Wednesday 30 November 2016

گھبراہٹ میں پرسکون کیسے رہا جائے

گھبراہٹ میں پرسکون کیسے رہا جائے
(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ)
وہ مسائل جو قابلیت کے باوجود آپ کو منزل سے دور کر دیتے ہیں.
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟؟* گھبراہٹ،خوف،ایمرجنسی یا بحران کی حالت میں پرسکون کیسے رہا جا سکتاہے؟
* انٹرویو دینے سے پہلے آپ پر گھبراہٹ کیوں طاری ہو جاتی ہے؟
* کیا آپ لوگوں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں؟
* کیا اچانک پیش آنیوالی کوئی غیر متوقع صورتحال میں آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں؟اور ایک بہتر کردار ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں؟
* کیا یہ خوف اور گھبراہٹ آپ کے رستے کی رکاوٹ تو نہیں؟
* گھبراہٹ ،ذہنی الجھن،نروس نس یا کنفیوژن کیا ہوتی ہے؟اور کیوں ہوتی ہے؟
* انسانی جسم میں وہ کون سے عوامل و عناصر ہیں جو اس کا سبب بنتے ہیں؟
* کیا ان مسائل پر قابوپا کر آپ ایک طاقتور شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں؟
حقائق
اینگزائیٹی اینڈ ڈیپریشن ایسوسی ایشن آف امریکہ کے مطابق 18%ٹین ایجرز جبکہ 40%بالغ افراد زندگی کے مختلف معاملات میں گھبراہٹ خوف یا پریشانی کا شکار رہتے ہیں۔تا ہم پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگوں کا تعلیمی معیار امریکہ کی نسبت بہت کم ہے یہ شرح اور بھی زیادہ ہے۔90%لوگ مطلوبہ قابلیت رکھنے کے باوجود انٹرویو میں فیل ہو جاتے ہیں جسکی بڑی وجہ محض گھبراہٹ ہے۔ایک سروے کے مطابق خواتین مردوں کی نسبت دو گنا زیادہ گھبراہٹ اور خوف کا شکار رہتی ہیں۔گھبراہٹ،خوف یا پریشانی کیا ہے؟نفسیات کے مطابق کسی ناخوشگوار حالت کے نتیجے میں ہمارے ذہن میں پیدا ہونیوالی وہ کشمکش جو ہائی بلڈپریشر،تیز دھڑکن،سانس لینے میں دشواری اوراسی طرح کی دیگر علامات کا سبب بنتی ہے گھبراہٹ کہلاتی ہے۔ہماری روزمرہ زندگی کے واقعات میں پیدا ہوئی وہ ناخوشگوار تبدیلی جو ہماری توقع کے برعکس ہویا معمول سے ہٹ کر بہتر کارکردگی کا مطالبہ کرتی ہوہمیں اکثر گھبراہٹ یا خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔یہ ماحول کے خلاف ہمارا وہ نفسیاتی ردِعمل ہے جو براہِ راست جسم پراثرانداز ہوتا ہے۔اس کیفیت کا ہمارے دماغ اور اعصابی نظام سے گہرا تعلق ہے۔سائنس کے مطابق کسی ہنگامی صورتحال میں ہمارے دماغ میں پیدا ہونیوالے کچھ کیمیکلز اس تبدیلی کے ذمہ دار ہیں۔لہٰذا گھبراہٹ ماحولیاتی عناصر نفسیاتی عوامل اور جسمانی کیفیات کا ایک ناخوشگوار مکسچر ہے۔
اہم سوال
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر گھبراہٹ ،خوف اور اسی طرح کے دیگر جذبات کسی ممکنہ صورتحال کے خلاف ہمارے دماغ کا ردِعمل ہیں اور ان کا تعلق ہمارے دماغ کی اندرونی ایکٹیویٹی سے ہے۔تو کیا ہماے اندر دماغ کی اس ایکٹیویٹی کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت موجود ہے؟وہ کون سے اقدامات ہیں جو ہمیں ایسی کسی بھی صورتحال سے نپٹنے کے لئے تیار کر سکتے ہیں؟اس آرٹیکل کا بنیادی مقصد وہ گھبراہٹ ،کنفیوژن یا خوف ہے جو کسی ایمرجنسی یا کسی غیر متوقع یا نئی صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے ہم پر طاری ہو جاتی ہے۔کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اکثر انٹرویو میں آپ پوری طرح قابلیت رکھنے کے باوجود سیلیکٹ نہیں ہو پاتے کیوں کہ آپ پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے اور آپ انٹرویو میں مطلوبہ خود اعتمادی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے جبکہ آپ کے کچھ ساتھی معمولی قابلیت رکھنے کے باوجود آپ سے آگے کیوں بڑھ جاتے ہیں؟کیا آپ کو اپنی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ یاد ہے جب آپ کو کسی غیر متوقع یا ہنگامی صورتحال سے واسطہ پڑا ہو اور حالات سے نپٹنے کی پوری صلاحیت رکھنے کے باوجود آپ محض بوکھلاہٹ یا گھبراہٹ کی وجہ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پائے ہوں؟کیا آپ لوگوں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو یہ آرٹیکل اس سلسلے میں آپ کی توجہ کا طالب ہے کہ آپ ان مسائل پر قابو پا کر ایک کامیاب زندگی کی طرف قدم بڑھا سکیں۔
1: سیلف کنٹرول
سیلف کنٹرول ہمیں ذہن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت(Thinking brain)کی طرف سے ملنے والا تیکنیکس کا وہ سیٹ ہے جو کسی بھی غیر متوقع یا ناخوشگوار صورتحال کو برداشت کرنا اور اس پر قابو پانا سکھاتا ہے۔اگر آپ سیلف کنٹرول کے ان قوانین کو سمجھ لیں اور مشکلات میں ان پر عمل کرنا سیکھ لیں تو آپ کسی ناخوشگوار معاملے کی شدت کو پچاس فیصد تک کم کر سکتے ہیں۔یہ سیلف کنٹرول ذہنی سکون کا سبب بنتا ہے اور اگر آپ اپنے ذہن کو پرسکون رکھنا جانتے ہیں تو ہر طرح کے حالات میں پرسکون رہ سکتے ہیں۔
2: ارتکازِتوجہ مسئلے کے حل کی جانب اہم قدم
کسی ایمرجنسی یا مسئلے کی صورت میں اپنی پوری توجہ کو حالات پر مرکوز کر دیناگھبراہٹ پر قابو پانے اور صورتحال سے نپٹنے کی جانب پہلا قدم ہے ۔یاد رکھیں گھبراہٹ اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس پر قابو پانے کی کوشش نہ کرنا یا اس کوشش میں ناکام رہنا اصل مسئلہ ہے۔گھبراہٹ یا پریشانی کی حالت میں یقیناً آپ کا ذہن حالات سے فرار چاہتا ہے مگر مسائل کی جانب سے یہ ذہنی فرار انھیں مزید سنگین کر دیتا ہے کسی معاملے میں گھبراہٹ کی صورت میں بلاجھجک صورتحال کا سامنا کرنے کی طرف قدم بڑھائیں اور اپنے ذہن کو خرافات میں نہ الجھنے دیں۔
3: خود اعتمادی
خود اعتمادی ایک انسان کا اپنی ذات سے وہ رابطہ ہے جو اسے کسی مخصوص صورتحال میں خود کو پرکھنا،صورتحال کا مقابلہ کرنا اور صورتحال کے مطابق ڈھلنا سکھاتا ہے۔کسی غیرمتوقع یا ناخوشگوار صورت میں آپ کا سب سے پہلا رابطہ خود اپنی ذات سے ہونا چاہیے۔یہ خود اعتمادی اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کے ادراک اور ان کے اعتراف سے پیدا ہوتی ہے۔ اپنے آپ کو ،اپنی صلاحیتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو آپ حالات کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔ٖقدرت کا اصول ہے کہ ہمیں اکثر اوقات جن مسائل سے واسطہ پڑتا ہے ان کا حل بھی ہمارے پاس ہی کہیں موجود ہوتا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ انسان کے اندر اس صورتحال سے نپٹنے کی پوری صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔مگر اکثر اوقات خود پر اعتماد کی یہ کمی ہمیں ان حالات میں گھبراہٹ کا شکار بنا دیتی ہے ۔
4: حالات کا تجزیہ
کسی بحران یا ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنے کے لئے اپنی ذات اور صلاحیتوں کے تجزیے کے بعد آپ کا اگلا قدم حالات کا تجزیہ ہونا چاہیے۔کسی مسئلے یا صورتحال کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعد آپ کا ذہن حالات کے مطابق حکمتِ عملی ترتیب دینے کی صلاحیت بھی پیدا کر لیتا ہے۔گلیلیو نے کہا تھا کہ سچائی کو سمجھنا آسان ہوتا ہے جب وہ دریافت ہو جائے لیکن اسے دریافت کرنا ہی اصل مسئلہ ہوتا ہے۔اسی طرح کسی بھی صورتحال پر قابو پانا اصل مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ اہم مسئلہ صورتحال کی نوعیت کو سمجھنا ہوتا ہے۔معاملے پر پوری توجہ مرکوز کرتے ہوئے صورتحال کے تمام پہلوؤں کا بغور جائزہ لیں اور حالات کے مطابق اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیں۔
5: اپنی کارکردگی کا تعین
صورتحال کا جائزہ لینے اور ایک بہتر حکمتِ عملی ترتیب دینے کے بعد آپ کا اگلا قدم اپنی کارکردگی کا تعین ہے کہ آپ کو اس صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے کیا کرنا ہے ؟اور کیسے کرنا ہے؟وقت اور جگہ کے لحاظ سے اپنی پوزیشن کا صیح ادراک ایک درست لائحہ عمل ترتیب دینے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔حالات کی نوعیت کیا ہے؟آپ کی حیثیت کیا ہے؟ اور آپ کے اندر وہ کون سی صلاحتیں اور خوبیاں موجود ہیں جو آپ کی معاون بن سکتی ہیں ؟یہی وہ سوال ہیں جن کا جواب ایک بہتر کارکردگی کے تعین میں آپ کا مددگار ہو سکتا ہے۔
