Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،92


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر92)
قرب قیامت کی ایک علامت'لکڑی کے بتوں کی پرستش:اجازت پا کر جب میں اندر گیا تو وہاں قبریں ہی قبریں تهیں.جنہیں میں نے گنا تو وہ تقریبا انیس تهیں.ان قبروں میں سے بعض پر لکڑی کے بت رکهے ہوئے تهے.یہ بت بهی خواتین کے تهے .ایک بت کی ہیئت یوں تهی کہ عورت نے بچہ اٹهایا ہوا ہے....یہ منظر دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ یہ کمرہ خاص طور پر عورتوں کے مسائل کیلئے  کیوں وقف کر رکها ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ ضعیف الاعتقاد واقع ہوئی ہیں.اولاد عورتوں کی ایک بہت بڑی فطری خواہش اور کمزوری ہے .چنانچہ اس کیلئے وہ دربدر بهٹکتی پهرتی ہیں.یہاں تک کہ حصول اولاد کیلے دیگر خرافات کے ساتھ ساتھ
اگر اپنی عزت و آبرو کی نیلامی بهی کرنی پڑهے تو اس کی بهی پرواہ نہیں کرتیں .خاص طور پر یہاں عورت کے جس بت کو بچہ اٹهائے ہوئے دکهایا گیا ہے اس کا مقصد ہی عورتوں کو اولاد مہیا کرنا ہے.چنانچہ یہاں جو عورتیں آتی ہیں وہ لکڑی کے جو کهلونے یہاں پاتی ہیں ان کے ساتھ دهاگے باندهتی ہیں ، قبروں پر سجدہ ریز ہوتی ہیں ، نزریں  چڑهاتی ہیں اور گڑ گڑا کر اولاد مانگتی ہیں .....یوں بت پرستی کا یہاں خوب چلن ہے، جسے زندگی میں پہلی بار میں نے ملاحظہ کیا.یہاں ایک عورت تهی اس نے لکڑی کا کهلونا پکڑا اسے وہ اپنے جسم پر پهیرنے کے بعد اپنے بچوں کے جسم پر پهیرنے لگی....حقیقت یہ ہے کہ قبرپرستی تو بہت پیچهے رہ گئی ہے اب تو درخت کی پوجا کی ، لکڑی کی پرستش اور بتوں کی عبادت بهی اس امت میں ابتدا کر چکی ہے اور قرب قیامت کی یہ وہ علامت ہے جس سے اللہ کے رسولﷺ نے یوں با خبر فرمایا ہے:
 اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری امت کے بعض قبیلے مشرکوں سے نہ مل جایئں(ابو داود:4252)
اور ایک روایت میں یہ الفاظ بهی ہیں:
حتی کہ میری امت کے بہت سے لوگ بت پرستی اختیار کر لیں(ابن ماجہ:3952)
بت پرستی پر تقدس کا پردہ:
میں سوچ رہا تها کہ ان لوگوں نے بت پرستی پر کس قدر نام نہاد تقدس کا پردہ ڈال رکها ہے کہ عورتوں کی قبروں پر مردوں کا جانا ممنوع قرار دے رکها ہے.دربار اور خانقاہ کے اس کوچے میں عقل کا کوئی کام نہیں .وگرنہ تقدس کا یہ سوانگ رچانے والوں سے کوئی پوچهے کہ عورتیں جو ولایت کے مقام پر فائز ہیں کیا وہ مشکل کشائی مردوں کی نہیں کرتی ہیں ؟
اور یہ کہ جو آپ نے ان قبروں کو مردوں کی نگاہوں سے بهی چهپا رکها ہے تو اس میں کون سا فلسفہ کار فرما ہے ؟اگر مرد ان بیبیوں کی قبروں پر نہیں جا سکتے تو پهر عورتوں کو بهی مردوں کی قبروں پر نہیں جانا چاہیے...؟..
اگر آپ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ غیروں کی نگاہیں ان پاک بیبیوں کی قبروں پر نہ پڑیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ فوت ہوئیں تو کیا اس وقت ان کا جنازہ نہ پڑها گیا تها...کیا کفن میں ملفوف میت پر لوگوں کی نگاہیں نہ پڑی تهی ....چار پائی کے پیچهے پیچھے لوگ نہ چل رہے تهے....گورکن نے قبر نہ کهودی تهی اور لوگوں نے قبر پر مٹی نہ ڈالی تهی ...؟؟ مگر یہ کیا بات ہے کہ یہ سارا عمل ہوا مگر اس کے بعد محض اپنی دوکان چمکانے کیلئے ان لوگوں نے بت پرستی کا احیاء کر کے اس پر تقدس کا پردہ ڈال دیا..لا محالہ تقدس کا یہ اس قدر کڑا پردہ ان لوگوں نے اس لیے ڈالا ہے تا کہ کاروبار خوب چمکے ، وگرنہ یہ بیبیاں اللہ کے رسولﷺ کی ازواج مطہرات اور مومنوں کی ماوں سے تو بڑھ کر پاک نہیں ....! مومنوں کی وہ مائیں کہ جن کے پاک ہونے کا تزکرہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یوں کیا ہے،
ترجمہ:اللہ تعالی کو منظور یہی ہے کہ وہ تم اہل بیت سے آلودگی کو دور رکھ کر تمہیں خوب خوب پاک رکهے (الا حزاب:33)
اب مومنوں کی ان ماوں کی قبریں بقیع کے قبرستان میں موجود ہیں، اللہ کے رسولﷺ کی بیٹیوں اور صحابیات کی قبریں بهی وہاں موجود ہیں، یہ قبریں عام قبرستان میں ہیں ، ان پر کوئی عمارت بهی نہیں، سب مسلمان وہاں جاتے ہیں، یہ قبریں دیکهتے ہیں اور ان کے دراجات کی سر بلندی کیلئے دعائیں بهی  کرتے ہیں....اور عام حالات میں بهی جب ان صحابیات کا کوئی نام مبارک لیتا ہے تو ہر مسلمان دعا کی صورت میں ان ازواج مطہرات کیلئے ایک بہترین ہدیہ پیش کرتا ہے یعنی " رضی اللہ عنہا"کہتا ہے 'جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی ان سیدہ صحابیات سے راضی ہو ان پر اپنی رحمت خاص کرے ان کے دراجات کو بلند کرے اور ان کو جنت میں اعلی مقام و مرتبہ عطا کرے....دوسری طرف ان درباروں پر دفن بیبیاں (نعوذ باللہ)
نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور صحابیات سے بهی بڑھ کر ہیں کہ ان کی قبروں پر غیر محرم کی نگاہ نہ پڑے ....نہیں نہیں!!.....ایسی کوئی بات نہیں 'حقیقت تو یہ ہے کہ روحانیت کے نام پر یہ ایک درباری اور خانقاہی کاروبار ہے جس کا مقصد کاروبار کو چمکانا ہے چاہے وہ جس طرح بهی چمکے......
ایسا ہی کاروبار ضلع شیخوپورہ کے معروف قصبہ خانقاہ ڈوگراں میں بهی ہو رہا ہے .یہاں حاجی دیوان کی خانقاہ ہے اور اس خانقاہ کے نام سے ہی اس شہر کا نام خانقاہ ڈوگراں مشہور ہو گیا ہے.یہاں حاجی دیوان کی بیٹیوں کی قبروں پر عمارتیں بنائی گئی ہیں.جو بالکل بند ہیں.ان کے بارے معروف ہے کہ ساری عمر ان بیبیوں کا نکاح نہیں ہوا.انہیں کسی نے دیکها نہیں اور اسی حالت میں یہاں مر گئی ہیں.اب ان قصوں کی بنا پر خوب پوجا اور عوام کا استحصال ہو رہا ہے....
جاری ہے...

اسلام اور خانقاہی نظام،91


⁠⁠⁠⁠⁠*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 91)
یہودی عقیدہ سے مشابہت تالاب اور بیری کا درخت:دربار کے سامنے ہم نے ایک تالاب دیکها! اس تالاب میں پانی پر نوٹ تیر رہے تهے،اس تالاب کے ارد گرد جنگلا تها.اس جنگلے کے ساتھ بے شمار دهاگے بندهے ہوئے تهے.لوگ اپنی حاجات لے کر یہاں  آتے  ہیں   اور آتے ہی دهاگہ باندهتے ہیں ، پیسے تالاب میں پهنکتے ہیں  اور جب ان کی حاجات پوری ہو جاتی ہیں تو دوبارہ یہاں آ کر دھاگہ کهول دیتے ہیں .اور پیسے اس تالاب میں پهینک جاتے ہیں اور اس تالاب کا پانی بطور شفاء پیا جاتا ہے.کئی لوگ اس پانی کو بوتلوں میں بهر کر بهی لے جاتے ہیں.اسی طرح دربار کے پیچھے بیری کا ایک درخت ہے، اس درخت کے نیچے مرد اور عورتیں جهولیاں اور دامن پهیلا کر بیٹھے  ہوتے ہیں ، جس کی جهولی میں پتا گر جائے وہ سمجهتا ہے مجهے بیٹی مل گئی ، جس کے دامن میں پهل لگنے کے موسم میں بیر گر گیا وہ سمجهتا ہے لڑکا مل گیا.لوگ یہاں اس مقصد کیلئے ساری ساری رات اور دن بهر بیٹھے  رہتے ہیں .ایک شخص جو یہاں اپنا دامن پهیلا کربیٹھا  تها' نہ جانے وہ کب سےبیٹھا تها.دامن جهاڑ کر اٹھ بیٹھا میں نے پوچها-! کچھ ملا کہ نہیں ؟ کہنے لگا ابهی تو کچھ  نہیں ملا .....اور پهر وہ اداس اور مرجهائے ہوئے چہرے کےساتھ سلطان باہو کی قبر کی طرف چل دیا .اب وہاں روئے گا فریاد کرے گااور پهر یہاں آ کر بیٹھ جائے گا .....بیری کے اس درخت پر بهی دهاگے بندھے ہوئے تهے.تو جس کے دامن میں کچھ نہ گرے وہ آخر کار یہاں دهاگہ باندھ کر چلا جاتا ہے.اس امید پر کوئی بیٹا یا بیٹی ہی مل جائے......غرض میں بیری کے درخت کی پوجا کے مناظر دیکھ رہا تها اور مغموم ہو رہا تها کہ یہ قوم تو یہود کے نقشے قدم پر چل نکلی ہے....مجهے جنگ حنین کے دوران پیش آنے والا واقعہ یاد آ گیا وہ واقعہ کیا تها اور سلطان باهو کے دربار پر اس درخت کے واقعہ کے ساتھ مشابہت اور مناسبت کس طرح ہے...؟ یہ اللہ کے رسولﷺ کی زبان مبارک سے سنیے-! حضرت ابو واقرلیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ہم جنگ حنین کے موقع پر مقام حنین کی طرف جا رہے تهے اور ہمارا کفر کا زمانہ ابهی نیا نیا گزرا تها کہ راستے میں ایک جگہ پر بیری کا درخت آیا جسے' ذات انواط '(یعنی تلواریں یا دهاگے وغیرہ لٹکانے کی جگہ )کہا جاتا تها .مشرک لوگ اس درخت کے پاس بیٹھنا  باعث برکت خیال کرتے تهے اور اپنا اسلحہ بهی وہاں لٹکایا کرتے تهے .چنانچہ ہم نے آپ سے عرض کی:اے اللہ کے رسولﷺ-! جیسے ان مشرکوں کیلئے ذات انواط ہے.آپؐ ہمارے لئے بهی ایک  ذات انواط مقرر کر دیجئے-!یہ سن کر اللہ کے رسولﷺ نے اللہ اکبر کہا....اور فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم بالکل وہی بات کہہ رہے ہو جو یہودیوں نے سیدنا موسی علیہ السلام سے کہی تهی کہ اے موسیٰؑ ! ہمارے لئے بهی کوئی ایسا کرنی والا ، مشکل کشا بنا دیجئیے جیسے ان لوگوں کے ہیں.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم بهی اگلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے.(ترمذی:2180.مسند احمد5/ 218)قارئیں کرام! غور فرمایے! یہ بیری کا درخت اور اس پر دهاگوں وغیرہ کا باندھنا.اسے متبرک خیال کرنا، وہاں سے امیدیں لگانا، یہ یہودیوں کا چلن ہے اور مشرکوں کا لچهن ہے.جو اللہ کےرسول ﷺکے مخالف تهے اور ان میں سے جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تهے انهوں نے اپنے سابقہ چلن اور اسلام سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ایسا مطالبہ کیا تها.مگر غور کیجئیے ! کس سختی کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ نے انهیں ایسا سوال کرنے سے منع کر دیا اور پهر پیش گوئی بهی کر دی کہ اس امت کے لوگ بهی پہلی امتوں یعنی یہودیوں 'عیسائیوں کے لچهن اختیار کریں گے....سو آج وہ لچهن میں اپنی آنکهوں سے   اس دربار پر دیکھ رہا ہوں.
خبر دار ! اندر جانامنع ہے....یہاں پاک بیبیاں ہیں!!
بیری کے اس درخت کے سائے میں گدی نشین خاندان کی اور بهی بہت سی قبریں ہیں .جن کی پوجا ہو رہی تهی .ان قبروں کے ساتھ ایک برآمدہ ہے 'میں اس میں چلا گیا .اس برآمدے میں ایک دروازہ تها ، جس کے سامنے پردہ لٹک رہا تها.میں اس پردے کو سرکا کر اندر داخل ہونے لگا تو اس دروازے کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک بزرگ نے بلند آواز سے مجهے کہا 'خبر دار! اندر جانا منع ہے ، یہاں پاک بیبیاں ہیں ....میں فورا ًپردے کو چهوڑ کر بزرگ کے پاس بیٹھ گیا اور اس سے پوچها ! کیا اندر کوئی پردہ دار خواتین ہیں ..؟ تو وہ کہنے لگا :اندر پاک بیبیوں کے مزارات ہیں .وہاں صرف عورتیں ہی جا سکتی ہیں . مرد نہیں جا سکتے .میں نے اس بزرگ سے کہا :بابا جی ! میں لاہور سے یہاں حاضر ہوا ہوں،ایک رسالے  کا ایڈیٹر ہوں  اور اس مزار کے بارے میں معلومات اس  رسالے میں لکھنا  چاہتا ہوں،چنانچہ با با نے اندر جانے کی اجازت دے دی۔۔۔۔۔
جاری ہے 

