Wednesday 23 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،43

اسلام اور خانقاہی نظام

قارئین کرام ! آپ نے ابھی پچھلے صفحات میں ملاحظہ کیا کہ ملتان شروع سے ہی سوریہ ( سورج) دیوتا کی پوجا کا مرکز رہا ہے- اگر آپ ذرا غور کر کے کڑیاں ملائیں تو خود بخود واضح ہو جائے گا کہ کس طرح چالاکی سے ہندو ازم کو اسلام کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے-یہ سورج کنڈ جہاں ہندو ں کے لئے اشنان کرنے کا تالاب بنا ہوا ہے ‘ ہندو عقیدے کے مطابق نرسنگھ اوتار نے پرہلاد بھگت کو کشب سے نجات دلانے کے بعد اپنے ساتھ آئے ہوئے تمام دیوی دیوتاوں سمیت اسی سورج کنڈ کے تالاب سے ہی پانی پیا( جو ملتان شہر سے قریباً تین چار کلو میٹر دورہے) اور اب کہا جاتا ہے کہ شاہ شمس کی کرامت کی وجہ سے یہ علاقہ سورج کنڈ کہلایا- اس کے علاوہ سورج میانی ‘ حرم دروازہ کے اندر مندر توتلاں مائی ریلوے اسٹیشن کے قریب مندر جوگ مایا ( جہاں چیت اور اسوج میں نوراترہ کے میلے لگتے تھے ) ہندو دیوتا شری رام چندرجی کا بیرون دہلی دروازہ ‘ میلسی اور دنیا پور کی سڑکوں کے مقام اتصال پر مندر ” رام تیرتھ “ جہاں بھادوں کے مہینہ میں پورن ساون مل ‘ بیرون ماشی کا میلہ لگتا تھا اور سبزی منڈی کے قریب مندر نرسنگھ پوری ‘ بیرون دہلی دروازہ گیان تھا( جس میں اب مدرسہ خیر المدرس ہے ) بازار چوڑی سرائے میں جین مندراور چوک بازار میں مندر ہنومان جی- یہ تمام ملتان کے مندر اور خاص طور پر شاہ شمس ( سورج ) جس کی کرامتی تصویر ہندوں نے اپنے مندر بمقام سورج کنڈ میں نقش کی ہوئی تھی ‘ سورج پرستی کے دور کی واضح عکاسی کرتے ہیں-ہندو مسلم فسادات کے زمانہ میں مندرجہ بالا مندر خاص طور پر گیان تھلہ ہندوں کے دفاعی قلعوں میں تبدیل ہو گئے تھے-حسب ضرورت ان میں ناجائز اسلحہ جمع رہتا تھا-جس سے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی جاتی تھی-اب ہم مذکورہ بالا شاہ شمس تبریز سبز واری کے دربار پر گئے-یہ شیعہ کے بزرگ ہیں اور انہی کایہاں راج ہے-پنجے اور سیاہ علم دکھائی دے رہے تھے-ان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت ولایت کی بلندیوں کو یہاں تک چھونے لگے کہ ان کے جسم میں جو کیڑے پڑے ہوئے تھے- وہ بھی گرتے تو یہ انہیں اٹھا کر اسکی جگہ پر رکھ دیتے اور کہتے:اپنی خوراک کھاو-
جب گوشت بھوننے کے لئے سورج زمین پر آگیا:یہ جب ایران سے یہاں ملتان میں وارد ہوئے تو کوئی انہیں اپنے قریب نہ آنے دیتا تھا-انہیں جب بھوک لگی تو ان کے ہاتھ میں ایک بوٹی تھی- انہوں نے وہ بھوننا چاہی تو کسی نانبائی نے اپنے تندور کے قریب نہ پھٹکنے دیا-چنانچہ انہوں نے بوٹی آسمان کی جانب کی-....سورج قریب آگیا-بوٹی روسٹ ہونے لگی ....مگر اس کے ساتھ ہی پورا ملتان بھی روسٹ ہونے لگا....اس پر لوگ چیخ وپکار کرتے ہوئے حضرت کے پاس آئے .... فریاد کرتے ہوئے معافی کے خواستگار ہوئے.... اب انہیں پتہ چلا کہ یہ حضرت کس قدر کرنی والے ہی -تو اس کے بعد ان کا نام شمس یعنی سورج ہوگیا- ملتان کاسب سے بڑا تعزیہ حضرت کے دربار سے ہی برآمد ہوتا ہے-اس دربار کی ایک دیوار پرلکھا ہوا تھا: ”یوم انہدام جنت البقیع“ معلوم ہوا کہ یہ دن پچھلے دنوں یہاں منایا گیا ہے- سعودی عرب کے حکمرانوں کو گالیوں سے نوازا گیا ہے ‘ اس لئے کہ انہوں نے بقیع الغرقد میں قبے اور مزارات شریعت کے مطابق برابر کر دئیے تھے-
جب شاہ عبد العزیز نے خانقاہی نظام کے سرداروں کو چیلنج کردیا:شاہ فیصل کے والد سلطان عبدالعزیز رحمہ اللہ نے جب یہ قبے گرائے تھے-تب ہندوستان سے علماء کے کئی وفد سلطان سے ملنے گئے اور درباروں کی از سر نو تعمیر کرنے کی انہیں گزارشات پیش کیں-اس پر کتاب وسنت کے متبع سلطان نے کہا: ” تم قرآن اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے پختہ قبروں کی تعمیر ثابت کر دو-میں سب قبریں سونے کی بنا دوں گا-“یہ جواب سنتے ہی ہندوستان کے درباری علماء اور بڑے بڑے صوفیاء ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے-سب کے مونہوں کو تالے لگ گئے اور سب ہی لاجواب ہوکر ہندوستان کو واپس لوٹے‘ تو اب یہ وہی یوم ہے جو یہاں منایا جا رہا تھا- ہرایک اینٹ پر ایک قرآن:ملتان کا ایک اور دربار حافظ جمال کا ہے- اس دربارکے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی ہر اینٹ پر ایک قرآن ختم کیا گیا ہے اور پھر ان اینٹوں سے یہ دربار بنایا گیا ہے- یقین جانیئے ! اس دربار کے بارے میں یہ سن کرمیں حیران رہ گیا اور ان درباری پیروں کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکا کہ انہوں نے اپنی تجوریوں کے بھرنے کو کیا کیا سوانگ رچا رکھے ہیں- اور کس قدر نام نہاد مقدس پردے ان سوانگوں پہ اوڑھ رکھے ہیں-اب پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ قرآن بھلا اینٹوں پر پڑھنے کو آیا ہے ....؟ وہ اینٹیں کہ جنہیں ایک ایسی قبر کا حصہ بننا ہے کہ جسے لوگوں سے پجوانا مقصود ہے-حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ” نَھَی رَسُولُ اللَّہِ اَن یُّجَصِصَ القَبرُ “ ” قبر کو پختہ کرنے سے منع فرما دیا ہے-“(صحیح مسلم : کتاب الجنائز باب النہی عن تجصیص القبر و البناءعلیہ )مگر داد دیجئے ! ان قبروں کی کمائی کھانے والوں کو کہ کس طرح ہوشیاری اور چالاکی سے انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو جھٹلایا-اور ان کے فریب کو داد دیجئے کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی جھٹلایا اور پھر اپنی بدعت کو قرآن خوانی کے مقدس پردے میں ملفوف بھی کردیا-قارئین کرام ! یہ بات یاد رکھ لیجئے کہ جس کام سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منع فرما دیں - وہ کام بھی مردود ہے-اس کام پر لاکھ ہو شیاری اور چالاکی سے تقدس کا پردہ اوڑھنے کی کوشش کی جائے ‘وہ کام بہرحال مردود ہی رہے گا-شراب کی بوتل پر ایک لاکھ دفعہ قرآن پڑھ دیا جائے ‘وہ حرام ہی رہے گی - اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیاہے-سود کے نوٹوں پر اور رشوت کے پیسوں پر ایک کروڑ قرآن پڑھ کر ختم دے دیا جائے تب بھی یہ سود سود ہی رہے گا-رشوت رشوت ہی رہے گی-ایسے ہی پختہ قبر پر یا مزار پر اربوں قرآن بھی ختم کر دئیے جائیں-عرق گلاب پہ قرآن خوانی کر کے اس سے مزاروں کو دھو دیا جائے مگر چونکہ قبر کو پختہ کرنے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ہے- اس لئے یہ مزار اور قبے‘ یہ عرس اور میلے شرک اور بدعت ہی ٹھریں گے-یہ عمل مردود ہی ٹھہرے گا-اسے تقدس کے لاکھ پردے اوڑھا دئیے جائیں‘ یہ بہر حال قابل مذمت ہی ٹھہریں گے-حافظ جمال کے دربار کے باہر بڑے وسیع وعریض لان میں دربار کا خلیفہ مخدوم گل محمد چارپائی پہ براجمان تھا-میں چارپائی پہ حضرت کے ساتھ ہی بیٹھ گیا-گفتگو شروع کی مگر حضرت صاحب تو بالکل ان پڑھ تھے ‘ دنیاوی سوجھ بوجھ سے بھی ناآشنا تھے-بس ان کا کمال یہی تھا کہ وہ اس گدی کے خلیفہ اور حافظ جمال کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں-لوگ نذر ونیاز دیتے ہیں اور یہ بیٹھے بٹھائے دین کے نام پر گل چھرے اڑا رہے ہیں-جاری ہے......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

اسلام اور خانقاہی نظام،42

اسلام اور خانقاہی نظام

ملتان کا قدیم نام اگرچہ تواریخ میں ” میسان “ ملتا ہے تا ہم اس کے دیگر نام بھی ملتے ہیں....مثلاً کشب پورہ:ہندوں کے دیوتا کی رو سے ملتان کو برہماجی کے بیٹے اور سورج دیوتاوں کے باپ کشب رشی نے آباد کیا - اور سورج پرستی کی بنیاد رکھی‘اس لئے اس کی نسبت سے اس کا نام کشب پورہ رکھا گیا-پرہلاد پورہ:کشب کا چھوٹا بیٹا پرہلاد اللہ کے وجود کا قائل تھا جبکہ اس کا باپ کشب خود کو الٰہ اور غیر فانی سمجھتا تھا- مگر کشب کے بیٹے پر ہلاد نے اپنے باپ کا یہ دعویٰ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا-اس نے توحید کی جوت جلانی شروع کر دی اور لوگوں کو الہ واحد کا قائل بنانے لگا-لڑکے کا یہ فعل باپ کو ناگوار گزرا-اس نے پرہلاد کو سزا دینے کے لئے قلعہ کہنہ کی سطح مرتفع پر ایک مندر( جسے پرہلا د بھگت نے خود بنوایا تھا )میں سونے کا مخروطی ستون بنوایا اور اس کو اندر سے خوب گرم کرکے پرہلاد کوتوحید پرستی کی سزا دینے کے لئے اس کے اندر بندھوا دیا-ہندو عقیدہ کے مطابق ستون درمیان سے پھٹا اور نرسنگھ اوتار ظاہر ہوئے‘جنہوں نے پرہلاد کو اس اذیت سے نجات دلانے کے لئے اس گولڈن ستون کو مٹی کے ستون میں بدل کر ٹھنڈا کردیا- اور کشب کو قتل کرکے تخت پر پر ہلاد بھگت کو بٹھایا-وہ مندر آج بھی قلعہ کہنہ پر موجو د ہے- مندر کے اندر درمیان میں مٹی کا ستون بنا ہوا ہے-اور اوپر سے پھٹے ہوئے ستون کا نشان بنا کے سرخ رنگ کیا گیا ہے-اس ستون کی پوجا ہوتی تھی اور ملتان کا نام پرہلاد پورہ رکھ دیا گیا-اس مندر کو اب بابری مسجد کی شہادت کے رد عمل کے طور پر گرا دیا گیا ہے-سنب پورا:پرہلاد کے بعد اس کے پڑپوتے سنبہ نے ملتان میں پھر سورج دیوتا کا بت بنا کر اس کی پرستش شروع کرا دی-تب اس کے نام پر ملتان سنب پورہ کہلایا-سنبہ جذام کا مریض تھا-ان کے عقیدے کے مطابق سورج دیوتا نے سنبہ کو شفا دی تو اس نے شکرانے کے طور پر سونے کا ایک بت بنوایا اور مندر میں رکھوا دیا-اس کو ” مترا ‘ ‘ کہا جاتا تھا اور مندر کو ” اوی ستھان “ یعنی سورج دیوتا کے مندر کی اصل جگہ-مول استھان:سنسکرت زبان میں ” مولا “ کے معنی اصل اور استھان کے معنی جگہ کے ہیں-یعنی مندر کو تو” اوی استھان“ کہا جاتا تھا لیکن ملتان کو ” مول استھان “ کہا جانے لگا-بعد میں مول استھان کو زبان کے فرق کی وجہ سے ہلکا کرکے” مولتان “ بنا لیا گیا - آخر کار ” و “ کو حذف کر کے ملتان “ بنا دیا گیا- ”بت ملتان “: چینی سیاح ہیون سانگ ( بد ھ مت کا پجار ی) بدھ مت کے تقریباً تمام سٹوپوں اور خانقاہوں کی زیارت کرتا ہوا اکتوبر ۱۴۶ء میں ملتان پہنچا اور اس نے ملتان کا نام ” موستھان پورہ “ لکھا-وہ لکھتا ہے کہ یہاں پر ہندوں کے آٹھ مندر ہیں-ایک مندر جو کہ سورج دیوتا( مترا) کا ہے ‘ بہت عالیشان ہے - بت پیلے سونے کا بنا ہوا ہے اور اسے نادر جواہرات سے سجایا گیا ہے - عورتیں اس مندر میں سورج دیوتا کی تعریف میں مشعلیں روشن کرکے گاتی بجاتی ہیں اور پھول و عطر دیوتا کی نذر کرتی ہیں-یہ رسم بہت قدیم ہے- بادشاہ اور امراء کے خاندان والے قیمتی جواہرات اور پتھروں پر مشتمل تحائف دیوتا کو پیش کرنے سے کبھی نہیں چوکتے- قریب ہی ایک جگہ پر کھانے پینے ( لنگر ) کا انتظام ہے جہاں غرباء کے لئے کھانا اور پانی تقسیم ہوتا ہے اور بیماروں کے لئے دوائیں دی جاتی ہیں-بہت سے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ دعا مانگنے کے لئے آتے ہیں-ملتان کو قدیم زمانوں سے ہی مذہبی اہمیت حاصل رہی ہے - ایک وقت تو ایسا آیا کہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے ہندو کئی کئی ماہ کا سفر کر کے آتے تھے -نذرانوں اور چڑہاووں کے انبار لگے ہوئے تھے-ہندو پجاری اور برہمن اس بے پناہ دولت پر سانپ بنے بیٹھے رہتے تھے-یہ پروہت اور پنڈت ملتان میں ” مترا“ کے اہم مندر اور بت کی آڑ میں پورے ہندوستان کے دور دراز علاقوں کے غریب ہندوں کا بری طرح استحصال کر رہے تھے-یہ استحصال نقدی ‘ دوسری اشیاء اور عورتوں ( دیو داسیوں ) کے جسموں کی پامالی کی شکل میں ہو رہا تھا-پنڈت عقیدت مندوں کی پائی پائی نچوڑ لینے کی فکر میں رہتے تھے-ان گنت معصوم پجارنیں ان کی خواہشات نفسانی پر دن رات قربان ہوتی رہتی تھیں-صدیوں سے جو اس مندر میں بے انداز دولت اکٹھی ہو رہی تھی‘اس کا قطعا ً کو ئی مصرف نہیں تھا-پجاری اس مال و دولت پر قابض تهے-اس طرح بے پناہ مالی وسائل ملک میں گردش کرنے کی بجائے ملتان کے اس عظیم الشان مندر کی پراسرار تاریکیوں میں منجمد پڑے تھے- بالآخر مسلمانوں نے اس مندر کی استحصالی مرکزیت اور پنڈتوں کی شرمناک کار گزاریوں کا خاتمہ کیا اور صدیوں سے بے کار طریقے پر جمع شدہ بے پایاں سرمائے اور دولت کو مصرف میں لا کر اسے پھیلا دیا-قدیم سنسکرت اور برہمنی لڑیچر میں سے بھوشیہ پران میں بھی سورج دیوتا ( مترا) کے بت کاخاص طور پر ذکر آیا ہے-عرب جغرافیہ دان ” البلاذری“ نے (۴۸- ۳۸۸ء) میں اپنی کتاب فتوح البلدان میں ملتان کے مندر کا ذکرکیا ہے اور لکھا کہ مسلمانوں کو وہاں سے بے شمار جواہرات اور سونا ملا-ایک عرب مورخ ابو زید نے ( ۶۱۹ء) لکھا ہے کہ ملتان کے مندر میں جلانے کے لئے ملک آسام سے خوشبو صندل کی لکڑی لائی جاتی تھی-عرب جغرافیہ دان اصطخری ( ۱۵۹ء) مورخ ابن حوقل (۶۷۹ئ) مراکش کے جغرافیہ دان الا دریسی ( ۳۰۱۱ء) زکریا قذوینی (۲۶۲۱ئ) المسعودی (۵۱۹ئ) لکھتا ہے کہ ” جب کبھی ہندو راجے ملتان پر حملہ آور ہوتے اور مسلمان ان کے مقابلے میں عاجز آ جاتے تو دھمکی دیتے کہ ہم اس بت کو توڑ دیں گے-اس پر ہندو فوجیں واپس چلی جاتیں-یہ تھا ہندوں کا عقیدہ کہ اپنے بتوں کو مسلمانوں کے آگے بے بس بھی پاتے لیکن پھر بھی ان کی پوجا کرتے-سچ ہے کہ مشرک کی عقل ماری ہوتی ہے---جاری ہے......
تالیف :عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

