Friday 26 February 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,100

اسلام اور خانقاہی نظام
گزشتہ سے منسلک قسط نمبر100

 نوٹوں کے ڈرم بھرنے لگے:
ایک مرید آگے بڑھا اس نے نے نئے نئے نوٹوں کی حضرت پر بارش کر دی،پنکھا چل رہا تھا،نوٹ اڑنا شروع ہو گئے اور حضرت کی نگاہ بھی نوٹوں کے پیچھے اڑنے لگی...بہر حال یہ جلدی سے اکھٹے کر لئے گئے اور ڈرم کی نذر کر دئے گئے ۔کل سے یہ سلسلہ جاری تھا ،نہ جانے کتنے ڈرم بھر چکے تھے اور اب اس آخری ڈرم میں بھی مزید نوٹوں کی گنجائش ختم ہونے کو تھی...مگر لوگ ابھی آرہے تھے۔حضرت کی طرف پشت نہیں کرتے تھے اور الٹے پاؤں واپس جا رہے تھے...میں سوچ رہا تھا کہ اے اللہ!یہ تیرے بندے جو الٹے پاؤں چل رہے ہیں،جس راستے پر چلے جا رہے ہیں ،کیا یہ راستہ تیرا راستہ ہے؟قرآن میں تو ایساراستہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔کیا یہ طریق کار تیرے نبی کا ہے...؟کہاں میرے نبی کی عظمت اور کہاں تقدس کے پردے اوڑھ کر غرباء اور مساکین کو لوٹنے کا یہ کاروبار...!جس سے آنکھوں کی حرص ،دل کا لالچ مزید بڑھتا ہے۔ان لوگوں کا مال بھی لٹ رہا ہے اور ایمان بھی جا رہاہے مگر اے اللہ ...! ظلم تو یہ ہے کہ تیرے نبی ﷺ کے نام پر لوگوں کو یوں الٹا چلایا جا رہا ہے،کیا وہ یہی لوگ نہیں جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں اہل ایمان کو تقدس کے پردے میں درہم و دینار کے ان بندوں کے طرز عمل سے یوں آگاہ کرتے ہوئے ان کے انجام سے باخبر فرمایاہے:ترجمہ:اے ایمان والو!حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مشائخ اور پیر لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اوروہ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں ،اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے تو ان سب کو (اے میرے پیغمبر !)درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دو،جس روز کہ اس سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں تپا کر ان کی پیشانیوں ،پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ (مال ودولت )جسےتم اپنے لئے جمع کر کے رکھتے تھے۔لہٰذاپنے خزانے کا مزچھکو،(التوبہ:۳۴تا۳۵)
 دوسرامنظر!ڈھول کی تھاپ پر 'اللہ ھو'کا ذکر:سٹیج سیکرٹری نے حق ھو کہہ کر اعلان کیا اور ڈھول بجنا شروع ہو گیا ،مرید حضرت کے روحانی تخت کے سامنے بچھے ہوئے قالین پر گول دائرے کی صورت میں جمع ہو گئے ،حضرت نے شہادت کی انگلی سے گول دائرہ بناتے ہوئے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور پھر 'اللہ ھو'کا ورد شروع ہو گیا ۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ محفل کے درمیان سے ایک باریش نوجوان حضرت کی شان میں قصیدے پڑھنے لگا ،پھر حضرت کے والد خواجہ کرامت کی شان میں اشعار شروع ہو گئے ۔ایک شعر کچھ یوں تھا:
تو کرامت پیر میرا اے کرامتاں تیریاں۔سب بیماریاں دور تھیون جس پہ نظراں تیریاں،
حضرت کی شان میں جو رسالہ تصنیف کیا گیا تھا اس پر بھی یہ شعر درج تھا اور یہ رسالہ یہاں مفت تقسیم کیا جا رہا تھا....جب تعریفی اشعار ختم ہوئے تو پھر ڈھول کی تھاپ پر' اللہ ھو'کا ورد شروع ہو گیا ۔کئی لوگ اب حال سے بے حال ہو گئے اور وہ حضرت کے عین سامنے آکر رقص کرنے لگے ...ایک تھانیدار کئی نوجوان اور کئی باریش جوان اور بزرگ بھی اب اس ناچ میں شامل ہو چکے تھے۔'اللہ ھو'کے ان ماڈرن ذاکرین کے رقص معرفت کی ویڈیو فلم بن رہی تھی...کیمروں کے لشکارے پڑرہے تھے...حضرت پر نوٹوں کی بارش ہو رہی تھی۔ایک ادھیڑ عمر شخص جو داڑھی منڈا تھا،بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں ،ہندوؤں کی طرح ہاتھ جوڑ کر حضرت کے چہرے پر ٹکٹکی لگائے عین سامنے کافی دیر تک رقص کرتا رہا۔رقص کے بعد جھمر اور پھر دھمال شروع ہو گئی ،آخر پر حضرت کی شان میں قصائد اور 'اللہ ھو'کے پر شور ورد کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کے نام پر عرس کا ڈرامہ ...اختتام کو پہنچا۔پروگرام کے اختتام پر میں حضرت کے قریب گیا اور کہا :جناب !میں اس عرس کے حوالہ سے آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔چنانچہ حضرت صاحب نے بات کرنے سے انکار کر دیا..۔حضرت کے اس جواب پر میں واپس لاہور چل دیا ،مگر اب جو یہاں تقسیم ہونے والاپمفلٹ ملاحظہ کیا تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس عرس کا اصل منبع تو کھاریاں کے نزدیک موہری کا دربار ہے ،جس کا گدی نشین خواجہ معصوم ہے اور یہ لوگ تو اس موہری والے دربار کے خلیفہ ہیں،چنانچہ حقیقت حال جاننے کیلئے مین بیس جون ۱۹۹۱ء کو موہری دربار جا پہنچا...۔
جاری ہے.....
www.ficpk.blogspot.com

Thursday 25 February 2016

'اسلام اور خانقاہی نظام'99

'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر99)

دربارخواجہ کرامت حسین اور رسول اللہ ؐکا عرس:
گوجرانوالہ سے ہمارے ایک ساتھی نے ہمیں اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ گوجرانوالہ میں اللہ کے رسول ﷺ کا عرس ہو رہا ہے اور آپ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ،چنانچہ ہنگامی طور پر ایک چار صفحاتی پمفلٹ چھاپا گیا اور ہمارے چند ساتھی جناب سیف اللہ صاحب کی امارت میں مذکورہ دربار پر پہنچے ۔وہاں انھوں نے پمفلٹ تقسیم کیے،لوگوں کو تبلیغ بھی کی اور واپس آکر وہاں ہونے والی ڈرامہ بازی سے آگاہ کیا.....
عرس کا دوسرا اور آخری دن تھا،عرس اپنے جوبن پر تھا ،چنانچہ میں نے خود وہاں جانے کا فیصلہ کیا ،گوجرانوالہ میں جب میں نے گوندلانوالہ پھاٹک عبور کیا تو جگہ جگہ اس عرس کے اشتہار دکھائی دیے،انہی اشتہاروں پر دیے ہوئے اڈریس کی مدد سے میں گل روڈ پر تھانا سول لائن کے عقب میں دربار عالیہ نقشبندیہ مجددیہ جا پہنچا،
دربار کے دروازے پر پہنچا تو ولیوں کی تصویروں کا لگا اسٹال دیکھنے لگا،صاحب دربار خواجہ کرامت حسین اور اس فوت شدہ بزرگ کے دربار کے گدی نشین خواجہ منیر حسین کی طرح طرح دیومالائی تصاویر کہ جنھیں خوبصورت چھوٹے بڑے فریموں میں سجا کر رکھا گیا تھا،مرید انتہائی عقیدت سے خرید رہے تھے،میں اس بت فروشی کو دیکھنے لگااور پھر یہ سوچنے لگا کہ عرس اللہ کے رسول ﷺکا اور اس میں تصویر فروشی ان پیروں کی!اس کا کیا مطلب !!.....؟میں لوگوں سے پوچھنے لگا ....دوبارہ اشتہار پڑھنے لگا کہ کہیں غلط جگہ پر تو نہیں آگیا مگر لوگو ں نے بھی کہا کہ جگہ یہی ہے اور اشتہار نے بھی کہا کہ وہ جگہ یہی ہے ،جہاں رسول اللہ ﷺکا عر س ہو رہا ہے۔اب میں دربار کے مین گیٹ کے اندر داخل ہوا تو بائیں جانب خواجہ کرامت حسین کا مزار تھا اور سامنے خواجہ منیر حسین اپنی تخت نما مسند پر جلوہ افروز تھا۔میں بوجھل دل کے ساتھ دربار پر لگے اشتہار کو پڑھنے لگا ،درمیان میں (ورفعنا لک ذکرک )کی آیت قرآنی