اسلام اور خانقاہی نظام,90



*اسلام  اور خانقاہی  نظام *
(گزشتہ سے پیوستہ قسط نمبر90)
سلطان باہو:
ضلع جھنگ کے شہر شور کوٹ میں سلطان باہو کا مشہور دربار ہے،ان کے مریدوں کا عقیدہ ہے کہ حق باہو کا نام ہی لے لیں 'بس فوری جنت مل جاتی ہے،اور یہ کہ اللہ تعالی تو لوگوں کو بخشنے کیلئے حق باہو (کا مرید اور ان سے نسبت والا ہونے)کا بہانہ ڈهونڈتا ہے .....چنانچہ میں  (امیر حمزہ) نے اس دربار کو بهی دیکهنے کا پروگرام بنا لیا.اور یہاں کی معلومات کیلئے شاہ کوٹ شہر سے محمد ارشد صاحب کو اپنے ہمراہ لیا-ارشد صاحب آبائی طور پر گدی کے مرید رہے ہیں اور وہ سالہا سال تک یہاں حاضری دیتے رہے ہیں -پهر اللہ نے انهیں توفیق دی اور توحید کی نعمت سے ان کے دامن کو بهر دیا-ہم کل چار ساتهی تهے -رات شور کوٹ میں گزارنے کے بعد صبح ہم تهانا گڑھ مہارجا کے راستے اس دربار پر پہنچے-
اس دربار پر محرم کے پہلے دس دن عرس لگتا ہے ملک بهر سے لاکهوں لوگ یہاں شرکت کرتے ہیں-وہ یہاں کیا کرنے آتے ہیں اس کی ادنی سی جهلک ہم آپ کو دکهائے دیتے ہیں.....محض اس لیے کہ جنهیں اللہ تعالی نے توحید جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے ،اللہ کی محبت میں ان کی غیرت جاگے کہ پاکستان میں بول و براز ' ننگ درنگ اور نہایت ہی کمزور مخلوق کے خاکی مجسمے کس طرح اللہ تعالی کے مد مقابل بن کر اپنے آپ کی پوجا کروا رہے ہیں.اور سادہ لوح عوام جاہلوں کی طرح اس فانی عاجز مخلوق کی پوجا کرنے میں مگن ہیں،اور اللہ تعالی کا بے پنہا اور خصوصی شکر بجا لائیں وہ مبارک لوگ  جن کو اللہ تعالی نے توحید کی عظیم و جلیل نعمت کی سعادت جاویدسے نوازا ہے......
مزاروں اور آستانوں پر دین کے نام پر ہونے والے یہ خرافاتی  مناظر قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اہل توحید محض روایتی طریقوں کو ہی نہ اپنائے رہیں بلکہ قرآن کی دعوت کے اس انقلابی طریق کار کو بهی اپنائیں کہ جس سے اللہ کی یہ مخلوق زندہ اور مردہ بندوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی بجائے اپنے پیدا کرنے والے پروردگار 'احسن الخالقین کے حضور سر جکائیں-اور وہ لوگ بهی جان جائیں جو ایک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو چهوڑ کر  بے بس مخلوق کے در پر جهکتے ہیں.
دربارکے ارد گرد:جیسا کہ دیگر درباروں کے باہر بازار لگے ہوتے ہیں ایسے ہی اس دربار کے باہر بھی بازار لگاہواتھا ۔جہاں نذریں چڑھانے کیلئے چادریں ،ہاتھوں میں پہننے کیلئے کڑے ،برکت کیلئے سجادد نشینوں کی تصویریں ،پمفلٹ،کھانے پینے   اورخریدنے کیلئے دیگر اشیاء موجود  تھیں ، ایک پمفلٹ خرید کر ہم آگے چل دیے ،یہاں ایک کنواں ہے جس پر ٹیوب ویل لگا یا جا  رہا تھا اور نہانے کی جگہ بنی ہوئی تھی جو پرانے غسل خانوں پر مشتمل تھی،اس کنویں کو 'حضوری کھوئی'کہا جاتا ہے۔لوگ یہاں اس نیت سے نہاتے ہیں کہ یہاں نہانے سے دنیا کے سب دکھ درد دُور ہو جاتے  ہیں ۔ذرا آگے چلے تو ارشد صاحب بتلانے لگے ۔کہ یہ جو مکانا ت ہیں ،یہاں زائرین ٹھہرتے ہیں ۔ہم بھی یہاں کئی کئی ہفتے ٹھہرا کرتے تھے ۔اس کے ساتھ ہی ایک مزار ہے جس کا نام 'بابا پیر جمے شاہ 'ہے۔اس  کے بارے میں مشہور ہے کہ آندھیاں اسی کے حکم سے چلتی ہیں ۔اس کے بعد ایک قبرستان  ہے جہاں ایک جگہ چار  چارپانچ پانچ من کے وزنی پھتر پڑے ہیں ۔ان پَھتروں کے بارے مشہور ہے کہ حضرت سلطان باہوصاحب بچپن میں ان پھتروں سے فٹ بال کا کھیل کھیلتے تھے اور اوپر پھینک کر کیچ بھی کیا کرتے تھے!یہ کچھ بیرونی مناظر دیکھنے کے بعد ہم دربار کے بیرونی مرکزی دروازے پر آپہنچے۔
گستاخ دروازہ:اس دروازے کے ارد گرد سنگ مر مر پر بہت کچھ لکھا ہوا تھا،مگر اس کے اوپر تین ناموں کو جس ترتیب کے ساتھ لکھا گیا تھا اس میں گستاخی کا ایسا گھٹیا انداز تھا کہ اسے وہی شخص محسوس کر سکتا جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ سچی محبت ہو اور اللہ کے رسول ﷺکی مبارک زندگی کا طرز عمل ہر وقت اس کا رہنما ہو ۔۔۔تو اس دروازے پر ایک لائن میں دائیں طرف 'حق باہو'لکھا ہوا تھا ،اس کے بعد یعنی درمیان میں 'یا اللہ 'اور آخر پر بائیں طرف 'یا محمد 'لکھا ہوا تھا ،،،اس گستاخی کو دیکھ کر آپ ﷺکے نامہ مبارک کا وہ نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا جس کا مضمون بخاری شریف کتاب بدءالوحی الیٰ رسول ﷺ میں موجود ہے۔یہ خط آج اصل شکل میں بھی موجود ہے اور اس کی نقلیں گھر گھر موجود ہیں،اس خط پر جو اللہ کے رسول ﷺنے شاہ روم ہر قل کو لکھا تھا۔اسے اسلام کی دعوت دی تھی،تو اس کے آخر پر آپﷺ نے جو مُہر لگائی تھی تو وہ مہر اسی ترتیب کے ساتھ آج بھی اس خط پر موجود ہے،اسی طرح سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سنت کی پیروی کرتے ہوئے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو جو دستاویز لکھ کر دی تو اس میں بھی یہی انداز تھا ،ترتیب اس طرح ہے:انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالی (تو مجھے بحرین کی طرف زکوٰۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا )اور ایک دستاویز لکھ کر دی اور اس  پر مہر ثبت کی۔مُہر میں تین سطریں نقش تھیں ۔ایک سطر میں لفظ 'محمد 'دوسری میں سطر میں لفظ'رسول ' اور تیسری سطر میں لفظ'اللہ'(کا نقش تھا)(بخاری:5878)یعنی' محمد رسول اللہ 'لکھتے وقت سب سے اوپر 'اللہ 'کا عالی نام ہے ،اس کے نیچے مقام رسالت یعنی 'رسول 'کا مبارک لفظ ہے اور اس سے نیچے یعنی آخر میں آپ ﷺکا اپنا اسم گرامی 'محمد 'ہے،یہ نقشہ اس طرح ہے:اللہ ۔رسول ۔محمد ،کیسا با ادب انداز ہے یہ حقیقت کا آئینہ دار طرز عمل ہے یہ کہ جسے  رسول اللہ ﷺ نے اپنایا اور اپنی امت کو اللہ کی عظمت کا سبق سکھلایا،مگر ۔۔۔۔۔آہ!اس درباری دروازے پر ایک امتی کا نام دائیں طرف اور اس کے بائیں طرف خاتم المرسلین کا نام لکھ دیا گیا ۔اور اس دروازے سے لوگوں نے ایسے ایسے عجیب وغریب اور توحید شکن عقائد وابستہ کر رکھے ہیں کہ جسے ایک موحد پڑھ کر کانپ جا ئے ،
گستاخ دروازے پت تثلیثی فلسفہ:توحید کا عقیدہ بالکل سادہ ہے ،جس کے مطابق نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے،مگر یہ صاف سادہ اور بالکل صحیح    عقیدہ اس وقت لوگوں کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے،جب وہ اپنے عقیدے اور مذہب کو ایک فلسفہ بنا لیتے ہیں ۔عیسائیوں نے ایسا ہی کیا ،انھوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہا ،اب بیٹا باپ کے جسم کا حصہ ہوتا ہے ،وہ باپ کی نسل سے ہوتا اور اس میں باپ کی خصوصیت موجود ہوتی ہیں ۔چنانچہ بیٹا بھی رب بن گیا ،اب عیسیٰ ؑکی ماں حضرت مریم ؑرہ گئی تھیں ،سوال پیدا ہواہے کہ آخر سیدنا عیسیٰ ؑ  جنھیں اللہ وحدہ لا شریک لہ کا بیٹا بنایا گیا ہے،انھوں نے جنم لیا تو حضرت مریم ؑ کے بطن ہی سے لیا ہے تو حضرت مریم ؑ کا کیا مقام ٹھہرا ؟چنانچہ عیسائیوں نے انھیں بھی اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں حصہ دار بنا دیا اور یوں انھوں نے تین رب بنا ڈالے ۔مگر تین کہنے کے باوجود وہ یہ بھی کہتے تھے کہ رب ایک ہے اور یہ کہ ایک میں تین ہیں اور تین میں ایک۔۔۔۔اب فلسفہ کسی کی سمجھ میں کیا خاک آئے گا ،اسے تو خود بنانے والے سمجھنے سے قاصر ہیں ،کسی کو  وہ کیا سمجھائیں گے ،چنانچہ ایسا ہی فلسفہ اس دربار کے گستاخانہ دروازے پر دکھائی دیا،ملاحظہ فرمایے !
 "ھو                 ھو                               الحق                         ھو.....یا                                   باھو                     حق .....حق                                 ھو                          اللہ                             ھو "
اب 'ھو 'کی تکرار پر مشتمل فلسفے کو سمجھنے کیلئے میں نے اس کتاب کو کھو لا جس کا نام 'سوانح  حیات حضرت سخی سلطان باھو 'ہے،اور اسی دربار سے میں نے اسے خریدا،اس کتاب کے باب دوم کی فصل اول میں لفظ 'باھو'کی تشریح یوں مرقوم ہے:لفظ باھو کے معنی (ساتھ اللہ جل  شانہ کے)جو آپ اول ،آخر،ظاہر،باطن ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہیں ۔یہاں حضرت کا نام اس طرح تحریر کیا گیا ہے:'حضرت شیخ سلطان باھو فنا فی اللہ  بقا فی ہو  '
یعنی یہ حضرت نہ صرف یہ کہ اول و آخر اللہ  کے ساتھ ہیں بلکہ یہ اللہ ہی میں فنا ہو گئے ہیں  اور اللہ ہی وہ باقی  ہیں ۔۔۔تو جب وہ اللہ ہی میں مل گئے تو پھر وہ اللہ ہی ھو گئے،
(نعوذ باللہ )
عیسائیوں  نے اللہ کے پیغمبر عیسیٰ ؑکو اللہ میں شامل کرنے  کا شرکیہ فلسفہ گھڑا تو اللہ  نے قرآن میں ان کے اس فعل کو کفر کہا!اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوٓا اِنَّ اللّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّآ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ ،ترجمہ ،یقیناًلوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں ایک ہے ،حالانکہ ایک معبود کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے(المائدہ :73)یعنی  جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ ؑ کو اللہ میں داخل کیا اسی طرح سلطان باھو کو بھی' ھو ھو '  کی تکرار کے ساتھ اللہ میں داخل کر دیا گیا ۔'حق باھو سچ باھو 'کے نعروں کے ساتھ سلطان باھو کو اپنا معبود ماننے میں بھی کوئی شک نہیں چھوڑا ،حتیٰ کہ جس طرح کم و بیش اللہ کے نناوے (99)نام ہیں ،اسی   طرح  سلطان باھو کے نناوے نام گنوائے  گئے  ہیں ،پھر جس طرح رب تعالیٰ کا ذاتی نام 'اللہ'ہے ،اسی طرح حضرت سلطان  کا  ذاتی نام 'باھو'بتلایا گیا ہے،اور اس سے  بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ آپ کا صفاتی نام 'حق'ہے۔پھر سوانح حیات حضرت سخی سلطان  باھو  ہی کے صفحہ پچیس   پر یوں لکھا ہوا ہے:(ان دونوں  ناموں ) کو ملا کر 'حق  باھو 'بلند آواز سے پڑھنے کا وظیفہ بھی   نہایت مجرب  ہے ،جو ایک دو نہیں لاکھوں طالبوں کا آزمایا ہوا ہے،
اب اللہ کا فرمان ملاحظہ کیجئے کہ' حق ھو 'کو ن ہے؟
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَاَنَّ اللّهَ هُوَ الْعَلِىُّ الْكَبِيْرُ ،ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ 'حق ھو'اللہ ہی ہے اور وہ سب باطل ہیں  جنھیں اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں اور بے شک اللہ ہی کبریائی اور بڑائی والا ہے(الحج:62)غرض یہ دروازہ تو گستاخ تھا ہی مگر جب ہم نے اس کی ڈیوڑی(برآمدہ)میں قدم رکھا  تو وہ دروازے سے کہیں بڑھ کر گستاخ دکھائی دی۔وہاں گستاخیاں  تو بہت ساری تھیں مگر ایک گستاخی  ایسی تھی کہ جس کے سامنے باقی سب گستاخیاں ہیچ تھیں ۔وہ ایک شعر کی شکل میں کچھ یوں تھی!' ہم غریبوں کے لیے وہ تھے پناہ دو جہاں ۔اس جہاں میں اب ہمارا آسرا کوئی نہیں '
یہ شعر کہ جس میں اللہ مالک الملک کی مکمل طور پر نفی کر دی گئی ہے،یہ معبود سجادہ نشین کے بڑے بھائی سلطان کے بارے  میں ہے جو اپنی سجادہ نشینی کے دن پورے کر کے درباری زبان میں پردہ فرماچکے ہیں اور قرآنی زبان میں مر گیا ہے،
جاری ہے ۔۔۔۔۔

اسلام اور خانقاہی نظام,89


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر89)
۔مائی جو گوٹھ :یہ ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ایک گائوں ہے۔ اس کے نام کی وجہ ایک مائی ہے جو منتیں مانگنے والوں کو دھاگوں پر پھونک کر انہیں گنڈے دیا کرتی تھی تاکہ انکی مرادیں پوری ہو جائیں۔حالانکہ یہ سادہ لوح سیاح یہ نہیں سوچتے کہ اس مائی نے اپنی غریبی اور لا چاری  دور کرنے کے لئے کوئی گنڈا کیوں نہیں بنالیا۔
اور اب اندهیرا چها رہا تها اور اب خوف کا ماحول بن رہا تها دور دور تک کوئی روشنی بهی نظر نہیں آ رہی تهی .....  شاید اسی خوف کی بنا پرماضی اور حال کے لوگ شرک کی جانب مائل ہوئے۔ انہوں نے بزرگوں، روحوں، قبروں اور دیگر پر اسرار چیزوں کو طاقت کا منبع سمجھا اور ان کو خوش کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ اندیکھی ارواح انہیں ان جانے خطرات سے محفوظ کرسکیں۔ چونکہ اللہ کا وجود نظروں سے اوجھل تھا لہٰذا لوگ اس مفروضے پر مبنی دیومالا میں الجھ کر رہ گئے ۔ حالانکہ اللہ ان کی رگ جاں سے بھی زیادہ قریب تھا اور وہ اگر اس کو پکارتے تو اپنی مرادیں پالیتے۔ بہرحال میں نے تو تنہا رب ہی کو پکارا کہ مجھے اس خوف سے نجات دے اور اس نے  میری مدد کی۔ اور وہ وقت بھی کٹ گیا یہاں تک کہ صبح ہوئی اور جان میں جان آئی۔
لاہوت لامکاں“لاہوت لامکاں “ہماری اگلی منزل تھی۔لاہوت لامکاں تصوف کی ایک مشہور اصطلاح ہے جس کا مطلب اس مادی دنیا سے ماورا ایک ایسی روحانی دنیا ہے جہاں وقت اور مکان نہیں ہوتا ۔لیکن بہرحال نورانی میں یہ ایک بڑےسے غار کا نام ہے جہاں مقامی لوگوں کی کئی زیارتیں ہیں جو انکی روایات کے مطابق نورانی بابا اور دیگر بزرگوں سے منسوب ہیں۔اور ان تمام مقامات پر شرک و خرافات عام ہیں...
 ۔جب ہم ایک بڑهی سی غار میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں ڈھلان میں ایک طویل اور تنگ سی سرنگ تھی جو غار سے باہر جانے کا متبادل راستہ تھا۔سرنگ کی تنگی کی بنا پر اس میں سے ایک آدمی بھی بمشکل نکل پاتا۔اس کے بارے میں بھی یہ روایت مشہور تھی کہ جو کوئی اس میں داخل ہو اور نکل جائے تو وہ اپنے ماں باپ کی جائز اولاد ہے اور اگر کوئی پھنس جائے تو وہ ناجائز اولاد  ہے۔سب سے دلچسپ چیز ایک چھوٹا سا پتھر کا ٹیلا تھا ۔ اس کو دیکھ کر یوں لگتا گویا کہ کوئی اونٹ بیٹھا ہو۔ اس کا اگلا حصہ اونٹ کے منہ سے مشابہ تھا جس پر اصلی اونٹ کی کی طرح کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔اس کا پچھلا حصہ ایک بیٹھے ہوئے اونٹ کے دھڑ سے ملتا جلتا تھا ۔ لوگو ں کی روایت کے مطابق یہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی تھی جو پتھر کی بن گئی تھی۔ لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ کہ حضرت صالح علیہ السلام تو عرب کے علاقے میں تھے وہ اور انکی اونٹنی یہاں کس طرح آ گئی۔شاید وہاں موجود لوگوں کو اس قسم کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بلکہ ان میں سے کوئی  چراغ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور کوئی اونٹنی کے سامنے عجز کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ یہ سب کچھ روایات پر مبنی تھا۔ لیکن کسی کو جاننے کی فرصت نہ تھی کہ حقیقت تک پہنچ جائے اور دیکھے کہ وہ درست کر رہا ہے یا غلط۔ ۔اس غلطی میں شاید  ان پڑھ لوگوں کا اتنا قصور نہ تھا جتنا مذہبی طبقے اور مصلحین کا تھا۔ ان راہنمائوں کی مجرمانہ خاموشی اور اصلاح میں غفلت کی بنا پر معاملات اس نہج تک پہنچ گئے تھے۔ماضی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت قریش کا یہی استدلال تھا کہ ہم ان صدیوں سے رائج رسوم و رواج اور شرک کی علامات کو کیسے چھوڑ دیں جبکہ ہم نے ان پر اپنے آبا و اجداد کو ان پر چلتے ہوئے پایا ہے۔ان سے پوچھا جاتا کہ اگر آبا و اجداد اور بڑے بزرگان غلط تھے تب بھی کیا باطل کی پیروی کی جائے گی؟۔ تو اس بات کا جواب ان کے پاس کچھ نہ ہوتا سوائے ہٹ دھرمی کے۔ آج ہمارے مذہبی حلقوں میں بھی یہ آبا پرستی پوری طرح سرایت کر گئی ہے۔ آج رسم و رواج کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے دین کو بدعات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس کی دلیل یہی دی جاتی ہے کہ اگر یہ کام غلط تھا تو فلاں بزرگ نے کیوں کیا؟۔غار میں ایک مقام پر صفیں بچھی ہوئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ نماز پڑھنے کی جگہ ہے لیکن کسی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور لوگ اس کونے میں رش لگا کر کھڑے تھے جہاں نورانی بابا نے چلہ کاٹا تھا۔ یعنی اللہ سے زیادہ اللہ کے بندے کی اہمیت ہو گئی تھی۔ قریش کے لوگ بھی جب اپنی کھیتی یا گوشت نذر کرتے تھے تو کچھ حصہ اپنے شرکا اور کچھ حصہ اللہ کے لئے نکالتے تھے۔ اگر تولتے وقت اس میں سے کچھ نیچے گر جاتا تو وہ کسی کا بھی ہو، اسے شریکوں کے حصے میں شامل کردیا جاتا تھا ۔ یعنی اللہ پس پشت اور اس کے فرضی شرکا ء زیادہ اہم ہوگئے تھے۔
اب لوگوں کی تعداد میں  آہستہ آہستہ اضافے کی بنا پر گھٹن بڑھ رہی تھی۔اور اب ہم نے واپس   آنے کیلئے سفر شروع کیا واپسی کا سفر بهی کافی دشوار تها البتہ لوگوں کے مسلسل چلنے کی وجہ سے زمین پر مخصوص نشان بنے ہوئے تهے. چنانچہ لوگ انہی نقش قدم پر چلتے ہوئے  اپنی منزل تک پہنچنے میں رواں دواں تهے ۔ زندگی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ پیغمبروں کے نقش قدم پر چلیں گے تو منزل تک پہنچ جائیں گے جبکہ ابلیس کی شاہراہیں جہنم کے دہانے پر پہنچا دیتی ہیں۔
بہرحال کافی مشکل اور تهکان کے ساتھ ہم  بسوں کے اڈے تک پہنچ گئے۔شام پانچ بجے روانہ ہونا تھا اور اس وقت ڈھائی بج رہے تھے۔ہم نے نماز پڑھی۔ واپسی کا سفر کچھ اچھا نہ تھا کیونکہ تھکان بہت زیادہ تھی۔ اسی لئے وہ مناظر جو آتے ہوئے دل کو بھا رہے تھے جاتے وقت اچھے نہیں لگ رہے تهے۔ وقت وقت کی بات ہے کبھی آدمی کسی چیز پر فدا ہوتا ہے لیکن بعد کے حالات اس کی دلچسپی کو ختم کر دیتے ہیں۔ہم نے اس رب کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں خیریت کے ساتھ یہ سفر اور ایڈوینچر طے کروایا۔ اللہ کا بے پایاں شکر ہے کوئی رسمی شکریہ نہیں بلکہ یہ اپنی کمزوری، کم علمی اور بے بسی کا درست ادراک ہے اس ہستی کے سامنے جو طاقت کی مالک ہے، جو علم کا منبع ہے ، جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ اسکی مدد نہ ہوتی تو ہم وہیں پہاڑیوں میں بھٹکتے ہوئے فنا ہو جاتے، پہاڑوں سے پھسل کر ہڈیاں تڑوا لیتے۔ وہ اللہ ہی ہے جو تمام تعریفوں کے لائق ہے کیونکہ ہر بھلائی اور اچھائی اسی کی جانب سے ہے۔سبحان اللہ و الحمد للہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر......
جاری ہے....

