Saturday 3 June 2017

الحاد کو اس قدرفروغ کیوں مل رہاہے؟

الحاد کو اس قدرفروغ کیوں مل رہاہے؟

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب:#20

(تالیف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان )

چونکہ الحاد سے مراد انکارِ خدا ہے،اس لیے اس کے فروغ کا روحانی زندگی کی موت و انحطاط کے ساتھ گہرا تعلق ہے،تاہم اس کے پھیلنے کے اس کے سوا اور بھی اسباب ہیں۔فکری سطح پرالحاد خدا کے وجود کے انکار اور اسے قبول نہ کرنے سے عبارت ہے۔نظری طور پر یہ مادر پدر آزادی کا نام ہے اور عملی طور پر یہ اباحیت کابعلمبردار ہے۔فکری سطح پر الحاد کے پھیلنے کا سبب نوجوان نسل کی تربیت میں غفلت اور علمی اداروں میں غلط پالیسیوں کی عملداری ہے، علاوہ ازیں اسے بعض دیگر اقدامات سے بھی تیزی اورتقویت ملی ہے، جن کا ذکرآئندہ سطورمیں آئے گا۔

الحاد کو سب سے زیادہ فروغ ایسے معاشرے میں ملتاہے، جہاں جہالت کی حکمرانی ہوتی ہے اور روحانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔روحانی اورقلبی تربیت سے محروم عوام جلد یا بدیر الحاد کا شکار ہو جاتے ہیں اور عنایت خداوندی کے بغیر اپنے آپ کو الحاد کے چنگل سے نہیں نکال سکتے۔جب امت مسلمہ بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے افراد کی ایمانی ضروریات پوری کرنے کا خصوصی اہتمام نہیں کرتی اور انہیں جہالت کی تاریکی میں بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے تو ایسے افراد کسی بھی قسم کے افکار کو قبول کرنے کے لیے بالقوہ تیار ہوتے ہیں۔

شروع شروع میں الحاد کا اظہار ایمان کے بنیادی اصولوں کے بارے میں لاپروائی برتنے اور عدم اہتمام کا اظہار کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔آزادئ فکر کا لبادہ اوڑھے ہوئے یہ طرزعمل جیسے ہی انکارِخدا اور الحاد کے حق میں کوئی چھوٹی سی نشانی پاتا ہے، الحاد میں اضافہ ہوتا ہے۔اگرچہ الحاد کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی،لیکن بعض اوقات غفلت ،لاپروائی اورغلط اندازہ الحاد کے پیدا ہونے کا باعث بن جاتا ہے۔

دورِ حاضر میں بہت سے لوگ اس قسم کے اسباب کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں،تاہم ہم اس موقع پر ان میں سے صرف اہم اور زیادہ نقصان دہ اسباب کا تذکرہ کرنے پر اکتفا کریں گے۔اور الحاد کا قلع قمع کرنے والے دلائل کا ذکر آنے والی اقساط میں ہو گا۔
نیز یہ واضح بات ہے کہ قاری کو اس مختصر سلسلہ میں ہم سے ایسے موضوع پر گفتگو کرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے، جس کی وضاحت کے لیے کئی جلدوں پر مشتمل کتاب درکار ہے۔کتابوں اوراخبارات کے سوالات وجوابات کے کارنرز اس قسم کے پیچیدہ اورگہرائی کے حامل موضوع کااحاطہ اورحق اداکرنے کے لیے ناکافی ہیں، نیزاس موضوع پرمتعدد گرانقدر اور منفرد کتابیں منظرعام پرآچکی ہیں۔آئندہ سطورمیں ہماری گفتگوایسی ہی کتابوں کانچوڑ ہوگی۔
دست قدرت الٰہیہ سے ظہورمیں آنے والے واقعات میں سے ہرایک خدائی پیغام ہے۔ان واقعات کوقوانین فطرت بھی کہاجاسکتاہے۔ایسے قوانین نوجوان نسلوں کوگمراہ کرنے اور ان کے دلوں میں الحادکابیج بونے کااہم ذریعہ بن چکے ہیں۔اگرچہ مشرق ومغرب میں تحریر کی جانے والی ہزاروں کتابوں میں یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ ان قوانین فطرت کی حیثیت محض یکسانیت اور عرق ریزی سے کام کرنے اوربہت بڑے پیمانے پرپیداوار دینے والے کارخانے کی سی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں یہ پیداواری صلاحیت اورنظم ونسق کہاں سے آیا؟ کیا شاعری اور موسیقی کے نغمات کی طرح دلوں کواپنے سحرمیں گرفتار کرلینے والی یہ حسین فطرت بے ہنگم اتقافات کا نتیجہ ہوسکتی ہے؟

