Saturday 6 May 2017

پیری مریدی یا جہالت و خرافات اور ملکی تاریخ کا خوفناک ترین واقعہ

پیری مریدی یا جہالت و خرافات اور ملکی تاریخ کا خوفناک ترین واقعہ

(تالیف:عمران شہزاد تارڑ ،ڈائریکڑ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

اخبارات ، سوشل میڈیا ٹیلی چینلز ہر روز ان اشتہارات سے بھرئے ہوتے ہیں کہ ہر تمنا پوری ہوگی۔ کالے جادو کی کاٹ کے ماہر۔ استخارہ ۔اولاد حاصل کرنے کے تعویز،مال و دولت میں فراخی کے وظائف،اور ہر وہ جملہ جو انسان کو اپنی طرف کھینچیں وغیرہ

دین سے چونکہ انسان کو جذباتی لگاؤ ہوتا ہے اِس لیے دین کے ساتھ منسلک کر کے ہوس پرستی اور پیری مریدی کا گھناؤنا کاروبار جاری ہے۔
جعلی پیروں کے کرتوت اور فراڈ۔۔۔ پورا ملک ان جعلی پیروں کے چنگل میں بری طرح پھنسا  ھوا ھے۔۔ پیر چاہے گلی کوچے کا ھو یا سیاسی جماعت کا یا حکومتی ایوانوں میں بیٹھا ھوا۔۔ سب کے سب اپنے اپنے اختیار کے مطابق قوم اور ملک کے ساتھ فراڈ کر رھا ھے ۔۔ ان کے خلاف کب جہاد ھوگا ان کے خلاف کب ضرب عضب ھوگا۔۔ یہ قوم کے وہ ناسور ہیں جو قوم کی بھولے پن سے ھر ممکن طریقے سے فراڈ کر رھے ھیں ۔۔
اِس کاروبار کو ختم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اِس سارے معاملے میں علماء اکرام ، مشائخ عظام  اور قلم نگار بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔عورتوں کی عزتیں نیلام ہو رہی ہیں۔
عوام اپنا مال و جان اور ایمان لٹا رہے ہیں ۔ آستانوں و مزاروں پر نشہ و خرافات  عام  ہیں ۔ دین کے نام پر ان خرافات و توھم پرستی سے ﷲ کی پناہ۔اگر موجودہ گدی نشین مزارات پر ہونے والی خرافات اور غیر اسلامی حرکات کو بند نہیں کروا سکتے تو پھر یہ گدی نشینی کیا ہے۔ اصل میں کسی بھی بزرگ کی تعلیمات پر عمل درآمد کروانا اِن کے پیروکاروں کا ہی فرض ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں گدی نشیی ایک کاروبار کی شکل اختیار چکا ہے۔ نوے فیصد سے زائد مزارات حکومت کے کنٹرول میں ہیں ۔ حکومت کیوں نہیں مزارات پر ہونے والی خرافات کو روکتی۔ جرائم کا تعلق اولیا اکرام کی تعلیمات سے نہیں۔ جرائم تو معاشرے میں ویسے بھی بہت زیادہ ہیں۔ اِس لیے جرائم اگر مزارات و آستانوں کی آڑ میں ہو رہے ہوں تو اُس کا قلع قمع کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ گدی نشینی تو محض ایک کاروبار بن چکا ہے۔بندے کا اپنے رب سے تعلق بہار کی طرح کا ہوتا ہے پھول جب تک بہار کے مزے لوٹ رہا ہوتا ہے وہ مہکتا رہتا ہے جیسے ہی خزاں وارد ہوتی ہے پھول کی پتیاں بکھر جاتی ہیں۔ انسان جب تک اپنے رب سے امید باندھے رکھتا ہے تب تک اُس کے من کی دنیا آباد رہتی ہے جیسے ہی وہ اپنے رب سے ناامید ہوتا ہے اور یاسیت اُس سے روحانی قوت چھین لیتی ہے جس لمحے بھی بندے کے دل میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ اُس کا یہ کام نہیں ہونا تو گویا وہ اپنے رب کی ربوبیت کوغیر ارادی طور پر ماننے سے انکاری ہو جاتا ہے یوں پھر امید کی کمزوری اُس کے ایمان کو اعتقاد کو اُس کے یقین کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ وہ پھر رب کی رحمتوں کے ہالے سے نکل کر وسوسوں کے جال میں پھنس جاتا ہے بلکل اِسی طرح جیسے مکڑا جال میں پھنسا ہوتا ہے۔ نہ تو امید بَر آتی ہے اور نہ وسوسے چین لینے دیتے ہیں۔عبادت گاہوں میں خاص اہتمام ہوتا ہے کیا رب کا صرف وہیں قیام ہوتا ہے گھر میں بازار میں دفتر میں کیا ایمان کا کام نہیں ہوتا ہے یونہی مذہب کا نام لے لے کے عقیدتوں کا دم بھر بھر کے عبادت کی رسم ادا ہوتی ہے علم و عمل سے رشتہ محال ہے زر کی ہوس نے اندھا کیا ہوا۔پاکستان میں مروجہ خانقاہی نظام ملوکیت میں ڈھل چکا ہے؟ آستانے روپے پیسے کی ریل پیل میں اور مرید بھوک کے مارے ہوئے غلام ابنِ غلام ایک رب پر ایمان کی بجائے ناسمجھی میں کم علمی کی وجہ مرید بھی استحصال شکار ہیں اور اُن کے نذرانے ایسے جگہ جاتے ہیں کہ کاروباری انداز میں چلائی جانے والی خانقاہیں پرائیوٹ لمیٹیڈ کمپنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔جاگیردار، سرمایہ دار، وڈیرے کے ساتھ نام نہاد پیر بھی اُس دائرے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں پیسہ ہی ایمان، لوٹ مار استحصال کے لیے نام نہاد پیر بھی روایتی سیاست میں حصہ لے کر اپنے کاروبار چمکاتے ہیں۔ پاکستان میں خانقاہی نظام کی تباہی کی وجہ ہی یہ ہے کہ خود کو سوادِاعظم کہنے والوں کی آواز کہیں بھی نہیں۔ اگر کسی پیر یا مذہبی رہنماء نے رویتی سیاست کا ہی حصہ بننا ہے تو پھر سات دہائیوں سے جو چلا آ رہا ہے ایسے ہی چلتا رہے گا۔
یہاں باقاعدہ پیری مریدی کا نظام چل رہا ہے وہاں بالکل صورتحال عجیب ہو چکی ہے۔ دین سے محبت رواج و روایات کی نذر ہوچکی ہے۔آستانوں اور درگاہوں پہ ایسی ایسی خرافات در آئی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہندوانہ رسم رواج عجیب و غریب انداز میں جاری ہے۔