اسلام اور خانقاہی نظام,88


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر88)
محبت فقیر:
نماز پڑھنے کے کے لئے ایک مسجد تلاش کی جو ویران پڑی ہوئی تھی۔ مسجد سے کچھ فاصلے پر محبت فقیر صاحب کا مزار تھا۔ یہ صاحب مشہور روایات کے مطابق نورانی بابا کے خاص مرید اور خادم تھے۔اور آپ بابا کے پاس آنے والے زائرین کی خاص خدمت کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کا مزار زائرین کے لئے پہلی سلامی کا مقام سمجھا جاتا ہے۔رات گذارنے کے لئے ایک ہوٹل کا قصد کیا ۔وہاں ہوٹل کی چھت چھپراور فرش چٹائیوں کا بنا ہو تھا اور ان ہوٹلوں کا معمولی سا کرایہ تها۔ بہر حال سامان رکھ کر ہم چاروں دوست باہر چہل قدمی کیلئے نکلے۔ اور چہل قدمی کے بعد ہم واپس اپنے ہوٹل میں آئے تو کچھ حضرات تاش کی بازی جمائے بیٹھے تهے تو کچھ گپ شپ میں مصروف تهے..۔رات کافی ہو چکی تهی ہم سو گئے اور جب صبح آنکھ کھلی تو دنیا بدل چکی تھی۔ارد د گرد عظیم الشان پہاڑ ، دیو ہیکل دراڑیں، ایستادہ پتھر اور غاریں خدا کی صناعی کا اظہار کر رہی تھیں۔یہ سب مل کر اس ماحول میں بھی اپنے رب کی پاکی بیان کر رہے تھے کہ اللہ پاک ہے اس بات سے کہ کوئی اس کا شریک ہو، ساجھی ہو، مددگار ہو۔
اور مقامی لوگوں کو بھی اجالے میں دیکھنے کا اتفاق ہوا ..
حضرت نورانی شاہ کا مزارمحبت فقیر کے ڈیرے سے اگلی منزل نورانی شاہ بابا کا مزار تھا۔ مزار تک پہنچنے کے کئی طریقے تھے ۔ایک اونٹ کی سواری، دوسر جیپ کی سواری اور تیسرا پیدل مارچ۔ ۔ بہرحال ہم سب اپنی دانست میں جوان ہی تھے لہٰذا پیدل ہی کا قصد کیا۔قریب ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ پہنچے جو “علی کا قدم ” کے نام سے مشہور ہے۔یہاں ایک بڑا سا قدم بنا ہے جسکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔کچھ اور آگے بڑھے تو ایک درگاہ نما جگہ پر بڑا سا پتھر رکھا دیکھا جس میں شگاف تھا۔ دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ نورانی بابا نے اس پتھر پر اپنی مسواک ماری تھی جس کی وجہ سے یہ ٹوٹ گیا۔یہ سب سن کر شاہنواز نے کہا ” زمانہ قدیم سے لے کر آج تک بگڑے ہوئے مذہبی لوگوں نے عوام کو انہی مافوق الفطرت داستانوں سے بے وقوف بنایا اور ان کا استحصال کیا ہے”۔ایک چشمہ بھی راستے میں آیا لیکن اس کا پانی کثرت استعمال کی بنا پر گدلا ہو چکا تھا۔ اس سے علم ہوا کہ محض عقیدت سے کام نہیں چلتا، دنیا میں ترقی کیلئے  مادی قوانین کو بروئے کار لانا لازم ہے۔ بالآخر مزار آ ہی گیا۔ مزار چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔اسکے دروازے کے باہر بڑی تعداد میں پھول اور چادر بیچنے والوں کی دوکانیں تهیں۔ اس مزار کا منظر کچھ یوں ہے کہ اردگرد صوفیانہ کلام گانے والے بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ دھمال کے لئے مختص کر دی گئی ہے۔ستار پر ایک لوک دھن سنائی جارہی ہے ۔ کچھ ہی دور ایک ملنگ اپنے ہاتھ میں رسی باندھ کر بیٹھا خلائوں میں گھور رہا ہے۔یہ رسی اس بات کی علامت ہے کہ وہ نورانی بابا کا غلام ہے۔بہر حال میں اور سلمان مزار کے اندر داخل ہوئے۔ قبر ایک سبز رنگ کی چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اسکے سرہانے پر ایک تاج موجود تھا جبکہ کتبے پر ایک براون رنگ کا عمامہ باندھ دیا گیا تھا۔ اندر کا منظر عام مزاروں جیسا ہی تھا۔ کچھ عورتیں جالیوں سے لپٹی رو رہی تھیں۔قبر کے ارد گرد چند مرد زائرین قبر کو بوسہ دے رہے تھے۔اور کچھ لوگ گم سم کهڑے تهےاور کچھ دعاوں میں محو تهے....
 پریوں کا تالاب :
مزار سے اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارا اگلا پڑائو “لاہوت لامکاں “تھا لیکن اس سے پہلےابھی کئی طلسماتی کہانیوں سے گذرنا تھا۔انہی میں سے ایک داستان پریوں کا تالاب تھا جہاں ہم ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد پہنچ چکے تھے۔چاروں طرف پہاڑوں میں گھری ایک چھوٹی سی وادی تھی جس کے بیچوں بیچ ایک چشمہ ابل رہا تھا۔پانی نسبتا شفاف تھا۔اردگرد تھوڑا بہت سبزہ بھی تھا جس سے تالاب کافی خوبصورت معلوم ہونے ہی والا تھا کہ اچانک پریوں کے تالاب پر ایک شریر جن کی کارستانی نظر آئی جو یہاں پر غلاظت ڈال کر فرار ہوگیا تھا۔سامنے پہاڑ پر قریب پندرہ فٹ کی بلندی پر ایک غار دکھائی دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ لطیف جی کی کھوئی کے نام سے مشہور ہے اور روایات کے مطابق شاہ عبدالطیف بھٹائی نے یہاں بیٹھ کر چلہ کشی کی تھی۔ سلمان ، سیماب اور شاہنواز نے اس غار میں داخل ہونے کا ارادہ کیا۔ پہلے شاہنواز اوپر چڑھا اور اندر کچھ پتھر پھینکے تاکہ کوئی جانور اندر ہو تو وہ باہر آ جائے ۔جب کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا تو وہ اندر داخل ہو گیا۔ اسی کی تقلید میں دیگر ساتھی بھی پہنچ گئے۔ غار کوئی چھ فٹ لمبا اور چار فٹ اونچا تھا۔وہاں لکڑیاں جلی ہوئی پڑی تھیں جو اس بات کی علامت تھی کہ کسی نے یہاں کھانا پکانے کی کوشش کی ہے۔کچھ دیر بعد وہاں سے واپس آئے تو ایک عجیب و غریب شخص نظر آیا۔ اس نےاحرام باندھا ہوا تھا اور ساتھ ہی وہ برہنہ بھی تھا۔لوگوں نے بتایا کہ کچھ لوگ جنہیں “ذکری “کہا جاتا ہے وہ اس مقام پر حج کرنے آتے ہیں۔ اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک سیدھا راستہ اور واضح شریعت عطا کی لیکن انسان ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے دین کے مزید ایڈیشن نکالنے میں مصروف ہے۔اس کی بنیادی وجہ خواہشات کی پیروی اور شارٹ کٹ کی تلاش ہے۔بہر حال یہ بدعت حج کو مکہ سے اٹھا کر بلوچستان لے آئی تھی۔دھوپ خاصی تیز تھی اور آنتیں بھوک سے تڑپ رہی تھیں، لیکن سفر لمبا اور دشوار تھا چنانچہ چند بسکٹ اور پانی پر ہی گذارا کیا۔
لاہوت لامکاں جانے کے لئے ہمیں مائی جو گوٹھ سے گذرنا تھا۔وہاں پہنچنے کے دو رستے تھے ایک تو پیچھے پلٹ کر مزید ایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے منزل تک پہنچنا تھا ۔ دوسرا راستہ شارٹ کٹ مگر پرخطر تھا کیونکہ اس کو طے کرنے کے لئے ایک بلند اور پر خطر پہاڑ پر چڑ ھ کر دوسری سمت اترنا تھا۔ ہمارے گروپ لیڈر سلمان نے بد قسمتی سےشارٹ کٹ راستہ اختیار کرلیا۔مقامی لوگوں نے بتا دیا تھا کہ صحیح راہ پر قائم رہنے کے لئے چونے کے نشان زدہ پتھروں والی پگڈنڈی پر چلنا ضروری ہے۔اللہ کا نام لے کر چلنا شروع کیا ۔ پہاڑ توقع سے زیادہ عمودی اور مشکل ثابت ہوا۔ چنانچہ ہم لوگ ہر دو قدم بعد رکتے، سانس بحال کرتے اور پھر سفر شروع کرتے۔جوں جوں ہم اوپر پہنچے تو حبس بڑھتا گیا اور سانس لینا دشوار ہوگیا۔جب اوپر چوٹی پر نظر ڈالتے تو معلوم ہوتا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔اور جب نیچے نگاہ کرتے تو واپسی کی راہیں مسدود نظر آتیں۔ مجھے خیال آیا کہ ایک بندہ مومن کی زندگی بھی پہاڑ کی چڑھائی کے مانند ہے جس میں شیطانی اور نفسانی محرکات کو شکست دیتے ہوئے رب کی رضا کی طرف بڑھنا اور دشواری کی صورت میں گناہوں کی زندگی میں لوٹنے سے گریز کرنا ناگزیر ہے۔بہرحال یونہی رک رک کر چلتے ہوئے چوٹی تک پہنچ ہی گئے۔ وہاں ایک تازہ ہوا کے جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔اب ہم نے جوش کے عالم میں اترنا شروع کیا لیکن جب دامن تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک اور پہاڑ منہ کھولے ہمارا استقبال کر رہا ہے۔ چاروناچار اس کو بھی پار کیا تو ایک کھائی منتظر تھی۔مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اسے بھی کراس کیا اور بالآخر تین گھنٹے سے زائد یہ مسافت ایک پہاڑ کی چوٹی پر اختتام پذیر ہوئی جس کے دوسری جانب مائی جو گوٹھ نظر آرہا تھا۔مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ زندگی بھی کچھ ایسا ہی پرخطر اور پیچیدہ راستوں سے بھرا سفر ہے اور اس کی کامیابی کا راز ہمت ہار بیٹھنا نہیں بلکہ چلتے رہنا ہے۔
جاری ہے...