اگرجیساکہ اُن کادعوی ہے فطرت پیداکرنے اورتخلیق کی صلاحیت کی مالک ہے تو کیا اس بات کی وضاحت پیش کی جاسکتی ہے کہ فطرت نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی؟کیایہ کہا جا سکتا ہے کہ فطرت نے اپنے آپ کو پیداکیاہے؟ایسے مغالطے کی تصدیق ممکن نہیں۔اس خلاف حقیقت دعوے کاحقیقی چہرہ یہ ہے‘‘درخت نے درخت کو،پہاڑنے پہاڑکواورآسمان نے آسمان کوپیداکیا۔’’ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ایک شخص بھی اس قدر نامعقول مغالطے کوتسلیم کرنے کے لیے تیارہوگا۔

اگران لوگوں کامقصد‘‘فطرت’’سے ‘‘قوانین فطرت’’کی طرف اشارہ کرناہے تویہ ایک دوسرا فریب ہے،کیونکہ قدماء کی اصطلاح میں قانون ایک عرض ہے، جواپنے وجودکے لیے کسی جوہر کا محتاج ہوتاہے، یعنی جب تک کسی مرکب یامشین کوتشکیل دینے والے تمام اعضاء اور ٹکڑوں کاتصورنہ کیاجائے اس وقت تک اس مشین سے متعلق قانون کے مفہوم کا تصور ممکن نہیں۔ دوسرے لفظوں میں قوانین کاوجود موجودات پر منحصر ہوتاہے۔قانونِ نمو کا ظہور بیج میں اور قانونِ جاذبیت کا ظہور بلاک اور مکان میں ہوتاہے، لہٰذا موجودات کے تصورسے پہلے قوانین کا تصور کرنااور ان قوانین کو وجود کاسبب سمجھنا سوائے فریب کے کچھ نہیں۔

اسباب کو وجودکی اساس سمجھنابھی کچھ کم گمراہ کن دھوکا نہیں ہے۔ ہزاروں حکمتوں اور پیچیدہ نظاموں پرمشتمل اس جہاں کی توجیہہ اسباب سے کرنے کی کاوش کسی بھی قسم کی علمی قدر و قیمت سے عاری مضحکہ خیز کاوش ہے، بلکہ علمی حقائق کے منافی ہونے کی وجہ سے تضادات کا شاہکار اور بے سروپا بات ہے۔

ملرکے تجربات کے اسباب واتفاقات کے عجز و کوتاہی کو طشت ازبام کرنے کے بعد مختلف علوم نے اس موضوع پربحث کی ہے، چنانچہ سویت یونین میں‘‘ادارۂ کیمیا’’ نے ‘‘اوپرین’’ کی سربراہی میں بائیس سال کی تحقیق کے بعد اعلان کیاہے کہ کیمیا کے قوانین اورکیمیائی تعاملات وجودکی حقیقت پر روشنی ڈالنے سے قاصرہیں۔یہ سائنس اورسائنسدانوں کی گواہی ہے۔

جو نظریہ ارتقا سالہاسال تک ہمارے اسکولوں میں ایک ثابت شدہ علمی حقیقت کے طور پر پڑھایا جاتا رہا ہے، جدید سائنسی اکتشافات اورعلم جینیات کی ترقی کے بعد محض ایک علمی خیال اور قصۂ پارینہ بن چکاہے۔آج اس کی کوئی علمی قدر و قیمت باقی نہیں رہی،لیکن یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ اس قسم کی بے سروپا باتیں آج بھی فکری لحاظ سے ہوا میں معلق اور مضبوط ثقافتی پس منظر سے محروم ہماری نوجوان نسل کوالحاد کی طرف لے جانے کا باعث بنی ہوئی ہیں۔