6: ذہن کا الجھاؤ دور کریں
ایک بہتر کارکردگی کے لئے ایک بہتر ذہنی کیفیت کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے خدشات ،وہم اور وسوسے جسکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں۔ یہ ذہنی الجھاؤ آپ کو عمل سے دور کر دیتا ہے۔ اپنے ذہن کو ایسے کسی بھی خیال کی آماجگاہ نہ بننے دیں اور صرف کامیابی پر یقین رکھیں۔
7: حقائق کو قبول کریں
حقیقت پسندی انسانی شخصیت کی وہ خوبی ہے جو اسے ہر طرح کے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کے قابل بنا دیتی ہے اور یہی خوبی اس کے اندر قوتِ برداشت بھی پیدا کرتی ہے۔صورتحال کے مطابق ڈھلنے اورقوتِ برداشت ہی وہ عناصر ہیں جو انسان کو معاملات میں الجھ کر انھیں سلجھانا سکھاتے ہیں۔صورتحال کو حقائق کے پس منظر میں قبول کرنے سے آپ بہتر لائحہ عمل ترتیب دے سکیں گے۔
8: ڈیپریشن سے بچاؤ
ناکامی کا خوف اکثر ڈیپریشن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ناخوشگوار حالات میں خود کو ڈیپریشن سے بچانا اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہ عملی اقدامات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کر لیتا ہے۔
9: صورتحال کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں
کسی بھی غیر متوقع یا ناخوشگوار صورتحال کا سامنا ہمارے اندر دو طرح کے خیالات( ویوز) پیدا کرتا ہے۔پوزیٹو اور نیگیٹو۔نیگیٹو ویوز ہمارے اندر خوف گھبراہٹ اور اسی طرح کے دیگر جذبات کو جنم دیتی ہیں جبکہ پوزیٹو ویوزسوچنے سمجھنے کی صلاحیت(Thinking brain) کی پیداوار ہیں۔ایسی کسی بھی صورت میں اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو پوری طرح بیدار رکھنے کی کوشش کریں اور اپنے Thinking brain کو نیگیٹو ویوز کے ہاتھوں ہائی جیک نہ ہونے دیں۔
10: دوسروں کی کامیابیوں سے سبق سیکھیں
ان لوگوں کے حالات کو ذہن میں لائیں جنھوں نے مشکلات میں خود پر اور حالات پر قابو پا کر کامیابی کی مثالیں قائم کیں۔ان کے تجربات آپکی ہمت وحوصلہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
11: اپنے اندر موجود آٹومیٹک سسٹم آن کریں
کسی بھی دوا کا بنیادی مقصد ہمارے اندر موجود اس قدرتی نظام کی مدد کرنا ہوتا ہے جو تندرستی میں معاون ہے۔یاد رکھیں کوئی بھی دوا بیماری کو صحت میں نہیں بدل سکتی یہ صرف ہمارے اندر موجود اس مدافعتی نظام کومدد فراہم کرتی ہے جو کسی بیماری کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔بیماری کے حملہ آور ہونیکی صورت میں یہ آٹومیٹک سسٹم خود بخود آن ہو جاتا ہے۔گھبراہٹ ، پریشانی یا ناکامی کا خوف اصل میں نفسیاتی بیماریاں ہیں۔ان نفسیاتی بیماریوں کے حملہ آور ہوتے ہی جسم کا مدافعتی سسٹم بھی آن ہو جاتا ہے۔آپ کی مثبت سوچ اس سسٹم کو قوت فراہم کرتی ہے جبکہ منفی سوچ اس کی کارکردگی تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔کسی بھی ناخوشگوار صورتحال میں مثبت سوچ اپنا کر اس آٹومیٹک سسٹم کو مدد فراہم کریں اور منفی سوچ کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں۔
12: مشکل میں گھبرانا اصل مشکل ہے
اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ زندگی میں پیش آنیوالی کوئی بھی صورت بظاہر اتنی پریشان کن نہیں ہوتی بلکہ یہ ہماری منفی نفسیات کی دوربین ہوتی ہے جو ناخوشگوار عناصر کو Magnify کر دیتی ہے۔یاد رکھیں زندگی میں ایسا کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا ہمارے اندر جس کا سامنا کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔ گھبراہٹ یا خوف میں اپنی ان صلاحیتوں کو ماند نہ پڑنے دیں اور حالات کو منفیت کی عینک کے بجائے حقیقت کی آنکھوں سے دیکھیں ۔
13: حالات پر رحم کریں
برے حالات ،مسائل ،چیلنجز اور مصائب آپ کی توجہ کے متقاضی ہوتے ہیں۔مگر اکثر اوقات گھبراہٹ ،ڈیپریشن یا شدید قسم کا ردِعمل خود آپ کو قابلِ رحم بنا دیتا ہے۔لہٰذا خود کو قابلِ رحم بنانے سے کہیں بہتر اور پسندیدہ عمل ہے کہ آپ حالات پر رحم کریں اور اپنی پوری کوشش اور توجہ سے ان کا سامنا کریں ۔یہ ردِ عمل نہ صرف مسائل کی شدت کو کم کر دیتا ہے بلکہ آپ کی شخصیت کو اعتماد بھی عطا کرتا ہے۔
14: مثبت پہلوؤں پر توجہ دیں
پریشانی اور فکرمندی گھبراہٹ اور خوف کے مثبت پہلو ہیں ۔گھبراہٹ اور ناکامی کا خوف آپ کو عمل سے دور کر دیتا ہے جبکہ فکر مندی عملی سوچوں کے دروازے کھولتی ہے۔گھبراہٹ سے بچنے کے لئے مسائل کی طرف سے آنکھیں بند نہ کریں بلکہ انکے بارے میں فکر کریں۔فکر عمل کی راہ دکھاتی ہے جبکہ گھبراہٹ اور خوف وہم اندیشے اور بے عملی کی طرف لے جاتے ہیں۔
15: احساسِ کمتری سے نجات
خود کو کسی بھی صورت میں کمتر نہ سمجھیں۔احساسِ کمتری ہی دراصل وہ برین ٹیومر ہے جو آہستہ آہستہ ہماری صلاحیتوں کو ناکارہ بناتا چلا جاتا ہے۔اسکا بروقت علاج کیجییے۔اپنے اندر جھانک کر دیکھیں ۔آپ کسی سے کم نہیں ہیں،آپ کے اندر ایسی بہت سی خوبیاں ہیں جو دوسرے لوگوں میں نہیں پائی جاتیں۔یہ اعتماد آپ کو نہ صرف لوگوں کا بلکہ ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا سکھا دیگا ۔
16: بہتر کارکردگی کے نتائج کا تصور
فرض کریں آپ انٹرویو دینے جا رہے ہیں یا لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنا کرنے جا رہے ہیں۔غور کریں اگر آپ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کے نتائج کیا ہونگے؟یہ نتائج آپ کی کامیابیوں اور آگے بڑھنے کے لئے کس قدر اہم ہو سکتے ہیں؟انٹرویو سے پہلے اس قسم کے سوالات پر توجہ مرکوز رکھیں تو آپ زیادہ بہتر کرکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
17: ناقص کارکردگی کے نتائج
فرض کریں آپ جس ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنے جا رہے ہیں ،کسی اہم میٹنگ یا انٹرویو کے لئے جا رہے ہیں تو اگر آپ گھبراہٹ یا کنفیوژن کی وجہ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر پائے تو اس کے کیا اثرات ہونگے؟ہو سکتا ہے اس کی وجہ سے آپ زندگی کا ایک سنہری موقع ضائع کر دیں اور آپ کی بہت سی توقعات ادھوری رہ جائیں!اگر آپ کا ذہن ناقص کارکردگی کے نتائج سے آگاہ ہے تو یہ یقیناً ایک بہتر کارکردگی کا راستہ ڈھونڈ ہی لے گا۔
18: موٹیویشن
معاملات کے اسباب و وجوہات پر غور کریں۔یہ غور و فکرآپ کو Motivateکر سکتا ہے۔یہی Motivationآپ کی صلاحیتوں کو کارآمد بنا سکتی ہے اور آپ کو ایک بہترین آؤٹ پٹ دینے کے قابل بناتی ہے۔
19: نالج Knowledge
صورتحال کا جائزہ لے کر اس کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کریں۔ مثلاً اگر آپ کسی کمپنی میں انٹرویو دینے جا رہے ہیں تو اس کمپنی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کریں۔یہ ابتدائی معلومات جتنی زیادہ ہونگی انٹرویو کے دوران آپ اتنا ہی کم گھبراہٹ کا شکار ہونگے۔
20: صورتحال میں انوالو لوگوں سے مظبوط رابطہ
کسی بھی ایمرجنسی یا پریشان کن صورت میں اس صورتحال سے وابستہ لوگوں سے مظبوط رابطہ صورتحال کو ہینڈل کرنے کے لئے بہترین مدد فراہم کر سکتا ہے۔اپنی ذات میں سمٹنے کے بجائے لوگوں سے کھل کر بات کرنے کی کوشش کریں۔یہ رویہ نہ صرف آپ کی گھبراہٹ دور کریگا بلکہ آپ لوگوں سے ایک مظبوط رابطہ بنا سکیں گے جو بلا جھجک لوگوں کا سامنا کرنے یا دورانِ انٹرویو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے بہت اہم ہے۔
21: ذہن کو بیدار رکھیں Mental activeness
ذہنی بیداری اور حاضر دماغی حالات کے مطابق درست فیصلہ کرنے کی قوت فراہم کرتی ہے۔انٹرویو کے دوران یہی حاضر دماغی حاضر جوابی کی صورت میں سامنے آتی ہے اور آپ کی شخصیت کا نہایت اچھا امیج قائم کرتی ہے۔
22: ٍفرسٹ امپریشن از لاسٹ امپریشن
