Sunday 18 June 2017

دعوت دین کا حکیمانہ اسلوب اور دور حاضر میں ملحدین و کفار کو دعوت کیسے پیش کریں ۔

دعوت دین کا حکیمانہ اسلوب اور دور حاضر میں ملحدین و کفار کو دعوت کیسے پیش کریں ۔

سلسلہ الحاد کا علمی تعاقب:#26

(تالیف عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

مخاطبین دعوت دو چیزوں سے فوری طور پر متاثر ہوتے ہیں:
ایک داعی کا ذاتی کردار اور دوسرا اس کا بات کرنے کا اندازہ کہ وہ کس انداز میں اپنی دعوت کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس لیے ایک داعی کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کو بیان کردے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ مضامین دعوت کو لوگوں کے سامنے اس طریقے سے پیش کرے اور بات اس پیرائے میں کرے کہ ان پر حق پوری طرح آشکار ہو جائے اور بات ہر خاص و عام کی سمجھ میں آ جائے اور جن لوگوں کے دلوں میں قبولِ حق کی کچھ بھی صلاحیت اور تڑپ ہے، وہ اس کو قبول کرلیں۔ اس مقصد کے حصول کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دعوت کی زبان انتہائی مؤثر، داعی کا طرز کلام فطری اور اس کا اسلوب دل نشین ہو۔
ایک داعی کا کام یہ نہیں کہ وہ ایک مؤرخ کی طرح واقعات کو بیان کردے بلکہ اس کا کردار ایک صحافی، فلسفی اور مقنّن سے بالکل مختلف ہے۔ ایک طرف تو اس کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ زندگی کے تمام معاملات اس کے تحت آجاتے ہیں اور دوسری طرف اس کے مخاطبین میں مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے اور ان کی ذہنی استعداد بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اس لیے داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مخاطب کی صلاحیتوں کے اس اختلاف کو پیش نظر رکھ کر بات کرے، اور مخاطبین کے مذاق اور رجحان طبع کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کے مختلف اسالیب اختیار کرے اور اس کی طرف مختلف سمتوں سے آئے کہ نہ صرف اس پر حق واضح ہوجائے بلکہ اس پر اتمام حجت بھی ہو جائے۔ اگر داعی دعوت کا ایک ہی متعین اسلوب اختیار کرے گا تو اس کی ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔ کیونکہ اس کی یہ یک رنگی اس فطرت کے بالکل خلاف ہے جو اللہ تعالی نے ہر فرد میں طبیعتوں اور صلاحیتوں کے اختلاف کے ساتھ رکھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعوتی زندگی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے دعوتِ دین کا کوئی متعین اسلوب اختیار نہیں کیا بلکہ مخاطب کے حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو مناسب جانا، اس اسلوب اور انداز کو اختیار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اسلوب دعوت کی جو تلقین کی، اس میں بھی جو تنوع ہے، وہ مخاطبین دعوت کی اعتبار ہی سے ہے۔
داعی کا کام مدعو کے ذہن کو بالکل تبدیل کر کے رکھ دینا ہے، اس لیے یہ کام اس قدر آسان نہیں۔ اس کے لیے داعی کا صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم ہونا بھی ضروری ہے۔ دعوت حق میں حکیمانہ اندازِ تخاطب کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے حکمت کے سارے اصول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوتی زندگی میں ان اسالیب کو اختیار کرکے ایک مثال قائم کی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی اسی نہج پر تربیت فرمائی۔ دعوت کے اصول اور اسلوب کو اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کردینا امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی خصوصیت ہے جس میں دنیا کا کوئی مذہب ، چاہے وہ الہامی ہو، اسلام کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

’’ایک نادان اور غیرتربیت یافتہ مبلغ اپنی دعوت کے لیے اس دعوت کے دشمنوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ہو سکتا ہے۔ اگر اس کے پیش کیے ہوئے دلائل بودے اور کمزور ہوں گے، اگر اس کا اندازِ خطابت درشت اور معاندانہ ہوگا، اگر اس کی تبلیغ اخلاص و للہیت کے نور سے محروم ہو گی تو وہ اپنے سامعین کو اپنی دعوت سے متنفر کردے گا کیونکہ اسلام کی نشر و اشاعت کا انحصار تبلیغ اور فقط تبلیغ پر ہے۔ اس کو قبول کرنے کے لیے نہ کوئی رشوت پیش کی جاتی ہے اور نہ جبر و اکراہ سے کام لیا جاتا ہے بلکہ اللہ تعالی کے نزدیک وہ ایمان، ایمان ہی نہیں جس کے پس پردہ کوئی دنیوی لالچ یا خوف و ہراس ہو۔ اس لیے اللہ تعالی نے خود اپنے محبوب مکرم کو دعوت اسلامی کے آداب کی تعلیم دی‘‘۔
گویا دعوت کی کامیابی میں مرکزی کردار داعی کا ہے۔ داعی جس قدر تربیت یافتہ اور انسانی نفسیات کا عالم ہو گا، اسی قدر اس کی دعوت مؤثر ہوگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مؤثر ہونے کی ایک اہم وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی کردار تھا تو تو دوسری بنیادی وجہ آپ کا اسلوب دعوت تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مخاطبین کی ذہنی استعداد، میلانات، رجحانات اور ان کے خاندانی و علاقائی پسِ منظر کو سامنے رکھ کر دعوت کا کام کیا۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی متعین طریقِ دعوت نہ تھا بلکہ مخاطبین دعوت کے تبدیل ہونے کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوب دعوت بھی تبدیل ہوجاتا تھا۔ ایک جاہل، ان پڑھ اور اجڈ مخاطب کو دعوت دینے کا انداز پڑھے لکھے اور شہر کے رہنے والے فرد سے مختلف ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت زندگی کا مطالعہ ہر داعی اسلام کے لیے اس حوالے سے دلچسپ بھی ہے اور قابل تقلید(اتباع) بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مخاطب کی صلاحیت کو پیش نظر رکھ کر اس کو دعوت پیش کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے بعد لوگ مطمئن ہوکر واپس جاتے تھے۔
دعوت دین کا یہ وہ اسلوب ہے جو اللہ تعالی نے براہ راست اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دعوت دین کے ان ہی مختلف اسالیب کی تعلیم دی اور پھر صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور طرز عمل کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔
قرآن نے خود دعوت کے اصول اور اسلوب کو بیان کیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے ایک عملی مثال قائم فرمائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو بھی ان کی تلقین اور ہدایت فرمائی جیسا کہ گذشتہ سطور میں اس کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
سب سے پہلی اور بنیادی چیز دعوت دین کے اصول و مبادی کا سیکھنا سمجھنا اور پھر انکو بھرپور ایمانی قوت کے ساتھ سامنے والے پر پیش کرنا ہے اگر ہم قرآن کریم سے رجوع کریں تو ہمیں دعوت کے مدارج و منہج کا علم ہوتا ہے ...
ذیل میں چند ایک مدارج کا ذکر پیش کیا جا رہا ہے ۔

