Monday 28 November 2016

پچاس خامیاں جو آپ کو خوبیاں لگتی ہیں

پچاس خامیاں جو آپ کو خوبیاں لگتی ہیں
(انتخاب:عمران شہزاد تارڑ)
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے؟؟؟
* آپ زندگی میں اس سے بہتر مقام پر ہو سکتے تھے جہاں آج ہیں۔
* کیا آپ کو اپنا آج گزرا کل سے بہتر معلوم ہوتا ہے- اگر نہیں ! تو کیوں؟؟
* کیا آپ کی ناکامیوں کے ذمے دار محض بیرونی عوامل ہی ہیں؟
* کہیں آپ کی اپنی ذات ان ناکامیوں کا سبب تو نہیں؟؟
* اگر ہاں ! تو ان ناکامیوں کی وجوہات کیا ہیں؟
* کہیں ان وجوہات کا پس منظر وہ خامیاں تو نہیں جن کو آپ اپنی خوبیاں سمجھتے آئے ہیں؟؟
بری عادات اور خامیاں کیا ہیں ؟
عادت کیا ہے؟ What is habit
آکسفورڈ ڈکشنری کیمطابق:
“A settled or regular tendancy or practice,especially one that is hard to give up”خامی کیا ہے؟ What is a shortcoming/demerit?A fault or failure to meet a certain standard, typically in a person’s character, a plan, or a system
ہمارا رویہ یا وہ شخصی عمل جو بلا ارادہ بار بار سرزد ہو عادت کہلاتا ہے۔ہمیں اپنی زیادہ تر بری عادات کا احساس و ادراک نہیں ہوتا۔کیونکہ ہمیں اپنی ذات کا تجزیہ کرنے کی بھی عادت نہیں ہوتی۔نیز بری عادات پر قابو پانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ اچھی عادتوں کو اپنانا۔تاہم بری عادات کا ادراک ہو جانے کے بعد بھی اگر ان کو دور کرنے کے کوشش نہ کی جائے تو خامیوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ہماری شخصیت اور رویے میں موجود وہ نفسیاتی نقائص،کمیاں اور کوتاہیاں جو ایک معیاری شخصیت و کردار کی تعمیر میں رکاوٹ بن جائیں خامیاں کہلاتی ہیں۔عادتوں سے چھٹکارا پانا بعض اوقات ہمارے بس میں نہیں ہوتا اور ہم اپنی زیادہ تر عادتوں سے آشنا بھی نہیں ہوتے۔کیونکہ وہ ہمارے ارادے و اختیار کی تابع نہیں ہوتیں۔ جبکہ اپنی خامیوں سے کسی حد تک آگاہ ہوتے ہیں۔ہماری عادات ٹائم اور سپیس کی قید سے آزاد ہوتی ہیں۔جبکہ خامیوں کا اظہار ایک مخصوص ماحول کا تابع ہوتا ہے۔جیسے ہی وہ مخصوص ماحول میسر آتا ہے متعلقہ خامی کا سوئچ آن ہو جاتا ہے۔اور آپ اس کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ہر شخص اپنی خوبیوں اور خامیوں کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے،جیسے ہمارے چہرے اور آوازیں مختلف ہوتی ہیں۔تاہم ایک ہی ماحول میں رہنے والے افراد میں اکثر بہت سی خوبیاں اور خامیاں مشترک ہوتی ہیں۔کیونکہ ماحول ہمارے رویے کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔بہرحال زندگی عادات واطوار کا مجموعہ ہے۔آپ کتنے کامیاب یا ناکام ہیں اور کتنے خوش یا ناخوش ہیں اس کا تانا بانا کہیں نہ کہیں آپ کی عادات و اطوار اور خوبیوں اور خامیوں سے جڑا ہے۔
وجوہات:
* ہماری کچھ خامیوں کی وجوہات موروثی بھی ہوتی ہیں۔یہ خامیاں ہمیں ورثہ میں ملتی ہیں ۔تاہم ایک سمجھدار انسان اپنی شعوری کوشش اور Learned Behaviour کے ذریعے اپنی خامیوں پر قابو پا سکتا ہے۔
* اصل میں ماحولیاتی عناصر ہی شخصیت ورویے تشکیل دیتے ہیں۔ایک سلجھے ہوئے ماحول میں پلنے والے بچے یقیناً عمدہ شخصیت کے مالک ہوتے ہیں ۔
* اچھائی و برائی میں فرق کرنے کی قابلیت کا فقدان بھی شخصیت میں بری عادات اور خامیوں کو جنم دیتا ہے۔
* بعض اوقات بچوں کا ناپختہ ذہن کسی کی شخصیت سے متاثر ہو کر اس کی خامیوں کو بھی خوبیاں سمجھ کر اپنا لیتا ہے۔اور پھر یہ خامیاں رفتہ رفتہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔
