Thursday 22 June 2017

چڑیوں اور ممالیہ حیوانات کا تصوراتی ارتقائی (حصہ اول)

چڑیوں اور ممالیہ حیوانات کا تصوراتی ارتقائی (حصہ اول)

سلسلہ:الحاد کا علمی تعاقب:#44

(مولف:عمران شہزاد تارڑ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

پرندوں کے لئے خاص پھیپھڑے

پرندوں کی تشریح الاعضاء ان کے ازروئے دعویٰ پرکھوں خزندوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ پرندوں کے پھیپھڑے زمین پر رہنے والے جانداروں کی نسبت مختلف طریقوں سے کام کرتے ہیں۔ زمین پر رہنے والے جاندار ایک ہی ہوا کی رگ سے اندر باہر سانس لیتے ہیں جبکہ پرندوں کے اندر ہوا پھیپھڑوں سے سامنے سے داخل ہوکر پیچھے سے خارج ہوتی ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے یہ مخصوص نظام صرف پرندوں کے لئے بنایا ہے جن کو پرواز کے دوران آکسیجن کی کثیر مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ خزندے کے پھیپھڑے سے اچانک تدریجی ترقی کے ذریعے ایسے خاص پھیپھڑے وجود میں آ جانا ناممکن ہے۔

نظریہ ارتقاءکے مطابق زندگی کی ابتداء پانی میں ہوئی جو پھر بربحری جانوروں کے ذریعے زمین پر منتقل ہوگئی۔ یہ ارتقائی منظر یہ بھی قیاس کرتا ہے کہ یہ بربحری حیوانات پھر رینگنے والے حیوانات میں تبدیل ہوگئے جو صرف زمین پر پائے جاتے تھے۔ یہ ایک ناممکن قیاس ہے کیونکہ پانی اور زمین پر رہنے والے جانداروں کی نسلوں کے درمیان ساخت اور حساب سے وسیع فرق ہیں۔ مثال کے طور پر بربحری جانوروں کے انڈے صرف پانی کے اندر افزائش پاسکتے ہیں جبکہ زمین پر رہنے والے جانداروں کے انڈے صرف زمین پر ہی پنپ سکتے ہیں۔ بربحری حیوانات کا کسی بھی شکل میں سلسلہ وار تدریجی عمل ناممکن ہے کیونکہ ایک صحت مند اور مکمل انڈے کے بغیر اس نسل کا زندہ رہنا ہی ناممکن ہے۔ اس معاملے کا سب سے بڑا ثبوت کسی بھی وسطی نوعیت کے جانداروں کے فوصلوں کی غیر موجودگی ہے جو کہ ان دونوں نسلوں کے درمیان کسی تعلق کو واضح کرسکیں۔ ارتقائی ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور ماہر فقاری معدوم حیوانات رابرٹ کیرل کو مجبوراً اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ: ”قدیم رینگنے والے جانور بربحری جانوروں سے بے انتہا مختلف تھے اور ان کے پرکھا ہم کو ابھی تک نہیں مل سکے ہیں۔“ ۴۴

پھر بھی ارتقاء پسندوں نے اپنی نا امیدی سے بھرپور مناظر دنیا کے سامنے پیش کرنا ختم نہیں کئے۔ ابھی تو اس ارتقائی عمل سے تبدیل شدہ مخلوقات کو ہوا میں اڑانا بھی باقی تھا۔ چونکہ ارتقاء پسندوں کا دین و ایمان مصر تھا کہ ہر جاندار کی طرح پرندے بھی کسی دوسری نسل کی ارتقائی شکل ہیں اس لئے انہوں نے فرض کرلیا کہ ہو نہ ہو یہ ضرور رینگنے والے جانواروں کی تبدیل شدہ شکل ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پرندوں کی جملہ خصوصیات جو کہ زمین پر رہنے والے جانداروں سے قطعاً مختلف ہیں ان کا جواب کسی بھی طرح کی سلسلہ وار تدریجی ترقی کس طرح دے؟۔ پرندوں کی قابل ذکر اور سب سے نمایاں خصوصیت ان کے پر ہیں جو کہ ارتقاء پسندوں کے ہر قیاس کو تعطل کا شکار کر دیتی ہےں۔ ترکی کا ارتقاءپسند انگن کودر پروں کا ارتقاء کے ذریعے نموداری ناممکن ہونے کا اظہار کرتا ہے:

”آنکھوں اور پروں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہ دونوں اعضاء نامکمل حال میں یا معمولی سے بھی نقص کے ساتھ کام کر ہی نہیں سکتے۔ ایک نامکمل آنکھ دیکھ نہیں سکتی اور ایک نقص زدہ پروالا پرندہ اڑ نہیں سکتا۔ ان دونوں اعضاء کی ابتداء قدرت کا ایسا معمہ ہے جو کہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا۔“ ۵۴

پروں کی مکمل اور بہترین ساخت پے در پے بے ترتیب جینیات کے ذریعے وجود میں آنا ایک ایسی غیر منطقی بات ہے جس کو آج تک دماغ قبول نہیں کرسکا۔ دورِ حاضر کی جدید سائنسی تحقیق خاص طور پر اس منظر کو نہایت مضحکہ خیز بنا دیتی ہے۔گو کہ جینیات کی اتفاقاً بدہیئتی کے سبب رینگنے والے جانوروں کے آگے کے دو بازوﺅں کو بہترین کارکردگی کے متحمل پروں میں تبدیل ہوجانے کے خیال کو ارتقاءپسندوں کی عقل بھی نہیں مانتی لیکن وہ پھر بھی اپنے عقیدے میں پکے اور ضد میں ہٹ دھرم ہیں۔

مزید یہ کہ زمین پر بسنے والے کسی بھی حیوان کے اڑنے کے لئے صرف پروں کا ہونا ہی کافی نہیں ہے۔ زمین کے جانوروں میں ساخت کے اعتبار سے کئی چیزوں کی کمی ہوتی ہے جو کہ پرندوں میں موجود ہیں۔مثلاً پرندوں کی ہڈیاں ہلکی ہوتی ہیں اور ان کے پھیپھڑوں کا نظام بھی مختلف ہوتا ہے۔ ان کا عضلاتی نظام، تشریح الاعضا اور نظام دورانِ خون بھی مخصوص ہوتا ہے۔ یہ تمام خصوصیات اڑان کے لئے اتنی ہی ضروری ہیں جتنے کہ پر۔ پرندے کی اڑان کے لئے ان تمام پرزوں کا مکمل اور ایک ہی وقت میں موجود ہونا لازمی ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ایک پرزہ ایک وقت میں ارتقائی عمل سے وجود میں آئے اور دوسرا کوئی پرزہ لاکھوں سال بعد وجود میں آئے اور پرندہ پھر بھی اڑنے کے قابل رہا ہو۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں زمین کے جانداروں کا ہوائی جانداروں میں تبدیل ہوجانے والا ہر نظریہ انتہائی مغالطہ آمیز ثابت ہوتا ہے۔ ذہن میں پھر یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر اس فرضی کہانی کو درست مان بھی لیا جائے تو ارتقاءپسندوں کو آج تک کسی آدھے پر یا ایک پر والی مخلوق کا فوصل کیوں نہیں مل سکا جو کہ ان کی کہانیوں کی تصدیق کرسکے؟

ایک اور ازروئے دعویٰ شکل: آرکیوپیٹیرکس

ایک ازروئے دعویٰ شکل کے طور پر ارتقاء پسند آرکیوپیٹیرکس نامی پرندے کا فوصل پیش کرتے ہیں جس کا شمار ان تھوڑی سی مخلوقات میں ہوتا ہے جن کی حمایت ارتقاء پسند آج بھی وسطی نوعیت کی شکل کے طور پر کرتے ہیں۔ دورِ حاضر کے پرندوں کا یہ نام نہاد پرکھا آرکیوپیٹیرکس ارتقاء پسندوں کے حساب سے تقریباً ۰۵۱ لاکھ سال پہلے زندہ تھا۔ اس نظریئے کے تحت کچھ نسبتاً چھوٹے ڈائناسار مثلاً ویلاسیریٹار اور ڈورمیوسار نے تدریجی عمل کے ذریعے پر حاصل کرلئے اور اڑنے لگے۔ آرکیوپیٹیرکس انہیں اڑنے والے ڈائناسار کی تدریجی شکل خیال کئے جاتے ہیں۔ ان کے پرکھا یہ ڈائناسار تھے جو اچانک پر اگ آنے کی وجہ سے اڑنے لگ گئے لیکن حالیہ تحقیق اس کے بالکل برعکس منظر پیش کرتی ہے۔ آرکیوپیٹیرکس کے فوصلوں کے معائنے نے ثابت کیا ہے کہ یہ مخلوق کسی بھی دوسری نسل کی تدریجی شکل ہرگز نہیں ہے بلکہ پرندوں کی ایک معدوم شکل ہے جس کے اور دورِ حاضر کے پرندوں کے درمیان غیر اہم فرق ہے۔