پاکستان کو تو اولیا کا فیضان کہا جاتا ہے لیکن اِن اولیاء اکرام کی خانقاہوں کو جس انداز میں بے حیائی اور شرک و بدعت کا کاروبار بنا دیا گیا ہے یہ سلسلہ بہت تکلیف دہ ہے جن درگاہوں سے دعوت توحید ادا ہونا تھی وہاں گدیوں کی لڑائیاں جاری ہیں۔ اور شرک و خرافات کا بازار گرم ہے۔
اِن حالات میں اُمت کو جہاں اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور پوری امت مسلمہ ہمہ گیر زوال و انحطاط کا شکار ہے اِن خانقاہوں سے تو علم وہدائت کے سرچشمے پھوٹنے چاہیے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں  ہو پا رہا۔دوسری جانب شرک و خرافات ستارہ پرستی(علم نجوم) پر پاکستان کے ہر اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینل پیش پیش ہیں ۔کہ ستاروں کی روشنی میں آپ کا دن کیسا گزرے گا۔جس کی تفصیلات کے لیے راقم الحروف کے زیر تالیف کتاب"رزق میں فراخی کے اسباب اور مشکلات کا حل "کا مطالعہ کریں ۔جو عنقریب اس لنکwww.dawatetohid.blogspot.com پر اپلوڈ کر دی جائے گی ان شاء اللہ ۔
ویسے تو پاکستان میں آئے دن جعلی پیر اور عامل عوام کا مال و جان ،ایمان اور عزتیں لوٹنے کا کاروبار اپنے عروج پر ہے ۔لیکن ہم فی الحال تمام واقعات کو چھوڑ کر حالیہ بدترین واقعہ کی طرف
آتے ہیں جو سرگودھا کے نواحی گاؤں چک نمبر 95 شمالی پکا ڈیرہ میں دربار کی گدی نشینی کے تنازعہ پر مخالف گروپ کے 20 افراد کو ڈنڈوں، خنجروں کے وار کر کے قتل کر دیا گیا پر مختصر ضمیمہ پیش کرتے ہیں ۔
نام عبدالوحید تھا‘ وہ الیکشن کمیشن میں لیگل اسسٹنٹ تھا‘ گرین ٹاؤن لاہور کا رہائشی تھا‘ وہ پانچ سال ایف آئی اے میں لاء آفیسر بھی رہا‘ وہ 2005ء میں الیکشن کمیشن میں واپس آیا‘ کرپشن اور اختیارات سے تجاوز کا الزام لگا‘ انکوائری ہوئی اور ثابت ہوگیا عبدالوحید نے 60 ہزار روپے لے کر ایک ایسے شخص کا ووٹ ٹرانسفر کر دیا تھا جس نے بعد ازاں ٹاؤن ممبر کا الیکشن لڑا‘ سزا سے بچنے کے لیے اس نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی‘وہ 24 برس الیکشن کمیشن میں ملازم رہا‘ ساتھیوں نے  ان 24 برسوں میں اسے کبھی نماز اور روزے کی پابندی کرتے نہیں دیکھا‘ وہ اسلامی شعائر کا مذاق بھی اڑاتا تھا تاہم وہ روحانیت اور طریقت کا بے انتہا قائل تھا۔

