاتے ہیں اور دین کے روشن حقائق کو بھیانک بنا دیتے ہیں۔

ان میں ایک ایسا گروہ ہے جو اپنے مسیحی نقطہ نظر سے اسلامی علوم پر نظرڈال کر تحقیق وریسرچ کے نام سے ایک نیا محاذِ جنگ بنا کر، اسلام، داعی اسلام، اسلامی علوم اور اسلامی تہذیب وتمدن پر بے بنیاد حملہ کر رہا ہے، قرآن مجید، حدیث، تصوف، سیر، رجال، کلام اور فقہ سب ان کی زد میں ہے، نہیں کہا جاسکتا کہ یورپ کے اس رنگ کے لٹریچر سے اسلام کو کس قدر شدید نقصان پہنچا ہے اور پہنچے گا؛ اگر یہ زہر اسی طرح پھیلتا رہا اور اس کا تریاق نہیں تیار کیا گیا تو معلوم نہیں کس حد تک نوجوان مسلمانوں کے دماغوں میں سمیت سرایت کرجائے گی”

نو مسلم یورپی مفکرمحمد اسد کی آراء میں مستشرقین قدیم و جدید کی کاوشوں اور ان کے خیالات و تصورات نے عام مغربی ذہنوں کو مسموم کر دیا ہے؛ چناچہ ان کی (ان کے علاوہ دیگر مسلم مفکرین کی بھی) تحریریں مغرب میں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اس کی تفہیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہیں، ان مستشرقین کی نگارشات کے زیر اثر عام یورپی و امریکی افراد اسلام کی کسی طور پر درخور اعتناء نہیں گردانتے، وہ اسلام اور اس کی روحانی اخلاقی تعلیمات کو کسی بھی نقطہ نگاہ سے کچھ زیادہ وقیع اور قابلِ احترام نہیں سمجھتے، نہ وہ اسے عیسائیت اور یہودیت سے موازنہ کے قابل خیال کرتے ہیں،.

اس وقت علمائے مسلم اور دانشوروں کے کاندھوں پر کتنی ذمہ داری ہے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

علامہ سید سلیمان ندوی نے ایک جگہ لکھا اسلام وہ مذہب ہے کہ جس دن وہ دین بنا اسی دن وہ سیاست بھی تھا۔ اس کا منبر،اس کا تخت، اس کی مسجد، اس کی عدالت،اس کی توحید نمرودوں اور فرعونوں، قیصروں اور کسراؤں کی شہنشاہی کے مٹانے کا پیغام تھی۔ صحابہ اور خلفاء کی پوری زندگیاں ان مرقعوں سے بھری پڑی ہیں اور وہی اسلام کی سچی تصویریں ہیں اور جب تک علماء علماء رہے وہی ان کا اسوہ تھا ۔ آج ضرورت ہے کہ اسی نقش قدم پر چلیں جو ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ آج علماء کا کام صرف پڑھانا، مسئلے بتانا اور فتوے دینا سمجھا جاتا ہے، لیکن اب وقت ہے کہ اپنے اسلاف کے وقت کو پھر دہرائیں اور دیکھیں کہ ان کا کام صرف علم و نظر تک محدود نہیں بلکہ سعی و عمل اور عملی خدمت بھی ان کے منصب کا اہم فرض ہے۔

مستشرقین کے چیلنج کے مدنظر  ندوی صاحب کے اس ارشاد گرامی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر آبادی جہاں علماء رہیں وہ ان کی سعی اور خدمت سے آباد رہے۔ وہاں جاہلوں کو پڑھانا۔ نادانوں کو سمجھانا، غریبوں کی مدد کرنا مسلمانوں کو ان کی کمزوریوں سے آگاہ کرنا ایک عالم دین کا فرض ہے۔

ایک زمانہ تھا  کہ جب  اسلام کا گہرائی میں مطالعہ بڑی حد تک دینی مدارس اور علماء  تک محدود تھا اور عوام انہی کی تحقیقات سے استفادہ کرتے تھے ۔ پھر مستشرقین نے بالعموم اپنے مذموم مقاصد کے تحت اس کی طرف توجہ کی اور ہر موضوع پر تحقیقات ، کتابوں کے انبار لگا دیے،جو آج کل میڈیا پر با خوبی دیکھی جا سکتی ہیں۔جس کا اندازہ آپ ہمارے سلسلہ سے بھی لگا سکتے ہیں
انکی یہ تحقیقات ایک طرف علماء و دانشوروں کے لیے چیلنج ہیں ‘  کہ وہ  انکے  پیدا کی گئی گمراہیوں، اشکالات کا جواب لکھیں اور انکے جھوٹ، فریب کا پردہ چاک کریں ، عوام کے لیے بھی ان حالات میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ  وہ دین کے مطالعے اور بحث و تحقیق میں بے پرواہی کے مظاہرے سے بچیں ۔