ارتقاءپسند حلقوں میں یہ مقالہ بہت لمبے عرصے تک مقبول رہا کہ آرکیوپیٹیرکس ایک پرندہ نما مخلوق تھی جو کہ صحیح طور پر اڑنے سے بھی قاصر تھی۔ اس مخلوق میں سینے کی ہڈی کی غیر موجودگی اس ارتقائی دعوے کو ہوا دیتی تھی کہ یہ پرندہ صحیح سے اڑ نہیں سکتا تھا۔ سینے کی ہڈی گلے اور پیٹ کے بیچ میں واقع ہوتی ہے جس کے ساتھ اڑنے میں مدد دینے والے عضلاتی عضو جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ دورِ حاضر میں یہ ہڈی تمام اڑنے اور غیر اڑنے والے پرندوں میں موجود ہوتی ہے حتیٰ کہ یہ ہڈی چمگادڑوں میں بھی موجود ہوتی ہے جو کہ گو ایک اڑنے والا ممالیہ جانور ہے پر اس کا خاندان پرندوں سے مختلف ہے۔لیکن
پرندوں کے پر: ایسا نقشہ جس کی وضاحت ارتقاءکرنے سے قاصر ہے۔امیج میں تصویر دیکھیں ۔

گو کہ نظریہ ارتقاء کا دعویٰ ہے کہ پرندے خزندوں کی تدریجی شکل ہیں لیکن پھر بھی وہ جانداروں کی ان دو مختلف جماعتوں کے درمیان فرق کرنے میں ناکام ہے۔ پرندے اپنے ڈھانچوں کی ساخت ، پھیپھڑوں کے نظام اور گرم خون تحول کے اعتبار سے خاص طور پر خزندوں سے مختلف ہیں۔ ایک اور خصوصیت جوکہ پرندوں اور خزندوں کے درمیان ناقابل عبور فاصلہ پیدا کرتی ہے وہ پرندوں کے پر ہیں۔خزندوں کے جسم کھپروں سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں اور پرندوں کے جسم پر پر ہوتے ہیں ۔چونکہ ارتقاءپسند یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خزندے پرندوں کے پرکھا ہیں اس لئے وہ اس بات کا اعتراف کرنے پر بھی مجبور ہیں کہ پرندوں کے پر ان کھپروں سے ارتقائی عمل سے وجود میں آئے ۔لیکن کھپروں اور پروں کے بیچ کوئی مشابہت نہیں ہے۔یونیورسٹی آف کنکٹیکٹ کا طبیعیات اوراعصابی حیاتیات کا پروفیسر اے۔ ایچ برش ارتقاء پسند ہونے کے باجود اس حقیقت کو قبول کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے:

”پرندوں اور کھپروں میں جینیات سے لے کر ساخت، ترتیب، نشوونما، شکل گری اور ریشہ لحمی کی تنظیم تک ہر خاصیت مختلف ہے۔“ ۱

اس کے علاوہ پروفیسر برش نے پروں میں لحمیوں کی ساخت کی تحقیق کے بعد اصرار کیا ہے کہ یہ لحمئے فقاری جانوروں کی کسی اور جماعت میں پائے نہیں جاتے اور بہت خاص ہیں۔۲

پروں کا کھپروں کی تدریجی شکل ہونے کا کوئی فوصلی ثبوت بھی موجود نہیں ہے۔ اس کے برخلاف پر فوصلی ریکارڈ میں اچانک نمودا ہوتے ہیں اور پرندوں کی نسل کی وضاحت کی ایک ناقابل تردید خاصیت ہیں جیسے کہ پروفیسر برش کہتا ہے۔(۳) اس کے علاوہ خزندوں میں ابھی تک ایسی کسی بھی برادمی ساخت کی تشخیص نہیں ہوسکی ہے جوپروں کی ابتداءکا ثبوت بن سکے۔۴

۶۹۹۱ءمیں ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات نے شور اٹھایا کہ ان کو ایسے ڈائناسار کے آثار ملے ہیں جس کے پر بھی تھے۔ اس کا نام سائنوسوروپیٹرکس رکھا گیا۔لیکن ۷۹۹۱ءمیں مزید تحقیق سے ظاہر ہوا کہ ان فوصلوں کا پرندوں سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یہ پر دورِ حاضر کے پرندوں کے پر نہیں تھے۔۵