لکھی ہوئی ہے ،اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :اور ہم نے آپ ؐکا ذکر بلند کر دیا،نیچے جلی حروف کے ساتھ:عرس مبارک محمد ﷺ ،لکھا ہوا ہے،رسول اللہ ﷺ کا روضۂ مبارک بنا کر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ کے رسو ل ﷺکا۲۸واں سالانہ عرس نہایت تزک و احتشام سے منعقد ہو رہا ہے،ملک بھر سے مشائخ عظام ،مقتدر علمائے کرام،نامور نعت خواں اور قراء شریک ہو رہے ہیں ،تمام حلقۂ احباب کو تاکید کی جاتی ہے کہ جمعتہ المبارک نماز عصر سے پہلے دربار شریف میں پہنچ جائیںِ ۔
جس بزرگ کا یہ دربار ہے اس کے بارے میں اشتہار پر یہ اطلاع کی گئی ہے کہ....بعد از نماز عصر (ان شاء اللہ )حضور قبلہ عالم کے مزار پر چادر پوشی ہو گی۔
اے اللہ !یہ کس قدر ظلم ہے کہ عرس تیرے پیارے رسول ﷺ اور چادر پوشی منیر حسین کے باپ کرامت حسین کی قبر پر....!!یہ تیرے نبی ﷺ کے نام کو بلند کیا جا رہا ہےکیا... ؟کہ درباری پستیوں میں اسم پاک محمد ﷺ کی گستاخی کی جارہی ہے،محمدﷺ کے نام پر لوگوں کو بلوا کر قبر اپنے باپ کی پجوائی جا رہی ہے۔اس قدر دھوکا تیرے نبی ؐکے اسم گرامی کے ساتھ....؟اُف اللہ....!! اس قدر جعل سازی ...!
کیا سارا گوجرانوالہ سو گیا ہے ،ناموس رسالت کا پاسبان کوئی نہیں رہا ہے ،اور جب میں پیر کی گدی کے پاس پہنچا ،وہاں نبیﷺ کے نام پر جو کاروبار ہو رہا تھا اس کا منظر کچھ اس طرح تھا،
پیر اپنے روحانی تخت پر اجمان تھا ،دو تین نوجوان پستول حمائل کیے ہوئے حضرت کی حفاظت کیلئے تخت کے پیچھے کھڑے تھے،قریب لاڈو سپیکر تھا ،اس کے سامنے ایک شخص کھڑا تھا پیر صاحب نے جسے بلانا ہوتا تو یہ شخص اسے آواز دیتا اور کسی کو پکارنے اعلان کرنے یا کوئی بھی بات کرنے سے پہلے 'حق اللہ ھو'ضرور کہتا ۔پیر صاحب کے دائیں جانب ایک ڈرم نما ٹوکرا پڑا تھا ،اس ٹوکرے کے پاس ایک آدمی بیٹھا تھا ۔مرید اور مریدنیوں کا تانتا بندھا ہوا تھا ،جو بھی آتا حضرت کے دائیں ہاتھ کو چومتا پھر اس پر آنکھیں رکھتا
پیشانی کے ساتھ ہاتھ کو چھوتا اور پھر حسب استطاعت پیر کے ہاتھ میں پیسے تھما کر سوالیہ نگاہوں سے پیر کی طرف دیکھتا کہ ذرا ہم پر بھی نظر کرم ہو جائے ۔کوئی زبان سے اپنی حاجت بیان کرتا اور کوئی چینی پر دم کرواتا ،کوئی پانی کی بوتل پر پھونک مرواتا ،ایک مرید آیا اس نے پانچ پانچ سو روپے کے کئی نوٹ حضرت کے دائیں ہاتھ میں تھما دیے،حضرت انھیں دیکھ کر مرید کی طرف مسکرا کر دیکھنے لگے اور آخر کار اپنے پاس بلا لیا ،زمین پر تخت کے دائیں جانب بٹھا لیا ،الغرض مردوخوتین میں سے جو بھی آتا حضرت کے اس سلسلے میں بیعت ہوتا اور حسب توفیق پیسے تهماتا......
جاری ہے...
www.ficpk.blogspot.com

اسلام اور خانقاہی نظام,98

ام الھدیٰ ﷺ کا اخلاق
'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 98 )