تبلیغ دین میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہ کی اہمیت :۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کے لیے زند گی گزارنے کا بہترین نمونہ ہیں ۔زندگی کے ہر وہ شے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی مثال اور نمونہ موجود ہے۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسی نمونہ کے مطابق اپنا نظام زندگی استوار کریں ۔اسی بات کو قرآن مجید نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾...الأحزاب
"بے شک تمھارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے جو اللہ سے ملنے اور قیامت کے آنے کی امید کرتا ہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو"

تبلیغ دین کے بنیادی اصول قرآن کی روشنی میں:۔

سورۃ النحل میں فرمایا ۔
﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ...١٢٥﴾...النحل
"آپ انہیں اپنے رب کی راہ کی طرف بلائیں حکمت عمدہ نصیحت اور احسن طریق سے بحث و تمحیص کے ذریعے "
اس آیت مبارکہ میں تبلیغ دین کے تین اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
(1)حکمت (2) وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ  یعنی عمدہ نصیحت (3)احسن طریق سے بحث۔
اہل علم اس حکمت کی تشریح کرتے ہو ئے لکھتے ہیں ۔کہ:۔"نہایت پختہ اور اٹل مضامین مضبوط دلائل و براہین کی روشنی میں حکیمانہ انداز سے پیش کئے جائیں جنہیں سن کر فہم و ادرا ک اور علمی ذوق رکھنے والا طبقہ گردن جھکا دے ۔اس استدلال کے سامنے دنیا کے فلسفے ماند پڑ جائیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیاتی وحی الٰہی کے بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تبدیل نہ کر سکیں۔
اہل علم اس لفظ کی تشریح یوں بیان کرتے ہیں ۔
"دانائی کے ساتھ مخاطب کی اذہنیت استعدادا اور حالات کو سمجھ کر موقع و محل کی مناسبت سے بات کی جائے ۔ہر قسم کے لوگوں کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکا جائے جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جز نکال سکتے ہیں۔ نہایت سنجید ہ طریقے سے مخاطب کی ذہنیت کا لحاظ رکھتے ہوئے بات پیش کی جا ئے "
وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ  یعنی عمدہ نصیحت کا مطلب ہے ۔نہایت موثر اور رقت آمیز نصیحت سے نرم خوئی اور دلسوزی کے ساتھ بات پیش کی جائے ۔اخلاص ہمدردی شفقت اور حسن اخلاق کے ساتھ خوبصورت اور معتدل انداز سے نصیحت ان لوگوں کے لیے زیادہ موثر ہوتی ہے جو زیادہ عالی دماغ اور ذکی و فہیم تو نہیں ہوتے مگر ان کے دل میں طلب حق کی چنگاری موجود ہو تی ہے۔
وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ  کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے ۔برائیوں اور گمراہیوں کا ابطال محض عقلی انداز سے ہی نہ کیا جائے بلکہ اس کے اندر اللہ نے برائی کے لیے جو فطری نفرت رکھی ہے۔ اسے بھی ابھارا جائے اور اس کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے ۔ہدایت اور اعمال صالحہ کی محض تلقین ہی نہ کی جائے بلکہ ان کی حقانیت عقلاً بھی ثا بت کی جا ئے اور ان کی رغبت و شوق اس کے اندر سے بھی پیدا کی جائے نصیحت درسوزی کے ساتھ پیش کی جائے اپنی علمی بالا دستی اور دوسرے کی کم علمی کو نہ ابھارا جائے بلکہ خیر خواہا نہ انداز سے بات کی جائے ۔
وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ  کا معنی یہ ہے کہ اول تو بحث و تمحیص سے گریز کیا جائے لیکن اس کی نوبت آہی جا ئے تو پھر نہایت احسن و موزوں انداز سے اپنا جائے ۔یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ باطل ہمیں ادھر ادھر کی بحثوں میں الجھا کر ہمیں ہمارے نصل العین سے ہٹانا و الجھانا چاہے گا تا کہ ہماری صلاحیتیں اور اوقات اسی طرف صرف ہوں ۔ مزید یہ کہ ایسی کچھاؤ کی فضا بن جائے کہ حق بات قبول کرنے کے احکامات اور فضا موزوں نہ رہے لہٰذا اگر بحث  کرنی ہی پڑے تو شائستگی کے ساتھ کہ فضا مکدر نہ ہونے پائے بحث برا ئے بحث کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ ہو۔حق شناسی اور انصاف کا دا من نہ چھوڑا جا ئے۔
