Friday 22 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط نمبر 27

"مسلمانوں کے مذہبی مسالکا"
(قسط نمبر 27)
باب 6: عقیدہ نور و بشر اور ایصال ثواب
اس باب میں ہم دو اختلافی عقائد کا جائزہ لیں گے۔ ایک ہے عقیدہ نور و بشر اور دوسرا ہے عقیدہ ایصال ثواب۔
عقیدہ نور و بشر:
سنی بریلوی اور اہل حدیث دیوبندی حضرات کے مابین ایک اہم اختلاف عقیدہ نور و بشر کا ہے۔ سنی بریلوی حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی نے تمام مخلوقات سے پہلے اپنے نور سے پیدا فرمایا اور پھر اس کائنات کو آپ کے لیے پیدا کیا۔ اسی بنیاد پر وہ آپ کے لیے "نور اللہ" یعنی اللہ کا نور کا اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ نعوذ باللہ آپ کو اللہ تعالی کے وجود کا کوئی حصہ سمجھتے ہوں، ان کا کہنا یہ ہے کہ نور اللہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالی نے براہ راست اپنے نور سے پیدا فرمایا، جیسے چراغ سے چراغ جلایا جاتا ہو۔ بریلوی رسول اللہ ﷺ کے بشر یعنی انسان ہونے کا مانتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ آپ کو بشر یا بھائی کہنا آپ کی بے ادبی ہے۔
اس کے برعکس سلفی حضرات کا نقطہ نظریہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اعلی ترین درجہ کے انسان تھے۔آپ کو نور ہدایت یا نور نبوت کہا جا سکتا ہے مگر اپنی اصل میں آپ انسان ہی تھے اور ایسا کہنے سے کوئی بے ادبی نہیں ہوتی ۔ آپ کو اللہ کا نور ماننا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔
سنی بریلوی حضرات کے دلائل:
اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں سنی بریلوی حضرات قرآن مجید کی کچھ آیات اور چند احادیث پیش کرتے ہیں:
يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْـرًا مِّمَّا كُنْتُـمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّـٰهِ نُـوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ
اے اہل کتاب! تحقیق تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو بہت سی چیزیں تم پر ظاہر کرتا ہے جنہیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے اور بہت سی چیزوں سے درگزر کرتا ہے، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔ (المائدہ 5:15)
يُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّطْفِئُـوْا نُـوْرَ اللّـٰهِ بِاَفْوَاهِهِـمْ وَيَاْبَى اللّـٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِـمَّ نُـوْرَهٝ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُوْنَ
چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں، اور اللہ اپنی روشنی کو پورا کیے بغیر نہیں رہے گا اور اگرچہ کافر ناپسند ہی کریں۔
بریلوی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ کے نور سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں۔
اس کے برعکس اہل حدیث اور اکثر دیوبندی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اگرچہ قرآن میں نور سے مراد بلعموم کتاب اللہ ہوتی ہے، جیسا کہ تورات کو بھی نور کہا گیا ہے، مگر اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کو بھی لیا جا سکتا ہے۔ یہ نور ہدایت ہے جس سے ہم سب روشنی پاتے ہیں۔ اس نور سے مراد یہ نہیں کہ آپ معاذ اللہ نور کے میٹریل سے بنے ہوئے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نور ہدایت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر؛ بلکہ افضل البشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے ساری انسانیت کے لیے مینارہٴ نور ہیں، یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسانیت کوخدا تعالیٰ کا راستہ مل سکتا ہے اور جس کی روشنی تاقیامت درخشندہ وتابندہ رہے گی، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوع کے اعتبار سے بشر ہیں اور صفتِ ہدایت کے لحاظ سے نور ہیں۔
سنی بریلوی حضرات اس ضمن میں یہ احادیث بھی پیش کرتے ہیں:
حدثنا عبد اللہ بن عبدالرحمن قال: حدثنا ابراھیم بن المنذر الحزامی، قال حدثنا عبدالعزیز بن ابی ثابت الزھری قال: حدثنی اسماعیل بن ابراھیم ابن اخی موسی بن عقبۃ عن موسی بن عقبۃ عن کریب عن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم افلج اثنیتین اذا تکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کے دو دانتوں میں جھری تھی۔ جب آپ کلام فرماتے تو گویا کہ ایک نور تھا جو ان دونوں دانتوں کے مابین نکل رہا ہوتا تھا۔ (شمائل ترمذی حدیث 15)