یہ دیکھ کر مسرت ہوتی ہے کہ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ،  دانشور اور مفکرین دینی علم میں  دلچسپی لے رہے ہیں، یونیورسٹیوں اور درس گاہوں میں اس کی درس و تدریس ہو رہی ہے۔ مختلف اسلامی موضوعات پر غوروفکر اور بحث اور مباحثہ جاری ہے۔ جس کی زندہ مثال سوشل میڈیا پر مخلف گروپس،پیجز اور بلاگز ہیں ۔اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ آج کے دور میں اسلام کی کیا معنویت اور افادیت ہے اور زندگی کے پیچیدہ مسائل میں وہ ہماری کیا راہنمائی کرتا ہے؟ اور ہمارے سلسلہ "الحاد کا علمی تعاقب"کا بھی یہی مقصود ہے۔

یہ بات بھی بڑی قابل قدر ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جو ہر چیز کو مغرب کی عینک سے دیکھنے کا عادی رہا ہے اور جس نے کبھی اسلام کی طرف توجہ بھی کی تو مستشرقین کے زیر اثر کی، اب اس کے نقصانات کو محسوس کرنے لگا ہے اور آزاد علمی فضا میں اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن  اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے مطالعہ کے سلسلہ میں ان جدید مفکرین کی طرف سے بعض بنیادی باتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، یا یہ کہ ان کی اہمیت نہیں محسوس کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے یہ مطالعہ ناقص اور ادھورا ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اس سے اسلام کی بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اعتراضات اور جوابات کا ایک طویل سلسلہ چل پڑتا ہے، یہاں ہم اسلام کے تفصیلی اور تحقیقی مطالعہ کے لیے بعض اصول و شرائط کا مختصر ذکر کرنا چاہتے ہیں جنکی پابندی سے ناصرف اہل باطل کے اسلام پر اٹھائے گئے اشکالات کی حقیقت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے بلکہ ذاتی مطالعہ و تحقیق میں بھی غلط نتائج سے بچا جاسکتا ہے.

جو موضوع زیربحث ہو، انڈکس یا سرچ انجن کی مدد سے، اس سے متعلق حسب منشا اک دو جملوں کو لے لینا , یا ان سے مکمل آئیڈیا لے لینا صحیح نہیں ہے بلکہ اس سلسلہ کے تمام نصوص کا غیر جانب داری اور اخلاص کے ساتھ مطالعہ ہونا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ان نصوص کو کسی مزعومہ فکر و خیال کی تائید یا تردید میں استعمال کیا جائے، ان کے الفاظ، اسلوب، سیاق و سباق اور پس منظر کی روشنی میں ان کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی جائے…!جس مسئلہ میں قرآن مجید کے علاوہ حدیث یا تاریخ سے روایات بھی زیر بحث ہوں ان روایات  کی صحت کا اطمینان ضرور کر لیا جائے۔ ہو سکتا ہے   کسی حدیث سے آپ کچھ نتائج اخذ کرتے چلے جائیں اور ائمہ حدیث اسے حدیث ہی نا مان رہے ہوں یا وہ اس قابل ہی نا ہوکہ اس سے وہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے جو آپ نے کیا, یوں  آپ کے اخذ کردہ نتائج کی پوری عمارت از خود منہدم ہو جائے گی۔جو حکم زیر بحث ہو اس کے متعلق یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا وہ وقتی اور عارضی ہے یا ابدی اور دوامی، عام ہے یا خاص، اس کے ساتھ کوئی شرط لگی ہوئی ہے یا وہ غیر مشروط ہے، وہ وجوب کے لیے ہے یا محض ندب و استحباب کے لیے؟!!! جب تک اس کی صحیح نوعیت متعین نہ ہو جائے اس کے بارے میں گفتگو آگے نہیں بڑھائی جا سکتی۔

کسی بھی حکم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے صرف ان نصوص کا مطالعہ کافی نہیں ہے جن میں براہ راست وہ حکم آیا ہے۔ شریعت کے کسی حکم کو الگ سے دیکھنے میں بعض اوقات غلط فہمی کا امکان ہوتا  ہے لیکن اسی کو اگر دین کی پوری تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ غلط فہمی دور ہو سکتی ہے۔ مثلا اسلام میں چور کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم ہے۔ ایک شخص اسے جرم کے مقابلہ میں انتہائی سخت اور غیر معمولی سزا قرار دے سکتا ہے لیکن جب وہ یہ دیکھے گا کہ اس حکم کو نافذ کرنے سے پہلے اسلام انسان کے اندر خدا اور آخرت کا خوف پیدا کرتا ہے، معاشرہ میں ہمدردری و غم خواری کے جذبات کو نشوونما دیتا ہے۔ ریاست کو غریبوں اور ناداروں کی معاشی کفالت کی ہدایت کرتا ہے اور اس بات کی نگرانی کرتا ہے کہ کوئی شخص ایسے حالات میں نہ گھر جائے کہ وہ چوری کے ذریعہ اپنا پیٹ بھرنے پا مجبور ہو جائے،  تو اس کی رائے بدل سکتی ہے اور اسے وہ حق بجانب قرار دے سکتا ہے کہ یہ حکم ہر حال یا موجودہ حالات میں نافد کرنے کو نہیں کہا جارہا..بلکہ اس سے پہلے عوام کو  وہ ماحول دیا جارہا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اس جرم کے ارتکاب کی کوئی وجہ نہیں رہتی.

