Sunday 30 October 2016

جادو جنات اور علاج قسط نمبر22A

(جادو جنات اور علاج قسط نمبر22)

*کتاب:شریر جادوگروں کا قلع قمع کرنے والی تلوار*
*مئولف: الشیخ وحید عبدالسلام بالی حفظٰہ للہ*'
*ترجمہ: ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق زاھد*
             *مکتبہ اسلامیہ*
*یونیکوڈ فارمیٹ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان*
*سحر خمول (کاہلی وسستی)*
سحر خمول کی علامات
1۔ خلوت پسندی
2۔ خود غرضی
3۔ مکمل خاموشی
4۔ پریشان خیالی
5۔ ہمیشہ سردرد
6۔ محفلوں سے کراہت
7۔ ہمیشہ سستی کا غلبہ
سحر خمول کیسے ہو جاتا ہے؟
جادوگر ایک جن کو اس شخص کی طرف بھیجتا ہے جس پر جادو کرنا مقصود ہوتا ہے، اور اس کے ذمے یہ کام لگاتا ہے کہ وہ اس کے دماغ پر مورچہ بندی کر لے اور اس کیلئے خلوت پسندی اور علیحدگی کے اسباب پیدا کرے، چنانچہ وہ جن مقدور بھر اس کی کوشش کرتا ہے، اس کے بعد  سحر خمول کی علامات ظہور پذیر ہوتی ہیں۔
٭ سحر خمول کا علاج
1۔ اس پر وہ دم کریں جس کا ذکر “سحر تفریق” میں کیا گیا ہے۔
2۔ اگر اس پر مرگی کا دورہ شروع ہو جائے اور جن اس کی زبان سے بولنے لگ جائے تو اس کے ساتھ اسی طرح نمٹیں جس طرح ہم نے اس کا طریقہ پہلی قسم میں بیان کر دیا ہے۔
3۔ اگر مرگی کا دورہ نہ پڑے تو اس کےلئے مندرجہ ذیل سورتیں تین تین کیسٹوں میں ریکارڈ کریں: الفاتحہ، البقرہ، آل عمران، یٰسین، الصافات، الدخان، الذاریات، الحشر، المعارج، الغاشیہ، الزلزلہ، القارعہ، الفلق، الناس۔ مریض ایک کیسٹ صبح کے وقت، دوسری عصر کے وقت اور تیسری سونے سے پہلے، 45 دن تک روزانہ سنے، یہ مدت 60 دن تک بھی ہو سکتی ہے۔
4۔ اس مدت کے خاتمے کے ساتھ ہی ان شاءاللہ مریض کو شفا نصیب ہو  چکی ہو گی۔
5۔ مریض اس دوران سکون پہنچانے والی دوائیوں  سے پرہیز کرے۔
6۔ اگر مریض معدے کا درد محسوس کرے تو دم والی آیات پانی پر پڑھیں، جسے وہ اس مدت کے دوران پیتا رہے۔
7۔ اگر مریض ہمیشہ سر درد کی شکایت کرتا ہو تو ان آیات کو  پانی پرپڑھیں، پھر مریض ہر تیسرے دن اس سے غسل کرتا رہے، بشرطیکہ پانی میں اضافہ نہ کرے، اسے آگ پر گرم بھی نہ کرے اور صاف ستھری جگہ پر غسل کرے۔

۶۔ سحر ہواتف (چیخ و پکار)
سحر ہواتف کی علامات
1۔ خوفناک خواب۔
2۔ خواب میں اسے یوں لگے جیسے کوئی اسے پکار رہا ہے۔
3۔ حالت بیداری میں کچھ آوازیں سنائی دیں اور کوئی شخص نظر نہ آئے۔
4۔ کثرتِ وساوس۔
5۔ اپنے دوست احباب کے بارے میں زیادہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہونا۔
6۔ خواب میں اسے یوں لگے جیسے وہ ایک بلند چوٹی سے گرنے والا ہے۔
