Tuesday 31 May 2016

جادو جنات اور علاج، قسط نمبر33

(جادو جنات اور علاج:قسط نمبر34)

سجدہ سے ابلیس کا انکار:
اسباب واعذار - ایک جائزہ؛

قرآن مجید کی متعدد آیات میں قصۂابلیس کا ذکر آیا ہے، ابلیس نے جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب دریافت کیا، ابلیس نے اس موقعہ پر اپنی کم عقلی وکج فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی افضلیت کو سجدے سے انکار کا سبب بتایا، آیئے پہلے ہم ان چند آیات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جن میں اس قصہ کا بیان ہوا ہے۔

١۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ترجمہ [اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم نے ہی تمھاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو، سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے، وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ حق تعالی نے فرمایا: تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے، جب کہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے،الاعراف: ١١ – ٢ا ]۔
٢۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:ترجمہ [اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدہ میں گرپڑنا۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کرلیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟ وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تونے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے،الحجر: ٢٨ – ٣٣]۔
٣۔ ﷲ تعالی کا ارشاد ہے:ترجمہ[جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نےسجدہ  کیا، اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے اپنے بس میں کرلوں گا ،الاسراء: ٦١ – ٦٢]۔
۴۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:ترجمہ[جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں۔ سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے۔ (اﷲتعالی نے) فرمایا: اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا ہے، ص: ٧١ – ٧٦]۔

خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کا یہ عذر پیش کیا کہ وہ آدم علیہ السلام سے افضل ہے اور ایک افضل کو اس سے کمتر کا سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا جانا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ تھا۔ابلیس نے صرف یہ دیکھا کہ وہ آگ سے بنا ہے اور آدم علیہ السلام مٹی سے۔اس نے یہ نہیں دیکھا کہ آدم علیہ السلام کو اللہ نے کتنی عزت بخشی ہے۔ انھیں اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ان میں اپنی روح پھونکی ہے۔ابلیس نے کبر و غرور، فخر وعناد اور حسد سے کام لیا، اور وہ اس برے انجام تک اپنے فاسد قیاس سے پہنچا۔ اس نے اپنے اور آدم علیہ السلام کے اصل عنصر پر نظر کی اور یہ فیصلہ کرلیا کہ آگ مٹی سے بہترہے۔حالانکہ اس کا یہ قیاس فاسد , اس کی یہ رائے باطل اور اس کی یہ سوچ غلط تھی ؛ کیونکہ:
 (١)یہ قیاس اللہ کے حکم کے مقابلہ میں تھا۔جب اللہ کا صریح حکم موجود ہو اس وقت قیاس کرنا اور اللہ کے حکم کے آگے اپنی عقل دوڑانا انتہائی حماقت اور نادانی کی بات ہے۔اور یہ عمل کسی اللہ والے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔
ابلیس کی عقل نے کیوں ٹھوکر کھائی؟
یہاں  یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اگر مخلوق کی عقل خالق کے حکم کے خلاف سوچتی ہے تو یقینی طور پر ٹھوکر کھاتی ہےجیسے کہ شیطان کی عقل نے اس کا ساتھ نہیں دیا، جس طرح درست طور پر دیکھنے کے لئے آنکھ کو اللہ کی پیدا کی ہوئی روشنی سورج یا چاند یا کسی اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح درست طور پر سوچنے کے لئے عقل کو بھی وحی کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصارت کے لئے بیرونی روشنی درکار ہے اور بصیرت کے لئے وحی کا نور مطلوب ہے۔
(٢)ابلیس کا یہ دعوی کہ وہ آدم علیہ السلام سے بہتر ہے خود ابلیس کے ذلیل وپست ہونے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اپنے منہ میاں مٹھو بننا پست وحقیر ہونے کی دلیل ہے۔
(٣)ابلیس کا یہ دعوی بھی غلط تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مٹی آگ سے کئی اعتبارسے افضل ہے۔