اخبرنا محمود بن غلان ثنا یزید بن ھارون انا مسعر عن عبدالملک بن عمیر قال قال بن عمر ما رایت احدا انجد ولا اجواد ولا اشجع ولا اضوا واوضا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر کسی کو نہ تو بلند مرتبہ دیکھا، نہ ہی سخی، نہ ہی بہادر اور نہ ہی پرنور (سنن دارمی حدیث 59)
سلفی حضرات کہتے ہیں کہ ان احادیث کو صحیح بھی مان لیا جائے تو  وہ نبی ﷺ کی ہستی کے نورانی جہت کے انکاری نہیں ہیں۔ وہ آپ کو انسان سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالی سے نبوت کے تعلق کے باعث آپ کی نورانی صفات کا انہیں انکار نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بعض بریلوی حضرات دو احادیث " لولاک لولاک ما خلقت الا فلاک" یعنی " اے محمد! اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا" اور "اول ما خلق اللہ نور نبیک یا جابر" یعنی " اے جابر! اللہ نے سب سے پہلے جو چیز تخلیق کی وہ تمہارے نبی کا نور تھا" پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ احادیث ہیں جنہیں قدیم محدثین نے بھی موضوع یعنی جعلی اور باطل قرار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بریلوی علماء جنہیں علوم حدیث میں مہارت حاصل ہے، کبھی ان احادیث کو پیش نہیں کرتے ہیں۔
غلام مہر علی بریلوی خطیب چشتیاں نے لکھا ہے"
"ہمارے عقیدے کی تشریح یہ ہے کہ رسول خدا کے پیدا کیے ہوئے نور ہیں (فتاویٰ ثنائیہ حصہ اول:۴۳۷) ہم کہتے ہیں ہمارا بھی عقیدہ یہی ہے۔ باقی یہ کہ ہم اہل سنت حضور کو نور قدیم یا خدا کا جز مانتے ہیں یہ محض افترا٫ اور صریح بہتان ہے (دیوبندی مذہب :۲۴۳)
سلفی حضرات کے دلائل:
سلفی حضرات اپنے نقطہ نظر کی تائید میں قرآن مجید کی یہ آیت اور متعدد احادیث پیش کرتے ہیں:
جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ )
ترجمہ:آپ کہہ دیں: میں یقینا تمہارے جیسا ہی بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہےکہ بیشک تمہارا الہ ایک ہی ہے۔ الكهف/110

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشری حالت بالکل ایسے ہی تھی جیسے دیگر انبیاء اور رسولوں کی تھی۔
ایک مقام پر اللہ تعالی نے [انبیاء کی بشریت کے متعلق ] فرمایا:

( وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ )

ترجمہ:اور ہم نے ان[انبیاء] کو ایسی جان نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ ہی انہیں ہمیشہ رہنے والا بنایا۔ الأنبياء/8

جبکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر تعجب کرنے والوں کی تردید بھی کی اور فرمایا:

( وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الأَسْوَاقِ )

ترجمہ:[ان کفار نے رسول کی تردید کیلئے کہاکہ ] یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔ الفرقان/7
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، اور ابلیس کو دہکتی ہو آگ سے، اور آدم علیہ السلام کو اس چیز سے پیدا کیا گیا جو تمہیں بتلادی گئی ہے
مسلم (299) قرآنی آیات میں اس بات کی واضح تصریح موجود ہے کہ آپ ﷺ بشر تھے۔اور اسی طرح قرآن ہمیں یہ بھی بتلاتا ہے کہ کفار سابقہ انبیاء و رسل علیھم السلام کی رسالت پر جو اعتراضات کرتے تھے ،ان میں ایک اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر کو اپنی ترجمانی کے لیے منتخب فرما لیا ہو اور اس کے سر پر تاج نبوت رکھ لیا ہو؟اس کام کے لیے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ نوری مخلوق میں سے کسی فرشتے کو منتخب فرماتا ۔تو گویا انبیاء و رسل علیھم السلام کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے کفار کی ہدایت میں مانع قرار دیا۔
انسانیت کو رسالت کے قابل نہ سمجھنا انسانیت کی توہین ہے،اور اس عقیدے کے بعد انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا کوئی معنی نہیں رہتا۔یہ خلاف عقل بات ہے کہ انسان تمام مخلوقات سے افضل بھی ہو اور پھر اس میں نبوت و رسالت کی اہلیت بھی موجود نہ ہو۔
ایک بریلوی امام لکھتے ہیں:
"رسول ﷺ اللہ کے نور میں سے ہیں اور ساری مخلوق آپ ﷺ کے نور سے ہے۔(مواعظ نعیمیہ،احمد یار بریلوی ص14)
مزید ارشاد ہوتا ہے:
بے شک اللہ ذات کریم نے صورت محمدی ﷺ کو اپنے نام پاک بدیع سے پیدا کیا اور کروڑ ہا سال ذات کریم اسی صورت محمدی ﷺ کو دیکھتا رہا۔اپنے اسم مبارک منان اور قاہر سے،پھر تجلی فرمائی اس پر اپنے اسم پاک لطیف ،غافر سے۔(فتاوی نعیمیہ ص37)