پیر صاحب سے ملاقات کا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم‌ رہا تھا، بھائی‌ارشد کی باتیں بھی سن رہا تھا اور اب میرے ذہن میں اپنے پیارے ہادی ومرشدامام‌الانبیاءﷺ کی زندگی مبارک سیرت اور عظیم اخلاق گردش کر نے لگے۔
یہ ثمامہ بن اثال ہیں، مشرکوں کے سردار تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہا اسے پکڑ کر مدینہ میں لے آئے اور مسجد کے ستون سے باندھ دیا۔ اللہ کے رسول ﷺ ‌گھر تشریف لائے، ثمامہ سے فرمایا: " تیرا کیا خیال ہے، میں تیرے ساتھ کیسا سلوک کروں گا؟" وہ کہنے لگا" اگر تم مجھے قتل کرو گے تو میرے خون کا بدلا لینے والے موجود ہیں اور اگر آپ احسان کریں گے، ایک قدر دان پر احسان کریں گے اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگیے جو چاہتے ہو وہ ملے گا۔ صحیع بخاری، کتاب المخاری، باب و فد بنی حنیفۃ: 4342
غرض اللہ کے روسول ﷺ اسی طرح تین دن تک پوچھتے رہے اور وہ سختی سے یہی جواب دیتا رہا۔ آخر کار اللہ کے رسول ﷺ نے اسے رہا کر دیا۔ چنانچہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے کریمانہ اخلاق سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسلام قبول کر لیا یعنی جب اس کا جسم آزاد ہوا تو روح اخلاق کے خوبصورت پنجرے میں قید ہو چکی تھی۔
اسی طرح حضرت عایشہ رضی اللہ عنہا اللہ کے رسول ﷺ کے کریمانہ اخلاق کا تزکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
((مَا انتقم رسول اللہ ﷺ الا ان تنتھک حرمتہ اللہ فینتقم للہ بھا))
"اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ہاں جب اللہ کے احکامات پامال کیے گئے تو اس پامالی کا محض اللہ کے لیے بدلا لیا کرتےتھے۔" صحیع بخاری، کتاب المناقب، باب صفتہ النبی ﷺ: 3560۔
اسی طرح حنین کے قیدیوں میں جب ایک خاتون شیماء بنت حارث قیدی بن کر آئیں اور یہ اللہ کے رسول ﷺ کی رضاعی بہن تھیں، جب انھیں رسول ﷺ نے ایک علامت کے ذریعے پہچان لیا، تو ان کی بڑی قدر و منزلت کی، اپنی چادر زمین پر بچھا کر بٹیھایا اور احسان فرماتے ہوئے انھہیں ان کی قوم میں واپس کر دیا۔ الرحیق المختوم: 568۔
جی ہاں !یہ لوگ پیر اور مرید کہلواتے ہیں مگر اللہ کے رسول ﷺ کو جو ماننے والے تھے وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کہلواتے تھے کہ جس کا معنی ساتھی ،دوست اور ہم نشین ہے،اللہ کے رسولﷺ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم
گھل مل کر رہتے تھے۔
غرض بلندی اخلاق کے (حتیٰ کہ غیر مسلم عورت کو اپنی چادر بچھا کر اس پر بٹھا دیتے تھے)ایسے واقعات سے اللہ کے رسولﷺ کی مبارک زندگی بھری پڑی ہے۔وہ اخلاق کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں " ن وَالْقَلَمِ "کہہ کر۔۔۔۔قسم اٹھا کر۔۔۔۔اپنے رسول ﷺ کے اخلاق کا یوں تذکرہ کیا: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْم(القلم:4)بلاشبہ آپ ﷺ تو عظیم اخلاق کے مالک ہیں،
اور سلطان باہو کا یہ گدی نشین کہ جس کا نام سلطان غلام جیلانی ہے۔۔۔داڑھی مونچھیں اس کی غائب تھیں اور اخلاق کی پستیوں کا یہ عالم ۔۔۔۔اور پھر عالم روحانیت کا یہ تاجدار اور سلطان بھی ہے!!لاکھوں دنیا اس کے سامنے سر نگوں بھی ہے !(اللہ کی پناہ ایسی ولایت سے)
قیامت کا منظر:یہ لوگ جو نسلی طور پر اپنے آپ کو سادات خیال کرتے ہیں۔۔۔اپنے علاقے کے یہ وڈیرے بھی ہیں ۔۔۔سیاسی اقتدار میں یہ اسمبلی کے ممبر بن کر حصہ دار بھی ہیں اور اس ملک کی قومی اور صبوئی اسمبلیوں میں خاصی تعداد ایسے ہی گدی نشینوں کی ہے،سیاستدان اور وزراء بھی یہی لوگ ہیں،روحانی اور دنیاوی جکڑ بندیوں میں ان لوگوں نے اللہ کی مخلوق کو جکڑ رکھا ہےتو جس روز اللہ کی عدالت لگے گی۔سب لوگ وہاں حاضر ہوں گے تو وہاں نقشہ کچھ اس طرح ہو گا :ترجمہ:یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ جہنم رہیں گے،کوئی ولی اور مددکرنے والانہ پائیں گے،اس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کئے جائیں گے،اس وقت وہ کہیں گے!اے ہمارے رب!ہم نے اپنے سادات اور وڈیروں کی اطاعت کی اور انھوں نے ہمیں سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔اے ہمارے رب !انھیں دوہرا(دوگنا )عذاب دے اور ان پر بڑی لعنت کر،(الاحزاب:67۔65)
تو ان درباروں اور گدی نشینوں کے آستانوں پر جھکنے والو!قیامت کا یہ منظریاد کر لو!ابھی سے ایمان اور عقیدہ درست کر لو ۔۔۔کہ قیامت کے دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا،یہ لوگ کہ جن سے تم ڈرتے رہے ہو۔۔۔یہ تمھاراکچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔۔۔دیکھ لو!اللہ کریم کے فضل سے میرا بال بھی بیگا نہیں کر سکتے ۔۔۔وہ پیر غصے میں تلملا تا رہا مگر مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکا۔۔۔کیا خوب فرمایاہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کسی ایسے ہی منظر کیلئے اور اس فرمان کو اللہ نے قرآن مجید میں یوں درج فرما دیاہے:
وَلَآ اَخَافُ مَا تُشْرِكُوْنَ بِهٖ،جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے نہیں ڈرتا(الانعام80)
جاری ہے...
 www.ficpk.blogspot.com

اسلام اور خانقاہی نظام.قسط ,97

اسلام اور خانقاہی نظام
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر97)

