Sunday 25 June 2017

انسانی ارتقاءکا منظر نامہ

انسانی ارتقاءکا منظر نامہ

 سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب#48 (حصہ اول)

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اس کہانی کے لئے ارتقاءپسند کون سی بنیاد تجویز کریں گے؟ یہ بنیاد ان کئی فوصلوں کی موجودگی ہے جس کے ذریعے ارتقاءپسند اپنے نظریوں کی خےالی تشریحات کرتے ہیں۔ پوری تاریخ کے دوران تقریباً ۰۰۰۶ گوریلوں کی نسلیں زمین پر پیدا ہوئیں جن میں سے زیادہ تر معدوم ہوگئیں۔ آج صرف ۰۲۱ نسلیں زمین پر موجود ہیں لیکن معدوم گوریلوں کی ہڈیاں ارتقاءپسندوں کے لئے ہڈیوں کا ایک ایسا خزانہ ہیں جن کو وہ اپنے نظریوں کے فروغ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

ارتقاءپسندوں نے انسانی ارتقاءکا منظر نامہ اس طرح لکھاکہ پہلے اپنی مرضی کی کھوپڑیوں کو چھوٹے سے لے کر بڑے ناپ تک ایک ترتیب دے دی اور ان کے بیچ میں کچھ معدوم انسانی نسلوں کی کھوپڑےاں بھی ملا دےں۔ اس منظر نامے کے حساب سے انسان اور گوریلوں کے پرکھا مشترک ہیں۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہ قدےم مخلوق وقت کے ساتھ ساتھ بسلسلہ تدریجی ترقی دورِ حاضر کا گوریلا بن گئی جبکہ ایک گروہ نے ارتقاءکی ایک اور شاخ کے ذریعے ترقی کے باعث دورِ حاضر کے انسانکی شکل اختیار کرلی۔ لیکن تمام علمِ معدوم حیوانا و نباتات، علم تشریح الاعضاءاور علم حیاتیات کی تحقیق کے مطابق نظریہ¿ ارتقاءکا یہ دعویٰ اتنا ہی خام خیالی سے پر اور معذور ہے جتنے کہ دوسرے تمام دعوے ہیں۔ کسی بھی نوعیت کا اصل اور ٹھوس ثبوت آج تک اس معاملے میں سامنے نہیں آسکا جو کہ انسان اور گوریلے کے درمیان کوئی رشتہ استوار کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ سارے ثبوت صرف دھوکہ دہی ، حقیقت کی بگڑی ہوئی اشکال، بہکاووں سے پر خاکوں اور تجزیوں پر مشتمل ہیں۔

فوصلی ریکارڈ تارےخ کے ہردور میں انسانوں کا انسان اور گوریلوں کا گوریلے ہونے کی ہی نشاندہی کرتا ہے۔ ارتقاءپسندوں کے دعوﺅں کے مطابق کچھ فوصل جن کو وہ انسان کا پرکھا کہتے ہیں وہ ان انسانی نسلوں کی ہیں جو کہ ۰۰۰,۰۱ سال پہلے کے دور میں زندہ رہیں اور معدوم ہوگئیں۔ اس کے علاوہ کئی انسانی گروہ جو کہ دورِ حاضر میں بھی موجود ہیں اِنہیں معدوم انسانی نسلوں سے مشترک طبےعیاتی اور شکلیاتی خصوصیات کی حامل ہیں جن کو ارتقاءپسند انسانوں کے پرکھا کہتے ہیں۔ یہ تمام باتیںاس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ انسانی نسل تاریخ کے کسی دور میں کسی بھی ارتقائی عمل سے نہیں گزری۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ گوریلوں اور انسانوں کے درمیان اتنے زےادہ تشریح الاعضاءکے فرق موجود ہیں کہ ان دونوں نسلوں کا کسی بھی طرح کے تدریجی ترقی کے عمل کے ذریعے وجود میں آنے کا سول ہی پیدا نہیں ہوتا۔ان میں سے سب سے نماےاں فرق دو ٹانگوں پر چلنے کی صفت ہے جو کہ انسان کے لئے مخصوص ہے۔ انسان اور دوسرے حیوانات کے درمیان فرق پیدا کرنے والی یہ سب سے اہم خصوصیت ہے۔