دوسری جانب لوگوں تک دین کو صاف اور سیدھے انداز میں پہنچا دینا اور پورے یقین کے ساتھ اسلام کو ان کے سامنے پیش کر دینا ہی مطلوب ہے لیکن اس میں تنافر اور تحقیر کا عنصر شامل نہ ہو ورنہ وہ دعوت نہیں رہتی بلکہ مجادلہ و مناظرہ بن جاتی ہے کہ جس کے نتیجے میں ہدایت کا عام ہونا ممکن نہیں رہتا ...
قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر مجادلے کی ضرورت پیش بھی آ جائے تو احسن انداز میں کیا جائے ورنہ وہ صرف نفس پرستی اور ہار جیت کے کھیل سے بڑھ کر اور کچھ نہیں رہ جاتا ...
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
’’علم میں جدال اور جھگڑا نورِ علم کو انسان کے قلب سے نکال دیتا ہے۔ کسی نے عرض کیا کہ ایک شخص جس کو سُنّت کا علم ہو گیا وہ حفاظت سُنّت کے لیے جدال کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں بلکہ اس کو چاہیے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کر دے، پھر وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کر لے۔ (اوجز المسالک شرح مؤطا امام مالک ، جلد اوّل، صفحہ۱۵)
الشیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کہ ’’حکمت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ معانی کو مخاطب کی زبان میں ایسے موثر اور آسان اسلوب میں بیان کیا جائے جسے مخاطب بخوبی سمجھ جائے ، نہ تو اس کے دل میں اس معانی سے متعلق کوئی بھی شبہ باقی رہ جائے، نہ بیان کی کمزوری ،زبان کے فرق ،بعض دلائل کے باہم متعارض ہونے ،اور راجح قول بیان نہ کرنے کی وجہ سے حق پوشیدہ رہ جائے۔اور اگر کسی وقت مدعو کو متنبہ کرنے ، اس کا دل نرم کرنے اور اسے قبول حق پر آمادہ کرنے کے لئے ڈرانے و دھمکانے والی آیات اورترغیب و ترہیب کی احادیث کے ذریعہ وعظ و نصیحت کرنا ضروری ہو جائے تو ایسی صورت میں ترغیب و ترہیب والی نصیحت مدعو کے حسب حال ہونی چاہیئے، کیونکہ کبھی مدعو قبول حق کے لئے تیار ہوتا ہے جوتھوڑی سی تنبیہ کے ذریعہ ہی حق قبول کر لیتا ہے اور اس کے لئے حکمت ہی کافی ہوتی ہے۔اور بعض دفعہ مدعو کے قبول حق کی راہ میں کچھ دشواریاں اور رکاوٹیں بھی درپیش ہوتی ہیں تو ایسی صورت میں ترغیب و ترہیب والی آیات قرآنیہ کے ذریعہ نصیحت کرنے کے ساتھ ساتھ مدعو کے سامنے ان دشواریوں اور رکاوٹوں کا مناسب حل بھی پیش کرنا چاہیئے ۔[الدعوۃ لابن باز ؒ ص:۶۴] 
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا طریق دعوت ان اصولوں کی عملی شکل تھا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کے قلوب اور انداز فکر کو بدل ڈالا ۔اقدار بدل گئیں ۔قلوب کی کایا پلٹ ہو جانے سے برائی سے فطرت اور نیکی سے محبت پیدا ہو گئی اور اسی نفرت کی بناء پر وہ دائمی طور پر چھوٹ گئی۔
کلام کا آغاز واختتام کسی گفتگو میں بنیادی اہمیت رکھتاہے۔آغاز میں اگر سامعین متکلم کا موضوع سمجھ جائیں تو تفصیلات گفتگو تبھی قابل فہم ہوسکتے ہیں۔آغاز میں متکلم اپنی گفتگو کا مدعا ومضمون بیان کرتا ہے درمیان میں اس کے حوالے سے تفصیلات ودلائل بیان کیے جاتے ہیں اور آخر میں پھر خلاصہ کلام بیان کیا جاتا ہے۔اس پہلو سے بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا انداز خطاب نہایت معقول تھا۔

غیر مسلموں کے سامنے تبلیغ دین کی بنیاد:۔

دعوت کے مخاطب اگر عیسائی وغیرہ ہوتے تو قرآن مجید کی آیات مبارکہ کہ"تم اہل کتاب سےمجادلہ نہ کرو"کی عملی مثال پیش فرماتے اور اس وقت کسی اخلاقی مسئلے پر بحث  کرنے کی بجائے اقدار مشترک پر اکھٹا ہونے کی دعوت دیتے۔مثلا نجران سے عیسائی آیا تو انہیں دعوت دی گئی کہ :۔﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا ...٦٤﴾... آل عمران"اے اہل کتاب آؤ ایک بات کی طرف جو برابر ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں"اسی آیت کی تشریح ہر قل کو لکھے گئے خط سے بھی ہوتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی آیت کا حوالہ دے کر اسے بھی اسلام اور عیسائیت کی مشترکہ تعلیمات ہی کی بنیاد پر دعوت اسلام دی کہ عیسائیت اور اسلام کے بنادی عقائد میں بنیادی طور پر اختلاف نہیں۔اس لئے اسلام کوئی نئی چیز نہیں۔
یہی مضمون مقوقس عظیم قبط جریج بن مینا کے خط میں موجود ہے کسریٰ چونکہ مجوسی تھا اس لئے یہاں"اقدار مشترک" کا ذکر نہیں