آگ اور مٹی کا موازنہ:

١۔ مٹی کی شان، حلم،ثبات، وقار اور سنجیدگی ہے۔آدم علیہ السلام کے عنصر مٹی نے ان کو نفع دیا۔آپ نے گناہ کے بعد توبہ کیا اور جنت سے نکلنے کے بعد دوبارہ جنت کے مستحق ہوئے۔آگ کی شان طیش واضطراب، سوزش واشتعال، بھڑک اور جلانا ہے۔ ابلیس کے عنصر آگ نے اسے نقصان پہنچایا چنانچہ اس نے گناہ کے بعد توبہ نہ کی اور ہمیشہ کے لئے مردود ٹھہرا۔مٹی کی طبیعت میں سکون اور ٹھہراؤ ہے جبکہ آگ کی طبیعت میں حرکت اور اشتعال ہے۔

٢۔ آگ کا مزاج فساداور تباہی وہلاکت ہے جبکہ مٹی کا مزاج ایسا نہیں۔

٣۔ مٹی میں اور مٹی سے انسانوں اور حیوانوں کی خوراک وپوشاک کا انتظام ہوتا ہے۔ان کے مکانات اور ضرورت کے سامان اسی سے تیار ہوتے ہیں جبکہ آگ سے ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

٤۔ مٹی انسان وحیوان کے لئے ضروری ہے، کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جبکہ آگ کی ضرورت حیوانات کو تو بالکل نہیں اور انسان بھی کئی مہینوں اور کئی دنوں تک اس سے بے نیاز رہ سکتا ہے۔کہاں آگ سے کبھی کبھی نفع اٹھانا اور کہاں مٹی سے ہمیشہ نفع اٹھانا کیا دونوں برابر ہو سکتا ہے؟؟۔

٥۔ مٹی میں کوئی دانہ ڈالا جائے تو مٹی کی بر کت یہ ہے کہ وہ دانہ کئی گنا ہو کر واپس ملتا ہے۔ جبکہ آگ میں جتنے دانے ڈالے جائیں آگ سب کو کھالیتی ہے۔ بڑھانا تو دور کی بات ہے خود اس میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑتی۔

٦۔ مٹی از خود قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لئے کسی دو سری چیز کی محتاج نہیں۔ جبکہ آگ کو قائم رہنے کے لئے کوئی جگہ چاہئے۔

٧۔ آگ مٹی کی  محتاج ہے اور مٹی آگ کی محتاج نہیں کیونکہ آگ جس جگہ رکھی جائے گی وہ یا تو مٹی ہو گی یا مٹی سے بنی ہوئی کوئی چیز ہو گی۔

٨۔ مٹی میں خیر وبرکت پوشیدہ ہے جتنا اسے الٹ پلٹ کریں گے اور اس کی کھدائی کریں گے اس کی خیر وبرکت ظاہر ہو گی۔اس کے بر خلاف آگ میں اگرچہ تھو ڑا سا نفع ہے لیکن اس میں شر ومصیبت پوشیدہ ہے۔ جب تک اسے باندھ کے اور بند کر کے رکھیں گے اس سے مستفید ہوتے رہیں گے اور جونہی آگ آزاد ہو ئی اور اس پر سے رکاوٹ ختم ہوئی تو تباہی وبربادی یقینی ہوجائے گی۔

٩۔ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں زمین کا بکثرت ذکر کیا ہے اور اس کی نفع رسانیوں کی وضاحت کی ہے جبکہ آگ کاذکر سزا اور عذاب کے طور پر آیا ہے سوائے ایک دو جگہوں کے کہ جہاں پر مسافرکے لئے اسے مفید بتایا گیا ہے۔

 ١٠۔ قرآن مجید کے اندر زمین کے بہت سے مقامات کو بابر کت قرار دیا گیا ہے لیکن آگ کو کہیں بھی با برکت نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ آگ تو برکت مٹانے والی ہے۔