وہ مرشد پرست بھی تھا اور وہ تعویز دھاگے پر بھی یقین رکھتا تھا‘ وہ ملازمت کے دوران علی محمد گجر نام کے ایک شخص سے ملا‘ وہ فیصل آباد کے گاؤں چنن کا رہنے والا تھا اور وہ سائیں مستی سرکار کہلاتا تھا‘ وہ اسلام آباد اور لاہور میں تعویز‘ دھاگہ اور گنڈا کرتا تھا‘ سیکڑوں لوگ اس کے مرید تھے‘ عبدالوحید بہت جلد علی محمد گجر کا مرید بن گیا‘ پیر صاحب بھی شریعت کے پابند نہیں تھے‘ وہ سمجھتے تھے انسان گناہوں کا پتلا ہے‘ یہ پتلا اگر زندگی میں اپنے گناہوں کا ازالہ کر دے تو یہ پاک ہو جاتا ہے‘ علی محمد گجر نے انسانوں کو گناہوں سے پاک کرنے کا ایک طریقہ بھی وضع کر رکھا تھا‘ وہ ’’گناہگار‘‘ مرد اور عورت کو ننگا کرتا تھا اور اس کے ننگے جسم پر چھڑی سے ہلکی ہلکی ضربیں لگاتا تھا‘ یہ ضربیں گناہوں کا ’’ازالہ‘‘ ہوتی تھیں اور یوں ’’گناہگار‘‘ چند ضربوں میں نومولود بچے کی طرح پاک ہو جاتا تھا۔