* مسلسل ذہنی دباؤ اور نفسیاتی الجھنیں بھی اکثر انسانی شخصیت کو مطلوبہ معیار تک نہیں پہنچنے دیتیں۔یہاں ہم نے ان چند خامیوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے جو ہمارے معاشرے میں بہت عام ہیں اور ہماری اکثر نفسیاتی ومعاشرتی الجھنوں اور مسائل کی وجہ بھی ہیں۔مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم ان خامیوں کو اپنی خوبیاں سمجھتے ہیں اور کبھی ان کو ترک کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ ان پر پوری زندگی فخر کرتے رہتے ہیں یہ سمجھنے کی کوشش کیے بغیر کہ یہ آپ کے ارد گرد کے لوگوں کے ذہنوں میں آپ کا کیا تاثر قائم کرتی ہیں اور کیا معاشرہ آپ سے ان کا تقاضا بھی کرتا ہے کہ نہیں؟
1: انا پرستی(صرف ’میں‘)
اپنی ذات کو اتنی اہمیت دینا کہ دوسروں کا وجود ہی دکھائی نہ دے،خود کو دوسروں سے الگ تھلگ کوئی بہت ہی اونچی چیز سمجھنا۔ہمارے معاشرے میں پائی جانیوالی ایک اہم خامی ہے۔ان پڑھ طبقہ خاص طور پر دیہات کے لوگ اسے اپنی بہت بڑی خوبی تصور کرتے ہیں۔یہ طبقاتی تقسیم کی ایک بڑی وجہ ہے۔
2: خود کو نفسیات دان سمجھنا
خود کو دوسروں کی سوچ سے واقف سمجھنا اور محض چند جملوں میں ہی ان کی سوچ سمجھ کا ایکسرے کر لینا ہمارے معاشرے کے اکثر افراد کی اہم خاصیت ہے۔یہ لوگ خود کو بہت عقلمند سمجھتے ہیں اور دوسروں کی رائے اور خیالات کو سنے اور سمجھے بغیرمحض اپنی سوچ اور رائے کے مطابق ان کو پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔سوچیں ذرا زندگی نے کتنی بار آپ کو دوسروں کے فیصلوں کا اختیار دیا اور کتنی بارآپ نے دوسروں کی رائے اور اہمیت کو محض اس لئے رد کر دیاکہ آپ حد سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار ہونے کی وجہ سے پہلے ہی سب کچھ سمجھ چکے تھے اورکسی دوسرے کی رائے کی اہمیت ہی نا تھی۔ اور پھرکتنی بار آپ کو اپنی اس سوچ پر پچھتانا پڑا؟
3: قوتِ برداشت کی کمی
’میں کسی کی بات کو برداشت نہیں کرتا‘یہ وہ جملہ ہے جو اکثر بڑے فخر سے بولا جاتا ہے۔اسی قوتِ برداشت کی کمی نے ہمارے معاشرے میں بے پناہ مسائل کو جنم دیا ہے۔مگر ہمارا جہالت کا شکار اکثر لوگ اسے اپنی خوبی سمجھ کر غیر ضروری مسائل کا شکار رہتا ہے۔
4: کسی کو اہمیت نہ دینا
’میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا‘ہم اکثر اوقات بڑے فخر کیساتھ یہ جملہ یا اس سے ملتا جلتا کوئی جملہ سنتے ہیں یا ادا کرتے ہیں اس کے نتائج کی پرواہ کیے بغیر۔کیونکہ یہ ہمیں اپنی خوبی لگتا ہے اپنی ناسمجھی کی بنا پر یا پھر شاید بے پناہ مسائل اور الجھنوں کے شکار اس معاشرے نے ہم سے جینے کی صیح قدروں کا شعور ہی چھین لیا ہے۔
5: خود کو بہت مصروف شخصیت سمجھنا
’میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے‘ یہ روز مرہ کا جملہ ہے اور خود کو دنیا کی مصروف ترین شخصیت سمجھنے کی نشانی ہے۔یہ جملہ ہم اکثر اپنے قریبی لوگوں سے کہتے ہیں بڑے فخر کے ساتھ حالانکہ یہ کوئی خوبی نہیں ہے۔افراد زندگی کی اس زنجیر میں کڑیوں کی مانند ہیں جو ایک دوسرے پر حق رکھتی ہیں۔یہ جملہ ان فرائض کی ادائیگی سے انکار ہے معاشرتی زندگی جن کا آپ سے تقاضا کرتی ہے۔
6: اپنی غلطی کی معافی نہ مانگنا
’میں نے ’سوری‘ کہنا نہیں سیکھا ‘۔کیا یہ کسی انسان کی خوبی ہو سکتی ہے؟بالکل نہیں۔کتنے ہی ایسے مسائل ہیں جن کا حل محض اپنی غلطی کو تسلیم کر لینے کا منتظر ہوتا ہے۔کتنے ہی ایسے تعلقات ہیں جن کے بگاڑ کا سبب محض اپنی غلطی تسلیم نہ کرنے کا رویہ ہے۔آپ جسے اپنی بہت بڑی خوبی سمجھتے ہیں۔
7: منہ پر بات کہہ دینا
’میں تو منہ پر بات کر دیتا ہوں کسی کو اچھی لگے یا بری ‘ ۔اپنی اس خامی کی وجہ سے ہم کتنی ہی بار دوسروں کی دل آزاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔کیا کسی انسان کی شخصیت بے عیب ہو سکتی ہے؟ بالکل بھی نہیں۔مگر کیا کسی کے عیب یا غلطی کو سرِعام بیان کر دینا اخلاقی جرم نہیں؟؟کیا یہ واقعی ایسی خوبی ہے جس پر فخر کیا جائے؟؟
8: غصیلا پن