اسلام اور خانقاہی نظام،41

اسلام اور خانقاہی نظام

کچھ دیگر گدیاں:پاکستان کے بڑے اور قدیم یہ دو دربار تھے‘ جو قلعے پر واقع ہیں-یہ ہم نے دیکھ لئے تھے-اب ایک تیسرے دربار کا مزید اضافہ ہوگیا ہے-یہ حامد علی خان کا دربار ہے-ان کے بیٹے محمد میاں گدی نشین ہیں-یہ نوجوان گدی نشین(ایم - اے اکنامکس ) ہے- ہماری ان سے ملاقات بھی ہوئی-دینی تعلیم سے ناآشنا ہیں- البتہ روحانیت کے نام سے ان کی” دنیاوی انکم“کا بندوبست دربار کی شکل میں خوب ہو جاتا ہے- اور اب ہم قلعے سے نیچے اترے-شاہ شمس تبریز سبز واری:امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے بڑے صاحبزادے حضرت اسماعیل کو امام ماننے والے اسماعیلی کہلاتے ہیں اور چھوٹے لڑکے موسیٰ کاظم کو امام ماننے والے اثنا عشری امامی کہلاتے ہیں-مصر میں رہنے والے اسماعیلی( آغا خانی )حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد ہونے کے دعویدار ہیں- اسی نسبت سے وہ فاطمی کہلاتے ہیں-حمدان عرف قرمط کے پیرو کار قرامطی کہلاتے ہیں-یہ سات آئمہ کے قائل ہیں- ان کا ظہور کوفہ میں بمقام نہرین ہوا-چوتھا فرقہ باطنی کہلاتا ہے جس کا سرغنہ حسن بن صباح تھا‘ جس نے حشیش کی جنت بنا کر فدائیوں کی جماعت تیار کی تھی اور ان کے ذریعے دنیائے اسلام کے بڑے بڑے قائدین کو قتل کرادیا تھا-یاد رہے ! شیعہ قرامطیوں کے جو مبلغ ہیں وہ داعی کہلاتے ہیں-شاہ شمس سبزواری بھی داعی بن کر ملتان آئے تھے-
شاہ شمس کا بہاوالدین زکریا سے مقابلہ:کتا ب نور مبین مطبوعہ اسماعیلیہ ایسویسی ایشن برائے ہند بمبئی میں شاہ شمس کی ملتان آمد کا ذکر اس طرح ہے کہ”حضرت پیر شمس( ۷۵۷ء) کی شہرت بڑھنے سے
بہاوالدین زکریا نامی ایک درویش کو اپنی عزت کی نسبت ڈر پیدا ہوا-گلزار شمس کی روایت کے بموجب شیخ زکریا ملتانی نے اپنے خاص مرید خان محمد حاکم شہید کو حکم دیا کہ پیر شمس ملتان آئیں گے تو ہمیں بھی ان کی اطاعت کرنی پڑے گی-اس لئے تمام کشتیوں کو قبضہ میں لے لو تاکہ وہ شہر میں داخل نہ ہو سکیں-مرید نے اس حکم پر عمل کیا اور جب پیر شمس نے دریا کے کنارے پر آ کر دیکھا تو ایک بھی کشتی نظر نہ آئی-بے حد غصہ آیا-ایک کاغذ کی کشتی بنائی‘اس میں خود بیٹھ گئے اور کشتی کے ساتھیوں کو اپنی انگلی پکڑنے کے لئے کہا-سب نے اس پر عمل کیا-کشتی اس وقت ندی میں بہنے لگی مگر چکر کھانے لگی-پیر شمس نے دریافت کیا کہ کسی کے پاس دنیاوی مال و متاع ہے-؟ شہزادہ محمد کو ان کی والدہ نے زاد راہ کے لئے چند زیورات دئیے تھے ‘ اس کو انہوں نے پیر شمس کے سامنے رکھ دیا-آپ نے ان جواہرات کو(جو پہلے زیوارت تھے) دریا میں پھینکوادیا-(پانیوں کے بادشاہ حضرت خضر علیہ السلام کی خدمت میں بطور نذرانہ تاکہ کشتی خیریت سے پار لگ جائے) تو کشتی چل پڑی- جب کشتی دریا کے بیچ میں پہنچی تو بہاوالدین ذکریا کی نظر اس پر پڑی تو اس نے بد دعا دی-اس لئے کاغذ کی کشتی وہیں رک گئی-پیر شمس بہت حیران ہوئے-آخر ان کی نظر
 بہاوالدین ذکریا پر پڑی جو کھڑکی میں سر نکالے بیٹھے تھے-انہیں معلوم ہو گیا کہ میری کشتی انہوں نے روکی ہے-پیر شمس نے ان کی طرف جونہی دیکھا تو بہاوالدین زکریا کے سر پر دو سینگ نمودار ہوئے اور سر کھڑکی میں اٹک گیا-بہاوالدین اس مصیبت سے گھبرا گئے اور اپنے بیٹوں کو معافی کے لئے پیر شمس کے پاس بھیجا-ان لڑکوں نے والد کی طرف سے معافی مانگی-پیر شمس نے اس کے حق میں دعا فرمائی-اس طرح بہاوالدین کو اس مصیبت سے نجات ملی-آج تک ان دونوں سینگوں کی نشانی ان کے ذکور بیٹوں میں باقی ہے -
 *ملتان از منہ قدیم سے سورج دیوتا کی پرستش کا مرکز-:
 قارئین کرام ! شاہ شمس کی کرامت سے سورج کا نیچے اتر آنا تاکہ شاہ شمس اپنی بوٹی کو بھون(پکا) سکیں-اور علاقے کا نام اس وجہ سے ”سورج کنڈ “ مشہور ہو جانا‘اور شاہ شمس کا سورج کو یہ کہنا کہ”میں زمانہ قدیم سے تیرا عاشق ہوں “ کیا محض چلی چلائی ایک اتفاقی بات ہے یا یہ کسی سوچی سمجھی سازش کی کڑی ہے-آئندہ سطور میں ہم ملتان کی تاریخ کے حوالے سے ثابت کریں گے کہ کس طرح ملتان ازمنہ قدیم سے ہندوں کے سورج دیوتا کی پرستش کا مرکز رہا ہے-اور بعض ولیوں کے حوالے سے ملتان کے اس ہندوانہ تشخص کو مسلمانوں میں مسلسل زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے-شاید آگے سازشیوں کا ارادہ ہو کہ بالاخر وہ ایسی من گھڑت روایات کے ذریعے ملتان کو دوبارہ سورج دیوتا کی پرستش کامرکز بنادیں گے لیکن وہ پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے-اگرچہ غیر محسوس طور پر یہ شرکیہ سفر اب بھی جاری ہے-تو اب ملتان کے مختلف قدیم ناموں کے حوالے سے نظر ڈالئے کہ کس طرح ملتان پہلے سورج دیوتا کا مرکز تھا-ملتان کا قدیم نام اگرچہ تواریخ میں ” میسان “ ملتا ہے تاہم اس کے دیگر نام بھی ملتے ہیں....مثلاً ......جاری ہے.......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
نوٹ:آپ اس سلسلہ کی تمام اقساط نیچے دیئے گئے لنک پر بهی پڑھ سکتے ہیں
www.deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com

اسلام اور خانقاہی نظام،40

اسلام اور خانقاہی نظام

جنتیوں اور جہنمیوں کی پہچان کا عجیب طریقہ:اب شاہ رکن عالم کو اسی قلعے پر ایک ایسے مقبرے میں دفن کیا گیا جو بادشاہ وقت نے اپنے لئے بنوایا تھا‘اور ہم بھی اسی مقبرے میں کھڑے ہیں-یہ مقبرہ اتنابڑا اور مضبوط ہے کہ دیکھنے والوں کو معماروں کی یہ عمارت کہ جس پہ بادشاہ نے بے شمار رقم صرف کر ڈالی تھی‘دنیا کا ایک تھم ہی دکھائی دیتا ہے-اس دربار کے اندر اب جس کو دفن کیا گیا ہے ....تصوف کی دنیا میں وہ بھی کوئی معمولی حضرت نہیں بلکہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ ”ایک بار جبکہ وہ چھوٹے تھے-انہوں نے جنتیوں کی جوتیاں الگ کر دیں اور جہنمیوں کی الگ-جب دادا کو معلوم ہوا تو انہوں نے پوتے کومنع کر دیا کہ” ایسا نہ کیا کرو“-تو حضر ت رکن عالم جو کہ بچپن سے ہی کرنی والے تھے.... بھلا جوانی اور پیری میں کیا ہوں گے ‘ اور پھر پردہ فرمانے کے بعد اب تو نہ جانے کیا کچھ ہوں گے!! ....بہر حال تصوف کی دنیا میں یہ نہ جانے کیا سے کیا ہوں گے؟ مگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت یہ بتلاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب کے لئے بڑی کوشش کی کہ کلمہ پڑھ لے- مگر انہوں نے کلمہ نہ پڑھا -حتیٰ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کے سرہانے بیٹھ کر آخر وقت پر بھی چچا سے اصرار کرتے رہے مگر بالآخر چچا نے صاف انکار کر دیا-اب اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوتا کہ میر ے چچا کو تو بہر حال جہنم میں آگ کے جوتے پہنائے جائیں گے‘تو آپ اس قدر اصرار ہی نہ کر تے اور یا پھر اصرار کرنے سے پہلے لوح محفوظ پر ہی نظر ڈال لیتے- مگر معلوم ہوتاہے کہ انبیاء کے پاس تو فرشتے آتے ہیں جبکہ ولی حضرات کی پروازوں کا کیا کہنا-!وہ تو لوح محفوظ تک دیکھتے پھرتے ہیں-یقین کیجئے ! یہ من گھڑت قصے کہ جنہیں کرامتوں کے نام سے معروف کیا جاتا ہے ‘ یہ اللہ کی بھی گستاخیاں ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے نبیوں کی بھی توہین ہے-اور ان سے جو مقصد ہے وہ صرف اور صرف قبوری نیازوں میں اضافہ ہے اور بس ! شاہ رکن عالم کا ”قبہ“ اتنا بڑا ہے کہ اس کے اندر ساٹھ قبریں ہیں‘ جبکہ رکن عالم کی قبر جو کہ سب سے اونچی اور بڑی ہے ‘ اس کے پاوں کی جانب ایک”مورا “ ہے-اور اس ”مورے“ میں اکثرل وگ سجدے کر رہے تھے جبکہ دربار سے باہر فرش پر بھی بہت سی قبریں ہیں مگر یہ قبریں فرش کے ساتھ برابر ہیں اور ان پر بس اتنا لکھا ہے ”قبر “.... بال لمبے کرنے اور گنجا پن کے خاتمہ کا خانقاہی طریقہ علاج:اس دربار کے قبے کی دیوار پر میری نظر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا کچھ حصہ تیل سے” گچا گچ“ ہے- معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اپنے بال اور قد بڑھانے ہوتے ہیں‘ وہ یہاں اپنا سر رگڑتے ہیں - مخدوم سجاد حسین قریشی جو کہ اس دربار کے سجادہ نشین ہیں اور وہ پنجاب کے ایک عرصہ تک گورنر رہے ہیں-عبرت کا مقام ہے کہ ان کے اپنے بال تو بڑے نہیں ہو سکے-اور پھر ان کی گورنری کے دور میں جناب نواز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے‘ وہ بھی اس دربار پر کئی دفعہ گئے ‘ اور گدی نشین صاحب تو انکے گورنر تھے‘ وہ اپنا درباری ہاتھ ہی نواز شریف کے سر پر رکھ دیتے - مگر یہ بھی عبرت کامقام ہے کہ دونوں ہی بالوں سے محروم رہے.... اورلوگ ہیں کہ اپنے گنج ختم کرنے کے لئے اپنی ٹنڈیں دیوار پر رگڑ رہے ہیں اور عورتیں ہیں کہ زلفیں لمبی کرنے کے لئے یہاں سر رگڑ رگڑ کر تماشا بنتی ہیں-یقینا خوش قسمت ہیں وہ لوگ کہ جو توحید کی برکت سے جنہیں اللہ تعالی نے ان ذلت آمیز حرکتوں سے محفوظ رکھا ہے-
اور جب دین خانقاہی کے پیروکاروں کو دعوت توحید دی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم کہاں شرک کرتے ہیں بلکہ ہم تو ایک اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور ان بزرگوں/ولیوں کو تو ہم اپنی دعاوں،حاجتوں کی قبولیت کیلئے بارگاہ الہی میں وسیلہ/سفارشی بناتے ہیں.اور یہی عقیدہ مشرکین  مکہ کا تها کیونکہ ظہور اسلام سے قبل صرف اہل عرب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل دنیا تہذیبی ،اخلاقی اورمعاشرتی برائیوں کا شکار تھی ۔اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کے مرتکب ہو چکے تھے اور شریعت کے وضع کردہ اصول و قوانین کی جگہ ایسے خود ساختہ نظریات و عقائد کو اپنا لیا جو انکے مزاج اور طیبعت کے لئے موزوں تھے ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ ظاہراََ اصل دین اور حقیقی قانون الہی کی صورت مسخ ہوکر رہ گئی ۔عوام الناس اپنے علماء کی اندھی تقلید میں جاہلانہ رسومات کے دام فریب میں الجھتے چلے گئے یہ لوگ اپنے آپ کو دین ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے مگر دین ابراہیمی کی تعلیمات سے ان کا دور ،دور تک کوئی رشتہ نہیں تھا۔یہ نہیں بلکہ جن چیزوں کی دین ابراہیمی میں ممانیت تھیں ان چیزوں کو یہ لوگ اختیار کئے ہوئے تھے۔ان لوگوں نے دینِ ابراہیمی کو موڑ توڑ (مسخ)کر اپنی خواہشات کے مطابق بنا لیا تھا یہ لوگ اپنے فوت شدگان کی پوجا کرتے تھے اس کے علاوہ ان کے سامنے سجدہ ریزِ ہوتے۔ان سے دعائیں کرتے ،ان کے سامنے قربانیاں نزرو نیاز چڑهاوے چڑهاتے اور  اپنی دعاوں/التجاوں کا سفارشی بناتے تهے۔اور انہیں اللہ تعالیٰ عزوجل کا نعوذباللہ شریک مانتے تهے۔اور آج دین خانقاہی کے دعویداروں نے بهی اپنی مذہبی کتابوں میں تحریف کر کے اور شریعت کے وضع کردہ اصول و قوانین کی جگہ ایسے خود ساختہ نظریات و عقائد کو اپنا لیا جو انکے مزاج اور طیبعت کے لئے موزوں ہیں۔اور ان خرافات کو دین محمدی ﷺ کا حصہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں،اللہ تعالی فرماتا ہے: اس(اللہ)کو چهوڑ جن کی تم بندگی کرتے ہو وہ تو بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باب دادا نے رکھ لیئے، اللہ نے اس کی کوئی سند نازل نہیں کی(سورہ یوسف:40/12)
.جاری ہے......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان👇