انسان کا خیالی شجرہ¿ نسب

نظریہ¿ ارتقاءکا یہ دعویٰ ہے کہ دورِ حاضر کا انسان کسی گوریلا نما مخلوق کی تدریجی شکل ہے۔ اس ازروئے دعویٰ ارتقائی عمل کا آغاز ۴ سے ۵ لاکھ سال پہلے ہوا اور اس شجرہ نسب میں کچھ عبوری نوعیت کی مخلوق کا بھی دخل ہے جو کہ انسان اور اس کے پرکھا کے مابین رشتہ داری کو واضح کرتی ہے۔ اس مکمل طور پر فرضی منظر نامے کے مطابق مندرجہ ذیل چار بنیادی گروہوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

۱۔ آسٹرالوپیتھییسینز (جنس آسٹرالوپتھیکس سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی شکل)ِّّAustralopithecines

۲۔ ہوموہابلس Homo hablis

۳۔ ہوموارکٹس Homo erectus

۴۔ ہوموسیپینز Homo sapiens

انسان کے ازروئے دعویٰ گوریلا نما پرکھا کو ارتقاءپسند آسٹرالوپتھیکس کا نام دیتے ہیں جس کے لفظی معنی ہیں جنوبی گوریلا۔ یہ ایک پرانی وضع کا گوریلا ہے جو کہ معدوم ہوچکا ہے اور مختلف اشکال میں فوصلوں کی صورت دریافت ہوتارہتا ہے۔ کچھ اشکال بڑی اور مضبوطی سے بنی ہوتی ہیں جبکہ دوسرے ڈھانچے نسبتاً چھوٹے اور نازک ہوتے ہےں۔انسانی ارتقاءکا دوسرا مرحلہ ارتقاءپسندوں کے حساب سے جنس ہومو ہے جس کا لفظی مطلب ’آدمی‘ ہے۔ ارتقاءپسند دعوے کے مطابق ہومو سلسلے کے جاندار آسٹرالوپتھیکس کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور دورِ حاضر کے انسان سے کافی مشابہ ہیں۔ آج کا انسان ہومو سیپین نسل کا ہے جس کی شکل ارتقاءکے آخری مرحلے پر جنس ہومو کی تدریجی ترقی سے ہوئی ہے۔ جاوا مین، پیکن مین اور لوسی جیسے فوصل جو کہ تشہیراتی مواد میں وقتاً فوقتاً نمودار ہوتے رہتے ہیں اور ارتقائی جریدوں اور نصابی کتابوں کا اہم جزو ہیں ،یہ بھی اوپر دئے گئے چاروں گروہ میں سے کسی ایک کا حصہ ہیں۔

ےہاں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چاروں بڑے گروہ مزید انواع اور ذیلی انواع میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ راما پتھیکس جیسی ماضی کی عبوری اشکال کو اس خیالی شجرہ نسب سے خارج کردیا جائے کیونکہ ان کا محض عام گوریلا ہونے کاثبوت سامنے آگیا تھا ۔۰۷