یاد رکھیں کسی بھی معاملے میں آپ کی شخصیت کا سب سے پہلا تاثر ہی پراثر اور دیر پا ہوتاہے۔یہ پہلا تاثر جتنا بہتر اور جاندار ہوگا آپ آگے بھی اتنی ہی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔گھبراہٹ اور خوف کے اثرات بھی کسی بھی صورتحال میں پہلے چند منٹوں کے اندرہی ظاہر ہوتے ہیں۔اگر آپ معاملات کے ابتدائی مراحل پر گرِپ کر لیں تو تمام معاملات کو بہتر طور پر ہینڈل کر سکیں گے۔
23: اپنے پیغام پر توجہ مرکوز رکھیں
اگر آپ کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا سامنا کرنے جا رہے ہیں اور گھبراہٹ کا شکار ہیں ۔تو لوگوں کے بارے میں سوچنے کی بجائے صرف اپنے پیغام پر توجہ مرکوز کریں۔آپ کو کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے یہ زیادہ اہم ہے نہ کہ آپ کے اندر کا خوف اور گھبراہٹ یا آپ کے بارے میں لوگو ں کے تاثرات۔
24: ذہنی رابطہ
ناخوشگوار یا کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں متعلقہ لوگوں کے ساتھ ایک بہتر اور قابلِ اعتماد ذہنی رابط صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے اور اسے ہینڈل کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔لوگوں کی بات کو توجہ سے سنیں اور خود بولنے کی بجائے پہلے دوسروں کو بات کرنے کا موقع دیں اس طرح آپ ایک ذہنی اعتماد کی فضا پیدا کر سکیں گے۔
25: آنیوالی صورتحال کا تصور
ٓٓٓاپنے ذہن میں آنیوالی صورتحال کا خاکہ بنائیں۔اگر آپکو لوگوں کا سامنا کرنا ہے تو کیا حالات درپیش ہو سکتے ہیں،آپ جو کہنے یا سننے جا رہے ہیں آپ پر اور دوسروں پر اس کے کیا اثرات ہونگے۔اگر آپ انٹرویو کے لئے جا رہے ہیں تو کس قسم کے سوالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔متوقع سچوایشن کا یہ تصورآپ کو صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کر نے میں نہایت اہم ہے۔
26: مضبوط قوتِ ارادی کامیابی کی ضمانت
قوتِ ارادی انسانی شخصیت کی وہ اہم خوبی ہے جس نے آج تک انسان کو دنیا میں پیش آنیوالی ہر قسم کی تبدیلی اور ہر قسم کے حالات سے نپٹنا اور ان پر قابو پانا سکھایا ہے۔یہ قوت اپنی صلاحیتوں کے ادراک سے پیدا ہوتی ہے۔قوتِ ارادی کا یہ عنصر گھبراہٹ ،خوف اور ایسے ہی دیگر عوامل کو پہلے ہی لمحے میں بے اثر بنا دیتا ہے۔
27: اپنے ذہن کی طاقت کو جانیں
انسانی ذہن حالات کو سمجھنے ،ان کے مطابق ڈھلنے اور ان پر قابو پانے کی صلاحیت سے بھرپور ہے۔مگر یہ زیادہ تر ہمارے خدشات اور نفسیاتی عوارض ہی ہوتے ہیں جو ان صلاحیتوں کو زنگ آلود بنا دیتے ہیں۔اور آپ پوری صلاحیت رکھنے کے باوجودمحض گھبراہٹ یا خوف کے سبب حالات کا سامنا کرنے اور ان پر قابو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔
28: پر سکون رہیں Take it easy
خوف اور گھبراہٹ کے عالم میں یہ وہ بہترین جملہ ہے جو آپ خود سے کہہ سکتے ہیں۔آپ کی گھبراہٹ صورتحال کو مزید ابتر بنا سکتی ہے۔دل و ذہن کو پرسکون رکھیں تو آپ معاملات میں الجھنے کی بجائے ان کے حل پر زیادہ توجہ دے سکیں گے۔
29: سانس اور خیالات میں گہرا تعلق
انسانی سانس اور خیالات پر ہونیوالی سائنسی تحقیق اس بات کا واضح ثبوت ہے اور یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ بھی ہے کہ انسانی سانس اور خیالات میں گہرا تعلق ہے۔گھبراہٹ یا خوف کے باعث سانس کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔سانس کی ابتر حالت خیالات کی ابتری کو جنم دیتی ہے۔یوگا کے ماہرین ذہنی یکسوئی،ارتکازِ توجہ اور ذہنی سکون کے حصول کے لئے سانس کی مشقیں تجویز کرتے ہیں۔
30: سانس کی مشق
ٖفرض کیجیئے آپ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سے مخاطب ہونے جا رہے ہیں یا انٹرویو کی لئے جا رہے ہیں ایسی صورتحال میں گھبراہٹ یا بے چینی کا شکارہونا ایک حالات کے خلاف ایک نارمل اور قدرتی ردِعمل ہے۔مگر آپ اپنی شعوری کوشش سے اس ردِ عمل کو اگر ختم نہیں تو کم ضرور کر سکتے ہیں۔اطمینان سے بیٹھ جائیے،چند لمحات کے لیے اپنے ذہن سے تمات خیالات نکال دیں اور اسے پر سکون ہونے دیں ایک گہرا سانس لیجیے اورچند لمحات رکنے کے بعد اسے دھیمی رفتار سے خارج کیجیئے۔یہ عمل چھ سے سات مرتبہ دہرائیے۔سانس کا یہ جادوئی اثر آپ کو فوری طور پر ذہنی سکون مہیا کر سکتا ہے اور آپ باآسانی اپنی گھبراہٹ یا خوف پر قابو پا سکتے ہیں۔
31: اعصاب کو پرسکون رکھیں
ذہنی سکون آپ کو نفسیاتی اور اعصابی طور پر بھی پرسکون بنا دیتا ہے۔حقیقت میں یہ ہمارے اعصاب ہی ہیں جوذہن وجسم کا تعلق جوڑتے ہیں۔اعصاب ہی کے ذریعے ہماری ذہنی کیفیات کا اثر ہمارے جسم پر پڑتا ہے اور جسم پر مرتب ہونیوالے اثرات ذہن پر اثرانداز ہوتے ہیں۔خود پر اعتماد آپ کے اعصاب کو مضبوط بنادیتا ہے اور آپ کو ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرتا ہے۔
32: نفسیاتی اور جسمانی صحت میں گہرا تعلق
انسان کی نفسیات اور جسمانی صحت میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔اگرنفسیاتی الجھنیں ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہیں توجسمانی صحت کی خرابی نفسیاتی الجھنوں کو جنم دیتی ہے۔جسمانی و نفسیاتی طور پر صحتمند انسان کبھی گھبراہٹ اور خوف کا شکار نہیں ہوتااور ہر قسم کی صورتحال کو با آسانی ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
33: پرامیدی Optimism
پرامیدی انسانوں کو قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا وہ تحفہ ہے جو انھیں ہر حال میں جینے اور ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا سکھاتا ہے۔پرامیدی انسان کو خود پر یقین دلاتی ہے اور اندھیرے میں بھی روشنی کی کرن دکھاتی ہے۔نہ صرف آنیوالے وقت سے بلکہ خود سے بھی بہتر امید رکھیں ۔اسی امید سے یقین جنم لیتا ہے جو کامیابی کی ضمانت ہے۔
34: ناکامی کا خوف
ناکامی کا خوف آپ کو ناامیدی کی طرف دھکیلتا ہے۔یاد رکھیے اگر آپ واقعی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس کامیابی کا آپ کے ذہن میں موجود ہونا ضروری ہے۔اگر آپ کے ذہن میں پہلے ہی سے ناکامی کا خوف موجود ہے تو آپ کبھی انٹرویو میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔یہی ناکامی کا خوف آپ کو ہر معاملے میں دوسروں سے پیچھے دھکیلتا ہے۔اور مایوسی کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔
35: گھریلو ماحول کا کردار
انسانی عادات ورویے کی تربیت میں گھر اور ارد گرد کا ماحول نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔اگر گھر کے ماحول میں الجھن یا دیپریشن کا عنصر غالب ہے تو یہ گھر کے افراد کے رویوں پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔خاص طور پر اس ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے کبھی زندگی کے مسائل کو صیح طور پر برتنے کا ڈھنگ نہیں سیکھ پاتے۔ایک ریسرچ کے مطابق 95% گھبراہٹ۔ناکامی کا خوف اور مسائل کا سامنا کرنے سے فرار جیسے نفسیاتی مسائل کا پس منظر ماحولیاتی اثرات ہی ہوتے ہیں۔لہٰذا گھر میں ایک بہتر ماحول فراہم کر کے شروع ہی میں بچوں کی شخصیت کو ان منفی اثرات سے بچایا جا سکتا ہے۔ٖٖٖٖ
36: ماحولیاتی تربیت Learned behaviour
انسانی زندگی دو طرح کے رویوں سے عبارت ہے ایک فطری رویہ جوقدرت کی طرف سے سب کو عطا ہوا ہے ۔دوسرا وہ رویہ جوتربیت اور ماحول سے جنم لیتا ہے۔اسے Learned behaviour کہتے ہیں۔ اصل میں علم کا بنیادی مقصد بھی انسانی رویے اور عادات واطوار کی تربیت ہوتا ہے نہ کہ محض معلومات میں اضافہ۔بعض اوقات خوف یا گھبراہٹ کا عنصر موروثی بھی ہوتا ہے۔تاہم پھر بھی کوشش علم اور تربیت حاصل کرنے کی قدرتی صلاحیتوں سے کام لے کر اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
37: فضولیات سے گریز
گھبراہٹ،ذہنی دباؤ یا کنفیوژن کی حالت میں اپنی باڈی لینگوئج اور گفتگو میں کفایت شعاری کا مظاہرہ کریں۔ فضول حرکات و سکنات اور غیر ضروری باتوں سے گریز کریں۔ بار بار بالوں کو درست کرنا،چہرے یا جسم پر خارش کرنااور اسی قسم کی دیگر فضول حرکات گھبراہٹ کی نشاندہی کرتی ہیں۔خاص طورپر انٹرویوکے دوران جہاں آپ کی ہائیرنگ 80% آپ کی پرسنیلیٹی سکِلز پر منحصر ہوتی ہے آپ کے CV پر درج معلومات کا اثر محض 20% فیصد ہی ہوتا ہے۔