اسلام اور خانقاہی نظام،39

اسلام اور خانقاہی نظام

نوماہ کا پروسیجر چند گھنٹوں میں مکمل-: ایک عورت حضرت بہاوالدین سے بچہ لینے کے لئے آئی-حضرت نے بچہ دینے سے جواب دے دیا-تب عورت روتی جا رہی تھی-راستے میں حضرت بہاوالحق کے پوتے شاہ رکن عالم مل گئے-انہوں نے عورت سے پوچھا:کیوں روتی ہو ؟ عورت نے کہا: بڑے حضرت نے بچہ دینے سے انکار کر دیا ہے-تب حضرت رکن عالم جو کہ ابھی خود بچے تھے‘اور کوئی کھیل کھیل رہے تھے‘عورت کو لیکر دادا کے پاس آئے اور بچہ دینے کی فرمائش کی-اب حضرت بہاوالحق نے” لوح محفوظ“پہ نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ بچہ تو وہاں بھی اس کی قسمت میں نہیں ہے-اس پر پوتے یعنی شاہ رکن عالم نے کہا: دادا جان !میں دعا کرتا ہوں-آپ آمین کہیں (پھر یوں دعا کی )اے اللہ جو دہلی میں فلاں ہندو عورت ہے -اس کے پاس چھ بچے تو پہلے ہی موجود ہیں-اور اب تو اسے اکھٹے دو (جڑواں) دے رہا ہے(ان میں سے) ایک ہندو عورت کو دے دے اور ایک اسے فریادی کو دے دے“ اب اس عورت کو کہا گیا کہ تو گھر جا رہی ہے تو اپنے ہمراہ دائی لے کر جانا-چنانچہ وہ گھر گئی اور اگلے دن ہی بچہ ہو گیا- “ قارئین کرام!ذرا توجہ کریں کہ اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کیا خوب کیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے مطابق بچہ ۹ ماہ کے بعد دیتا ہے لیکن رکن عالم نے ایک دن میں ہی ۹ ماہ کا سفر طے کر کے بچہ دے دیا اور کہا کہ”جاتے ہوئے دائی ساتھ لے جانا “یعنی دربار سے گھر تک پہنچتے پہنچتے ۹ ماہ کے تمام مراحل طے ہوگئے- اس روایت سے بتلانایہ مقصود ہے کہ بہاول حق بھی بڑے کرنی والے ہیں کہ لوگ ڈوبتے ہو ئے بھی کہتے ہیں:”بہاول حق....بیڑا دھک “مگر بیڑا دھکنے والے کا پوتا کہ جس کا نام ہی رکن عالم ہے-یعنی وہ تو ساری دنیا کا ستون ہے‘ اپنے دادا سے کہیں آگے ہے اور اللہ کو خدائی کرنے کے انصاف پرور طریقے بھی بتلا رہا ہے‘ یعنی اللہ کا بہت بڑا مشیر ہے- کہ جس کی نظر براہ راست لوح محفوظ پر رہتی ہے-( نعوذباللہ من ذالک) غور کیجئے ! کس قدر بڑی گستاخی ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کی -- اتنی بڑی گستاخی کہ قرآن کے بیان کے مطابق-قریب ہے کہ سب آسمان (اس جملے ) سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں-زمین پھٹ جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں- قارئین کرام ! بہاول حق یا شیخ بہا الدین کے دربار کی پائینتی میں قبر کی جگہ خالی تھی- صرف ارد گرد جنگلہ تھا اور اس پر پھول پڑے تھے-جب اس جنگلے پر لگا ہوا بورڈ دیکھا تو اس پر لکھا ہوا تھا : ”یہ نشان مبارک مزار پاک کا زبدة المشائخ ‘ قطب زماں‘ حضرت رکن الدین جو حضرت شیخ صدر الدین عارف کے فرزند اور حضرت شیخ الاسلام غوث العالمین‘ بہالدین ذکریا قدس سرہ کے پوتے اسی جگہ مدفن تھے - بعد میں حضرت غوث پاک نے بادشاہ وقت محمد بن تغلق کو بشارت دی کہ حضرت رکن الدین کو میرے قدموں سے نکال لیں - جب حضور کا صندوق مبارک نکالا گیا تو لاکھوں عقیدت مند بھی شامل تھے- وصل کی تاریخ جمعہ کی رات جمادی الاول ۷۴۷ھ ہے -“ قارئین کرام! یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کا دور مسلمانوں میں قبر پرستی کے پھیلنے کا دور ہے- تصوف اور پیر پرستی کا زمانہ ہے اور یہی وہ دور ہے جو مسلمانوں کے لئے زوال اور ذلت کا دور رہا- چنگیز اور ہلاکو کی بربادیاں اسی دور سے متعلق ہیں-اور بد قسمتی سے مسلمانوں کے غوث'دستگیر کرنی والے بھی زیادہ تر اسی دور میں ہوئے ہیں-شاہ رکن عالم روایات کے مطابق شاہ رکن عالم المعروف ” نوری حضوری “ شیخ صدر الدین عارف کے بیٹے اور زکریا ملتانی کے پوتے ۹۴۶ھ میں مادر زاد ولی پیدا ہوئے - قطب الاقطاب بنے - دس سال کی عمر میں کشف قبور ‘ کشف الصدور ‘ طے الارض ‘ طے اللسان میں مہارت حاصل کی - پچیس سال کی عمر میں کمالات ظاہری اور باطنی سے مالا مال ہوئے -سلطان عل الدین خلجی ‘ غیاث الدین تغلق ‘ محمد بن تغلق آپ کے خصوصی عقیدت مندوں میں سے تھے - چلی چلائی روایات کے مطابق کشف قلوب کا یہ عالم تھا کہ آپ کی مجلس میں جس شخص کے دل میں جو بات گزرتی ‘ آپ پر مکشوف ہو جاتی تھی- اور طے الارض کا یہ حال تھا کہ جہاں چاہتے تھے ‘ چشم زدن میں پہنچ جاتے تھے- چنانچہ جامع العلوم ملفوظات مخدوم جہانیاں میں ہے کہ ” آپ ہر شب جمعہ اورشب دو شنبہ کو مکہ معظمہ تشریف لے جاتے اور مسجد الحرام میں نماز ادا کرتے تھے - پھر مدینہ منورہ جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی زیارت کرتے اور سلام پڑھتے تھے “جب ہم دین خانقاہی کی نشست ختم کر کے دین اسلام کی طرف جایئں گے تو  قارئین کو بتائیں گے بڑے بڑے محدثین علماء کرام اسلام کے داعیوں نے 'دین اسلام' کی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کیلئے طویل سفر طے کیئے اور اپنی زندگیاں صرف کر دیں اور کئی کئی علماء کرام محدثین کی صحبتوں کو اختیار کرنے کے بعد قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے.لیکن دین خانقاہی کے علمبردار کبهی کشف کبهی مراقبہ کبهی خواب کبهی جنگلوں کبهی ویرانوں کبهی انسانوں سے دور رہ کر چلے کشیاں کر کے علم حاصل کرنے کی منزلیں طے کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح بدھ مت/سکھ/ہندوں کے سادهو، جوگی، پنڈت.. وغیرہ حاصل کرتے ہیں. دین خانقاہی اور دین بدھ مت کا آپس میں ایک گہرا رشتہ ہے کیونکہ اس سر زمین پر دونوں نے ایک ساتھ کافی عرصہ گزارا ہے -- جاری ہے....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

Sunday 20 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،38

اسلام اور خانقاہی نظام

ملتان کے قلعے پر قاسم باغ اور درباری مزار:ملتان کے ولیوں کے بارے میں ملتان ہی کے رہنے والے بھائی عبد المالک آگاہ کرتے ہیں ملتان کو مدینة الاولیاء یعنی ولیوں کا شہر کہا جاتا ہے مشہور ہے کہ ملتان قریباً اڑھائی لاکھ پیروں کا مسکن ہے-” پیری پور“ اڑھائی لاکھ میں سے دو لاکھ کو زندہ مانا جاتا ہے اور سوا لاکھ پیر مردہ مانے جاتے ہیں-مگر وائے افسوس ان سوا لاکھ کو مردہ بھی نہیں کہنے دیا جاتا کیونکہ ان مردوں کی پاور زندوں سے بھی زیادہ بیان کی جاتی ہے-اس ملتان کے بارے میں بہاولدین زکریا ملتانی نے کہا کہ ملتان ما بجنت اعلیٰ برابر است آہستہ پا بنہ کہ ملک سجدہ می کند یعنی ہمارا ملتان جنت اعلیٰ کے برابر ہے- پاوں آہستہ رکھو کیونکہ فرشتے یہاں سر بسجود ہیں-کیونکہ یہاں بڑے بڑے ولی دفن ہیں-چنانچہ آئیے اور ہم سے خاص خاص ولیوں کا تذکرہ سنئے-جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی فوجیں دیبل (کراچی ) سے ملتان تک آئی تھیں-یہ حکومتیں کسی نہ کسی شکل میں چھٹی صدی ہجری تک قائم رہیں-پھر تصوف اور قبر پرستی کا دور آیا تو دیبل کے ساحل پر پہاڑ کی چوٹی پر-دربار بن گیا- حیدرآباد کا کچا قلعہ درباروں سے اٹ گیا اور ملتان کاقلعہ بھی کہ جسے مجاہدین نے ہندوں ‘ سے جہاد کر کے اس پر اسلام کا پرچم  لہرایا تھا ‘ آج وہ بھی قبر پرستی کے پرچموں کی زد میں ہے-البتہ اس قلعے کے ایک باغ کا نام محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے نام پر” قاسم باغ“رکھ دیاگیا ہے-اس قاسم باغ میں ایک بزرگ ہیں-مخدوم بہاوالدین المعروف بہاول حق:سلسلہ جنیدیہ سہروردیہ کے بانی ہیں- ان کے مرشد وجیھہ الدین اور ابو نجیب ضیاءالدین ہمدان اور زنجان کے درمیان واقع ایک قصبہ” سہرورد “کے رہنے والے تھے- اسی نسبت سے ان کا سلسلہ طریقت سہروردیہ کہلایا-انہیں سماع( قوالی)سے بے حد رغبت تھی-حسن قوال ‘ عبد اللہ رومی قوال اور شیخ فخر الدین ابراہیم عراقی نے آپ کے دربار میں کلام سنایا ہے-سیر العارفین ‘ تاریخ فرشتہ ‘ اور فوائد الفواد میں سماع کی ان محفلوں کا ذکر ملتا ہے-جو ان کی خانقاہ اور حجر ے میں برپا ہوئیں اور جن میں آپ وجد و حال اور رقص و وصال کی منزلوں سے گزر ے-عبد اللہ رومی قوال نے شیخ شھاب الدین سہروردی کے دربار میں اپنا کلام سنایا تو بعد میں وہ ملتان آیا اور شیخ زکریا ملتانی نے اس کو ساتھیوں سمیت حجرے میں بلایا اور عشاء کی نماز کے بعد دو پارے تلاوت کئیے- آخر میں عبد اللہ قوال سے سماع کی فرمائش کی-ہر سال صفر کے ماہ میں شیخ زکریا ملتانی کا عرس ( شادی ) ہوتا ہے-قبر کو سال بعد غسل دیا جاتا ہے-چادر ڈالی جاتی ہے-( ہندو ادوار میں قلعہ کہنہ بت ملتان کی وجہ سے پوجا پاٹ کا مرکز تھا تو خیر سے آج بھی یہی قلعہ پوجا پاٹ کا مرکز ہے-آ ج بھی قوالی کی محفلیں سجائی جاتی ہیں-پہلے بھی پھول اور عطر نذر کئے جاتے تھے‘ آج بھی پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی ہیں-اس سماع ( قوالی ) کی شریعت میں کیا حیثیت ہے ؟ ڈھول تالیوں اور سازوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینا کس قدر ثواب کا کام ہے؟ محتاج بیان نہیں لوگوں کا پہلے وقتوں میں دور دراز سے کئی کئی ماہ کا سفر کر کے نذرانے لے کر دعا کے لئے آنا اور سندھ کے ہندوں کا سورج دیوتا درشن کے بعد سر اور داڑھی کے بال منڈوانا اور آج بھی دور دراز سے عرس کے موقع پر سندھیوں کا ننگے پاوں آ کر زیارت کے بعد سر منڈوانا کتنی گہر ی مماثلت رکھتا ہے-آج بھی ملتان کے نواحی دریا چناب میں جب کشتی بھنور میں پھنس جائے تو ملاح نعرہ لگاتے ہیں کہ” بہاو الحق بیڑا دھک “ قرآن گواہ ہے کہ مشرکین مکہ کی جب کشتی بھنور میں پھنستی تو وہ بھی اللہ کو خالص کرکے پکارتے ‘ مگر نجات پانے کے بعد پھر شرک کرتے-لیکن آج کا مسلمان نما ملاح تو مشکل گھڑی میں بھی دوسروں کو پکارتا ہے-انجام کار ملتان سے کراچی تک چلنے والی ایک گاڑی کا نام بھی بہاوالدین زکریا ایکسپریس رکھا گیا-وہ گاڑی چند سال پہلے سندھ کے سانگھی ریلوے اسٹیشن پر ایکسیڈنٹ کا شکار ہو گئی کہ بہت سے جاں بحق ہوئے اور کئی زخمی ہوئے-ایک یونیورسٹی کا نام بھی ملتان میں زکریا یونیورسٹی رکھا گیا ‘ رزلٹ برائے نام دے رہی ہے - یہ یونیورسٹی علماء دین تو پیدا کرنے سے قاصر ہے-لیکن دنیا دار آفیسر بھی کما حقہ پیدا نہیں کرسکی-مشہور ہے کہ ملتان ایک نہ ایک دن پانی میں ڈوبے گا .... کیونکہ دریا کے پانی نے بہاوالدین کے مزار کی چوٹی کو سلام کرنے آنا ہے-جس سے لامحالہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مزار کے گنبد کی چوٹی جو شہر کی سطح زمین سے کافی بلندی پر ہے-جب پانی اس کو سلام کرنے اوپر چڑھے گا تو سارا شہر غرقاب ہوگا-مگر قبوریوں کو اس سے کیا غرض کہ چاہے سارا شہر ڈوب جائے لیکن چوٹی کا سلام ہونا چاہئے-جب 1992ء میں ملتان میں سے سیلاب کا ریلا گزرا تو فوج کے ایک ہزار جوان دن رات دریا کے بند بوسن کی حفاظت پر لگے رہے-افسوس کہ پانی کو بہاو الحق کی چوٹی تک سلام کرنے کے لئے نہ پہنچنے دیا گیا-دوسرے دن مقامی اخبار نوائے وقت میں سرخی تھی کہ”ملتان شہر کو بند بوسن نے بچا لیا “اس کا مطلب ہے کہ اڑھائی لاکھ اولیاء مدد کو نہ آئے - مدینة الاولیاء میں جو ولی ہیں ‘ کچھ کام نہ آ سکے-اب چاہئے تو یہ تھا کہ چڑھاوے اور چادریں بند بوسن پر چڑھائی جاتیں ‘ چراغ وہاں جلائے جاتے اور ملتان کو شاہ شمس اور بہاوالحق کی نگری کہنے کی بجائے بند کی نگری کہا جاتا-مگر برا ہو پیر پرستی کا کہ وہ اپنی دکان بند کرنے کو ہرگز تیار نہیں اس قلعے پر ہم مخدوم بہاوالدین المعروف بہاول حق کے دربار پہ پہنچے- ان کے بیٹے صدر الدین کی قبر بھی ان کے ساتھ ہے - گنبد کے اردگرد برآمدے میں بھی بہت سی قبریں موجود ہیں اور ہر دربار پر ایسا ہی ہوتا ہے -وجہ یہ ہے کہ دربار کے جو گدی نشین مرتے ہیں اور انکی جو اولاد فوت ہوتی ہے تو ان سب کی قبریں بھی یہیں ہوتی ہیں اور آنے والا زائر بڑی قبر کے علاوہ ان سب الحاقی چھوٹی قبروں کو بھی چومتا چاٹتا اور سجدے کرتا نظر آتا ہے-اور اگر ان درباروں پر کوئی دفن ہوناچاہے تو اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے- حضرت بہاوالحق کے بارے میں بہت سی کرامتیں معروف ہیں-مگر ایک کرامت جوسب سے زیادہ معروف ہے اور اس دربار کے ایک خادم نے جو کہ محکمہ اوقاف کا ملازم ہے‘ اس نے ہمیں بتلائی - وہ ملاحظہ ہو-جاری ہے.....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
آپ تمام اقساط نیچے دیئے گئے لنک پر پڑ سکتے ہیں
http://deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com/
اور واٹس اپ پر تمام اقساط حاصل کرنے کیلئے فضیلتہ الشیخ قاری حنیف ربانی حفظہ اللہ صاحب سے رابطہ کریں
0092 314 231 3273