اسلام اور خانقاہی نظام,87


اسلام اور خانقاہی نظام

(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر87)
شاہ نورانی: 

یہ بات دسمبر ۲۰۰۳ کی ہے جب ہم چار دوستوں نے فیصلہ کیا بلاول شاہ نورانی کے مزار کا سفر کیا جائے۔ مزار پر جانے کی بنیادی وجوہات اس علاقے کے رسم و رواج کا مطالعہ، زرعئی دور کا مشاہدہ اور پہاڑوں پر چند تفریحی لمحات گذارنا تھے۔ وگرنہ ہم چاروں میں سے کسی کا بھی مزار پر منت مانگنے یا چڑھاوے چڑھانے کا ارادہ قطعی نہیں تھا۔سفر کی ابتدا ہم چاروں دوستوں میں سلمان شاہد، سیماب قدیر ، شاہنواز اور میں یعنی محمد عقیل شامل تھے۔ سفر کے لئے ہم نے کچھ کپڑے اور سفری سامان رکھ لیا۔ پھر ۲۸ دسمبر کی صبح لی مارکیٹ پہنچ گئے جہاں نورانی جانے کے لئے ایک بس تیار تھی۔ اس بس کی ٹوٹی پھوٹی شکل بتا رہی تھی کہ واقعی وہ نورانی کا ایک وسیع تجربہ ہے، ہم چاروں بس کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ ان سیٹوں پر آٹے ، دال اور چینی کے بڑے بڑے بورے رکھے ہوئے تھے۔ ۔ بس کے ماحول کا جب جائزہ لیا تو تمام ہی مسافر غریب طبقے سے تعلق رکھتے نظر آئے۔ اندر ایک شور بپا تھا اور وقفے وقفے سے کوئی مست بابا نعرہ لگاتا” بولو بولو بولو جئے شاہ”۔ سب اس کا جواب دیتے ” جبل میں شاہ”۔ ۔ کبھی کوئی من چلا آواز لگاتا ” نورانی نور ہے ہر بلا دور ہے” اور لوگ اس دھن میں مست ہوکر جھومنے لگتے۔میں وہاں بیٹھا سب سن تو رہا تھا لیکن میرا ذہن نورانی کی تاریخ میں کھویا ہوا تھا حضرت بلاول شاہ نورانی کی تاریخ نورانی کا علاقہ کراچی سےقریب ۱۲۰ کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع خضدارمیں واقع ہے۔ یہ مقام چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔یہاں حضرت بلاول شاہ نورانی کا پانچ سو سالہ پرانا مزار اس مقام کی وجہ شہرت ہے۔ حضرت بلاول شاہ نورانی کے بارے میں کچھ زیادہ تفصیلات مستند ذرائع سے نہیں ملتیں البتہ ان کے بارے میں ڈیلی ٹائمز اخبار [اشاعت ۱۷ اکتوبر، ۲۰۰۸]میں سلمان راشد صاحب نے ایک آرٹیکل لکھا ہے جس سے کچھ مستند معلومات تک رسائی ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق سن ۱۹۰۷ء کے لسبیلہ ڈسٹرکٹ کے گزٹ میں بلاول شاہ نوارانی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ ۱۴۹۵ میں سندھ سے اس مقام پر تشریف لائے اور گوکل نامی ایک ہندو سیٹھ کے باغ میں قیام کیا۔جبکہ حضرت نورانی کے بارے میں ایک اور قدیم ذریعہ تحفتہ الکرام ہے جو ٹھٹہ میں ۱۷۶۷ ء میں لکھی گئی۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ شاہ نورانی اپنے علاقے کے ایک مجذوب شخص تھے اور اسی جنوں کی بنا پر علاقے کے لوگوں نے انہیں ولی ماننا شروع کیا اور ان سے منتیں اور مرادیں ماننے لگے۔ روایات کے مطابق گوکل نامی ہندو سیٹھ نے انہیں پناہ دی اور ان کا خیال رکھا۔ گوکل کے مرنے کے بعد بلاول شاہ نورانی وہیں مقیم رہے اور ان کے انتقال کے بعد وہیں انکی تدفین ہوئی۔ان مستند معلومات کے علاوہ باقی بے شمار کہانیاں حضرت نورانی بابا سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ایک مشہورروایت یہ ہے کہ بلوچستان کے اس مقام پر ایک ظالم دیو گوکل کی حکومت تھی اور لوگ اس سے تنگ تھے۔ ان لوگوں نے اللہ سے دعا کی تو ایک نورانی صورت بزرگ تشریف لائے جنہوں نے اس دیو کو شکست دے کر لوگوں کو اس کے ظلم سے آزاد کروایا۔
چرس: میرے ذہن میں ابھی تاریخ چل ہی رہی تھی کہ بس سفر کا آغاز کرنے لگی۔ میں نے اور سیماب نے سفر کی دعا پڑھ لی ۔یہ سفر کی دعا کوئی منتر نہیں کہ اس کے دہرا لینے سے سفر کے تمام مسائل حل ہو جائیں۔ اس کا مقصد سفر میں اللہ کو شریک سفر کرنا اپنے عجز کا اظہار کرنا اور آخرت کے سفر میں اللہ سے ملاقات کا اعادہ کرنا ہے۔بس کراچی کی مضافاتی حدود میں داخل ہوگئی۔راستہ ہمدرد یونی ورسٹی کے روڈ سے گذرتا تھا جو اس وقت کچا اور دشوار تھا۔ہمدرد یونی ورسٹی سے پہلے بس نورانی ہوٹل پر لنچ کے لئے رکی۔ یہاں ہم نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا ۔ میں نے ایک شخص سے باتھ روم کی بابت دریافت کیا تو اس نے لوٹا تھما کر جنگل کی جانب اشارہ کردیا ۔ یہ غیر تمدنی زندگی کی ابتدا کی علامت تھی ۔ یوں مجھے باتھ روم کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔بلکہ کسی صاحب نے یہ بتایا کہ انسانی تمدن میں سب سے اہم پیش رفت سیوریج لائن کے ذریعے ہی ہوئی ہے۔ بہر حال نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ سفر کی دوبارہ ابتدا ہوئی تو ارد گرد کالے اور مٹیالے پہاڑوں کو سلسہ شروع ہوگیا۔اس قسم کے پہاڑ میرے لئے نئے تھے کیونکہ میں کشمیر، سوات اور کا غان وغیرہ کے سبزے سے ڈھکے پہاڑ دیکھنے کا عادی تھا۔ آس پاس کا علاقہ میدانی تھا البتہ کہیں کہیں جھاڑیاں اور اجڑے ہوئے درخت نظر آرہے تھے۔ شام کا سورج اپنی آخری کرنیں بکھیرتا ہوا رخصت ہو رہا تھا ۔ کالے پہاڑ مزید سیاہ ہوتے جا رہے تھے۔ میں اللہ کی خلاقی کے ساتھ ہی اسکی بے نیازی کو بھی دیکھ رہا تھا ۔ اتنے عظیم پہاڑ، وسیع آسمان، عریض زمین اور خوبصورت مناظر اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دئے اس بات سے قطع نظر کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ، کوئی تعریف کرے یا نہ کرے۔مجھے خیال آیا کہ کہ اللہ تو اپنی ذات میں غنی ہے انہیں دوسروں کی کوئی ضرورت نہیں حتیٰ کہ تعریف کے لئے بھی ۔ انہی خیالات میں گم تھا کہ اچانک بس کی چھت پر سے ایک شخص اترا ۔ ا س کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی ۔اس نے چورن بیچنے والوں کی طرح آواز لگائی” چرس لے لو، چرس لے لو”۔ میں بھونچکا رہ گیا ۔زندگی میں پہلی بار چرس کو دیکھا اور جس شان سے دیکھا اس کی توقع نہ تھی۔ چرس یا دیگر نشہ آور اشیاء انسان سکون کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس کا رہا سہا سکون بھی غارت ہو جاتا ہے۔اندھیرا بڑھتا جارہا تھا اور مناظر نگاہوں سے اوجھل ہو رہے تھے۔ جب بس کے اندر نگاہ ڈالی تو وہاں بھی خاموشی ہوچکی تھی۔ کوئی اونگھ رہا تھا تو کوئی خلائوں میں گھور کر وقت کاٹ رہا تھا۔ایک بوڑھا شخص جو سارے راستے جئے شاہ کے نعرے لگاتا رہا وہ بھی مضمحل قویٰ کے ساتھ چپ ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ اسی طرح بس ہچکولے لیتی رہی ۔ یہاں تک کہ منزل آ گئی۔ اس وقت رات کے سات بج رہے تھے چونکہ سردیوں کے دن تھے لہٰذا سورج غروب ہوئے دو گھنٹے سے زائد ہو چکے تھے۔ البتہ سردی بالکل نہ تھی ۔اردگرد کا ماحول تاریکی کی وجہ سے مشاہدے کا قابل نہیں تھا۔ البتہ کچھ جانوروں کے چلنے کی آوازیں آرہی تھیں اور زمین پر چلنے سے اندازہ ہورہا تھا کہ سطح ہموار نہیں ہے۔جاری ہے.....

اسلام اور خانقاہی نظام,86


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر86)
حُبِ الہی:- کسی کا ایمان اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک اسکی تمام تر محبتیں اللہ کے لئے نہ ہو جائیں، اللہ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت آئے تو صرف اور صرف اسلام کی حالت میں۔ [آل عمران: 102]
اللہ کی محبت ایمان کے لوازمات میں سے ہے، عقیدہ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک انسان اپنے رب کو ہر اعتبار سے محبوب نہ بنا لے ، اس سے بڑھ کر محبت کی وضاحت نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ اللہ کے سوا کو ئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کو ہر اعتبار سے محبوب ہو، یہ ہی وجہ ہے کہ الوہیت، اور عبادت کے لائق صرف وہ اکیلا ہی ہے، اور وہی کمال عاجزی انکساری اور محبت کا حقدار ہے۔ اللہ کی محبت کا معاملہ ہی کچھ اور ہے؛ دل کو جتنی اپنے خالق سے ہوتی ہے کسی سے نہیں، اور کیوں نہ ہو!؟ وہی اسکا خالق ، معبود، ولی، مولا، پروردگار، کارساز ، رازق، مارنے اور زندہ کرنے والا ہے، جسکی محبت میں نفسانی شائستگی، روحانی زندگی، دلوں کی غذا، ذہنی سکون، آنکھوں کی ٹھنڈک، اور تعمیرِ باطن ہے۔
 قلبِ سلیم ، پاکیزہ ارواح ، اور عقلمندوں کے ہاں اللہ کی محبت، اور اسکی ملاقات سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تو انہیں لذت دیتی ہے اور نہ ہی محظوظ کرتی ہے۔ اسکی معافی اتنی وسیع ہے کہ تمام گناہوں کو بہا لے جائے ؛تو اسکی رضا کا کیا حال ہوگا!؟ اسکی رضا تمام امیدوں پر غالب آسکتی ہے؛ تو اسکی محبت کا کیا حال ہوگا!؟، اسکی محبت میں عقل دنگ ہے؛ تو اسکی مودت کا کیا حال ہوگا!؟، جبکہ اسکی مودت ہر چیز بھلا دے گی؛ تو اسکی لطافت کا کیا حال ہوگا!؟"
انسان جتنی اللہ کی محبت اکٹھی کریگا اسے اتنی ہی ایمان کی مٹھاس اور لذت ملے گی، اسی لئے جو اپنے دل کو حُبِ الہی میں غرق کر دے؛ اللہ اسے غنی کردیتا ہے، پھر اسے کسی سے ڈرنے یا کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ، چنانچہ حُبِ الہی ہی ایک ایسی چیز ہے جو دل کی پیاس بجھا سکے اور اسکے بعد کسی کی اسے ضرورت پیش نہ آئے۔
 اگر انسان اپنے دل کیلئے دنیا جہان کی آسائشیں اکٹھی کر لے پھر بھی اسے حقیقی سکون ملے گا تو وہ صرف حُبِ الہی میں ، اگر دل سے اسکا چین و سکون -حب الہی- چھین لیا جائے تو اسے آنکھ ، کان ، زبان کے ضائع ہونے بھی زیادہ تکلیف ہو، بلکہ اگر اس بدن سے روح پرواز کر جائے تواتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا حُبِ الہی سے دل کے عاری ہونے پر ہوتا ہے۔
 حقیقتِ محبت کیا ہے؟ محبت اس بات کا نام ہے کہ آپ اپنا سب کچھ اپنے محبوب کے نام پر قربان کردو، اور اپنے لئے کچھ نہ چھوڑو، اسی لئے تو اللہ کی محبت سب محبتوں پر غالب رہتی ہے، تو کامیاب شخص بھی اپنی تمام تر محبتوں کو اپنے رب کی محبت کے تابع رکھتا ہے کہ اسی میں اسکی کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
 محبت کے سب مدعی آپس میں برابر نہیں ؛ اسی لئے اللہ تعالی نے مؤمنوں کو شدید محبت کرنے والا کہا، فرمایا: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں[البقرة: 165]
لفظِ أَشَدُّ دعوی محبت میں درجہ بندی کی دلیل ہے، جسکا مطلب ہے: ایک سے بڑھ کر ایک محبت کرنے والا۔
 حُبِ الہی : اللہ تعالی کی ذات اور اسکے پسندیدہ اعمال کو اپنی جان ، روح، اور مال پر ترجیح دینے کا نام ہے، جسکا تقاضا ہے کہ خلوت وجلوت ہر حالت میں اسکے فرامین کی پیروی کی جائے،  ہمہ وقت اپنے آپ کو محبوب کی یاد میں مشغول کر دیں، اس پر اپنی جان نچھاور کردیں، اور دل میں محبوب کی چاہت کے علاوہ اور کچھ نہ ہو، زبان ہمیشہ اسی کی یاد سے تر رہے، اسی لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی: «وأسألُك حبَّك، وحبَّ من يُحبُّك، وحبَّ عملٍ يُقرِّبُ إلى حُبِّك» یا اللہ! تجھ سے محبت کا سوال کرتا ہوں، اور تیرے محبوب کی محبت کا ، اور ہر ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب تر کر دے۔
 مُحِب کے دل میں محبت شدت اختیار کر جائے تو یہ فرمانبرداری میں تبدیل ہو جاتی ہے، اسی صفت سے متصف ہو کر اللہ کی عبادت کرنا ہی حُبِ الہی اور حُبِ شریعت کا اعلی درجہ ہے، اس "محبت "کی "غذا "سے زیادہ لوگوں کو ضرورت ہے، کیونکہ غذا کی عدم دستیابی سے جسم کو نقصان ہوگا، جبکہ حُبِ الہی کی عدم موجودگی میں روح برباد ہو جائے گی جو زیادہ نقصان دہ ہے۔مؤمن اپنے رب کو پہچان لے تو اس سے محبت کرنے لگتاہے ، جب محبت ہو جائے تو اسکی جانب متوجہ رہنے کی کوشش کرتا ہے، اور جب اسے چاشنی اور لذت ملنے لگے تو دنیا کو شہوت کی نگاہ سے اور آخرت کو کاہلی اور سستی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ حُبِ الہی انسان کو اسکے ذمہ واجب کام کرنے اور تمام ممنوعہ کاموں سے دور رہنے پر ابھارتی ہے، اور اس سے بڑھ کر مستحبات پر ترغیب ، اور مکروہات سے انسان کو دور رکھتی ہے۔
 حُبِ الہی انسانی دل کو حلاوتِ ایمان سے بھر دیتی ہے، فرمانِ رسالت ہے: (جو شخص اللہ کو رب مانے، اسلام کو اپنا دین جانے، محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- کو اپنا رسول مانے تو اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا)
حقیقی حُبِ الہی دل سے اللہ کی تمام نا فرمانیوں کو باہر نکال کر انسانی جسم کو اطاعت پر مجبور کر دیتی ہے، جس سے نفس مطمئن ہو جاتا ہے، حدیث قدسی ہے (جب میں کسی بندے سے محبت کرنے لگوں تو میں اسکے کان، آنکھ ، ہاتھ، اور پاؤں کو اپنےکنٹرول میں کر لیتا ہوں)
محبت کی لذت سے انسان آنیوالی تمام مصیبتوں کو بھول جاتا ہے، اور دوسروں کی طرح اسے تکلیف بھی نہیں ہوتی، اسی لئے حُبِ الہی گناہوں سے بچنے کیلئے انتہائی مضبوط ترین ڈھال ہے، کیونکہ ہر کوئی اپنے محبوب کی بات مانتا ہے۔
 یہ ہی وجہ ہے کہ دل میں جتنی مضبوط محبت ہوگی انسان اتنی ہی اللہ کی اطاعت کریگا اور نافرمانی سے بچے گا، اور جیسے جیسے محبت کمزور پڑتی جائے گی؛ نافرمانیوں کی گرفت مضبوط ہو جائے گی۔
 سچے مُحِب پر اللہ کی جانب سے ایک نگہبان مقرر کیا جاتا ہے جو اسکے دل و اعضاء کی نگرانی کرتا ہے، جبکہ خالی دعوں کی محبت اسوقت تک ان سہولیات سے عاری ہوتی ہے، جب تک وہ محبت میں سچا نہ ہو جائے، چنانچہ جیسے ہی محبت میں سچائی پیدا ہو تو انسان برائیوں سے دور رہتے ہوئے اطاعت گزاری کرتا ہے، جبکہ جھوٹی محبت سے انسان اپنے تئیں تو بڑا خوش باش نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں اسکے اثرات سے بالکل عاری ہوتا ہے، اس لئے انسان کبھی اپنے دل میں اللہ کی محبت تو پاتا ہے لیکن یہ محبت اسے برائیوں سے نہیں روک پاتی۔
 اسکی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ محبت میں سچائی نہیں، اللہ کی تعظیم اور جلالت اس میں شامل نہیں، جبکہ محبت کے ساتھ ساتھ اللہ کی عظمت اور جلالت مل جائے تو یہ اللہ کی بہت بڑی اور افضل ترین نعمت ہے ، وہ جسے چاہے یہ نعمت عنائت فرماتاہے۔
 جب محبت عاجزی ، انکساری سے عاری ہوتو وہ صرف زبانی جمع خرچ ہے؛ جسکی کوئی وقعت نہیں، یہی حال ہے ان محبت کے دعوے داروں کا جو اپنے دعوے کے مطابق اللہ کے احکامات کی پاسداری نہیں کرتے، اور نہ ہی اپنی زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ، اور سنت کے مطابق ڈھالتے ہیں۔
 لہذا جس شخص نے اپنی زندگی میں آئیڈیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نا بنایا ؛ اس نے اللہ سے محبت ہی نہیں کی، اس طرح تو یہود و نصاری دعوے کیا کرتے تھے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں [المائدة: 18]
دعوی کرنے میں تو ہر کوئی شیر ہے، جبکہ اللہ تعالی نے ان تمام زبانی دعوں کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دی ، اور سب پر حقیقت عیاں کردی فرمایا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ آپ کہہ دیجئے: کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے [آل عمران: 31]محبت ِ الہی کی علامت یہ ہے کہ ، اسکے نیک بندوں سے محبت کی جائے ، اولیاء اللہ سے تعلق قائم کیا جائے،مگر اسلامی اصولوں کے مطابق،  بدکاروں سے دوری اختیار کی جائے، فرائض کی ادائیگی میں مکمل جد و جہد کی جائے، اللہ کے دین کی مدد کرنیوالوں کا ہاتھ بٹایا جائے، جس قدر دل میں حُبِ الہی کی جڑیں مضبوط ہونگی یہ کام بھی اسی قدر زیادہ ہونگے۔
 یہاں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کونسے اسباب ہیں جو اللہ کی محبت دل میں پیدا کرتے ہیں؟
1) سب سے پہلے اللہ کی لا تعداد و بے شمار انعام کردہ نعمتوں کو جانیں، فرمانِ باری تعالی ہے : وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گننا [١٩] چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے [النحل: 18]، وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے [القصص: 77]
 2) اللہ کے اسماء و صفات کے بارے میں علم حاصل کیا جائے؛ جس نے اللہ کو پہچان لیا اس نے محبت شروع کردی، اور جو محبت شروع کر دے اسکی اطاعت بھی کریگا، اور جواسکی اطاعت کرے اس پر اپنی کرم نوازی بھی کریگا، اور جس پر کرم نوازی ہوگئی ؛ اسے اپنے قریب جگہ دے گا، اور جسے اللہ کے قریب جگہ مل جائے اسکے تو وارے نیارے ہونگے۔
3) اہم ترین سبب یہ ہے کہ اللہ کی آسمان و زمین پر بادشاہت اور ان میں موجود مخلوقات وغیرہ پر غور و فکر کیا جائے جنہیں اللہ تعالی نے اپنی قدرت، جلالت،کمال ، کبرئیائی، رحمت و لطافت کی نشانی بنایا ہے، غور و فکر کے باعث جتنا معرفتِ الہی میں اضافہ ہوگا؛ اسی قدر محبت سے بھرپور اطاعت میں بھی اضافہ ہوگا۔
4) اسی طرح اگر اللہ کے ساتھ تعلق مکمل سچائی اور اخلاص پر مبنی ہو اور نفسانی خواہشات انسان کی راہنما نہ ہوں تو اللہ کی محبت حاصل ہو سکتی ہے۔
5) کثرت سے ذکرِ الہی میں مشغول رہنے سے بھی اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے، کیونکہ محبوب کی یاد محبت کی علامت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ غور سے سنو! اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے[الرعد: 28]اللہ تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
جاری ہے....