اگر پرندوں کے پروں کا قریب سے معائنہ کیا جائے تو ایساپیچیدہ نقشہ سامنے آتا ہے جس کی وضاحت کسی بھی طرح کا ارتقائی عمل نہیں کرسکتا۔ مشہور ماہرِ طہوریات ایلن فیڈوشا کہتا ہے ”پرندوں کی ساخت کے ہر پہلو میں ہوائی حرکت کی مہارت واضح ہے۔ یہ بہت ہلکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے با آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ تیزی سے پہنچ سکتے ہیں۔ مجھے یہ بالکل سمجھ میں نہیں آتا کہ اڑان کے لئے بنایا گیا یہ بہترین عضو کسی دوسرے عضو کی تدریجی شکل کس طرح ہو سکتا ہے۔“ ۶

اگر پرندے کے پروں کا تفصیلی معایُنہ کیا جاےُ تو پتا چلتا ہے کہ یہ پر ہزاروں باریک ڈوریوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے کنڈوں کے ذریعے جڑی ہوتی ہیں، یہ منفرد نقشہ پرندوں کی بہترین اڑان کا سبب ہے،

پروں کے اس بہترین نقشے نے چارلس ڈارون کو بھی سوچ میں ڈال دیا تھا۔ بلکہ تیہو کے پروں کے مکمل حسن نے تو اس کو ا س کے اپنے الفاظ میں ”اختلاج“ کا شکار کردیا تھا۔ ۳ اپریل ۰۶۸۱ءکو اساگرے کو لکھے جانے والے خط میں ڈارون کہتا ہے:

”مجھ کو وہ وقت بخوبی یاد ہے جب آنکھ کے تصور سے مجھے ٹھنڈے پسینے چھوٹ گئے تھے لیکن میں شکایت کے اس دور سے باہر نکل آیا ہوں۔ اب ساخت کی بظاہر غیر اہم تفصیلات کی سوچ مجھے بے طرح بے چین کئے رکھتی ہے۔ مور کی دم کا ایک پر بھی مجھ پر اختلاج کی کیفیت طاری کرنے کے لئے کافی ہے۔“ ۷

اگر پرندوں کے پروں کا تفصیلی معائنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پر ہزاروں گھونگروں سے بنے ہوتے ہیں جوکہ ایک دوسرے سے کانٹوں کے ذریعے جڑے ہوتے ہیں۔ ساخت کا یہ خاص نقشہ ان کی بہترین ہوائی کارکردگی کی وجہ ہے۔

۲۹۹۱ءمیں ساتواں آکیوپیٹیرکس کا فوصل برآمد ہوا جس نے ارتقائی دائروں میں سخت حیرانی کی لہر دوڑا دی۔ اس نمونے میں سینے کی وہ ہڈی موجود تھی جس کو اب تک غیر موجود تصور کیا جاتارہا تھا۔ رسالہ ”نیچر“ اس فوصل پر یوں تبصرہ کرتا ہے:

”آرکیوپیٹیرکس کا حال ہی میں ملنے والے ساتویں نمونے میں کسی حد تک ایک مستطیل سینے کی ہڈی موجود ہے جس کے بارے میں شک تو کافی عرصے سے تھا مگر جس کا ذکر پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ اس ہڈی کا موجود ہونا اس پرندے کے اندر مضبوط اڑنے والے عضلات کی موجودگی کی نشاندہی کرتی ہے۔“ ۶۴

اس دریافت نے آرکیوپیٹیرکس سے متعلق اڑنے کی صلاحیت سے قاصر آدھا پرندہ ہونے کے تمام دعوﺅں کو زمین بوس کردیا۔ اس ہڈی کے علاوہ اس پرندے کے پروں کی ساخت بھی اس کا ایک اڑنے والا پرندہ ہونے کے ثبوت کااہم حصہ تھی۔ آرکیوپیٹیرکس کی غیر متناسب پروں کی ساخت دورِ حاضر کے پرندوں کے پروں کی ساخت سے ناقابل امتیاز ہے اور اس میں بہترین اڑان کی صلاحیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ نامور ماہر معدوم حیوانات و نباتات کارل او۔ڈنبار کہتا ہے ”اپنے پروں کی وجہ سے آرکیوپیٹیرکس خاص طور پر ایک پرندے کا درجہ رکھتا ہے۔“ ۷۴