اسلام اور خانقاہی نظام,37

* دین خانقاہی اور دین اسلام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر37)
یہ قبے‘مزار اور جاگیریں کس وفاداری کا صلہ ہیں ؟قارئین کرام ! آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے اپنے کالم اخبار و آراء میں طاہرالقادری صاحب کے پیر اور غوث علالدین پر اس وقت قلم اٹھایا تھا جب قادری صاحب کے غوث پر لینٹر (چهت)گر گیا تھا-میں نے لکھا تھا کہ جو اپنے اوپر گرتے ہوئے لینٹر کو تھام نہ سکے-وہ بھلا لوگوں پر گرنے والی مصیبتوں کو کیونکر روک سکے گا-؟اس پر جناب ڈاکٹر صاحب کے ماہنامہ”منہاج القرآن “(اپریل ۳۹ء) نے اور گوجرانوالہ سے بریلوی مکتبہ فکرکے رسالے” رضائے مصطفٰی“نے خوب اپنا غصہ نکالا-راقم کو گالیوں سے نوازا اور جناب  علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کو بھی موضوع بحث بنایا گالیوں کا تو خیر ہم برا نہیں مناتے-اس وجہ سے کہ توحید کی خاطر ہمارے پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گالیوں سے نوازا جاتا تھا:حقیقت تو یہ ہے کہ مردہ اجسام کی خاکی ڈھیریوں پر اپنی مسندیں سجا کر ‘سجادہ نشین کہلوا کر‘ککڑ/حلوے/نزرو نیاز کے مزے اڑانے والے اور سادہ لوح عوام کا استحصال کرنے والے دین خانقاہی کے پیروکار اس منظر کا ادراک نہیں کر سکتے تھے جو دعوت توحید اور معرکہ آرائی کا منظر ہے-یہ اس مزے اور لطف کو کیا جانیں گے ؟جو شہادت کا مزہ اور لطف وسرور ہے-تبھی تو قادری صاحب کے اس رسالے میں ہمیں ایک یہ طعنہ دیا گیا-: کہ علامہ احسان الہی صاحب اور دیگر اکابرین جن کی سنت کو موصوف مدیر صاحب اپنائے ہوئے ہیں-ان کا جو حشر ہوا‘ اس سے ملت اسلامیہ پاکستان کا کونسا شخص واقف نہیں ہے-بس یہی کہیں گے کہ کوئی بھی ذی شعور اور فہم رسا رکھنے والا شخص اس کو عزت کی موت قرار نہیں دے سکتا-اس لئے اپنے اکابرین کے اس حشر کو سامنے رکھتے ہوئے فرمائیے کہ کیا فتو یٰ صادر کریں گے-( منہاج القرآن اپریل 93)
جواب پیش نظر ہے:جناب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب !علامہ ظہیر رحمہ اللہ صاحب دعوت دین کا کام کرتے ہوئے شہادت کی موت پاگئے اور”مدینة المنورہ“میں حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کے پہلو میں جا کر مدفون ہوئے اوراس مدفن کو دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع بھی عطا فرمایا-اسی طرح مولانا حبیب الرحمان یزدانی اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرتے ہوئے بم دھماکے کی نذر ہو کر شہید ہوگئے( ان شاءاللہ )جناب قادری صاحب ! یہ وہ موت ہے کہ آپ کا شعور اور فہم اس موت کو عزت کی موت قرار نہیں دیتا-اور سنئے! اگر یہ عزت کی موت نہیں اور جناب والا! اس پر مجھ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں‘تو پھر اب میرا فتویٰ سن لیجئے‘اور یہ فتویٰ سننے کے بعد اپنے شعور اور فہم کی خیر منائیے‘اس لئیے کہ یہ فتویٰ میرا اپنا یا میرے کسی مولوی صاحب کا نہیں بلکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے امام جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافتویٰ ہے-صحیح بخاری اور مسلم اٹھا کر دیکھیئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خواہش کرتے ہیں:”مجھے اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے-میرا دل چاہتا ہے کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کر دیا جاوں-پھر زندہ کیا جاوں پھر شہید کیا جاوں-“جناب قادری صاحب!حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی میں شہید ہو رہے ہیں-یہی وہ مسجد ہے جس میں ہمارے علامہ صاحب کا جنازہ پڑھا جارہا ہے-حضر ت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس شہر میں شہید ہو رہے ہیں-اور حضرت خبیب رضی اللہ تعالی عنہ مشرکین مکہ کے ہاتھوں سولی پر لٹک رہے ہیں‘تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا مثلہ کیا جا رہا ہے‘ناک کان کاٹے جا رہے ہیں ‘ کلیجہ چبایا جا رہا ہے... تو اب بتلائیے-!آپ کے ہاں عزت کی موت کونسی ہوتی ہے ؟....بہرحال ہم تو یورپ کے ہسپتالوں میں بیماری سے مرنے کو بھی ذلت کی موت قرار نہیں دیتے کہ یہ بیماریاں/حادثات سب اللہ کے اختیار میں ہیں-ہم بات صرف یہ کرتے ہیں کہ”اس فانی دنیا کو چهوڑ کر موت کی آغوش میں جانے والا غوث/مشکل کشا/دستگیر/گنج بخش/کرنی والا/داتا/غریب نواز قطعی نہیں ہو سکتا-جس پہ موت طاری ہو جائے وہ دوسروں کو زندگیاں نہیں دے سکتا“اور جو پھر بھی بندوں کو ایسے القابات دینے سے باز نہ آئے‘اسے بقول تمہارے ذی شعور اور فہم رسا رکھنے والا شخص قرار نہیں دیا جا سکتا-
چہ جائیکہ اسے نابغہ(شیخ الاسلام) عصر اور علامہ کے القابات سے نواز دیا جائے- حقیقت تو یہ ہے کہ مردوں کی قبروں پہ جمع ہونے والی نیاز کھانے والے قبروں کے پجاری کیا جانیں کہ داعی توحید/جہادی شاہینوں/کی شان کیا ہے...؟یہ وہ جہادی شاہین ہیں کہ ان کا رزق جس کے متعلق انکے امام اعظم اور امام المجاہدین سالار بدر و خندق نام نامی اسم گرامی  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جُعِلَ رِزقِی تَحتَ ظِلِّ رُمحِی میرا رزق میرے نیزے کے سائے کے نیچے ہے( بخاری: معلقاً َ کتاب الجہاد باب ماقیل فی الرماح مسند احمد (92`50 / 2)یاد رکھیئے !یہ مجاہدین تو ایسا پاکیزہ اور دلاورانہ رزق کھانے والے ہیں-چنانچہ اب جو جیسا رزق کھائے گا ویسی اس میں صفات ہوں گی-تو اہلحدیث وہ جماعت ہے جو داعی توحید اور مجاہدین کی جماعت ہے-ان کے داعی توحید شاہ اسماعیل شہید اور انکے ساتھی انگریزوں اور سکھوں سے برسر پیکار رہے جبکہ خانقاہی لوگ انگریز کے قصیدے پڑھتے رہے-یہ اسی رزق کے اثرات ہیں کہ اہلحدیث آج بھی جہاد اور دعوت توحید کے لئے برسر پیکار شہادتیں پیش کر رہے ہیں اور ہمارے خانقاہی لوگ شہادت کی موت کو عزت کی موت ماننے پر تیار ہی نہیں-اس عظیم شہادت کی موت' محدثین اور علماء کرام کی ایک طویل لسٹ ہے جس کو اگر یہاں قلم بند کرنا شروع کریں تو اوراق کم پڑھ جایئں بہر حال-:
 -ہم تو یہی عرض کریں گے کہ اگر آپ شہادت میں مخلص ہیں تو شہیدوں کی جماعت میں آ جائیے وگرنہ آرام سے اپنے بڑوں کے نقش قدم پر عمل کیجئے اور شہیدوں کو کوستے رہئیے-اب آپ کے جو بڑے ہیں‘ان کے اسوہ کی ایک جھلک ہم آپ کو دکھائے دیتے ہیں-مگر قبل اس کے کہ ہم آپ کو ان کی انگریز کے ہاں قصیدہ خوانی‘ حصول مفادات اور شہیدوں کو کوسنے کی دستاویز پیش کریں.... ذرا پہلے ان کی گدیوں کاجائزہ لے لیں کہ وہ گدیاں کس طرح خدائی کامنظر پیش کرتی ہیں؟ جبکہ انکی حقیقت کیاہے؟ تو آج ہم ان کے سامنے صرف ملتان کی گدیوں کے منظر پیش کرتے ہیں-وہ ملتان کہ جسے”پیری پور“بھی کہا جاتا ہے‘جسے ولیوں کا شہر کہا جاتا ہے-جس طرح سندھ میں ٹھٹھہ کے”مکلی قبرستان“ کو سوا لاکھ ولیوں کا دیس کہا جاتا ہے‘اسی طرح ملتان کو” مدینةالاولیاء“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے-جاری ہے.....تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

Saturday 19 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام ،36

اسلام اور خانقاہی نظام

 ہم نے بھی ایک عدد گائیڈ اپنے ساتھ لے لیا-پہلا دربار جو ہمیں دکھلایا گیا‘یہ حضرت شیرشاہ سید جلال الدین حیدر سرخ پوش کا ہے-اس دربار کے اندر سامنے والی دیوار جو کہ اب خستہ ہو چکی ہے‘اس کے متعلق بتلایا گیا کہ اس دیوار پر”مخدوم جہانیاں جہان گشت“ نے سواری کر کے پوری دنیا میں گشت کیا اور تبلیغ کی-اسی طرح ایک دیوار پر جلال الدین سرخ پوش بیٹھے اور دلی سے اچ (چهوٹا ملتان) آ گئے- 36من وزنی پتھر میں حضرت علی کا نقش قدم:اس دربار کے دائیں جانب ایک چھوٹا سا کمرہ تھا-اس میں جب داخل ہو ئے تو ایک بہت بڑا چٹو نما ملائم پتھر پڑاتھا-بتلایا گیا کہ اس کا وزن ۶۳ من ہے- اس کے اندر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاوں کا نشان تھا ‘اور یہ پاوں پتھر کے اندر دو تین فٹ اندر دهنسا ہوا ہے- یعنی جیسے کسی کا پاوں کیچڑ میں دھنس جائے-میں نے اس حجرے کے مجاور سے پوچھا کہ ”بھئی یہ اس قدر بھاری پتھر یہاں کیسے آگیا؟“ کہنے لگا!” اسے حضرت جلال الدین سرخ پوش اپنی گدڑی میں باندھ کر مکہ سے لائے تھے-پھر ایک جگہ دکھلائی گئی جہاں چار ولیوں نے اکٹھے چلہ کاٹا تھا-یہ ولی بہاؤالدین زکریا ‘ شہبار قلندر‘ فرید الدین گنج شکر اور جلال الدین شیر شاہ تھے-اسی طرح ایک دربارپر گدی نشین کا نام اس طرح لکھا ہواتھا”سگ دربار مخدوم طالب نظر عنایت مرید حسین کلاب“یعنی ولی صاحب کی عنات کا طالب ‘ اس دربار کا کتا جس کا نام مرید حسین ہے اور لقب کلاب یعنی ”کتا(dog)“ہے-سیّد قاتل شاہ کی کرامات ِجلالیہ: غرض بے شمار دربار اور اس طرح کی کہاوتیں سنتے ہم ایک اور بڑے دربار پر پہنچے-یہ صدر الدین راجن قتال کا دربار تھا-یہ اتنا بڑا دربار تھا کہ اس کے اندر کم از کم 80 ولیوں کی قبریں تھیں- کہتے ہیں کہ” یہ بزرگ بڑے جلال والے تھے‘جس کو بھی یہ دین کی دعوت دیتے وہ کلمہ پڑھ لیتا- اگر کوئی نہ پڑھتا تو وہ قتل ہو جاتا‘اندھا ہو جاتا‘ یا مر جاتا‘اس لئے اس بزرگ کو قتال کہا جاتا ہے-میں نے کہا -” تب قتال تو نہ ہوا -قاتل ہوا- خراسان کی شہزادی:اس کے بعد ایک اور بڑا دربار دیکھا- عورتوں کا یہاں ہجوم تھا اور عبادت گزاری کے مناظر تھے-ہم یہاں سے نکلے اور شہر کے کونے پر آگئے-یہاں دو انتہائی بڑے بڑے گنبد نما مزار آدھے گرے ہوئے تھے‘اور جو آدھے بچے ہوئے تھے‘ان میں بھی دراڑیں تھیں-ان کے متعلق مشہور ہے کہ ایک بی بی جو ندی کا مزار ہے-یہ خراسان کی شہزادی تھی-یہ بھی ایک بہت بڑی ولیہ عورت تھی-
بہر حال اُچ کے کنار ے پر کبھی دریا بہتا تھا-وہ دریا اس ولی عورت اور دیگر ولیوں کے درباروں کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا-اور جو دو دربار باقی بچے ہیں تو وہ نصف دریا برد ہو کر اور دراڑیں مارے ہو ئے عبرت کا سامان ہیں-اور زبان حال سے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ جن کو مدد کے لئے تم پکارتے ہو‘ ان کی لاشیں دریا کھا گیا ‘ اور اب ٹوٹی پھوٹی اینٹیں عبرت کا سامان ہیں-مگر لوگ ہیں کہ جو یہاں آتے ہیں‘آہ وفغاں کرتے ہیں‘ اور فریادیں کرنے سے باز نہیں آتے-غرض یہ اُچ شہر ہے کہ جس کے ولیوں کے بارے میں یہ شعر مشہور ہے: تو اُچا تیری ذات اُچی تُسی وچ اُچ دے رہندے او ،اس شہر کے درباروں کا ماحول بڑا طلسماتی سا ہے-عجیب وغریب من گھڑت کہاوتیں ہیں-اور ان کی بنیاد پر لوگ خوب اپنا استحصال کروانے یہاں آتے ہیں-اب آخر پر جو ہمارا گائیڈ تھا‘ اس کی فیس کا مطالبہ تها-میں نے اسے کہا-”شہر سے ذرا باہر نکل کر دیں گے-“یہ نوجوان میٹرک پاس تھا-انتہائی غریب تھا-میں نے اسے توحید کی دعوت دی-ان ولیوں کی بے بسی کے بارے میں آگاہ کیا اور گدی نشینوں کی کرتوتوں کے بارے میں بتایا‘تو وہ پھٹ پڑا-اور پھر اس نے یہاں ہونے والی خرافات کے بارے میں مجھے بتلایا‘تو ہم حیران رہ گئے-کہ تقدس کے پردے میں یہ دربار کس قدر فحاشی اور بے شرمی کے اڈے ہیں!!....؟اور ان کی اکثریت جاگیردار پیروں کی گدیوں تلے اپنا دربار جاری کئے ہوئے ہے-اس شہر کی بلدیہ کا جو چیئرمین ہے ‘ وہ بھی گدی نشین ہے-اس کی کوٹھی ہم نے دیکھی‘جس میں کاریں کھڑی ہوئی تهی‘ اندازہ لگائیں کہ بلدیات اور ضلع کونسلوں کی چیئرمین شپ سے لیکر وزارتوں اور گورنریوں تک قبضہ ہے‘تو ان جاگیردار پیروں کا...........
بہر حال وہ غریب گائیڈ کہ جس نے دعوت توحید کو قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا-ہم نے اسے توحید کی کتاب د -اپنا ایڈریس بھی دیا....تعاون بھی کیا-وہ بہت خوفزدہ ہو رہا تھا کہ حقائق بتلاتا تھا اور ارد گرد بھی دیکھتا تھا-کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا-تو یہ ہے وہ مخلوق! جو مذہبی ‘ سیاسی اور اقتصادی شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہے اور یہ جکڑ بندیاں ان جاگیردار پیروں کی ہیں‘ کہ جن کی خدائی کے سامنے یہ سادہ لوح عوام بے چارے بے بس ہیں-سچی بات یہ ہے کہ پاکستان کے یہ لوگ ابھی تک غلام ہیں‘ان کی غلامی کے دن اور ان کے استحصال کی گھڑیاں اسی دن ختم ہوں گی جس دن ان جاگیر دار پیروں کی گدیوں کا خاتمہ ہو گا-ان کی ناجائز زمینیں غریب لوگوں اور مسکین ہاریوں میں تقسیم کی جائیں گی- تب جا کر یہ غلام آزاد ہوں گے-پھر ان کے سامنے وہ دین پیش کیا جائے گا کہ جو دین اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے- اور وہ دین کتاب وسنت کی صورت میں محفوظ ومامون ہے-یہ لوگ اس دین کو اپنا کر خود دار بنیں گے -صرف اپنے پیدا کرنے والے کے بندے بنیں گے.... تاہم اس راہ میں ہماری جدو جہد ان شاءاللہ جاری رہے گی- ہم ان کی کرتوتوں سے اور ان کے دنیاوی اور اخروی استحصال سے اللہ کے بندوں کو باخبرکرتے رہیں گے اور یہ نبوی فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے-تا وقتیکہ.... لوگ پیروں کے سامنے سجدہ ریز ہو نے کی بجائے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں-درباروں کی طرف رخ کرنے کی بجائے کعبے کی طرف اپنا رخ کریں اور کشف المحجوب ‘ اخبار الاخیار ‘ ملفوظات اورتذکرہ اولیا ءجیسی بے سرو پا اور غلامانہ ذہن بنانے و الی بندوں کی لکھی کتابوں کی بجائے‘وہ رب کی کتاب قرآن پڑھیں -اس کے نبی کی کتاب بخاری‘ مسلم اور ترمذی کا مطالعہ کریں-اے فرزندانِ توحید! آئیے! اس کام کو سر انجام دیں یہ شیوا پغمبری ہے اور لوگوں کو دہکتے ہوئے انگاروں سے نکال کر توحید کی شاہراہ پہ چلائیں.... جنت کی ابدی بہاروں میں داخل کریں..جاری ہے...تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
 visit us my blog:
www.deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com

اسلام اور خانقاہی نظام،35

اسلام اور خانقاہی نظام

سرائیکی علاقے کے دربارپنجاب اور سندھ کے درمیان”بفر زون “ یعنی سرائیکی علاقے کے دربار سندھ اور پنجاب کے درمیانی علاقہ کو سرائیکی علاقہ کہا جاتا ہے- سندھ میں بحیثیت مجموعی سیم و تھور اور شور بہت زیادہ ہے- پنجاب اپنی شادابی کے اعتبار سے معروف ہے- جبکہ سرائیکی علاقہ میں ریگستان بھی ہیں ‘ شادابی بھی ہے اور سیم وتھور بھی ہے- اسی طرح سرائیکی زبان سندھی سے بھی ملتی ہے اور پنجابی سے بھی ملتی جلتی ہے--رحیم یار خان ایک ایسا شہر ہے جو کراچی اور لاہور کے وسط میں ہے-:
 حلالی اور حرامی بچوں کی پہچان کا سائنٹفک طریقہ : یہاں ہمارے نوجوان ساتھی شکیل صاحب ہیں- درباروں کی خرافات سے خوب آ گاہ ہیں- مجھے بتلانے لگے کہ” یہاں قریب ہی ایک دربار ہے- وہاں ایک تنگ سی جگہ بنائی ہوئی ہے- مشہور یہ ہے کہ جو وہاں سے گزر جائے وہ حلال کا اور جو پھنس جائے وہ حرام کا-“ یعنی انسانوں کےحلالی اور حرامی ہونے کی ایک کسوٹی ہے ‘ جو اہل دربار نے بنائی ہے - دوکان چلانے کی لئے آخر کوئی تو منفرد کام ہونا چاہئے‘ سو اس دربار والوں نے اپنے بابا کی یہ کرامت بنا لی ہے- ہمارا سرائیکی علاقے کا سفر جاری ہے- دیکھنے کو تو ہم نے ”کوٹ مٹھن“ بھی دیکھا کہ جہاں بابا فرید کا دربار ہے- اس کے کچھ فاصلے پر ”چاچڑ“ نامی قصبے میں بھی ایک بھاری دربار ہے- ایک منچلے گستاخ نے انہی دو درباروں کے بار ے میں کہا ہے:”چاچڑوانگ مدینہ دسے تے کوٹ مٹھن بیت اللہ“ ظاہر دے وچ بابا فریدن تے باطن دے وچ اللہ (نعوذ باللّٰہ من ذالک
)قوالی سنوں گا تو بھوک لگے گی - خواجہ اجمیری: اسی طرح ڈیرہ غازی خان کے قریب لکھ داتا سخی سرور کا دربار ہے - ہم جب عشاء کے قریب یہاں پہنچے تو دربار کو تالا لگ چکا تھا -البتہ یہاں حضرت صاحب کہ جن کی ذات مورخین کے درمیان متنازعہ ہے ‘ کہ وہ ہندو تھے یا مسلمان تھے- کے سوانح کے بارے میں ایک پمفلٹ ملا جس میں یہ لکھا ہوا ہے” کہ ایک بار سخی سرور سید ‘عبد القادر جیلانی اور معین الدین اجمیری بغداد میں اکھٹے ہوئے -خواجہ اجمیری نے کہا کہ ”جب تک قوالی نہ سنیں گے ہمیں بھوک نہ لگے گی-“ چنانچہ قوالی شروع ہو گئی‘ اور غوث الاعظم دروازے پر دربان بن گئے- تب سخی سرور صاحب آئے- انہوں نے برا منایا تو خواجہ صاحب نے فرمایا اور یہ کلام (شعر) اس وقت سرور سے با آواز بلند نکلا:ہماری بت پرستی در حقیقت حق پرستی ہے جو بخشی ہے رسول اللہ نے ‘اور خواجہ صاحب نے فرمایا” قیامت تک آپ کے مزار پر راگ رنگ ڈھول بجتا رہے گا-“ قارئین کرام! غور کیجئے! یہ درباری اور خانقاہی مذہب کس قدر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخیاں کر تا ہے اور چور مچائے شور--اور پهر بهی گستاخ کتاب وسنت کے حاملین کو قرار دے ڈالتا ہے--کس قدر غضب کی بات ہے کہ اس قوالی اور راگ رنگ کو منسوب کر دیا گیا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب- پاک باز امام الانبیاءکی طرف - وہ پیغمبر کہ جس نے واضح طور پر  فرمادیا: جس نے مجھ پر جھوٹ بولا اپنا ٹھکانا جہنم بنا لے-“اب یہ کس قدر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ اور بہتان ہے- اور پھر بت پرستی کا اعتراف کر کے اسے حق پرستی شرک خرافات کہا جا رہا ہے -اور اس غلاظت شرک و خرافات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کیا جا رہا ہے .‘ کہ جنہوں نے بیت اللہ میں رکھے ہوئے بتوں یعنی ولیوں کی پتھری مورتیوں کو خود توڑا تھا- بہر حال عشاء کے وقت بھی ہم دیکھ اور سن رہے تھے کہ دربار کے نیچے ڈھول کی تھاپ پر راگ رنگ متواتر جاری تھا- اور میلے کے موقع پر اس راگ رنگ کے وہ مخلوط مناظر ہوتے ہیں کہ(اللہ کی پناہ) ....تو یہ ہے خواجہ صاحب کا” کرامتی بول“ جو اس مزار پر جاری ہے-
اچ شہر(چھوٹاملتان): ”پنج ند“ کہ جہاں پنجاب سے گزرنے والے پانچ دریا ستلج‘ بیاس راوی‘ چناب اور جہلم اکٹھے ہوتے ہیں-اس کے قریب اچ شہر آباد ہے- اس کا نام بھی اچ ہے اونچی جگہ پر آباد ہے‘ تصوف کی درباری دنیا میں بھی یہ بہت اونچے مقام کا حامل ہے- بعض لوگ اسے ملتان سے بھی اونچا گر دانتے ہیں-”اچ“ بڑا قدیم شہر ہے- یہ کھنڈرات اور آثار قدیمہ کا ایک مرکز بھی ہے- یوں سمجھئے بلندی پر سارا شہر ہی قبرستان ہے -حتی کہ گھروں میں بھی پرانی قبریں موجود ہیں- ہر گلی‘ ہر نکر پر قبریں ہی قبریں‘ مزار ہی مزار ہیں- مکلی کی طرح مشہور یہ ہے کہ اچ سوا لاکھ ولیوں کا مسکن ہے- تو آئیے! اب ان بعض ولیوں سے ملتے ہیں ‘ اور ان سے ملانے کے لئے یہاں کا تقریباً ہر نوجوان بطور گائیڈ مل جاتا ہے- وہ ہر ولی کی کرامتیں اور اس کا سیاق و سباق سناتا ہے ‘ ا ور آخر میں زائر سے راہنمائی کے دام وصول کر لیتا ہے-تو ہمارے ساتھ رہیئے اور غور کریں کہ ہم نے اپنے سلسلہ کا جو نام *دین خانقاہی اور دین اسلام *تجویز کیا ہے اس میں بهی ایک بہت بڑی سچائی اور حقیقت پوشیدہ ہے جس سے آپ آہستہ آہستہ آگاہ ہوتے رہیں گے کہ یہ 'دین خانقاہی' جس کو دین اسلام کہا جاتا ہے اس دین خانقاہی کا تو 'دین اسلام' سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ صرف خرافات(بے حیائی) شرک و بدعت جهوٹی کہانیاں قصوں پر مبنی ہے.جاری ہے......تالیف:عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