7۔ خواب میں ایسے حیوانات نظر آئیں جو اس کے پیچھے بھاگ رہے ہوں۔
سحر ہواتف کیسے ہو جاتا ہے؟
جادوگر ایک جن کو یہ ڈیوٹی لگا کر بھیجتا ہے کہ وہ فلاں آدمی کو نیند اور حالتِ بیداری دونوں میں بے توجہ بنا دے، چنانچہ وہ نیند کی حالت میں خونخوار جانوروں کی شکل میں اس کےسامنے آتا ہے، اور حالتِ بیداری میں اسے عجیب و غریب آوازوں میں یا ان لوگوں کی آوازوں میں پکارتا ہے جنہیں وہ جانتا پہچانتا ہے، پھر اسے ہر قریبی اور دور کے رشتہ دار کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیتا ہے، اس کے بعد سحر ہواتف کی علامات جادو کی قوت کے متعلق ظاہر ہونا  شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر زوردار طریقے سے جادو کیا گیا ہو تو اسے جنون تک پہنچا سکتا ہے اور اگرا یسا نہ ہو تو وسوسے کی حد تک ہی رہتا ہے۔
سحر ہواتف کا علاج
1۔ مریض پر وہ دم کریں جس کا ذکر پہلی قسم میں کر دیا گیا ہے۔
2۔ اگر اسے مرگی کا دورہ شروع ہو جائے تو اس کے ساتھ نمٹنے کا طریقہ بھی پہلی قسم میں بیان کر دیا گیا ہے، اور اگر مرگی کا دورہ شروع نہ ہو تو اسے درج ذیل تعلیمات دیں:
3۔ مریض کو چاہئے کہ وہ سونے سے پہلے وضو کر کے آیت الکرسی پڑھ لے۔
(البخاری:ج1،ص357؛ج4،ص487الفتح۔مسلم:ج17،ص32،نووی)
4۔سونے سے پہلے معوذات کو پڑھے، پھر اپنی دونوں ہتھیلیوں میں پھونک کر انہیں پورے جسم پر پھیر لے۔ (البخاری:ج11،ص125،الفتح)
5۔ صبح کے وقت سورۃ الصافات اور سوتے وقت سورۃ الدخان کی تلاوت کرے یا ان دونوں سورتوں کو کیسٹ سے سن لے۔
6۔ ہر تیسرے دن سورۃ البقرہ کی تلاوت کرے یا اسے سن لے۔
7۔ سونے سے پہلے سورۃالبقرہ کی آخری دو آیات کو پڑھ لے۔
8۔ سوتے وقت یہ دعا پڑھ لے: (بِسْمِ اللہِ وَضَعْتُ جَنْبِیْ، اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذَنْبِیْ، وَاَخْسِیْٔ شَیْطَا نِیْ، وَفُکَّ رِ ھَانِیْ، وَاجْعَلْنِیْ فِیْ النَّدْیِ الَّا عْلیٰ )
“اے اللہ! میں نے تیرے نام کے ساتھ (بستر پر) اپنی کروٹ رکھی۔ اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے شیطان کو رسوا کر دے اور (اس سے) میری گردن آزاد کر دے اور مجھے اعلیٰ مجلس میں شامل فرما۔”
(ابوداود (۵۰۵۴)، اس کی سند کو نوویؒ نے الأذکار(۷۷) میں اور البانیؒ نے مشکوٰۃ (۲۴۰۹) میں صحیح قرار دیا ہے)
9۔ درج ذیل سورتیں ایک کیسٹ میں ریکارڈ کر کے مریض کو دے دیں جسے وہ روزانہ تین بار سنا کرے: حم السجدہ، الفتح، الجن۔
ان تعلیمات پر وہ ایک ماہ تک عمل کرے، ان شاءاللہ شفا نصیب ہوگی۔
جاری ہے.....