اسلام اور خانقاہی نظام,85


⁠⁠⁠⁠⁠٭اسلام اور خانقاہی نظام٭
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 85)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَہُمْ كَحُبِّ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلہِ۰ۭ (البقرہ:۱۶۵)
''بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں سب سے زیادہ پختہ ہوتے ہیں ۔''
چنانچہ جو لوگ پیروں ،فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماویٰ و ملجا اور قبلہ حاجات بناتے ہیں ان سے ان کی محبت، اللہ کی محبت سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ یقینا مشرک ہیں۔ بعض عاشق مزاج عورت یا مرد کے عشق میں مبتلا ہوتے ہیں۔بعض اوقات ان کے دلوں میں اپنے معشوق کی محبت اللہ سے بڑھ کر ہوتی ہے جوکہ شرک تک جا پہنچتی ہے ۔ اس طرح بعض لوگ اپنے سرداروں، وزیروں ، بادشاہوں اور پیروں فقیروں کی تعظیم اللہ کی تعظیم سے بڑھ کر کرتے ہیں۔جس طرح مشرکین مکہ کو توحید کے وعظ سے تکلیف ہوتی تھی اسی طرح انہیں بھی اللہ اکیلے کا ذکر کرنے سے تکلیف ہوتی ہے۔ مشرک کو تم دیکھو گے کہ ان معبودوں کی گستاخی دیکھ کر مشرک شدید غضب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔اور اگر خوش ہوتا ہے تو بھی ان معبودوں کے لیے' لیکن ﷲ تعالیٰ کے لیے کبھی غصہ کیا اور نہ ہی خوش ہوا۔
وَاِذَا ذُكِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ (الزمر: ۴۵)
''جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا (اوروں کا ) ذکر کیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں-میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ جب سے میں نے 'اسلام اور خانقاہی نظام'والا سلسلہ شروع کیا ہے تو سوشل میڈیا کے میرے کافی دوست احباب مجھ سے خفاء ہو گئے ہیں بعض تو مجهے گالیوں اور گستاخ اولیاء کے القاب سے مخاطب کرتے ہیں لیکن ان نہ سمجهوں کو یہ علم نہیں کہ یہ سلسلہ خصوصی ہے ہی محبت اولیاء کے متعلق، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اولیاء کرام کا  محبت و احترام اسلامی دائرہ میں رہتے ہوئے کرتے ہیں اور ان کی محبت و احترام میں حد ست تجاوز نہیں کرتے..خالق اور مخلوق میں فرق  کو نمایاں رکهتے ہیں.......  بہرحال-! امام ابن القیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں ۔اس مقام پر محبت کی چار اقسام بنتی ہیں۔ان چاروں اقسام میں تمیز نہ کرنے والا گمراہی میں پڑسکتا ہے۔ذیل میں محبت کی اقسام درج ہیں:
1: اﷲتعالیٰ سے محبت کرنا۔اﷲ سے صرف محبت کرنا کافی نہیں ہے کہ اطاعت وعبادت کے بغیر صرف محبت سے کامیابی مل جائے یا عذاب الٰہی سے چھٹکارا مل جائے ۔کیونکہ مشرکین'صلیب کے پجاری اور یہود وغیرہ، بھی ﷲ تعالیٰ سے محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
٢: جس چیز کو ﷲ تعالیٰ پسند کرے اس سے محبت کرنا ۔اور یہ ایسی محبت ہے جس سے بندہ اسلام میں داخل ہوتاہے اور کفر سے نکل جاتا ہے۔ ﷲ کو سب سے پسندیدہ ترین وہی لوگ ہیں جو اس کے دین سے محبت کرتے ہیں۔اور دین میں سب سے بہتر عمل توحید پر عمل کرنا ہے...
٣: اﷲ تعالیٰ کے لئے کسی سے محبت کرنا۔ﷲتعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے کہ کسی دوسرے سے محبت بھی ﷲ ہی کے لئے کی جائے۔
۴: چوتھی قسم ہے ''المحبۃ مع ﷲ'' یعنی ﷲکے ساتھ ساتھ دوسروں سے اللہ جیسی محبت کرنا ۔یہ شرکیہ محبت ہے۔ہر وہ شخص جو کسی چیز سے اس طرح محبت کرتا ہے جیسی اللہ سے کی جاتی ہے۔ اس سے نہ تو اللہ کے لیے محبت کرتا ہے اور نہ ہی اللہ کی وجہ سے محبت کرتا ہے۔تو وہ اس کو اللہ کے سوا'' خدا'' بنائے ہوئے ہے۔یہ مشرکین کی محبت ہے ۔
انسان کو جس چیز سے فائدہ ولذت حاصل ہو وہ بھی اسے محبوب ہوجاتی ہے اگر یہ چیز دین میں پسندیدہ ومباح ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی شرط پر ہے اور اگر گناہ ہے اور اس سے شہوانی محبت کرنے والا خود کو گناہ گار سمجھتا اور اس کے گناہ ہونے کا اقرار کرتا ہے تو یہ اس چیز سے ذاتی محبت (شرک) کے زمرے میں نہیں آتی بشرطیکہ اس کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کی ضد نہ ہو جیسے بت، صلیب، قومیت کے نشانات اور اللہ کے کسی دشمن سے محبت۔وغیرہ
عبادت کی یہ چاروں اقسام(دعا،نیت و ارادہ،اطاعت و محبت) شرک اکبر ہیں جو کلمہ پڑھنے کے باوجود انسان کو اسلام سے خارج کر دیتی ہیں ۔ اسی طرح عبادت کی کوئی بھی شکل اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے اختیار کی جائے تو شرک اکبر ہے، جیسے:ذبح وقربانی ﷲ ہی کے لئے ہونی چاہیے کیونکہ یہ قربتِ الٰہی کا ذریعہ ہے ۔حکم ربانی ہے:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (کوثر:۲)
''اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو''۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الانعام:۱۶۲)
''بے شک میری نماز 'میری قربانی ' میرا مرنا جینا'اﷲرب العالمین کے لیے ہے۔''
لہٰذا جو شخص اولیاء ﷲ'بتوں یا جنوں کے لئے ذبح کرتا ہے تو اس نے کفریہ فعل کیا ہے ۔ایک عمل عبادت کو غیر ﷲکے لیے بجا لایا۔ یہ فعل اسلام کے منافی ہے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کرے۔'' (مسلم:۱۹۷۸)
قربانی کی طرح نذر ماننا بھی عبادت ہے جیسا کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا:
يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ (دھر:۷)
''(جو اﷲ کے لیے) نذرپوری کرتے ہیں''۔
وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللہَ يَعْلَمُہٗ (بقرہ:۲۷۰)
''تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کے لئے اور جو کچھ نذر مانو'اسے ﷲ بخوبی جانتا ہے''۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ نذر ماننا ایک عبادت ہے ۔جو خالص اللہ ہی کے لیے ہونی چاہیے جو شخص غیر اللہ کے نام کی نذر مانتا ہے وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے ۔ جو اولیاء کیلئے قربانی کا گوشت'مال یا دیگر اشیاء چڑھانے کی نذر مانے تو اس نے اسلام کے منافی کام کیا کیونکہ اس کام کو غیر ﷲ کے لئے کرنا دین محمدی کے برعکس ہے ۔آج کل قبروں کے پجاری اور مجاور اس نیت سے غیر ﷲ کی نذر مانتے ہیں کہ یہ غیر ﷲ (اولیاء کرام)انہیں نفع ونقصان پہنچا سکتے ہیں تو یہ شرکِ اکبر ہے۔اس سے پہلے کہ میں اپنی بات کو ختم کروں حب الہی کے متعلق بهی مختصر وضاحت کرتا چلوں......جاری ہے۔۔۔۔

اسلام اور خانقاہی نظام,84


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر84)
۔دوسری  طرف حصول اولاد کیلئے آستانوں اور مزاروں پر جا کر شرکیہ اعمال سر انجام دینا یہ بهی اولاد کی محبت کا ایک ذریعہ ہے جو اللہ کی ناراضگی اور ہلاکت کا سبب  بنتا ہے.چونکہ ہمارا موضوع شاہ دولہ کے مزار پر چهوڑی جانے والی اولاد کے حوالہ سے ہے اس کے پس پردہ بهی والدین اولاد کی محبت ہی کیلئے یہ قدم اٹهاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ پہلی اولاد شاہ دولہ کے مزار پر منت مانگنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور اگر ہم نے یہ پہلی اولاد شاہ دولہ کے مزار پر مجاورں کے حوالے نہ کی تو ہمیں  شاہ دولہ کی طرف سے کسی بڑے نقصان کا سامنا یا دوسری پیدا ہونے والی اولاد میں معذوری کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے.لہذا یہ قدم اولاد کی محبت اور مزار والے کے خوف کے سبب اٹهایا جاتا ہے جو صریح شرک اور ظلم عظیم ہے....بہر حال میں ایسے لوگوں کو بهی جانتا ہوں جنہوں نے اپنی پہلی اولاد شاہ دولہ یا دیگر مزار پر اس نیت سے وقف کی کہ بعد میں مزید اولاد پیدا ہو لیکن بعد میں کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی جس کی وجہ والدین کو دگنی پریشانی اٹهانی پڑهی ایک پہلی اولاد کی جدائی اور دوسری پهر اولاد کی نعمت سے جهولی خالی کی خالی رہنے  کی.......
 اس موضوع کو زیادہ اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہم اس غلطی کی مثال دے سکتے ہیں جس کا ارتکاب حضرت نوع علیہ السلام کی قوم کے پہلے لوگوں نے کیا تھا جبکہ آپ جانتے ہیں کہ (ایک روایت کے مطابق )’’ود، صواع، یغوث، یعوق اور نسر‘‘ اچھے اور نیک لوگ تھے۔ لوگوں میں ان کے پیروکار تھے۔ چنانچہ جب وہ دنیا سے گزر گئے تو ان کے پیر وکاروں نے کہا کہ : ’’اگر ہم ان کی تصویریں بنا لیں تو جب بھی ہم ان کو یاد کریں گے عبادت کے شوق میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘ چنانچہ انہوں نے تصویریں بنالیں۔ پھر جب یہ لوگ مر گئے تو ابلیس نے مداخلت کی اور کہا: ’’ وہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کی وجہ سے بارش ہوتی تھی۔‘‘چنانچہ انہوں نے ان کی عبادت شروع کردی۔(2)شروع میں اس سوچ میں کوئی گناہ نہ تھا مگر رفتہ رفتہ ان صالح لوگوں کو معبود بنانے کا سبب بن گئی۔ابتداء میں یہ ایک سادہ سی سوچ تھی مگر انجام کار ایک عظیم مصیبت بن گئی۔
جی ہاں، انسان کو چاہیے کہ کسی کی محبت میں زیادہ تعریف کرے اور نہ حد سے آگے بڑھے، خواہ وہ اس کی اولاد ہو یا کوئی اور۔ معقول حد سے تجاوز نہ کرے۔ پس خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے اپنی حد کو پہچانا اوراسی پر رک گیا۔
اولاد کی محبت میں توازن
ہمارے زمانے میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بچہ وہ بنیادی اکائی ہے جس پر خاندان کی بنیاد کھڑی ہوتی ہے لیکن ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ: کیا آج کے خاندان میں مرکزی نقطہ بچہ ہے یا خواہشات نفس یا انانیت ؟! ان سب باتوں پر ہم کوئی قطعی حکم نہیں لگا سکتے مگر جو بات یقین ہے وہ یہ کہ جب انسان اپنے لیے ایسا طرز زندگی اختیار کرلیتا ہے جو ان اوامر و نواہی کا ساتھ نہیں دیتا جودین نے وضع کئے ہیں تو اس کے ہاں منفی نقاط بہت زیادہ ہوجاتے ہیں اوران کے سامنے توحید کے منافی شرک کے مختلف قسم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
علاوہ ازیں ایمانی اخلاق کے مطابق یہ بات درست نہیں کہ خاندان کی خوشی اور بدبختی کی بنیاد بچے پیدا کرنے کے لیے مسئلے پر رکھ دی جائے یا اس کی وجہ سے اختلافات اور نزاع پیدا کرلیا جائے کیونکہ اس قسم کا رویہ (اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے) اللہ تعالیٰ کی قضا پر عدم رضا مندی، اس کی تقدیر پر اعتراض اوراس کے خلاف بغاوت ہے۔
جی ہاں، بچے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات (باوجود اس کے کہ یہ تقدیر کا مسئلہ ہے) کو حق تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے اور کھبی نہیں بھولنا چاہیے کہ بچے کا وجود اور عدم وجود ، بذات خود ایک امتحان ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾ (الانفال:28)(اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اولاد بڑی آزمائش ہے اور اللہ کے پاس نیکیوں کا بڑا ثواب ہے)۔
اگر ہم اچھی اولاد چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اس کے والدین کی اچھی تربیت کرنا ہوگی کیونکہ پہلے والدین کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی اولاد کے لیے اچھا نمونہ کس طرح بنیں گے ، ان سے کیا رویہ رکھیں گے. خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی اگر اس بارے میں درست ہتھیاروں سے لیس ہوگا تو وہ مقدس ادارہ جس کو وہ ا پنے شریک حیات کے ساتھ مل کر بنائے گا، وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگا اوراس میں کوئی شک نہیں کہ جو بچے اس خاندان کی گود میں تربیت پائیں گے وہ نیک اور درست ہوں گے لیکن اگر ماں باپ کے پاس مادری اور بنیادی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اولاد میں بھی تذبذب ہوگا کہ وہ نہ ادھر کے ہوں گے اور نہ ادھرکے۔ افسوس کی بات ہے کہ آج کی اکثر نسلوں کی تربیت اسی انداز سے ہوتی ہے. جن بچوں کے نام ہی پیراں دتا'شاہ نواز'امام بخش یا حسین بخش رکھ دیئے جایئں تو وہ بڑے
ہو کر اسی کمزور مخلوق کو ہی اپنا حاجت روا'گنج بخش' غریب نواز'غوث اعظم اور داتا سمجهیں گے. اگرچہ بعض لوگوں کی تربیت پاکیزہ ماحول میں ہوئی ہے اور وہ اپنی اصل تک پہنچ گئے ہیں مگر اکثریت ایسا نہیں کرسکی۔چونکہ اپنے مقصد کے خلاف ناجائز محبت کرنے والے، ان لوگوں سے تھپڑ کھا چکے ہیں جن سے وہ محبت کرتے تھے خواہ وہ کوئی بھی ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ والدین نے بچے کو اپنے پاس اللہ کی امانت نہیں سمجھا بلکہ اس کو صرف اس نظر سے دیکھا کہ وہ ان کے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جس کی وجہ سے اس سے شدید محبت کی اور وہ بھی انانیت کے جذبے سے۔ اس لیے ایسا بچہ مستقبل میں ان کے لیے آزمائش بن جائے گا کیونکہ جس طرح ایک شے میں اضافے سے دوسری میں کمی ہوتی ہے، اسی طرح ایک میں کمی سے دوسرے میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر جس طرح یہ بات والدین اور بچے کے تعلقات میں در آتی ہے، اسی طرح یہ محب اور محبوب کے تعلق میں بھی پیدا ہو جاتی ہے.. اگر انسان کسی کو(خواہ وہ کوئی بھی ہو) اس کی قدر سے اونچے اور بڑے مقام پر رکھے گا اور اس کی  حد سے زیادہ محبت  کرے گا تو ےےیقیناًگمراہی کی طرف بڑھے  گا
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