38: درست الفاظ اور لہجے کا انتخاب
گفتگو انسانی شخصیت کی دار ہوتی ہے ۔لفظ اور لہجہ گفتگو کے دو اہم اجزاء ہیں۔سیلف کنٹرول اور درست اندازِ گفتگو کسی بھی سچوایشن میں آپ کی شخصیت کا بہترین تاثر اجاگر کر سکتے ہیں۔پرسکون لہجہ اپنانے کی کوشش کریں اور مناسب اور پراثر الفاظ کا انتخاب کریں۔شروع میں آپ کو اس میں کچھ دشواری محسوس ہوگی مگربار بار کی گئی کوشش اور پریکٹس مہارت کی ضمانت ہے۔
39: قوت فیصلہ Power of decision making
صیح وقت پر صیح فیصلہ انسانی شخصیت کی بہترین خوبی اور عقلمندی کی پہلی نشانی ہے۔یہ صلاحیت زندگی میں کسی بھی موقع پر ناکام نہیں ہونے دیتی۔ٖوقت اور حالات کا درست تجزیہ اور عقل و شعور کا درست زاویہ مل کر ایک بہتر قوتِ فیصلہ کو جنم دیتے ہیں۔
40: سپورٹس مین سپرٹ
سپورٹس مین سپرٹ وہ عظیم جذبہ ہے جو انسان کو ہمت ،حوصلہ اور زندگی گزارنے کے درست طور طریقوں سے آگاہ کرتا ہے۔لوگوں سے میل جول اور مل کر کام کرنا انسانی شخصیت کو اس جذبے سے آگاہ کرتا ہے۔یہی وہ جذبہ ہے جو کسی بھی قسم کی صورتحال میں گھبراہٹ یا خوف کا شکار نہیں ہونے دیتا۔
41: اندر کی آواز Inner voice
اپنے اندر کی آواز سننے کی کوشش کریں اور اسے اہمیت دیں یہ آپ کو درست رہنمائی فراہم کر سکتی ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت میں آپ کی حکمتِ عملی کو درست راستے پر ڈال سکتی ہے۔نہ صرف یہ بلکہ آپ کواعتماد اور خود پر کنٹرول بھی فراہم کرتی ہے۔
42: سوچ کی تربیت
اپنی سوچ ہمت اور حوصلے کو درست زاویے پر استوار کیجیئے۔ایک بہترین اور مثبت سوچ ہی ایک بہترین اور جاندار شخصیت کی ضامن ہو سکتی ہے۔اور ایک بہتر شخصیت ہی زندگی کے معاملات کو بہتر طریقے سے ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔سوچ کی اس تربیت کے لئے ایک دو دن کی مشق نہیں بلکہ ایک لمبا عرصہ اور مستقل مزاجی درکار ہوتی ہے۔اگر آپ اپنی گھبراہٹ ،کنفیوژن یا خوف پر قابو پانا چاہتے ہیں تو اسی لمحے سے اپنی سوچ کی تربیت شروع کریں اور اسے اپنی زندگی کی روٹین میں شامل کر لیجیئے تو یہ ہر قدم پر آپ کی مددگار ثابت ہوگی۔
43: چلنجز کو قبول کرنا Accept challenges
چلنجز کو قبول کرنا زندگی کی دوڑ میں کامیابی کا نہایت اہم نسخہ ہے۔چلنج قبول کرنے کی یہ عادت ہی زندگی گزارنے کا عملی سبق دیتی ہے۔ہر نئی سچوایشن کو ایک چلنج سمجھ کر قبول کریں تو یقیناآپ دوسروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔
44: سماجی تعلقات Social relations
Public Speaking وہ ناخوشگوار صورتحال ہے جس کا ہم اکثر سامنا کرتے ہیں اور یہی وہ صورتحال ہے جس سے ہم زیادہ گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ واقعی ایسی کسی بھی صورتحال میں گھبراہٹ، خوف یاکنفیوژن پر قابو پانا سیکھنا چاہتے ہیں تو ایک مخصوص ماحول میں سمٹنے کی کوشش نہ کریں۔اپنے حلقہ احباب اور میل جول کا دائرہ وسیع کیجیئے۔ فیملی اور فرینڈز کے علاوہ معاشرے کے دیگر افراد سے رابطہ قائم کرنا اور لوگوں کا سامنا کرنے کی عادت اپنائیں۔اعتماد اور کامیابی کی راہ ہموار کرنے کی یہ نہایت اہم حکمتِ عملی ہے۔
45: اپنے احساسات کو تحریر کریں
فرض کریں آپ کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کے کچھ معزز ارکان کے سامنے پریزنٹیشن دینی ہے اور آپ کو اس کی ڈیڈ لائن بھی مل چکی ہے ۔مگر آپ گھبراہٹ کا شکار ہیں ۔ تو ایک پرسکون کمرے میں تنہا بیٹھ کر اپنے خیالات، جذبات اور مینٹل پریشر کو کاغذ اور قلم کے سپرد کر دیجیئے۔سائیکولوجی کے مطابق یہ طریقہ کار ذہنی صفائی اور فضول خیالات سے چھٹکارے کے لئے نہایت معاون ہے۔
46: اخلاص کا مظاھرہ کریں Be fair
نہ صرف اپنے آپ بلکہ اپنے ارد گرد کے حالات اور لوگوں کے ساتھ بھی فیئر رہیں۔کسی بھی صورتحال میں کسی بھی قسم کی غلط بیانی یا دھوکہ دہی کا استعمال نہ کریں ہی رویہ نہ صرف آپ کی شخصیت کو کھوکھلے پن کا شکار بنا دیگا بلکہ آپ کو گھبراہٹ اور الجھن میں بھی مبتلا کر دیگا جبکہ ایک مخلصانہ رویہ آپ کو ایک پر اثر شخصیت فراہم کرتا ہے۔
47: سچے اور کھرے رہیں Be original
اپنی شخصیت کو تضادات سے پاک رکھیں ۔ویسا نظر آنے کی کوشش نہ کریں جیسے آپ نہیں ہیں۔خود پر اعتماد رکھیں کہ آپ سب سے بہتر ہیں اور مزید بہتر ہو سکتے ہیں ۔یقین رکھیں یہ رویہ کسی بھی صورت میں گھبراہٹ ،کنفیوژن یا ناکامی کے خوف کو آپ کے قریب بھی نہ پھٹکنے دے گا۔
48: نرمی سے پیش آئیں Be polite
ڈیپریشن اور گھبراہٹ اکثر اوقات ہمارے رویے میں سختی یا غصے یا چڑچڑے پن کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے۔اگر آپ ایسی ہی کسی صورتحال سے دوچار ہیں تو چند لمحات کے لئے خود کو پرسکون کیجیئے اور اپنے اس رویے کا بغور جائزہ لیجیے کہیں اس کی وجہ آپ کے اندر کا خوف یا کوئی گھبراہٹ تو نہیں ہے۔ خود کو پرسکون کرنے اور اپنے رویے میں نرمی اور لچک پیدا کرنے کی کوشش کریں۔آپکی شخصیت کی یہFlexibiliytآپ کو ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنا سکھاتی ہے۔
49: اپنی خامیوں کو تسلیم کریں
ہماری ہر ناکامی کے پیچھے ہماری کچھ کوتاہیاں اور خامیاں ضرور ہوتی ہیں۔ان غلطیوں یا خامیوں کو تسلیم کر لینے کے بعد ان کا وجود باقی نہیں رہتا۔خود آگاہی کا یہ رویہ اگر آپ کی ذات کا حصہ بن جائے تو نہایت مثبت اثرات پیدا کرتا ہے اور خوف و گھبراہٹ سمیت دیگر کئی نفسیاتی بیماریوں کا تدارک بھی کر سکتا ہے۔
50: مثبت ارادہ”I will do better next time”
یہ جملہ وہ مثبت رویہ ہے جو آپ کو آئندہ پیش آنیوالے تمام معاملات ومسائل میں گھبراہٹ اور پریشانی کی بجائے حوصلہ عطا کر سکتا ہے۔ناکامی ہی کامیابی کا پہلا زینہ ہوتی ہے۔ناکامی کا خوف دل و دماغ میں بٹھانے کی بجائے اس کی وجوہات کا تجزیہ کریں اور ان کے تدارک کی کوشش کریں۔تو آپ مستقبل میں پیش آنیوالی ایسی کسی بھی صورتحال کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکیں گے۔محترم قارئین!امید ہے ہمارا یہ آرٹیکل زندگی کے ایک اہم مسئلے کی جانب اہم پیش رفت ہے۔آرٹیکل کو مزید بہتر بنانے کے لئے ہمارا ادارہ آپ کی قیمتی رائے کا منتظر رہے گا۔شکریہ
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

عظمت صحابہ اور احناف

عظمت صحابہ اور احناف
نہ طعنے تم ہمیں دیتے نہ یوں فریاد ہم کرتے
(ابومحمد علی زئی)
فلاں نے لکھا صحابی کا قول حجت نہیں، فلاں صحابہ کرام کے اقوال کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح کے بیشمار طعنے ہم آئے دن پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ اور ان اقوال سے یہ فہم اخذ کیا جاتا ہے کہ اہل حدیث صحابہ کی تعظیم و تکریم نہیں کرتے بلکہ انکے گستاخ ہیں۔ معاذ اللہتو آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کون صحابہ کے اقوال کو (تقلیدی جوتے)کی نوک پہ رکھتے ہیں اور کون محبِ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں چونکہ اس طرح کی بے تکی باتیں نام نہاد احناف کی طرف سے سننے کو ملتی ہیں تو بہتر یہی ہو گا انھیں وہ آئینہ دکھایا جائے جو خود انکے گھر کا ہو۔یہاں پر دو ٹوک یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں کسی صحابی کا ذاتی قول و فعل حجت نہیں، ایسا قول و فعل اس وقت حجت نہیں رہتا جب سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو اور اس طرح کی بیشمار مثالیں کتب احادیث میں مل جاتی ہیں، اور اس بات میں کوئی گستاخی نہیں جب اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے مقابلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث مل جائے تو صحابی کا عمل ترک کر دینا ہی بجاہے کیونکہ ہم نے کلمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے، اس مختصر سی تمہید کے بعد آتے ہیں اپنے اصل ہدف کی طرف۔!!!اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو سنت کے مخالف پا کر چھوڑ دینا اگر صحابہ کی تنقیص ہے تو مندرجہ ذیل حوالوں کے جوابات مقلدین کے ذمہ ہیں۔ صحابہ کے اصل گستاخ کون؟ ملاحظہ فرمائیں۔