ہماری پوسٹس پڑھنے کیلئے ہمارا بلاگ یا ہمارا گروپ جوائن کریں-

whatsApp:00923462115913
whatsApp: 00923004510041
fatimapk92@gmail.com
www.facebook.com/fatimaislamiccenter
http://www.dawatetohid.blogspot.com/

مذاہب اربعہ کی فقہی تقسیم اور تناؤ

*مذاہب اربعہ کی فقہی تقسیم اور تناؤ*
(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ حجۃ اللہ البالغۃ:
ج ۱ ص۴۳۸ فرماتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ النَّاسَ قَبْلَ الْمِائَۃِ الرَّابِعَۃِکَانُوا غَیرَ مُجْمَعِینَ عَلَی التَّقْلِیدِ الْخَالِصِ لِمَذْہَبٍ وَاحِدٍ بِعَیْنِہِ۔
آپ کے علم میں یہ بات ہونی چاہئے کہ مسلمان چوتھی صدی ہجری سے قبل کسی ایک مذہب کی تقلید خالص پر متفق نہ تھے۔
آپ فرماتے ہیں کہ جونہی حنفی، شافعی ، حنبلی اور مالکی کی اصطلاحات متعارف ہوئی ہیں ہمارا یہ خیال ہے کہ اسلامی فقہ کا عظیم دور گزر گیا اور اس کی جگہ مذہبی دور آ گیا۔ ہو سکتا ہے کئی سیاسی اور عقلی عوامل اس مذہبیت کے پیچھے ہوں مگر بعد میں شخصیت پرستی(تقلید) کی روح عوام میں بتدریج سرایت کرگئی۔ جس میں علماء بھی شامل ہوگئے اور یوں فہم دین میں بتدریج زوال آنا شروع ہوا۔
*فقہی مذاہب کا آغاز:*
دوسری صدی ہجری کے آخیر میں فقہ اسلامی کا رنگ بدل گیا۔ علمی سرگرمیوں کے نتیجے میں ماحول وشخصیات کی فکر کے تعلق سے دو اہم مدارس وجود میں آگئے: جو مدرسہ حدیث اور مدرسہ رائے کہلائے۔ ان مدارس نے اپنی فکر کے انتشار میں جو تگ و دو دکھائی اور اصول بنائے اور اپنی فقہ کی عمارت انہی اصولوں پر قائم کی۔ اس کا تفصیلی تذکرہ امام شہرستانی رحمہ اللہ (۵۴۸ھ) جو امت اسلامیہ میں مختلف فرقوں اور مذاہب کے بننے اور بگڑنے پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اسی موضو ع میں لکھی گئی اپنی مستند کتاب الملل والنحل میں یوں فرماتے ہیں:ائمہ مجتہدین کی دو ہی قسمیں ہیں تیسری کوئی قسم نہیں: اصحاب حدیث اور اصحاب رائے۔ 
۱۔ اصحاب حدیث کا مسکن حجاز ہے جن میں امام مالک اور ان کے تلامذہ، امام شافعی اور ان کے شاگرد، سفیان الثوری اور ان کے رفقاء، امام احمد کے ساتھی اور امام داؤد اور ان کے خدام، انہیں اصحاب حدیث اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ حدیث اور اخبار کی طرف ہے ، یہ لوگ احکام کی بنیاد نصوص پر رکھتے ہیں۔ جب حدیث موجود ہو تو یہ لوگ قیاس جلی ہو یا خفی اس کی پروا نہیں کرتے۔ 
۲۔ اہل عراق کو اصحاب رائے کہا جاتا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ ہیں، انہی میں امام محمد، امام ابویوسف قاضی، زفربن ہذیل، حسن بن زیاد، ابن سماعہ، قاضی عافیہ، ابو مطیع البلخی اور بشر المریسی وغیرہ شمار ہوتے ہیں۔ انہیں اصحاب رائے اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس اور معانی کے استنباط کی طرف ہے یہ لوگ احکام کی بنیاد قیاس پر رکھتے ہیں اور بسا اوقات قیاس جلی کے سامنے خبر واحد کی بھی پروا نہیں کرتے۔
*تقسیم کی وجہ :*