سلطان باہو کی قبر پر:سلطان باہو کی یہ قبر یعنی موجودہ دربار تیسری جگہ بنایا گیا ہے۔ دو مرتبہ دربار کو دریا نے نگل لیا تھا!! تو اب یہ جو موجودہ دربار ہے اس میں سات قبریں ہیں جو مختلف سجادہ نشینوں کی ہیں۔ درمیان میں ایک بہت بڑی قبر ہے جو سلطان باہو کی ہے۔ اس کے گرد بہت بڑا اور مظبوط پلنگ بنایا گیا ہے۔۔۔لوگ یہاں سجدہ ریز تھے۔۔۔ رو رو کر اور گڑگڑا کر دعایں مانگ رہے تھے۔۔۔ غرض انسانیت کی ذلت کے شرکیہ مناظر دیکھے نا جاتے تھے۔ اب ہم فورا یہاں سے نکلے۔۔۔ اور باہر نکل کر میں نے ارشد صاحب سے کہا: " اب مجھے اس دربار کے سجادہ نشین سے ملنا ہے، میں اس کے گفتگو اور ملے بغیر نہیں جاوں گا۔"دربار سلطان باہو پر سجادہ نشین سے ایک تلخ ملاقات:یہاں دربار پر سجادہ نشین صاحب کا گھوڑوں کا فارم تو دیکھا ہی تھا لیکن بھائی ارشد صاحب نے مزید بتلایا کہ یہاں سے کچھ فاصلے پر حضرت کے کئی قسم کے فارم ہیں، جن میں ہرن بھی موجود ہیں، جبکہ سو مربع کے قریب ان کی ذمین بھی ہے، اس پورے علاقے کی جاگیر کے یہی مالک ہیں۔ سامنے ان کے محلات دیکھائی دے رہے ہیں۔ ہم گدی نشین غلام جیلانی سلطان کے محل میں گئے۔ اس محل کا و حصہ کے جو مہمانوں کے لیے مخصوص ہے، اس کی بیرونی دیوار کے ساتھ ملحق جو رہائشی محل ہے وہ بھی خوب بنایا گیا ہے۔۔۔۔ ہم جب ملاقات کے لیے لان میں پہنچے تو مجھے ارشد صاحب نے کہا:" حمزہ صاحب! ملاقات کرنی ہے تو جاتے ہی قدموں میں بیٹھنا پڑے گا۔ یہاں تو بڑے بڑے آفیسرذ، وزراء اور جرنیل تک حضرت کے قدموں میں بیٹھتے ہیں۔" میں نے کہا: بھائی ارشد آپ قدموں کی بات کرتے ہیں۔۔۔ میں تو حضرت کے پاس بیٹھوں گا۔ ارشد صاحب کہنے لگے:" اگر آپ نے یہ گستاخی کر دی تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے بعد آپ کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ بس اللہ ہی حافظ ہے۔" میں نے کہا: دیکھنا! ایسے ہی ہو گا! اللہ ہماری حفاظت کرے گا۔" (انشاء اللہ)اور پھر حضرت کے ملاقاتی کمرے کے باہر چند منٹ کھڑے رہنے کے بعد اجازت ملیتو ہم تین ‌سا تھی اندر گئے۔'' حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ'' پڑھ کر میں اندر داخل ہوگیا۔ حضرت اپنی مسند پر جلوہ افروز تھے۔ بڑے بڑے لوگ ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھے تھے۔ میں نے جاتے ہی اس سکوت اور نام نہاد تقدس کے پردے کو سنت کی ضرب سے توڑتے ہوئے'' السلام‌علیکم'' کہا۔ پیر صاحب بڑے متعجب ہوئے کہ یہ کون ہے'' السلام علیکم'' کہنے والا بلکہ یہاں ادب کا چلن تو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہر آنے والا بس قدموں میں گرتا ہے یا پھرحضرت کا ہاتھ چومتا ہے، اسے آنکھوں سے لگاتا ہے، اپنا ما تھا اس کے ہاتھ سے مس کرتا ہے تو یہ پہلی گستاخی تھی جو مجھ سے سرزد ہوئی اگلا قدم میں نے یہاٹھا یا کر مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا، !!! ‌پیر صاحب اب اور زیادہ تعجب کا شکارہو گئے۔ بہرحال انھوں نے زانو پر رکھے ہوئے اپنے ہاتھ کوآگے تو نہیں بڑھا یا بس وہیں بیٹھے بیٹھے تھوڑا سا اشارہ کر دیا اور میں نے اپنا ہاتھ آگے کر کے حضرت کا ہاتھ پکڑ کرمصافحہ کر لیا۔ میرے ساتھیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ پیر صاحب کا اب چہرہ غضب ناک ہوچکا تھا۔ مرید ین بھی حیرانی میں غرق یہ منظر ملاحظہ کر رہے تھے۔ اب میں پیر صاحب سےیوں ہم کلام ہوا۔۔۔۔ حضرت ! ‌میں لاہور سے حاضر ہوا ہوں ایک رسالے کا ایڈیٹرہوں، دربار اور آپ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون لکھنا چاہتا ہوں‌۔'' ابھی میری گفتگویہیں پہنچی تھی کہ حضرت غصے سے کہنے لگے، میں خود بڑے رسالے نکالتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو کون ہے، پیر صاحب مجھے جان چکے تھے کہ یہ کون ہے ان کا غصہ بھی دیدنی تھا۔ مگر میں نے پیری مریدی کی دنیا میں ایک اور بڑی گستاخی ‌یہ کر ڈالی کہ حضرت کی مسند کے سامنے ان کے پلنگ ‌پر بیٹھ گیا میرے بیٹھتے ہی مرید چلا اٹھے "نیچے بیٹھو!! نیچے بیٹھو'' اور پھر پیر صاحب نے بھی غضب ناک ہو کرکہا'' نیچے بیٹھ‌و۔'' اب میں پلنگ سے تو اٹھ گیا کہ اگر نہ اٹھتا تو محافظ اور مرید مجھے پکڑ لیتے ۔۔۔۔ مگر ‌میں نے یہ کیا کہ پیر صاحب کا کہنہ نہیں مانا اور بیٹھا نہیں اب پیر صاحب کا غضب جوبن پر تھا، آنکھیں ان کی سرخ تھیں چہرہ لال پیلا تھا اور وہ دو بارہ گرجے اور کچھ اس طرح سے انھوں نےاپنے اخلاق کا مظاہرہ کیا۔ چل ایتھوں بھج ‌ونج'' ( دوڑ جا یہاں سے)میں نے اور میرے ساتھیوں نے درباری دنیا کی آخری گستاخی یہ کی کہ پیر صاحب کی طرف پشت کر کے چل پڑے'' باہر نکلتے ہی گاڑی میں بیٹھے اور واپس چل دیے، بھائی ارشد صاحب مجھے کہنے لگے۔میرے علم کی حد تک یہاں کی تاریخ میں آپ پہلے آدمی ہیں جنھوں نے اس قدرگستاخیاں کی ہیں‌۔ یہ تو بڑے ڈکٹیٹر قسم کے پیر ہیں‌۔ یہاں کی بہت بڑی جاگیر ان کے نام ہے۔ اس جاگیر میں ان کا ایم‌۔ این‌۔ اے اپنا ہو تا ہے۔ اب اسمبلی کا ممبر نذیر سلطان ہے سنیٹر ‌ان کا ہو تا ہے۔ لاکھوں دنیا ان کی پر ستار ہے اور میلے کے موقع پر ان کے کمرے نوٹوں سے بھرے ہوتے ہیں‌۔ میں آج سے دس سال قبل جلیب سلطان گدی‌نشین کے زمانے میں مرید ہوا کرتا تھا، تو میں مرید خاص تھا۔ مجھے سپیشل بلا یا جاتا تھا اور ایک کمرے کے نوٹ میں اپنی نگرانی میں گزاتا تھا،  تو میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ مذ ہبی اور دنیا وی اعتبار سے اس قدر مضبوط لوگ ہیں، تو آج اگر ہم ان لوگوں سے بچ گئے ہیں تو یہ اللہ کا خاص کرم ہے۔'' (الحمدللہ)
جاری ہے
www.ficpk.blogspot.com

Monday 8 February 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,96


اسلام اور خانقاہی نظام
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر96)