آرکیوپیٹیرکس کے پروں کی ساخت کے معائنے سے اس کے گرم خونی تحول کی صفت سامنے آئی ہے جبکہ رینگنے والے جانور اور ڈئناساروں کا شمار ٹھنڈے خون والے جانوروں میں ہوتا ہے جن کے جسم کی حرات کا انحصار اعضائی جسم کے عمل پر نہیں بلکہ ماحولیاتی اثرات پر ہوتا ہے۔ پرندوں میں پروں کی ایک نہایت اہم خصوصیت جسم کی حرارت کو معتدل رکھنا ہے۔ آکیوپیٹیرکس میں پروں کی موجودگی اس کے ایک گرم خون رکھنے والے پرندے کی حقیقت کو مزیدواضح کردیتی ہے جو کہ ڈائناسار کے برعکس اپنے پروں کو جسم کی حرارت معتدل رکھنے کے لئے استعمال کرتا تھا۔

آرکیوپیٹیرکس کے دانت اور پنجوں کے بارے میں ارتقاءپسندوں کے قیاس

ارتقاءپسندوں کے حساب سے ویلیو سیریپٹرز اور ڈرومیوسار جیسے چھوٹے ڈائنا سار ارتقائی عمل سے پر حاصل کرنے کے بعد اڑنا شروع ہوگئے۔ اسی طرح ان کا قیاس ہے کہ آرٹیوپٹیر کس بھی ڈائناسار پرکھوں سے تدریجی عمل کے ذریعے پر حاصل کرنے کی بناءپر اڑنا شروع ہوگیا۔ یہ خیالی حکایت تقریباً ہر ارتقائی کتاب میں موجود ہے۔

ارتقاءپسند ماہرِ حیاتیات جب آرکیوپیٹیرکس کا ایک وسطی نوعیت کی مخلوق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ان کے پاس دو اہم نقطے اس پرندے کے پروں پر موجود پنجے اور اس کے دانت ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ آرکیوپیٹیرکس کے پروں پر پنجے اور اس کے منہ میں دانت تھے لیکن یہ اس بات کو ہرگز ثابت نہیں کرتے کہ یہ پرندہ رینگنے والے کسی بھی حیوان کا ہم رشتہ ہے۔ دورِ حاضر میں موجود پرندوں کی دو نسلوں ٹاﺅراکو اور ہیوٹزن کے بھی پنجے ہیں جس سے ان کو شاخوں کو پکڑنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ پرندے مکمل پرندے ہی ہیں جن کے اندر رینگنے والے جانوروں کی ایک بھی صفت موجود نہیں ہے۔ اس لئے اس بات کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ آرکیوپیٹیرکس محض اپنے پنجوں کی وجہ سے ایک وسطی تدریجی جاندار ہے۔ اسی طرح اس کی چونچ کے اندر موجود دانت بھی اس کو تدریجی شکل ثابت نہیں کرتے۔

ارتقاءپسند ایک جانی بوجھی چال کے تحت دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ دانت رینگنے والے جانداروں کے دانت سے مشابہ ہیں ۔ دانت دراصل صرف رینگنے والے جانداروں کا ہی خاصہ نہیں ہوتے ۔ اسی لئے اس دعوے کو ثابت کرنا بے انتہا مشکل ہوجاتا ہے۔ دورِ حاضر میں کچھ رینگنے والے جانوروں کے دانت ہوتے ہیں اور کچھ کے نہیں ہوتے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ دورِ حاضر میں بے شک کوئی دانت والا پرندہ موجود نہیں ہے لیکن اگر فوصلی ریکارڈ کا معائنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آرکیوپیٹیرکس کے دور میں اور اس کے بعد کے زمانے میں بھی پرندوں کی ایک خاص نسل موجود تھی جس کو دانتوں والے پرندوں کی نسل کہا جاسکتا ہے۔