غصے کا بے دریغ اور بے کنٹرول اظہار کرنااور غصے کی حالت میں گفتگو اور تہذیب کے تمام تقاضوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیناہمارے معاشرے کے جاہل طبقے کی بہت قابلِ فخر خوبی ہے۔یہ اپنے ارد گرد کے لوگوں پر دھونس جمانے اور ان پر رعب جھاڑنے کی ایک انتہائی قابلِ رحم کوشش ہے۔سوچیں کوئی کب تک آپ کے رعب داب اور غصے کو سہہ سکتا ہے؟جب تک وہ اسے سہنے پر مجبور ہے؟؟اس کے بعد آپ کے غصے کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟؟ اگر دوسروں کو اپنے رعب و دبدبے اور کنٹرول میں رکھنا ہی مقصد ہے تو کیا اس غیر ضروری غصیلے پن کا کوئی متبادل نہیں ہے؟؟
9: ضرورت سے زیادہ خود مختاری
میں کسی کو جواب دینے کا پابند نہیں،میں جو چاہوں کروں،میری مرضی۔اس طرح کے بیشتر جملے ہمارے کان اکثر سنتے ہیں اور ہمارے منہ سے ادا بھی ہوتے ہیں۔نئی جنریشن میں یہ خامی بکثرت پائی جاتی ہے۔مگر لوگ اسے اپنی خوبی سمجھتے ہیں جو بہت سے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کی جڑ ہے۔
10: اکھڑ مزاجی
بلا وجہ چڑچڑے پن کا اظہار،چھوٹی سی بات پر غصے میں آجانااور اثرات و نتائج کا احساس کئے بنا اپنے غرور و تکبر میں کچھ بھی کہہ دینا،چھوٹے بڑے کا لحاظ نہ کرنا کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ لوگوں کی نشانی ہے۔خاص طور پر اکثر دیہات میں رہنے والے اخلاقی تعلیمات سے بے بہرہ افراد اسے اپنی خوبی سمجھتے ہیں۔اور بڑے فخر کیساتھ معاشرے میں اس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔
11: اپنے کام سے کام رکھنا
’میں تو اپنے کام سے کام رکھتا ؍رکھتی ہوں‘۔یہ جملہ آپ کی خوبی نہیں بلکہ خامی کا اظہار کرتا ہے۔کیا آپ اس دنیا میں نہیں بستے ؟کیا ارد گرد کے لوگوں سے آپ کا تعلق نہیں؟کیا آپ معاشرے کا حصہ نہیں؟ ہو سکتا ہے آپ کسی کی مدد کر سکتے ہوں،ہو سکتا ہے کسی کے اہم مسئلے کا حل آپ کی توجہ اور رہنمائی سے ہی جڑا ہو۔تو کیا آپ غفلت کے مرتکب نہیں ہو رہے؟؟
12: ہار نہ ماننا
’میں نے جھکنا نہیں سیکھا‘ ۔کتنے ہی مسائل کی جڑ ہے یہ سوچ ہم جس پر فخر کرتے ہیں۔اس خوبی کو اگر ہم نے اپنایا نہ ہوتا تو کتنے ہی مسائل پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہو سکتے تھے۔چلیں یہ خوبی ہی سہی! لیکن کیا آپ نے اس کا غلط استعمال کر کے اسے اپنی خامی تو نہیں بنا لیا؟
13: درویش مزاجی
’بھئی میں تو درویش مزاج آدمی ہوں ایسے ہی رہتا ہوں‘ ، ’ہم تو ہر حال میں گزارہ کر لیتے ہیں‘ اکثر لوگ اسے اپنی قابلِ تعریف خوبی سمجھتے ہیں۔یاد رکھیں کوئی بھی چیز حد سے بڑھ جائے تو خامی بن جاتی ہے۔
14: خود کو بہت چالاک سمجھنا
اکثر لوگ خود کو نہ صرف بہت چالاک سمجھتے ہیں بلکہ اس چالاکی کو اپنی بہت بڑی خوبی بھی سمجھتے ہیں۔خود کو چالاک سمجھنے کا مقصد ہے دوسروں کو بیوقوف سمجھنا۔عقلمندی انسان کی خوبی ہو سکتی ہے مگر چالاکی نہیں۔
15: خود کو بہت معصوم سمجھنا
اگر خود کو بہت چالاک سمجھنا ایک خامی ہے تو خود کو بہت معصومیت کا مالک سمجھنا بھی ایک خامی ہے۔زندگی ایک مناسب ذہانت اور عقل وشعور کا تقاضا کرتی ہے جس کی عدم موجودگی مسائل کو جنم دیتی ہے۔اگر آپ خود کو ایسا سمجھتے ہیں تو آج ہی سے اس خامی کے تدارک کی کوشش کیجیئے کیونکہ اس خامی کی موجودگی کبھی آپ کی شخصیت کو ایک بہتر درجے تک نہیں پہنچنے دیتی۔
16: گرج دار آواز میں بات کرنا
اکثر لوگ گرج دار آواز میں بات کرنیکی کوشش کرتے ہیں کہ شائد وہ اس طرح اپنی شحصیت کا زیادہ بہتر تاثر دے سکتے ہیں۔ایک گرجدار آواز کسی کی شخصیت کی خوبی نہیں ہو سکتی ۔بلکہ اپنی قدرتی آواز میں سلیقے سے بات کرنا ہی آپ کا خوب صورت اندازِ گفتگو ہو سکتا ہے اور آپ کی شخصیت کو ایک پراثر انداز دے سکتا ہے نہ کہ اپنے قدرتی لہجے کا بگاڑ۔
17: غرور و تکبر
اکثر لوگ غرور و تکبر کو نہ صرف اپنی خوبی بلکہ نسلی طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں۔محترم! زمانہ بدل چکا ہے ۔لوگوں کی سوچ بدل گئی ہے۔علم و آگہی نے خوبیوں اور خامیوں کو پرکھنے کے خود ساختہ اور غیر معیاری پیمانوں کو رد کر دیا ہے۔اس سرد پہاڑ کی چوٹی سے نیچے اتر آئیے اور حقیقت کی دنیا میں قدم رکھیے۔جہاں آپ کی اس خوبی کے لئے اب کوئی جگہ نہیں ہے۔
