Sunday 1 January 2017

وسیلے کی ممنوع اقسام کےدلائل کا تحقیقی جائزہ (1)

 

وسیلے کی ممنوع اقسام کےدلائل کا تحقیقی جائزہ (1)

 ازعثمان احمد    
 تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری
یہ تو بیان ہو چکا ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تین قسم کا وسیلہ جائز ہے، اس کے علاوہ ہر قسم کا وسیلہ، مثلاً کسی مخلوق کی ذات یا فوت شدگان کا وسیلہ ناجائز و حرام ہے۔ بعض حضرات ناجائز وسیلے پر مبنی اپنے خود ساختہ عقائد کو ثابت کرنے کے لیے من گھڑت، جعلی، بناوٹی اور ضعیف روایات پیش کرتے ہیں۔ آئیے ان روایات کا اصول محدثین کی روشنی میں تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں :
 
دلیل نمبر ۱
 
عن مالك الدار، قال : وكان خازن عمر على الطعام، قال : أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتى الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم مستقيمون وقل له : عليك الكيس، عليك الكيس، فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب ! لا آلو إلا ما عجزت عنه.
”مالک الدار جو کہ غلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خزانچی مقرر تھے، ان سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث ) تباہ ہو گئی ہے۔ پھر خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر ميرا اسلام کہو اور انہیں بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی ) کہہ دو کہ عقلمندی سے کام لیں۔ وہ صحابی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: اے اللہ ! میں کوتاہی نہیں کرتا، مگر یہ کہ عاجز آ جاؤں۔“
(مصنف ابن أبي شيبه:356/6، تاريخ ابن أبي خيثمه:70/2، الرقم:1818، دلائل النبوة للبيھقي:47/7، الاستيعاب لابن عبدالبر:1149/3، تاريخ دمشق لابن عساكر:345/44، 489/56)

تبصره : اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ : 
(1) اس میں (سلیمان بن مہران) الاعمش ”مدلس“ ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔ 
 
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
لا نقبل من مدلس حديثا حتي يقول فيه: حدثني أو سمعت …….
”ہم کسی مدلس سے کوئی بھی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ اس میں سماع کی تصریح نہ کر دے۔“
(الرسالة للإمام الشافعي،ص:380) 
 
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
لا يكون حجة فيما دلس.
”مدلس راوی کی تدلیس والی روایت قابل حجت نہیں ہوتی۔“ 
(الكامل لابن عدي:34/1، وسنده حسن)
 
حافظ سخاوی رحمہ اللہ (۸۳۱۔۹۰۲ھ) کہتے ہیں : 
وممن ذھب إلی ھذا التفصیل الشافعی وابن معین و ابن المدینی.
”جو ائمہ کرام اس موقف کے حامل ہیں، ان میں امام شافعی، امام ابن معین اور امام ابن مدینی کے نام شامل ہیں۔“ 
(فتح المغيث:182/1) 
 
حافظ علائی رحمہ اللہ (۶۹۴۔۷۶۱ھ) اسی کو ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 
الصحيح الذي عليه جمھور إئمة الحديث والفقه والأصول.
”یہی وہ صحیح مذہب ہے جس پر جمہور ائمہ حدیث و فقہ و اصول قائم ہیں۔“ 
(جامع التحصيل،ص:111) 
 
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (۳۶۸۔۴۶۳ ھ) فرماتے ہیں : 
وقالوا: لا يقبل تدليس لأعمش.
”اہل علم کہتے ہیں کہ اعمش كی تدلیس قبول نہیں ہوتی۔“ 
(التمھيد:30/1) 
 
علامہ عینی حنفی (۷۶۲۔۸۵۵ھ) لکھتے ہیں : 
إن الأعمش مدلس، وعنعنة المدلس لا تعتبر إلا إذا علم سماعه.
”بلاشبہ (سلیمان بن مہران) اعمش مدلس ہیں اور مدلس راوی کی 
عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے جب اس کے سماع کی تصریح مل جائے۔“ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري، تحت الحديث:219)
اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے۔ 
 
(2) مالک الدار ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (384/5) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ 
 
اس کے بارے میں حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفه. ”میں اسے نہیں جانتا۔“ (الترغيب والترھيب:29/2) 
 
حافظ ہیشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم أعرفه. ”میں اسے نہیں پہچان سکا۔“ (مجمع الزوائد:123/3) 
 