غرض آپ کے خطوط جامع اور مختصر نویسی کا شاہکار دکائی دیتے ہیں۔ایک ایساشخص جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی آمد اور آپ کے پیغام کے  بارے میں کچھ بھی پتہ نہ ہو ،وہ ان مختصر خطوط سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے تعارف بھی حاصل کرلیتاہے۔اور آپ کے خط کے مقصود ومطلوب کو سمجھ لیتاہے کہیں سے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ کسی مکتوب کے بارے میں کسی نے اس کے سمجھ نہ آنے اور اس کے اختصار میں ابہام کا اظہار کیا ہو بلکہ بعض خوش بختوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور اسلام کے دائرہ میں داخل ہوگئے اور دوسرے بد قسمتوں نے انکار کردیا۔
خطوط نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  میں تبلیغ دین کے بنیادی اصولوں کی کارفرمائی بھی واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ کہیں بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ذاتی ہیبت اور دبدبے کی بات نہیں کرتے بلکہ دوسرے کی خیرخواہی کے جذبے کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے کہ اس خیر خواہی کے تحت دعوت دی جارہی ہے۔ان چند سطری خطوط میں توحید بھی ہے،رسالت اورآخرت بھی اور اللہ کی زمین پر اللہ کے قانون کی بالا دستی قائم کرنے کا مقصد بھی بیان کردیا گیا ہے۔

رفق و نرمی کی تلقین:-

داعی دعوت کا کوئی بھی اسلوب اختیار کرے، جب تک وہ مخاطب سے نرمی اور خیرخواہی کے جذبہ سے بات نہیں کرے گا، اس کی دعوت مؤثر نہیں ہوگی۔ سختی اور شدت مخاطب کے دل میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کرتی ہے جس سے مخاطب اپنی ضد پر اڑ جاتا ہے۔ نتیجتاً دعوت کا سارا فائدہ اور نصیحت کا سارا اثر زائل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے انبیاء کو اپنے بدترین مخالفین سے بھی نرم انداز میں گفتگو کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ جب اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو فرعون جیسے باغی کے سامنے پیغام ربانی لے کر جانے کا حکم دیا تو یہ ہدایت بھی فرمائی:
’’ اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى * فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى ‘‘ (طٰہٰ،: ۴۳،۴۴)
’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، اس نے سرکشی کی ہے تو اس سے نرم گفتگو کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے یا (اللہ سے) ڈرے‘‘۔
دعوت و تبلیغ میں رفق و نرمی کی اس سے بہتر مثال نہیں ہوسکتی کہ نہ انبیاء سے بہتر کوئی داعی ہوسکتا ہے اور نہ فرعون سے بڑھ کر کوئی سرکش اور باغی ہوسکتا ہے۔ اگر ایسے مجرم کے سامنے وعظ و نصیحت کرتے وقت نرمی اختیار کرنے کا حکم ہے تو عام مجرم اور گمراہ لوگوں سے تو کہیں بڑھ کر نرمی اختیار کرنی چاہئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبلغ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہمیشہ نرمی اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ہی قوم کی طرف مبلغ بنا کر بھیجا۔ چنانچہ وہ لوگوں کو مسلسل دعوت دیتے رہے لیکن قوم انکار کرتی رہی۔ بالآخر بارگارہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ قبیلہ دوس نے مجھے ہرا دیا۔ میں نے ان کو بہت دعوت دی لیکن وہ ایمان نہیں لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے بددعا کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کرنے کے بجائے قبیلۂ دوس کے لیے یہ دعا فرمائی:
’’اللھم اھد دوسا، ارجع الی قومک فادعھم و ارفق بھم‘‘’’اے اللہ دوس کو ہدایت عطا فرما (طفیل بن عمرو سے فرمایا) تم اپنی قوم کی طرف لوٹ جاؤ ان کو دعوت دیتے رہو لیکن ان کے ساتھ نرمی اختیار کرو‘‘۔(ابن ہشام، ’’السیرۃ النبویۃ‘‘، ۴۲۲۱۔ ابن اثیر، ’’اسدالغابہ‘‘، تذکرہ طفیل بن عمرو، ۳/۵۵)
دعوت و تبلیغ میں حسن اخلاق اور نرمی کا اسلوب کس قدر مؤثر ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دعوت و تبلیغ کے لیے یمن روانہ فرمایا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بعض لوگوں کے ساتھ سختی کی جس کی وجہ سے چھ ماہ مسلسل کوشش کے باوجود بھی لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس بلا لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بطور مبلغ روانہ فرمایا۔ ابن اثیر کا بیان ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور ان سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم خالد بن ولید کو یمن دعوت و تبلیغ کے لیے بھیج چکے تھے لیکن ان لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو روانہ کرتے وقت نصیحت کی کہ وہ خالد اور ان کے اصحاب کی وجہ سے (اہل یمن کے ساتھ) ہونے والی بدسلوکی اور نقصان کا تاوان ادا کریں (ان لوگوں سے نرمی کریں) چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پڑھ کر سنایا تو قبیلۂ ہمدان سارے کا سارا ایک ہی دن میں مسلمان ہوگیا۔‘‘ (الکامل فی التاریخ، ۲/۲۰۵)
وہ لوگ جو چھ ماہ سے قبول اسلام سے انکاری تھے، جب ان کے ساتھ نرمی کا اسلوب اختیار کیا گیا تو انہوں نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔ ان چند روایات سے نرمی کے اسلوب کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