خود بانی بریلویت نے رسول اللہ ﷺکی بشریت کے انکار میں بہت سے رسالے تحریر کیے۔ان میں سے ایک رسالے کا نام ہے "صلوۃ الصفا فی نور المصطفی"۔اس کا خطبہ انہوں نے شکستہ عربی میں لکھا ہے ۔اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:
"اے اللہ تیرے لیے سب تعریفیں ہیں ۔تو نوروں کا نور ہے۔سب نوروں سے پہلے نور،سب نوروں کے بعد نور،اے وہ ذات جس کے لیے نور ہے،جس کے ساتھ نور ہے،جس سے نور ہے،جس کی طرف نور ہے اور جو خود نور ہے۔درود و سلامتی اور برکتیں نازل فرمااپنے روشن نور پر جسے تو نے اپنے نور سے پیدا کیا ہےاور پھر اس کے نور سے ساری مخلوق کو پیدا کیا۔اور سلامتی فرما اس کے نور کی شعاعوں پر،اس کی آل ،اصحاب اور اس کے چاندوں پر۔"(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل ص33)
مزید ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ
"رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے جابر،بے شک بالیقین اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا۔نبی ﷺ کا نور اپنے قدرت الہی سے جہاں خدا نے چاہا،دورہ کرتا رہا۔اس وقت لوح و قلم،جنت و دوزخ،فرشتگان،آسمان،زمین،سورج،چاند،جن،آدم کچھ نہ تھا۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے فرمائے۔پہلے سے قلم،دوسرے سے لوح،تیسرے سے عرش بنایا،پھر چوتھے کے چار حصے کیے۔(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل ص33)
حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
" اس حدیث کو امت نے قبول کر لیا ہے۔اور امت کا قبول کرنا وہ شئے عظیم ہےجس کے بعد کسی سند کی حاجت نہیں رہتی،بلکہ سند ضعیف بھی ہو تو کوئی حرج نہیں کرتی۔(رسالۃ صلوۃ الصفا بریلوی مندرجہ مجموعۃ رسائل )
سلفی عالم علامہ احسان الہی کہتے ہیں:
خان صاحب بریلوی قبول کرنے والی امت سے کون سی امت مراد لے رہے ہیں؟
اگر اس سے مراد خان صاحب جیسے اصحاب ضلال اور گمراہ لوگوں کی امت ہےتو خیر،اور اگر ان کی اس سے مراد علماء و ماہرین حدیث ہے،تو ان کے متعلق تو ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس حدیث کو قبول کیا ہو۔اور پھر یہ کس نے کہا ہے کہ امت کے کسی حدیث کو قبول کرلینے سے اس کی سند دیکھنی کی حاجت نہیں رہتی؟
اور یہ روایت توقرآنی نصوص اور احادیث نبویہ (ﷺ) کے صریح خلاف ہے۔
(بریلویت از علامہ احسان)​
حدثنا عبد اللہ بن صالح قال: حدثنا معاویۃ بن صالح، عن یحیی بن سعید، عن عمرۃ، قالت: قیل لعائشۃ: ماذا کان یعمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی بیتہ؟ قالت: کان بشرا من البشر یفلی ثوبہ، ویحلب شاتہ، ویخدم نفسہ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ فرمایا: "وہ انسانوں میں سے ایک انسان تھے، اپنے کپڑے میں چاول چھانتے، اپنی بھیڑ کا دودھ دوہتے اور اپنے کام خود کیا کرتے تھے۔" (شمائل ترمذی حدیث 342)
اس کے جواب میں سنی بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بشریت کے منکر نہیں ہیں۔ قرآن مجید میں آپ کو جو"تمہارے جیسا انسان" کہا گیا ہے، ایسا اللہ تعالی ہی کہہ سکتا ہے، ہمارا اس طرح سے کہنا بے ادبی ہے۔ اس کے جواب میں سلفی حضرات کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے بھی آپ کو اپنے جیسا انسان کہا، تو کیا یہ بے ادبی نہ تھی؟ نبی کریم ﷺ جسمانی اعتبار سے دیگر انسانوں جیسے ہی تھے اور ایسا کہنے سے ہرگز آپ کی کوئی بے ادبی نہیں ہو سکتی ہے۔
اس اختلاف کا ایک پہلو رسول اللہ ﷺ کا بے مثل ہونا بھی ہے۔ اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضور ﷺ بے مثل انسان تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سلفی حضرات کے نزدیک آپ جسمانی اعتبار سے انسان تھے-
آپ آدم علیہ السلام کی نسل میں سے بشر ہیں، اور ماں باپ سے پیدا ہوئے، آپ کھاتے پیتے بھی تھے، اور آپ نے شادیاں بھی کیں، آپ بھوکے بھی رہے، اور بیمار بھی ہوئے، آپکو بھی خوشی و غمی کا احساس ہوتا تھا، اور آپکے بشر ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ آپکو بھی اللہ تعالی نے اسی طرح وفات دی جیسے وہ دیگر لوگوں کو موت دی، لیکن جس چیز سے آپ کو امتیاز حاصل ہے وہ نبوت، رسالت، اور وحی ہے۔
بریلوی حضرات کے نزدیک آپ جسمانی اعتبار سے بھی مختلف تھے، اصلاً آپ نورانی تھے مگر آپ کو بشری قالب میں دنیا میں بھیجا گیا تھا۔
جاری ہے....