٭دلیل نمبر:۱ فَقَالَ لَہُ أَبُو حَنِیفَۃَ: کَانَ حَمَّادٌ أَفْقَہَ مِنَ الزُّہْرِیِّ، وَکَانَ إِبْرَاہِیمُ أَفْقَہُ مِنْ سَالِمٍ، وَعَلْقَمَۃُ لَیْسَ بِدُونِ ابْنِ عُمَرَ فِی الْفِقْہِ، وَإِنْ کَانَتْ لِابْنِ عُمَرَ صُحْبَۃٌ، أَوْ لَہُ فَضْلُ صُحْبَۃٍ، فَالْأَسْوَدُ لَہُ فَضْلٌ کَثِیرٌ، وَعَبْدُ اللَّہِ ہُوَ عَبْدُ اللَّہِ، (مسندابی حنیفہ:رقم: ۱۸)ابو حنیفہ ۔ رحمہ اللہ ۔نے کہا حماد زہری سے فقہ میں افضل تھے اور ابراہیم سالم سے اور علقمہ (تابعی) ابن عمر رضی اللہ عنہ (صحابی رسول)سے فقہ میں افضل تھے ابن عمر صحابی ہونے کی وجہ سے تو افضل تھے لیکن علقمہ کو اسکے علاوہ بہت سے فضائل حاصل تھے۔تبصرہ: یہ وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تھے جو بچپن سے ہی فقیہ تھے، لیکن مسند ابی حنیفہ والا اپنے مطلب کیلئے ایک تابعی کی فقاہت کو صحابی کی فقاہت پر فضلیت دے رہا ہے، اور صحابی بھی وہ جن کی فقاہت کے چرچے احادیث کی کتابوں میں درج ہیں، یقیناً فقہ حنفی کے مدونین کی یہ سازش تھی کہ ایسے صحابی کی فقاہت کو نشانہ بنایا جائے جو فقیہ ہونے میں مشہور ہو تا کہ بقیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی فقاہت خود بخود مشکوک ہو جائے۔٭ دلیل نمبر ۲: وَأَمَّا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ – رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ – فَہُوَ وَإِنْ کَانَ أَفْضَلَ مِنْ أَبِی حَنِیفَۃَ مِنْ حَیْثُ الصُّحْبَۃُ، فَلَمْ یَکُنْ فِی الْعِلْمِ وَالِاجْتِہَادِ وَنَشْرِ الدِّینِ وَتَدْوِینِ أَحْکَامِہِ کَأَبِی حَنِیفَۃَ، (رد المحتار:جلد:۱،ص:۵۶)اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحیثیت صحابی تو ابو حنیفہ سے افضل تھے لیکن علم، اجتھاد، دین کی نشر و اشاعت، اور احکام کی تدوین میں ابو حنیفہ سے افضل نہیں تھے۔تبصرہ: یہاں پر بھی وہی چال چلی گئی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جن کے علم و فقاہت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی گواہی موجود ہے، لیکن ابو حنیفہ ۔ رحمہ اللہ ۔کی شان میں اس قدر غلو کیا گیا کہ سلمان فارسی کو ان کے سامنے بہت ہی چھوٹا کر کے پیش کیا گیا تاکہ باقیوں کی علمی حیثیت مجروح ہو جائے، صحابۂ کرام کی اس طرح تذلیل کرنا رافضیت کے چہرے پہ سنیت کا لبادہ لگتا ہے۔٭ دلیل نمبر:۳ وَلَوْ قَذَفَ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہَا بِالزِّنَا کَفَرَ بِاَللَّہِ، وَلَوْ قَذَفَ سَائِرَ نِسْوَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَکْفُرُ وَیَسْتَحِقُّ اللَّعْنَۃَ، وَلَوْ قَالَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ لَمْ یَکُونُوا أَصْحَابًا لَا یَکْفُرُ وَیَسْتَحِقُّ اللَّعْنَۃَ (فتاویٰ عالمگیری: ج: ۲،ص:۲۶۴)عائشہ رضی اللہ عنھا پر زنا کی تہمت لگانے والا کافر ہے، اور باقی ازواج مطہرات پہ زنا کی تہمت لگانے والا کافر نہیں صرف لعنت کا مستحق ہے، اور اگر کوئی کہے عمر، عثمان، اور علی رضوان اللہ تعالیٰ صحابی نہیں تھے تو ایسا شخص کافر نہیں صرف لعنت کا مستحق ہے۔تبصرہ: شیعہ امی عائشہ پر زنا کی تہمت لگائے تو پرلے درجے کا کافر لیکن تمہارے یہ نام نہاد فقھاء بقیہ ازواج مطہرات سے کس دشمنی کا بدلہ لے رہے ہیں؟ کیوں ان کی پاکدامنی پہ شک کے دروازے کھولے جا رہے ہیں؟ اسی طرح خلفاء راشدین نے کیا بگاڑا تھا کہ انکی صحابیت کا منکر تمہارے نزدیک کافر نہیں؟٭ دلیل نمبر۴: حَدِیثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ: أَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَفَعَ یَدَیْہِ عِنْدَ الرُّکُوعِ وَعِنْدَ السُّجُودِ ، فَقَال: ہُوَ أَعْرَابِیٌّ لَا یَعْرِفُ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ، لَمْ یُصَلِّ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَّا صَلَاۃً وَاحِدَۃً. (مسندابی حنیفہ: رقم:۱۶)وائل بن حجر۔رضی اللہ عنہ ۔ فرماتے ہیں انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع و سجود میں رفع الیدین کرتے دیکھا تو (ابراہیم النخعی) نے کہا وہ تو دیہاتی تھا اسلامی قوانین سے واقف ہی نہیں تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف ایک نماز پڑھی تھی۔تبصرہ: ہم نے کسی صحابی کو دیہاتی کہہ کر اسکا قول رد نہیں کیا بلکہ ہم نے دیہاتیوں کے جوتے بھی سر پہ رکھے، اللہ ہمھیں توفیق نہ دے کہ ہم کسی صحابی پر جرح کریں، یہ قول جس کا بھی ہو مصنف نے بڑی خوشی سے نقل کیا ہے، اپنی تائید میں نقل کیا اور اس قول کی کوئی تردید نہیں کی لہذا مسند ابی حنیفہ کا مصنف صحابی پر جرح کا ذمہ دار ہے، استغفراللہہم نے کسی تابعی کو صحابی پر علم و فقہ میں فضیلت نہیں دی، ہم نے کسی صحابی کی ذات کو مجروح نہیں کیا، ہم نے یہ نہیں کہا کہ عائشہ کو گالی دینے والا کافر اور باقی ازاج مطہرات کو سب و شتم کرنے والا کافر نہیں، صحابہ کے اقوال سے حدیث صحیح کی بنا پہ اختلاف کرنا انکو حجت نہ بنانا اس میں صحابہ کرام کی تذلیل نہیں نہ ہی انکی شان میں کمی آتی ہے، بلکہ شان میں کمی کرنا صحابہ کی گستاخی کرنا یہ نمونے احناف کے جید علماء سے آپ پڑھ چکے ہیں۔حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں صحابہ کرام کے اقوال حجت نہیں اس مسئلہ پر پوری امت کے علماء متفق ہیں بلکہ علماِء احناف بھی اس مسئلہ میں ہمارے ساتھ ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:٭ ۱۔ وَالْحَاصِلُ أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِیِّ حُجَّۃٌ فَیَجِبُ تَقْلِیدُہُ عِنْدَنَا إذَا لَمْ یَنْفِہِ شَیْء ٌ آخَرُ مِنْ السُّنَّۃِ، (فتح القدیر:جلد:۲،ص: ۶۸)اور حاصل کلام یہ ہے کہ صحابی کا قول ہمارے لئے تب تک حجت ہے جب سنت سے کوئی چیز اسکی نفی نہ کر دے۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟شاباش ہمارا بھی یہی موقف ہے۔٭ ۲۔ فتاوی شامی کے مصنف ابن الھمام کا یہی قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔وَالْحَاصِلُ أَنَّ قَوْلَ الصَّحَابِیِّ حُجَّۃٌ یَجِبُ تَقْلِیدُہُ عِنْدَنَا إذَا لَمْ یَنْفِہِ شَیْء ٌ آخَرُ مِنْ السُّنَّۃِ.(رد المحتار:ج:۲،ص:۱۵۸)اور حاصل کلام یہ ہے کہ صحابی کا قول ہمارے لئے تب تک حجت ہے جب سنت سے کوئی چیز اسکی نفی نہ کر دے۔٭ ۳۔ فیض احمد اویسی بریلوی لکھتا ہے، اگر فعل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا تسلیم بھی کیا جائے تو شھادت نفی بالاستغراق پر مقبول نہیں کیونکہ انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیشہ خلوت اور جلوت اور سفر اور حضر اور جمیع مجالس میں صحبت نہ تھی۔ ( رفع الیدین:ص: ۲۵)٭ ۴۔ ظفر علی تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں صحابی کا قول ہمارے لئے حجت ہے جب تک سنت سے کوئی چیز اسکی نفی نہ کر دے۔ (اعلاء السنن: ص:۱۲۶)٭دلیل نمبر۵: محمود الحسن دیوبندی رقم طراز ہیں۔!باقی فعل صحابی وہ کوئی حجت نہیں (تقاریر :شیخ الہند: ص:۳۰)مزید دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یہ ایک صحابی کا قول حنفیہ پر حجت نہیں ہو سکتا۔ (تقاریر :شیخ الہند: ص:۴۳)٭دلیل نمبر:۶ سرفراز خان صفدر دیوبندی فرماتے ہیں۔!اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابی کا قول خصوصاً عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے بارگاہ نبوت میں معتمد علیہ کا اپنے مقام پر ایک وزنی دلیل ہے۔ مگر اصول حدیث کی رو سے مرفوع اور موقوف کا جو فرق ہے وہ بھی نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔ جو حیثیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کی ہے وہ یقیناً کسی صحابی کے قول کی نہیں ہے، اگرچہ وہ صحیح بھی ہو۔ (راہ سنت: صفحہ :۱۱۴)تبصرہ: ان حضرات کو اصول دین کا ہی پتہ نہیں اور جسے دیکھو مناظر کی سیڑھی سے نیچے قدم نہیں رکھتا صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال جب نص صریح کے خلاف ہوں گے تو ایسی صورت میں انھیں ترک کیا جائے گا بصورت دیگر ہر گز نہیں۔!!!(جسکا اقرار خود سرفراز خان صفدر دیوبندی اور کبار علمائے احناف نے بھی کر رکھا ہے)یہی موقف ہم اہل سنت کا اور یہی موقف (نام نہاد)سنیوں کا لیکن اس موقف میں جو نمایاں فرق ہے وہ یہ کہ ہم نے صحابہ کرام کے اقوال کو نص کے خلاف پاتے ہوئے نہایت ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ترک کیا اور سنت کو سینے سے لگا لیا لیکن یار لوگوں نے صرف ترک ہی نہیں کیا بلکہ سینہ تان کہ گستاخانہ جملے کہے۔احناف سے التماس ہے کہ حوالے نوٹ کر لیں اور دوبارہ کسی مجلس میں ایسی جہالت پر مبنی باتوںسے اجتناب کریں کہ فلاں کے نزدیک صحابی کا قول حجت نہیں فلاں صحابہ سے محبت نہیں کرتے لوگ ہنسیں گے تم پر، تمہارا تمسخر اڑایا جائے گا ہاں تسکین دل کی خاطر اپنی محفلوں میں بیٹھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن ہر صاحب علم جانتا ہے کہ صحابی کا قول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں حجت نہیں ہوتا جسکا اقرار تمہارے علماء بھی کر گئے ہیں۔والحمدللہنہ طعنے تم ہمیں دیتے نہ یوں فریاد ہم کرتےنہ کھلتے راز سر بستہ نہ یوں رسوائیاں ہوتیں،