پیشاب دیکھ کر کلمہ پڑھ لیا!!:
"روایت ہے کہ عالم طفولیت میں ایک دفعہ جب آپ بیمار ہوئے تو آپُ کی اجازت سے لوگ ایک برہمن طبیب کو بلانے کے لیے اس کے گھر گئے۔ برہمن نے کہا: " میں ڈرتا ہوں کے اگر میں وہاں گیا تو مسلمان ہو جاوں گا۔ (کیونکہ جو ہندو بھی سلطان باہو کا چہرہ دیکھتا تھا وہ مسلمان ہو جاتا تھا ) بہتر یہ ہے کہ آپ ان کا قارورہ‌(پیشاب‌) کی بو تل یہاں لے آئیں‌۔ مریدوں نے ایسا ہی کیا۔ جب اس برہمن‌طبیب‌نےقارورہ کی بوتل کو اٹھا کر دیکھا تو بے ساختہ اس کی زبان پر جاری ہو گیا۔
((لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ))
لا حَوْلَ وَلاَ قُوَّة ِ الَّا بِاللّهِ۔۔۔ غور کیا آپ نے... ! کس قدر توہین ہے اس کلمہ کی کہ
جسے ایک انسان پڑھ کر کفر سے نکل کر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔ یہ گستاخی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ‌ کی ہے! اس قدر ناپاک اور شرمناک ہے کہ'' اللہ کی پناہ'' ۔
*یہ کتی پاک ہے!!:
اس طرح کی ایک انتہائی شرمناک گستاخی میں نے ایک کتاب'' انوارحفیظ'' میں ملاحظہ
کی‌۔ یہ کتاب میں نے جموں کے بارڈر پر ضلع گجرات کے قصبہ'' بڑیلہ'' کی ایک درگاہ سےحاصل کی‌۔ اس درگاہ کی بھی لاکھوں دنیا مرید ہے۔ اس درگاہ کا گدی نشین رفیق اللہ کو جو داڑھی منڈواتا ہے' اس سے تو ملاقات نہ ہو سکی البتہ اس کے صاحبزادے سے ملاقات ہوئی‌۔ یہ دربار بڑیلہ قصبے باہر وسیع و عریض جگہ واقع ہے۔ حضرت نے یہاں مور پال رکھے ہیں کبو‌تر بھی تھے خرگوش بھی تھے، بھینسیں ‌اور گائیاں بھی تھیں، اعلی نسل کے گھوڑے بھی تھے۔ صاحبزادے کے کہنے پر ان کا مرید مجھے یہ سب کچھ دکھلا رہا تھا اور بتلا رہا تھا کہ یہ حضور کے یعنی خواجہ رفیق کے گھوڑے ہیں، یہ گائیاں ہیں وغیرہ وغیرہ‌۔ آگے ایک جگہ پلی ہوئی موٹی کتی بندھی ہوئی تھی۔۔۔۔ میں نے از راہ مذاق کہا کہ'' یہ حضور کی'' کتی پاک ہے'' کہنے لگا'' ہاں جی ! ‌یہ حضور کی'' کتی پاک'' ہے!! (أستغفر الله‌) یہ ہے حال ان روحانی پیروں کا اور عقیدت کے مارے اندھے مریدوں کا۔ اب وہ شرمناک گستاخی بھی ملاحظہ فرما ئے جو یہاں سے ملنے والی کتاب کے صفحہ (205) پر مرقوم ہے اور ان لوگوں کے ہاں اس کا نام'' کرامت'' ہے۔
*جب پیر کا پاخانہ اللہ کا نور بن گیا !!(استغفراللہ))‌''علی‌الصبح حضور سر کار پاک نے بندہ کو آواز دی اور فرمایا'' مجھے رفع ‌حاجت کے لیے جانا ہے"۔ بندہ پانی کا لوٹا اٹھا کر ساتھ ہو لیا مگر آپ دروازے کے قریب ہی بیٹھ گئے اور
پریشانی کی سی صورت میں بندہ کی طرف دیکھا۔ میں نے آپ کے سامنے بیٹھ کر
عرض کی:
 غریب نواز! ‌کیا بات ہے، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ‌ہے؟ آپ نے فرمایا بیٹا طبیعت ٹھیک ہے،فکر ‌کی کوئی بات نہیں‌۔ ہوا یہ ہے کہ مجھے اسہال آ گیا ہے اور میرا پاخانہ‌ شلوار ہی میں نکل گیا ہے۔ میں نے پھر عرض کی! حضور پاک آپ کے شکم میں کوئی درد تو محسوس نہیں ہوتا؟ تو فرمایا برخوردار آپ‌'اس قدر کیوں فکر مند ہو رہے ہیں؟ مجھے کوئی تکلیف نہیں، صرف اتنا ہی ہوا کہ مجھےجلاب آ گیا ہے، بندہ نا چیز نے نئی‌ ‌شلوار ازار بند ڈال کر پیشں کی اورعرض کی:" حضور آپ یہ شلوار پہن لیں" میں دوسری شلوار دھو کر لے آتا ہوں‌۔ میں آپ کی وہ شلوار لے کر نلکے‌کی تلاش میں باہر نکلا اور چلتے چلتے حضور غوث الاعظم کے فرزند گرامی حضرت پیر سید عبد الوہاب جیلانی کے روضۂ مبارک تک چلا گیا۔
وہاں وضو کرنے کے مقام پر ٹوٹیاں لگی ہوئی تھیں، میں وہاں ‌شلواردھونے بیٹھ گیا۔
ابھی میں نے شلوارکو ٹوٹی کے نیچے کیا ہی تھا کہ ایک بزرگ سفید ریش نورانی چہرے والے سفید لباس میں ملبوس تشریف لائے اور فرمایا'' بیٹا" ‌یہ کیا دھو رہے ہو؟ میں نے کہا شلوار ہے۔ انھوں نے پوچھا کس کی ہے؟ میں نے عرض کی ''میرے پیر صاحب کی‌۔'' وہ بزرگ بہت خفا ہوئے اور فرمانے لگے_او نالائق آدمی!....افسوس ہے تیری عقل پر! تم نے اپنی اتنی زندگی برباد ہی کی ہے،بیوقوف!.... تو اب تک اسے پاخانہ کرنے والا بندہ ہی سمجھتا رہا!!؟....دیکھ تو سہی کیا دھو رہا ہے؟"....اس بزرگ کا اتنا فرمانا تھا کہ میری آنکھیں کھل گئیں!! میں نے دیکھا کہ شلوار میں کوئی چیز نہیں ہے۔شلوار سے،جو ابھی آدھی ہی پانی میں بھیگی تھی،خوشبو آ رہی تھی اور اس کے علاوہ پانی کی نالی میں سے بھی ہلکی ہلکی اور پیاری پیاری سی خوشبو آ رہی تھی۔" .....وہ بزرگ پھر فرمانے لگے:"او لڑکے!تو نے اس شلوار کو دھو کر بہت نقصان کیا ہے۔اگر تجھے ذرا بھی عقل ہوتی تو تو اتنی بڑی غلطی کبھی نہ کرتا۔اب تک تیری کی ہوئی ساری محنت اکارت گئی،تو تو اسے پاخانہ کرنے ولا ہی سمجھتا رہا!!!
بندہ وہ شلوار مبارک اسی طرح اپنے کاندھے پر ڈال کر واپس آپ کی خدمت میں آ گیا۔دل بہت اداس تھا،راستے میں جی چاہتا تھا کہ دیواروں کے ساتھ ٹکریں مار مار کر اپنا سر پھوڑ لوں!! جب آپ کے سامنے ہوا تو آپ بستر پر سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا:
"حافظ صاحب!وہ کس طرح لکھا ہے مثنوی شریف میں حضرت عارف رومی نے  کہ،
ایں خورد گرد و پلیندی زیں جدا
واں  خورد  گرد و ہمہ نور خدا
"دنیادار، غافلین حق کھاتے ہیں تو پاک رزق حلال بھی ان کے اندر جا کر غلاظت بن کر ہی باہر نکلتا ہے اور جو چیز وہ کھاتے ہیں(نبی اور ولی یعنی اللّه تعالیٰ کے پیارے محبوب)وہ سب کا سب اللّه کا نور بن جاتا ہے۔"
(تو پیر صاحب اس کے بعد کہنے لگے)برخوردار!کوئی فکر نہیں اور غمگین ہونے کی قطعا" کوئی ضرورت نہیں ہے۔اگر سمجھ آ گئی ہے تو خیر ہی خیر ہے،کیونکہ یہ تو اپنے پاس موجود ہی ہے،شلوار کو سوکھنے کی لئے ڈال دو۔
قارئین کرام! یہ ناپاک اور شرمناک گستخیاں کھبی خالق کائنات کی اور کھبی اس کے پیارے رسول ﷺکی، آپ نے ملاحظہ کیں۔ آپ یقینا حیران ہوتے ہوں گےاور سوچتے ہوں گےکہ یہ درباری اور خانقاہی مذہب کہ جو تقدس کی چادر اوڑھے ہوئے ہے، کس قدر ناپاک، غلیظ اور پلید ہے۔۔۔۔ سچ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ (التوبۃ : 28(
" ائے ایمان والو! شرک کرنے والے بالکل ناپاک ہیں۔"
یعنی جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اُس کا ذہین گندا ہو جاتا ہے، عقیدہ ناپاک ہو جاتا ہے، اس کے خیالات غلیظ اور پلید ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ اور بس یہی حقیقت ہے کہ انسان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور اس کے ہاتھ سے لکھی جانے والی تحریر کے پیچھے دراصل اس کا ذہین ہی کارفرما ہوتا ہے۔ ذہین اچھا ہو گا تو گفتگو اور تحریر بھی اچھی ہو گی، ذہین گندہ اور ناپاک ہو گا تو بات چیت اور تحریر بھی گندی اور ناپاک ہو گی، کردار بھی صاف سھترا نہ ہو گا۔ چنانچہ ان درباروں پر جو آئے دن گندے واقعات منظر عام پر آتے ہیں، ان سے بھلا کون ناواقف ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورئہ مائدہ میں آستانوں کو ان الفاظ سے تعبیر کیا ہے:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِـرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
( سورۃ المائدۃ:90)
"اے ایمان والو! یہ شراب اور جوا، یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے بچو تاکہ تم کامرانی حاصل کر سکو۔"
غور فرمائیں! اللہ اس درباری سلسلے کو گندہ اور شیطانی قرار دے رہا ہے، ان آستانوں کے پجاریوں کو ناپاک قرار دے رہا ہے۔۔۔۔ تو پھر یہاں جو قصے گھڑے جاتے ہیں اور انھہیں کرامتوں کا نام دیا جاتا ہے تو وہ کیسے ناپاکی، پلیدی اور غلاظت سے مبرا ہو سکتے ہیں.....؟
جاری ہے.......