Thursday 17 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،34

اسلام اور خانقاہی نظام

پیر جو گوٹھ میں پگاڑو:
حکومت میرے علاقہ میں وہابیت پھیلانا چاہتی ہے!! اس استحصال سے عوام کو بچانے کی سب سے بہترین تدبیر صرف یہ ہوسکتی ہے کہ سندھی عوام میں جمہوریت نہیں بلکہ قرآن و سنت سے آگاہی کا صحیح شعور پیدا کیا جائے .... لیکن پیر صاحب اس شعور سے بہت خائف ہیں کہ اگر لوگوں کو قرآن اور حدیث کی خالص تعلیمات کا پتہ چل گیا تو پھر میرا مرید تو کوئی نہ رہے گا ....اسی لئے جب حکومت ان کے علاقے میں کسی قسم کے ترقیاتی وتعلیمی منصوبے شروع کرنا چاہتی ہے تو وہ حکومت پر برسنے لگتے ہیں کہ” وہ علم وہ آگہی کا شعور پھیلا کر میرے علاقے میں وہابیت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے -“ محترم صحافی اجمل نیازی صاحب نے سندھ میں ان کے علاقوں میں حکومت کے تعاون کے متعلق دریافت کیا کہ آیا حکومت ترقیاتی کاموں کے لیے ان سے تعاون کرتی ہے کہ نہیں تو پیر صاحب نے جواب دیا : ” ہاں بابا ! مگر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہاں وہابیت پھیلائی جائے اور میرے مریدوں کو مجھ سے دور کیا جائے( روزنامہ پاکستان : 12جون 1995ء)
قارئین کرام ! آپ غور کریں حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ وہابیت پھیلائے - وہ تو وہابیت سے ڈرتی ہے کیونکہ وہابی کا مطلب ہی ہر باطل اور طاغوت کا انکار کرنے والا اور اس سے ٹکڑا جانے والا ہے..《وہابی سے یاد آیا ہم آگے جا کر ولی اللہ کون؟ نشست میں مختصر بتایئں گے کہ جب بهی توحید کی بات کی جائے تو داعی توحید کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے.اس کے پس پردہ اصل حقیقت کیا ہے》  قارئین کرام خانقاہی نظام میں کس قدر مزے ہیں ‘ رنگینیاں ہیں‘ کس قدر عیاشی ہے ؟ اس کا عام آدمی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ان عیاشیوں میں پڑ کر خانقاہوں کے گدی نشین خلیفے موت کو بالکل بھلائے بیٹھے ہیں”اور موسیقی سے لطف اندوز ہونے کیلئے کبهی قوالی تو کبهی صوفیانہ کلام کے نام پر محفلیں سجائی جاتی ہیں.تو کبهی دهمال کے نام پر ناچ گانے کا بازار گرم کیا جاتا ہے.مزید اپنی عیاشیوں کے لئے بهنگ 'حقہ'پان'نسوار'اور دیگر نشہ آور چیزوں کو خانقاہوں کی رونق بنایا جاتا ہے تا کہ لفنگے /لٹیرے/نشئی اور بے دین حضرات ذیادہ سے ذیادہ شرکت کریں--  بہرحال--: ایک آدمی نے کسی پیر صاحب کو کتاب دی - پہلا صفحہ کھولا تو لکھا تھا کہ ہر آدمی کو اس سے پتہ چلے گا کہ اس نے کب مرنا ہے ؟ .... کہاں مرنا ہے ؟ .... پیر صاحب نے کتاب کو فورا پھینک دیا - ہمیں کیا ضرورت ہے اس طرح سوچنے کی؟ ابهی تو ہم اپنی موج مستی اور جوانی کے جوش میں مگن ہیں .... “ قارئین کرام  پیر صاحب کی سوچ ملاحظہ فرمائیے ! انہوں نے کتاب اس لئے نہیں پھینکی کہ اس کے دعوے غیر شرعی ہیں بلکہ یہ سوچ کر پھینکی کہ ہمیں موت کے بارے میں سوچنے اور ڈرتے رہنے کی کیا ضرورت ہے - ہمارا کام دنیا کے مزے اڑانا ہے اور سادہ لوح عوام کا استحصال کرنا ہے ابھی تو ہم جوان اور صحت مند ہیں-
 شاہ مردان شاہ ثانی پیر پگاڑا ہفتم کے مشاغل اور شب وروز : شاہ مردان شاہ ثانی پیر پگاڑا ہفتم کا سب سے محبوب ترین شوق گھڑ دوڑ ( ڈربی ریس ) کروانا اور شکار کرنا ہے - گھڑ دوڑ ان کی زندگی کا لازمہ ہے- بلکہ پیر صاحب پہچانے ہی اسی حوالے سے جاتے ہیں -بڑی بڑی شرطیں لگا کر اس گھڑ دوڑ کا اہتمام کرتے ہیں - ایک دفعہ جب ان کی بارگاہ میں جان کی امان پا کر کسی نے پوچھا کہ جناب یہ گھوڑوں کی ریس کرنا تو غلط سمجھا جاتا ہے - آپ کیوں اس کا اہتمام کرتے ہیں؟ - پیر پگاڑا نے جواب دیا ”حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ ریس دیکھی بھی اور کروائی بھی- حضور پاک کے دور میں بھی گھوڑوں پر شرطیں لگیں - لوگ اسے کیسے برا کہتے ہیں-“ یقینا اس سادہ سے مسلمان کو یہ سن کر سخت حیرت ہوئی ہو گی - کیونکہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ و تابعین رحمہ اللہ وغیرہ میں تو اس کی کہیں مثال بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی-لیکن ان خانقاہی پیروں نے اپنی موج مستی کیلئے جهوٹی کہانیاں قصے'کرامتیں'من گهڑت روایات گهڑ رکهی ہیں .
پیر پگاڑا کے دیگر مشاغل میں فوٹو گرافی بھی شامل ہے سگار پینے کے معاملے میں تو اپنا ُثانی نہیں رکھتے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کو اچھا تحفہ دینے کی تلقین کی تھی اور بتایا تھا کہ” اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے -“ پیر پگاڑا اپنے دوستوں کو سگاروں کا تحفہ دیکر یہ کام کرتے ہیں - سگاروں کے مسلسل پینے سے انہیں خطرناک کھانسی بھی لاحق ہو چکی ہے -جس سے وہ نڈھال تک ہو جاتے ہیں -جہاز میں جب وہ میرے ساتھ بیٹھے تھے تو تب بھی بار بار کھانس رہے تھے- تا ہم وہ اپنی دھن کے پکے ہیں- جس طرح شاہ احمد نورانی رنگا رنگ قسم کے پان کھانے اور تمباکو کو ہضم کرنے میں پکے ہیں - پیر صاحب دن میں اوسطا 30کپ کافی پی جاتے ہیں-اور موسیقی کے بهی کافی شوقین ہیں-اس کے ساتھ ان کا یہ رخ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ جب 1990ءمیں آئی جے آئی کی حکومت واضح مینڈیٹ کے ساتھ پھر برسر اقتدار آگئی ‘ تو سینٹ میں شریعت بل جب دوبارہ پیش ہونے لگا تو ان کا جلال دیکھنے والا تھا - صاف فرما دیا کہ” شریعت بل چند بھٹکے ہوئے مولوی پیش کر رہے ہیں - اس بل کی آمد پر جو پریشانی ہو گی ‘ اس کا اندازہ مولوی نہیں لگا سکتے -
شریعت بل نے منظور نہیں ہونا -“( جنگ :3جنوری 1990ء)
شریعت بل اور وہابی ازم : پیر پگاڑا چونکہ صاحب کشف و بصیرت بھی ہیں ‘ اس لئے نہ صرف یہ اندازہ لگا لیا کہ شریعت بل کی آمد پر بہت پریشانی ہوگی بلکہ یہ بھی منکشف کر دیا .کہ شریعت بل کے اصل خالق کی نیت ملک میں” خلافت “ کا نظام رائج کرنے کی ہے - شریعت کا مقصد وہابی ازم کو نافذ کرنا ہے-کیونکہ پیر صاحب اچهی طرح جانتے تهے کہ اگر شریعت بل پاس ہو گیا تو اس سے قرآن و سنت کے احکام کو عملی جامعہ پہنایا جائے گا-جس سے میری گدی اور عیش و عشرت کو چهین لیا جائے گا
 اور صوفی ازم باقی نہیں رہ سکے گا.جاری ہے...
تالیف:عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
نیچے دیئے گئے لنک پر آج تک کی  تمام اقساط اپ لوڈ کر دی گئی ہیں. http://deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com/

اسلام اور خانقاہی نظام،33

اسلام اور خانقاہی نظام

سائیں راشد کی اولاد....پیر آف جھنڈو شاہراہ توحید پر.... پیر آف پگاڑو شاہراہ شرک پر: سائیں راشد کی اولاد سے-سندھ کا سب بڑا مذہبی اور سیاسی پیر اگر پیر آف پگاڑو ہے-تو سائیں راشد ہی کی اولاد سے سندھ کا سب سے بڑا عالم محدث‘اور خطیب سید بدیع الدین شاہ راشدی پیر آف جھنڈو ہے-سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کہ جنہوں نے سندھی زبان میں توحید خالص اور دیگر بہت سی کتب لکھیں-انہوں نے سندھی میں قرآن کی تفسیر بھی لکھی کہ جس کی چند جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں-انہوں نے کتاب و سنت کے نور کو سندھ کی خانقاہی/درباری تاریکی میں پھیلانے کے لئے دن رات ایک کئے رکھا-شیخ عبد اللہ ناصر رحمانی آف کراچی اس راہ میں ان کے ساتھی بنے اور سندھ میں توحید وسنت کا کام جاری ہوا-حضرت شاہ صاحب سعیدآباد میں پورے سندھ کی سطح پر ہر سال بہت بڑی کانفرنس منعقدکرتے-پنجاب سے علماء کی ایک تعداد ہر سال اس کانفرنس میں شرکت کرتی- چار پانچ سال راقم متواتر شاہ صاحب کی شفقت سے اس کانفرنس میں شرکت کرتا رہا- ایک بار اس کانفرنس کے موقع پر اکٹھے بیٹھے تھے‘ تو میں نے شاہ صاحب سے سوال کر دیا کہ ”آپ نے کبھی پیرپگاڑو کو بھی دعوت دی ہے؟شاہ صاحب نے کہا-پورے سندھ میں دعوت جاری ہے تو پیر پگاڑو کیسے محروم رہ سکتا ہے....؟ کئی دفعہ اسے سمجھایا ہے“اور پھر کہنے لگے کہ” ایک بار انتخابی جلسہ تھا-یہ جلسہ بہت بڑا تھا-پیر پگاڑو نے مجھے بھی بلا بھیجا-ان کے اصرار پر میں چلا گیا-اور پھر تقریر کا وقت دیا گیا تو میں نے اللہ کا دین بیان کیا‘توحید کھل کر بیان کی‘شرک اور بدعات کا رد کیا اور پیروں کی بھی خوب خبر لی-“شاہ صاحب کہنے لگے ”اس کے حر مرید بڑے سٹپٹا ئے‘ مگر وہ کیا کر سکتے تھے؟“ پیر پگاڑو صاحب مسکراتے رہے- مگر اس کے بعد انہوں نے مجھے کبھی کسی جلسے میں بلانے کی دوبارہ ہمت نہیں کی-“ تو یہ ہیں پیر راشد کے دو نمایاں بیٹے ‘ کہ جن میں ایک دعوت دیتا ہے اپنی خانقاہ اور گدی کی جانب ‘ کہ جس میں ایک انسان مر کر دفن ہے-- اور دوسرا وہ عظیم انسان ہے کہ جو !قرآن و حدیث کے مطابق اپنے رب کی طرف دعوت دیتا ہے- لوگو!.... اب یہ دو دعوتیں ہیں- ایک دنیا اور آخرت کے استحصال کی دعو ت ا ور دوسری وہ دعوت کہ جو سینکڑوں زندہ اور مردہ مصنوعی خداوں کی ناپاک غلامی سے چھڑا کر ایک اللہ کا بندہ بناتی ہے-انسان کو خوددار اور موحد بناتی ہے اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی جنتوں کی ابدی بہاروں کا مہمان بناتی ہے-اب دونوں میں سے جو آپ کو اچھی لگے اسے اختیار کر لیجئے- مگر یاد رکھئے ! اچھی دعوت بہر حال وہی ہو گی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ثابت ہوگی-اور یقینی بات یہی ہے اچھی دعوت وہی ہے جو کہ اللہ کی طرف بلاتی ہے-تو حید کا درس دیتی ہے نہ کہ خانقاہوں پہ سر خم کرنے کا-سائیں راشد کے ایک فرزند کی زندگی کس کام کے لئے وقف تھی اور وہ کیا کرتے تھے یہ تو آپ نے مختصر سے تذکرہ میں ابھی ابھی پڑھا کہ وہ تو حید کی دعوت دیتے تھے ‘ قرآن کی تفاسیر لکھتے تھے ‘ احادیث پڑھتے پڑھاتے اور ان کو دنیا میں شائع کرکے پھیلاتے تھے لیکن سائیں راشد کے دوسرے بیٹے پیر آف پگاڑا کا کیا کردار ہے ؟ ان کی کیا مصروفیات اور سرگرمیاں ہیں ؟ اس کا ہم یہاں مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں ‘ پیر پگاڑا سے جہاز میں ایک ملاقات : لیجئے ! قارئین کرام ! میرے دماع او ر ذہن کے پردہ سکرین پر وہ منظر تیزی سے حرکت کر رہا جب ایک دفعہ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے مجھے پیر پگاڑا صاحب سے گفتگو کرنے کا موقع ملا- یہ حسن اتفاق تھا کہ پورے جہاز میں ایک ہی سیٹ خالی تھی اور مجھے بھی اسلام آباد کے لئے جانا ضروری تھا‘ اور وہ خالی سیٹ بھی پیر پگاڑا کے ساتھ متصل تھی-میں جب سیٹ پر بیٹھا تو پیر پگاڑا کو اپنے پاس پاکر ان سے سلام دعا کے بعد گفتگو کی-پیر صاحب نے بھی کہا کہ” اسلام آباد تک گفتگو کیجئے “ دوران گفتگو میں نے ان سے کہا کہ ”پیر صاحب آپ کو پتہ ہے کہ انڈیا آج کل بہت بڑی مصیبت میں پھنسا ہوا ہے - مجاہدین ....کشمیر میں جہاد کرکے انڈیا کو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں اور اب اس جہاد نے انڈیا کو معاشی ‘ سیاسی اور دفاعی لحاظ سے اس قدر کمزور کردیا ہے کہ بیرونی دنیا کے پریس کے علاوہ ہندوستان کا میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اگر کچھ دیر اور یہی حالات رہے تو انڈیا ٹکڑ ے ٹکڑے ہو جا ئے گا-“ تو.... آپ کا کشمیر کے جہاد کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ .... پیر صاحب نے جواب دیا : ” سب جہادی تنظیمیں اور خاص طور پر جماعت اسلامی سب کھانے پینے ا ور دولت و فنڈز کے حصول کے لئے لگے ہوئے ہیں اور یہ سب کھانے پینے کا چکر ہے اور کچھ نہیں-“ اور پھر پیر صاحب نے وہ جملہ کہا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا - کہنے لگے ’ ’ انڈیا کو چھوڑیں پاکستان کی فکر کریں کہ وہ بچتا ہے کہ نہیں “ قارئین کرام ! یہ تو تھا پیر صاحب کی جاگیردارانہ ‘ غلامانہ ‘ اور صوفیانہ سوچ پر مبنی جواب ........ اب میرے ذہن میں ایک اور منظر بھی کچھ اس طرح گھوم رہا ہے کہ .... یہ لاہور میں ریس کورس کلب کا میدان ہے - گھوڑوں کی ریس شروع ہونے والی ہے ‘ شرطیں لگ رہی ہیں .... اور ہم ادھر آئے پیر پگاڑا سے ملنے لیکن ان کی جگہ ان کا بیٹا علی گوہر ان کے نائب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتا نظر آیا - ان سے بھی گفتگو ہوئی-اسی طرح کے ایک استفسار پر انہوں نے جواب دیا اس سے اندازہ لگائیں کہ ان پیران باصفا کی پاکستان کے ساتھ کسقدر ہمدردیاں ہیں-پیر پگاڑا کا بیٹا علی گوہر ہمیں جواب دیتے ہوئے کہنے لگا :”ہمیں کیا پرواہ ‘جب پاکستان نہ تھا تو ہماری درگاہ قائم تھی اور ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا !! اگر پاکستان قائم نہ بھی رہے تو ہماری درگاہ تو پھر بھی قائم ہی رہے گی-“ قارئین کرام! یہ ہے ان پیران پاک باز کی سوچ کی پرواز-آپ ان سے کشمیر کے جہاد کے متعلق یا کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں صرف بیان کی حد تک ہمدردی کی توقع کیسے کرسکتے ہیں کہ وہ تو اپنی گدی کے ہوتے ہوئے پاکستان کے وجود کے برقرار رہنے یا نہ رہنے کی بھی پرواہ نہیں کر رہے- شاید اس لئے کہ جس طرح انہوں نے 1857ءاور اس کے بعد قیام پاکستان تک انگریزوں سے مل کر سندھ کی بھولی عوام کا استحصال(ناجائز فائدہ اٹهانا) کیا - مستقبل میں بھی کرتے رہیں گے ‘ حکومت کوئی بھی آئے پاکستان پر قابض کوئی بھی ہو ان کو اس سے کیا.انکو تو اپنے بنک بیلنس دنیا کی عیش و شہرت  سے غرض ہے چاہے وہ کسی بهی طریقے سے ہو .جاری ہے.....تالیف:عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