١١۔ اللہ تعالی نے زمین میں بہت سے منافع رکھے ہیں۔نہریں، چشمے، باغات، وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ ایسی کوئی چیز آگ میں نہیں۔

١٢۔ ابلیس کا مادہ آگ کا شعلہ ہے اور وہ کمزور ہے۔ خواہشات اسے جہاں چاہتے ہیں پھیرتے رہتے ہیں۔اسی لئے اپنے خواہشات کا غلام بن کر ابلیس نے نافرمانی کی۔جبکہ آدمی کا مادہ مٹی ہے اور مٹی ایک طاقتور چیز ہے۔ خواہشات اس پر قابو نہیں پاسکتے۔تھوڑی دیر کے لئے اگر خواہش غالب بھی آجائے تو پھر جلدہی زائل ہو جاتی ہے۔

١٣۔زمین ہی میں اللہ کے گھر پائے جا تے ہیں۔کعبہ اور مسجدیں پائی جاتی ہیں۔ اور آگ میں ایسا کچھ نہیں۔

١٤۔ آگ کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمین میں پیداہونے والی چیزوں کی خادم رہے۔ جب آگ کی خدمت کی ضرورت ہوتی ہے تو اسے کسی خادم کی طرح بلایا جاتا ہے اور ضرورت پوری ہو نے پر اسے بجھا دیا جاتا ہے۔

١٥۔ ابلیس نے اپنی بے عقلی کی بنا پر یہ دیکھا کہ آدم علیہ السلام کو گیلی مٹی سے بنایا گیا ہے اس لئے ان کو حقیر خیال کیا۔ کاش اس بیوقوف کو معلوم ہوتا کہ گیلی مٹی دو چیزوں سے مرکب ہے ایک تو پانی جس سے اللہ نے ہر زندہ چیز کو بنایا ہے اور دو سری چیز مٹی جو نعمتوں کا خزینہ اور منا فع کا گنجینہ ہے۔

١٦۔ مٹی آگ پر غالب آتی ہے اور اسے بجھا دیتی ہے لیکن آگ مٹی پر غالب نہیں ہے۔

١٧۔ اللہ نے زمین کو سجدہ گاہ اور پاکی حاصل کر نے کا ذریعہ بنا یا ہے اور آگ کو ایسی کوئی فضیلت نہیں۔

١٨۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے تو اصل کے افضل ہونے سے فرع کا افضل ہونا لازم نہیں آتا۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ دادا بہت شریف اور با عزت ہوتے ہیں لیکن ان کی اولاد نہایت ذلیل اور بدتر ہوتی ہے۔

١٩۔ آدم علیہ السلام اگرچہ مٹی سے بنائے گئے تھے لیکن اللہ نے ان میں اپنی طرف سے روح پھونک کر انھیں عزت بخشی۔ابلیس کو یہ فضیلت تو ہرگز حاصل نہیں تھی۔

٢٠۔ آدم علیہ السلام کو اللہ تعا لی نے اپنے دست مبارک سے بنا یا تھا۔

٢١۔ اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ ابلیس ہی افضل تھا تو کہا جائے گا کہ افضل کا اپنے سے کمتر کی تعظیم وتکریم کرنا کوئی تعجب اور انکار کی بات نہیں۔
جاری ہے......
ہماری دیگر اسلامی سروس حاصل کرنے کیلئے رابطہ:
whatsApp:0096176390670
Whatapp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccentr
 طالب دعا: فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