اسلام اور خانقاہی نظام,95

اسلام اور خانقاہی نظام
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر۹۵)
صدیقہ کائنات رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:پھر میں اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئی۔مجھے یقین تھا کہ اللہ میری
بے گناہی ضرور ظاہر کرے گا،اور وہ اپنے رسول ﷺکو خواب میں اس کی خبر کر دے گا۔مگرمیرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میری شان میں اللہ تعالیٰ وحی نازل کریں گے جو (ہمیشہ دنیا میں )تلاوت ہوتی رہے گی.....اور اللہ کے رسول ﷺ(ہمارے گھر میں )جس جگہ تشریف فرماتھے وہاں سے اٹھے بھی نہیں اور نہ ہمارے گھر والوں میں سے کوئی باہر نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر وحی نازل کر دی اور جب وحی کی وہ کیفیت کہ جس سے اللہ کے رسول ﷺکے چہرے پر پسینا قطرے بن کر بہ نکلتا تھا ،وہ دور ہوئی تو آپ ﷺ ہنس پڑے ....اور پہلا کلمہ جو آپ ﷺ کی زبان سے نکلا وہ یہ تھا :اے عائشہ !مبارک ہو ،اللہ نے تجھے بے گناہ قرار دے دیا ہے،چنانچہ اس پر میری ماں مجھے کہنے لگیں؛اللہ کے رسول ﷺ کی طرف اٹھ !یعنی آپ ﷺ کا شکریہ ادا کر....تو اس پر میں نے کہا:نہیں ....اللہ کی قسم !میں نہ اٹھوں گی،نہ آپ ﷺ کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ ہی اپنے دونوں ماں باپ کا شکریہ ادا کروں گی۔میں تو اس اللہ کریم کا شکریہ ادا کروں گی جس نے میرے بے گناہ ہونے پر وحی نازل کر دی....فرمایا: وَلَوْلَآ اِذْ سَـمِعْتُمُوْهُ قُلْتُـمْ مَّا يَكُـوْنُ لَنَـآ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَاۖ سُبْحَانَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْـمٌ(النور:16)
  " اے رسول! "کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ! یہ تو ایک بہت بڑا) اور گھناؤنا (بہتان ہے "۔
 غور کیجیے! اللہ کے رسول ﷺ سخت پریشان تھے، ہماری ماں بھی پریشان تھیں مگر نہ تو اللہ کے رسول ﷺ اپنی اس پریشانی اور مشکل کو حل کر سکے اور نہ اپنی زوجہ محترمہ صدیقہ کائنات ؓ کی مشکل کو .... اور مشکل حل کی تو عرش والے مشکل کشا رب نے۔
 چنانچہ صدیقہ کائنات ؓکے واقعہ اور ان کے جواب میں تمام مسلمانوں کے لیے سبق ہے۔ خاص طور پر حضرت عائشہ ؓ کا اپنی ماں کو جواب دینا راہ نما ہے تمام مسلمان خواتین کے لئے کہ عالم الغیب اور مشکل کشا صرف اللہ ہے، اللہ کے رسول ﷺ بھی مشکل کشا نہیں اور یہ کہ جو مشکل وقت میں کام آئے اس کی حمد و ثنا اور شک و سپاس کرو، یہ نذرو نیاز کی صورت میں ہو یا ذکر کی شکل میں اور یہ سب ایک اللہ ذولجلال والاکرام کی ذات با برکات کو زیبا ہے۔
 کرامات کے نام پر ناپاک روایات
 یہاں جاہل لوگو نے بعض خرافات اور توحید شکن سینہ بسینہ روایات اور واقعات کو کرامات کا نام دے کر عوام میں پھیلا دیا ہے، بطور نمونہ چند ایک کرامات ملاحظہ ہوں:
 کبوتر کی غٹ غوں:بیر والے درخت کے ساتھ ہی کبوتروں کا ایک کمرہ ہے۔ ان کے بارے میں مشہور یہ کیا گیا ہے کہ یہ " حق باھو " کا ورد کرتے ہیں .... ہم نے دیکھا یہ کبوتر جو کہ اللہ کی مخلوق ہے اپنے دوسرے ہم جنس کبوتروں کی طرح " غٹ غوں،غٹ غوں "کر رہے تھے۔اب یہ اتفاق کی بات ہے کہ" حق باھو"اور  " غٹ غوں "  کے الفاظ قدرے ہم وزن ہیں اور جو شخص
پہلے ہی یہ ذہین لے کر آئےکہ یہ "حق باھو" کا ورد کرتے ہیں تو اسے تو ایسا ہی ملوم ہو گا، جبکہ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سب پرندے اپنی اپنی بولی میں اپنے پیدا کرنے والے رب العالمین کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ قرآن نے اس حقیقت سے یوں باخبر فرمایا ہے: اَلَمْ تَـرَ اَنَّ اللّـٰهَ يُسَبِّـحُ لَـهٝ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْـرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٝ وَتَسْبِيْحَهٝ ۗ وَاللّـٰهُ عَلِيْـمٌ بِمَا يَفْعَلُوْنَ (النور 41)
"کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں۔ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اسے جانتے ہیں۔"
غور کیجیے! ایک پرندہ ہی کیا!! ساری کائنات توحید والی ہے۔ مگر کس قدر ظلم ہے کہ یہ لوگ اللہ کے موحد پرندوں کو قید کر کے انہیں اپنے شرکیہ عزائم کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بھائی ارشد نے مجھے بتلایا کہ" ان کبوتروں کو "خمرے" کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔ میں سوچنے لگا کہ خمر تو شراب کو کہتے ہیں اور اُسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے تو کیا ان لوگوں نے اپنے اس شعبدے کے لیے کہ جسے یہ لوگ کرامت کہیتے ہیں، نام بھی دیا تو وہ بھی ناپاک۔۔۔۔ اور پھر جب میں نے یہاں سے ملنے والی کتاب کو کھولا تو اس میں بھی کرامت کے نام پر ایک حد درجہ ناپاک کہانی یوں ملاحظہ کی......
جاری ہے.....