علی محمد گجر روزانہ دس بیس گناہ گاروں کو گناہوں کے بوجھ سے آزاد کر دیتا تھا‘ عبدالوحید مستی سرکار کا مرید بنا اور وہ روحانیت میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا حضرت صاحب کا خلیفہ بن گیا‘ حضرت صاحب جب گناہ گاروں کو پاک کرتے کرتے تھک جاتے تھے تو وہ اپنی چھڑی عبدالوحید کے ہاتھ میں دے دیتے تھے اور گناہ گاروں کے گناہ جھاڑنے کا باقی فریضہ خلیفہ صاحب ادا کرتے تھے ‘ حضرت صاحب اس دوران دور بیٹھ کر گناہ گاروں کے ننگے بدن کا معائنہ کرتے رہتے تھے‘ سرگودھا کے چک نمبر 95 شمالی میں علی محمد گجر کے مرید رہتے تھے‘ یہ سارا علاقہ پیر صاحب کا معتقد تھا‘ پیر صاحب اس علاقے میں چوہدری علی محمد قلندر کہلاتے تھے‘ پیر صاحب اور خلیفہ صاحب اکثر اس گاؤں کا چکر لگاتے رہتے تھے‘ لوگ عقیدت سے ان کے پاؤں چومتے تھے۔

سائیں مستی سرکار چوہدری علی محمدگجر قلندر تین سال پہلے انتقال کر گئے‘ مریدوں نے انھیں چک نمبر 95 شمالی میں دفن کیا اور قبر پر چھوٹا سا مزار بنا دیا‘ عبدالوحید اس مزار کا متولی بن گیا‘ وہ اکثر مزار پر بیٹھا رہتا تھا‘ وہ الیکشن کمیشن سے ریٹائرمنٹ کے بعد اس مزار تک محدود ہو کر رہ گیا‘ وہ اس وقت تک گناہ جھاڑنے کا ایکسپرٹ بھی ہو چکا تھا‘ لوگ آتے تھے‘ وہ انھیں ننگا کر کے گناہوں کا تخمینہ لگاتا تھا اورگناہوں کی شدت کے مطابق ان کے جسم پر چھڑیاں اور ڈنڈے برساتا تھا‘ گناہ کم ہوں تو چھوٹی چھڑی اور چھوٹی ضرب اور گناہ بڑے اور شدید ہوں تو بڑا ڈنڈا اور بھاری ضرب‘ یہ دنیا کی اس جدید ترین سائنس کا واحد فارمولا تھا‘ لوگ دور دور سے سائیں مستی سرکار چوہدری علی محمد گجر قلندر کی درگاہ پر آتے ‘ مزار کو سلام کرتے اور خلیفہ سرکار سائیں عبدالوحید قلندر سے اپنے گناہ جھڑواکر گھر واپس چلے جاتے ‘ سائیں نے حکم دے رکھا تھا وہ جب گناہ گاروں کو ڈنڈا مارے گا تو وہ منہ سے حق حق کی آواز نکالیں گے چنانچہ درگاہ سے اکثر اوقات حق حق کی صدائیں آتی رہتی تھیں۔

سائیں عبدالوحید کو اس دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے (نعوذ باللہ) سگنل بھی آنا شروع ہو گئے اور وہ خود کو امام مہدی (نعوذباللہ) بھی کہنے لگا‘ مریدین نے اس ہرزہ سرائی پر بھی یقین کر لیا‘ سائیں عبدالوحید شراب کا پرانا عادی تھا‘ وہ ’’خلافت‘‘ کے دوران دیگر نشوں سے بھی متعارف ہو گیا اور وہ اب زیادہ وقت مخمور رہنے لگا‘ وہ خود نماز روزے کو پسند کرتا تھا اور نہ ہی مریدوں کو اس طرف جانے دیتا تھا‘ وہ کہتا تھا آپ جی بھر کر گناہ کریں اور آخر میں مجھ سے اپنے گناہ جھڑوا لیں‘ بات ختم۔ وہ ہر جمعرات کو اپنے مرشد کا ختم بھی کراتا تھا‘ دیگ پکواتا تھا‘ چاول تقسیم کرتا تھا اور گناہ گاروں کو ڈنڈے مار کر پاک صاف کرتا تھا‘ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ 2017ء اپریل کی یکم تاریخ آ گئی۔