جادو جنات اور علاج، قسط نمبر32

(ابلیس و شیاطین قسط نمبر32)
ابلیس، جنّات اورشیطان کا تعارف
١۔ ابلیس:
ابلیس جسے اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا اورآدم علیہ السلام کی عزت افزائی کے لئے ان کو سجدہ کرنے کاحکم دیا۔ابلیس نے تکبر کرکے آدم علیہ السلام کو  سجدہ کرنے سے انکار کر دیا،اللہ نے اس پر لعنت کی،اسے دھتکار دیا اور ایک متعین مدت تک کے لئے اسے مہلت عطا فرمائی۔
لغوی اعتبار سے ابلیس کے معنی مایوس اور نا امید کے ہوتے ہیں۔ چونکہ ابلیس اللہ کی رحمت سے مایوس ہو چکا ہے اور مردود قرار دے کر اللہ کی جناب سے دھتکارا جا چکا ہے اسی لئے اس کا نام ابلیس پڑا۔
اسی معنی کودیکھتے ہوئے  بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پہلے اس کانام ابلیس نہیں تھا مردود ہونے کے بعد ابلیس نام پڑا۔ لیکن ایسا ضروری نہیں, ممکن ہے مستقبل کی رعایت سے شروع سے ہی یہ نام رکھ دیا گیا ہو۔
بعض روایات وآثارمیں ابلیس کے کچھ دیگر نام آئے ہیں لیکن وہ آثارثابت نہیں ہیں۔ حارث، عزازیل، اورنائل وغیرہ نام آئے ہیں۔ عزازیل توکافی مشہورہے، فارسی کاایک شعرہے۔

"تکبرعزازیل را خوار کرد
بزندان لعنت گرفتار کرد"

حقیقت یہ ہے کہ ابلیس کاکوئی دوسرانام یادوسری کنیت کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے۔
٢۔ جنّات :
ابلیس اوراس کی اولاد کا نام جنّ يا جنّات ہے۔ ان کاایک مستقل عالم ہے، انھیں جن اس لئے کہا جاتاہے کیونکہ وہ نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔انھیں اللہ تعالی نے آگ سے پیدا کیاہے۔ وہ انسان کو ایسی حالت میں دیکھتے ہیں جس میں انسان ان کو نہیں دیکھ سکتا۔ وہ شریعت کی پابندی میں انسان کے ساتھ شریک ہیں۔ البتہ ان کی شریعت ان کے مطابق اوران کے حسب حالت ہے۔
٣۔ شیطان :
امام ابن کثیرفرماتے ہیں کہ شیطان عربی زبان میں شطن سے مشتق ہے جس کے معنی بعید ہونے کے ہیں۔کیونکہ شیطان کی طبیعت انسانوں کی طبیعت سے بہت بعید ہے, نیز اپنے فسق کی بنا پر وہ ہرخیروبھلائی سے بعید ہے, اسی لئے اس کا نام شیطان ہوا۔ انسان وجنات بلکہ حیوانات اور جانوروں میں سے ہرشریر وسرکش کے لئے بھی شیطان کا لفظ بولا جاتا ہے۔ ابلیس کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ حق سے بہت بعید اور سرکش ہے۔
اللہ تعالی نے سورہ بقرہ میں ابلیس کے لئے شیطان کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ارشادہے: (ترجمہ:لیکن شیطان نے ان کو بہکا کر وہاں سے نکلواہی دیا
البقرة: ٣٦)
ہرسرکش انسان وجنات پرشیطان کے لفظ کے اطلاق کی دلیل قرآن مجید کی وہ آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعا لی کاارشاد ہے:
ترجمہ؛اوراسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیداکئے تھے۔ کچھ آدمی اورکچھ جن۔ جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں سے وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں الانعام: ١١٢ ]۔
منافقین کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: [ترجمہ؛جب ایمان والوں سے ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائےاورجب اپنے شیطانوں کے پاس جاتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم تو تمھارے ساتھ ہیں ہم توان سے صرف مذاق کرتے ہیں البقرة: ١٤ ]۔  (یہاں شیطانوں سے مراد سرداران قریش ویہود ہیں)۔
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذررضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: «اے ابوذر! انسانوں اور جناتوں کے شیطانوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ ابوذر نے عرض کیا: کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں»۔ (مسنداحمد والنسائی)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک کبوتری کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھ کرفرمایا: «ایک شیطان ایک شیطانہ کے پیچھے بھاگ رہا ہے»۔ (ابوداودوابن ماجہ بسندحسن)
ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «کالاکتا شیطان ہے»۔ (مسلم)
کالاکتا کتوں کاشیطان ہے۔ نیزجنّات اکثروبیشترکالے کتوں کی صورت اختیار کیا کرتے ہیں۔
ابلیس،جنّات اورشیطان کافرق:
جیسے آدم علیہ السلام انسان اول ہیں اورسارے آدمی ان کی اولادہیں ایسے ہی ابلیس جنات اول ہے اور سارے جن اس کی اولاد ہیں۔جن وشیطان میں ایمان و کفر کے لحاظ سے فرق ہے۔ مومن جنوں کو شیطان نہیں کہا جائے گا، صرف کافر جنوں کو ہی شیطان کہا جائے گا۔صحابہ وتابعین کے آثار اوراقوال مفسرین سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ 
ابلیس کی تاریخ پیدائش :
اس میں شک نہیں کہ ابلیس کی ولادت آدم علیہ السلام سے پہلے ہوئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: [ترجمہ؛یقیناہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا فرمایا ہے اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا- الحجر: ٢٦- ٢٧]
البتہ ابلیس کس دن اور کس وقت پیدا ہوا اورفرشتے اس سے پہلے پیدا ہوئے یا وہ فرشتوں سے پہلے پیدا ہوا؟ ان سب سوالات کے جوابات سے کتاب وسنت خاموش ہیں۔بعض اسرائیلی روایات آئی ہیں لیکن ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
ابلیس کا مادۂ تخلیق :
ابلیس کا مادۂ تخلیق آگ ہے، اسی لئے ابلیس اور اس کی اولاد جنات کو ناری مخلوق بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے متعدد دلائل میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