مصنف:ڈاکٹر مبشر نذیر صاحب
مزید معلومات کیلئے یہ لنک وزٹ کریں
www.mubashirnazir.org
www.aqilkhan.org
www.islamicstudiesprogram.com
www.islamic-studies.info
[یہ پروگرام واٹس اپ پر اور سوشل میڈیا پر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان کے تعاون سے نشرکیا جا رہا ہے.اگر آپ تفرقہ پرستی سے پاک غیرجانبدرانہ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پر رابطہ کریں اور خواتین کیلئے علیحدہ گروپ موجود ہے0096176390670]

مسلمانوں کے مذہبی مسال، قسط نمبر26

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 26)
سماع موتی کے قائلین کے دلائل:
سماع موتی کے قائلین اپنے نقطہ نظر میں چند احادیث پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان آیات کو ان احادیث کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ احادیث یہ ہیں:
حدثنا علی بن عبد اللہ: حدثنا یعقوب بن ابراھیم: حدثنی ابی عن صالح: حدثنی نافع: ان ابن عمر رضی اللہ عنھما اخبرہ قال: اطلع النبی ﷺ علی اہل القلیب فقال: وجدتم ما وعد ربکم حقا۔ فقیل لہ: تدعو امواتا؟ فقال: وما انتم باسمع منھم الکن لا یجیبون
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل قلیب (وہ کفار جو غزوہ بدر کے دن قتل ہوئے اور ان کی لاشوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا) پر جھانکا اور فرمایا" تم نے پا لیا کہ تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا، وہ حق تھا۔" لوگوں نے عرض کیا:
"آپ کیا مردوں کو پکار رہے ہیں؟" فرمایا:" آپ لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے، البتہ یہ لوگ جواب نہیں دے پا رہےہیں۔" (بخاری، کتاب الجنائز حدیث 1304)
حدثنا عیاش: حدثنا عبد الاعلی: حدثنا سعید قال: وقال لی خلیفۃ: حدثنا ابن زریع: حدثنا سعید، عن قتادۃ، عن انس رضی اللہ عنہ عن البنی ﷺ قال: العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی وذھب اصھابہ، حتی انہ لیسمع قرع نعالھم، اتاہ ملکان فاقعداہ، فیقولان لہ: ما کنت تقول فی حذا الرجل محمد ﷺ ؟ فیقول: اشھد انہ عبد اللہ ورسولہ فیقال: انظر الی مقعدک فی النار، ابدلک اللہ بہ مقعدا من الجنۃ۔ قال النبی ﷺ فیراھما جمیعا، واما الکافر، او المنافق: فیقول: لا ادری کنت اقول ما بقول الناس فیقال لا دریت ولا تلیت ثم یضرب بمطرقۃ من حدید ضربۃ بین اذنیہ فیصیح صیحۃ یسمعھا من علیہ الا الثقلین
انس رضی اللہ عنہ سے روایتے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پلٹ کر چلے جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے کہتے ہیں: "تم ان صاحب محمد ﷺ کے بارے میں کیا کہتے تھے؟" وہ کہتا ہے:"میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔" اس سے کہا جاتا ہے: جہنم میں اپنے مقام کی طرف دیکھو۔ اللہ اسے بدل کر جنت میں تمہیں مقام عطا فرمائے گا۔ "نبی ﷺ نے مزید فرمایا: ان دونوں مقامات کو سبھی لوگ دیکھتے ہیں۔ کافر یا منافق سوال کے جواب میں کہتا ہے: مجھے معلوم نہیں۔ میں تو وہی کہتا تھا جو اور لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جاتا ہے: تم نے نہ جانا اور نا مانا۔ پھر اس کے کانوں کے درمیان لوہے کے گرز سے ضرب لگائی جاتی ہے اور اس کی چیخ کو سوائے دو بوجھ جن و انسان کے اور کوئی نہیں سن پاتا۔(بخاری کتاب الجنائز حدیث 1273)
سماع موتی کے قائلین کا کہنا ہے کہ ان احادیث سے واضح ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس وجہ سے قرانی آیات کو ان کے اصل مفہوم میں لینے کے بجائے واویل کرنا ہو گی۔ چنانچہ وہ آیات قرآنی کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ ان سے مراد حقیقی مردے نہیں بلکہ دل کے مردے یعنی کفار ہیں۔ سورۃ الاعراف کی آیت کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ یہاں کفار کے بت زیر بحث ہیں۔