اسلام اور خانقاہی نظام،32

اسلام اور خانقاہی نظام

پیر جو گوٹھ میں پیر پگاڑو:
اللہ نے آسمانوں سے ستون بھیجا: یہاں کا ایک نوجوان حر مرید کہ جس کے سینے پہ حر مرید کا کارڈ بھی آویزاں تھا‘کہہ رہا تھا-یہ جو چالیس ستون ہیں‘ان میں فلاں ستون اللہ نے آسمانوں سے بھیجا تھا‘پھر اس ماڈل کے مطابق باقی ستون بنائے گئے- اسی طرح درباری مسجد میں ایک ڈرم میں چھوٹے چھوٹے کنکر نما سفید پتھر بہت بڑی مقدار میں پڑے تھے-پوچھا یہ کیا ہیں ؟ تو بتلایا گیا کہ”یہ پیر صاحب کی کرامت ہے‘کہ ان کو رگڑا جائے تو آگ پیدا ہوتی ہے“اور پھر وہ دو پتھروں کو رگڑ کر ہمیں آگ نکا ل کر دکھلانے لگا-اب لوگ آتے ہیں-ان پتھروں پہ ورد کرتے ہیں‘اور ان کو چومتے ہیں- قارئین کرام!غور کیجئے ! لند ن میں ابتداء سے لے کر جوانی تک زندگی بسر کرنے والا ‘وہیں تعلیم حاصل کر نے والا ”پیر پگاڑا“....- جب سندھ میں اپنی گدی پر آتا ہے‘ تو محض اپنی گدی کو چمکانے کے لئے‘سادہ لوح لوگوں کو لوٹنے کے لئے‘ کیا کیا سوانگ رچاتا ہے! حالانکہ پتھروں کی رگڑ سے آگ کا پیدا ہونا وہ معمولی بات ہے جسے دوسری جماعت کا طالب علم بھی اپنی سائنس کی کتاب میں پڑھتا ہے اور جانتا ہے-امریکہ‘برطانیہ اور جاپان کے اولیائ: بہرحال اگر انہی چیزوں کا نام کرامت ہے‘ تو پھر بڑے بڑے ولی پاکستان میں نہیں بلکہ برطانیہ‘امریکہ اور جاپان وغیرہ میں ہیں-بھائی عبد الناصر اور میں ایک بار جہاز میں سفر کر رہے تھے‘ تو عبد الناصرصاحب کہنے لگے:حمزہ صاحب! ہمارے خانقاہی بھائی بھی بڑے سادہ ہیں-میں نے پوچھا ”وہ کیسے؟“ کہنے لگے-” انہیں پوجنا چاہئے اس ولی کو کہ جس نے یہ جہاز بنایا ہے-کتنی بڑی کرامت ہے اس کی‘کہ یہ لوہا اڑھائی سو انسانوں کو لے کر فضا میں اڑ رہا ہے-اور داتا ماننا چاہئے”ایڈیسن“ کو کہ جس نے ریڈیو اور مواصلاتی نظام ایجاد کیا-اور غوث اور غیب دان ماننا چاہئے-امریکہ کے ان سائنسدانوں کو کہ جن کے مواصلاتی سیارے آج پوری دنیا کی ایک ایک خبر سے واقف ہیں-“میں نے کہا ” یار آپ کی بات تو ٹھیک ہے‘میں ا ن شآءاللہ یہ مشورہ آپ کا پہنچا دوں گا“.... سو میں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا -کہ اے بریلوی بھائیو! اگر تم نے ولیوں کو ان کی کرامتوں کی بنیاد پر ہی پوجنا ہے تو پھر ان ولیوں کو پوجو کہ جن کی کرامتیں زندہ ہیں ‘اور لوگ ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں-لہذا اجمیر شریف جانے کی بجائے‘ بغداد شریف کا رخ کرنے کی بجائے .... لندن شریف‘ واشنگٹن شریف اور جاپان شریف کی طرف جائیے- ہم نے یہ بات طنزیہ اس لئے کی ہے” شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں توحید کی بات....
 پیر کے کنویں کا بئرِ زم زم سے خفیہ رابطہ: اسی طرح اس دربار کے خادم حر مرید نے یہ بھی بتلایا کہ”پیر کے محل میں ایک کنواں ہے-اس کا اور آب زم زم کے پانی کا آپس میں زیر زمین رابطہ ہے‘ تو وہاں سے لوگ زم زم کا پانی پیتے ہیں-چنانچہ ایک فقیر جو حج کرنے گیا‘ تو مکے میں زم زم پیتے ہوئے اس کی تسبیح کنویں میں گر گئی-مگر وہ تسبیح یہاں آکر پیر جوگوٹھ کے کنویں سے مل گئی-کیونکہ دونوں کا باہمی تعلق ہے-تو یہ ہے بیت اللہ کا مقابلہ اور وہاں کے ”شعار“ (خصوصیات ) کا مقابلہ جو ان درباروں پر جاری ہے-اور پیر پگاڑو جیسے لوگ ایسی بے سرو پا کہاوتوں سے اپنی مذہبی اور سیاسی گدیوں کو چمکائے ہوئے ہیں-اور مزاج ان کا یہ ہے کہ ڈربی ریس کے لئے گھوڑے دوڑاتے ہیں‘ لنگور پالتے ہیں‘ ا ور ایسے جانوروں کا چڑیا گھر بنا کر اپنا دل بہلاتے ہیں-لوگوں کو جانتے اور سمجھتے ہوئے شرک و بدعات اور ضعیف الاعتقادی ‘ توہماتی اور طلسماتی دنیا کا اسیر بنائے ہوئے‘ اپنے آپ کو پجوا رہے ہیں- اور یوں سندھی عوام اور غریب ہاریوں کا خوب استحصال یعنی ناجائز طریقے سے عوام کے ایمان'عزت اور مال دین کے نام پر سر عام لوٹا خا رہا ہے....
جاری ہے.....
تتالیف:عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
آپ تمام اقساط نیچے دیئے گئے لنک پر بهی پڑھ اور شیئر کر سکتے ہیں⬇ http://deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com/

اسلام اور خانقاہی نظام،31

اسلام اور خانقاہی نظام

چند استحصالی(ناجائزاستفادہ) واقعات یہاں ہم صرف چند واقعات پیش کرتے ہیں جس سے آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ سندھ کی بھولی بھالی اور سید کے نام پر مرمٹنے والی عوام کا کس بے دردی سے استحصال کیا جارہا ہے - پیر گیا دبئی!: ستمبر کا خطبہ جمعہ لاڑکانہ شہر کی جامع مسجد اہل حدیث میں پڑھانے کا اتفاق ہوا- وہاں مجھے بھائی علی محمد صاحب نے بتلایا کہ دبئی میں میرا کاروبار ہے -وہاں میرے بیٹے بھی رہتے ہیں -وہاں پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک شخص نورحسین ہے ‘ جسے دبئی والا کہا جاتا ہے- وہاں ان صاحب نے ایک بہت بڑی مارکیٹ بنائی ہوئی تھی- ہم بھی اسی مارکیٹ کی ایک دکان میں کاروبار کیا کرتے تھے - پھر اس کے ساتھ میرے راہ ورسم بڑھے تو پتہ چلا کہ نور حسین نے یہ کروڑوں کی جائداد سندھ سے بنائی ہے- اس نے خود بتلایا کہ ”میں غریب آدمی تھا مجھے پتہ چلا کہ سندھ میں یہ کاروبار خوب چلتا ہے‘ تومیں پیر بن کر سندھ میں چلا گیا - وہاں لوگوں کے گھروں سے جنبھوت نکالتا‘ لوگوں کے پیٹوں سے سانپ نکالتا -غرض پیری کے نام پر میں نے عجیب و غریب کرشمے بنا رکھے تھے‘ اور انہی کی بنیاد پر میں نے یہ ساری جائداد بنائی ہے“ حاجی علی محمد صاحب کہتے ہیں:” میں نے اسے بہت سمجھایا کہ تو نے لوگوں کا اس قدر استحصال(ناجائز فائدہ اٹهانا) کیا‘ اب تو اللہ سے معافی مانگ لے- مگر باوجود اس کے کہ وہ اس فراڈ کا اعتراف کرتا ہے‘ اسے توبہ کی توفیق نہیں مل سکی-“ چنیوٹی پیر کروڑپتی کیسے بنا ؟ ا سی طرح انہوں نے بتلایاکہ” چنیوٹ کا رہنے ولا ایک شخص جو یہاں پیر بن کر آیا‘ اس کی پیری اور تعویذ خوب چلے‘ میں اسے جانتا تھا -اتفاق سے کراچی میں کلفٹن کے قریب میں نے بہت بڑے فیلٹ دیکھے‘ تو پتہ چلا کہ یہ فلاں پیر صاحب کے ہیں- اس پر میں حیران رہ گیا!! کہ اس ظالم نے اس قدر استحصال کیا ہے‘ کہ چند ہی سالوں میں اس نے کروڑوں کے فلیٹ تعمیر کر لئے-“ انہوں نے مزید بتلایا-” اب یہاں سندھ میں پیر مٹھا بڑا مشہور پیر ہے- یہ بھی پنجاب سے آیا تھا- خوب جائداد بنائی- اب اس کا دربار بھی بن چکا ہے - اس کی اولاد اب نیازوں پر پل رہی ہے‘ اور اس کا پوتا نشہ کرتا ہے-“ سائیں ! پنجاب کے سید کی زیارت کرلو.... لاڑکانہ میں خود میر ے محلہ کا ایک شخص ایک روز دوڑتا ہو امیرے پاس آیا کہنے لگا:” سائیں! پنجاب سے سید آیا ہے -جلدی ! زیارت کرلو!“ میں نے اسے کافی سمجھایا ‘ وہ نہ سمجھا - پھر چند ماہ اپنی پوجا کروانے کے بعد یہ پیر ایک مریدنی کے ساتھ ملوث ہو گیا - غرض اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں - تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ پیری کے نام پر استحصال کہ جسے سندھی اور پنجابی پیر روا رکھے ہوئے ہیں-اس استحصال کا کوئی نام ہی نہیں لیتا- حالانکہ استحصال اسی کا نام ہے جو یہ کر رہے ہیں-باقی تو محض دنگا فساد ہے‘ جسے شاید یہی لوگ روا رکھے ہوئے ہیں تا کہ اردو‘ پنجابی ا ور بلوچی و پٹھان کا نام لے کر لوگوں کی توجہ جھوٹے اور مصنوعی استحصالوں کی طرف مبذول رکھی جائے -اور اصل استحصال کی طرف ان کا دھیان ہی نہ جانے دیا جائے-
پیر جو گوٹھ میں پیر پگاڑو کی گدی:سکھر شہر میں دریائے سندھ پہ بنے”بیراج“ کو بائیں طرف کے پل سے عبورکریں تو ایک بڑی نہر کے کنارے کنارے خوبصورت سڑک پیر جو گوٹھ کو جاتی ہے- ہم اب اسی سڑک پر رواں دواں چل رہے تھے-سکھر سے ہم نے اب ۵۳ کیلو میٹر کا سفر طے کر لیا تھا اور سامنے پیر جو گوٹھ تھا‘جو پیر پگاڑا کا آبائی گاوں ہے-اب ہم دربار کے اندر داخل ہو چکیں ہیں-رونق کے اعتبار سے قلندر کا دربار-اور عمارت کے اعتبار سے سندھ کا یہ سب سے بڑا دربار معلوم ہوا بمطابق 1998ء-کیوں نہ ہو؟ سندھ کا سب سے بڑا معروف پیر بھی پیر آف پگاڑا ہے-محل پر سے دیدار ِ یار: پیر صاحب بہت بڑی جاگیر کے مالک ہیں-کراچی میں ان کا بہت بڑا محل”کنگری ہس“ کے نام سے معروف ہے- یہاں پیر جو گوٹھ میں ان کا گھوڑوں کا بہت بڑا فارم ہے-یہ گھوڑے ریس کورس میں دوڑتے ہیں-لوگ ان پر جوا لگاتے ہیں- اس کے علاوہ یہاں بھی پیر صاحب کا ایک عالیشان محل ہے-جہاں پر پیر صاحب اپنی زیارت کرواتے ہیں جبکہ عام حالات میں دربار کے اندر خوبصورت جگہ بنی ہوئی ہے-وہاں اپنا دیدا ر کراتے ہیں اور لوگ منتیں مان کر پیر صاحب کے چہر ے کی زیارت کرتے ہیں-یہاں جو دربار ہے‘ اس کے گنبد پر سونے کے پترے چڑھے ہو ئے ہیں-یہ دربار پیر پگاڑا کے جد امجد پیر راشد سائیں کا ہے‘جن کے نام کے ساتھ”روزی ڈاھنی“ لکھا ہوا تھا-”روزی ڈاھنی“کا مطلب یہ معلوم ہو ا کہ وہ پیر جو پیدائشی روزہ دار ہو اور پھر مرتے وقت بھی روزہ کی حالت میں ہی ہو-اس وجہ سے اسے سندھی زبان میں ”روزی ڈاھنی“کہا جاتا ہے- سائیں راشد کا دربار سونے کے گنبد تلے ایک اونچی جگہ پر ہے اور اس کا منہ مسجد کی طرف کھلتا ہے-یہاں قبر کے سامنے شیشے لگے ہوئے ہیں‘کوئی اندر نہیں آجا سکتا-بس زائر جالی کو ہی چوم چاٹ سکتا ہے-اور یہ جو مسجد ہے‘تو اس کی چھت اور اس کے ستون لکڑی کے بنے ہوئے ہیں-لکڑی بیل بوٹوں کی کھدائی کے کام سے مزین ہے- کل چالیس ستون ہیں.....جنتی ستون کا اگلی قسط میں پڑهیں جاری ہے....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