لیکن دوسری طرف خوش قسمتی سے مارکیٹ میں بعض ایسی کتابیں آچکی ہیں،جو ہمارے فکر و احساس کومجروح کرنے والے اس قسم کے سوالات کاجواب دے کرہماری روحانی بیماریوں کاعلاج کرتی ہیں۔ آج مشرق ومغرب میں مختلف زبانوں میں فطرت اوراسباب کے حقیقی چہرے سے پردہ اٹھانے والی سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔

جہاں ہمیں اپنے ہاں بعض مغرب زدہ لوگوں کی لکھی ہوئی گمراہ کن کتابوں پر تعجب ہوتا ہے، وہیں یہ بات باعث اطمینان بھی ہے کہ مغرب میں ‘‘ہم خدا پرایمان کیوں رکھتے ہیں؟’’جس کی تصنیف میں متعدد مغربی سائنسدانوں نے حصہ لیاہے، ایسی متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں جو اِن مغرب زدہ لوگوں کے اعتراضات کاجواب فراہم کرتی ہیں۔

علمی حلقوں میں اس موضوع پراس قدر وضاحت کے پائے جانے کے بعد اب الحاد کو محض نفسیاتی بگاڑ، ہٹ دھرمی، بغیردلائل کے تسلیم کیا جانے والا فکر اور بچگانہ خیال سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے بعض نوجوان زمانے بھرسے مسترد شدہ بعض افکار کے منفی اثرات سے پوری طرح محفوظ نہیں ہیں، بلکہ انہیں علمی حقائق سمجھتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صحیح علمی اور روحانی تربیت نہیں پائی۔

یہی وجہ ہے کہ صحیح علوم کی اشاعت کے لیے علمی اور تربیتی تیاری وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس مقدس فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی معاشرے کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گی۔شاید سالہاسال سے معاشرہ جن مصائب کاشکار ہے، ان کی بنیادی وجہ یہی غفلت و کوتاہی ہے،کیونکہ ہم تعلیم کے عشق سے سرشار، علم وروح اوردل و دماغ کے جامع اور دونوں اعتبار سے ممتاز مرشدوں سے محروم ہیں۔ہم حقیقی مرشدوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس اہم ترین بنیادی انسانی فریضے کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائیں گے اورہمیں ان مصائب سے نجات دلائیں گے، جن میں ہم ایک زمانے سے مبتلاہیں، تب جدیدنسل کے افکار و خیالات اوراحساسات میں ٹھہراؤ پیدا ہو گا،وہ غلط افکارکے سیلاب میں بہنے اور تذبذب کا شکار ہونے سے محفوظ رہے گی اور الحادکے خلاف اس کے ہاتھ میں ہتھیارآ ئے گا۔

حاصل یہ کہ فکری الحاد جہالت،تجزیہ وتحلیل کی صلاحیت سے محرومی اورر وحانی وقلبی تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے،کیونکہ انسان جس چیزسے آشنا ہوتاہے اس سے محبت کرتاہے اور جس چیزسے ناواقف ہوتاہے اس سے عداوت رکھتاہے۔