اس کے برعکس سماع موتی کے عدم قائلین کہ کہنا یہ ہے کہ آیات قرآنی کو ان کے اصل مفہوم میں لینا چاہیے۔ ان میں کفار مکہ کو مردوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے کہ جیسے مردے نہیں سنتے، ویسے ہی ان لوگوں کے دل اس درجے میں مردہ ہو چکے ہیں کہ یہ بھی مردوں کی طرح نہیں سنتے۔ کسی چیز سے تبھی تشبیہ دی جاتی ہے جب اس میں وہ خصوصیت موجود ہوں۔ کفار چونکہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو ماننے پر تیار نہیں تھے، اس وجہ سے انہیں مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ مردوں کے طرح یہ  بھی سن نہیں سکتے۔
(Exceptional Cases) جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو اس ضمن میں سماع موتی کے عدم قائلین کا کہنا ہے کہ ان احادیث میں ستثنائی صورتیں بیان ہوئی ہیں اور ان سے عمومی قاعدہ اخذ کرنا درست نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب جنگ بدر کے مقتولین کو پکارا تو اس وقت اللہ تعالی نے آپ کی آواز ان لوگوں کو سنا دی ۔ یہ ایک استثنائی واقعہ تھا۔ اسی طرح مردے کو قبر میں رکھ کر جب لوگ واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی چاب کو سن کر ان کا جانا محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر خاص طور پر اس وجہ سے یہ بات بیان کی گئی ہے تا کہ قبر کے امتحان کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ جن عزیز و اقارب کے لیے انسان ساری زندگی خوار ہوتا ہے اور بعض اوقات گناہ کا ارتکاب بھی کر بیٹھتا ہے، وہ اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
سماع موتی کے قائلین اس سلسلے میں یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں:
قال من صلی علی عند قبری سمعتہ عمن صلی علی نائیا ابلغتہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص بھی میری قبر کے پاس درود پڑھا ہے تو میں اسے سنتا ہوں"(بیہقی، شعب الایمان، حدیث 1583)
اس کے جواب میں سماع موتی کے عدم قائلین کا کہنا یہ ہے کہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے کیونکہ اس کے سند میں محمد بن مروان سدی صغیر ہے وہ انتہائی ناقابل اعتماد راوی ہے۔ پھر خود سدی صغیر نے اس روایت کے دو ورژن بیان کیے ہیں جس میں مختلف بات بیان ہوئی ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:
اخبرنا ابو الحسین بن بشران انا ابو جعفر محمد بن عمرو بن البختری ثنا عیسی بن عبد اللہ الطالیسی ثنا العلاء بن عمر الحنفی ثنا ابو عبد الرحمن عن الاعمش
ح واخبرنا ابو الحسین بن الفضل القطان انا ابو الحسین احمد بن عثمان الادمی ثنا محمد بن یونس بن موسی ثنا الاصمعی ثنا محمد بن فروان السدی عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من صل علی عند قبری و کل بھما ملک یبلغنی و کفی بھما امر دنیاہ و آخرتہ و کنت لہ شھیدا او شفیعا ھذا اللفظ حدیث الا صمعی وفی روایۃ الحنفی قال عن النبی ﷺ قال من صلی علی عند قبری سمعتہ عمن صلی علی نائیا ابلغتہ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بھی کوئی شخص میری قبر کے پاس کھڑا ہو کر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالی ایک فرشتہ مقرر فرما دیتے ہیں جو اس سلام کو مجھ تک پہنچا دیتا ہے، اور دنیا اور آخرت دونوں کے معاملات میں کفایت کرے گا۔ میں اس کا گواہ یا شفاعت کرنے والا ہوں گا۔
ان الفاظ میں حدیث کو اصمعی نے روایت کیا جبکہ (علابن عمرو) حنفی کے الفاظ میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے میری قبر کے پاس درود پڑھا تو میں اسے سنتا ہوں اور جس نے دور سے بڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے۔ (بیہقی شعب الایمان حدیث 1583)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تک سلام فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک سماع موتی کا مسئلہ بھی "استعانت لغیر اللہ" میں بہت زیادہ متعلق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  اگر بالفرض فوت شدہ بزرگ سنتے بھی ہوں، تب بھی ان سے مافوق الاسباب طریقے سے مدد مانگنا، سلفی اور بعض دیوبندی حضرات کے نزدیک شرک ہی میں داخل ہو گا۔
جاری ہے......