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

Tuesday 29 November 2016

نصرت ِمصطفیٰ ﷺ کے سو(100)طریقے

نصرت ِمصطفیٰ ﷺ کے سو(100)طریقے

(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ)

نبی کریمﷺ کی بار بار اہانت کی کوششیں جہاں اہل مغرب کے تعصّب کی نشاندہی کر رہی ہیں، وہاں مسلمانوں کے جذبات میں تلاطم پیدا کررہی ہیں۔ایسے حالات میں ہر اُمّتی اپنا کچھ نہ کچھ کردار ادا کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ حمایتِ مصطفیٰﷺ کی سعادت اور آخرت میں ان کی شفاعت سے محروم نہ رہے۔اس سلسلے میں عربی کتابچے100وسیلة لنصرة المصطفٰی ﷺ (ناشر دار القاسم، الر یاض) کا ترجمہ ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے۔اسلام كے اہم اركان میں سے پہلا ركن كلمہ شہادت ہے:«أَشْهَدُ أَنْ لَّا اِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ»”میں گواہی دیتا ہوں كہ اللّٰہ كے سوا كوئی معبود نہیں اور محمد اللّٰہ كے رسول ہیں۔”اس كلمے كے جز یعنی «أن محمّد الرسول الله» كے كچھ تقاضے ہیں جو حسبِ ذیل ہیں:
1. نبی كریمﷺ نے جو كچھ ارشاد فرمایا ،اس كی تصدیق كرنا۔ تصدیق میں بھی سب سے پہلے اس کی تصدیق ہے كہ آپﷺ اللّٰہ كے رسول ہیں اور آپ كو تمام جن و انس كی طرف مبعوث كیا گیا ہے۔ تاكہ آپﷺقرآن و سنت كی صورت میں نازل ہونے والی وحی دوسروں تك پہنچائیں۔ اور قرآن و سنت دین اسلام ہی كا دوسرا نام ہے جس كے سوا اللّٰہ كسی اور دین كو قبول نہیں فرمائے گا۔
2. رسول اكرمﷺ كی اطاعت اور آپ كے فیصلوں پر دل و جان سے رضا مندی اور اُنہیں مكمل بلا تردد وتوقف طور پر قبول كرنا، سنت كی پیروی كرنا اور اس كے سوا جو كچھ ہے اسے ترك كرنا۔
3. اللّٰہ كے رسولﷺ سے محبت كا ایسا تعلق جو والدین، اولاد حتیٰ كہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہو۔ اس تعلق میں بھی آپﷺ كی تعظیم، عظمت، توقیر، نصرت اور دفاع كی مكمل پاسداری شامل ہو۔
4. آپ نے جس جس کام سے منع كیا ہے یا وعید سنائی ہے، اس سے رك جانا، اور اللّٰہ كی عبادت اس طریقے كے مطابق كرنا جو آپﷺ نے بتایا ہے۔مسلمان كے لیے ضروری ہے کہ وہ كلمہ توحید كے اس دوسرے حصے كے مذكورہ مفہوم كے لیے كوشاں رہےتاكہ اس كا ایمان معتبر ہو اورمحمد ﷺ كی گواہی اس کے حق میں قبول ہو۔دیكھئے! منافقین بھی كہا كرتے تھے كہ آپﷺ اللّٰہ كے رسول ہیں جیسا كہ اللّٰہ نے فرمایا:﴿ نَشهَدُ إِنَّكَ لَرَ‌سولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعلَمُ إِنَّكَ لَرَ‌سولُهُ وَاللَّهُ يَشهَدُ إِنَّ المُنـٰفِقينَ لَكـٰذِبونَ ﴿١﴾… سورةالمنافقون”ہم گواہی دیتے ہیں كہ اپ اللّٰہ كے رسول ہیں اور اللّٰہ جانتا ہے كہ آپ اللّٰہ كے رسول ہیں، اور اللّٰہ گواہی دیتا ہے كہ منافقین جھوٹے ہیں۔”رسالت كی گواہی منافقین كے لیے اس بنا پر سود مند نہ ہوئی كہ اُنہوں نے اس كے مفہوم كے تقاضوں كو پورا نہ كیا۔قارئین کرام ! نبی كریمﷺ سے محبت كے تقاضوں كو پورا كرنے اور آپ كے حقوق كی پاسداری كرنے كے لیے چند تجاویز اور مشورے پیش خدمت ہیں۔ موجودہ حالات میں اس كی ضرورت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے كہ اغیار مختلف ہتھكنڈوں سے شانِ رسالت مآب میں ہرزہ سرائی كوششیں کر کے محرومیوں اور بد نصیبیوں كا شكار ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق ركھنے والے افراد كی بھی مختلف ذمہ داریاں ہیں، ہم انہیں ان ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے كی بھر پور كوشش كرتے ہیں۔ایك مسلمان كی بنیادی ذمہ داری1.نبوت كے دلائل پر غور و فكر اور اُنہیں تلاش كرنا۔ اس سلسلے میں قرآن و سنت كے دلائل كے ساتھ ساتھ دیگر دلائل كی جستجو كرنا۔2.قرآن و سنت اور اجماع كی روشنی میں آپﷺ كے اتباع اور اطاعت كے دلائل كے متعلق جاننا۔3.اس پر یقین كہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید كے ساتھ ساتھ نبی كریم ﷺ كی سنت كی حفاظتكا ذمہ لیا ہے، جیسا كہ اس نے فرمایا:﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ﴿٩﴾… سورةالحجر”بے شك ہم نے ذكر كو نازل كیا اور بے شك ہم ہی اس كی حفاظت كرنے والے ہیں۔”قدیم دور سے لے كر آج تك اور آج سے قیامت تك اللّٰہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا فرماتا رہا ہے اور پیدا فرماتا رہے گا جو سنت كی حفاظت كرتے رہیں گے۔ صحیح اور ضعیف كو علیحدہ كرتے رہیں گے اور جمع و تدوین اور تالیف كرتے رہیں گے۔4.آپﷺ كے حسن و جمال، صفات اور اعلیٰ كردار كا تذكرہ كر كے دلوں میں محبتِ رسولﷺ كا شعور جاگزیں كرنا۔ اسی طرح اس مقصد كے لیے آپﷺ كی خصوصیات اور خوبیوں كا مطالعہ كرنا اور یہ یقین ركھنا كہ روئے زمین پر آپ ہی كامل بشر ہیں اور آپ ہی اخلاق كے سب سے بلند رتبے پر فائز ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَإِنَّكَ لَعَلىٰ خُلُقٍ عَظيمٍ ﴿٤﴾… سورةالقلم”بے شك آپ اخلاق كے بلند درجے پر فائز ہیں۔”
5. آپﷺ كے احسانات ہم میں سے ہر ایك كے ذہن میں ہر دم تازہ ہوں كہ آپ نے حق رسالت بڑے اچھے انداز سے ادا كیا اور اُمت كی بہترین خیر خواہی كی اورتبلیغ كا حق ادا كر دیا۔
6. اللّٰہ كے فضل و كرم كے بعد ہر دینی اور اُخروی فائدے کو آپﷺ كی طرف منسوب كرنا كیونكہ آپﷺ ہی نے اس خیروبھلائی كی طرف ہماری راہ نمائی فرمائی۔ اللّٰہ تعالیٰ آپ كو انبیا و رسل سے بڑھ كر اس كی بہترین جزا عطا فرمائے۔
7. اس بات كا اعتراف كہ آپﷺ اپنی اُمّت پر سب سے زیادہ شفقت كرنے والے، مہربانی كرنے والے اور سب سے زیادہ اُمت کی فلاح وصلاح کے خواہاں ہیں، فرمانِ باریٰ ہے:﴿ النَّبِىُّ أَولىٰ بِالمُؤمِنينَ مِن أَنفُسِهِم…﴿٦﴾… سورةالاحزاب”نبی ﷺ مؤمنوں پر ان كی جانوں سے بھی زیادہ حق ركھتے ہیں۔”
8.ان آیات اور احادیث كو جاننا جن میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے ہاں آپﷺ كے مقام اور مرتبے كا اظہار فرمایا ہے اور وہ اپنے رسولﷺ سے كس قدر محبت فرماتا ہے اور آپ كے اكرام كا كس قدر خیال ركھتا ہے!!
9. نبی كریمﷺ سے محبت کو اللّٰہ تعالیٰ نے لازم قرار دیا ہے، حتیٰ كہ اپنی جان سے بھی بڑھ كر آپ سے محبت ركھنی ہے جیسا كہ آپ نے فرمایا:«لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ، وَوَلَدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ»”تم میں سے كوئی ایك اس وقت تك مؤمن نہیں ہو سكتا جب تك وہ مجھے اپنے والد، اولادتمام لوگوں سے بڑھ كر محبوب نہیں بنا لیتا,
10. اللّٰہ تعالیٰ كا اس بات كا خصوصی حكم فرمانا كہ اُمتی آپﷺ كے ادب اور آپ كی سنتوں كا احترام ملحوظ ركھیں، اللّٰہ تعالیٰ كا ارشاد ہے:﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَر‌فَعوا أَصو‌ٰتَكُم فَوقَ صَوتِ النَّبِىِّ وَلا تَجهَر‌وا لَهُ بِالقَولِ كَجَهرِ‌ بَعضِكُم لِبَعضٍ أَن تَحبَطَ أَعمـٰلُكُم وَأَنتُم لا تَشعُر‌ونَ ﴿٢﴾… سورةالحجرات”اے اہل ایمان اپنی آوازوں كو نبیﷺ كی آواز سے بلند نہ كرنا اور جیسے تم ایك دوسرے كو بلند آواز سے پكارتے ہو آپﷺ كو نہ پكارنا، كہیں تمہارے اعمال ضائع نہ ہو جائیں اور تمہیں شعور تك نہ ہو۔”اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:﴿لا تَجعَلوا دُعاءَ الرَّ‌سولِ بَينَكُم كَدُعاءِ بَعضِكُم بَعضًا…﴿٦٣﴾… سورةالنور”رسول اللّٰہﷺ كو اس طرح نہ پكارو جس طرح تم ایك دوسرے كو پكارتے ہو۔