اس تمام معاملے میں سب سے ضروری نقطہ تو یہ ہے کہ آرکیوپیٹیرکس کے دانتوں کی اور دوسرے پرندوں کی دانتوں کی ساخت ان کے ازروئے دعویٰ پرکھا ڈائناسار سے بالکل مختلف تھی۔ جانے پہچانے ماہر طیوریات ایل۔ ڈی۔ مارٹن، جے۔ ڈی۔ اسٹوارٹاور کے۔ این۔ ویٹ اسٹون کے معائنے کے مطابق آرکیوپیٹیرکس اور اس کی طرح کے دوسرے پرندوں کے دانتوں کی سطح ہموار اور جڑیں بڑی تھیں۔ اس کے برعکس گرگٹی ڈائناساروں کے دانت پتلی جڑوں والے ابھرواں تھے۔ ان ڈائناساروں کو ان پرندوں کا پرکھا تصور کیا جاتا ہے۔ ۸۴
 ان تحقیق دانوں نے آرکیوپیٹیرکس اور ان ڈائناساروں کی کلائیوں کی ہڈیوں کا بھی موازنہ کیا اور ان کو ان دونوں کے بیچ کسی قسم کی مماثلت نہیں مل سکی۔ ۹۴ ماہرِ تشریح الاعضاءایس ٹارسیٹانو، ایم۔ کے۔ ہکٹ اور اے۔ ڈی۔ والکر کی تحقیقات نے ظاہر کیا ہے کہ جان آسٹروم اور اس جیسے دوسرے سائنسدانوں نے آرکیوپیٹیرکس اور ڈائناساروں کے درمیان جن مشابہتوں کو تلاش کیا تھا وہ درحقیقت ایک غلط تشریح کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھی۔۰۵ یہ تمام تحقیقات واضح کرتی ہیں کہ آرکیوپیٹیرکس ارتقاءکی کوئی وسطی تدریجی کڑی نہیں بلکہ صرف ایک ایسا پرندہ ہے جس کا شمار دانت والے پرندوں کے گروہ میں ہوتا ہے۔

آرکےوپٹےرکس کے اندر اےک عام پرندے کی ہر خاصیت موجود ہے۔

۱۔ اس کے پر ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایک اڑان کے لائق گرم خون مخلوق ہے۔

۲۔ دورِ حاضر کے پرندوں کی طرح اس کی ہڈیاں بھی کھوکھلی ہیں۔

۳۔ ان کے اندر دانتوں کی موجودگی ان کا خزندوں کا رشتہ دار ہونا ثابت نہیں کرتیں کیونکہ تاریخ میں دانت والے کئی پرندوں کے نشان موجود ہیں۔

۴۔ حال میں موجود کئی پرندوں کے پروں پر ان قدیم پرندوں کی طرح پنجے موجود ہیں۔

۵۔ حال میں دریافت ہونے والا آرکیوپٹیرکس کے ساتویں فوصل میں سینے کی ہڈی موجود تھی۔ اس ہڈی سے ثابت ہوتا ہے کہ دورِ حاضر کے پرندوں کی طرح آرکیوپٹیرکس کے اندر بھی اڑان کے مضبوط عضلات موجود تھے۔

آرکیوپیٹیرکس اور دوسرے پرندوں کے فوصل

اس بات کے باوجود کہ ارتقاء پسند کئی دہائیوں سے آرکیوپیٹیرکس کا شمار پرندوں کے ارتقاءکے سب سے اہم ثبوت میں کرتے رہے لیکن کچھ حال ہی میں ملنے والے فوصل اس سارے منظر کی نام نہاد سچائی کو ناکارہ قراردے دیتے ہیں۔

۵۹۹۱ءمیں چین کے فقاری معدوم حیوانات و نباتات کے ادارے کے دو ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات اور لیانہائی ہو اور زونگی زو نے ایک نئے پرندے کا فوصل دریافت کیا جس کا نام انہوں نے کونفیوسیوسارنس رکھا۔ یہ فوصل آرکیوپیٹیرکس کی طرح ہی ۰۴۱ سال پرانا ہے لیکن اس کے منہ میں دانت نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کی چونچ اور پروں کی خصوصیات دورِ حاضر کے پرندوں کے عین مشابہ ہےں۔ کونیفیوسیوسارنس کا ڈھانچا بھی دورِ حاضر کے پرندوں  کی طرح ہے اور اس کے پروں پر آرکیوپیٹیرکس کی طرح پنجے موجود ہیں۔ پرندوں کی ساخت کی ”پائگواسٹائل“ نامی خصوصیات بھی کونیفیوسیوسارنس میں موجود ہے جس کے تحت اس کے دم کے پروں کو بھی ساخت کا سہارا ہوتا ہے۔ مختصراً یہ کہ آرکیوپیٹیرکس کی عمر کا یہ فوصل دورِ حاضر میں موجود پرندوں سے بہت حد تک مشابہ ہے۔ اس نئے فوصل کے سامنے آنے سے وہ تمام ارتقائی مقالے ناکارہ ہوجاتے ہیں جو کہ آرکیوپیٹیرکس کو قدیم ترین رینگنے والے جانور کی تدریجی عمل سے تبدیل شدہ پرندہ اور تمام پرندوں کا پرکھا قراردیتے تھے۔