اس کے صحابی ہونے پر کوئی دلیل نہیں، لہٰذا بعض بعد والوں کا اسے صحابہ کرام میں ذکر کرنا صحیح نہیں۔ 
 
نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (البداية والنھاية: 167/5) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابة:484/3) کا اس روایت کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینا ان کا علمی تسامح ہے۔ ان کی یہ بات اصولِ حدیث کے مطابق درست نہیں۔ صرف حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہا اللہ کا اسے صحیح کہنا بعض لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی صحیح تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے صحیح کہا ہوا ہے اور بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی ضعیف تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے ضعیف کہا ہوا ہے۔ 
 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود سلیمان بن مہران اعمش کی تدلیس کی مضرت کے بارے میں لکھتے ہیں : 
وعندي أن إسناد الحديث الذي صححه ابن القطان معلول، لأنه لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا، لأن الأعمش مدلس، ولم يذكر سماعه من عطاء، وعطاء يحتمل أن يكون ھو عطاء الخراساني، فيكون فيه تدليس التسوية بإسقاط نافع بين عطاء وابن عمر.
”میرے خیال کے مطابق جس حدیث کو ابن القطان نے صحیح کہا ہے، وہ معلول (ضعیف) ہے، کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ اس میں اعمش مدلس ہیں اور انہوں نے عطاء سے اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سند میں مذکور عطاء، خراسانی ہوں، یوں اعمش کی تدلیس تسویہ بن جائے گی، کیونکہ اس صورت میں انہوں نے عطاء اور سیدنا ابن عمر کے درمیان نافع کا واسطہ بھی گرا دیا ہے۔“ 
(التلخيص الحبير:19/3) 
 
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
قال علي بن المديني: قال يحيی بن سعيد: قال سفيان وشعبة: لم يسمع الأعمش ھذا الحديث من ابراھيم التيمي، قال أبو عمر : ھذه شھادة عدلين إمامين علي الأعمش بالتدليس، وأنه كان يحدث عن من لقيه بما لم يسمع منه، وربما كان بينھما رجل أو رجلان، فلمثل ھذا وشبھه قال ابن معين وغيره في الأعمش : إنه مدلس. ”امام علی بن مدینی نے امام یحییٰ بن سعید قطان سے نقل کیا ہے کہ امام شعبہ اور سفیان نے فرمایا کہ اعمش نے یہ حدیث ابراہیم تيمی سے نہیں سنی۔ میں (ابن عبدالبر) کہتا ہوں کہ اعمش کے مدلس ہونے پر یہ دو عادل اماموں کی گواہی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمش ان لوگوں سے اَن سنی روایات بیان کرتے تھے، جن سے ان کی ملاقات ہوئی ہوتی تھی۔ بسا اوقات ایسے لوگوں سے اعمش دو واسطے گرا کر بھی روایت کر لیتے تھے۔ اسی طرح کے حقائق کی بنا پر امام ابن معین وغیرہ نے اعمش کو مدلس قرار دیا ہے۔“ (التمھيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد:32/1) 
 
تنبیہ:
(تاریخ طبری:98/4) اور حافظ ابن کثیر کی (البدایہ والنہایہ:71/7) میں ہے: 
حتي أقبل بلال بن الحارث المزني، فاستأذن عليه، فقال : أنا رسول رسول الله إليك، يقول لك رسول الله.
”بلال بن حارث مزنی آئے، انہوں نے اجازت طلب کی اور کہا: میں آپ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے فرماتے ہیں۔۔۔“
 
یہ روایت بھی جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ : 
(1) شعیببن ابراہیم رفاعی کوفی ”مجہول“ راوی ہے۔ 
 
اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
وشعيب بن إبراھيم ھذا، له أحاديث وأخبار، وھو ليس بذلك المعروف، ومقدار ما يروي من الحديث والأخبار ليست بالكثيره، وفيه بعض النكرة، لأن في أخباره وأحاديثه ما فيه تحامل علي السلف.
”اس شعیب بن ابراہیم نے کئی احادیث اور روایات بیان کی ہیں۔ یہ فن حدیث میں معروف نہیں۔ اس کی بیان کردہ احادیث و روایات زیادہ نہیں، پھر بھی ان میں کچھ نکارت موجود ہے، کیونکہ ان میں سلف صالحین کی اہانت ہے۔“ 
(الكامل في ضعفاء الرجال:7/5) 
 