لیڈیز اور جنٹس کے علیحدہ گروپس موجود ہیں
00961 76 390 670
طالب دعا:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط نمبر25

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 25)
[سنی بریلوی حضرات میں ایک نیا رجحان:
سنی بریلوی حضرات اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے اور سلفی حضرات کے مابین سب سے شدید اختلاف یہی استعانت لغیر اللہ کا مسئلہ ہے۔ دور جدید میں ان کے ہاں ایک نیا رجحان یہ پیدا ہو رہا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں جس شدت کے ساتھ توحید کو بیان کیا گیا ہے اور جس طریقے سے صرف اللہ ہی سے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مانگا صرف اللہ ہی سے جائے۔
لیکن اگر غیر اللہ سے کوئی مدد مانگے تو اسے شرک نہ کہا جائے-]
سنی بریلوی عالم علامہ غلام رسول سعیدی (1937-بی) لکھتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ نداء غیر اللہ اعتقاد مذکور کے ساتھ ہر چند کہ جائز ہے، لیکن افضل، اولی اور احسن یہ ہے کہ اللہ تعالی سے سوال کیا جائے اور اسی سے استمداد اور استعانت کی جائے جیسا کہ حدیث مذکور (ترمذی میں ابن عباس والی) کا تقاضا ہے۔
*انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام سے استمداد ، نداء اور توسل کے متعلق میں نے بہت طویل بحث کی ہے کیونکہ ہمارے زمانہ میں اس مسئلہ میں جانبین سے غلو کیا جاتا ہے۔ شیخ ابن تیمیہ ابن القیم اور ابن الہادی کے پیروکار اور علماء نجد غیر اللہ سے استمداد اور وصال کے بعد ان کے توسل سے دعا مانگنے کو ناجائز اور شرک کہتے ہیں اور بعض غالی اور ان پڑھ عوام اللہ سے دعا مانگنے کی بجائے ہر معاملہ میں غیر اللہ یعنی بزرگوں سے مدد مانگنے کی دہائی دیتے ہیں انہی کو پکارتے ہیں اور انہی کی نذر مانتے ہیں۔سو میں نے چاہا کہ قرآن مجید ، احادیث صحیحہ، آثار صحابہ اور فقہاء اسلام کی عبارات کی روشنی میں حق کو واضح کروں، تاکہ بلاوجہ کسی مسلمان کو مشرک کہا جائے نہ اللہ تعالی سے دعا اور استعانت کا رابطہ منقطع کیا جائے اور نہ ابنیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی تعظیم و تکریم میں کوئی کمی کی جائے۔
اس نقطہ نظر کو عام بریلوی حلقوں میں ابھی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ہے اور سعیدی صاحب کو اس کی وجہ سے اپنے ہم مسلک حضرات کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔(غلام رسول سعیدی -شرح مسلم-جلد 7ص91-لاہور:فرید بک اسٹال 2003 )accessed 3 oct 2011)
www.nafseislam.com
مسئلہ شفاعت:
مسئلہ استعانت کا ایک ضمنی پہلو مسئلہ شفاعت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روز قیامت رسول اللہ ﷺ شفاعت کر کے اپنے امتیوں کو بخشوا لیں گے۔ سنی بریلوی حلقوں میں رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے حصول پر بہت زور دیا جاتا ہے تاہم تمام سنی بریلوی علماء اس بات پر متفق  ہیں کہ شفاعت  ایسی چیز نہیں ہے جس پر تکیہ کر کے انسان جو چاہے برے کام کرتا رہے۔ ان کے نزدیک شفاعت اسی صورت میں حاصل ہو سکے گی جب انسان نے خود نیک اعمال کی کوشش کی ہو گی۔
اہل حدیث، دیوبندی اور ماورائے مسلک حضرات شفاعت کے قطی منکر نہیں ہیں البتہ ان کا کہنا یہ ہے کہ شفاعت کا مقصد یہ ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ کی عظمت کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا جائے۔ یہ آپ کی شان کا اظہار ہو گا نہ کہ امت کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ جو چاہے کرتے  پھریں۔ اس کے علاوہ یہ شفاعت انہی افراد کے لیے ہو گی جن کے لیے اللہ تعالی اجازت دے گا۔