موقع و محل کا لحاظ رکھنے کی تلقین:-

ہر داعی اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیکھے کہ کیا دعوت و تبلیغ کے لیے یہ وقت امور موقع مناسب ہے کیونکہ اگر مخاطب اعتراض اور نکتہ چینی کی طرف مائل ہو تو جذبے کی سچائی اور اندرونی لگن کے باوجود داعی کی دعوت غیر مؤثر ہوگی۔ اس وقت مناسب یہ ہوگا کہ داعی بحث کو بڑھانے کے بجائے وہیں ختم کرکے وہاں سے ہٹ جائے اور کسی مناسب موقع کا انتظار کرے۔ جب کسی دوسرے موقع پر مخاطب کا ذہن نکتہ چینی کی طرف مائل نہ ہو تو پھر اس کے سامنے حق کو پیش کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ‘‘ (الانعام، ۶: ۶۸)’’جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیات میں نکتہ چینی کررہے ہیں تو ان سے اعراض کرو یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں۔‘‘
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع بے موقع دعوت و تبلیغ جیسے نازک کام سے منع کیا ہے جب مخاطب کسی کاروبار یا ایسی دلچسپی میں منہمک ہو جس کو چھوڑ کر دعوت حق کی طرف متوجہ ہونا اس کی طبیعت پر گراں گزرے۔
ظاہر ہے کہ اس صورت میں مخاطب داعی کی بات کو کبھی بھی دل کی گہرائیوں اور حقیقی جذبے سے نہیں سنے گا جو دعوت کی کامیابی کا سب سے لازمی عنصر ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تلقین فرمائی کہ وہ دعوت و تبلیغ کے جوش میں ہر مجلس میں نہ گھس جایا کریں بلکہ پہلے حالات کا جائزہ لیں۔ اگر دعوت کے لیے ماحول سازگار ہو تو دعوت دیں ورنہ مناسب وقت کا انتظار کریں۔

عفو ودرگزر:۔

عفو و درگزر اور حلم وبردباری بھی تبلیغ دین میں محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک موثر طرز عمل تھا۔قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس بات کی طرف متوجہ کیا گیا کہ ایک دائمی حق کے لئے بہتریہ ہے کہ وہ عفو ودرگزر اور صبرو تحمل سے کام لے۔اس سے معاشرے کے اندر کھچاؤ اور تناؤ کا ماحول پیدا نہیں ہونے پائے  گا۔دعوت جس کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ فضا میں کھچاؤ نہ ہو بلکہ رواداری کا رجحان ہو۔اس سلسلے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ ﴿١٢٦﴾ وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿١٢٧﴾ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ ﴿١٢٨﴾...النحل
"اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کرلو تو بےشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس تحمل وبردباری اور عفوودرگزر کا مظاہرہ فتح مکہ کے موقع پر  فرمایا جس کے نتیجے میں جو در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔اور اسی موقع کے حوالے سے سورۃ النصر نازل ہوئی کہ"آپ نے دیکھ لیا کہ لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہورہے ہیں"
لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر کوئی شخص کسی حق بات کی خلاف ورزی کرتاتو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو  غصہ آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت اس وقت تک موجود رہتی جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حق کو غالب نہ فرمالیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نہ تو  اپنے نفس کے لئے غضبناک ہوتے اور نہ ہی اپنے نفس کے حوالے سے کسی سے انتقام لیتے۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک انداز یہ تھا کہ جب کبھی کوئی خلاف شریعت کام دیکھتے خاص طور پر ایسے شخص سے جس سے اس قسم کے کام کی توقع نہیں ہوسکتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فوراً حاضرین سے مخاطب ہوتے اور ا س کے باجود کہ جس سے غلطی سرزد ہوئی ہوتی وہ سامنے موجود ہوتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  صیغہ غائب میں تکلم فرماتے اور انداز گفتگو یہ ہوتا کہ"کچھ لوگوں کا یہ طرز عمل ہے"
یہ انداز گفتگو کسی کو غلطی کا احساس دلانے کے لئے اور اپنی ناراضگی محسوس کروانے کے لئے نہایت موثر ہوتاہے۔

غیر مسلم حکمرانوں کو لکھے گئے خطوط کا سلوب:۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مختلف علاقوں کے بادشاہوں کو جو خطوط لکھے ان کا انداز واسلوب ایسا ہے کہ اس میں کسی کمزوری یا مرعوبیت کا شائبہ بھی دکھائی نہیں دیتا بلکہ الفاظ اور مضمون میں عزم واستقلال نظر آتا ہے۔اس اسلوب سے واضح ہوتا ہے کہ لکھنے والے کو اپنے مشن سے کس قدر  لگاؤ ہے  اور اسے اپنے برحق ہونے کا کس قدر اعتماد ہے۔اس اسلوب نے مخاطبین کو متاثر کیا۔نپے تلے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید اور اس کی حاکمیت کوتسلیم کرنے کی دعوت دی گئی ہے ان بادشاہوں پر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ قوم کی گمراہی یا ان کی ہدایت پر آجانے کا دارومدار ان پر ہے ۔اگر انہوں نے دعوت اسلام قبول نہ کی تو قوم کی گمراہی کا وبال بھی ان پر ہی  پڑے گا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت جامعیت کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان کی دعوت کسی ذاتی غرض یا اقتدار کے لئے نہیں بلکہ اس دعوت کا مقصد اللہ کے بندوں کو انسانی تسلط سے آزاد کرکے اللہ کے دیئے نظام کے تابع کرنا ہے اور اس میں انہی کا فائدہ ہے ہر قل بادشاہ روم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لکھا۔
إِنِّي أَدْعُوكَ إِلَى الْإِسْلاَمِ ، فَإِنْ أَسْلَمْتَ فَلَكَ مَا لِلْمُسْلِمِينَ ، وَعَلَيْكَ مَا عَلَيْهِمْ
"میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں اگر تم نے اسلام قبول کر لیا تو تیرے حقوق وفرائض وہی ہوں گے جو اہل اسلام کے ہی  ہیں"
کسریٰ،بادشاہ ایران کو بھی اسی طرح کا خط لکھا:"أسلم تسلم فإن أبيت فعليك إثم المجوس"
"اسلام قبول کرلے،سلامت  رہے گا،اگر تم نے روگردانی کی تو پھر سارے مجوس کاوبال تجھ پر پڑے گا"
خوف طوالت سے ان خطوط کے متون پیش کرنا ناممکن ہے ورنہ ہر خط میں واضح کیا گیا کہ
آپ کی دعوت وتبلیغ کی حکمت عملی باقاعدہ منظم منصوبے کے تحت ہوتی۔