اسلام اور خانقاہی نظام،94

اسلام اور خانقاہی نظام

مٹی اور سانپ کا کجا:
سلطان باہو کے دربار پر بیبیوں کے مزارات والے کمرے کے دروازے پر ایک بڑا سا تهال پڑا تها، عورتیں وہاں سے مٹی اٹها اٹها کر کها رہی تهیں .مداری جن کجوں میں سانپ رکهتے ہیں،ایسا ہی ایک کجا بهی پاس پڑا تها.میں حیران ہوا کہ کیا اس میں سانپ ہے! میں نے اس دروازے پر بیٹهے محافظ سے پوچها ! تو اس نے ڈهکنا اٹهاتے ہوئے کہا:اس میں سانپ نہیں 'بلکہ دربار پر چڑهانے والی چادروں کے پرانے ٹکڑے ہیں.جو تبرک کیلئے عورتیں لے جاتی ہیں ....پهر میں نے پوچها ! یہ جو مٹی کهائی جا رہی ہے یہ کہاں سے آتی ہے؟ کہنے لگے! دریا سے آتی ہے.مگر جب یہ دربار پر پہنچتی ہے تو دربار کی برکت سے خاک شفاء بن جاتی ہے.یہ سب کچھ دیکھ کر میں سوچ رہا تها کہ حوا کی بیٹی کو جسے صنف نازک کہتے ہیں'کون یہ بتلائے کہ یہ جو تو مٹی کهاتی پهرتی ہے ، در در کی خاک چهانتی پهر رہی ہے .یہاں تجهے مٹی اور خاک کے سوا کچھ نہیں ملے گا .سانپ کے کجے میں پرانی ٹاکیاں تیرے لیے قبر میں کہیں پهنکارتے ہوئے سانپ نہ بن جایئں....!! کیا یہ پرانی ٹاکیاں تیری گود ہری کر دیں گی....؟
اے اللہ کی بندی اپنے خالق کو پہچان....
یہاں سے اگر تجهے کوئی شے ملے گی تو ایمان کی بربادی ملےگی. عزت جو ایمان کے بعد سب سے قیمتی شے ہے.اس کی یہاں تجهے حفاظت نہیں ملے گی بلکہ خرابی ملے گی.اے میری ماں...! اے میری بہن....! تو اگر مسلمان خاتون ہے تو پهر تیرے لئے نمونہ اللہ کے رسول کی پاک بیویاں ہیں.جو تیری روحانی مائیں ہیں.تجهے روحانی سکون  درباروں پر مخلوط محفلوں میں نہیں ملے گا بلکہ روحانی ماوں کی سیرتوں میں ملے گا.اللہ کے رسول ﷺکی صحابیات کے طرز عمل سے ملے گا.میرے سامنے اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ علیہ السلام اور مومنوں کی روحانی ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دو ایمان افروز واقعات ہیں.انہیں ملاحظہ کر اور اپنا ایمان و عقیدہ مضبوط کر......
سیدہ سارہ علیہ السلام اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایمان افروز وقعات:
سیدنا ابرہیم علیہ السلام جب عراق سے ہجرت کر کے مصر میں پہنچے تو وہاں کے بادشاہوں کو کسی نے خبر دی کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ایک نہایت خوبصورت عورت ہے.یہ آپ علیہ السلام کی بیوی سیدہ سارہ علیہ السلام تهیں. ...
چنانچہ انہیں بادشاہ وقت کے محل میں پہنچا دیا گیا، جب بادشاہ آیا تو اس مشکل وقت میں سیدہ سارہ علیہ السلام کیا کر رہی تهی....؟ رسول اللہ کی زبان مبارک سے سنیے'آپ نے فرمایا:
بادشاہ سیدہ سارہ علیہ السلام کی طرف بڑها تو وہ وضو کر کے نماز پڑھ رہی تهیں. انهوں یوں دعا کی؛ اے میرے اللہ!  اگر میں تجھ پر اور تیرے رسول پر ایمان لائی ہوں اور سوائے اپنے شوہر کے میں  نے اپنی عزت کو بچایا ہے تو مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ کر. (اس دعا کا کرنا ہی تها کہ)اس کافر بادشاہ کا نرخرا بولنے لگا حتی کہ وہ اپنے پاوں مارنے لگا (بخاری:2217)
سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا کی تمام ولی عورتیں اکهٹی ہو جائیں تو وہ پیغمبر کی بیوی کی شان اور مقام کو نہیں پا سکتیں اور پهر پیغمبر بهی وہ کہ جنهیں اللہ نے اپنا خلیل(گہرا دوست)کہا ان کی زوجہ محترمہ سیدہ سارہ علیہ السلام مشکل وقت میں فریاد کر رہی ہیں تو صرف اپنے اللہ سے، یاد کر رہی ہیں تو نماز کی صورت میں صرف اپنے اللہ کو....
وہ نہ تو اپنے خاوند سے فریاد کرتی ہیں 'نہ ان کا وسیلہ پکڑتی ہیں.نہ اپنے خاوند سے پہلے کسی پیغمبر سیدنا ادریس علیہ السلام یا سیدنا نوح علییہ السلام کے نام کی دہائی دیتی ہیں.وہ صرف اللہ کے حضور اپنا ایمان پیش کرتی ہیں.اپنی پاک دامنی کا ذکر کرتی ہیں.کس قدر مختصر مگر جامع اور معنی خیز ہے ہماری ماں کی یہ دعا...! اللہ تعالی کے ساتھ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا.اللہ کی غیرت کو چیلنج کرنے کا کوئی کام نہیں کیا.عفت وعصمت کی حفاظت کا مطلب یہ ہے  کہ عورت اپنے جس خاوند کی شریک
حیات ہو اس کی عفت و عصمت میں کوئی شریک نہ ہو کیونکہ خاوند اپنی بیوی کی سب غلطیاں برداشت کر سکتا ہے مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی اپنی زندگی میں کسی دوسرے کو شامل کر لے.
سیدہ سارہ علیہ السلام اپنی یہ دونوں خوبیاں 'دونوں عمل اللہ کے حضور پیش کرتی ہیں .ان دو باتوں کے درمیان اللہ کے رسول علیہ السلام پر ایمان کا ذکر کرتی ہیں....غور کیجئے ! یہاں بهی رسول علیہ السلام پر ایمان یعنی اس کی اطاعت  کا ذکر ہے...رسول علیہ السلام سے مشکل وقت میں فریاد نہیں کی جا رہی...فریاد اور مدد صرف اور صرف اللہ ہی سے کی جا رہی ہے اور پهر جس طرح اللہ تعالی ان کی مدد کو پہنچے یہ توفیق آپ ملاحظہ کر چکے ہیں....
اگلہ قصہ بخاری کی اس حدیث میں کچھ اس طرح ہے کہ جب وہ بادشاہ مرنے لگا تو سیدہ سارہ علیہ السلام  نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی:میرے اللہ اگر یہ مر گیا تو کہا جائے گا کہ اس عورت نے اسے قتل کیا ہے۔چنانچہ اللہ نے اپنی موحد بندی کی اس دعا کو بھی فوراً قبول کر لیا اور مرنے سے بچ گیا۔پھر وہ اپنے کارندوں سے کہنے لگا :
اس عورت کو واپس ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچا دو اور یہ ہاجرہ بھی اسے دے دو،چنانچہ سیدہ سارہ علیہ السلام اپنے خاوند سید نا ابراہیم کے پاس آئیں اور کہا:آپ نے دیکھا نہیں اللہ نے کافر کو ذلیل کر دیا اور(آپ کیلئے )یہ خادمہ بھی دلوئی (البخاری:۲۲۱۷)
اور یہ خادمہ اللہ نے ایسی دلوئی کہ یہ سیدنا ابراہیم ؑ کی زوجہ محترمہ بن گئیں۔اللہ نے اس بیوی سے اپنے خلیل کو سیدنااسماعیل علیہ السلام جیسا فرزند عطا فرمایا اور پھر ان کی نسل سے اپنے آخری پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکو مبعوث فرمایا۔
جب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پر بہتان لگایاگیا:
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کی زوجہ محترمہ اور ہماری ماں سیدہ عائشہؓ کی عفت و عصمت پر منافقوں نے انگلی اٹھاتے ہوئے بہتان لگایا دیا....الزام تراشی کا بہانہ ان منافقوں کو یوں ملا کہ ایک جنگ سے واپسی آتے ہوئے جہاد کے قافلے نے راستے میں قیام کیا۔سیدہ عائشہ اس قافلے میں اللہ کے رسولْ ﷺ کے ساتھ تھیں،سب لوگ اپنی اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر قافلے کے پاس پہنچنے لگے ،مگر سیدہ عائشہؓ کا اس دوران ہار گم ہو گیا اور وہ ہار ڈھونڈنے لگیں ۔جبکہ ادھر قافلہ چل پڑا اور اہل قافلہ نے سمجھا کہ سیدہ عائشہؓ اپنے ڈولی نما ہودج میں اپنے اونٹ پر موجود ہیں،جب قافلہ روانہ ہو گیا اور ادھر سے سیدہ عائشہؓ قافلے کے پراؤ کی جگہ پہنچیں تو قافلہ جا چکا تھا ۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ؛میں یہ سوچ کر اس جگہ بیٹھ گئی کہ جب قافلے والے مجھے مفقود پائیں گے تو ضرور پیچھے آئیں گے،چنانچہ بیٹھے بیٹھے میری آنکھیں بوجھل ہو گئیں اور میں سو گئی ،قافلے کے پیچھے پیچھے کچھ فاصلے پر سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ آرہے تھے کہ قافلے کی کوئی گری پڑی شے ملے تو اسے اٹھا لیں۔سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں؛انھوں نے مجھے دیکھا اور
پہچان لیا کہ یہ تو عائشہؓ ہیں،(کیونکہ انھوں نے پردہ کا حکم نازل ہونے سے قبل آپؓ کو دیکھا تھا)چنانچہ سیدنا صفوانؓ نے اپنا اونٹ بٹھا یا ،میں اس پر بیٹھ گئی اور قافلے کے پیچھے پہنچ گئی....منافقوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے الزام لگا دیا ...کئی سادہ لوح مسلمان بھی منافقوں کے بہکاوے میں آکر اس سازش کا شکار ہو گئے۔چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ سخت پریشان ہو گئے ۔سیدہ عائشہؓ اپنے میکے آگئیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی پریشان تھے ۔ایک ماہ ہونے کو تھا ،کوئی وحی بھی نازل نہ ہوئی تھی ۔سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:چنانچہ ایک روز اللہ کے رسولﷺہمارے گھر شریف لائے۔
آپ ﷺ نے السلام علیکم کہا؛پھر تشریف فرما ہوئے اور اللہ کی حمدو ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا؛اے عائشہ !مجھے تیری طرف سے یہ یہ باتیں پہنچی ہیں،اگر تو بے گناہ ہے تو عنقریب اللہ تجھے بری کر دے گا اور اگر کوئی ایسی بات ہے تو پھر اللہ کے حضور توبہ و استغفار کرو،کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کر لیتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ بھی اپنے بندے کی توبہ کو قبول کرتا ہے ۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں؛جب اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی بات مکمل کر لی تو میرے آنسو(جومسلسل بہ رہے تھے)یوں خشک ہو گئے کہ ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا....میں نے اپنے باپ سے کہا:میری طرف سے اللہ کے رسول ﷺکو جواب دیجئے ....تو انھوں نے کہا :اللہ کی قسم!مجھے نہیں معلوم کہ میں اللہ کے رسول ﷺ کو کیا جواب کہوں؟
پھر میں نے اپنی ماں کو کہا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا...پھر میں نے کہا ؛ اللہ کی قسم !اگر میں کہوں کہ میں بے گناہ ہوں ،حالانکہ اللہ کریم جانتے ہیں کہ میں بے گناہ ہی ہوں ،تو آپ میری تصدیق نہیں کرو گے اور اگر میں اعتراف کروں ایک ایسے کام کا تو کیسے کروں کہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میں اس سے بے گناہ ہوں ۔تو آپ میری تصدیق کرو گے ۔لہٰذا میں اپنے لئے اور آپ کیلئے یوسف علیہ السلام کے باپ اور ان کے بیٹوں کے درمیان ہونے والے معاملے کی مثال دے کر وہی کہتی ہوں جو یوسف علیہ السلام کے باپ (سیدنا یعقوبؑ ) نے اپنے بیٹوں سے اس وقت کہا تھا (جب ان کے بیٹوں نے باپ کو خبر دی
کہ ابا جان !یوسف کو تو بھڑیا کھا گیا ہے !!تو یعقوب علیہ السلام نے کہا):
وَجَآءُوْا عَلٰى قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۖ فَصَبْـرٌ جَـمِيْلٌ ۖ وَاللّـٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ
ترجمہ:میں پروقار اور خوبصور ت صبر کروں گا اور جو تم بیان کر رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے(یوسف:۱۸)پڑھیں.....
جاری ہے