سائیں عبدالوحید نے اپنے دوساتھیوں آصف اوریوسف کو ساتھ ملایا اور اپنے آخری روحانی تجربے کا اعلان کر دیا‘ اس نے دعویٰ کیا اللہ تعالیٰ نے اسے (نعوذ باللہ) مردوں کو زندہ کرنے کی طاقت دے دی ہے‘ وہ پہلے سیاہ کاروں کو ڈنڈے مار مار کر ہلاک کرے گا اور پھر انھیں دوبارہ زندہ کردے گا اور یہ لوگ معصوم بچوں کی طرح پاک صاف ہو کر نئی زندگی گزاریں گے‘ عبدالوحید نے یکم اپریل ہفتہ کی شب یہ تجربہ شروع کر دیا‘ وہ مریدوں کو بلاتا‘ انھیں نشہ آور مشروب پلاتا اور انھیں ڈنڈے مارمار کر ہلاک کرتا رہا ۔

عبدالوحید نے اس عمل کے دوران  20 مریدوں کی جان لے لی‘ ان میں 16 مرد اور چارخواتین شامل تھیں جب کہ چارلوگوں نے بھاگ کر جان بچالی‘ بات پھیلی‘ لوگ اکٹھے ہوئے‘ پولیس آئی اور عبدالوحید گرفتار ہو گیا‘ گرفتاری کے بعد عبدالوحید نے تین متضاد بیان دیے‘ اس کا پہلا بیان تھا‘ یہ لوگ مجھے زہر دے کر مارنا اور گدی پر قبضہ کرنا چاہتے تھے‘ میں نے انھیں مار دیا‘ دوسرا بیان تھا‘ یہ میرے بچے تھے اور میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان کو قربان کر دیا اور تیسرا بیان ’’جج صاحب آپ میرے ساتھ درگاہ چلیں‘ میں ان سب کو دوبارہ زندہ کر دوں گا بس ایک شرط ہے پولیس ساتھ نہیں ہونی چاہیے‘‘۔

یہ ملکی تاریخ کا خوفناک ترین واقعہ تھا‘ سائیں عبدالوحید سو فیصد فراڈ اور جرائم پیشہ شخص ہے‘ یہ نفسیاتی بیماری ’’ہائیپو کانڈریا‘‘ کا مریض ہے‘ اس مرض میں انسان اپنے دماغ میں ایک غیر حقیقی دنیا آباد کر لیتا ہے اور یہ اس غیر حقیقی دنیا کو ایمان کی حد تک حقیقی سمجھ بیٹھتا ہے‘ دنیا کے زیادہ تر جعلی نبی اور جعلی ولی ’’ہائپو کانڈریا‘‘ کے مریض ہوتے ہیں‘ سائیں عبدالوحید اور علی محمد گجر قلندر دونوں اس مرض کا شکار تھے‘ یہ بات اگر یہاں تک رہتی تو شاید اتنی خطرناک نہ ہوتی لیکن یہ اس وقت انتہائی خطرناک ہو گئی جب لوگوں نے ان ذہنی مریضوں کو ولی تسلیم کر لیا چنانچہ ایشو مرشد نہیں ہیں ایشو مرید ہیں‘ ہمارا معاشرہ اس حد تک زوال پذیر ہو چکا ہے کہ لوگ ہر اس شخص کو ولی مان لیتے ہیں۔

