Wednesday 21 June 2017

پانی سے زمین پر منتقلی کی کہانی

پانی سے زمین پر منتقلی کی کہانی

 سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب:#43

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

”پانی سے زمین تک“ کے فرضی مفروضے کے مطابق کچھ مچھلیوں کو زمین پر آنے کی ضرورت خوراک کے مسئلوں کی وجہ سے پیش آئی۔ اس دعوے کو ان قیاس آرائیوں پر مبنی تصاویر نے سہارا دیا ہے۔

ارتقاءپسندوں کا خیال ہے کہ سمندری غیر فقاری حیوانات جو کہ کیمبرین زمینی طبق میں ظاہر ہوتے ہیں وہ لاکھوں سال کے عرصے کے دوران مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ۔لیکن جس طرح کیمبرین غیر فقاری حیوانات کے کوئی پرکھا نہیں ہیں بالکل اسی طرح ان غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے درمیان تعلق ثابت کرنے والے وسطی نوعیت کے جانداروں کا بھی کوئی نام و نشان موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے درمیان زبردست ساخت کا فرق ہے۔ غیر فقاری حیوانات کے سخت ریشہ لحمی ان کے جسم کے باہر ہوتے ہیں جبکہ مچھلیاں فقاری جاندار ہیں جن کے سخت ریشہ لحمی ان کے جسم کے اندر ہوتے ہیں۔ غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے مابین ارتقائی عمل کا روپذیر ہونا کروڑوں مرحلوں پر مشتمل ہوگا اور اسی حساب سے کروڑوں جاندار اس عمل کو ثابت کرنے کے لئے زمین پر بھی موجود ہونے چاہئے تھے۔ ارتقاءپسند پچھلے ۰۴۱ سال سے فوصلی خطوں کی کھدائی اس امید پر کرر ہے ہیں کہ شاید ان کو کہیں سے ان تصوراتی اجسام کا سراغ مل جائے۔ ان کو لاکھوں کی تعداد میں غیر فقاری حیوانات اور مچھلیوں کے فوصل تو مل گئے لیکن ایک بھی ایسا فوصل نہیں مل سکا جو ان دونوں کے درمیان کی وسطی تدریجی شکل کہلایا جاسکے۔

ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات جیرالڈ، ٹی۔ ٹوڈ ”ہڈی والی مچھلیوں کی ابتداءاور پھیپھڑے کا ارتقائی“ کے نام سے ایک مضمون میں ملتی جلتی ہی ایک حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں:

”ہڈی والی مچھلیوں کی تینوں تقسیمات فوصلی ریکارڈ میں تقریباً ایک ہی وقت میں نمودار ہوئیں۔ یہ تینوں نامی اجسام تشکیل کے حوالے سے بالکل مختلف ہیں اور حفاظتی چادروں سے لیس ہیں۔ ان کی ابتداءکیا ہے؟ کن حالات کے تحت ان کی اتنی وسیع گروہ بندی ہوگئی؟ ان کی بھاری حفاظتی چادروں کی کیا وجہ ہے؟ اور ان کی سابقہ وسطی اشکال کا کوئی نام و نشان کیوں نہیں ہے؟“ ۸۳


ارتقائی منظر ایک قدم اور آگے جاتا ہے اور بحث کرتا ہے کہ مچھلیاں جوکہ نظریہ ارتقاءکے حساب سے غیر فقاری حیوانات کی تدریجی شکل ہیں وہ بربحری حیوانات میں بھی تبدیل ہوگئیں۔ لیکن اس نظریئے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ایک بھی فوصل کسی آدھی مچھلی/ آدھی بر بحری مخلوق کا نہیں مل سکا جو کہ اس بات کی تصدیق کرسکے ۔ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ماہرِ غیر فقاری معدوم حیوانات را برٹ کیرل اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔ اپنی مشہور کتاب ”فقاری معدوم حیوانات اور ارتقائی“ میں وہ لکھتا ہے:

ارتقاءپسندوں کا دعویٰ تھاکہ کولیکانتھ جانداروں کی پانی سے زمین تک منتقلی کی عبوری شکل ہے۔لیکن ۸۳۹۱ءسے لے کر اب تک اس مچھلی کے کئی زندہ نمونے پکڑے جاچکے ہیں جو ارتقاءپسندوں کے خیالی نظریوں کی انتہاءکا ثبوت ہیں۔

”قدیم دور کے رینگنے والے حیوانات بربحری حیوانات سے بہت مختلف تھے اور ان کے پرکھا کا کوئی نشان نہیں مل سکا ہے۔“اپنی ۷۹۹۱ءمیں چھپنے والی نئی کتاب ”فقاری ارتقاءکے نقوش اور عمل“ میں وہ لکھتا ہے:”قدیم مچھلیوں اور بربحری حیوانات کے درمیان کے کوئی وسطی نوعیت کے فوصل دریافت نہیں ہوئے ہیں۔“ ۹۳


دو ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات کولبرٹ اور مورالس بربحری مینڈکوں ، سالامانڈر یا چھپکلی کی طرح کی بربحری دم دار مخلوق اور سائسی لین یا جل تھلی کیڑا جس کی آنکھیں ناقص ہوتی ہیں اور ہاتھ پاﺅں نہیں ہوتے پر اپنی رائے کا اظہار کرتےہیں:

”کسی بھی ایسے پیلیوزوئک بربحری حیوان کا ثبوت موجود نہیں ہے جس کا ایک مشترک پرکھا ہونے کی وجہ سے ساری خصوصیات یکجا ہوں۔ مینڈکوں، سالامانڈر اور سائسی لین کے قدیم ترین فوصل بھی دورِ حاضر کے ان جانداروں سے ہوبہو مشابہ ہیں۔“ ۰۴


۰۵ سال پہلے تک بھی ارتقاءپسندوں کو ایسے حیوان کے ملنے کی امید تھی۔ ایک تقریباً ۰۱۴ لاکھ سال پرانی کولیکانتھ نامی مچھلی کو انہوں نے مچھلی اور بربحری مخلوق کی وسطی تدریجی شکل کے طور پر پیش کیا۔ اس مچھلی میں قدیم پھیپھڑا، مکمل بھیجا، زمین کے اوپر کام کرنے کے لائق نظام انہضام اور نظام دورانِ خون اور قدیم طور پر چلنے کی صلاحیت موجود تھی۔ ۰۳۹۱ءکے آخر تک یہ تشریح الاعضاءکی تفصیل سائنسی حلقوں میں ایک بلا حجت سچ کے طور پر قبول کی جاتی رہی۔ کولیکانتھ کو پانی سے زمین پر حیوانات کی منتقلی کی حقیقتاً اصل وسطی شکل تسلیم کرلیا گیا تھا۔ لیکن ۲۲ دسمبر ۸۳۹۱ءکو بحیرہ ہند سے ایک انتہائی دلچسپ دریافت سامنے آئی۔ کولیکانتھ مچھلی کے خاندان کا ایک زندہ فرد پکڑاگیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک ایسی وسطی نوعیت کا فوصل ہے جو کہ پانی سے زمین پر منتقلی کو ثابت کرتا ہے اور ۰۷ لاکھ سال پہلے معدوم ہوچکا ہے۔کولیکانتھ کے اس زندہ نمونے نے ارتقاءپسندوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ارتقائی ماہرِ معدوم حیواناتو نباتات جے۔ایل۔ بی اسمتھ کا کہنا ہے کہ:

”اگر میں راہ چلتے ایک زندہ ڈائینوسار کو بھی دیکھ لیتا تو مجھے اس سے زیادہ حیرت نہیں ہوتی جتنی اس مچھلی کو دیکھ  کر ہوئی ہے۔“ ۱۴