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيه جھالة اس میں جہالت ہے۔ (ميزان الاعتدال:275/2) 
 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
وفي ثقات ابن حبان (309/8) : شعيب بن ابراھيم من أھل الكوفة، يروي عن محد بن أبان البلخي (الجعفي) ، روي عنه يعقوب بن سفيان، (قلت) فيحتل أن يكون ھو، والظاھر، أنه غيره
”ثقات ابن حبان میں ہے کہ : شعیب بن ابراہیم کوفی، محمد بن ابان بلخی سے روایت کرتا ہے اور اس سے یعقوب بن سفیان سے روایت کیا ہے۔ (میں کہتا ہوں) ممکن ہے کہ یہ راوی وہی ہو، لیکن ظاہراً یہ کوئی اور راوی لگتا ہے۔“ 
(لسان الميزان:145/3) 
 
(2) سیف بن عمر راوی باتفاق محدثین ’’ضعیف، متروک، وضاع‘‘ ہے۔ اس کی روایت کا قطعاً کوئی اعتبار نہیں۔ 
 
(3) اس کا استاذ سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری بھی ”مجہول“ ہے۔ 
 
اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
مجھول الحال. ”یہ مجہول الحال راوی ہے۔“ (لسان الميزان:122/3) 
 
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس کی ایک روایت کو ”موضوع و منکر“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : 
لا يعفرف. ”یہ مجہول الحال راوی ہے۔“ (الاستيعاب في معرفة الأصحاب:667/2) 
 
ثابت ہوا کہ بعض الناس کا یہ کہنا کہ مذکورہ روایت میں خواب دیکھنے والا شخص، صحابی رسول سیدنا بلال بن حارث مزنی ہے، بالکل بےبنیاد ہے۔
 
دلیل نمبر ۲
 
عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں : 
سمعت ابن عمر يتمثل بشعر أبي طالب: وأبيض يستسقي الغمام بوجھه ثمال اليتامي عصمة للأ رامل
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو میں نے ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا: وہ گورے رنگ والے، جن کے چہرے کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔“ 
(صحیح البخاری:137/1،ح1008) 
وقال عمر بن حمزة، حدثنا سالم، عن أبيه، ربما ذكرت قول الشاعر، وأنا أنظر إلي وجه النبي صلی الله عليه وسلم يستسقي، فما ينزل حتي يجيش كل ميزاب۔ وأبيض يستسقي الغمام بوجھه ثمال اليتامي عصمة للأ رامل
”عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ ٔاقدس کو تکتا کہ آپ کے سفید رنگ کے رُخِ زیبا کے ذریعے بارش طلب کی جاتی ہے، آپ یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔“ 
(صحیح البخاری:137/1،ح1008، تعليقا، سنن ابن ماجه:1272، مسند الإاما أحمد:93/2،ح:5673، السنن الكبريٰ للبيھقي:352/3، تعليق التعليق لابن حجر:389/2، وسنده حسن)
 
تبصرہ: یہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ مراد ہے، جو کہ مشروع اور جائز ہے۔ 
 
شارحِ بخاری، علامہ ابن بطال رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : 
قول عمر : اللھم ! إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، وھو معني قول أبي طالب: وأبيض يستسقي الغمام بوجھه….”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اے اللہ !ہم تیری طرف تیرے نبی (کی دعا) کا وسیلہ لاتے تھے۔ ابوطالب کے اس قول کا بھی یہی مطلب ہے کہ وہ سفید رنگ والے جن کے چہرے کے ذریعے بارش طلب کی جاتی ہے۔۔۔“ (شرح صحیح البخاری:9/3) 
 
یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث اور اس حدیث کا معنی و مفہوم ایک ہی ہے۔ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں وسیلے سے مراد دعا والا وسیلہ ہی ہے، لہٰذا اس حدیث سے بھی بالکل یہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس روایت میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے اور جب تک بارش شروع نہ ہو جاتی، دعا ختم نہ فرماتے۔ بھلا اس سے ذات کا وسیلہ کیسے ثابت ہوا؟ 
 