18: ضرورت سے زیادہ نفاست پسندی
کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ نفاست پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اسے اپنی خوبی سمجھتے ہیں۔یاد رہے اس خوبی کا غیر ضروری اظہار آپ کی شخصیت کی خامی بن جاتا ہے اور محض دوسروں سے منفرد نظر آنے کی ایک کوشش۔
19: ضدی طبیعت
اپنی بات پر اڑ جانا اور حالات کے تقاضوں کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا۔کیا یہ کسی کی خوبی ہو سکتی ہے؟یہ بہت بڑی خامی ہے ۔ہم میں سے اکثر لوگوں کوصرف اپنی بات منوانے کی عادت ہوتی ہے اور وہ اسے قابلِ فخر عادت سمجھتے ہیں۔ہمارے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو اس محض اس عادت کی پیداوار ہیں۔
20: حد سے زیادہ کم گوئی
کبھی اپنی شخصیت دوسروں سے کمتر محسوس ہونے لگے تو ہم لاعلمی اورناسمجھی کی وجہ سے اکثر خامیوں کو اپنا کر اس کمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ضرورت سے زیادہ کم گوئی بھی شائد انھی خامیوں میں سے ایک ہے۔مگر ایک بات تو واضح ہے کہ خامیوں کو خوبیاں بنانے کی کوشش کرناکسی طرح بھی سود مند نہیں ہو سکتا ۔ہاں مگر خامیوں کو دور کر دیا جائے تو خوبیوں کے لئے جگہ ضرور بن جاتی ہے۔
21: بہت زیادہ تکلف برتنا
اکثر لوگ دوسروں سے میل جول میں بہت زیادہ تکلفانہ رویہ اپناتے ہیں کہ شائد یہ انھیں اپنی خوبی لگتی ہے۔بالکل نہیں۔ یاد رکھیں اپنی شخصیت کے اس طرح قائم کردہ امیج کو فریم کر کے دیوار پر تو لگایا جا سکتا ہے مگر سوشل لائف میں یہ امیج غیر ضروری فاصلوں کو جنم دیتا ہے۔
22: ضرورت سے زیادہ محنت کرنا
ہر وقت کام میں لگے رہنا اورتفریح اور آرام کے لئے بھی مناسب وقت نہ نکالنا۔آپ کی اس خوبی کافائدہ دوسروں کو تو ہو سکتا ہے لیکن یہ آپ کے حق میں بہت نقصان دہ ہے۔اور جو چیز کسی ایک کے لئے بھی نقصان دہ ہو وہ خوبی نہیں کہلا سکتی۔اگر آپ بھی اس خوبی میں مبتلا ہیں تو آج ہی اسے ترک کر دیجیئے کہ Excess of everything is bad” ”
23: تنہائی پسندی
اپنے عزیزوں رشتہ داروں ،اور ارد گرد رہنے والے لوگوں سے مناسب اور خوشگوار تعلقات بہت اہمیت رکھتے ہیں کہ انسان ایک سوشل اینیمل ہے۔اس کے باوجود یہ جملہ اکثر سننے میں آتا ہے ’مجھے رشتے داروں سے زیادہ میل جول پسند نہیں‘ یا ’میں زیادہ آنا جانا پسند نہیں کرتا؍کرتی‘۔دوسروں کے معاملات میں غیرضروری مداخلت نہ کرنا بے شک ایک قابلِ تعریف خوبی ہے ۔مگر ارد گرد کے لوگوں،عزیزوں اور رشتہ داروں سے میل جول نہ رکھنا اور خود کو اپنے محدود ماحول میں قید کر لینا ایک بہت بڑی خامی ہے۔
24: بہت زیادہ گھل مل جانا
اگر اپنی ذات تک محدود ہو جانا ایک خامی ہے تو پل بھر میں گھل مل جانا اس سے بھی بڑی خامی ہے۔مگر اکثر لوگ اسے اپنی خوبی سمجھتے ہیں اور اجنبیوں کے ساتھ بھی پل بھرمیں شِیرو شکر ہو جاتے ہیں۔خود کو ایک حد سے زیادہ سوشل بنانے کی کوشش کرنا اکثر نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔
25: صفائی سے جھوٹ بولنا
اکثر لوگ جھوٹ بولنے میں ماہر ہوتے ہیں اور بڑی صفائی سے جھوٹ بول کر دوسروں کو چکمہ دے جاتے ہیں۔واقعے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ اس مہارت کو اپنی خوبی سمجھتے ہیں۔اگر آپ کے اندر بھی یہ خوبی موجود ہے تو کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ خوبی آپ کو دوسروں کی نظروں میں گرا سکتی ہے۔یاد رکھیئے سچ کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔یہ اپنی ذات میں دنیا کی سب سے خالص شے ہے۔
26: دوسروں پر تنقید کرنے کی عادت
اکثر لوگ بلا وجہ تنقید کے عادی ہوتے ہیں اور ہر معاملے میں تنقید کا کوئی موقع ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔شاید یہ دوسروں کی خامیوں کو اپنی خوبیوں کے طور پر ظاہر کرنے کی ایک کوشش ہے۔مگر یہ ایک قابلِ تعریف کوشش نہیں ہے نہ یہ کوئی خوبی ہے۔ہر ایک کی اصلاح کرنے کی کوشش سے بہتر ہے خود اپنی اصلاح کر لی جائے۔