ارتقاءکی تردید کرتا ہو اثبوت

دوسری طرف ایک جرمنی سے دریافت ہونے والا ۵۴ لاکھ سال پرانا تازہ پانی کے کچھوے کا فوصل ہے۔ اس کے ساتھ برازیل سے ملنے والا سب سے قدیم سمندری کچھوے کا فوصل ہے جو کہ ۰۱۱ لاکھ سال پرانا ہونے کے باوجود دورِ حاضر کے کچھوے کی شکل کا ہے۔جو تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

۰۰۱ لاکھ سال پرانا کچھوے کا فوصل دورِ حاضر کے کچھوے کے عین مشابہ ہے۔ (داڈ ان آف لائف، آربس پبلیکیشنز، لندن ۲۷۹۱)

جس طرح نظریہ ارتقاءجانداروں کی مچھلی جیسی بنیادی نسل اور خزندوں کی ابتداءکو بیان نہیں کرسکتا اسی طرح وہ ان نسلوں کے اندر مختلف درجوں کی بھی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر خزندوں کے گروہ کا حیوان کچھوا فوصلی ریکارڈ میں اپنے مخصوص خول کے ساتھ اچانک نمودار ہوتا ہے۔ ایک ارتقائی ذریعے کے مطابق اس انتہائی اعلیٰ اور کامیاب ترتیب کی ابتداءاولین فوصلوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے مبہم ہے حالانکہ کچھوے دوسرے فقاری جانوروں کی نسبت زیادہ بہتر فوصلی نشانات چھوڑتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کچھوے کو ٹیلوسارنامی خزندوں کی ارتقائی شکل ہےں لیکن کیچھوے اور کوٹیلوسار کے درمیان کسی بھی طرح کے عبوری حیوانات کا کوئی نشان نہیں ملتا۔(انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا آنلائن ”ٹرٹل“)

دورِ حاضر میں موجود کچھووں اور قدیم زمانے کے کچھوﺅں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ مخلوق کسی بھی دوسرے حیوان کی تدریجی شکل نہیں ہے بلکہ یہ ہمیشہ سے اسی شکل میں موجود رہے ہیں۔

آنے والے وقت میں ۰۰۲ کے قریب کولیکانتھ مچھلیاں دنیا کے مختلف حصوں سے پکڑی گئیں۔ زندہ کولیکانتھ کے معائنے سے ظاہر ہوا کہ ارتقاءپسند اپنے تصوراتی نظریوں کی حقیقت کو منوانے کے لئے کس کس طرح کے قدم اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے ہر دعوے کے برخلاف کولیکانتھ کے نہ تو قدیم پھیپھڑے تھے اور نہ ہی بڑا بھیجا۔ اس کے جس عضو کو ارتقاءپسند تحقیق دانوں نے ناپختہ پھیپھڑے کا نام دیا تھا وہ دراصل نامیات کے گھولنے کا ایک تھیلا تھا۔ ( ۲۴ )مزید یہ کہ کولیکانتھ جس کا تعارف پانی سے زمین کی طرف منتقلی کے لئے تیار حیوان کے طور پر کروایا گیا تھا دراصل ایک مچھلی ہے جو کہ سمندرکی اس قدر گہرائی میں پائی جاتی ہے کہ وہ کبھی بھی سطح سمندر سے ۰۸۱ میٹر سے کم کے فاصلے پر نہیں آئی۔

پانی سے زمین پر منتقلی کیوں ناممکن ہے

ارتقاءپسندوں کا یہ دعویٰ ہے کہ ایک روز پانی میں رہنے والی کسی نسل نے زمین پر قدم رکھا اور زمین پر بسنے والی مخلوق میں تبدیل ہوگئی۔ کئی وجوہات کی بناءپر ایسی منتقلی ناممکن ہے۔