بُرائی کا جواب اچھائی سے دینا:۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا اسلوب تبلیغ قرآن مجید کی دی ہوئی ہدایات کے عین مطابق تھا۔قرآن مجید ہمیں یہ اصول دیتا ہے:
﴿ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾...فصلت"(سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو نہایت احسن ہو۔ایسا کرنے سے تم دیکھو گے کہ جس کے ساتھ تمہاری دشمنی تھی،گویا کہ وہ تمھارا گرم جوش دوست ہو گیا"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیشہ یہی طریق کار اختیار فرمایا کہ برائی کابدلہ برائی سے نہیں۔بلکہ احسان کی صورت میں دیا جائے چنانچہ قرآن مجید میں اللہ کے بتائے ہوئے نتائج کا سامنے آنا ایک واضح حقیقت تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس طرز عمل نے دشمنوں کو بھی آپکا گرویدہ بنادیا۔یہ اندازہ اپنانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے۔ کہ فضا میں کھچاؤ پیدا نہیں ہوتا جو کہ دعوتی کام میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:
"اتَّقِ الله حيثما كنتَ ، وأتْبِعِ السَّيِّئَةَ الحسَنَةَ تَمْحُهَا. وخالِقِ الناسَ بخلُق حسن"
"تم ہرحال میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔بُرائی کو نیکی سے مٹاؤ اور سب انسانوں سے حسن سلوک سے پیش آؤ"
ایک اور جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد  گرامی منقول ہے:
"بلا شبہ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے ختم کرتا ہے۔بلا شبہ نجاست کو نجاست سے مٹا کر پاکیزگی حاصل نہیں کی جاسکتی"(64)

مبلغ باطل سے سازگاری پیدا نہ کرے:۔

حق اور باطل میں کشمکش ایک فطری امر ہے۔اگر اہل حق اپنے مشن میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خوشخبری دے دی ہے کہ غالب حق ہی آئےگا اور باطل مٹ جائے گا لیکن یہ بات اس  شرط کے ساتھ کردی گئی ہے:
1۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُ‌وا اللَّـهَ يَنصُرْ‌كُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (66) 
"اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا"
2۔وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (67)
"تم نہ سستی کرو اور غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم ایماندار ہو"
یعنی تم اگر اللہ کے دین کےلیے قربانی دو گے اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کروگے تو پھر اللہ کی نصرت بھی شامل حال ہوجائے گی۔پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری سنائی کہ:
3۔وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ (68)
"اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا"
4۔أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (69)
"آگاه رہو بیشک اللہ کے گروه والے ہی کامیاب لوگ ہیں"
5۔جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (70)
"حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا۔ یقیناً باطل تھا بھی نابود ہونے والا "

حق وباطل کی کشمکش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ اصول بھی ملتا ہے کہ حق ،باطل کے ساتھ ساز گاری اور "کچھ لو،کچھ دو" کا معاملہ نہ کرے۔قرآن مجید نے باطل کے ساتھ ساز گاری سے بہت شدید الفاظ کے ساتھ منع کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حق والے اگر اہل باطل کے ساتھ سودے بازی کرسکتے ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ باطل سے مل کر رہنے کو تیار ہیں جبکہ حق،حق ہے اور باطل اس کے بالکل برعکس۔ان دونوں گروہوں کا شیروشکر ہوکر ایک جگہ بیٹھنا اسی طرح غیر فطری ہے جس طرح آگ اور پانی کا یکجا ہونا۔اس طرح حق اور باطل میں ساز گاری غیر فطری ہے۔
اسی طرح جب حق والے باطل کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار ہوجائیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حق کے لئے قربانی دینے سے  گریزاں ہیں اور باطل والے حق والوں کی اس کمزوری کو فوراً بھانپ لیتے ہیں کہ حق پر ضرب لگانے کا یہ بہترین موقع ہے۔کہ حق والے باطل سے صلح کرنے کے بعد گوشہ عافیت میں  بیٹھے ہوتے ہیں چنانچہ باطل اس پر کاری ضرب لگانے میں دیر نہیں کرتا۔حق والوں کاباطل کے ساتھ مل بیٹھنا در حقیقت حق اور باطل کو ملا جلا کرایک ملغوبہ تیار کرنا ہوتاہے اس صورت میں حق کی اثر پزیری متاثر ہوتی ہے جوایک بڑا جرم ہے۔
اس سلسلے میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اسوہ حسنہء سے بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ اہل باطل نے کئی مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سودے بازی کی جسارت کی لیکن انہیں ہر مرتبہ منہ کی کھانی پڑی۔کفار مکہ نے سر توڑ کوششیں کیں کہ"آپ ہمارے خداؤں کو برا نہ کہیں ،ہم آپ کے خدا کوبرا نہیں کہتے"(72)
کبھی باطل نبی کی جانب  سے پیش کش آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک علاقے کے نبی بن جائیں اور مجھے دوسرا علاقہ دے دیں۔(73)
کبھی بہترین خاندان میں شادی،مکہ کی سرداری اور مال ودولت کے ڈھیروں کی پیش کش کی گئی۔کبھی آپ کے چچا ،ابوطالب کو درمیان میں لا کر سفارش کی گئی۔کہ آپ باطل سے ساز گاری پیدا کرلیں۔لیکن زبان نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے  جب جواب نہیں ملا وہ اولو الالعزمی کی سنہری مثال ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
"یہ لوگ اگر میرے ایک ہاتھ پور سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں تو بھی میں اپنا مشن نہ چھوڑوں گا"(74)