ارتقاءکے شجرہ¿ نسب کی خیالی زنجےر کی کڑیوں کو آسٹرالوپیتھیسینز، ہوموہابلس، ہوموارکٹس اور ہوموسیپینز کی صورت میں بیان کرکے ارتقاءپسند وضاحت کرتے ہیں کہ ہر زمرہ دراصل اس سے پہلے والے کا پرکھا ہے۔ لیکن ماہرِ قدیم بشری رکازیات کی حالیہ تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ آسٹرالاپیتھیسینز اور ہوموہابلس اور ہوموارکٹس دنیا کے مختلف حصوں میں ایک ہی وقت میں موجود تھے۔ مزید یہ کہ ہوموارکٹس کے زمرے کے انسان حالیہ دور میں بھی موجود ہےں۔’ حالیہ جاوا کے ہومو ارکٹس: جنوب مشرقی ہوموسیپینز کے ساتھ ممکنہ متحد الوقوع ‘ کے عنوان سے رسالہ سائنس میں چھپنے والے مضمون میں بیان کیا گیا کہ جاوا سے ملنے والے ہومو ارکٹس کے فوصلوں کی اوسطاً عمر ۲+۷۲ سے ۴-+۳۳۵ ہزار سال پہلے کی ہے۔ یہ اس بات کے امکان کو بڑھادیتا ہے کہ ہومو ارکٹس تشریح الاعضاءکے حساب سے جنوب مشرقی ایشیاءکے ترقی یافتہ ہومو سیپینز کے متجاوز تھے۔مزید یہ کہ ہوموسیپینز نینڈر تھالنسس اور ہوموسیپینز سیپینز یا دور حاضر کا انسان بھی ایک ہی وقت میں زندہ تھے۔ اس بات کے ثابت ہونے سے اس دعوے کی منسوخی واضح ہوجاتی ہے کہ ایک نسل دوسری نسل کی پرکھا ہے۔ 71

قدرتی طور پر تمام نتیجے اور سائنسی تحقیق ےہی ثابت کرتے ہیں کہ فوصلی ریکارڈ کسی قسم کا ایسا تدریجی ترقی کا عمل تجویز نہیں کرتا جس کو ارتقاءپسند پیش کرتے ہیں۔ جن فوصلوں کو ارتقاءپسند انسانوں کے پرکھا کہتے ہیں وہ مختلف انسانی نسلوں کے ےا پھر گوریلوں کے فوصل ہیں۔ تو پھر کون سے فوصل انسانی ہیں اور کون سے گوریلوں کے ہیں؟ کیا ان میں سے کسی ایک کو بھی عبوری نوعیت کی مخلوق تصور کرنا ممکن ہے؟ ان سب باتوں کا جواب حاصل کرنے کےلئے ہر گروہ پر تفصیلی نظر ڈالنا ضروری ہے۔

آسٹرالوپتھیکس: گوریلوں کی ایک نسل

ارتقائی شجرہ¿ نصب کا پہلا گروہ آسٹرالوپتھیکس کہلاتا ہے جس کے معنی ہیں جنوبی گوریلا \قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ مخلوق ۴ لاکھ سال پہلے افریقہ میں نمودار ہوئی اور ۱ لاکھ سال تک موجود رہی۔ اس گروہ کے اندر کئی نسلیں آتی ہیں۔ ارتقاءپسندوں کا خیال ہے کہ اس گروہ کی سب سے پرانی نسل اے۔ افارنسس ہے- اس کے بعد اے۔ افریکانس ہے اور پھر اے۔ روبسٹس ہے جس کی ہڈیاں نسبتاً بڑی ہیں۔ اے۔بوئے سائے نامی نسل کو کچھ تحقیق دان مختلف نسل گردانتے ہیں جبکہ کچھ اس کو اے۔ روبسٹس کی ذیلی نسل ہی قرار دیتے ہیں۔

تخلیقی عمل میں کارفرما جبڑے کی ہڈی

امیج میں 1 سے 3 نمبر تصاویر دیکھیں

راماپیتھیکس کا ملنے والاپہلا فوصل ایک غیر موجود جبڑے ت ¿ کی ہڈی کے دو ٹکڑوں پر مشتمل تھا۔ ارتقاءپسندوں نے جرا مندانہ طور پر اس جبڑے پر انحصار کرتے ہوئے راماپیتھیکس اور اس کے مکمل ماحول اور خاندان کے بھی خیالی خاکے دنیا کے آگے پیش کردئے۔ جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ مخلوق، اس کا ماحول، اس کا خاندان اور اس کے متعلق بتائی گئی ہر تفصیل ایک عام گوریلے کے جبڑے کی ہڈی سے اخذ کیا نسب سے ¿ گیا تھا تو راماپیتھیکس کو خیالی انسانی شجرہ خاموشی سے ہٹادیا گیا۔ )ڈیوڈ پلببیم ”انسانوں نے ایک قدیم پرکھاکھودیا“ رسالہ سائنس اپریل ۲۸۹۱ ءصفحہ ۷۔ ۶