۱۔ وزن برداشت کرنے کی صلاحیت : سمندری حیوانات سمندر کے اندر اپنا وزن برداشت کرسکتے ہیں جبکہ زمین پر رہنے والے زیادہ تر جاندار اپنی ۰۴ فیصد طاقت اپنے جسموں کو اٹھائے پھرنے میں صرف کردیتے ہیں۔ کسی حیوان کا پانی سے زمین پر منتقلی کا مطلب ان کے اندر نیا عضلاتی نظام اور ڈھانچے کا پیدا ہونا ہے تاکہ وہ اپنے وزن کو اٹھانے کا کام انجام دے سکیں۔ یہ زبردست تبدیلی کسی بھی طرح کی اتفاقیہ جینیاتی ردوبدل یا حادثے کے تحت ممکن ہی نہیں۔

۲۔ گرمی کو جذب رکھنے کی صلاحیت : زمین کے اوپر درجہ حرارت بہت تیزی سے بدلتا ہے۔

زمین پر رہنے والے حیوانات کے اندر اس بدلتے ہوئے درجہ حرارت کو برداشت کرنے کے لئے قدرتی طبعیاتی نظام موجود ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پانی کے اندر درجہ ہرارت آہستہ اور کم سلسلہ حدود میں بدلتا ہے۔ پانی میں رہنے والا جاندار اگر زمین پر آجائے تو اس کو زمین کے درجہ حرارت میں شدت کے باعث نقصان سے بچنے کے لئے نیا حفاطتی نظام پیدا کرنا پڑے گا۔ ایسا سوچنا بھی شدید بے وقوفی ہے کہ مچھلیاں اچانک زمین پر آئیں اور بے ترتیب جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے زمین کی مخلوق بن کر رہنا شروع ہوگئیں۔

۳۔ پانی : پانی تحوّل کے لئے ضروری ہے لیکن چونکہ زمین پر پانی کم مقدار میں پایا جاتا ہے اس لئے اس کے استعمال میں احتیاط لازمی ہے۔ مثال کے طور پر زمینی حیوانات کی کھال مخصوص مقدار میں پانی ضائع کرنے کی متحمل ہوتی ہے۔ اسی لئے زیادہ پانی نکل جانے کی صورت میں زمین پر رہنے والے حیوانات کو پیاس لگتی ہے ۔اس کے برعکس سمندری حیوانات کو پیاس نہیں لگتی۔ اس وجہ سے سمندری حیوانات کی کھال زمین پر مستقل رہائش کے لئے ناموزوں ہے۔

۴۔ گردے : سمندری جاندار اپنے جسم کے فضلات کی نکاسی زیادہ تر امونیا کی صور ت میں کرتے ہیں۔ چونکہ زمین پر پانی کا استعمال کفایت شعاری سے کرنا پڑتا ہے اس لئے پانی کے حیوانات میں گردے موجود ہوتے ہیں جو کہ امونیا کو یوریا میں تبدیل کرکے کم سے کم پانی کی صورت میں خارج کرتے ہیں۔ پانی سے زمین پر منتقل ہونے کے لئے کسی بھی جاندار میں گردوں کا نظام ہونا بے حد ضروری ہے۔

۵۔ نظامِ تنفس : مچھلیاں اپنے گلپھڑوں سے گزرتے ہوئے پانی کے اندر موجود آکسیجن سے سانس لیتی ہیں۔ پانی سے باہر وہ چند منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتیں۔ یہ ناممکن ہے کہ کسی آبی حیوان میں اچانک ایسا پیچیدہ نظام تنفس نمودار ہو جائے کہ وہ با آسانی زمین پر زندہ رہنے کے قابل ہوجائے۔

ان تمام ڈرامائی طبےعیاتی تبدیلیوں کا کسی بھی جاندار کے اندر اچانک اتفاقاً نمودار ہوجانا ایک ناممکن ترین امکان ہے اور یہ پانی سے زمین پر منتقلی کے ہر قصے کو رد کر دیتا ہے۔
(بشکریہ:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ)
جاری ہے۔۔۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...