ائمہ کرام کے بعد یہ مسلمان علماء کیسے منقسم ہوئے؟ وجوہات کیا تھیں؟ تاریخ کے امام مشہور مورخ وناقد علامہ ابن خلدون (۸۰۸ھ) کا درج ذیل اقتباس بھی اس وجہ کو سمجھانے کے لئے قابل غور ہے ۔ فرماتے ہیں:
پہلوں میں فقہ کے دوطریقے رائج ہو گئے۔ ایک طریقہ اہل عراق (کوفہ وغیرہ) والوں کا ہے اور دوسرا محدثین کا جو حجاز (مکہ و مدینہ) والوں کا ہے۔ اہل عراق میں جیسا کہ پہلے ذکرہو چکا ہے۔ حدیث کا ذوق کم تھا۔ لہٰذا انہوں نے بکثرت قیاس سے کام لیا اور اسی میں مہارت حاصل کی۔ جس کی وجہ سے انہیں اہل الرائے کہا گیا۔ اس جماعت کے سرخیل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ قرار پائے۔ ان میں اور ان کے شاگردوں میں مذہب نے قرار پکڑا۔ اہل حجاز (مکہ و مدینہ) والوں کے پیشوا امام مالک رحمہ اللہ اور پھر امام شافعی رحمہ اللہ ٹھہرے۔ (مقدمہ ابن خلدون: ۳۸۹)
خیر القرون میں ہر فقیہ کا یہ حق تھا کہ وہ صورت مسؤلہ کا جواب دے اس لئے کہ لوگ اس سے فقہی سوالات کا حل مانگتے تھے۔ اور جب اس نے اجتہاد کیا تو اپنے علم کے مطابق یہی سمجھا کہ میری نظر میں یہی حق ہے۔بعد میں فقہاء کرام کی یہ کوششیں انفرادی حیثیت اختیار کر گئیں جو ہر شہر میں اپنے اپنے مسلک کی تھیں۔ وہ اپنے ماحول اور حالات کے لحاظ سے معذور بھی تھے۔ان تک صحیح احادیث رسول نہیں پہنچ سکیں بلکہ وہ احادیث ضعیفہ ، آثار اور فتاوی پر اکتفاء کرتے رہے۔انہی حالات میں تدوین حدیث ہوئی اور ضعیف وموضوع یا مرسل ومنقطع روایات بے وزن ہوگئیں مگر بعض علماء، نے پھر بھی انہیں اپنی کتب کی زینت بنایا اور بعض حضرات بھی اپنے خطبوں میں ان کا تذکرہ کرتے رہے۔ مکہ کے فقہاء ہوں یا مدینہ کے، عراق کے ہوں یا یمن کے، مصر کے ہوں یا شام کے سب کی فقہی جزئیات اور قابل اعتماد ذرائع علیحدہ علیحدہ تھے۔ کوئی جامع ضابطہ نہ تھا جو حدیث کی صحت وضعف کا معیار قائم کرسکتا اور نہ ہی کوئی اصول وقواعد تھے۔ بلکہ ہر شہر کا فقیہ اور فقہ علیحدہ علیحدہ تھی۔ اجتہاد، افتاء اور استنباط مسائل کے لئے احادیث صحیحہ کے مقابلے میں مرسل، منقطع اور موقوف روایات پر اعتماد وانحصار تھا۔ اسی بناء پر امام زرکشی رحمہ اللہ نے المحصول میں مسلکی فقہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:
ہُوَ مَعْرِفَۃُ أحْکامِ الْحَوَادِثِ نَصًّا وَاسْتِنباطًا عَلَی مَذْہَبٍ مِنَ الْمَذَاہِبِ۔
جدید مسائل کے احکام کو نصوص واستنباط کے ذریعے سے کسی بھی مذہب کی روشنی میں جاننا۔۱/۱/۹۴
ان تمام ائمہ کی طرف نسبت سے فقہ مدون ومرتب ہوئی جوفقہ حنفی،فقہ مالکی،فقہ شافعی فقہ جعفری اورفقہ حنبلی کے نام سے موسوم ہوکروجود میں آئی۔ اس طرح ہر فقہ ایک ہی مسلک کی محدود فقہ بن گئی۔