(١) اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  [ترجمہ؛اور ہم نے تم کو  پیدا کیا پھرہم نے ہی تمھاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے۔وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ حق تعالی نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے۔ (تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا؟) جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا۔ کہنے لگا:میں اس سے بہتر ہوں۔آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اوراس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے-الاعراف: ١١–١٢]
(٢) نیز ارشاد ہے:  [اور اس سے پہلے ہم نے جنات کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا-الحجر:٢٧]
 (٣) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: «خُلِقَتْ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ»۔ (مسلم) «فرشتے نور سے پیدا کئے گئے، جنوں کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا گیا اور آدم علیہ السلام کو اس عنصر سے پیدا کیا گیا جو تمھیں بتایا جا چکا ہے»۔
جاری ہے.....
ہماری دیگر اسلامی سروس حاصل کرنے کیلئے رابطہ:
whatsApp:0096176390670
Whatapp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccentr
 طالب دعا: فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

جادو جنات اور علاج، قسط نمبر31

(ابلیس و شیاطین قسط نمبر31)

الحمد لله, والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:

 ابلیس وشیاطین کا تعلق غیب کی دنیا سے ہے، یہ ایک نظر نہ آنے والی مخلوق ہے۔ ایک مسلمان کے ایمان بالغیب کا تقاضا یہ ہے کہ اس مخلوق کے بارے میں جو کچھ قرآن وحدیث میں ثابت ہے اس پر بلا کسی کمی بیشی کے ایمان لائے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس تعلق سے ہر غیرثابت شدہ امر سے احتراز کرے  خواہ وہ اسرائیلی روایات یا ضعیف وموضوع احادیث کی شکل میں ہوں یا فلسفیانہ دماغی ورزشوں، تجربات، خواب وخیالات اور قصے وحکایات کی شکل میں۔
زیر نظر سلسلہ قرآن مجید اور صحیح احادیث کی روشنی میں اس غیبی مخلوق ابلیس وشیاطین سے متعلق بہت سے سوالات کا تشفی بخش جواب دیتی ہے۔ یہ سلسلہ ابلیس، جنات اور شیطان کا تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ ان کے فرق کو واضح کرتی ہے۔ ابلیس کی تاریخ پیدائش اور اس کے مادۂ تخلیق سے بحث کرتی ہے۔ یہ سلسلہ ان سوالات کا بھی جواب دیتی ہے کہ کیا ابلیس کبھی فرشتہ تھا؟ وہ کونسا سجدہ تھا جس کا ابلیس نے انکار کیا؟ کیا آدم علیہ السلام خود مسجود تھے یا وہ فقط قبلہ تھے اور درحقیقت مسجود اللہ تھا؟ کیا کچھ فرشتے ایسے بھی تھے جو سجدہ کے حکم سے مستثنیٰ تھے؟ سجدہ سے ابلیس نے انکار کیوں کیا؟ کیا اس کا پیش کیا ہوا عذر قابل قبول تھا؟ کیا واقعی آگ مٹی سے بہتر ہے یا حقیقت اس کے برعکس ہے؟ ابلیس کی عقل نے کیوں ٹھوکر کھائی؟ابلیس اللہ کے سامنے کھڑا تھا، اللہ سے گفتگو کررہا تھا ، پھر کافر کیسے ہوگیا؟ ابلیس کے کفر کی نوعیت کیا ہے؟ ابلیس کو اپنی سرکشی کی کیا سزا ملی؟ کیا سزا سے پہلے اسے اپنی بات کہنے کا موقعہ دیا گیا؟ کیا اس موقعہ کا شیطان نے فائدہ اٹھایا؟ وہ کونسا مطالبہ تھا جو شیطان نے اس موقعہ پر کیا؟ اور کیا اس کا مطالبہ تسلیم کرلیاگیا؟ ابلیس کو قیامت تک کے لئے طویل عمر کیسے حاصل ہوگئی؟ اس عمر طویل کا مقصد اور مصرف کیا ہے؟ انسانوں سے متعلق ابلیس کے ارادے کیا ہیں؟ ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کا طریقۂ کار کیا ہے؟ اس کا تخت شاہی کہاں ہے؟ اس کی تعلیمات کیا ہیں؟  مرنے کے بعد ابلیس کا کیا انجام ہوگا؟ ابلیس کو آگ کا عذاب کیسے دیا جائے گا جبکہ وہ خود آگ سے بنا ہے؟ ابلیس کے وجود کی حکمت کیا ہے؟ قرآن مجید میں قصۂ ابلیس کیوں بار بار دہرایا گیا ہے؟ ہم ابلیس اور اس کی اولاد کے شر سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ یہ وہ اہم اور متعدد سوالات ہیں جن کا درست جواب اس سلسلہ میں دیا گیا ہے۔جو واٹس اپ پر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان ضلع منڈی بہاوالدین چهوہرانوالہ ڈائریکٹر عمران شہزاد تارڑ کی زیر نگرانی نشر کیا جا رہا ہے...
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب کریم اپنے فضل عظیم سے اس سلسلہ کو اپنے بندوں کے لئے مفید بنائے، ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے، ابلیس وشیاطین کے ناپاک حملوں سے ہماری حفاظت فرمائے، نیز اس سلسلہ کے مؤلف وناشر اور منظرعام تک لانے میں معاون تمام افراد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین
ہماری دیگر  اسلامی سروس حاصل کرنے کیلئے رابطہ:
whatsApp:0096176390670
tetgram:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
 طالب دعا: فاطمہ اسلامک سنٹر   پاکستان