27: خود کو عقلِ کل سمجھنا
اگر کچھ لوگ خود کو بہت چالاک سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ خود کو بہت زیادہ عقل و شعور کا مالک بھی تصور کرتے ہیں اور ان کے پاس دنیا کے ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے۔یہ ہر مسئلے پر بحث کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہر نقطے کو واضح انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر بحث ومباحثے میں الجھے رہتے ہیں۔یہ کسی کی خوبی نہیں بلکہ بہت بڑی خامی ہوتی ہے۔یہ عادت اگر مسلسل برقرار رہے تو نہ صرف دوسروں کے لئے بلکہ خود کے لئے بھی تکلیف دہ بن جاتی ہے۔
28: ضرورت سے زیادہ ماڈرن خیالات
ترقی پسندانہ سوچ قابلِ تعریف ہے۔مگر اکثر لوگ خاص طور پر نیو جنریشن اپنے انداز و اطوار اور رہن سہن میں بعض اوقات ضرورت سے زیادہ ماڈرن ازم کی طرف مائل نظر آتی ہے اور بلا جھجک اپنی اس خوبی کا اظہار کرتی ہے ۔مگر ہمارے معاشرتی رسم و رواج اور تہذیبی قدروں میں ترقی پسندی کے لئے تو جگہ بن سکتی ہے مگر ایک حد سے زیادہ ماڈرن خیالات قابلِ قبول نہیں ہیں۔
29: اپنی بے حسی پر فخر کرنا
ہم میں سے اکثر لوگ بعض اوقات خود غرضانہ اور بے حسی پر مبنی رویے کا اظہار بڑے فخر سے کرتے نظر آتے ہیں۔شاید یہ تاثر دینے کے لئے کہ وہ بہت پریکٹیکل یا عملیت پسند ہیں اور یہ کہ جذبات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اگر ایسا ہے تو یہ ایک فاش خامی ہے جسے آپ اپنی خوبی سمجھتے ہیں۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے ایک کامیاب زندگی کی عمارت خوشی،غم،دکھ درد،میل جول اور احساسِ ذمہ داری جیسے جذبوں کے میٹیریل سے ہی تعمیر ہوتی ہے۔
30: ضرورت سے زیادہ بہادری دکھانا
بہادری ایک خوبی ہے ۔لیکن ضرورت سے زیادہ بہادری دکھانا آپ کی خوبی نہیں بلکہ خامی ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر بجلی کے آلات کے استعمال میں احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنا ،انتہائی تیز رفتار میں ڈرائیونگ کر کے دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرنا یا ون ویلنگ جیسے خطرناک کھیل ۔یہ سب ضروت سے زیادہ اور بلا وجہ بہادری دکھانے کی کوششیں ہیں جنھیں اکثر لوگ اپنی خوبی سمجھتے ہیں مگر یہ خوبیاں اکثر مہنگی پڑ جاتی ہیں۔
31: بلا وجہ ہنسنا
ہنسنا مسکرانا بہت اچھی بات ہے۔مگر بے موقع اور بے وجہ ہنسنا یا ہنسنے کی کوشش کرنا کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں۔اگر آپ اس عادت میں مبتلا ہیں تو آج ہی سے اسے ترک کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ آپ کی شخصیت کا ایک پوزٹیو امیج غیر ضروری خوش مزاجی سے زیادہ اہم ہے
32: دوسروں کے عیب تلاش کرنا
جہالت کے شکار طبقے میں یہ خامی بکثرت پائی جاتی ہے لیکن وہ اسے اپنی بہت بڑی خوبی سمجھتے ہیں۔دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں پکڑنے میں انھیں بڑی مہارت ہوتی ہے بلکہ یہ ہر وقت دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں ہی لگے رہتے ہیں اور عیب تلاش کر لینے کے بعد اپنے اس کارنامے کو بڑے فخر سے بیان بھی کرتے ہیں۔خاص طور پر یہ خوبی خواتین میں بکثرت پائی جاتی ہے تاہم اکثر مرد حضرات بھی اس میں مبتلا نظر آتے ہیں۔اول تو کسی کی خامیوں کی تلاش ہی ایک غیر اخلاقی حرکت ہے چلیں کوئی خامی آپ کی نظر سے گزر ہی گئی تو کیا اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا؟
یا کیا آپ اس کو سب کے سامنے پرچار کرنے کی بجائے کیا آپ اس خامی کو تنہائی میں ایک مثبت رویے کے ساتھ نہیں بتا سکتے؟ سوچیں اگر کوئی آپ کے عیب ڈھونڈنے لگے تو بھلا کتنے تھیلے بھر جائیں گے؟؟
33: ضرورت سے زیادہ مثبت سوچ رکھنا