اسلام اور خانقاہی نظام,83


 اسلام اور خانقاہی نظام

(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر83)
 اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم ان سے اپنی محبت اور شفقت کو ان کی اسلامی تربیت کے لیے استعمال کریں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ضروری ہے کہ یہ محبت سیدھی راہ پر ان کی تربیت میں ممد و معاون ہو اور وہ اس پر رہتے ہوئے اعلیٰ نمونہ بن جائیں جبکہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو چومتے ہوئے ،ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اور ان کے کاندھوں پر تھپکی دیتے ہوئے ان کے کانوں میں یہ باتیں ڈالیں تاکہ بچے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں نہ کریں ، الحاد کے جال میں نہ پھنسیں یا ان پر بغاوت اور غرور کے ایسے جذبات کا غلبہ نہ ہو جائے جو ان کے لیے اخروی زندگی میں نقصان کا باعث بن جائیں کیونکہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کے لیے مناسب ماحول تیارکریں اور ہر وہ کام کریں جو ضروری ہے تاکہ ان کی اولاد دنیا سے اسی طرح صاف ستھری رخصت ہو جس طرح اس میں آئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام امور کو پورا کرنا بچوں کی محبت کا ایک اور رخ ہے اور اس میں کوئی نقصان بھی نہیں۔
اس کے برعکس اگر انسان ان سب باتوں کی پروا نہ کرے اور بچے سے بندگی کی حد تک صرف اس لیے محبت کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے، ہر شے کو اس کے ساتھ جوڑ دے اور ہر وقت اس کے بارے میں بولنا چاہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے لاشعوری طورپر شرک کے ایک دروازے پر دستک دے دی ہے اگرچہ وہ اللہ اور اس کے رسول پرایمان کا دعویٰ کیوں نہ کرتا ہو۔  لیکن اپنے بچے سے انتہائی تعلق کی وجہ سے شرک کی صفات میں سے ایک صفت اس کے اندر آگئی ہے۔ نبی کریم ﷺ اس مفہوم کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے کہتے ہیں: إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ” قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ؟ قَالَ: “الرِّيَاءُ“ (مجھے جس چیز کا تم پر سب سے زیادہ خوف ہے، وہ چھوٹا شرک ہے۔ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ: چھوٹا شرک کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ریاکاری۔‘‘(مسند احمد )
اگر ہم اس بات کو محسوس مثالوں سے واضح کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات بھی ریاکاری ہے کہ انسان اپنے چہرے کے خدوخال کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار کرے اور دوسروں کے سامنے عبادت کرتے ہوئے انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرے جبکہ وہ اکیلے میں ایسا نہیں کرتا یا دوسروں کے سامنے اپنی خصوصی صلاحیتوں جیسے اچھی تالیف، مصوری اور خطابت وغیرہ اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی خواہش کو اپنی بات کے آغاز میں ’’یہ فقیر'خادم اور عاجز وغیرہ‘‘ جیسے الفاظ کے غلاف میں لپیٹنے کی کوشش کرے۔ یہ بات دکھلاوے کی خطرناک ترین شکل ہے۔ اس طرح انسان کا اپنے بچے کے ذریعے اپنی ذات کا اظہار بھی مذکورہ بالابات سے مختلف نہیں۔ پس ایسا انسان اپنے بچے سے محبت کو شرک کی صفات میں سے ایک صفت سے آلودہ کردیتا ہے جبکہ بندہ مومن پر لازم ہے کہ وہ ایمان کی صفات کی حفاظت کے لیے بھی ایسی ہی باریک بینی سے کام لے جتنی اپنی عزت اور شرافت کی حفاظت کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے افکار اور احساسات کو بھی شرک خفی یعنی ریا کاری ، خود پسندی ،یا شہرت، فخر اور تکبر، سے بچائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک شرک کی صفت ہے اور انسان کے اندر اس کا وجود ایک وائرس کی طرح ہے جبکہ کسی وائرس کی وجہ سے آدمی کو نزلہ زکام یا دیگر بیماریوں کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے .
اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ شرک اور کفر کی صفات میں سے کسی بھی صفت کو معمولی نہ سمجھے اور ان کو اپنے دل اور روح میں پنپنے کی اجازت نہ دے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اپنے بچے اور خاندان سے شدید محبت کا اظہار کرنے والا آدمی مشرک نہیں ہے اگرچہ اس میں شرک کی ایک صفت آگئی ہے۔ اس لیے اگر ایمان پر مرے گا تو جنت میں چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ (جو سب سے زیادہ جانتا ہے) اس سے مشرکوں والا معاملہ نہیں کرے گا لیکن ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس مشکل کا کوئی حل تلاش کریں اور اس بارے میں نہایت باریک بینی سے کام لیں کیونکہ شرک کی یہ صفت ایک وائرس کی طرح ہے جبکہ وائرس کو جسم میں فساد پھیلانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ اس کو ختم کرنا ضروری ہوتا ہے۔مثلاً اگر نزلے کے وائرس کا کامیاب علاج نہ کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ اس وجہ سے انسان کو کسی دوسری بیماری کا سامنا یا وہ موت کے منہ میں بهی جا سکتا ہے۔اس وجہ سے انسان کسی بھی ایسے وائرس کو اپنے جسم میں قرار نہ پکڑنے دے جو اس کی اصل فطرت اور ’’احسن تقویم‘‘ کی اس صورت کے خلاف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمایا ہے۔ اگر یہ وائرس اس کا درووازہ کھٹکٹانا چاہیں تو اسے یہ کہتے ہوئے بند کردے کہ ’’اپنے آپ کو فضول مت تھکاؤ کیونکہ سارے دروازے بند ہیں۔‘‘
انسان کے لیے شرک کے بارے میں اس قدر احتیاط کیوں ضروری ہے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات شرک اس قدر خفی اور معمولی ہوتا ہے کہ انسان اس کو محسوس کرتا ہے اور نہ اس کی پروا لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وہ چھوٹے گناہ جن کو ہم معمولی سمجھتے ہوئے ان کی پروا نہیں کرتے، وہ بار بار تکرار کی وجہ سے بعض اوقات بڑے گناہوں سے بھی بڑے ہو جاتے ہیں بلکہ ان سے زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں اور مقولہ ہے کہ:’’اصرار کے ساتھ کوئی گناہ صغیرہ نہیں اور استغفار کے ساتھ کوئی گناہ کبیرہ نہیں۔‘‘ علاوہ ازیں جب بندے کو اپنے بڑے گناہوں کا پتہ چل جاتا ہے اوران کی قباحت معلوم ہوتی ہے اور ان کو یہ سنجیدگی سے لیتا ہے تو فوراً عاجزی اور انکساری کے ساتھ توجہ اور انابت کے ذریعے اپنے رب سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد گناہ کا یہ احساس اس کے اندر گناہوں کو ختم کرنے کا شعور پیدا کردیتا ہے اور آخر کار وہ ہمیشہ کے لیے ان سے چوکنا اور ہوشیار رہتا ہے۔
یوں اگر والدین اپنے بچوں سے محبت میں اعتدال کا خیال نہ رکھیں تو ابتداء میں وہ معمولی ہو گی مگر بعد میں ایک مشکل بن جائے گی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔جاری ہے ۔۔۔۔

اسلام اور خانقاہی نظام،82


*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر82)
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے﴿فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَى اللهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (الاعراف:190) ( پهر جب وہ ان کو صحیح و سالم بچہ دیتا ہے تو اس بچے میں اس (اللہ) ک شریک مقرر کرتے ہیں ۔ سو وہ جو شرک کرتے ہیں اللہ کا مرتبہ اس سے بلند ہے،اللہ تعالیٰ اس سے گزشتہ آیت میں فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا أَثْقَلَتْ دَعَوَا اللهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ﴾ (الاعراف:189) (وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں ایک شخص سے پیدا کیا۔ اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔ سو جب وہ اس کے پاس جاتا ہے تو اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے۔ پھر جب وہ بوجھ محسوس کرتی ہے یعنی بچہ پیٹ میں بڑا ہوتا ہے تو دونوں میاں بیوی اپنے پروردگار سے التجا کرتے ہیں اگر تو ہمیں صحیح وسالم بچہ دے گا تو ہم تیرے شکرگزار ہوں گے)۔ اس آیت میں وارد لفظ ’’صالح‘‘کے دو معنی ہیں، اول: وہ تمام عیوب سے محفوظ ایک مکمل انسان ہو اور دوم : اپنے ایمان میں گہرا، عبادت و اطاعت کا باریک بینی سے خیال رکھنے والا اور احسان و مشاہدہ کے احساس میں گندھا ہوا ہو۔اولاد کے صالح اور پرہیز گار ہونے کی خواہش ، اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان کا ایک تقاضا ہے کیونکہ کوئی بھی مومن جب بھی اولاد کی تمنا کرتا ہے تو وہ یوں دست سوال دراز ہوتا ہے: اے اللہ مجھے ایک صالح بچہ عطا فرما، جس کا بدن اور سارے اعضاء صحیح وسالم ہوں، جس کا ایمان، اسلام اور اخلاص کامل ہو۔ اے اللہ اس کے بدن کو سلامت رکھ اور اس کے عمل کو درست فرما اور اس کی روحانی اور قلبی زندگی کو درست فرما۔
اس کے باوجود ایسا ہوسکتا ہے کہ بطور آزمائش بچہ معذور پیدا ہوجائے۔ ایسی حالت میں صبر، ثابت قدمی اور مشکلات کو برداشت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ہمیں اس کے پیچھے موجود حکمت کا علم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے والدین کو گناہوں اور خطاؤں سے پاک کرنا اور اس بچے کی پرورش کے دوران تکالیف اٹھانے کی وجہ سے ان کے روحانی درجات بلند کرنا چاہتا ہو۔
 سورۃ الزمرمیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ﴾ (الزمر:65) (اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے) حالانکہ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ آنحضرت کبھی بھی شرک سے آلودہ نہیں ہو سکتے تھے۔ اس سے اس بات کی یقین دہانی ہوتی ہے کہ آپ ﷺ کو خطاب پوری انسانیت کو ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں: ’’ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے ‘‘کیونکہ نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محفوظ اور معصوم ہیں۔
جی ہاں، فخر انسانیت حضرت محمدﷺ اپنی حیات طیبہ کے ابتدائی دنوں میں بھی شرک کے ایک ذرے سے بھی آلودہ نہیں ہوئے حالانکہ اس وقت ساری انسانیت کانوں کانوں تک گناہوں اور جاہلیت کی گندگیوں سے آلودہ تھی، بلکہ شرک تو کجا،آپ علیہ السلام سے عمومی عادات سے خلاف بھی کوئی کام صادر نہیں ہوا۔ آپ علیہ السلام نے کسی لفظ سے کسی کے جذبات کو مجروح کیا اور نہ دوسروں کے احساسات کو بال برابر تکلیف پہنچائی۔
اس وجہ سے ہمارا موضوع بحث جو بھی مسئلہ ہو، سب سے پہلے انبیائے کرام کی عصمت، طہارت اور تزکیہ کا اقرار ضروری ہے اور یہ بات جان لیں کہ اس اسلوب اور طریقے سے انبیائے کرام سے جو بھی خطاب ہے، وہ بطریق اولیٰ پوری امت کے لیے ہوتا ہے۔ ہم اس بات کا خیال رکھیں تو پھر زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم اس مقام پر خطاب کے اسلوب کو درج ذیل انداز سے سمجھیں: ’’خبردار ہوشیار! اگر اللہ کی حفاظت سے معصوم نبی کے بارے میں یہ انتباہ ہے تو پھر جو لوگ محفوظ اور معصوم نہیں، ان کو تو اس ڈراوے کو ہر وقت اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے‘‘۔
یوں ہم پر لازم ہے کہ اس آیت میں وارد حضرت آدم علیہ السلام کے حصے کو اس دوربین سے دیکھیں تاکہ ہم اس برگزیدہ شخصیات کے بارے میں اپنے خیال سے کوئی نامناسب اور گندی بات منسوب نہ کریں جن کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرمایا اور ساری مخلوق پر فضیلت بخشی۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿إِنَّ اللهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ (آل عمران:33) (اللہ تعالٰی نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا) اس لیے ہمیں حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں اپنے اذہان، افکار اور خیالات کو پاک کرنا چاہیے۔ اس لیے باردگر اس بات کی یاددہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ اولاد صالح کا سوال حضرت آدم علیہ السلام سے صادر ہوا مگر بچے کی وجہ سے شرک کے صدور کا ان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ خطاب ہم سب سے ہے۔
اولاد کی محبت شرک کا دروازہ کھول سکتی ہے
اولاد کی محبت میں حد اعتدال سے تجاوز شرک کے دائرے میں لے جاسکتا ہے کیونکہ بعض لوگوں کے ہاں یہ احساس اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ یہ کہنے لگتے ہیں کہ: ’’میرا بچہ ہی میری زندگی میں سب کچھ ہے۔‘‘ مثلاً آپ دیکھیں گے جب وہ کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور اس کے بچے کے نام کا پہلا حرف ذکر کیا جائے تو وہ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً اپنے بچے اوراس کی صفات کے بارے میں بات چیت شروع کردے گا۔جی ہاں، یہ کمزوری بعض لوگوں کے ہاں اس قدر پختہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بارے میں بات کرنے کا کوئی بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ’’بچے کی محبت ‘‘ سے ہماری مراد یہی ہے ۔بچوں کی محبت ان کی ابدی خوشی کا باعث ہونی چاہیے
بچے ’’احسن تقوم‘‘ کا عکس پیش کرنے والے چھوٹے چھوٹے آئینے ہوتے ہیں اور وہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان سے محبت کریں اور ان کو گلے سے لگائیں کیونکہ وہ اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کے آثار میں سے ایک اثرہیں ۔