کونفیوسیوسارنس نامی پرندہ کی عمر آرکیوپٹیرکس جتنی ہے،

چین سے دریافت ہونے والے ایک اور فوصل نے ارتقائی حلقوں میں اس فوصل سے بھی بڑھ کر الجھن اور پریشانی پھیلادی۔ نومبر ۶۹۹۱ءمیں رسالہ ”سائنس“ میں ایل۔ہو، ایل۔ ڈی۔ مارٹن اور ایلن فیڈوشا نے ایک ۰۳۱ لاکھ سال پرانے پرندے کی موجودگی کا اعلان کیا۔ اس پرندے کا نام لیاﺅننگورنس ہے اور اس کے اندر ایک واضح سینے کی ہڈی موجود ہے جس سے اڑنے والے عضلات بالکل اسی طرح جڑے ہوئے ہیں جس طرح دورِ حاضر کے پرندوں میں موجود ہیں۔ یہ پرندہ جدید پرندوں سے دوسرے اعتبار سے بھی ناقابل امتیاز ہے۔ ان کے درمیان واحد فرق آرکیوپیٹیرکس کے منہ کے دانت ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہی کہ ارتقاءپسندوں کے دعوﺅں کے برخلاف دانتوں والے پرندے قدیم جسمانی ساخت کے حامل ہرگز نہیں تھے۔ ۲۵ رسالہ ”ڈسکوور“ کے ایک مضمون کے مطابق ”پرندوں کی ابتداءکیا ہے؟ یہ فوصل تجویز کرتا ہے کہ ان کی ابتداءکم از کم ڈائناسار خاندان تو ہرگز نہیں ہے۔‘ ۳۵

ایک اور فوصل جو کہ آرکیوپیٹیرکس کے متعلق ارتقاءپسندوں کے ہر دعوے کی تردید کرتا ہے وہ ایوالولاوس نامی پرندے کا فوصل ہے جس کے پروں کی ساکت آرکیوپیٹیرکس کے پرندوں کی ساخت سے ۵۲ سے ۰۳ سال جوان ہے۔ پروں کی یہ مخصوص ساخت دورِ حاضر کے آہستہ اڑنے والے پرندوں سے مشابہ ہے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۰۲۱ لاکھ سال پہلے آسمانوں پر جو پرندے اڑ رہے تھے وہ دورِ حاضر کے پرندوں سے ناقابل امتیاز ہیں۔ یہ تمام حقائق آکیوپیٹیرکس اور اس ہی کی عمر کے قدیم پرندوں کے وسطی اشکال ہونے کے دعوے کے خلاف جاتے ہیں۔ فوصل بھی صاف ظاہر کرتے ہیں کہ پرندوں کی مختلف نسلیں کسی بھی جاندار کی تدریجی شکل نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی ابتداءارتقاءکے ذریعے ہوئی ہے۔ فوصلی ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ دورِ حاضر کے کچھ پرندے اور آرکیوپیٹیرکس اور اس ہی کی وضع کے دوسرے قدیم پرندے ماضی میں ایک ہی وقت پر موجود رہے تھے۔ البتہ آرکیوپیٹیرکس اور کونفیوسیوسارنس معدوم ہوگئے ہیں جبکہ ُاس دور کے پرندوں کی کچھ نسلیں دورِ حاضر میں بھی موجود ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ آرکیوپیٹیرکس کی کئی خصوصیات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی جاندار کی تدریجی شکل نہیں ہیں ۔ اس پرندے کا جملہ تشریح الاعضا جمود کو ظاہر کرتا ہے، ارتقاءکو نہیں۔ ماہرِ معدوم حیوانات و نباتات رابرٹ کیرل اعتراف کرتا ہے کہ:

”آرکیوپیٹیرکس کے اڑنے کے پروں کی اقلیدسی جدید پرندوں کے مشابہ ہے جبکہ بغیر اڑنے والے پرندوں کے بے ترتیب پر ہوتے ہیں۔ اس پرندے کے پروں کی ترتیب بھی دورِ جدید کے پرندوں کی حدود میں آتی ہے۔ وین ٹائن اور برگر کے حساب سے آوکیوپیٹیرکس کے پروں کی پیمائش اور نقشہ ان پرندوں سے مشابہ ہے جو کہ پودوں اور جھاڑیوں کی مخصوص جگہوں پر بھی اڑنے کے قابل ہوتے ہیں مثلاً گھریلو مرغیاں، تیتر، بٹیر، فاختہ، ہدہد اور عام گھریلو چڑیاں ۔اڑان کے یہ پرکم از کم پچھلے ۰۵۱ لاکھ سال سے جمودی حالت میں ہیں۔“ ۵۵