کیا آپ اس کو بہت بڑی خوبی سمجھتے ہیں؟مگر یہ تو صرف تصویر کا ایک ہی رخ دیکھنے والی بات ہے۔کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس دنیا میں صرف روشنی کا وجود ہے اور اندھیرے کا نہیں؟یہ سوچ کوئی خوبی نہیں بلکہ ایک قابلِ رحم خامی ہے جو کم از کم اس دنیا کے باسیوں کے لئے توکسی طرح بھی قابلِ ستائش نہیں ۔
34: دوسروں کو ان کی خامیوں سے آگاہ نہ کرنا
بے شک دوسروں کی خامیوں کی تلاش میں رہنا غلط ہے۔لیکن اگر آپ کو کسی خامی کا ادراک ہو اور آپ اسے اس بارے میں آگاہ کرنے یا سمجھانے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود اگنور کر دیں ۔ تو یقین کریں یہ آپ نے کوئی بہت اچھا کام نہیں کیاکہ ہو سکتا ہے وہ اپنے اس عیب یا خامی کا شعور ہی نہ رکھتا ہو اور اس سلسلے میں آپ اس کی مدد کر سکتے ہوں۔اگر ایسا ہے تو آپ غفلت کے مرتکب ہیں نہ کہ کسی اچھائی یا خوبی کے ۔
35: درشت لہجے میں بات کرنا
سرد مہری ،روکھے پن اور سخت لہجے میں لاتعلقی کا تاثر دیتے ہوئے بات کرنا نہ صرف ان پڑھ طبقے میں بلکہ پڑھے لکھے افراد میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے۔شاید یہ اپنی شخصیت کا ایک خود ساختہ امیج بنانے کی کوشش ہے ۔مگر یہ کوئی دیر پا کوشش نہیں ہے اور آپ کی اس خوبی کے اثرات تادیر قائم نہیں رہ سکتے۔
36: خود کو بہت اعلیٰ ذوق کا مالک سمجھنا
اپنے ماحول کے مطابق ہر شخص خوش ذوق ہی ہوتا ہے۔مگر کچھ لوگ خود کو بہت ہی اعلیٰ ذوق کا حامل سمجھتے ہیں اور اسے خوبی سمجھ کر اس خوبی کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔اصل میں خود کو دوسروں کی نسبت بہت اعلیٰ ذوق کا حامل سمجھنے کا مطلب ہے آپ دوسروں کے ذوق کو رد کر رہے ہیں۔تو کیا یہ آپ کی خوبی ہے؟؟
37: ہر ایک کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنا
دوسروں کی مدد کرنا بے شک قابلِ تعریف ہوتا ہے۔مگر اپنی حدود اور دائرہ کار میں رہتے ہوئے۔اور پھر مسائل کا شکار کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی کی مدد لینے کی بجائے اپنی مدد آپ کو ترجیح دیتے ہیں۔ایسے میں مسیحا بننے کی کوشش کرنا کوئی خوبی نہیں کہلا سکتی بلکہ بعض اوقات دوسروں کے مسائل میں بلا وجہ دخل اندازی ہوتی ہے۔
38: بنا کہے بات سمجھ لینا
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ بنا کہے ہی دوسروں کی بات جان لینے کا ہنر رکھتے ہیں۔اپنی اس خوبی کہ اظہار کے لئے اکثر یہ جملہ استعمال کیا جاتا ہے’بس ٹھیک ہے مجھے سمجھ آگئی ہے‘ یا ’مجھے پتہ ہے آپ کیا کہیں گے‘ ۔یا اس سے ملتے جلتے جملے بولے جاتے ہیں۔خیالات کو پڑھ لینے کا فن سیکھنا تو بہت مشکل ہے لیکن اگر آپ میں یہ خوبی قدرتی طور پر موجود ہے تب بھی یقیناً اسے اصلاح کی ضرورت تو ہو گی۔
39: نخرے میں رہنا
ہر وقت نخرے میں رہنا اور دوسروں سے الگ تھلگ اپنا علیحدہ ہی معیار بنائے رکھنا ، بات بے بات ناپسندیدگی اور ناگواری کا اظہار کرنا۔ یہ کوئی قابلِ قدر بات نہیں ہے۔ہم میں سے اکثر افراد جسے اپنی اہم خاصیت سمجھتے ہیں کہ سب کے برابر اور گھل مل کر رہنا ہی خوشگوار ہوتا ہے۔
40: چہرہ دیکھ کر کردار کا اندازہ لگا لینا
’ارے میں نے تو اس کا چہرہ دیکھ کر ہی پہچان لیا تھا کہ کس قسم کا ہے۔ ‘ ہمارے معاشرے میں چہرہ شناسی کا فن بھی بہت عام ہے۔لوگ چہرہ دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کون کیسا ہے۔یہ افسوسناک فن بھی اصل میں خود کو بہت زیادہ چالاک اور ہوشیار سمجھنے کی نشانی ہے۔جناب ! دوسروں کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع تو دیجیئے کہ دنیا کے ہر قانون میں ملزم کو مجرم قرار دینے سے پہلے ایک مناسب کاروائی ضروری ہے اور ملزم کو اپنی صفائی کا موقع دینا اس کاروائی کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے۔تو پھر محض شکل دیکھ کر مجرم یا معصوم قرار دینے کا یہ قانون آپ کیسے وضع کر سکتے ہیں؟؟اگر یہ خوبی آپ کے اندر بھی موجود ہے تو آج ہی سے اس سفاک خوبی کو اپنی زندگی سے نکال دیجیئے کہ یہ معاشرہ جہاں آج بھی سیدھے سادے لوگوں کی اکثریت بستی ہے آپ کی اتنی زیادہ عقل و دانش اور ہوشیاری کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔
41: کھری کھری سنا دینا
’میں نے بھی پھر خوب سنائیں اس کو ،بولتی بند ہو گئی اس کی پھر تو‘ اس جملے کو بھی اکثر بہت بڑی خوبی سمجھ کر بولا جاتا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے تو کیا یہ اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ شاید ہم لوگ خوبیوں اور خامیوں کے درست معیار سے آشنا ہی نہیں ہیں۔ کیا ہمیں درگزر اور معاف کر دینے جیسے سنہری اصولوں سے واقفیت ہی نہیں؟
42: نخوت و غرور کے تاثرات
اکثر لوگ اپنے چہرے پر ہر وقت نخوت و غرور کے تاثرات سجائے رکھتے ہیں کہ شاید اس طرح ان کی شخصیت کا ایک پر رعب تاثر قائم ہو سکے۔مگر یہ تاثرات ہماری شخصیت میں مصنوعی پن تو پیدا کر سکتے ہیں مگر کوئی قابلِ فخر خوبی نہیں بن سکتے۔
43: منتقم مزاجی
ہمارے معاشرے کے نہ صرف جاہل بلکہ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی منتقم مزاجی(بدلہ لینا)کا عنصر بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔بلکہ لوگ اسے اپنی ایک خوبی تصور کرتے ہیں۔لیکن کیا معاف کر دینا اس سے بہتر خوبی نہیں ہو سکتی؟
44: سفاک طبیعت
سفاکی اور اپنے سے کمتر اور کمزور لوگوں پر ظلم ایک انتہائی قابلِ مذمت حرکت ہے ۔مگر افسوس کچھ لوگ اسے اپنی قابلِ فخر خوبی سمجھتے ہیں۔خاص طور پر ہمارے دیہاتی کلچر میں یہ خامی بکثرت پائی جاتی ہے۔لوگوں میں خود کو اعلیٰ و برتر ثابت کرنے کا یہ طریقہ محض ناقص العقلی پر مبنی ہے۔تاہم بعض افراد اپنے اندر موجود احساسِ کمتری کو چھپانے کی خاطربھی یہ خامی اپنا لیتے ہیں۔
45: بولڈنس
ہمارے معاشرے میں یہ بڑی تیزی سے پھیلتا ہوا وائرس ہے ۔خود کو ضرورت سے زیادہ بولڈ اور براڈ مائنڈڈ سمجھنا اور اپنی معاشرتی قدروں کو بھی اسی بولڈنس کی نظر کر دینا ایک خوبی بنتی جا رہی ہے جو بہت سے معاشرتی مسائل اور الجھنوں کی وجہ بن چکی ہے۔
46: ایک دم فیصلہ کر دینا
یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ اپنی قوتِ فیصلہ کا غلط استعمال ہے۔اکثر لوگ اس اپنی بہت بڑی کوالٹی سمجھتے ہیں۔اس خوبی کو ترک کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو اکثر اوقات بڑے نقصان کا سبب بنتی ہے۔
47: ضرورت سے زیادہ عاجزی ظاہر کرنا
اکثر لوگوں میں ضرورت سے زیادہ عاجزی کا مظاہرہ کرنے کی عادت پائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی بہت بڑی خوبی ہے۔بے شک عاجزی ایک اچھی صفت ہے۔مگر کوئی بھی اچھی صفت اگر ایک مناسب حد سے تجاوز کر جائے تو دکھاوے کا تاثر دینے لگتی ہے۔
48: بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرنا
ہر بات کی تہہ میں گھسنے کی کوشش کرنا اور غیر ضروری معاملات کی غیر ضروری چھان بین کی کوشش کرنا بھی ہمارے معاشرے میں بہت عام خوبی ہے۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس خوبی کا استعمال بلا سوچے سمجھے اور بے وجہ کیا جاتا ہے خاص طور پر دوسروں کے معاملات کی چھان بین میں۔اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ کہ اسے اپنی خوبی بھی سمجھا جاتا ہے۔
49: بہت زیادہ خوش مزاجی
خوش مزاجی ایک قابلِ ستائش خوبی ہے بیشک۔مگر کچھ لوگوں میں یہ خوبی ضرورت سے زیادہ ہی پائی جاتی ہے اور وہ اسے اپنی بہت بڑی خوبی سمجھتے ہیں۔ان لوگوں کو حالات وواقعات اور دوسروں کے موڈ اور احساسات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔سنجیدہ معاملات میں بھی یہ لوگ شوخی اور ہنسی مذاق کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ بہت افسوسناک خامی ہے۔
50: خود کو بہت حساس سمجھنا
اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو زندگی دو انتہاؤں میں بٹی نظر آتی ہے۔آر یا پار ،نفع یا نقصان ،مٹی یا سونا،آزادی یا اسیری، دوست یا دشمن ، امیری یا مفلسی،نفرت یا عقیدت اور آج تو نہیں یا میں نہیں ۔کہ شاید مسائل اور الجھنوں نے ہماری فطرت سے اعتدال چھین لیا ہے۔ایک طرف وہ طبقہ ہے جو اپنی ظلم و سفاکی پر نازاں ہے اور اسے کسی کے آنسوؤں سے سروکار ہی نہیں تو دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کے لئے خود اپنے آنسوؤں کی ہی قدرو قیمت نہیں ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنسو بہانا،ذرا سی بات پر روٹھ جانا، کسی کو پریشان دیکھ کر آنسو بہانا، کسی سے اچھائی کرنے پر آمادہ ہونا تو اپنی ذات کو بھی اہمیت نہ دینا۔اور اس پر بھی افسوسناک یہ کہ ان سب باتوں کو اپنی خوبی سمجھنا۔یاد رکھیے خوبیاں ایک حد سے بڑھ جائیں تو خامیاں بن جاتی ہی
51: حد سے زیادہ صفائی پسندی
صفائی ایک بہت اچھی عادت ہے لیکن اگر یہ عادت خبط بن کر ذہن پر سوار ہو جائے تو خامی بن جاتی ہے یا محض دوسروں سے الگ تھلگ نظر آنے کی ایک کوشش۔ہر چیز کا ایک معیار ہوتا ہے اور یہ معیار آپ نہیں بلکہ معاشرہ اور ماحول طے کرتا ہے۔اور اگر یہی معیار اور مناسبت ہی چیزوں کو خوبصورت یا بد صورت بناتی ہے تو پھر اسی معیار کو اپنانا بہتر ہے نہ کہ اپنے پیمانے وضع کر لینا۔
52: خود کو بہت سوشل سمجھنا
ہر ایک سے دوستی کرنے کی کوشش کرنا،اپنے ارد گرد یا فیس بک پر وسیع تعلقات رکھنا ،بلا وجہ محلے داروں اور رشرے داروں کی طرف آنا جانا لگائے رکھنا،اپنے اہم کام چھوڑ کر تقریبات میں شرکت کو اہمیت دینا ۔یہ آجکل ایک بہت بڑی خوبی سمجھی جاتی ہے اور ایسے لوگ خود کو بہت سوشل اور ملنسار سمجھتے ہیں ۔کوئی بھی چیز ایک مناسب حد سے بڑھ جائے تو الجھنیں پیدا کرتی ہے۔اگر اپنے محدود تعلقات کو ہی اچھے طریقے سے برت لیا جائے تو شاید زندگی زیادہ خوشگوار گزر سکتی ہے۔
53: جارحانہ رویہ
ہمارے معاشرے میں جارحیت پسندی بہت عام ہے کیونکہ لوگ اسے اپنی ایک اہم خوبی سمجھتے ہیں۔غصے میں گھر کی اشیاء توڑ ڈالنا ،معمولی تلخ کلامی پرتیش میں آجانا، ہاتھا پائی پر اتر آنا،جو ہاتھ میں آئے دوسروں کو دے مارنا،مولا جٹ اور ہمایوں گُجر کے کلچر کو پروموٹ کرنے کی کوشش کرنا کسی طرح بھی قابلِ تعریف نہیں ہو سکتا۔مگر افسوس ہم میں سے اکثر لوگ خاص طورپر ہمارا پسماندہ اور کم تعلیم یافتہ طبقہ اسے اپنی بہت قابلِ تعریف خوبی سمجھتا ہے۔ہمارے معاشرے کے بہت سے مسائل کی وجہ کیا یہی جارحت پسندی نہیں ہے ؟
54: بہت زیادہ یا بہت کم کھانا
میں تو بہت کم کھاتا ؍کھاتی ہوں‘یا میں نے تو خوب ڈٹ کے کھانا ہے‘ انسان کھانے کے لئے ہی تو پیدا ہوا ہے‘ اس قسم کے جملے اکثر سننے میں آتے ہیں۔کوئی بہت کم کھانے کو اپنی خوبی تصور کرتا ہے اور کسی کو اپنی خوش خوراکی پر ناز ہے۔مگر کیا یہ دونوں خوبیاں اس بات کی دلیل نہیں کہ ہمارا معاشرہ حفضانِ صحت کے معیاری اصولوں سے ہی نا آشنا ہے۔
55: ضرورت سے ذیادہ خوداعتمادی
پر اعتماد شخصیت کامیابی کے لئے بہت ضروری ہے۔لیکن یہی اعتماد اگر ضرورت سے زیادہ ہو جائے توبعض اوقات نقصان میں ڈال دیتا ہے۔تو اگر آپ کے اندر بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے تو اس سے چھٹکارا پا لینا ہی بہتر ہے کیونکہ اکثر ڈوبنے والے لوگ بہت اچھے تیراک ہوتے ہیں۔محترم قارئین!کوئی بھی آئینہ کسی انسان کا اتنا واضح عکس پیش نہیں کر سکتا جتنا کہ اس کا ضمیراور خود احتسابی کی عدالت سے بڑا کوئی منصف نہیں ہوتا۔یہ آرٹیکل معاشرے کو آئینہ دکھانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے کہ شاید کوئی اپنے چہرے پر جمی دھول صاف کرنا چاہتا ہو۔آرٹیکل کو مزید بہتر بنانے کے لئے ہمیں آپ کے قیمتی مشورے کا انتظار رہے گا۔شکریہ!
www.dawatetohid.blogspot.com
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...