شارحِ بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 
وأن ابن عمر أشار إلی قصة وقعت في الإسلام حضرھا ھو، لا مجرد ما دل عليه شعر أبي طالب، وقد علم من بقية لأحاديث أنه صلی الله عليه وسلم إنما استسقی إجابة لسؤال من سأله في ذلك
”اس حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا دورِ اسلام میں انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ فرمایا۔ انہوں نے صرف ابوطالب کے شعر کے مفہوم پر اعتماد کرتے ہوئے یہ بات نہیں کہہ دی۔ باقی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے یہ دعا کچھ لوگوں کے مطالبے پر فرمائی تھی۔“
(فتح الباري:495/2) 
 
علامہ محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ولم يرد في حديث ضعيف، فضلا عن الحسن أو الصحيح، أن الناس طلبوا السقيا من الله في حياته متوسلين به صلی الله عليه وسلم، من غير أن يفعل صلی الله عليه وسلم ما يفعل في الاستسقاء المشروع، من طلب السقيا والدعاء والصلاة وغيرھما، مما ثبت بالأحاديث الصحيحة، ومن يدعي وردوده فعليه الإثبات.
”کسی حسن یا صحیح حدیث میں تو کجا، کسی ضعیف حدیث میں بھی یہ بات مذکور نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں لوگوں نے آپ کا وسیلہ اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث سے ثابت بارش طلب کرنے کے مشروع طریقے، یعنی دعا اور نماز وغیرہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کیا ہو۔ جو شخص ایسا دعویٰ کرتا ہے، اس کی دلیل اسی کے ذمے ہے۔“ 
(صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:213) 
 
تنبیہ :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے مذکورہ شعر پڑھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت ایک فیصلہ فرما رہے تھے۔ آپ نے یہ شعر سن کر فرمایا: اللہ کی قسم ! اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ (مسند الإمام أحمد:7/1، مصنف ابن أبي شيبه:20/12، طبقات ابن سعد:198/3، مسند أبي بكر للمروزي:91/1 )
لیکن اس کی سند ’’ضعیف ‘‘ ہے کیونکہ اس کا راوی علی بن زید بن جدعان جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔ نیز یہ ’’مختلط‘‘ بھی ہے۔ 
 
حافظ ہیشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : وضعفه الجمھور ”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ (مجمع الزوائد:209،206/8) 
 
حافظ ابن عراقی رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں : ضعفه الجمھور (طرح التثريب:82/1) 
 
علامہ بوصیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : والجمھور علی تضعيفہ ”جمہور محدثین کرام اسے ضعیف کہتے ہیں۔“ (مصباح الزجاجة:84) 
 
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں : وادعي عبدالحق أن الأكثر علی تضعيف علي بن زيد ”اور عبدالحق نے دعویٰ کیا ہے کہ اکثر محدثین علی بن زید کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ (البدر المنير:434/4) 
 
ابوالحسن ابراہیم بن عمر بقاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعفه الجمھور ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔“ (نظم الدررفي تناسب الآيات والسور:181/12) 
 
علی بن زید بن جدعان کو امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابن عدی (الكامل:413/4)، امام ابو حاتم رازی اور ابوزرعہ رازی (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:187/6) وغیرہم نے ضعیف، لیس بالقوی کہا ہے۔ 
 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ ہی قرار دیا ہے۔ (تقريب التھذيب:4734)

دلیل نمبر ۳
 
امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید بیان کرتے ہیں : 
كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يستفتح بصعاليك المھاجرين المعج.
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنگدست مہاجرین کے وسیلے سے فتح کی دعا کیا کرتے تھے۔ 
(المعجم الكبير للطبراني:292/1)
 
تبصرہ: اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ : 
(1) اس کی سند متصل نہیں۔ امیہ بن عبداللہ تابعی ہے اور ڈائریکٹ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہا ہے۔ 
 
جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں : 
لا تصح عندي صحبته، والحديث مرسل.
”میرے نزدیک اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں، لہٰذا یہ روایت مرسل (منقطع) ہے۔“ 
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب:38/1)
 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 
ليست له صحبة ولا رواية.
”اس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور روایت نہیں کی۔“ 
(الإصابة:133/1) 
 
امام ترمذی رحمہ اللہ (۲۰۰۔۲۷۹ھ) فرماتے ہیں : 
والحديث إذا كان مرسلا، فإنه لا يصح عند أكثر أھل الحديث، قد ضعفه غير واحد منھم.
”مرسل حدیث اکثر محدثین کرام کے نزدیک صحیح نہیں ہوتی۔ بہت سے محدثین نے مرسل کو ضعیف قرار دیا ہے۔“ 
(العلل الصغير في آخر الجامع،ص:896،897،طبع دارالسلام) 
 