Saturday 28 May 2016

جادو جنات اور علاج:قسط نمبر30

جادو جنات اور علاج:قسط47)
س : ہمارے یہاں جب کوئی اللہ کا نام لئے بغیر گفتگو کرتا ہے یا کسی کی تعریف کرتا ہے، اور یہ زیادہ تر اس وقت ہوتا ہے جب وہ مثال کے طور پر یہ کہے کہ "یہ بہت خوبصورت ہے، اور اس کی یہ جگہ مناسب ہے"، تو اس کی اس گفتگو کے دوران کچھـ نقصان ہوجاتا ہے یا کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے ، تو ہم سب کہنے لگتے ہیں کہ : یہ اس کی بری نظر کی وجہ سے ہوا، تو سنتِ رسول کی روشنی میں اس نظر بد کا علاج کیا ہے ؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

ج : سنت یہ ہے کہ جب بھی کسی شخص کو کسی دوسرے کی شکل، یا اس کی سواری، یا گھر، یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز پسند آئے تو وہ یہ کہے: " ما شاء الله لا قوة إلا بالله " [ وہی ہوا ہے جو اللہ نے چاہا ہے ، وہی قوت و طاقت والا ہے ]، اس لئے کہ الله تعالى کا فرمان ہے کہ :  ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻛﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻛﮩﺎ ﻛﮧ ﺍللہ کا ﭼﺎﮨﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ، ﻛﻮﺋﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﮕﺮ اللہ ﻛﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ، ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﻝ ﻭﺍﻭﻻﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﮯ ﻛﻢ ﺩیکھـ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ اور نظر ِ بد سے بچنے کا علاج یہ ہے کہ اللہ کے ذکر سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا جائے ، بایں طور کہ نماز کے بعد اور سوتے وقت آیۃ الکرسی ، صبح و شام تین مرتبہ سورہ اخلاص ، سورہ الفلق اور سورہ الناس سوتے وقت یہ سورتیں پڑھ لی جائیں ، نیز اللہ تعالی پر پورا بھروسہ و اعتماد ہو ، اور یہ عقیدہ ہو کہ نفع و نقصان صرف اللہ تعالی کے ہاتھـ میں ہے ، اور وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالی چاہتا ہے ، اور جو وہ نہیں چاہتا ہے وہ ہو نہیں پاتا ہے ، ان چیزوں سے اللہ تعالی بندوں کو بدنظر اور اس کے علاوہ دیگر نقصان دہ چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔

س: مریض کے پاس کئی گھنٹوں تک آیات قرآن کی تلاوت کے لئے ٹیپ ریکارڈر چالو کرنا، اور ایسی مخصوص آیات کو الگ کرکے سنانا جو جادو اور نظر بد اور جنوں سے تحفظ کے متعلق ہیں۔

ج : تلاوت اور دعاؤں کے لئے ٹیپ ریکارڈر کا استعمال رقيہ ميں کچھـ مفيد نہيں ہے، کیونکہ جھاڑ پھونک یعنی دم ایک ایسا عمل ہے جو اس کے کرنے کے وقت نیت و اعتقاد کا محتاج ہے ، اور اس ميں براہ راست مریض پر پھونکنا ہوتا ہے جو مشين سے حاصل نہیں ہوسکتا۔اس لیے علاج کیلئے کسی ماہر پرہیزگار معالج سے علاج کروائیں اور اسی کے مشورہ پر عمل کریں----

س 1: تعويذ لٹکانے اور تعویذ بنانے کے بارے میں دین اسلام کا حکم کیا ہے؟

ج 1: تعويذ باندھنا يا اس کا کسی شخص پر لٹکانا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ نبي صلى الله عليه وسلم نے اپنے اس قول میں اس سے منع فرمایا ہے : جس نے تعویذ لٹکایا اللہ اس کے لئے (اس کا کام) مکمل نہ کرے نیز آپ صلى الله عليه وسلم كا ارشاد ہے: جھاڑ پھونک ، تعویذ گنڈا اور جادو شرک ہے -
جہاں تک قرآن اور مشروع دعاؤں سے دم یا جھاڑ پھونک کا تعلق ہے ، مریض پر پڑھا جائے اور اس کے لیے اللہ تعالی کی پناہ مانگی جائے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
اس لئے کہ نبی صلى الله عليه وسلم كا فرمان ہے: تعویذ سے کوئی حرج نہیں جب تک کہ وہ شرک نہ ہو  (تعویز یہاں مراد مسنون طریقہ علاج ہے کیونکہ تعویز تعوذ سے سے اخذ ہے لیکن لٹکانے والا تعویز ہر گز مراد نہیں ہے)