اب ہمیں کتب خانوں کی الماریوں میں رکھی کتابوں پرایک نظرڈالنی چاہیے اوران افکار و شخصیات کاجائزہ لیناچاہیے، جنہیں یہ کتابیں پیش کرتی ہیں، تب ہمیں پتا چلے گا کہ گلیوں میں پھرتے بچے اپنے لباس میں‘‘ریڈ انڈینز’’اور‘‘زورو‘‘(Zorro)سے اورن وجوان ‘‘ڈان جان’’ (Don Juon)سے کیوں مشابہت اختیارکرتے ہیں۔جس حقیقت کی ہم وضاحت کرناچاہتے ہیں یہ اس کی صرف دو ایک مثالیں ہیں۔اگرہم اپنے معاشرے کومعاشرتی اوراقتصادی لحاظ سے تباہ کرنے والے دیگر عناصر کا جائزہ لیں توصورتحال کی ہولناکی سے ساراجسم کانپ اٹھتاہے۔ ہمارے ہم وطن ایک عرصے سے ان لوگوں کے پیچھے چل رہے ہیں، جن سے انہیں محبت ہے اورجنہیں ان کے سامنے آئیڈیل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، لیکن جنہیں وہ نہیں جانتے ان سے نہ صرف وہ نامانوس ہیں، بلکہ وہ ان کے بارے میں معاندانہ جذبات رکھتے ہیں۔ آج ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان امورکے بارے میں سوچیں ،جنہیں ہمیں ان کے سامنے پیش کرناچاہیے۔ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں فارغ اور بے مہار نہ چھوڑیں،بلکہ ان کی روشنی کے راستے کی طرف راہنمائی کریں۔

نوجوان نسل کے الحادکی طرف مائل ہونے اور انکار ِخدا کے فروغ پانے کا دوسرا سبب نوجوانوں کی فطرت ہے۔یہ بات تیس چالیس سال پہلے کے ترکی کے لحاظ سے درست ہے، کیونکہ اس دورمیں نوجوان نسل دینی تعلیم کے بغیر پروان چڑھی تھی۔ان نوجوانوں کی لامتناہی خواہشات مادر پدر آزادی چاہتی ہیں۔اس قسم کے غیر معتدل رجحانات الحاد سے بہت قریب ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کہتے ہیں:‘‘ہم معمولی سی فوری لذت کی خاطر مستقبل میں آنے والی بہت سی تکالیف کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔’’اس طرح وہ اپنے لیے دردناک انجام کا سامان فراہم کرتے ہیں اور شیطان کی پیش کردہ موہومہ لذات سے دھوکا کھا کر الحاد کے جال میں ایسے پھنستے ہیں ،جیسے آگ کے گرد گردش کرتے پتنگے اس میں جا گرتے ہیں۔

جس قدرجہالت اورروحانی وقلبی انحطاط بڑھتاہے، اسی قدرجسمانی لذتیں آسانی سے روحانی جذبات پرقابو پالیتی ہیں اور جس طرح ڈاکٹر ‘‘فوسٹس‘‘ (Dr Faustus) نے اپنی روح شیطان کے سپرد کر دی تھی، اسی طرح نوجوان اپنے دل شیطان کو دے بیٹھتے ہیں۔ جب روح مردہ،دل تہی دامن اور عقل پراگندہ ہو جاتی ہے تو الحاد کی راہ ہموار ہو جاتی ہے، جبکہ دوسری طرف عقیدہ ،احساسِ ذمہ داری اورتہذیب و تربیت سے آراستہ دل وجان نوجوانوں کی بیداری کی ضمانت فراہم کرتے ہیں، بصورتِ دیگرجس معاشرے میں شیطان کو دلوں پر کنٹرول حاصل ہو جائے، وہ معاشرہ ایک بے بنیاد بات سے دوسری بے بنیاد بات کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے، اپنے ہی منبر و محراب کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، ہر نئے فلسفے کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کے پیچھے چل پڑتا ہے اور اس سے فکری غذا حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس کی آغوش میں ڈال دیتا ہے۔ جب وہ صبح بیدار ہوتا ہے تو بدامنی اور افراتفری پھیلا دیتا ہے، دوپہرکے وقت سوشلزم کے سامنے مؤدبانہ کھڑا ہو جاتا ہے، شام ڈھلے‘‘فلسفہ وجودیت’’کا احیا کرتا ہے اور رات کو ہٹلر کے گن گاتاہے، لیکن اسے اپنی روح کے سوتوں، اپنی قوم کے برگ و بار، تہذیب و ثقافت اور روح کی طرف دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔

جس نسل کا فکری بگاڑ اس حد تک پہنچ چکا ہو، اس کے لیے خواہشات و لذات کے چنگل سے آزاد ہونا مشکل ہوتا ہے اور اس کے ذہن اور فکر کو صحیح رخ پر ڈالنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے، لہٰذا نئی نسل میں درست انداز سے سوچنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے آج تک ہماری بقا اور معاشرے کے لیے بنیادی حیثیت رکھنے والے افکار کی اصطلاحات کو منظم اندازمیں اس تک پہنچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، بصورت دیگر ہم جسمانی لذتوں میں ڈوبے رہیں گے اور ہماری حالت وہی ہو گی، جو شاعر محمدعاکف نے بیان کی ہے:

’’اگروہ یہ کہیں کہ معاشرہ مردہ جذبات کے ساتھ اپنے وجود کو برقراررکھ سکتاہے توان کی تصدیق نہ کرنا۔مجھے کوئی ایک ایسامعاشرہ تودکھاؤ جو مردہ جذبات کے ساتھ قائم رہ سکا ہوا۔‘‘

الحادکے فروغ کاایک اور سبب اباحی فکر ہے، جس میں ہر چیز کو مباح اور قابل استفادہ سمجھا جاتا ہے۔یہ فکر موقع و لذت پرستی پر مبنی ہے۔ آج اس فکر کو ایک منظم فکری اور فلسفیانہ قالب میں ڈھالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ہمارے ہاں یہ فکر سب سے پہلے فرائیڈ کے ’’نظریہ لبیڈو‘‘ (Libido) کا لبادہ اوڑھ کر آئی اور مسلمانوں کی شرم وحیاکے مفہوم کو بگاڑ دیا۔اس کے بعد جان پال سارتراورابسیخ کامو (Albert Camus) کامٹ کے وجودی فلسفے نے ہمارے ہاں زور پکڑا اورشرم و حیاکی عمارت کو مسمار کر کے رہے سہے اثرات کو بھی مٹادیا۔

انسانیت کے لیے باعث ننگ و عاراس فلسفے میں انسانیت کی حیثیت ردی کی سی ہے، لیکن اس کے باوجوداسے انسان کاحقیقی رُخ ظاہرکرنے والے فلسفے کی حیثیت سے نئی نسل کے سامنے پیش کیاگیاہے۔یورپ اوراس کی تقلید کرنے والے ممالک کے نوجوان اس فلسفے کی طرف ایسے دوڑے جیسے انہیں ہپناٹائیزڈ(Hypnotized) کر دیا گیا ہو۔انسانیت یہ سمجھے بیٹھی تھی کہ اشتراکی فلسفے کے نتیجے میں فرد کی جو قدرومنزلت کم ہوئی ہے،وجودی فلسفہ اسے اس کی کھوئی ہوئی قدرومنزلت واپس دلائے گا، جس کے نتیجے میں انسانیت کا درخت ازسرنو پھلنے پھولنے لگے گا، لیکن ہائے افسوس! انسانیت نہ جان سکی کہ وہ ایک بار پھر دھوکے کا شکار ہو گئی ہے۔

چونکہ ایمان باللہ اورحلال و حرام کے مفاہیم اس قدربگڑی ہوئی نسل کے لذت پرستانہ فلسفے کے ساتھ میل نہیں کھاتے،اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حشاشین کے سربراہ حسن الصباح کی پرفریب جنت میں رہنے کی خواہش مند یہ نسل اپنے آپ کو الحاد کی آغوش میں دے دیتی ہے۔ ہم نے یہ بعض ملاحظات مستقبل کے صاحب بصیرت منتظمین،مرشدین اوراساتذہ کے غوروفکر کے لیے ذکرکیے ہیں،تاکہ وہ الحادکے سیلاب پر بند باندھ سکیں، تاہم ہمارایہ مقصد ہر گز نہیں کہ بے راہ روی اورگمراہی کے صرف یہی اسباب ہیں، نیزالحادکی روک تھام کے لیے اختیارکی جانے والی تدابیربھی ان میں محصورنہیں۔ہماری آرزوہے کہ امت مسلمہ دورحاضرمیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر رشدوہدایت کی طرف لوٹ آئے۔
(بشکریہ:مصنف فتح اللہ گولن صاحب )
جاری ہے۔۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...