تحمل وبردباری:۔

کفار کی کوششوں کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا جو اسوہ ہمارے سامنے آتا ہے:وہ یہ ہے کہ ان کی نہایت جاحانہ پالیسی کے مقابلے میں اشعال کا مظاہرہ نہیں فرمایا بلکہ نہایت تحمل سے انہیں قرآن مجید سنایا۔اس سے ایک مبلغ کے لئے بھی یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ:
"باطل سے دبنے،اس کی پیدا کردہ بے مقصد اشتعال انگیزیوں،پروپیگنڈہ،الزامات،اعتراضات اور اوچھے ہتھکنڈوں کی بحث میں  پڑ کر اپنا وقت اور اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے،ان کےسامنے اپنا منشور یعنی قرآن کا پیغام پیش کیا جائے۔گویا کسی بھی صورت میں اپنے منشور اور نصب العین کو نگاہ سے دو نہ ہونے دیں"

صبر کی تلقین:۔

﴿وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿١٢٧﴾ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ ﴿١٢٨﴾...النحل
"آپ صبر کریں بغیر توفیق الٰہی کے آپ صبر کر ہی نہیں سکتے اور ان کے حال پر رنجیده نہ ہوں اور جو مکر وفریب یہ کرتے رہتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہوں۔ یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیک کاروں کے ساتھ ہے"
"فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‌ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْمُشْرِ‌كِينَ"(80)
"پس آپ اس حکم کو جو آپ کو کیا جارہا ہے کھول کر سنا دیجئے! اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے"
"خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ" (81)
"اے پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وسلم ) در گزر کواپنا طریق بنا لیں۔اچھی بات کا حکم دیں اور جاہلوں سے الگ ہوجائیں"
اس موضوع کی اور بھی کئی ایک آیات کا حوالہ دیاجاسکتاہے جن میں دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں طرز عمل کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔
کج بحثی سےگریز:۔

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے کئی ایک مثالیں ملتی ہیں کہ کفار مسلمانوں کے ساتھ خوامخواہ الجھاؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔اس سے فضا بحث وتمحیص اور مجادلہ کی شکل اختیار کرجاتی اور یہی کفار کا مقصد بھی تھا کہ مسلمانوں کو ان کے دعوتی کام سے ہٹا کر اعتراضات اور پروپیگنڈہ کے جوابات میں الجھا   دیا جائے۔ایسی فضا میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ:
وَ قُلْ لِعِبادي يَقُولُوا الَّتي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطانَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطانَ كانَ لِلْإِنْسانِ عَدُوًّا مُبيناً(82)
"اے پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرے  بندوں سے فرمادیجئے کہ(جب کافروں سے بحث کریں) تو وہ بات کہیں جو اچھی ہے کیونکہ شیطان(سخت کلامی کرواکے) لوگوں کو لڑاتا ہے۔بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے"

  عصر حاضر اور تبلیغ دین :۔

دور حاضر میں تبلیغ دین اتنا ہی اہم فریضہ ہے جتنا کسی پہلے دور میں تھا ۔کیونکہ اسلام ایک دائمی دین ہے اور اسے قیامت تک ذریعہ را ہنما ئیبنتا ہے ۔کتاب و سنت میں اس سلسلے میں اس قدر تاکیدی احکام موجود ہیں کہ فریضہ دین کی اشاعت و تبلیغ کی ذمہ داری سے کوئی شخص بری نہیں ہو سکتا ۔یہ افراد کی ذمہ داری بھی ہے  اور اسلامی حکومتوں کا فرض بھی کہ وہ اشاعت دین اہتمام کریں
دین اسلام انسان کی فطری ضرورت ہے کوئی شخص لا علمی کم علمی تعصب یا کسی اور سبب سے دین اسلام سے راہنمائی حاصل نہ کر رہا ہو تو الگ بات ہے لیکن اگر ایک انسان سلام طبع کے ساتھ اپنے مسائل اور اسلام میں دئیے گئے اس مسئلے کے حل میں دونوں کو ساتھ ساتھ رکھ کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ اس کے مسئلے کا حقیقی حل اسلام ہی نے دیا ہے اس طرح اسلام انسان کی ایک فطری ضرورت ہے ۔
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرا می بھی ہے کہ:
اللہ تعا لیٰ کا بھی یہ اعلا ن ہے کہ :
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ...٣﴾...المائدة
"آج کے دن ہم نے تمھا رے لے تھا را دین کامل کر دیا اور اپنی  نعمتیں تم پر پو ری کر دیں اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا "
ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تبلیغ دین کی اشاعت فروغ ایک لازمی ضرورت ہے۔
عصر حاضر میں تبلیغ دین کے امکانات کے حوالے سے سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ: "صرف امر بالمعروف کی تشہیر سے مقصد پورا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے ساتھ انہی عن المنکر موجود نہ ہو "قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی امر بالمعروف کا ذکر آیا ہے وہاں نہی عن المنکر بھی ساتھ موجود ہے ۔یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ نہی عن المنکر اور فواحش کے انسداد کے بغیر امر بالمعروف محض وعظ و نصیحت کی حیثیت ہی سے باقی رہ جاتا ہے ۔