آسٹرالوپتھیکس کی تمام نسلیں درحقیقت معدوم گوریلے ہیں جو کہ دورِ حاضر کے گوریلوں سے مشابہ ہیں۔ ان کی کھوپڑیاں موجودہ وقت کے چمپانزی بندروں کی ہو بہو یا تھوڑی سی چھوٹی ہیں۔ چمپانزی کی طرح ہی ان کے ہاتھوں اور پیروں میں کچھ حصے باہر کو نکلتے ہوئے ہیں جن کی مدد سے وہ درخت پر چڑھتے ہیں اور ان کے پیروں کی ساخت ان کو ٹہنیوں پر لٹکنے کے لئے مدد دیتی ہے۔ ان کا قد چمپانزی ہی کی طرح چھوٹا ہوتا ہے۔ (زیادہ سے زیادہ ۰۳۱ سینٹی میٹر یا ۱۵ انچ) ۔ نرآسٹرالوپتھیکس مادہ کی نسبت بڑا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کئی دوسری خصوصیات بھی ثابت کرتی ہیں کہ یہ آج کے گوریلا سے بالکل مختلف نہیں مثلاً کھوپڑی کی تفصیلات، آنکھوں کا قریب قرےب واقع ہونا، تیز داڑھ ، جبڑے کی ساخت، لمبے بازو اور گڈی ٹانگیں۔ پھر بھی ارتقاءپسند ےہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گوریلوں کی طرح ہونے کے باوجود یہ گوریلوں سے مختلف تھے اور انسانوں کی طرح سیدھا ہوکر چلتے تھے۔ ان کے اس دعوے کو کئی دہائیوں سے ماہرِ قدیم بشری رکازیات رچرڈ لیکی اور ڈانلڈسی۔ جوہانسن کی مضبوط پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ لیکن کئی سائنسدانوں نے گروہ آسٹرالوپتھیکس کے ڈھانچوں پر تفصیلی تحقیق سے ثابت کردیا ہے کہ یہ نظریہ ناقص ہے۔

آسٹرالوپتھیکس کے نمونے کے اوپر تفصیلی تحقیق کرنے والے عالمی شہرت کے حامل ماہرِ تشریح البدن انگلستان کا لارڈ سولی زکر مین اور امریکہ کا پروفیسر چارلس آکسنارڈ نے واضح کردیا ہے کہ یہ مخلوق ہرگز انسانی طریقے سے سیدھا ہوکر نہیں چلتی تھی۔ لارڈ زکزمین اور اس کے ساتھ پانچ ماہر تحقیق دانوں نے انگلستان کی حکومت سے حاصل کی گئی مالی امداد کے ذریعے پندرہ سال کے عرصے کے دوران ان فوصلوں کا معائنہ کیا اور یہ حتمی نتیجہ اخذ کیا کہ آسٹرالوپتھیکس ایک عام گوریلے کی نسل تھی جو کہ ہرگز دوپایہ نہیں تھی۔

الٹے ہاتھ کی طرف اے۔ ایفیرنسس کے دو خاکے ہیں نیچے والی تصویر اے۔ بوٹسی کی ہے۔ یہ تمام تصویریں مکمل طور پر خیالی ہیں۔ آسٹرالوپتھیسینز درحقیقت گوریلوں کی ایک معدوم شکل ہیں۔
امیج میں 4 نمبر تصویر دیکھیں

زکر مین خود بھی ایک ارتقاءپسند ہے لیکن اس کا تجربہ اس کے ذاتی کٹر نظریات کی بجائے سائنسی تحقیق پر مبنی تھا ۔(۲۷) چارلس آکسنارڈ بھی ارتقاءپسند تھا جو کہ اس موضوع پر اپنی تحقیق کے لئے مشہور تھا اور اس کا بھی یہی نتیجہ تھا کہ آسٹرالو پتھیسینز کا ڈھانچہ آج کے اورنگوٹان بندر کی طرح ہے۔ (۳۷) قصہ مختصر یہ کہ آسٹرالوپتھیسینز کا انسانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ صرف ایک معدوم گوریلوں کی نسل ہیں۔