دوسری طرف ’ارضی متضاد خیالات پر مبنی دعویٰ ‘ بھی آرکیوپیٹیرکس سے متعلق ارتقائی الزام دہی کے لئے مہلک وار ہے۔جاناتھن ویلز نے اپنی کتاب ’ارتقائی مقدس شخصیات ‘ میں آر کے وپےٹیرکس کا نظریہ ارتقاءکی بدولت ایک مقدس شخصیت کے حامل ہونے کا ذکر کیا ہے حالانکہ ثبوت صاف بتاتا ہے کہ یہ مخلوق دورِ حاضر کے پرندوں کا قدیم پرکھا نہیں ہے۔ ویلز کے مطابق اس ثبوت کی ایک کڑی تو یہ ہے کہ آرکیوپیٹیرکس کے خیال کئے جانے والے پرکھا تھیراپوڈ ڈائناسار کی عمر آرکیوپیٹیرکس سے بھی کم ہے۔ یہ ڈائناسار دو ٹانگوں پر رینگنے والی مخلوق تھی جو زمین پر دوڑتی تھی اور اس میں مزید کچھ اور بھی خصوصیات موجود تھیں جو کہ آرکیوپیٹیرکس کا پرکھا ہونے کے ناطے گوکہ ان میں موجود ہونی چاہئے تھیں مگر کافی عرصے بعد نمودار ہوئیں۔“ ۶۵

چڑیا اور ڈائناسار کے درمیان تصوراتی کڑی

ارتقاءپسند جب آکیوپٹیرکس کو پرندوں کی وسطی شکل کے طور پر پیش کرتے ہیں تو ان کا بنیادی دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ پرندے ڈائناسار کی ارتقائی شکل ہیں۔ لیکن دنیا کے مشہور ترین ماہر طہوریات امریکہ کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنہ کا ایلن فیڈوشا ، باوجود اےک کٹر ارتقاءپسندہونے کے ،اس نظریئے کی مخالفت کرتا ہے کہ پرندے ڈائناسار کے رشتہ دار ہیں۔ رینگنے والے جانور اور پرندوں کے مقالے سے متعلق فیڈوشا کہتا ہے:

”میں ۵۲ سالوںسے پرندوں کی کھوپڑیوں کا مطالعہ کر رہاہوںاور مجھے ان میں (اور ڈائناسار میں) کسی بھی قسم کی یکسانیت قطعاً نظر نہیں آتی۔ میری رائے میں پرندوں کی ڈائناسار کے ذریعے ابتداءکا قےاس بیسویں صدی کی علمِ معدوم حیوانات و نباتات کے لئے ایک زبردست شرمندگی ہے۔“ ۷۵

یونیورسٹی آف کینساس کے قدیم پرندوں کا ماہر لیری مارٹن بھی اس نظریئے سے اختلاف کرتا ہے کہ ڈائناسار پرندوں کے پرکھا ہیں۔ اس معاملے میں ارتقائی تضاد کے موضوع پر وہ کہتا ہے:

”سچ تو یہ ہے کہ اگر کوئی مجھے اس نظریئے کی حمایت کرنے کے لئے کہے کہ ڈائناسار اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ پرندوں کا پرکھا ہے تو مجھے ہر دفعہ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے شدےد شرمندگی ہوگی۔“۸۵

خلاصہ یہ کہ پرندوں کی ارتقائی کہانی جس کی بنیاد آرکیوپےٹیرکس کو بنایا گیا ہے دراصل ارتقاءپسندوں کے تعصب اور خام خیالی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
(ماخوذ از:نظریہ ارتقاء – ایک دھوکہ)
جاری ہے۔۔۔۔۔
اگر آپ یہ سلسلہ ویب سائٹ،بلاگز،پیجز، گروپس یا کسی رسالہ و مجلہ وغیرہ پر نشر کرنے کے خواہش مند ہیں تو رابطہ کریں۔
whatsApp:00923462115913
یا الحاد سے متعلقہ آپ کے ذہن میں کسی قسم کا سوال ہو تو ہمیں ای میل کریں!
fatimapk92@gmail.com

سابقہ اقساط پڑھنے یا اپنے موبائل میں سیو کرنے کے لئے یہ لنک وزٹ کریں ۔
https://drive.google.com/folderview?id=0B3d1inMPbe7WQktUQmdBb1phMlU
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیلی کی بنیاد پر اقساط کے مطالعہ کیلئے فیس بک یا بلاگ وزٹ کریں۔
https://www.facebook.com/fatimaislamiccenter
یا
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...