چونکہ اس ضمن میں مختلف مسالک کے علماء کے مابین کوئی اصولی نوعیت کا اختلاف نہیں ہے، اس وجہ سے ہمیں اس موضوع پر جانبین کے دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ بہت سے عام بریلوی لوگ، محض شفاعت کے عقیدے پر بھروسہ کرتے ہوئے گناہ کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یا بزرگان دین انہیں بخشوا لیں گے۔ انہیں راضی رکھنے کے لیے وہ بڑی باقاعدگی سے ان کے مزارات پر جاتے ہیں، وہاں دھوم دھام سے تقریبات منعقد کرتے ہیں، ایصال ثواب کی مجالس میں شرکت کرتے ہیں، مزارات پر دیگیں پکواتے اور چڑهاوے چڑهاتے ہیں، مزارات کو سونے کا بنواتے ہیں اور اس طرح کے بہت سے افعال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ طرز عمل عام بریلوی افراد کا ہے۔ ان کے اس طرز عمل پر بعض سنی بریلوی علماء تنقید کرتے ہیں البتہ اکثر بریلوی علماء اس معاملے میں خاموش رہتے ہیں۔
مسئلہ حیات النبی ﷺ:
مسئلہ استعانت لغیر اللہ کا ایک جزوی پہلو حیات النبی کا مسئلہ ہے۔ سنی بریلوی حضرات کا موقف یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ اور ان حضرات کے نزدیک دیگر انبیاء، شہیداء اور اولیاء اللہ بھی زندہ ہیں۔ انبیاء و اولیاء کو وفات کے بعد دوبارہ زندہ کر دیا جاتا ہے۔ بریلوی حضرات ان ہستیوں کی وفات کے لیے "موت" کے لفظ کے استعمال کو بالعموم بے ادبی سمجھتے ہیں اور اس کے لیے"وصال" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
اس کے برعکس اہل حدیث اور ماورائے مسلک حضرات کا کہنا یہ ہے کہ انبیاء و اولیاء دنیاوی زندگی سے وفات پا کر اپنی برزخی زندگی میں زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق پاتے ہیں اور ہمیں اس کا کوئی شعور نہیں ہے۔
سنی دیوبندی حضرات کے ہاں اس مسئلے پر دو گروہ موجود ہیں جو کہ "حیاتی" اور "مماتی" کہلاتے ہیں۔جس کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:کچھ عرصہ پہلے پیشتر نبی اکرم ﷺکی حیات فی القبر کے بارے میں دیوبندی جماعت میں اختلاف رونما ہوا اور اس کے نتیجے میں حیاتی اور مماتی دو گروہ(فرقے)بن گئے -حیاتی نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد ان کی خاص طرح کی حیات قائل ہیں جس کی وضاحت "افکاروعقائد"کے حصے میں آئے گی جبکہ مماتی نبی کریم ﷺکی وفات کے قبر مبارک میں حیات کے قائل نہیں ہیں-مولانا حافظ ظفراللہ شفیق نے ہمیں لاہور میں ایک ملاقات میں بتایا کہ دونوں گروہوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے مولانا قاری طیب دارالعلوم دیوبند ، بهارت سے پاکستان تشریف لاتے رہے ہیں -اس سلسلے میں موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے مولانا انوار الحق حقانی نے راقم سے فرمایا:حیات و ممات کو ماننے والے دونوں فرقے دیوبندیوں میں ہیں لیکن زیادہ تر حیاتی ہیں-مماتی آٹے میں نمک کے برابر بهی نہیں ہیں-ہمارے جو اکابر تهے مولانا قاری محمد طیب،مولانا شیخ الاسلام حسین احمد،مولانا رشید احمد گنگوئی سب حیاتی تهے-میرے والد صاحب مولانا عبدالحق اور قاری محمد سعید جیسے جتنے اکابر گزرے ہیں حیات کے قائل ہیں-جب کہ دوسروں کا نظریہ یہ ہے کہ جیسے عام آدمی مرتا ہے رسول اللہﷺبهی ایسے ہیں-( پاکستان کے دینی مسالک، تالیف:ثاقب اکبر، زیر اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل)اسی طرح سنی بریلوی بهی آپ ﷺ کو قبر مبارک میں حیات ہی مانتے ہیں-]
اس مسئلے میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل اختلاف اس بات پر نہیں ہے کہ انبیاء و اولیاء زندہ ہیں یا نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ ان کی زندگی کی کیفیت کیا ہے۔ سنی بریلوی  اور حیاتی دیوبندی حضرات کے نزدیک ان کی برزخی زندگی، عام زندگی جیسی ہوتی ہے بلکہ بریلوی حضرات کے نزدیک انہیں دنیاوی زندگی سے بڑھ کر کہیں طاقتیں مل جاتی ہیں جن سے وہ اپنے امتیوں اور پیروکاروں کے مدد کرتے ہیں۔ سلفی اور مماتی دیوبندی حضرات کے نزدیک ایسا نہیں ہوتا اور ان کی زندگی کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