اس گروہ کا انسانی پرکھا نہ ہونے کی حقیقت کو مختلف ارتقائی ذرائع بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مشہور فرانسیسی رسالے ’سائنس اٹ وی ‘ نے مئی ۹۹۹۱ میں اس کہانی کو اپنے سرورق کی زینت بنایا۔ اس رسالے کی کہانی خاص طور پر’ لوُسی‘ کے بارے میں تھی جو کہ آسٹرالوپتھیکس افارنسس کا سب سے مشہور فوصلی نمونہ ہے۔ کہانی کا عنوان تھا ’اڈولوسی‘ یا خدا حافظ لوسی ۔اس کہانی میں اس بات پر زوردیا گیا کہ تمام تحقیقات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسٹرالوپتھیکس کو انسانی شجرہ نسب سے ہٹادیا جائے۔ مضمون ایک نئی اسٹرالوپتھیکس کی دریافت نمبر STW573 پر مبنی تھا۔

”ایک نئے نظریئے کے مطابق جنس آسٹرالوپتھییکس انسانی نسل کی جڑ نہیں ہے۔ STW573 کا معائنہ کرنے کی اجازت پانے والی واحد خاتون نے جو نتیجہ اخز کیا ہے وہ انسانی پرکھا سے متعلق عام نظریوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس نتیجہ کی روشنی میں انسانی شجرہ¿ نسب تباہ ہوجاتاہے۔ بڑے بڑے حیوانِ رئیسہ جن کو انسان کے پرکھا سمجھا جاتا رہا تھا وہ انسانی شجرہ نسب سے ہٹادیئے گئے ہیں۔ آسٹرالوپتھییکس اور ہومو یا انسانی نسل ایک ہی شاخ پر نظر نہیں آتے۔ انسان کے براہِ راست پرکھا ابھی بھی دریافت کئے جانے کا انتظار کررہے ہیں۔
(Isabelle Bourdial,”Adieu Lucy, “Science et Vie, May 1999, no. 980, pp. 52-62)

آسٹرالوپتھیکس ایفیرنسس: ایک معدوم گوریلا

آسٹرالوپیتہیکس

دورِ جدید کا چمپانزی

تصویر نمبر 5 ملاحظہ فرمائیں

ہادر، ایتھیوپیا میں ملنے والا فوصل جوکہ ازروئے دعویٰ آسٹرالوپیتھیکس ایفیرنسس یا کا ہے۔ ارتقاءپسند بہت عرصے AL 288- لوسی 1 تک اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے کہ لوسی سیدھا چل سکتی تھی لیکن جدید تحقیق نے واضح کردیا ہے کہ لوسی نامی یہ مخلوق ایک عام گوریلا تھا جوکہ گوریلوں کی طرح ہی جھک کر چلتا تھا۔

تصویر نمبر 6 ملاحظہ فرمائیں

نیچے نظر آنے والا آسٹرالوپیتھیکس کا فوصل اسی نسل AL333- ایفیرنسس 105 کے ایک جوان گوریلے کا ہے۔ اسی لئے اس کی کھوپڑی پر گوریلوں کی مخصوص ہڈی کا ابھار نمایاں نہیں ہے۔

تصویر نمبر 7 ملاحظہ فرمائیں

اوپر والی تصویر میں آسٹرالوپیتھیکس 2-444 کی کہوپڑی AL افیرنسس کا فوصل نظر آ رہا ہے اور نیچے ایک دورِ حاظر کا گوریلا ہے، ان دونوں کے درمیان واضع مشابہت ثابت کرتی یے کی آسٹرالوپیتہیکس افیرنسس ایک عام گوریلے کی نسل تہی جس کا انسانوں سے کوئیُ تعلق نہیں تھا،
 جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...