Tuesday 2 February 2016

اسلام اور خانقاہی نظام 93




(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 93)

لاہور میں بی بی  پاک دامن کا  مزار اور خرافات :
جیسا کہ گزشتہ اقساط  میں گزر چکا ہے ہے اسی طرح کا ایک اور مزار لاہور گڑھی شاہو کے نزدیک علامہ اقبال روڈ پر بی بی پاک دامن کا مزار بھی عورتوں میں بڑی شہرت رکھتا ہے  اور عورتیں یہاں کثرت سے آتی ہیں ،جب میں وہاں گیا تو مزارات پر جو کتبے لگے ہوئے تھے،وہ کچھ اس طرح تھے:
حضرت بی بی  نور دخترحضرت عقیل برادر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ۔۔۔اسی طرح 'بی بی حور،  بی بی گوہر ،بی بی تاج  اور شان بی بی  شاہ باز۔
ان کے بارے میں بھی لکھا گیا تھا کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بھائی  سیدنا عقیل کی صاحبزادیاں ہیں،بی بی تاج کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے،ان مزاروں پر عورتیں کثرت سے تھیں مگر مردوں کیلئے بھی کوئی پابندی نہیں ،اس مزار کی جگہ بھی  تنگ ہے،چنانچہ یہاں عورتوں اور مردوں کا وہ مخلوط رش ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ،ان مزاروں پر شعیہ اور بریلوی حضرات کے کئی جگڑے بھی ہو چکے ہیں،شیعہ کہتے ہیں !یہ مزار ہمارا ہے،جبکہ بریلوی کہتے ہیں !یہ دربار ہمارا ہے،بہر حال جو ان  بیبیوں کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی کی طرف منسوب کیا ہے یہ غلط ہے کیونکہ ان کی بیٹیوں کے ایسے عجمی نام تاریخ میں کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔یہ بیٹیاں تو سید احمد توختہ ترمذی کی ہیں،جو ۶۰۲ ھ میں یہاں لاہو ر آئے تھے،البتہ اس مزار پر حاضری دینے والوں کی زیادہ تعداد شیعہ حضرات کی تهی ،لیکن بریلوی حضرات  بھی کافی تعداد میں آتے ہیں،دونوں گروہوں میں سے ایک یہاں ہونے والی بے پناہ آمدن کا حقدار بننا چاہتا  تھا ،مگر حکومت پاکستان کے محکمہ اوقاف نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اب یہاں کی آمدن سرکاری محکمہ کھا رہا ہے،اسی لئے علامہ اقبال نے قبر پرستی کے ڈھنگ دیکھ  کر کہا تھا !
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے۔کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے،
اور آج قبر پرسی یعنی قبروں  کی کمائی کے بعد بتوں کی کمائی بھی شروع ہو چکی ہے اور اس کی ابتدا حوا کی بیٹی سے کی گئی ہے !حوا کی بیٹی کی عزت کو تار تار کر کے ایک دوسری قسم کی کمائی بھی ان مزاروں پر شروع ہو چکی ہے ،جسے عرف عام  میں جسم فروشی کہتے ہیں اور منشیات کا دھندا صرف اس  مزار  پر نہیں بلکہ  دیگر مزاروں پر بھی عام ہے،(حوالہ کیلئے ہماری ویب سائٹ  کو وزٹ کریں www.ficpk.blogspot.com)
ماضی میں جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بی بی پاک دامن کے دربار کا دورہ کیا تو اس وقت بھی لوگوں نے دربار پر ہونے والی جسم فروشی ،فحاشی ،اور جرائم کی خصوصی طور پر شکایت کی ،جس پر بے نظیر نے اس کے تدراک  اور روک تھام کی یقین دہانی کراوئی تهی. ،
اور عقیدت مندوں کا عقیدہ ہے کہ بیبیاں کسی ایسے ویسے اور  غلط کار آدمی کو دربار کے پاس پھٹکنے بھی نہیں دیتیں جبکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس  ہے،اگر بیبیاں تمام اختیارات  رکھتی ہیں تو وہ کچھ کرتی کیوں نہیں ۔۔۔۔؟جو ان مزاروں پر خرافات  ہو رہی ہیں ،اللہ کے بندو! ذرا سوچو اور غور کرو۔۔۔۔،
جاری ہے۔۔۔۔۔
بشکریہ ؛فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...