مذہبی شدت : شاہ صاحب نے تقلید کے زمانہ کی جو تحدید کی ہے ہمارا خیال یہ ہے کہ غالبا اس کا آغاز ائمہ حضرات کے دور میں ہی ہو چکا تھا۔ اس مذہبی فقہ کا قاری بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مسئلہ اور اس کا رد عمل، اندلس میں مالکی فقہاء اور مشرق میں حنفی فقہاء کی اپنے اپنے قاضیوں کی مناصب پر تعیین اوران کی پیشگی شرائط، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے فقہی مناظرے، امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں مالکی فقہاء کی بد دعائیں، کتب فقہیہ میں مناظرانہ رنگ اور علمی احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے پر شدید ردود، اپنے فقہاء کے بارے میں غلو اور دوسروں کی اہانت، شاعرانہ چشمک نے یہ مذہبی عصبیت شروع ہی سے پیدا کردی تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ کو ان کے آخری ایام میں بخارا سے بدر کروانے میں شاید یہی عوامل کارفرما تھے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے فتاوی نصوص پر تھے جن کے مقابلہ میں حنفی علماء کے فتاوی اپنے مسلک کے مطابق تھے کیونکہ سلطنت عباسی کے سایہ شفقت میں بخارا وسمرقند میں فقہ حنفی کا تسلط تھا۔ فقہاء وعلماء کے درمیان ایسی صورت حال پیدا ہوتی رہی جو ایک دوسرے کے لئے پریشان کن تھی۔ مثلا: بعض فقہاء کا یہ فتوی تھا کہ مدہوشی کی حالت میں طلاق مؤثر ہوتی ہے ان کے مقابل یہ فتوی دیا گیاکہ حالت نشہ میں دی گئی طلاق غیر مؤثر ہوتی ہے۔ فقہاء نے وجہ یہ بتائی کہ لفظ طلاق کی ساتھ نیت ضروری نہیں۔دوسروں نے کہا: نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: انما الاعمال بالنیات۔ عمل کے مؤثر ہونے کا دارو مدار نیت پر ہے۔مے نوش جب حالت نشہ میں طلاق دیتا ہے تو اس کی نیت طلاق دینے کی نہیں ہوتی لہٰذا اس کے الفاظ ، لغو الفاظ ہیں اور طلاق مؤثر نہیں۔ 
اسی طرح ایک فتویٰ یہ بھی سامنے آیا کہ جبر، تشدد اور اکراہ سے حاصل کی گئی طلاق مؤثر ہے۔ یہ فتوی بھی یہ کہتے ہوئے رد کر دیا گیا کہ یہ طلاق غیر مؤثر ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبری طلاق نہیں ہوتی۔
فقہاء نے کہا: نکاح کے لئے لڑکی کی رضا ضروری نہیں ہے۔ دوسروں نے فتوی دیا: نکاح کے لئے لڑکی کی رضا ضروری ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کا نکاح کالعدم قرار دیا تھا جس نے اظہار کراہت کیا تھا۔ اور کراہت کا ضد لفظ رضا ہے ، اجازت نہیں ہے۔
یہ فتویٰ بھی سامنے آیا: نکاح سے قبل طلاق دینا جائز ہے۔دوسرے فقہاء نے فرمایا ایسا کرنا درست نہیں اس لئے یہ قرآن کے حکم کے خلاف ہے نکاح سے قبل طلاق کا جواز ہی نہیں بلکہ ایسی طلاق لغو ہے۔
فقہاء نے کہا: نکاح وطلاق میں قاضی کا فیصلہ ظاہر وباطن میں نافذ ہوتا ہے۔دیگر فقہاء نے فتوی دیا یہ بھی درست نہیں۔ عمداً جھوٹ بول کر یا عمدا ًجھوٹے گواہ بنا کر اگر عدالت کا فیصلہ لے لیا جائے تو عورت بیوی نہیں بنتی۔ جب کہ پہلوں نے کہا وہ بیوی بن جاتی ہے۔ 
یہ بھی فتویٰ سامنے آیا: ایک قطرہ دودھ پینے سے عورت رضاعی ماں بن جاتی ہے۔جواب میں کہا گیا یہ بھی غلط ہے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ایک دو گھونٹ پینے سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
 یہ وہ چند مثالیں تهی جو فقہاء کے فتوے آپس میں ٹکرانے لگے-اسی طرح سینکڑوں مسائل باہم جو ایک دوسرے کے متصادم اور قرآن حدیث کے سرا سر خلاف ہیں -