Saturday 16 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,81&80


اسلام اور خانقاہی نظام

(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر81&80)
بچوں کی دینی تربیت اور والدین کی شرعی ذمہ داری کے عنوان پر بحیثت مسلمان ہمارے دین نے جو اُصول بیان کئے ہیں اس حوالے سے مختصرتحریر پیش خدمت ہے۔تا کہ  وہ لوگ بھی متنبہ  ہوجائیں  جو اپنی اولاد  کو شاہ دولہ یا دیگر مزاروں کے نام وقف کر دیتے ہیں،دوستو! ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کے اولاد اللہ رب العزت کا نہایت ہی قیمتی انعام ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں انہیں زینت اور دنیاوی زندگی میں رونق بیان کیا ہے لیکن یہ رونق وبہار اور زینت وکمال اسی وقت ہے جب اس نعمت کی قدر کی جائے دین واخلاق اور تعلیم کے زیور سے انہیں آراستہ کیا جائے بچپن ہی سے ان کی صحیح نشوونما ہو دینی تربیت کا خاص خیال رکھا جائے نیز اسلامی وایمانی ماحول میں انہیں پروان چڑھایا جائے والدین پر اولاد کے جو حقوق ہیں ان میں سب سے اہم اور مقدم اُن کی دینی تعلیم وتربیت ہی ہے اسلام عصری تعلیم کا ہرگز مخالف نہیں لیکن دین کی بنیادی تعلیم کا حُصول اور اسلام کے مبادیات وارکان کا جاننا تو ہر مسلمان پر فرض ہے  اور اس پر اخروی فلاح وکامیابی کا دارومدار ہے اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے خطاب کرکے فرماتا ہے!۔
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں اس پر سخت اور طاقتور فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے انہیں جو حکم دیا جائے وہ کر گزرتے ہیں (التحریم ٦)۔۔۔
جب تک دین کی بنیادی تعلیم سے آگاہی اور اس پر عمل نہ ہو؟؟؟۔۔۔ توحید، رسالت، اور آخرت پر صحیح ایمان نہ ہو یا نماز روزہ سے اور روز مرہ زندگی میں احکام شریعت سے غفلت ہو؟؟؟۔۔۔ نار جہنم سے بچنے کی فکر جس طرح خود کو کرنی ہے اسی طرح والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کے وہ اپنی والاد کی بچپن سے ایسی تربیت کریں کے ان میں دینی شعور پختہ ہو اور بڑے ہوکر وہ زندگی کے جس میدان میں بھی رہیں ایمان وعمل صالح سے ان کا رشتہ نہ صرف قائم بلکہ مضبوط رہے آج والدین دنیاوی زندگی کی حدتک بچوں کے بہتر مستقبل کی خوب فکر اور کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ معاشرہ میں سرخرو رہیں اور آرام وراحت کی زندگی گزار سکیں لیکن دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد آخرت کی جولامحدود زندگی ہے وہاں کی سرخروئی اور سرفرازی سے خود بھی غافل ہیں اور بچوں کی تربیت میں بھی اس پہلو کو اہمیت نہیں دیتے۔۔۔
بچوں کا ذہن صاف وشفاف اور خالی ہوتا ہے اس میں جو چیز بھی نقش کردی جائے وہ مضبوط وپائیدار ہوتی ہے ۔۔۔ اس  سےمراد یہ ہے کہ بچپن میں بچے کے لئے علم کا حصول پتھر پر نقش کی طرح ہوتا ہے یعنی جس طرح پتھر کی لکیر اور پتھر پر کیا ہوا نقش مضبوط وپائیدار ہوتا ہے اسی طرح بچپن میں جو چیز ذہن ودماغ میں بیٹھ جائے (یا بٹھادی جائے) وہ پائیدار ہوتی ہے جس طرح زمین سے اُگنے والے نرم ونازک پودوں کی طرح بچوں کے خیالات، فکر اور طرز زندگی کو جس رخ پر چاہے باآسانی موڑا جاسکتا ہے جب وہ بڑے ہوجائیں اور اُن کی عقل پختہ ہوجائے تو ان میں تبدیلی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتی ہے اسلئے ابتدائی عمر میں بچوں کی نگرانی اور ان کی صحیح تربیت والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری ہے۔لیکن اگر یہی بچے مزاروں پربے کس چھوڑ دیئے جائیں تو ان کی تعلیم تربیت تو دور کی  بات  ہے صحیح طور پر نشو نما بھی نہیں ہو پاتی-
قرآن وحدیث میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کے ہر بچہ توحید خالص کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اصل کے اعتبار سے اس میں طہارت، پاکیزگی، برائیوں سے دوری اور ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ پھر اسے گھر میں اچھی تربیت اور معاشرہ میں اچھے ساتھی میسر آجائیں تو وہ ایمان و اخلاق میں اسوہ نمونہ اور کامل انسان بن جاتا ہے۔لیکن  اگر وہی بچہ بے دین  اور جاہلوں  کے ہتھے چڑھ جائیں توسیدھی سی بات ہے وہ بڑےہو کر بے دینی  اور گمراہی کے راستے پر ہی  گردش  کریں گے-
رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے ہر نومولود فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہےپھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ یعنی  وہ شاہ دولہ کا چوہا یا غوث کا کتابنے اس میں  اس کے والدین  کا ہاتھ ہوتا ہے۔کیونکہ  بچے کو جیسا ماحول اور تربیت میسر آئے گی وہ اسی رخ پر چل پڑے گا اگر اسے ایمانی ماحول اور اسلامی تربیت میسر آجائے تو وہ یقینا معاشرہ میں حقیقی مسلمان بن کر ابھرے گا لیکن اس کی تربیت صحیح نہج پر نہ ہو گھر کے اندر اور باہر اسے اچھا ماحول نہ ملے تو وہ معاشرہ میں مجرم اور فسادی انسان بن کر ابھرے گا۔
امام غزالی رحمہ اللہ علیہ نے والدین کو یہ وصیت کی کہ بچوں کو قرآن پاک احادیث مبارکہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور ضروری دینی احکام کی تعلیم دیں بچہ والدین کے پاس امانت ہوتا ہے اور اس کا پاکیزہ دل ایک نفیس جوہر اور موتی کی طرح ہے اگر اسے خیر کا عادی بنایا جائے اور بھلے کام سکھائے جائیں تو وہ انہیں سیکھتا ہوا بڑھتا اور پلتا ہے پھر دنیاوآخرت دونوں جگہ خوش نصیب رہتا ہے اگر اسے برے کاموں کا عادی بنایا جائے یا مہمل چھوڑ دیا جائے تو بدبختی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے اسکی حفاظت کا طریقہ یہی ہے کے اسے علم وادب سکھایا جائے اچھے اخلاق سکھائے جائیں اور مہذب بنایا جائے۔مزاروں پر مجاوروں کے حوالہ کرنے کی بجائے اسلامی مدارس میں داخل کروایا جائے،
رسولﷺ نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کیا رہنمائی فرمائی اور آپ ﷺ خود اس کا کس درجہ خیال رکھتے تھے؟؟؟۔۔۔
اس کی بیشمار مثالیں کتب حدیث وسیرت میں دیکھی جاسکتی ہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔۔۔
ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر تھا آپ ﷺنے مجھ سے فرمایا اے بچے (بیٹے) میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں تم اللہ کے حقوق کا خیال رکھو تو اللہ کو اپنے سامنے پاؤ گے اور جب مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد طلب کرو تو اللہ ہی سے مدد طلب کرو اور اس بات کو جان لوکہ اگر تمام مخلوق بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو تمہیں صرف وہی فائدہ پہنچاسکتی ہے جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے (ترمذی)۔۔۔
غور کیجئے کے رسول اللہﷺ بچوں کے ذہن میں کس طرح دینی حقائق نقش فرمایا کرتے تھے۔۔۔ عمروبن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں جب چھوٹا تھا تو رسول اللہ صﷺکے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے میرا ہاتھ برتن میں ادھر اُدھر چلا جاتا تھا۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا اے لڑکے اللہ کا نام لو دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ (رواہ مسلم)۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔۔۔
ایک روز اللہ رسول ﷺہمارے گھر تشریف فرماتھے میری والدہ نے مجھے پکارا آؤ ایک چیز دوں گی، رسول اللہﷺنے والدہ سے دریافت فرمایا کے تم نے اسے کیا دینا چاہا؟؟؟۔۔۔ والدہ نے عرض کیا کے کھجور دینا چاہتی تھی رسول اللہ ﷺنے والدہ سے ارشاد فرمایا۔۔۔ سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارے حق میں (نامہ اعمال میں) یہ ایک جھوٹ لکھا جاتا (رواہ ابوداؤد وبہیقی)۔۔۔
غور کیجئے کے اللہ نے نبیﷺ نے بچوں کو اُمید وآس دلا کر کچھ نہ دینے سے بھی منع فرمایا اور اسے جھوٹ قرار دیا اس کا ایک اہم نقصان یہ ہے کہ اس سے بچوں کی تربیت اور اُن کے اخلاق وکردار پر منفی اثرات پڑیں گے اور وہ بھی جھوٹ کے عادی ہوجائیں گے کیونکہ بچے اپنے بڑوں سے جس چیز کو دیکھتے یا سنتے ہیں اس کا اثر بہت جلد قبول کر لیتے ہیں اور بچپن کا یہ اثر نہایت مضبوط ومستحکم اور پائیدار ہوتا ہے آج بعض سرپرست بچوں سے بلاتکلف جھوٹ کہلواتے ہیں ہیں مثلا کوئی ملاقات کیلئے گھر پر دستک دے اور اس سے ملنے کا ارادہ نہ ہو تو بچوں کے کہلوا دیا جاتا ہے کے کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں کیا اس طرح بچوں کے دل ودماغ میں جھوٹ سے نفرت پیدا ہوگی؟؟؟۔۔۔کیا وہ بڑے ہوکر جھوٹ جیسی بداخلاقی کو برا جانیں گے؟؟؟۔۔۔ جھوٹ کا گناہ وبال اور نقصان نیز بچوں کی غلط تربیت کے علاوہ کبھی باپ کو اس وقت نقدشرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے جب بچے بھولے پن میں اس حقیقت سے پردہ اُٹھادیتے ہیں کہ  ابو نے کہا وہ گھر پر نہیں ہیں۔۔۔
ڈاکٹر مصطفٰی سباعی نے اپنی ایک کتاب میں یہ واقعہ لکھا کے ایک شرعی عدالت نے چور کا ہاتھ کاٹنے کی سزا سنائی تو ہاتھ کاٹنے جانے سے قبل اس نے بلند آواز سے کہا کے میرا ہاتھ کاٹنے سے پہلے میری ماں کی زبان کاٹ دو اس لئے کے میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے پڑوس کے یہاں سے ایک انڈہ چوری کیا تھا تو میری ماں نے اس جرم پر مجھے تنبیہ نہ کی بلکہ خوشی کا اظہار کیا تھا اگر مجھے اس وقت روکا جاتا تو آج  میں معاشرہ میں چور نہ بنتا واقعہ یہ ہے کے اولاد کے اچھے یا برے بننے میں والدین کی تربیت اور اُن کی نگرانی کو بہت بڑا دخل ہے اور یہ والدین کی اہم ذمہ داری ہے کے اپنی اولاد کی دینی واسلامی تربیت کا خاص خیال رکھیں انہیں بچپن ہی سے اچھے اخلاق وکردار کا حامل بنائیں اور دین سے تعلق ان کے ذہنوں میں راسخ کردیں،یہاں پر ایک اور بات کی وضاحت کرنا ضرور سمجهتا ہوں کہ اگر کسی کے ہاں اولاد نہ ہو رہی ہو تو پهر اس کو کیا کرنا چاہیئے اور کیا آج کل اخباروں ،انٹرنیٹ یا عاملوں کے بتائے ہوئے مختلف وظیفوں پر حصول اولاد کیلئے عمل کر سکتے ہیں ہم اختصار کے ساتھ ایک واقعہ پیش کرتے ہیں اور اس واقعہ کا جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام سے طلب کرتے ہیں...
  ایک بھائی کی شادی کو پانچ سال کا عرصہ ہو گیا ہے لیکن ابھی تک وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں، کیا وجہ یہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے، دونوں میاں بیوی نے اس سے متعلق تمام طبی معائنے کروا لیے ہیں، اور طبی ماہرین نے دونوں کی صحت کے بارے اطمینان کا اظہار کیا ہے، اور انہوں نے یہ بھی بتلایا ہے کہ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس اذن الہی تک صبر کریں۔لیکن ان کے والدین صبر کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، انہوں نے ان دونوں میاں بیوی کو کہا ہے کہ اس وظیفہ پر عمل کریں: " دونوں 21 دن روزے رکھیں، اور اللہ تعالی کا اسم مبارک "المصوّر"(یعنی چہرے کی تخلیق کرنے والا) سات بار پڑھ کے ایک کپ پانی پر پھونک ماریں، اور پھر اسی پانی سے روزہ افطار کریں، اللہ کے حکم سے 21 دن پورے ہونے کے بعد انہیں اللہ تعالی اولاد سے نوازے گا" کیا یہ عمل یا اس سے ملتے جلتے عمل قرآن و سنت کی روشنی میں درست ہیں۔۔۔؟
علماء کرام فرماتے ہیں:میاں بیوی کو  انکے والدین نے جس انداز سے دم کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ ہمارے علم کے مطابق کتاب و سنت میں ثابت نہیں ہے، اس لئے میاں بیوی کو  یہ عمل ترک کر دینا چاہیے، اور کتاب و سنت میں ثابت شدہ  شرعی دعاؤں(مسنون اذکار)  اور دم پر عمل کرنا چاہیے۔جبکہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنیٰ کے ذریعے  بانجھ  پن سمیت بیماری سے شفا یابی کی دعا مانگنا  اللہ تعالی کے اس فرمان میں شامل ہے: {وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا }
 اللہ تعالی کے اچھے اچھے نام ہیں، اسے انہی کے واسطے سے پکارو[الأعراف : 180]
آپ ﷺنے بھی لوگوں کو دم کرتے ہوئے اسمائے حسنیٰ کا واسطہ دیا، جیسے کہ نبی ﷺ سے ثابت ہے: " أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، اِشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ "[لوگوں کو پالنے والے! تکلیف دور کر دے،  تو شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے] بخاری: (5743)، مسلم: (46، 47، 48)
(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں:  تعویذ اور دم قرآن وحدیث  کی روشنی میں ،مصنف:خواجہ محمد قاسم )
تاہم اسم الہی "المصوّر" کو متعین کرنے  کیلئے دلیل چاہیے، جو کہ کتاب و سنت   میں نہیں ہے ، اس لئے کسی  اسم الہی کو کسی مخصوص کام کیلئے متعین کرنا غیر شرعی عمل ہوگا، جبکہ اس بارے میں شرعی عمل یہ ہے کہ دعا کرنے والا دعا کی مناسبت سے کوئی مناسب اسم الہی اختیار کرے، مثلاً: دعائے مغفرت کیلئے اللہ تعالی کا نام: "الغفار"  کو اپنائے۔
یہاں ایک بات کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری ہے کہ  بچوں کی پیدائش   کا تعلق  اللہ تعالی کی مشیئت سے ہے، اس کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح فرمایا ہے کہ:
 {لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ }
ترجمہ: آسمان و زمین کی بادشاہی اللہ کیلئے ہی ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اور جسے چاہتا ہے  بیٹیاں عطا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے [49] یا انہیں بیٹے بیٹیاں ملا کر عطا  کرتا ہے، اور جسے  چاہتا ہے بانجھ بنا دیتا ہے، بیشک وہ جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے۔[الشورى : 49 - 50] اس لئے اولاد کا مکمل طور پر اختیار اللہ کے پاس ہے۔
لہذا میاں بیوی دونوں کو چاہیے کہ  اللہ عزوجل  کے سامنے گڑگڑا کر نیک اولاد کا سوال کریں، اور پوری گریہ زاری  کیساتھ  ذکر و دعا میں مشغول رہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا: {وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} اور وہ لوگ کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں  ہماری بیویوں اور اولاد  سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔ [الفرقان : 74]