مخاطب کے ساتھ گفتگو کیسے کریں:-

مخاطب کے ساتھ اس کے فہم کے مطابق گفتگو کرنے کے لئے اس کے معاشرتی اور علمی مقام کا جاننا بھی بہت اہم ہے۔مشاہدہ ہے کہ انسان اپنے سے کم تعلیم یافتہ شخص کی بات پر کان نہیں دھرتا،بلکہ اس پر منفی رد ِعمل کا اظہار کرتا ہے۔خودپسندی اور اناپرستی کے اس دور میں کسی کو قائل کرنا یا کوئی بات سمجھانا بہت مشکل ہے۔یہ دشواری اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب مخاطب پڑھا لکھا ہوا اور کچھ معلومات رکھتا ہو۔ایسے لوگوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بات کرنے والے کا علمی معیار ان کے مساوی ہو، ان سے براہ راست گفتگو نہ کی جائے اور ان پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا جائے کہ وہ اس گفتگو کے مخاطب ہیں۔
ہم جو بات مخاطب کو بتانا یا سمجھانا چاہتے ہیں اس کے بارے میں ہمیں گہری واقفیت ہونی چاہیے اور ہمارے ذہن میں متوقع سوالات کے تسلی بخش جوابات پہلے سے موجود ہونے چاہئیں، ورنہ چھوٹی سے غلطی یا لغزش سے سارا معاملہ الٹ ہو جائے گا۔ہماری ناواقفیت اور عدم بصیرت کے ان اعلیٰ حقائق پرمنفی اثرات پڑیں گے، جن کا ہم دفاع کرنا چاہتے ہیں اور مخاطب کی نظر میں ان کی قدرومنزلت ختم ہو جائے گی،جس سے منفی تاثر ملے گا اور مخاطب دوبارہ ایسی گفتگو میں شرکت سے گریز کرے گا۔

ایسی صورتحال پیدا کرنے والے کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو وہ شدید غلطی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے۔کتنے ہی نوجوان جاہل مرشدوں کی ناقص معلومات کے نتیجے میں بے دینی کی کھائی میں جاگرتے ہیں۔
پرانے دورکی ایک عوامی کہاوت ہے:‘‘الامام الجاہل یذھب بالدین و الطبیب الجاہل یذہب بالروح’’(جاہل امام کی وجہ سے دین کا خاتمہ اورجاہل طبیب کی وجہ سے جان کاخاتمہ ہوتاہے۔)بلکہ جاہل امام کانقصان جاہل طبیب سے کہیں بڑھ کر ہے، کیونکہ جاہل طبیب کانقصان دنیاکی مختصر سی زندگی تک محدود ہوتا ہے،جبکہ جاہل امام لوگوں کی ابدی زندگی برباد کرتا ہے۔

اپنے مخاطب کی عزت نفس کو نشانہ نہ بنایا جائے:-

ہمیں اپنے مخاطب کے غلط افکار اور نادرست تعبیرات پر ایسے انداز سے تنقید نہیں کرنی چاہیے کہ جس سے اس کی عزتِ نفس مجروح ہو یا دوسروں کے سامنے اس کی بے عزتی ہو۔ اگر ہمارا مقصود اس کے دل میں جگہ بنانا اور اس تک اپنی بات پہنچانا ہے تو ہمیں کھلے دل سے اپنی عزتِ نفس کے مجروح ہونے کو قبول کرنا ہو گا۔ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم مخاطب کے جذبات کو مجروح کرکے اس سے اپنی کوئی بات نہیں منوا سکتے،بلکہ ایسا رویہ اسے ہم سے مزید دور کرنے کا باعث بنے گا۔

اپنے مخاطب کو اپنی بات کہنے کا پورا پوا موقع دیںنا چاہیے :۔

ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے شخص کو وقتاً فوقتاًاپنی بات کہنے اور اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع دیں،کیونکہ انسان ہونے کے ناطے اس کا احترام کرنا ضروری ہے۔اگر انسان کے عقیدے کی مضبوطی اور قطعیت کا رخ اس کے اپنے دل کی طرف ہو تو یہ عقیدے کی پختگی اور فضیلت کا باعث ہوتا ہے،لیکن اگر اس کارخ باہر کی طرف خصوصاً جاہل شخص کی طرف ہو تو یہ نفرت پھیلانے اور افہام وتفہیم کے موقع کو ضائع کرنے کا باعث بنتا ہے۔

اگرچہ باطل افکار سننے سے دل مجروح اور فکر پراگندہ ہوتا ہے، لیکن اپنے مخاطب کا دل جیتنے کے لیے اس پر صبر کرتے ہوئے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا،بصورت دیگر اگر ہم نے اسے اپنی بات اور فکر کے اظہار کا موقع نہ دیا اور ساری نشست میں خود ہی گفتگو کرتے رہے تو ممکن ہے اسے اس میں سے کوئی بات بھی سمجھ میں نہ آئے۔کتنے ہی داعی حضرات اس سلسلے میں شہرت رکھتے ہیں اور لوگوں میں ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھے جاتے ہیں۔ایسے داعیوں کی حالت ایسی ہی ہے،جیسے کوئی پھٹے ہوئے مشکیزے یاچھننی کے ذریعے پانی کومنتقل کرنا چاہے۔ایسی صورت میں کوشش بسیار کے باوجود مثبت اثرات مرتب نہیں ہوتے، اس لیے جو لوگ دوسروں کی گفتگو سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے آداب کا خیال رکھتے ہیں انہیں کامیابی نہیں ہوتی۔
جاری ہے۔۔۔
حوالہ جا ت :۔64:احمد بن حنبل مسند ۔66:محمد7۔67:آل عمرا ن139۔68:الصفت173۔
69؛المجا ء 22۔70۔بنی اسرا ئیل ۔73۔ابن ہشام السیر ۃ النبویہ جلد دو م صفحہ 288۔74:سیک دفعہ قریش نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے چچا ابو طالب سے کہا کہ تمھا را بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے.........۔
80:الحجر:94۔81:الاعراف:199۔82:بنی اسرائیل52۔
جاری ہے۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
0096176390670
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...