”11. نبی كریمﷺ كے دفاع اور حمایت و نصرت كے متعلق حكم الٰہی كو تسلیم كرنا،جیسا كہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لِتُؤمِنوا بِاللَّهِ وَرَ‌سولِهِ وَتُعَزِّر‌وهُ وَتُوَقِّر‌وهُ…﴿٩﴾… سورةالفتح”تاكہ تم اللّٰہ اور اس كے رسولﷺ پر ایمان لاؤ، آپ كی نصرت و حمایت كرو اور توقیر كرو۔
”12. آپﷺ كی نصرت و حمایت كا جذبۂ صادقہ ہمیشہ تازہ ركھنا۔
13. اس بات كا پورا یقین ركھنا كہ جس نے صحیح معنوں میں آپ سے محبت كی، اسے آخرت میں بہترین جزا آپ كی رفاقت كی صورت میں ملے گی۔ كیونكہ ایك شخص نے آپ كے سامنے یہ اعتراف كیا تھا كہ میں اللّٰہ اور اس كے رسولﷺ سے محبت كرتا ہوں تو آپ نے فرمایا : «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ» ”تو اس كے ساتھ ہوگا، جس سے تو محبت كرتا ہے۔
”14. رسول اكرمﷺ كا جب بھی ذكر ِخیر ہو، آپ پر درود بھیجنے كا خصوصی اہتمام كرنا۔ علاوہ ازیں اذان كے بعد، جمعے كے دن اور عام اوقات میں درود پڑھنا چاہیے تاكہ اس كے بہترین بدلے سے ہمیں نوازا جائے اور آپ كا یہ حق ہم ادا كرنے كی كوشش كرتے رہیں۔
15. سیرتِ نبوی كا مطالعہ اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد اور اسباق سے آگاہی حاصل كرنا اور اسے اپنے ذاتی حالات اور زندگیوں پر منطبق كرنا۔
16. حدیث و سنت كا مطالعہ كرنا، اُنہیں سیكھنا، ان میں سے صحیح روایات پر عمل كرنا۔ ان كا فہم حاصل كرنا۔ اور یہ تعلیمات نبویہ جن احكامات، بلند اخلاق اور اللّٰہ كی غلامی كے ضابطوں پر مشتمل ہیں، اُنہیں قبول كرنا ۔
17. آپﷺ كی تمام سنتوں كو درجہ بدرجہ اپنانا۔
18. آپﷺ كی ایسی سنتوں كو بھی كم از كم زندگی میں ایك دفعہ اپنانا جو مستحب كا درجہ ركھتی ہیں۔ اس كا مقصد یہ ہو كہ ہر كام میں آپﷺ كی اقتدا كا جذبہ موجود ہے۔
19. سنتِ نبویؐ كے ساتھ استہزا اور حقارت سے ازحد محتاط رہنا۔
20. لوگوں میں سنت كے اثرات دیكھ كر فرحت محسوس كرنا۔
21. كچھ لوگوں كا سنت كے ساتھ منفی رویہ دیكھ كر دل میں قلق اور اضطراب پیدا ہونا۔
22. نبی كریمﷺ یا آپ كی پیاری سنتوں پر تنقید كرنے والے كے لیے بغض ركھنا۔
23. رسولِ اكرمﷺ كی ازواج و اولاد سے محبت كرنا، اور آپ كے اقارب كے ذریعے اللّٰہ كا تقرب حاصل كرنا اور آپ كی آل میں سے جو راہِ ہدایت سے دور ہوں، دوسروں كی نسبت ان كی ہدایت كی بہت زیادہ خواہش ركھنا۔ جیسا كہ سیّدنا عمر نے رسول اللّٰہﷺ كے چچا سیّدنا عباس سے عرض كی تھی: «یا عباس!لإسلامك یوم أسلمت كان أحبّ إلي من إسلام الخطاب، وما لي إني قد عرفت أن إسلامك كان أحب إلى رسول اللهﷺ من إسلام الخطاب»”عباس ! جب آپ اسلام لائے تو آپ كا اسلام لانا مجھے میرے والد خطاب كے اسلام لانے سے زیادہ اچھا لگا۔ میرے نزدیك اس كی وجہ صرف اور صرف یہ ہے كہ میں جانتا تھا كہ اللّٰہ كے رسولﷺ خطاب كی نسبت آپ كے اسلام لانے كو زیادہ پسند كرتے تھے-
”24. نبیﷺ كی اپنے اہل بیت كے متعلق وصیت كی لاج ركھنا۔ جو وصیت آپ نے ان الفاظ سے كی:«أُذْكِّرُكُمُ اللهَ فِيْ أَهْلِ بَیْتِیْ»”اپنے اہل بیت كے بارے میں تمہیں اللّٰہ یاد دلاتا ہوں…
”25. صحابہ كرام سے محبت ركھنا، ان كی عزت و توقیر كرنا اور بعد والوں سے ان كی فضیلت كا عقیدہ ركھنا كہ علم و عمل اور اللّٰہ كے ہاں مقام و مرتبے میں وہ بہت بڑھ كر تھے، اور جو كوئی صحابہ پر طعنہ زنی كی كوشش كرے یا ان كی تنقیص كرے، اُس سے بغض ركھنا۔
26.علماے دین سے محبت كرنا اور ان كی قدر كرنا۔ ان كے مقام كی وجہ سے ان کی قدر کرنا اور میراثِ نبوت سے ان كی وابستگی كی وجہ سے بھی، كیونكہ علما انبیاء﷩ كے وارث ہیں۔نبی كریمﷺ كی نصرت و حمایت خاندان اور معاشرے كی سطح پر
27. رسول اللّٰہﷺ كی محبت پر بچوں كی تربیت اور ذہن سازی
28. تمام حالات میں اتباعِ رسولﷺ كا درس
29. كتبِ سیرت كی طرف بھرپور توجہ
30 .سیرت النبیﷺ پر كیسٹ اور سی ڈیز سے استفادہ
31 . بچوں كے لیے سیرت كے عنوان پر كہانیاں اور كتابچے فراہم كیے جائیں۔
32 . فیملی كے تمام افراد كم از كم ہفتے میں ایك بار سیرتِ نبوی پر درس كا اہتمام كریں۔
33 . خاوند اپنی بیوی سے سلوك كرتے ہوئے اُسوۂ نبوی سے بھر پور راہ نمائی لے۔
34 . بچوں كو مسنون اذكار و دعائیں یاد كرائی جائیں اور متعلقہ اوقات میں اُنہیں پڑھنے پر اُبھارا جائے۔
35 . بچوں كی روز مرہ كی مصروفیات كے ساتھ ساتھ ان میں احادیث پر عمل كا جذبہ پیدا كیا جائے۔ جیسے یتیم كی كفالت كا ثواب، كھانا كھلانے كی فضیلت اور ضرورت مندوں كی ضروریات پوری كر كے اس کا عملی اظہار كیا جائے۔
36 . نبی كریمﷺ نے مسلمانوں كی بابت جو مثالیں اور خوبیاں بیان فرمائی ہیں، مثلا:«اَلْـمُؤْمِنُ كَیِّسٌ فَطِنٌ…» ”مؤمن دانا اور ذہین ہوتا ہے۔”اسی طرح: «لَا یُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ»”مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔”اس قسم كے فرامین نبوی سنا كر بچوں كو اچھی عادات و خصائل كا عادی بنایا جائے۔
37.  گھروں میں سیرت كوئز پروگرام كرائے جائیں اور اُن پر انعام بھی دیا جائے۔
38 . رسولِ اكرمﷺ جس طرح اپنی گھریلو زندگی گزارا كرتے تھے، اس سے پورے خاندان كو متعارف كرایا جائے اور اسی انداز سے نظام چلانے كی كوشش كی جائے۔تعلیم وتعلم سے وابستہ اَفراد میں نصرت و حمایتِ مصطفیٰﷺ
39 . طلباء و طالبات كے دلوں میں محبتِ رسولﷺ كے جذبے جاگزیں كیے جائیں اور اُمت پر آپ كے حقوق كا اظہار كیا جائے۔
40 . ایسے لیكچرز كا بكثرت اہتمام كیا جائے جو حیاتِ طیبہ كے تمام پہلوؤں كو شامل ہوں۔
41 . ڈاكٹریٹ اور دوسرے اعلیٰ تعلیمی مراحل میں سیرتِ نبوی كے مختلف پہلوؤں پر تحقیقات كرائی جائیں۔
42 . عالم اسلام اور یورپ كی نمایاں یونیورسٹیوں میں سیرت چیئر قائم كرنے كی طرف ذمہ داران كو مائل كیا جائے۔
43 . سیرت نبوی كے حوالے سے علمی اور تحقیقی مقالے پیش كیے جائیں اور اربابِ تحقیق كو مغازی اور شمائل پر علمی شہ پارے تیار كرنے پر آمادہ کیا جائے۔
44 . مدارس اور یونیورسٹیوں میں سیرت نمائش كا اہتمام كیا جائے۔ ان نمائشوں میں عہد نبوی كے جغرافیہ اور ماحول کے ماڈلز كا اہتمام وانتظام كیا جائے۔
45 . یونیورسٹیوں كی لائبریریوں میں رسولِِِ اكرمﷺ اور آپ كی سیرتِ مباركہ سے متعلقہ كتب كو علیحدہ كر كے نمایاں جگہ پر ركھا جائے اور موضوع پر مزید كتب اكٹھی كی جائیں۔
46 . سیرت كے موضوع پر انسائیكلو پیڈیاز كا اہتمام كیا جائے، اور پھر مختلف عالمی زبانوں میں اُن كا ترجمہ كیا جائے۔
47 . سیرت كے موضوع پر طلبا اور طالبات میں سالانہ مقابلے كرائے جائیں اور ان كے لیے فنڈ مختص كر كے بیش قیمت انعامات سے نوازا جائے۔
48 . كالجوں اور یونیورسٹیوں میں تربیتی وركشاپس كا انعقاد كیا جائے جن كی بدولت طلباء و طالبات میں محبتِ رسولﷺ كے جذبات پیدا ہوں اور سنّت سے آگاہی ہو۔
49 . تربیتی دوروں كا انعقاد كر كے ایسے راہ نما تیار كیے جائیں جو رسول اللّٰہﷺ كے طریقے كے مطابق راہ نمائی فراہم كریں۔ائمہ كرام، داعیانِ دین اور طلباے علوم نبوت كی سطح پر نصرت و حمایتِ مصطفیٰﷺ
50 . رسولِ اكرمﷺ كی دعوت كے میدان میں اختیار كی جانے والی خصوصیات كا اظہار كیا جائے، اور لوگوں كو بتایا جائے كہ آپ كو سیّدنا ابراہیم كا دین دے كر بھیجا گیا ہے جو انتہائی آسان ہے، اور آپ كی دعوت كا بنیادی مقصد یہ تھا كہ تمام لوگ ہدایت پر آ جائیں اور صرف اور صرف اللّٰہ وحدہ لا شریک ہی كی عبادت كریں۔
51 . بلا امتیاز ہر طبقے اور میدان كے لوگوں كو اس دین كے قریب كیا جائے جسے لے كر آپ مبعوث ہوئے۔
52 .آپﷺ كے نبوت سے پہلے اور بعد كے اخلاق وكردار اور اَوصاف كو لوگوں كے سامنے ركھا جائے۔
53 .رسول اللّٰہﷺ كے اپنے اہل و عیال، ہمسایوں اور رفقا سے برتاؤ كو واضح كیا جائے۔