اگر میاں بیوی میں سے کسی ایک میں کوئی بیماری ہے، جس کی وجہ سے  اس محرومی کا سامنا ہے تو  جائز طریقہ کار کے مطابق ادویات کا سہارا لیا جاسکتا ہے، اور یہ نبی ﷺکے اس عمومی فرمان میں شامل ہوگا: (علاج کرو، کیونکہ اللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج رکھا ہے، صرف بڑھاپا ایسی بیماری ہے جس  کا علاج نہیں ہے) اس حدیث کو ابو داود نے اسامہ بن شریک  سے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح نبیﷺ کا فرمان ہے: (اللہ تعالی نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی  جس کیلئے شفا نازل نہ کی ہو) ابن ماجہ: (3482) البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اولاد کی نعمت سے محرومی کا کچھ بھی سبب ہو ، ہر حالت میں اللہ تعالی پر کامل بھروسہ ہونا چاہیے، اللہ تعالی پر توکل ہو، اور اللہ کے فیصلوں پر مکمل صبر  کرنا چاہئے، اور یہ یقین رکھے کہ اللہ تعالی نے اس کیلئے اس نعمت سے محرومی پر صبر کرنے کی وجہ سے خوب  اجر عظیم  رکھا ہوا ہے،  اورلوگوں کے حالات زندگی اور مسائل میں  غور و فکر کرنا چاہیے، کہ  کچھ لوگوں کو بد اولاد  کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، جن کی وجہ سے انکی زندگی اجیرن ہوگئی، اور کچھ لوگوں کو معذور اولاد کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا، اور اب وہ  انتہائی تنگی کی زندگی  میں ہے، بالکل اسی طرح ایسے والدین کو بھی دیکھیں جو  اپنی نافرمان اولاد کی وجہ سے پریشان ہیں، اس لئے اللہ تعالی اپنے بندے مؤمن کیلئے وہی  پسند کرتا ہے جو اس کیلئے بہتر ہو، جیسے کہ نبیﷺ کا فرمان ہے: (مؤمن کا معاملہ تعجب خیز ہے! کہ صرف مؤمن کا ہر معاملہ خیر سے بھر پور ہوتا ہے،  اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، جو اس کیلئے بہتری کا باعث ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو  صبر کرتا ہے، اور یہ بھی اس کیلئے خیر کا باعث  ہے)( مسلم:2999)
البتہ ایسے دم 'جهاڑپهونک'منتر'تعویز'گنڈوں پر عمل کرنا جس میں شرک شامل ہو تو اس کی قطعی اجازت نہیں ہے.ذیل میں ہم چند احادیث پیش کرتے ہیں:آج ہمارے معاشرے میں تعویذ سازی کا کام باقائدہ ایک پرفیشنل کام بن چکا ہے اور بعض لوگ اس کے ذریعے دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور عام لوگ اس کو دین سمجھ کر بجالا رہے ہیں اور بڑے پیر لوگ اس سے خوب پیسہ کما رہے ہیں، دنیا کا کوئی بھی کام ہو اس کا تعویذ آپ کو مل جائے گا اور دنیا میں کوئی بھی بیماری ہو اس کا تعویذ بنالیا گیا ہوا ہے بیماری جتنی بڑی ہوگی اس کے تعویذ کی قیمت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
اولاد کو فرمابردار بنانے والا تعویذ۔
اور پھر اولاد کے لیے بھی تعویذ بنایا گیا ہے کہ جس سے والدین اولاد کی بات مانیں گے۔
شوہر کے لیے تعویذ کہ اس کی بیوی اس کی تابیدار رہے۔
اور بیوی کے لیے تعویذ کہ اس کا شوہر اس کا تابیدار بن کر رہے۔
اور شریکوں کے لیے بھی تعویذ موجود ہے جس سے شوہر اور بیوی میں ناراضگی پیدا کی جائے۔
آپ کو کالا یرکان ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں اس کا بھی تعویذ آپ کو مل جائے گا۔:::یہ علیحدہ بات ہے جب یرکان بگڑ جاتا ہےتو پھر ڈاکٹر کے پاس بھاگے بھاگے جاتے ہیں مگر پھر دیر ہوچکی ہوتی ہے:::
اگر کسی کو کینسر ہے تو بھی تعویذ حاضر ہے۔
یعنی دنیا کی کوئی بھی بیماری ہو آپ کو یہ تعویذ ساز اس کا تعویذ ضرور بناکر دیں گیں۔
ایک اور حیران کن بات یہ کہ جب ان لوگوں سے اس کی دلیل مانگی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ یہ قرآن اور صحیح حدیث سے دلیل دیں کہتے ہیں کہ یہ تعویذ فلاں نے استعمال کیا تو اس کا کام بن گیا،فلاں نے فلاں بیماری کے لیے باندھا تو اس کو شفاء مل گئی اگر یہ جھوٹے تعویذ ہیں اور یہ غلط کام ہے تو اس سے شفاء کیوں ملتی ہے؟؟؟
تو یہ ہے ان کی سب سے بڑی دلیل، اب اگر ان کی یہ دلیل مان لی جائے تو اس طرح اور بھی بہت کچھ جائز ہوجائے گا مثلاً یہ کہ ہندو لوگ بھی یہ تعویذ سازی کا کام کرتے ہیں اور ہندو کو بھی ان تعویذوں سے بہت سے فوائد ملتے ہیں بیماروں سے  شفاء ملتی ہے بےروزگاروں کو کام ملتا ہےاسی طرح ان کے ہاں بھی ہر بیماری کے لیے تعویذ بنایا جاتا ہے اور ہر مشکل کام کا تعویذ بنایا جاتا ہے تو اس انوکھی دلیل سے ہندوں کے تعویذ بھی صحیح ثابت ہوتے ہیں تو کیا پھر ایک ہندو کے بنائے تعویذ کو بھی پہنا جاسکتا ہے؟؟؟
اگر نہیں تو کیوں نہیں پہنا جاسکتا؟؟؟
اگر ہاں کہتے ہیں تو ہندوں کے مذہب کو کیوں غلط کہتے ہو؟؟؟
اصل میں جب بھی دین میں کوئی نئی بات داخل کی جائے گی تو بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے پھر چاہیے تو یہ ہوتا ہے کہ اس نئی بات کو چھوڑ دیا جائے کہ جس کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا ہے مگر کیا اُلٹ جاتا ہے کہ اس بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے غلط تاویلات اور جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ مذید بگاڑ پیدا کرتی ہیں، اس لیے اگر بگاڑ ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس بگاڑ کی جڑ کاٹنی چاہیے کہ جس کی وجہ سے ایسا بگاڑ پیدا ہوا تھایعنی اس نئی بات کو جو دین میں داخل کی گئی ہے اس کو ختم کیا جائے تو پھر اصل دین باقی رہے گا اور بگاڑ اور گمراہیاں سب اپنی موت آپ مر جائیں گی ان شاءاللہ۔
اب آتا ہوں موضوع کی طرف اس موضوع پر کافی احادیث مل جاتی ہیں مگر میں نے کوشش کی ہے کہ صحیح احادیث سے ہی دلیل دی جائے اگر کوئی حدیث ضعیف ہو تو آگاہی فرمادیجیے گا، میں نے اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث کا مطالعہ کیا ہے ان میں کہیں بھی تعویذ کو بازو اور ٹانگوں میں یاگلے میں باندھنے کی کوئی دلیل نہیں ملی بےشک تعویذ میں قرآن کی آیات ہی کیوں نہ لکھی گئی ہوں، صرف اس میں ایک چیز کی اجازت دی گئی ہے اور وہ ہے دم،جھاڑپھونک،منتر اور وہ بھی وہی جائز ہیں جن میں کوئی کفر ، شرک اور خلاف شریعت کوئی الفاظ نہ ہوں،
نبی کریم ﷺکے ارشادات ہیں کہ
حضرت عوف ابن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کے ذریعہ دم کیا کرتے تھے (جب اسلام کا زمانہ آیا تو ) ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! آپ (ﷺ) ان منتر وں کے بارے میں کیا حکم فرماتے ہیں ؟ آپﷺنے فرمایا تم ان منتروں کوپڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو ان میں کوئی حرج نہیں دیکھتا ۔" (مسلم )حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منتر پڑھنے اور پھونکنے سے منع فرما دیا توعمر و ابن حزم کے خاندان کے لوگ (جو منتروں کے ذریعہ جھاڑپھونک کرتے تھے ) حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ؐ ! ہمارے پاس ایک منتر ہے جس کو ہم بچھو کے کاٹے پر پڑھا کرتے تھے اب آپ نے منتروں سے منع فرمادیا ہے اس کے بعد انہوں نے منتر کو پڑھ کر آنحضرتﷺ کو سنایا (تاکہ آپ ﷺ اس منتر کو درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فرمائیں ) آنحضرت ﷺنے (منتر کوسن کر) فرمایا کہ میں اس منتر میں کوئی حرج نہیں دیکھتا تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کونفع پہنچا سکے تو وہ ضرور نفع پہنچائے خواہ جھاڑپھونک کے ذریعہ اورخواہ کسی اور طرح سے بشرطیکہ اس میں کوئی خلاف شرع بات نہ ہو ۔" (بخاری ومسلم )
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایسا کوئی بھی دم جائز ہے جس میں کوئی شرکیہ الفاظ نہ ہوں، اور میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ بعض احادیث میں دم کی بھی ممانعت آئی ہے اور پھر اس کی اجازت کی بھی احادیث موجود ہیں ممکن ہے پہلے اس کی ممانعت تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہاں دم کی ممانعت ہے وہ بھی صرف اس لیے ہو کہ اس طرح اللہ پر توکل کم ہوتا ہو بہرحال جو بھی وجہ ہو اب دم کی اجازت ہے اس پر جو احادیث ہیں وہ پیش کردیتا ہوں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ میری امت میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے جو منتر نہیں کراتے، شگون بد نہیں لیتے ہیں اور (اپنے تمام امور میں جن کا تعلق خواہ کسی چیز کو اختیار کرنے سے ہو یا اس کو چھوڑنے سے) صرف اپنے پرودگار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
حضرت مغیرہ ابن شعبہ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا جس شخص نے داغ دلوایا یا منتر پڑھوایا تو وہ تو کل سے بری ہوا ( احمد ترمذی ابن ماجہ )
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے جھاڑپھونک کے ذریعہ نظر بد ،ڈنک اور نملہ کا علاج کرنے کی اجازت دی ہے ۔" (مسلم )
اسی طرح اور بھی دم کے متعلق احادیث موجود ہیں ان سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بہتر عمل یہی ہے کہ انسان اللہ پر ہی بھروسہ رکھے مگر اگر کسی کا توکل اللہ پر کم ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ وہ  دم کرواسکتا ہے جو شرک سے پاک ہو مگر گلے میں تعویذ لٹکانے اور ہاتھ یا پاوں میں دم کیا گیا دھاگہ باندھنے یا کڑا اور چھلہ پہننے کی کہیں بھی اجازت نظر نہیں آتی بلکہ اس کی ممانعت ہی ملتی ہے اب وہ احادیث پیش کرتا ہوں جن میں ان عملیات کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا آپ ﷺنے اس سے دریافت کیا یہ کیا ہے اس نے عرض کی کمزوری سے نجات کے لیے پہنا ہے آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ اسے اتار دو اس لیے کہ یہ تمہیں کمزوری کے علاوہ کچھ نہ دےگا اور اگر اسے پہنے ہوئے مرگیا تو تم کبھی نجات نہ پاؤ گے۔(مسند احمد)
اس حدیث میں نبی علیہ السلام نے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ اگر اس کو پہنے ہوئے مرگیا تو کبھی نجات نہ پاو گے، اور آپ نے اوپر ایک حدیث پڑھی ہے کہ جس میں دم کا ذکر کیا گیا تھا جو کہ دورِ جاہلیت کا تھا اس کے خلافِ شرع الفاظ کو ختم کرکے باقی کو قائم رکھا مگر یہاں آپ دیکھیں کہ اس کی بالکل ہی اجازت نہیں دی گئی ہے اور جس شخص نے وہ چھلہ پہنا تھا وہ مسلم تھا مگر ابھی اس معاملے کو جائز سمجھ کر چھلہ پہنے ہوئے تھا مگر آپ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمادی اب تاقیامت اس کی ممانعت ہی ہے،چھلہ بھی تعویذ کی طرح ہوتا ہے جو پہناجاتا ہےتعویذ وہ ہوتا ہے کہ جس پر قرآن کی آیات یا کچھ اور لکھ کر گلے میں لٹکایا جاتا ہے اور چھلہ یا کڑا وہ ہوتا ہے جس پر دم کیا جاتا ہے اور پھر اس کو پہنا جاتا ہے یا پھر اس  کی نسبت کسی دربار کی طرف کی جاتی ہے اور اس چھلے یا دھاگے  پر توکل کیا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ ہم کو شفاء دے گا جبکہ ایسا قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے۔
مسند احمد میں ہی ایک اور روایت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کی ہے کہ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے تعویز باندھا اللہ اس کا مقصد پورا نہ کرے اور جس نے کوڑی گلے میں لٹکائی اللہ اس کو آرام نہ دے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کیا۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بیوی زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری گردن میں دھاگہ پڑا ہوا دیکھا توپوچھا یہ کیاہے ؟ میں نے کہا یہ دھاگہ ہے جس پر میرے لئے منتر پڑھا گیا ہے (یعنی منتروں کے ذریعہ اس دھاگے کا گنڈہ بنوا کر میں نے اپنے گلے میں ڈال لیا ہے ) زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (یہ سن کر ) اس دھاگے کو (میری گردن سے ) نکال لیا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور پھر کہا کہ اے عبد اللہ کے گھر والو ، تم شرک سے بے پرواہ ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بلا شبہ منتر منکے ، اورٹوٹکے شر ک ہیں ۔ میں نے کہا آپ یہ بات کس طرح کہہ رہے ہیں (یعنی آپ گویا منتر سے اجتناب کرنے اور توکل کو اختیار کرنے کی تلقین کررہے ہیں جب کہ مجھ کو منتر سے بہت فائدہ ہواہے ) چنانچہ میری آنکھ (درد کے سبب ) نکلی پڑی تھی اور میں فلاں یہودی کے ہاں آیا جایا کرتی تھی اس یہودی نے جب منتر پڑ ھ کر آنکھ کو دم کیا توآنکھ کو آرام مل گیا ۔ حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ (یہ تمہاری نادانی وغفلت ہے ) اور وہ درد اس کا اچھا ہوجانا منتر کے سبب سے نہیں تھا بلکہ (حقیقت میں ) وہ شیطان کا کام تھا ،شیطان تمہاری آنکھ کو کونچتا تھا (جس سے تمہیں درد محسوس ہوتا تھا) پھر جب منتر پڑھاگیا تو (چونکہ وہ ایک شیطان کا کام تھا اس لئے ) شیطان نے کونچنا چھوڑ دیا ، تمہارے لئے وہ دعا بالکل کافی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے کہ ۔ اذھب الباس رب الناس واشف انت الشافی لاشفا ء الا شفائک شفاء لا یغادر سقما (یعنی اے لوگوں کے پروردگار توہماری بیماری کو کھودے اور شفا عطا فرما (کیونکہ ) توہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے علاوہ شفا نہیں ہے ، ایسی شفا جو بیماری کو باقی نہ چھوڑے ! ۔" (ابو داؤد )
ابن ابی حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں گنڈا::دم کیا ہوا دھاگہ:: بندھا ہوا دیکھا جو اس نے بخار دور کرنے کے لیے باندھا تھا آپ اس دھاگے کو کاٹ دیا اور قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی
وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ   ،
ترجمہ:ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔یوسف:۱۰۶
حضرت عیسی ابن حمزہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت عبداللہ بن عکیم کے پاس گیا تو دیکھا کہ ان کا بدن سرخی کی بیماری میں مبتلا تھا میں نے کہا کہ آپ تعویذ کیوں نہیں باندھ لیتے؟ انہوں نے کہا کہ میں اس کام سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ۔کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص کوئی چیز لٹکاتا ہے یا (باندھتا ہے ) تواسی چیز کے سپر د کردیا جاتا ہے۔ " (ابو داؤد )
ان سب احادیث کا مطالعہ کرنے سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ دم درود کیا جاسکتا ہے قرآن کی آیات سے بےشک قرآن میں لوگوں کے لیے شفاء ہے اور یہ شفاء دلوں کی بیماریوں اور جسم کی بیماریوں کے لیے بھی ہے، مگر اس کا طریقہ ہم نے وہی لینا ہے جو نبی ﷺنے ہم کو بتایا ہے اپنے پاس سے کوئی نیا طریقہ نہیں بنانا جو کہ بدعت ہوگی بلکہ تعویذ کا باندھنا انسان کو شرک کا مرتکب بنا دیتا ہے اور جب کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی آیات کا دم کیا جائے نہ کہ قرآن کی آیات کو لکھ کر یا ان آیات کو ہندسوں میں لکھ کر گلے میں باندھا جائے، بلکہ ان آیات کو ہندسوں::علم الاعداد:: میں لکھ کر گلے میں ڈالنے کو دوگنی گمراہی سمجھتا ہوں کیونکہ اس شخص نے قرآن کے الفاظ کو بدلا ہے اور ان آیات کو ایسے طریقے سے لکھا ہے جو کہ جہالت سے کم نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کو بدلنے کے برابر ہے کہ ہندسوں میں سورت فاتحہ لکھ کر کہا جائے کہ یہ قرآن کی سورت فاتحہ لکھی ہوئی ہے یہ طریقہ جاہل عجمیوں کا ہےجو قرآن و حدیث کے علم سے بےبہرا تھے یا وہ دین اسلام میں اپنی اپنی مرضی کرکے دین کو بدلنا چاہتے تھے جیسا کہ ایسا ہوچکا ہے کہ لوگ ہر ایسی بات کو جو قرآن اور صحیح حدیث کے خلاف بھی کیوں نہ جاتی ہو اسلام سمجھتے ہیں اور اس پر ایسے ہی عمل کیا جاتا ہے جیسے اس کام کا حکم نبیﷺنے دیا ہو۔
اللہ ہم سب کو جدید اور قدیم ہر طرح کی جہالتوں اور گمراہیوں سے بچائے اور قرآن و سنت کا پابند بنائے آمین۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دُعا ہے کے وہ ہم کو سچا اور پکا مسلمان بننے کی توفیق عطاء فرمائے آمیں ثم آمین۔۔۔
جاری ہے.....
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...