(2) اس میں ابو اسحاق سبیعی کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔ سماع کی تصریح نہ مل سکنے کی بنا پر یہ روایت ”مدلس“ بھی ہے، لہٰذا یہ دو وجہوں سے ”ضعیف“ ہے۔ 

دلیل نمبر ۴
 
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: 
أبغوني في ضعفاءكم، فإنكم إنما ترزقون وتنصرون بضعفائكم
’’مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو۔ بلاشبہ تمہیں اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘ 
(مسند احمد 198/5، سنن ابي داود 2594، سنن النسائي:3181، سنن الترمذي:1702، وسند صحيح)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکم رحمه الله نے 
(105،104/2) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔
 
تبصرہ: معاشرہ کے کمزور اور نادار لوگ جو صالحین ہوں، ان کی نیکی اور دعا کی وجہ سے معاشرہ میں آسودگی آتی ہے، 
 
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : 
إنما ينصر الله ھذه الأمة بضعيفھا، بدعوتھم وصلاتھم وإخلاصھم.
’’اللہ تعالیٰ اس امت کی مدد ان کمزور لوگوں کی دعا، نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے کرتا ہے۔‘‘ 
(سنن النسائي:3180، حلية الأولياء لأبي نعيم لأصبھاني:26/5، وسنده صحيح) 
 
اس روایت گزشتہ ’’ضعیف‘‘ روایت کا معنی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث سے فوت شدگان کا توسل ثابت کرے تو اس کا یہ عمل دیانت علمی کے خلاف ہے۔ اس سے فوت شدگان کے توسل کا جواز ثابت کرنا شرعی نصوص کی تحریف ہے۔ اس سے تو زندہ لوگوں کی دعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اور اسے اہل سنت و الجماعت اہل الحدیث جائز اور مشروع ہی سمجھتے ہیں۔

دلیل نمبر ۵
 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپسی پر جعرانہ تشریف لائے۔ اس وقت قبیلہ ہوازن کے بچوں اور عورتوں میں سے چھ ہزار قیدی آپ کے ہمراہ تھے۔ اونٹوں اور بکریوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ ہوازن کا ایک وفد مشرف بہ اسلام ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے درخواست کی کہ ہم پر احسان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: قیدیوں اور اموال میں سے ایک چیز پسند کر لو۔ انہوں نے عرض کیا: ہمیں قیدی محبوب ہیں آپ نے فرمایا: جو قیدی میرے ہیں یا بنو عبدالمطلب کے ہیں، وہ تمہارے ہیں۔ باقی جو تقسیم ہو چکے ہیں، ان کے لیے یہ طریقہ اختیار کرو: 
وإذا ما أنا صليت الظھر بالناس فقوموا، فقولوا: إنا نستشفع برسول الله إلي المسلمين، وبالمسلمين إلي رسول الله في أبنائنا ونسائنا، فسأعطيكم عند ذلك وأسأل لكم.
’’جب میں لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھا دوں تو تم کھڑے ہو کر کہنا: ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہماری شفاعت (سفارش) فرمائیں اور مسلمان ہماری شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں، ہمارے بیٹوں اور عورتوں کے حق میں، تو میں تمہیں اس وقت عطا کر دوں گا اور تمہاری سفارش کروں گا۔‘‘
انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اکثر صحابہ نے عرض کی : جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ آپ کا ہے۔ باقی صحابہ سے آپ نے وعدہ فرمایا کہ ہر قیدی کے بدلے مالِ غنیمت سے چھ اونٹنیاں دی جائیں گی۔ اس طرح ہوازن کو تمام قیدی واپس مل گئے۔ 
(سيرة ابن ھشام مع الروض الأنف:306/2، وسنده حسن)

تبصرہ: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زندہ انسان سے سفارش کروائی جا سکتی ہے، سو اس سے اہل سنت و الجماعت انکاری نہیں۔ اس سے فوت شدگان کی شخصیات کا توسل کیسے ثابت ہوا؟ یہ تو ہماری دلیل ہے جو نادان دوست خود ہی پیش کیے جاتے ہیں۔
 
اس تحریر کا دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...