اس ضمن میں جانبین جو دلائل پیش کرتے ہیں، وہ کم و بیش وہی ہیں جو ہم استعانت لغیر اللہ کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں۔(تفصیل کیلئے گزشتہ اقساط کا مطالعہ کریں)
مسئلہ سماع موتی:
اسی سے متعلق ایک اور مسئلہ بھی ہے جسے مذہبی لٹریچر میں "سماع موتی " کے مسئلہ کہا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا مردے سن سکتے ہیں یا نہیں؟ سلفی اور مماتی دیوبندی حضرات کا موقف یہ ہے کہ فوت شدہ لوگ نہیں سن سکتے ہیں چنانچہ وہ کسی کی مدد کے قابل نہیں ہیں۔ اس کے برعکس بریلوی اور حیاتی دیوبندی حضرات بالعموم اس کے قائل ہیں کہ فوت شدہ لوگ سن سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر بریلوی حضرات کا موقف ہے کہ وہ پکارنے والوں کے مدد کو بھی پہنچ سکتے ہیں۔ سنی بریلوی اور حیاتی دیوبندی حضرات کے نقطہ نظر میں فرق یہ ہے کہ دیوبندی حضرات سننے کو قبر کے قریب تک محدود مانتے ہیں۔ یعنی اگر ایک شخص قبر کے قریب کھڑا ہو کر کوئی بات کرے تو ان کے نزدیک مردہ سنتا ہے۔ اس کے برعکس بریلوی حضرات کا موقف یہ ہے کہ فوت شدہ انبیاء اور اولیاء کو ایسی طاقتیں مل جاتی ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں، اپنے مریدوں کی پکار سن سکتے ہیں اور ان کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔
سماع موتی کے عدم قائلین کے دلائل:
سماع موتی کے عدم قائلین اپنے نقطہ نظر کے حق میں قرآن مجید کی یہ آیات پیش کرتے ہیں:
وَمَا يَسْتَوِى الْاَحْيَآءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُسْمِـعُ مَنْ يَّشَآءُ ۖ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِـعٍ مَّنْ فِى الْقُبُوْرِ 22 اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِيْرٌ 23
مردے اور زندہ برابر نہیں ہیں۔ اللہ جسے چاہے، سنا دے مگر (اے پیغمبر!) آُ ان لوگو کو نہیں سنا سکتے ہیں جو قبروں میں ہیں کیونکہ آپ تو محض خبردار کرنے والے ہیں۔ (الفاطر 35:22:23)
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـعُ الصُّمَّ الـدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِـرِيْنَ
یقینا آپ مردوں کو سنا نہیں سکتے اور نہ ہی اس بہرے کو پکار سنا سکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر بھاگا جا رہا ہو۔ (النمل 27:80)
اَلَـهُـمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِـهَا ۖ اَمْ لَـهُـمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِـهَا ۖ اَمْ لَـهُـمْ اَعْيُـنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِـهَا ۖ اَمْ لَـهُـمْ اٰذَانٌ يَّسْـمَعُوْنَ بِـهَا ۗ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَـآءَكُمْ ثُـمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ
یہ جن لوگوں کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ تم لوگوں جیسے ہی بندے ہیں۔ تو اگر تم سچے ہو تو انہیں پکارو تا کہ وہ تمہیں جواب دیں۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جب سے وہ چلتے ہوں؟ یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہوں؟ یا ان کی آنکھیں ہیں جس سے وہ دیکھتے ہوں؟ یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں؟ (اے نبی!) آپ فرمائیے کہ بلاؤ اپنے ان شریکوں کو، پھر میرے خلاف تدابیر کرو اور مجھے ہرگز مہلت مت دو۔
سماع موتی کے عدم قائلین کا کہنا یہ ہے کہ ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مردوں کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے اور وہ سن نہیں سکتے ہیں۔
جاری ہے..
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر  مستورات کیلئے علیحدہ گروپ موجود ہے
00961 76 390 670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...