54 .نبی كریمﷺ یہود و نصاریٰ، مشركین اور منافقین سے كیسا برتاؤ كرتے تھے، اسے لوگوں كے سامنے ركھا جائے۔
55 .آپﷺ كے روزانہ كے معمولات كو واضح كیا جائے۔
56 .سیرت كے موضوع پر خطباتِ جمعہ كے علاوہ تمام خطبوں میں بھی سیرت النبیﷺ كے متعلقہ پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے۔
57 .نماز میں ان آیات كی تلاوت كریں جن میں آپﷺ كا كسی بھی پہلو سے تذكرہ ہے۔ اور نماز كے بعد 5، 7 منٹ میں ان آیات كی مختصر تفسیر بیان كر دیں۔
58 .مساجد اور مدارس میں حفظِ قرآن كی كلاسوں كے ساتھ ساتھ حفظِ حدیث كی كلاسوں كا بھی اہتمام كیا جائے۔
59 .عام لوگوں كے ذہنوں میں حدیث و سنّت كے متعلق جو اشكالات پائے جاتے ہیں، ان كی اصلاح كی جائے اور آپﷺ كے طریقہ و منہج كو اختیار كرنے كی تلقین كی جائے۔
60 .علما اور ائمہ كرام كے ایسے فتوے لوگوں كو بتائے جائیں جن میں اُنہوں نے شانِ رسالت مآبﷺ میں ہرزہ سرائی كرنے والوں كے متعلق فتوے دیے ہوں اور ایسا كرنے والوں سے بغض كا درس دیا ہو اور ان سے لا تعلقی كا اظہار کیاہو۔
61 .لوگوں كو دین كے قریب كرنا اور دین سے ان كا ناطہ جوڑنا۔
62 .عامۃ الناس كو رسولِ اكرمﷺ كی شان میں غلوّ سے دور ركھنا، اور اُنہیں نبی كریمﷺ كے ایسے فرامین یاد دلانا: «لَا تُطْرُونِيْ كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی ابنَ مَرْیَمَ»”مجھے میرے مقام سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریمؑ كا مقام بڑھا دیا تھا۔”اور اس كے ساتھ ساتھ اس بات كا اظہار كہ سچی محبت آپﷺ كی اتباع میں ہے اور لوگوں كو اہل بدعت اور خواہش پرستوں كے چنگل سے نكالنے كی جستجو كرنا ۔
63 . سیرت النبیﷺ كو بنیادی مصادر سے پڑھنے كی ترغیب دینا اور ان بنیادی كتب كے متعلق پوری وضاحت كرنا۔
64 . رسولِ اكرمﷺ كی ذاتِ مباركہ اور سیرتِ طیبہ كے متعلق كسی بھی نوعیت كے شبہات، خواہ وہ اشارةً ہوں یا صراحۃً، ان كا مكمل قلع قمع كرنا۔صحافت اور ذرائع ابلاغ كی سطح پر نبی كریمﷺ كی نصرت و حمایت
65 . رسول اكرمﷺاور اُمّت كے خصائص كو متعلقہ مناسبتوں كی روشنی میں بھر پور طریقے سے میڈیا پر نشر كرنا۔
66 . كسی بھی ایسے پروگرام یا كالم كو نشر كرنے سے گریز جس میں آپﷺ كی سنّت كی بابت حقارت كا کوئی پہلو سامنے آتا ہو۔
67 . مغربی میڈیا كا بھر پور مقابلہ كرنا،خصوصاً جب وہ آپﷺ اور دین اسلام كے متعلق شبہات اور اتہامات كے دروازے كھولنا چاہیں۔
68 . میڈیا اورصحافت سے متعلقہ ان غیر مسلموں سے میٹنگیں جو تا حال انصاف كا دامن تھامے ہوئے ہیں اور ان كے سامنے نبی كریمﷺ كی سنت و سیرت كا اظہار
69 . مغرب كے انصاف پسند طبقے كی آپﷺ كے بارے میں آرا كا زیادہ سے زیادہ پرچار
70 . دنوں اور اوقات كی مناسبت سے سیرت كے متعلق پروگرام ترتیب دیے جائیں
71 . جدید ذرائع ابلاغ پر سیرت كے عنوان سے بڑے بڑے انعامی مقابلے كرائے جائیں۔
72 . سیرت پر مقالات، واقعات اور كالم لكھوائے جائیں-
73 . اخبارات و رسائل كے چیف ایڈیٹرز كے ساتھ اس عنوان سے میٹنگ ركھی جائے كہ نبی كریمﷺ كی محبت واجب ہے اور آپ كی محبت اولاد، والدین اور تمام لوگوں سے بلكہ اپنی ذات سے بھی بڑھ كر ہونی چاہیے، اور آپﷺ كی محبت آپ كی توقیر و تعظیم كا تقاضا كرتی ہے اور آپ كی بات ہر ایك كی بات سے مقدم اور اعلیٰ ہے۔
74 . سافٹ ویئرز اورسی ڈیز تیار كرنے والی بڑی بڑی كمپنیوں كو اُبھارا جائے كہ وہ سیرت رسولﷺ پر سی ڈیز وغیرہ تیار كریں۔
75 . میڈیا كے ذمّہ داران كو اس بات پر اُبھارا جائے كہ وہ ایسے پروگرام نشر كریں جن میں رسول اكرمﷺ كے اوصاف اور اہم واقعات كا تذكرہ ہو۔رفاہی تنظیموں كی سطح پر نصرت و حمایتِ مصطفیٰﷺ
76 . ایسی كمیٹیوں كا قیام جو رسول اللّٰہﷺ كی نصرت كا علم تھام لیں۔
77 . سیرت پر كانفرنسیں اور نمائشوں كے لیے محلے اور شہر كی سطح پر كچھ مقامات مختص كیے جائیں جہاں كتبِ سیرت كی نمائش كے ساتھ ساتھ ویڈیو اور آڈیو پروگرام نشر كیے جائیں جو رسالتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام كو نمایاں كریں۔
78 . ایسی مستقل جگہیں ہوں جہاں سے سیرت پر كتب اور سی ڈیز مل سكیں۔
79 . ماضی كی عظیم شخصیات میں سے ان پر سالانہ پروگرام كرائے جائیں جنہوں نے سنّت و سیرت پر گرانقدر خدمات انجام دیں، اور وہاں ملنے والے ایوارڈ كو انہی كے نام سے موسوم كیا جائے۔
80 . مختلف زبانوں سے سیرت پر كتب شائع كی جائیں اور اُنہیں مستشرقین سمیت بك سنٹرزاور یونیورسٹیوں اور لائبریریوں میں بھجوایا جائے۔
81 . ہر رفاہی تنظیم ایك میگزین كا اجرا كرے جس میں خصوصی طور پر سیرِت نبوی اور دین و اخلاق كے عنوان پر مضامین شائع ہوں اور اس امت كے اَوصاف كا تذكرہ ہو اور دین اسلام كی خوبیوں كا پرچار ہو۔
82 .لوگوں كو رسول ﷺ كی اعانت و نصرت پر مائل كرنے كیلیے فنڈ قائم كیا جائے، اوراسكے ذریعے سیرت پر تالیف و تصنیف كا كام كیا جائے اور اس كا ترجمہ كروا كر عالمی سطح پر پھیلایا جائے۔سوشل میڈیا سے وابستہ لوگوں كی سطح پر نصرت و اعانتِ رسول ﷺ
83 .ایسے مقالات، مجموعے اور مضامین سوشل میڈیا پر اكٹھے كر كے لائے جائیں جن میں دینِ اسلام كی خوبیاں بھی ہوں اور اسلام كی نظر میں دیگر انبیاے كرام﷩ كے مقام و مرتبے اور محبت كا درس ہو، اور اسی طرح كے دیگر عنوانات بھی شامل ہوں۔
84 .سیرت النبیﷺ كے عنوان سے ویب سائٹس تیار كی جائیں اور سوشل میڈیا پر ایك حصّہ سیرت كے لیے مختص كیا جائے اور اس كے ذریعے آپ كی سیرت كو عالمی تناظر میں نمایاں كیا جائے۔
85 .دوسرے مذاہب كے لوگوں سے مكالمہ كیا جائے اور اُنہیں رسول اللّٰہﷺ اور آپ كےلائے ہوئے دین كے متعلق معلومات فراہم كی جائیں۔
86 . سوشل میڈیاپر نبی ﷺ كی سیرت اور وعظ ونصیحتِ نبوی اور احادیثِ مباركہ نشر كی جائیں۔
87 . مختلف ایام كی مناسبت سے آپﷺ كی سیرت كو جدید ذرائع ابلاغ پر لایا جائے، اور دعوتِ نبوی كے پہلو كو نمایاں كیا جائے۔ خصوصاً جب كوئی ہنگامی صورت پیش آئے تو اس كا ضرور اہتمام كیا جائے۔
88 . ان كتب اور لیكچرز كی نشاندہی كی جائے جو رسولِ اكرمﷺ كی سیرت سے متعلقہ ہوں۔
89 . نصرت وحمایتِ مصطفیٰﷺ کے موضوع پر ایسے چھوٹے چھوٹے جملے تیار؍جمع کیے جائیں، جنہیں میسج اور فیس بک وغیرہ پر دیا جا سکے۔حكومتی اور بڑے بڑے مالدار لوگوں كی سطح پر رحمتِ دو عالمﷺ كی نصرت و دفاع كے پہلو
90 . سیرتِ نبویؐسے متعلقہ سرگرمیوں كو ہر سطح اور ہر انداز سے مكمل سپورٹ كیا اور اُنہیں سراہا جائے۔
91 . ان مقالوں اور تالیفات كو ملكی سطح پر شائع كیا جائے جو سیرت، احادیث اور نبیﷺ كے نصائح پر مشتمل ہوں۔
92 . حكومتی سطح پر سیرت كے عنوان سے تحقیق و ترجمے كے شعبے قائم كیے جائیں۔
93 . نبی كریمﷺ كی علمی وراثت اور كتبِ سیرت ڈسپلے كرنے كے لیے بڑے بڑے مكتبوں اور شورومز كا اہتمام كیا جائے۔
94 . سیرت اور سنت سے متعلقہ انٹرنیٹ پر حكومتی سطح پر كام ہو۔
95 . سیرت اور سنت كے موضوع پر كتب كی طباعت و اشاعت كا بھر پور اہتمام اور كیسٹیں اور سی ڈیاں تیار کی جائیں۔ جن كی مدد سے آپ كے اخلاق و شمائل كو مختلف زبانوں، خصوصاً انگریزی میں شائع كرایا جائے۔
96 . سیرت كے عنوان سے ملكی سطح پر انعامی مقابلے اور ان میں شریك ہونے والوں كی بھرپور حوصلہ افزائی۔
97 . سیٹیلائٹ چینل، ریڈیو اور اخبارات ورسائل میں سیرت النبیﷺ پر پروگرام نشر کیے جائیں اور مضمون شائع کروائے جائیں، انگلش زبان میں اس کا خاص اہتمام کیا جائے۔
98 . میڈیا کے مشہور ونامور چینلز سے کچھ وقت لے کر اس میں سیرت پر پروگرام نشر کیے جائیں۔
99 . مشورے ہم نے دیے، ایك مشورہ آپ یہاں اپنی طرف سے دیں اور پھر اس پر اور ان سب صورتوں پر عمل پیرا ہونے كی كوشش كریں۔اللّٰہ تعالیٰ ہمیں رحمتِ عالمﷺ كی نصرت و اعانت كی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین,
حوالہ جات1. صحیح بخاری، حدیث:27832. صحیح بخاری، حدیث: ۳۶۸۸3. المعجم الكبیراز طبرانی: ۸؍ ۱۱4. صحیح مسلم، حدیث: ۲۴۰۸5. موضوع حدیث ہے۔ ضعیف الجامع: ۵۹۰۴6. صحیح بخاری:حدیث ۶۱۳۳7. صحیح بخاری: 3445
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...