مذہبی شدت کے یہ انمٹ آثار ہماری ان کتب کی زینت ہیں جنہیں ہمارے ہاں قابل قدر اثاثہ وسرمایہ سمجھ کر پڑھایا جاتا ہے۔امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ حنبلی مسلک رکھتے تھے کسی مسئلہ پر تحقیقی وعلمی اندازسے سوچا تو امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے وقیع ومدلل نظر آئی چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق فتوی دے دیا۔ صبح جب اپنے کمرے سے باہر آنا چاہا تو حنبلیوں نے راتوں رات ان کے دروازے پر دیوار چن دی۔ مالکیوں نے امام بقی رحمہ اللہ بن مخلد محدث اندلس کے ساتھ جو کچھ کیا کہ اندلس میں اس عالم حدیث کا وجود تک برداشت نہ کرسکے۔ماضی میں معمولی فقہی مسائل پر شوافع اور احناف کے درمیان باقاعدہ میدان جنگ سجے اور بزعم خود شہادتوں کے ڈھیر لگے۔ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کے تاخت وتاراج کے پس منظر میں یہی فرقہ واریت ہی توہے۔ ہاتھ چھوڑ کر نماز مالکی پڑھتے ہیں۔ پوچھا جائے کہ اس کی دلیل تمہارے پاس کیا ہے جب کہ امام محترم اپنی کتاب موطا میں ہاتھ باندھنے کی حدیث بطور دلیل کے پیش فرماتے ہیں اور وہ خود بھی اس پر عامل رہے؟ ان کا جواب یہی ہے کہ چونکہ ہمارے امام کا یہ آخری عمل ہے۔اس لئے ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ بعض کتب فقہ میں بڑے بڑے ائمہ مجتہدین کے خلاف ایسا تلخ وترش لب ولہجہ استعمال ہوا ہے جوکسی بھی طرح ایک طالب علم کو علماء وفقہاء اور محدثین کے ادب و احترام کا خوگر نہیں بناتا بلکہ دیگر مسالک سے تعصب اور نفرت کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔کسی کو گمراہ قرار دینے یا کفر تک پہنچانے کے رجحانات بھی بہت تیز وشدید پائے جاتے ہیں۔ عموما ًیہ رجحان فروعات کے بارے میں ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
اسی طرح مسانیدابی حنیفہ رحمہ اللہ کے نام سے ایک کتاب ساتویں ہجری میں ایک حنفی عالم ابو المؤید الخوارزمی نے مرتب کی۔ اولاً تو اس کتاب کی ثقاہت بیشتر علماء ومحدثین کے نزدیک محل نظر ہے جس کی تفاصیل ہمیں حجۃ اللہ البالغۃ میں مل جائیں گی۔ نیز اس کی بیشتر احادیث سنداورمتن دونوں اعتبار سے محدثین کے ہاں ضعف اور وضع سے بھر پور ہیں۔ پھر بھی مؤلف مرحوم کا تصنیفی داعیہ ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں:
مخالف یہ دعوی کرتا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی کوئی مسند نہیں ہے۔ نیز یہ کہ وہ چند احادیث ہی کو روایت کرتے تھے۔ تو مجھے دین کی ربانی غیرت نے اور حنفی نعمانی عصبیت نے للکارا اورجوش دلایا۔ اس بنیاد پر میں نے چاہا کہ ان پندرہ مسانید کو جمع کرڈالوں(مقدمہ جامع المسانید از خوارزمی)
جس فقیہ کے یہ الفاظ ہوں اس نے کیا جمع کیا ہوگا؟۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ تمام فقہاء کی کاوشوں اور اجتہادات سے بھرپور فائدہ اٹھا کر فقہ کو محدود کرنے کی بجائے وسیع کیا جاتاجو کم ازکم اسلامی فقہ تو کہلاتی۔ اس لئے کہ ان فقہاء کرام نے یہ سب کاوشیں دین اسلام کے لئے کیں نہ کہ اپنی ذات یا اپنے مسلک کو رواج دینے کے لئے۔ جب چاروں فقہاء برحق ہیں توایک مسلک سے جڑ کر ان کی فقہ کو اسلامی فقہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟۔
سوال یہ ہے کہ ان مذہبی اختلافات سے بچنے اور تمام فقہاء کرام کو ان کا جائزمقام واحترام دینے کی آخر سبیل کیا ہے؟ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک صائب مشورہ ہے کہ:
ہرمذہب کے تین حصے کرلیجئے۔
وہ حصہ جس میں حق واضح ہو اور کتاب وسنت کے موافق ہو شرح صدر سے اس کے مطابق فتوے دیجئے۔
دوسرا وہ حصہ جو مرجوح ہے اور دلائل کے اعتبار سے بہت کمزور۔ اس کے مطابق نہ فتوی دیا جائے اور نہ ہی مسائل بتائے جائیں بلکہ اس حصے کو تو ذہن سے ہی نکال دینا چاہئے۔
تیسرا حصہ وہ جس میں دلائل کی کشش دونوں طرف موجود ہے اس میں جیسے طبیعت چاہے فتوی دیا جاسکتا ہے یا اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی خیال میں رہے کہ مذہبی فقہ کے مراتب مختلف ہیں۔ نیز بیشتر مسائل میں استاد شاگرد کا اصولی ونظری اختلاف بھی موجود ہے جو اس کی استدلالی حیثیت کومشکوک بنا دیتا ہے اس لئے یہ مذہبی فقہ کسی بھی مقام پر رد وقبول کے لئے معیار نہیں قرار پا سکتی۔ ہاں اگر مقدار وپیمانہ کا تعین ہو جائے تو درایت کے اعتبار سے مذہبی فقہ قابل قبول ہو سکتی ہے۔
(ماخوذ :فقہ اسلامی از ڈاکٹر ادریس زبیر)
www.dawatetohid.blogspot.com

Saturday 29 October 2016

دعویٰ حق اور فقہی مذاہب

*دعویٰ حق اور فقہی مذاہب*

(تالیف:عمران شہزاد تارڑ)

یہ وہ حق ہے جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ چاروں مذہب حق پر ہیں۔اور ایک وقت میں ایک مذہب کی تقلید کرنا لازم ہے،اس حق کے سوا جو ہے  وہ سب باطل ہے،ذرا سوچیں !اگر سارا حق ایک مذہب  میں ہے تو ظاہر ہے کہ باقی تینوں مذہب حق نہ رہے،اگر چاروں میں سے ہر ایک میں حق ہے تو زیادہ سے زیادہ ہر مذہب میں حق کا چوتھائی حصہ ہے نہ کہ پورا حق،ایک چوتھائی حق ہے تو یہ بھی مسلم ہے کہ ہر مسلک میں تین چوتھائی باطل ہے۔آپ ایک روپیہ کے چار حصے کریں چار دھریاں ریت کی کریں اور اس ایک روپے کو ان چاروں دهریوں میں رکھیں تو ظاہر ہے کہ آپ ہر ایک دھری میں ایک چوانی (یعنی چوتھائی حصہ)رکھ سکتے ہیں۔جس جس دھڑے پر جو جو جماعت قبضہ کر کے بیٹھے گی وہ بہت کچھ محنت کر کے رول رول کر اس ڈھیر میں چوانی(یعنی چوتھائی حصہ) ہی نکال سکتی ہے نہ کہ پورا روپیہ۔پس اگر حق ان چاروں میں ہے  تو زیادہ سے زیادہ ہر مسلک میں ایک چوتھائی حق ہے ۔اور تین چوتھائی باطل ہے۔