س: نظر بد یا جادو کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے جنات سے مدد حاصل کرنے، نیز کسی شخص کے جسم پر سوار جنّوں کی باتوں کا جادو اور نظر ِبد کے سلسلے میں تصدیق کرنے ، اور ان باتوں کے مطابق عمل کرنے کا کیا حکم ہے ؟

ج: مرض کی کیفیت اور اس کےعلاج کے سلسلے میں جانکاری کے لئے جنات سے مدد حاصل کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ جنات سے مدد حاصل کرنا شرک ہے ، چنانچہ الله تعالى نے فرمايا:  ﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﻛﮧ ﭼﻨﺪ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﻌﺾ ﺟﻨﺎﺕ ﺳﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻃﻠﺐ ﻛﯿﺎ ﻛﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﺟﻨﺎﺕ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺮﻛﺸﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﮯ ۔ نیز الله تعالى نے فرمايا کہ :  ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺭﻭﺯ ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﲐ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻼﺋﻖ ﻛﻮ ﺟﻤﻊ ﻛﺮﮮ ﮔﺎ، ( ﻛﮩﮯ ﮔﺎ ) ﺍﮮ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺟﻨﺎﺕ ﻛﯽ !ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﮯ ﺟﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻥ ﻛﮯ ﺳﺎتھ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﻛﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮦ ﻛﮩﯿﮟ ﮔﮯ ﻛﮧ ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ! ﮨﻢ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻚ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺣﺎﺻﻞ ﻛﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﻣﻌﯿﻦ ﻣﯿﻌﺎﺩ ﺗﻚ ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺟﻮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﻣﻌﯿﻦ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ،ﺍللہ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﻛﮧ ﺗﻢ ﺳﺐ ﰷ ﭨﮭﲀﻧﮧ ﺩﻭﺯﺥ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺭہو ﮔﮯ، ﮨﺎﮞ ﺍﮔﺮ ﺍللہ ﮨﯽ ﻛﻮ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ۔ ﺑﮯ ﺷﻚ ﺁﭖ ﰷ ﺭﺏ ﺑﮍﯼ ﺣﻜﻤﺖ ﻭﺍﻻ ﺑﮍﺍ ﻋﻠﻢ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ۔اور آپس میں ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں نے جنات کے ساتھـ عظمت و احترام کا معاملہ کیا ، ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا ، ان سے پناہ طلب کی ، اور اس کے بدلے میں جنات نے ان کی خواہش کے مطابق ان کی خدمت کی ، اور جن چیزوں کا انسانوں نے مطالبہ کیا وہ ان کے لئے حاضر کردیا، اور ان ہی چیزوں میں سے یہ ہے کہ جنات بیماری کی نوعیت اور اس کے اسباب کو انسانوں کے سامنے بیان کرتے ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہوتی ہیں جو صرف جنات ہی جانتے ہیں، اور کبھی یہ لوگ جھوٹ بھی بولتے ہیں ، یہ بھروسہ کے لائق نہیں ہوتے ہیں، اس لئے ان کی تصدیق کرنا جائز نہیں ہے۔اور نہ ہی ان سے مدد لینا جائز ہے....
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
جاری ہے......
whatsApp:0096176390670
Whatapp:00923462115913
fatimapk92@gmail.com
http://islam-aur-khanqahinizam.blogspot.com
https://www.facebook.com/fatimaislamiccentr
 طالب دعا: فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...