اسلام اور خانقاہی نظام،30

اسلام اور خانقاہی نظام

برہمنیت اور مخدومیت درباری گدی نشینوں کے لئے ”مخدوم“ ایک ایسی اصطلاح ہے جو اب بہت عام ہوچکی ہے-پنجاب اور سندھ کے اکثر گدی نشین اپنے آپ کو مخدوم کہلواتے ہیں-جیسے مخدوم طالب المولی.... اور مخدوم امین فہیم - پیر پگاڑو کا ایک رشتہ دار مخدوم حسن محمود .... ملتان کے مخدوم سجاد حسین قریشی وغیرہ وغیرہ - برہمن اور مخدوم: یاد رہے ! خدمت ‘ خادم ‘ مخدوم -ایک ہی مصدر و مادے کی مختلف شکلیں ہیں-مطلب یہ ہے کہ یہ جو گدی نشین ہیں‘یہ خاندانی طور پر نسل در نسل مخدوم ہیں-یعنی ایسی مخلوق کہ جس کی خدمت ہمیشہ سے کی گئی اور آئندہ بھی کی جائے گی-اب جو ان کی خدمت کریں گے وہ خادم ٹھہرے-یعنی یہ جو ہاری ‘مزارع اور مرید وغیرہ ہیں‘ یہ سب خادم ہیں .... اور ان کا کام خدمت کرنا ہے-اب یہ خدمت کیا ہے ؟ خدمت یہ ہے کہ جب ان بزرگوں کا عرس ہو تو اس عرس میں شرکت کی جائے‘وہاں نذریں دی جائیں‘خزانوں کو نوٹوں سے بھرا جائے‘مریدنیاں اپنے زیورات نچھاور کریں .... اور پھر یہ سارا مال مخدوم صاحب کی خدمت کے لئے حاضر کر دیا جائے-مزید برآں ہر جمعرات اور اس کے علاوہ بھی گاہے بگاہے حاضری جاری رہنی چاہئے-پھر جب الیکشن کا وقت آئے تو ان خادموں کو انتخابی صندوکڑے میں مخدوم صاحب کو ووٹ پیش کرنے چاہئیں‘تاکہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ کر ان خادموں کی جو دولت ٹیکسوں چونگیوں کی صورت میں حکومتی خزانے میں جمع ہو رہی ہے‘وہ اسے بھی اپنی خدمت میں لاسکیں .... ملوں‘کاروں کے پرمٹ حاصل کریں .... پلاٹ لیں....- کروڑوں کے قرضے لے کر معاف کروائیں .... اور وزارتوں کے مزے اڑائیں .... قارئین کرام ! خادم لوگ .... ایسی خدمت....بجا لا رہے ہیں اور مخدوم لطف اندوز ہو رہے ہیں .... اپنے باپ دادا کی قبروں کی گدیوں پر بھی-اور حکومت کے ایوانوں میں بھی-علامہ اقبال نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے: ”مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن“برہمن اور مخدوم ایک ہی تصویر کے دو رخ:اب برہمنیت کیا ہے ؟وہ بھی تو یہی ہے کہ جس میں برہمن کے پاس مندر کی تقدیس کا بلند مقام یعنی”پنڈت“ہوتا ہے-اور اس کی وجہ سے سیاست پر بھی وہی چھایا ہو تا ہے-جیسے پنڈت نہرو کا خاندان ‘کہ وہ بھی برہمن تھا‘اور برہمن کا مطلب مخدوم ہے یعنی ایسی قوم کہ جو حکومت کرے گی-مذہبی اور دنیاوی سیاست اس کے پاس ہوگی-اس کے بعد کھشتری‘ ویش اور شودر ہیں‘اور ان سب کا کام”برہمن“کی خدمت ہے-تو علامہ اقبال نے بڑا خوبصورت اور حقائق کے عین مطابق نقشہ کھینچا ہے کہ .... یہ جو لوگ ہیں‘ جو مریدوں کے دئیے ہوئے نذرانے پہ پلتے ہیں یہ دراصل کعبے کے برہمن ہیں‘جو بتوں کی طرح اپنے آپ کو پجوا رہے ہیں- اور یہ جو نذرانے لے رہے ہیں ‘ علامہ اقبال ان نذرانوں پہ بھی چوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں”نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا“اے قارئین کرام! یہ برصغیر میں آریائی ہندوں کی وہ برہمنیت ہے کہ جس کی شکل مسلمانوں میں اب”مخدومیت“ کے نام سے فروغ پذیر ہے- حقیقی استحصال کیا ہے ؟: آج یہ جو ایک عرصے سے ہر طرف استحصال استحصال کے نعرے لگ رہے ہیں-تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ نعرے کو ن لگا رہے ہیں اور یہ استحصال ہے کہاں....؟؟ یاد رکھئے! استحصال صرف دو ہی طرح کے ہو سکتے ہیں‘(۱)دنیا کااستحصال (۲)آخرت کا استحصال-قارئین کرام! اب غور کیجئے ! کہ ان دونوں میں کس کا ہاتھ ہے-؟یقین جانئے! ان دونوں میں سب سے زیادہ ہاتھ جاگیردار پیروں 'گدی نشینوں اور خانقاہیوں کا ہے-اس لئے کہ اپنی قبوری گدیوں اور حکومتی ایوانوں میں تو یہ لوگوں کے اموال کا استحصال کرتے ہی رہے ہیں-جبکہ جو اصل استحصال ہے‘وہ ہے لوگوں کے عقیدے کا استحصال-انہوں نے لوگوں کی آخرت کو بھی برباد کر دیا ہے-اور یہ سب سے بڑا استحصال ہے‘اس لئے کہ دنیا کی زندگی تو چند روزہ ہے‘یہ تو بیت ہی جائے گی-جبکہ آخرت کی زندگی کی کوئی حد نہیں-تو یہ پیر جو لوگوں کو شرک کی بھٹیوں میں جھونک کر جہنم کا ایندھن بنا رہے ہیں-یہ ہے سب سے بڑا استحصال‘یہ ہے سب سے بڑا ظلم جو یہ لوگ اپنے آپ پر بھی کر رہے ہیں اور اپنے ماننے والوں پر بھی-مگر ان کے ماننے والے زیادہ بد نصیب ہیں-اس لئے کہ ان کی اکثریت کی قسمت میں دنیا کی بھی بدنصیبی ہے‘غربت'در در کی ٹهوکریں'اور مفلسی ہے‘اور آخرت کا بھی خسارہ ہے-یہ جو دنیوی اور اخروی استحصال ہے‘یہ سب سے زیادہ سندھ میں ہے‘ اور اس کے بعد پنجاب میں ہے‘ اس کے بعد بلوچستان اور چوتھا نمبر سرحد کا ہے-جبکہ یہ استحصال کشمیر میں بھی جاری ہے-سندھ کا جہاں سب سے زیادہ استحصال ہو رہا ہے اور سندھی پیر اہل سندھ کا خوب خوب استحصال کر رہے ہیں-وہاں پنجاب کے پیر بھی سندھ میں آکر لوگوں کی ضعیف الاعتقادی سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں-ہم بچپن سے ہی یہ سنا کرتے تھے کہ فلاں پیر صاحب سندھ میں گئے ہیں-وہاں پر ان کے بڑے مرید ہیں-اب سمجھ آئی ہے کہ یہ سندھ میں کیا کر نے جاتے ہیں....؟ یقین جانئے ! یہ پنجابی پیر‘ سندھی پیروں کی مذہب کے نام پر فراڈی گنگا میں ہاتھ دھونے جاتے ہیں‘اور خوب خوب دھوتے ہیں-
جاری ہے......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان. یہ قسط اس لنک پر بهی پڑھ سکتے ہیں...▼
http://deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com/
--------------------

اسلام اور خانقاہی نظام،29

اسلام اور خانقاہی نظام

راقم تالیف بهی حضرت سخی لال شہباز قلندر کے مزار پر جا چکا ہے.اب چند مناظر مشاہدہ کریں!
دربار کے بالکل سامنے صحن میں پنج تن پاک کا الم لگا ہوا ہے'لوگ اپنی مرادوں و دعاوں کی قبولیت  کیلئے اس کے  ارد گرد چکر(طواف) لگاتے ہیں.اور قبر کے آس پاس کچھ بابے (ملنگ)جن کی بڑی بڑی مونچهیں'دهاڑی اور کئی کئی فٹ سر کے لمبے اور گندے بال گندا لباس'شاید نہ نہانے کی منت مان رکهی ہو،نمازوں اور اسلامی احکام سے بے خبر کئی میٹر لمبا مالا  جهپنے اور چلہ کشی  میں مگن ہیں.دوسری طرف قبر پر لوگوں کی بهیڑ لگی ہوئی ہے کوئی دعا' آہ زاری کر رہا ہے تو کوئی گم سم کهڑا ہے.ہر ایک کی یہی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح قبر کو بوسہ یا ہاتھ لگا کر دلی مراد پوری کر لے....لوگ ڈهول کی تهاپ پر دهمالیں ڈالتے ہوئے مست ہو کر  قبر پر چادریں چڑهانے کیلئے  جوق در جوق آ رہے ہیں ایک چادر کے ساتھ دوسری چادر کو باندھ دیا جاتا ہے جس کی لمبائی سینکڑوں میٹر تک جا پہنچتی ہے.
دربار سے تهوڑا ہٹ کے کیچڑ کے ایک گهڑهے سے لوگ کیچڑ(گیلی مٹی) جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کی سرکار لال شہباز قلندر نے یہاں صابن یا تیل لگایا تها'اب اس مٹی کو بطور شفاء کیلئے اپنے جسموں پر لگا کر ساتھ ہی میں ایک گندے پانی کا کنواں ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مرشد لال قلندر صاحب یہاں نہاتے تهے. اب یہاں پر گرمی دانوں اور دیگر بیماریوں کی شفاء کیلئے یہاں غسل کیا جاتا ہے....ساتھ ایک اور گندے پانی کا گهڑها ہے"اس گندے پانی کو لوگ خرید کر بوتلوں میں ڈال کر شفاء کے طور پر استعمال کرتے ہیں....اس کے علاوہ دربار شریف پر آنے والے زائرین کے ذوق و شوق کو مد نظر رکهتے ہوئے لکی رانی سرکس' موت کا کنواں'ناچ گانا'میجک شو'ٹهیٹر'جوا خانے'شام قلندر'قوالی کی محفلیں'خرید و فروخت'الغرض کہ! ہر وہ کام جس سے شیطان کو خوش اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب ہو اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے برعکس ہو ان تمام خرافات کو دین اسلام کا حصہ سمجھ کر سر انجام دیا جاتا ہے. سرکار سخی لال شہباز قلندر کے مزار پر خرافات(بے حیائی) تو بے شمار ہیں لیکن ہم انهیں پر اکتفا کرتے ہوئے تحریر کو آگے بڑهاتے ہیں......   
 بھٹ شاہ اور سرور نوح کے مزارات: حیدر آباد سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ‘ جی ٹی روڈسے دو تین کیلو میٹر ہٹ کر ‘ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا مزار ہے- سندھی میں” بھٹ “ ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں -یہ صوفی شاعر چونکہ دنیا اور اہل دنیا سے الگ تھلگ ہوکر‘ اس بے آباد ٹیلے پر ریاضت کیا کرتے تھے اور صوفیانہ شعر کہتے تھے -البتہ یہ ایک الگ بات ہے اور شاید نام نہاد محبان رسول کے بارے میں نہیں ہے‘ اور وہ بات یہ ہے کہ لا رھبانیة فی الاسلام ” اسلام میں رہبانیت نہیں ہے “ تصوف شکن فرمان رسول: یعنی دنیا سے الگ تھلگ ہو کر ریاضت و عبادت کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے- اور ایسا کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور عمل کے بہرحال خلاف ہے -- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ واقعہ بھلا کس سے پوشیدہ ہے- کہ ایک جہادی قافلہ ایک بڑے ہی خوبصورت منظر سے گزرا‘ کہ جہاں پانی کا چشمہ تھا ‘اور سر سبز بھی تھا ‘ تو حدیث میں آتا ہےَ ترجمہ: ایک صحابی رسول ایک گھاٹی میں سے گزرا ‘ جہاں میٹھے پانی کا چشمہ تھا-وہ جگہ اس کو بہت زیادہ پسند آئی- دل میں کہا -( کتنا ہی اچھا ہو ) اگر میں لوگوں سے الگ تھلگ اس وادی میں ڈیرا ڈال لوں ( رھباینت اختیار کرلوں ) لیکن میں یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لئے بغیر نہیں کروں گا - تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ کیا تو امام الانبیاء نے فرمایا تمھارا اللہ کی راہ (جہاد ) میں کھڑا ہونا اپنے گھر میں بیٹھ کر 70سال نماز پڑھنے سے بہتر ہے کیا! تم نہیں چاھتے کہ اللہ کی راہ میں لڑائی کرو ؟.... جس نے اونٹنی کے دودھ دھونے کے بقدر اللہ کی راہ میں قتال (لڑائی) کی اس کے لئے جنت واجب ہو گئی - (سنن الترمذی: ابواب فضائل الجھاد صحیحہ الا لبانی رقم الحدیث 1650) امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے - معلوم ہوا اسلام میں ” رھبانیت “ نام کی کوئی چیز ہے تو وہ قتال(جہاد) فی سبیل اللہ ہے- غور فرمائیں! اب یہ ساری چیزیں اجر و ثواب کا باعث ہیں- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ایک فرمان ہے-َ ترجمہ: تمہارا رب بکریوں کے اس چرواہے پرجو کسی پہاڑ کی چوٹی پر ہے -بڑا خوش ہوتا ہے جو نماز کے لئے اذان کہتا ہے اور نماز پڑھتا ہے - اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے اس بندے کو دیکھو ! اذان کہتا ہے اور نماز قائم کرتا ہے- مجھ سے ڈرتا ہے- بے شک میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا اور اس کو جنت میں داخل کردیا-( سنن ا بی دد کتاب الصلاة باب الاذان فی السفر و صححہ الالبانی فی ارواءالغلیل للا لبانی رقم الحدیث 214)آج ولی ہی اسے مانا جاتا ہے جو جنگلوں ویرانوں اور بھٹوں کی خاک چھانتا پھرے‘ جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ بتاتا ہے‘ کہ ولی وہ ہے جو معاشرے میں رہ کر ” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر “ کا فریضہ سرانجام دے ‘ اور پھر اللہ کی راہ میں جہاد کر ے - بہرحال --- اہل دربار کا چلن الگ ہے- دنیا سے الگ تھلگ ہو کر بھی ان کی جو عبادت وریاضت ہے ‘ وہ بھی آلات موسیقی کی محتاج ہے- چنانچہ بھٹائی شاہ کے دربار کے سامنے چوک پر ایک بہت بڑا لکڑی کا ” گٹار “ نصب ہے-یہ اس دربار کے مزاج کی پہلی علامت ہے - جی ہاں ! یہ وہ علامت ہے کہ جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا :کہ مجھے آلات موسیقی توڑنے کے لئے بھیجا گیا ہے .... مگر محکمہ اوقاف کو پیسہ چاہیئے اور وہ دین کے نام پر اس ٹیلے سے خوب کمایا جا رہا ہے - پھر ہم  باب نوح “میں داخل ہوگئے!: ”ریتلا بھٹ“ کہ جو اب محکمہ اوقاف کا ”درباری بھٹ “ بن چکا ہے-اس سے واپس جی ٹی روڈ پر آئے تو پندرہ کیلو میٹر بعد ”ہالہ“شہر آگیا- جی ٹی روڈ پر ہی بہ بڑا دروازہ بنایا گیا ہے جس پر ” باب نوح “ لکھا ہوا ہے -اور پھریہ راستہ سیدھا جناب نوح کی درباری قبر پر جا کر ختم ہوتا ہے .... اس قبر کا نام کچھ اس طرح تحریر کیا گیا ہے- ” درگاہ غوث الحق مخدوم نوح“ یعنی یہ درگاہ مخدوم نوح کی ہے‘ جو اللہ کا غوث ہے.... اب یہ دعویٰ جو ان درگاہ والوں نے کیا ہے‘ تو اس کی تصدیق کے لئے آئیے اللہ تعالیٰ سے پوچھیں کہ کیا واقعی اے اللہ ! تونے مخدوم نوح کو اپنا غوث بنایا ہے؟ اللہ کی طرف سے آواز آتی ہے ....یہ آواز حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے ادا ہوتی ہے -- اور قیامت کے دن تک قرآن میں درج ہے- ملاحظہ کیجئے : مَاتَعبُدُونَ مِن دُونِہ اِلاَّ اَسمَائً سَمَّیتُمُو ھَا اَنتُم وَ اَبَائُکُم مَااَنزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِن سُلطَان ترجمہ : تم لوگ اللہ کے علاوہ محض بناوٹی ناموں کی عبادت کرتے ہو‘ جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے تجویز کر رکھا ہے-(جبکہ) اللہ نے اس پر کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی( یوسف : ۰۴)
اسی طرح ان مزاروں/خانقاہوں پر جو بهی خرافات ہوتی ہیں ان سب کا دین اسلام سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے.بلکہ یہ سب دین خانقاہی کے پیروکاروں کی من گهڑت اور بے بنیاد جهوٹی کہانیاں قصے ہیں..جاری ہے....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