دوسری طرف  وہ جماعتیں جو کسی خاص مسلک کی تقلید نہیں کرتیں آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک وسیع مکان ہے جس کے چار حصے کردیے گئے اور ہر حصے کو دیواریں بنا کر دوسرے حصے سے بالکل الگ کر دیا گیا ۔ان چاروں حصوں میں مختلف لوگوں نے رہائش شروع کر دی، ظاہر ہے کہ ہر قبیلے والوں کے لیے وہی وسعت رہی جو اس اصلی مکان کی چوتھائی ہے،پورے مکان  کی وسعت ان چاروں قبیلوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی ۔لیکن جو قبیلہ اس وسیع مکان کے چار حصے نہ کرے اسے اس کی اصلی وسعت اور کشادگی پر رہنے دے ،ظاہر ہےکہ اس کے لیے بہت وسیع میدان ہے،یہ اللہ کی وسیع فضا میں کھلی ہوا میں اور صاف روشنی میں اپنا گزارا کر سکتا ہے اور کر رہا ہے ۔کامل دین ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور ہے  جو  چوتھائی حصے سے الگ ہیں اور اس بٹوارے سے ناراض ہیں ۔چاہے وہ دنیا میں کسی بھی نام سے منسوب ہوں۔لیکن یہاں پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دین و عمل کون سا قابل قبول ہو گا آخر وہ کون سا طریقہ ہو جس سے ایک متلاشی حق کو یہ پتہ چلے کہ فلاں آدمی کا قرآن و سنت سے استدلال صحیح ہے اور فلاں آدمی کا غلط؟ اسلام جو کہ ایک کامل، عالمگیر و ہمہ گیر اور آفاقی دین ہے اس نے کوئی طریقہ تو بتلایا ہی ہو گا جو قرآن کریم کی ایک ہی آیت یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی حدیث سے دو بالکل متضاد عقائد و اعمال ثابت کرنے والے دو اشخاص میں سے کسی ایک کے حق اور دوسرے کے باطل ہونے کا یقینی پتا دے سکے۔ جی ہاں ! بالکل اسلام نے ایسا طریقہ ضرور بتایا ہے، لیکن افسوس کہ آج مسلمان اس سے مسلسل دور ہو رہے ہیں اور یقیناً روز بروز بڑھتے ” اسلامی فرقوں“ کے پیچھے یہی دوری کار فرما ہے۔ اگر حق کو پرکھنے کے لیے اس کسوٹی کو استعمال کیا جاتا تو بالیقین ایسی صورت حال سے مسلمانوں کو پالا نہ پڑتا۔ یہ طریقہ خود قرآن و حدیث نے بیان کیا ہے۔ وہ طریقہ سلف صالحین کا فہم ہے۔ اگر ہم تمام اختلافات دور کرنا چاہتے ہیں تو قرآن و سنت کا وہی مفہوم لینا شروع کر دیں جو صحابہ، تابعین اور تبع تابعین لیتے تھے۔ ان کے بارے میں خیر و بھلائی کی گواہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ یقیناً یہ لوگ اہل حق تھے صراط مستقیم پر تھے، لہٰذا اگر ہم قرآن و سنت کو ان کی طرح سمجھنے لگیں گے تو باہمی اختلافات خود بخود ختم ہو جائیں گے اور صحیح اسلام ہمیں مل جائے گا، یوں ہم بھی صراط مستقیم پر چلنے لگیں گے۔فہم سلف کی حجیت میں محدثین کرام اور ائمہ دین میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ وہ سب فہم سلف کو حجت سمجھتے تھے۔لیکن موجودہ دور میں کچھ لوگ اس بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نظر آتے ہیں۔ ہم فقط اصلاح کی خاطر ان لوگوں کے اشکالات کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔جس کی مکمل تفصیلات آپ میرے سلسلہ*مختصر تعارف فقہ اسلامی* میں پڑھ سکتے ہیں- اللہ تعالیٰ حق سمجھنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے ! تمام متلاشیان حق سے اپیل ہے کہ اللہ کے لیے وہ ہر قسم کے نظریاتی تعصب سے بالاتر ہو کر اس سلسلہ  کو پڑھیں، ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
WhatsApp:0096176390670
http://www.dawatetohid.blogspot.com/

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...