یہی رویہ اور اصول کسی تاریخی شخصیت کے متعلق کوئی نظریہ قائم کرنے سے پہلے مدنظر رکھنا ضروری ہے.یہ اک غیر معقول بات اور ناانصافی ہوگی کہ کسی شخص کی عام عادات, صفات اعمال, مزاج,   اقوال, مقام کو بالکل نظرانداز کرتے ہوئے اک دو مجروع روایات کی بنیاد پر اسکے متعلق کوئی نظریہ قائم کر دیا جائے..اسلام کے بنیادی ماخذ- قرآن و حدیث- عربی زبان میں ہیں۔ اسلام کے اپنے طور پر کیے گئے تفصیلی مطالعہ کے لیے اس زبان سے، اس کے الفاظ کے دروبست سے اور اس کے اسلوب و انداز بیان سے اچھی طرح واقف ہونا ضروری ہے۔ قرآن اور حدیث کی زبان کلاسیکی, معیاری اور ادبی ہے . ان کے لفظ لفظ میں معانی کی ایک دنیا آباد ہے. عربی زبان کی اعلیٰ صلاحیت کے بغیر آدمی اپنے طور پر محض کسی اک ریسورس یا ڈکشنری سے ان باریکیوں کو مکمل نہیں سمجھ سکتا جو ان میں چھپی ہوئی ہیں..  لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اسلامی مسائل پر بحث و تمحیض کے لیے عربی زبان کا گہرا علم کیا معنی سرسری واقفیت بھی ضروری نہیں سمجھی جاتی.. جس سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور آدمی  تحقیق کے دوران  بعض اوقات غلط رخ کی طرف نکل جاتا ہے .رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسلام کو محض ایک نظریہ کی حیثیت سے نہیں پیش کیا بلکہ اس کی بنیاد پر ایک امت برپا کی، ایک معاشرہ قائم کیا اور ایک مملکت کا نظام چلا کر دکھایا، پھر آپ کے بعد خلفاء راشدین نے اسی نہج پر اسے جاری رکھا۔ یہ اسلام کی ایک مستند عملی تفسیر ہے۔ اسلام کا مطالعہ اس عملی تفسیر کو نظر انداز کر کے نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی مسئلہ پر سوچتے وقت یہ دیکھنا بالکل فطری بھی ہے اور ضروری بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے دور میں اسے کس طرح سمجھا گیا اور اس پر کس طرح عمل درآمد ہوا۔ اسلام کی ہر وہ تعبیر و تشریح جسے یہ دور مبارک رد کر دے کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔

اسلام کے مطالعہ کے سلسلہ میں ان بنیادی باتوں کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ ہمارا مطالعہ غلط رخ پر ہونے لگے اور ہم اپنے خود ساختہ تصورات کو اسلام کی طرف منسوب کر بیٹھیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قرآن و حدیث کو اپنے مزعومہ افکار و خیالات کے لیے استعمال کیا گیا اور انھیں ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی تو بڑی بھیانک غلطیاں سرزد ہوئیں، مختلف فرقے وجود میں آئے اور امت کا شیرازہ منتشر ہو کر رہ گیا۔ اسلام کی تعبیر و تشریح میں اس سے پوری طرح احتراز کرنا چاہیے۔

میں گفتگو کے خلاصہ کے طور پر علماء کرام اور دانشوروں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہ دنیا کے حالات سے بے خبر نہ رہیں۔ یہ بے خبریت جس میں ہم عافیت محسوس کر رہے ہیں، دینی فرائض کے حوالے سے ہمارے لیے زہر قاتل ہے۔ حالات سے آگاہی حاصل کریں اور ان کے مطابق اپنی صلاحیتوں، توانائیوں اور مواقع کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے کردار کا تعین کریں۔ آج کے حالات میں یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور اسی صورت میں ہم عالم اسلام کی بہتری اور مسلم امہ کے مفاد کے لیے کوئی مثبت اور موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
(استفادہ تحریر:  اسلام کے مطالعے کے اصول وشرائط، اسلام اور مستشرقین، المستشرقون والاسلام واصلاحی خطبات اورماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ۔ سے مشترکہ تیار کردہ مضمون،مرتب عمران شہزاد تارڑ  )
 جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
0096176390670
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...