جس کی پشت پر مٹی لگی ہوتی ہے‘ سر میں خاک ہوتی ہے اور اس کی داڑھی سے رالیں ٹپک رہی ہوتی ہیں،جو برہنہ رہتا ہو‘ ہم لوگ ہائیپوکانڈریا کے مریضوں کو صرف ولی نہیں مانتے بلکہ ہم نعوذ باللہ ان کے درجات حضرات ابراہیم  ؑ ‘ حضرت موسیٰ  ؑ  اور حضرت عیسیٰ  ؑ سے بھی بلند کر دیتے ہیں‘ ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں یہ لوگ واقعی حضرت موسیٰ  ؑ کی طرح (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہیں اور یہ حضرت عیسیٰ  ؑ کی طرح مردوں کو زندہ کر دیتے ہیں‘ ہم لوگ یہ بھی سمجھ لیتے ہیں جو شخص اپنی رالیں صاف نہیں کر سکتا وہ اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر بدل دے گا اور جن گناہوں کی معافی کا اولیاء کرام ؒ‘ صحابہ کرامؓ اور انبیاء کرام کو بھی یقین نہیں تھا وہ گناہ سائیں عبدالوحید کا ڈنڈا دھو دے گا چنانچہ میں سمجھتا ہوں مسئلہ سائیں عبدالوحید یا سائیں مستی سرکار علی محمد گجر قلندر نہیں ہیں مسئلہ ان لوگوں کو ماننے والے لوگ ہیں لہٰذا ہمیں جعلی پیروں کے جعلی مریدوں کو جوتے مارنے چاہئیں‘ دوسرا مسئلہ حکومت ہے۔

ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ کسی بھی قبر پر جھنڈا لگا کر عرس شروع کر دے‘ حکومت نوٹس تک نہیں لے گی‘کیوں؟ حکومت کی اس عدم توجہی کے نتیجے میں بیس بیس لوگ جان سے گزر جاتے ہیں اور ریاست تماشہ دیکھتی رہتی ہے‘ کیوں؟ آپ ملک میں حکومت کی اجازت کے بغیر اسکول اور ڈسپنسری نہیں بنا سکتے لیکن آپ دس بیس ایکڑ کا مزار بنا لیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ ہماری ریاست کب جاگے گی؟ ہماری ریاست ڈرون نہیں روک سکتی نہ روکے لیکن یہ سائیں عبدالوحید جیسے لوگوں کو تو روک لے۔

یہ لوگوں کو ہیپاٹائٹس سے نہیں بچا سکتی نہ بچائے لیکن یہ معاشرے کو علی محمد گجر قلندر جیسی بیماریوں سے تو بچا لے اور یہ عوام کو دہشت گردوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتی یہ نہ رکھے لیکن یہ انھیں سائیں مستی سرکار جیسے روحانی دہشت گردوں سے تو بچا لے‘ ریاست عوام کو ان درندوں سے کیوں نہیں بچا پا رہی‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ اورہمارے عوام بھی یہ کیوں نہیں سمجھتے انسان نبی بھی ہو تو بھی انسان ہی رہتا ہے وہ خدا نہیں بن سکتا اور علی محمد گجر جیسے لوگ تو پورے انسان بھی نہیں ہیں‘ آپ ان کی قبروں سے کون سا خدا تلاش کر رہے ہیں‘ آپ کیوں نہیں سمجھتے وہ انسان جو خود قبر میں پڑا ہے وہ آپ کو زندگی کیسے دے سکتا ہے‘ جو انسان خود گناہوں کے کیچڑ میں لت پت ہے وہ آپ کو گناہوں سے پاکی کا سر ٹیفکیٹ کیسے دے سکتا ہے؟اور جو شخص پولیس سے نہیں بچ سکتا وہ شخص آپ کو اللہ کے قہر سے کیسے بچائے گا‘ آپ کیوں نہیں سمجھتے‘ کیوں‘ آخر کیوں؟۔

یہ مضمون مختلف اخبارات سے حاصل کردہ اقتباس سے تیار کیا گیا ہے۔
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان۔
www.dawatetohid.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...