اسلام اور خانقاہی نظام،28

اسلام اور خانقاہی نظام

قلندر کے دربار پر: قلندر ‘ مستی اور دھمال .... تینوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں ‘ کیونکہ قوالوں اور نورجہاں نے تصوف کے بول یوں بولے ہیں اور اپنے بولوں کا اختتام یوں کیا ہے-
'مست مست مست دما دم مست قلندر لال شاھباز قلندر مست مست'
 مستمستی کے مناظر: اب ہم نے سچ مچ یہاں مستی کے مناظر دیکھے- زائرین مرد اور عورتیں کمرہ نما برآمدوں اور بڑے سے ہا ل میں لیٹے ہوتے تھے-ایک جگہ مستی لانے والی اشیاء کے کش لگ رہے تھے ‘اوریہ لوگ دنیا وما فیھا سے بے نیاز مستیوں میں گم تھے-اس دربار کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ ہر شام کو دربار کے دروازے پر ڈھولکیوں کی تھاپ پر خوب دھمال ہوتی ہے-تب عورتوں اور مردوں کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا‘ جبکہ دربار کے بیرونی صحن میں اب بھی دھمال جاری تھی-
کنواری لڑکی اور قلندر میں شادی کا کھیل: اور جو میلے یعنی قلندر کی شادی کے دن ہوتے ہیں‘ ان کی تو بات ہی نرالی ہے - ۸-۷-۶ شعبان کو شادی کا تین روزہ جشن ہوتا ہے -- یہ بات معروف ہے کہ قلندر کی شادی نہ ہوئی تھی - لہٰذا یہ شادی پھر پرانے وقتوں میں تو یوں منائی جاتی تھی کہ ایک لڑکی دربار کے اندر بٹھا دی جاتی‘ اور کہا جاتا کہ اس کے ساتھ قلندر کی شادی ہوئی ہے ‘ اور پھر وہ لڑکی شادی کے بعد مر جاتی .... اب وہ کیسے مرتی ہوگی ؟- اس کا تصور ہی دل دھلا دیتا ہے--
کیا شہباز قلندر کا دربار ہندوں کا دربار ہے ؟ بہرحال قلندر کے مرید آج بھی اس مہینے میں شادی نہیں کرتے-اب وہ لڑکی والی جاہلانہ رسم تومفقود ہے مگر شادی کا تصور ہنوز موجود ہے- اور اب اس تصور کو عملی روپ اس طرح دیا جاتا ہے کہ لال شہباز کے دربان - لال داس ہندو - جوکہ اس دربار کے متولیوں میں سے ہے ‘ مہندی نکالتا ہے اور شادی کی باقی ماندہ رسومات ادا کرتا ہے- یاد رہے ! مہندی نکالنا خالص ہندوانہ رسم ہے‘ جو شادیوں پر سر انجام دی جاتی ہے- چنانچہ لال داس اپنے مذہب کے مطابق مہندی نکال کر لعل شاھباز کی شادی سر انجام دیتا ہے - یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن سیدوں نے اس دربار کی گدی سنبھالی ہوئی ہے‘ وہ بھی لال داس کے مرید ہیں - چنا نچہ یہ وہ دربار ہے کہ جہاں سندھ کے ہندو بھی سلام کرنے آتے ہیں-اور مسلمان کہلانے والے بھی سلام کرنے آتے ہیں.... اور لاڑکانہ کے ایک بزرگ نے مجھے بتلایا کہ” سہون سے ذرا دور ” سن “ کے باسی جی ایم سید نے ایک تاریخی اور تحقیقی کتاب غالباً ” قلندر نامہ “ تحریر کی تھی- لائبریریوں میں آج بھی مل جاتی ہے- اس نے ثابت کیا تھا کہ یہ دربار - اس کے پجاری اور جو بعد میں ولی مشہور ہوئے ‘ در حقیقت سب ہندو تھے - اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی تولیت آج بھی لال داس ہندو کے ہاتھ میں ہے - کہ جس کی سربراہی میں سب مل کر مست مست کرتے ہوئے دھمالیں ڈال رہے ہیں-
 پتھر کا دل چاندی کے خول میں : قلندر کی قبر پر لوہے کے بڑے بڑے تین ” گلّے“ پڑے تھے‘ جنہیں خزانہ کہا جاتا ہے - عورتیں اس میں نوٹ ڈال رہی تھیں اور چمٹ چمٹ کر آہ و زاری میں مصروف تھیں - یہاں ایک پتھر کا ٹکڑا بھی چاندی کے خول میں لٹک رہا تھا - کہتے ہیں کہ ”یہ قلندر کا دل ہے “ بہرحال ہر کوئی اس دل کو عقیدت سے چھو رہا تھا -- اسی طرح دربار کے دروازوں پر جابجا چاندی کے پترے چڑھے ہوئے ہیں - لوگ اس چاندی کو بوسے دے رہے تھے -- جبکہ قبر پر تو سجدہ ریزی خوب ہو رہی تھی-پچھلے دنوں قلندر کے دربار کا گنبد گر گیا اور درجنوں مرید مارے گئے- اس کے بعد کروڑوں روپیہ صرف کر کے نیا گنبد بنایا گیا ہے- عالم چنا اور وہابن چیونٹی: تو یہ تھا قلندر کا دربار کہ جس کا چرچا کرنے میں سب سے زیادہ کردار اس دربار کی مریدنی نورجہاں کے گانے نے ادا کیا ہے.... اور اس کے بعد جس کی وجہ سے اس دربار کے چرچے میں قدرے اضافہ ہوا‘ وہ ہے ” عالم چنا“ کہ وہ دنیا کا سب سے طویل قامت شخص تھا‘ جسے پوری دنیا میں بہت زیادہ شہرت مل چکی تھی- وہ اس دربار کے جاروب کشوں میں شامل تھا- یہیں رہتا تھا ہمارے ایک ساتھی نے اسے ایک ہوائی سفر میں سمجھایا تھا کہ تو شرک نہ کر‘ اللہ کا موحد بندہ بن - کہ جس نے تجھے بنایا ہے‘ تو وہ فوراً کہنے لگا کہ” تو وہابی ہے مجھ سے بات نہ کر“ اتفاق کی بات ہے کہ ہمیں یہ ملا ہی نہیں وگرنہ میں اسے ضرور یہ کہتا کہ -- دیکھ ! اگر لمبے قد کی وجہ سے آج لوگ تیر ی عزت کرتے ہیں تجھے دیکھنے آتے ہیں- جاپان ا ور امارات جیسی بیرونی حکومتیں تجھے اپنے ہاں دعوت دیتی ہیں‘ تاکہ تجھے دیکھیں - تو غور طلب بات تو یہ ہے کہ اس عزت کاسبب کیا ہے ؟ لا محالہ وہ لمبا قد ہے- تو یہ لمبا قد کس نے دیا ہے ؟ یہ اسی نے کیا ہے کہ جس مالک نے تیرے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ ہاتھ کیا تھا- اور اس مالک نے حضرت آدم علیہ السلام کو بھی بنایا اور وہی ہے جس نے تجھے بنایا ....مگر افسوس ہے کہ تو قلندر کی قبر پر پڑا ہے  ....تو ! تو اس زرافے سے بھی گیا گزرا ہے کہ جس کا قد اور گردن تمام جانوروں سے لمبی ہے- مگر وہ اللہ کا بنایا ہوا جانور ایسا توحید پرست ہے کہ کبھی کسی زرافے کے سامنے نہیں جھکا- اس نے کبھی کسی اڑنے والے شاھباز کو اپنا دستگیر اور غوث نہیں مانا .... لوگ اس زرافے کو بھی دیکھنے جاتے ہیں- بڑا خوبصورت اور لمبا جانور ہے - مگر تجھ سے کس قدر افضل اور برتر ہے یہ -- کہ وہ چڑیا گھر میں رہتا ہے ‘اپنے کسی ہم جنس کی قبر پر نہیں رہتا، 
شاھباز کر ے پرواز تے جانے راز دلاں دے“ افسوس ہے تمہاری ایسی انسانیت پر....ایسی ذھنیت پر....کہ اس سے تو چیونٹی بہتر ہے جو حشرات الارض کہلواتی ہے اور تم اشرف المخلوقات کہلاتے ہو....تم کتنے پست ہو.... اور چیونٹی کی سوچوں کی پرواز کتنی بلند ہے .... کس قدر اعلی.... اور کس قدر ارفع ہے‘ کہ اللہ نے اس کی سوچ کا تذکرہ قرآن میں کردیا ہے ”شاید کہ اتر جائے ترے دل میں چیونٹی کی بات (مزید قصہ حضرت سلیمام علیہ السلام پڑهئیے)“ مگر مجھے اب بھی ڈر ہے .... کہ اے قبروں پہ جھکنے والے ! کہیں تو چیونٹی کو بھی ” وہابن “ تو نہ کہہ ڈالے گا؟ ہاں تو ذرا سن - اور مزید کان دھر کہ اس چیونٹی کی اللہ کے ہاں کیا قدر ہے ؟اس کی قدر کو دیکھ اور اس کی عظمت کا اندازہ کر کہ یہ عظمت جو اسے اللہ نے دی ہے تو توحید کی برکت سے دی ہے - صحیح بخاری ”کتا ب الجہاد “میں تعلیقاً مروی ہے -حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ( پہلے وقتوں میں ) نبیوں میں سے ایک نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا -اس پر نبی نے چیونٹیوں کی بستی کو جلا دینے کا حکم دیا- چنانچہ وہ بستی جلا دی گئی -اس پر اللہ تعالیٰ نے اس نبی کی طرف وحی بھیجی ! اَ ن قَرَ صَتکَ نَملَة اَحرَ قتَ اُ مَّةً مِنَ الاُ مَمِ تُسَبِّحُ ترجمہ : تجھے ایک چیونٹی نے کاٹا تو - تو نے امّتو ں میں سے ایک امّت کو جلا دیا ‘ کہ جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے- یعنی اللہ نے ناراضگی کا اظہار کیا کہ میری عبادت کرنے والی توحید پرست امّت کو راکھ کا ڈھیر کیوں بنادیا ؟ آگ کی سزا کیوں دی؟ کیونکہ آگ کی سزا صرف اللہ ہی کو لائق ہے- وہی آگ میں جلانے کی سزا دے گا- اور یہ سزا اہل شرک کے لئے ہے‘ مشرکین کے لئے ہے کہ جو جہنم کا ایندھن بنیں گے موحدین کے لئے نہیں- اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے(آمین)جاری ہے...
تالیف :عمران شہزاد تارڑ
ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
http://deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com/

اسلام اور خانقاہی نظام،27

اسلام اور خانقاہی نظام

سندھ کا درباری سفر کہ جو ہم نے کراچی سے شروع کیا تھا ” اب ہم حیدرآباد “ پہنچ پائے تھے ....حیدر آباد سے ہماری منزل ” سہون “ کا شہر تھا‘ جو ” شہباز قلندر “ کے نام سے معروف ہے ‘ اور حیدر آباد سے تقریباً دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے -* اڑھائی کیوں؟ پورے تین قلندر کیوں نہیں: درباری لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ دنیا میں اڑھائی قلندر ہوئے ہیں - ایک ہندوستان کے شہر ”پانی پت “ میں بو علی قلندر- دوسرا پاکستان کے صوبہ سندھ کاشاہباز قلندر -- اور تیسری قلندرہ - رابعہ بصری ہے‘ جو عراق کے شہر بصرے کی رہنے والی تھی - چونکہ و ہ عورت تھی ‘ اس لئے وہ آدھا قلندر ہے - اب رہا یہ سوال کہ اس روایت کا سرچشمہ کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئی ہے؟ کہ اس پر اعتماد کیا جائے یا نہیں -تصوف یعنی دین خانقاہی کی دنیا میں اس کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ یہ طریقت کے راز ہیں ‘ یہ ولایت کی باتیں ہیں ‘ ان میں دلائل نہیں پوچھے جاتے - دلائل پوچھنا گستاخی کے زمرے میں آتا ہے -یہاں تو سینہ بسینہ باتیں چلتی ہیں - اگلی بات یہ ہے کہ قطب ‘ غوث ‘ ابدال اور قیوم - جو کہ اولیائے کرام کی اقسام ہیں- ان کے بارے میں تصوف کی دنیا میں سنتے ہیں‘ کہ قطب وہ ہوتا ہے کہ جس کے بل بوتے پر اس دنیا کا چکر جاری و ساری ہے -کیونکہ پرانے وقتوں کی آٹا پیسنے والی چکی کے دوپاٹوں کے درمیان جو ” کِلّی“ ہوتی ہے اس کو قطب کہا جاتا ہے - اب یہ پاٹ اسی کے بل بوتے پر گھومتے ہیں-لہٰذا قطب بھی اس دنیا کی کِلّی ہے - اسی طرح شیخ عبدالقادر جیلانی غوث ہی نہیں بلکہ ” غوث الاعظم “ یعنی بڑے ” فریاد رس “ ہیں -اور جو ابدال ہے تو یہ بھی ہر صدی میں ایک ضرور ہوتا ہے - مشرق و مغرب کی بعض اقلیمیں اس کے سپرد ہوتی ہیں - اور” قیوم  ” مجدد الف ثانی “ کہ جنہیں ” قیوم اول“ کہا جاتا ہے - ان کی اولاد نے جو اس کی فضیلتیں بیان کی ہیں‘ ان کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کا وزیراعظم لگتا ہے- جو مزید حقیقت حال جاننا چاہے‘ وہ راقم کی کتاب ” آسمانی جنت اور دربای جہنم “ کا مطالعہ کرے...《البتہ آگے جا کر ہم مختصر تعارف کروایئں گے》 قارئین کرام ! تو ولیوں کی یہ جو اقسام ہیں‘ ان کے بارے میں تصوف کی کتابوں میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ یہ کس”شان بلند “ کی حامل ہستیاں ہیں-اب رہا یہ مسئلہ کہ ان کی بلند شانیں بیان کرنے میں اللہ کی کیا کیا گستاخیاں ہوتی ہیں‘تو اس کی کسی کو پرواہ نہیں-قرآن و سنہ کا انکار ہوتا ہے تو ہو....-بے شک قرآن ان درباریوں کو آوازیں دے دے کر یوں پکارتا ہے : ﴾ وَمَالَکُم لاَ تَرجُونَ لِلّٰہِ وَقَارًا٭ وَقَد خَلَقَکُم اَطوَارًا ﴿ ترجمہ:اور ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کے وقار کا کوئی خیال نہیں کرتے- حالانکہ اس نے تمہیں ایک کے بعد دوسری حالت میں لا کر پیدا کیا ہے-( نوح : ۳۱ ‘ ۴۱)
مگر آج یہاں قرآن کی سنتا کون ہے ؟ تصوف کی دنیا میں تو سنی جاتی ہے قوالوں' گویوں اور گدی نشینوں کی-اور ان کے منہ سے جو نکل جائے وہی درباری دنیا کا مذہب بن جاتا ہے.... اب یہ جو قلندر ہے‘ تو اس کی شان کے کیا ہی کہنے- سبب ظاہر ہے کہ وہ آج تک ہوئے ہی اڑھائی ہیں‘ تو پھر اس کے مرتبہ کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے -اب اس کا مرتبہ کیسے جانا جائے ؟ تو اس مقصد کے لئے گلو کارہ ملکہ ترنم نور جہاں کے بول ملاحظہ کیجئے :شھباز کرے پرواز سخی شاھباز قلندر علی دا پہلا نمبر تے جانے راز دلاں دے دما دم مست قلندر علی دم دم دے اندر ہو لال میری........ملکہ ترنم کے ان بولوں سے پتہ چلا کہ شاھباز قلندر کی یہ شان ہے- اور اس کی روحانی پرواز کا یہ عالم ہے کہ وہ دلوں کے راز جانتا ہے - اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دلوں کے راز تو سب ہی ولی جانتے ہیں‘ تو پھر قلندر میں کیا خاص بات ہوئی؟ ....  اور ملکہ کے اس شرکیہ گانے کو صوفیاء کا کلام کا نام دیا جاتا ہے. حضرت لعل شہباز قلندر کا کاغذی بتوں کی شکل میں ان کا ایک آئیڈیل بت بنایا گیا ہے ‘ جو پورے ملک میں بکتا ہے اور گھروں میں سجایا جاتا ہے .... وہ اس طرح سے ہے کہ دربار کے صحن میں حضرت لعل شاھباز قلندر سرخ اور بھڑکیلا شاہانہ لباس زیب تن کیئے ہاتھ بلند کیئے کمر تھوڑی سی خم آلود اور پیچ دار بنائے ہوئے ایک پاوں ذرا اوپر اٹھائے ہوئے.... یعنی ناچنے کی حالت میں ہیں - رقص اور دھمال ڈالنے کی کیفیت میں ہیں ....اڑنے والے پروں سے بھی سجایا ہوا ہے- اب ایسے ولی اور قلندر کو دیکھ کر .... کہ جب یہ عقیدہ بھی ہو کہ وہ دلوں کا راز جانتا ہے اور بمطابق فرمان نورجہاں اور عقیدت مندوں کے- وہ بلائیں ٹالتا ہے‘ تو پھر وہاں ہر کوئی ناچے گا ‘ رقص کرے گا ‘ دھمال ڈالے گا‘ تاکہ قلندر کو خوش کیا جائے‘ اور وہ خوش اسی طرح ہوگا کہ جب اس کی اداوں کو اپنایا جائے.یہی وجہ ہے کہ مزاروں پر ڈهول کی تهاپ پر دهمال رقص(ناچ) -کی محفلیں سجائی جاتی ہیں جس میں مردوں عورتوں سمیت بچے بوڑهے سب شریک ہوتے ہیں.یہ تماشا صرف موج مستی کیلئے نہیں کیا جاتا بلکہ دین کا حصہ سمجھ کر کیا جاتا ہے.   چنانچہ اب نور جہاں کو گانا گانے سے کیا شئی مانع ہوگی اور اس کے گانے کو نصیبو لال یا نرگس یاکوئی اور اداکارہ فلموں میں اس پہ رقص کرے گی‘ تو اسے کون سی شئی روکے گی ؟ اور دیکھنے والے بھی یہ منظر دیکھیں گے‘ تو انہیں اس منظر میں فحاشی نہ دکھائی دے گی - بے شرمی کا خیال نہیں آئے گا .... کیوں.. ؟ اس لئے کہ اس بے شرمی پر درباری ولائت کی چادر فضیلت جو پڑی ہے‘ اس بے حیائی پر تصوف کی خلعت خلافت جو موجود ہے اور اس فحاشی پر خانقاہی تقدس کی دستار فضیلت جو سجی ہے- اگر کوئی پوچهے کیا یہ فحاشی دین ہے؟ تو کہا جاتا ہے کہ یہ صوفیانہ کلام یعنی بزرگوں کا کلام ہے.پهر اس صوفیانہ کلام کے نام پر بے شمار گلوکار اور گلوکارہ اپنے اپنے انداز میں موسیقی سازو رنگ کے ساتھ کلام کو پیش کرتے  ہیں.اب تو صوفیانہ کلام کے فروغ  کیلئے باقاعدہ اکیڈمیوں کا آغاز ہو چکا ہے.بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی پهر دین خانقاہی سے عقیدت رکهنے والے صوفیانہ کلام کی آڈیو ویڈیو خرید کر صبح کا آغاز تلاوت قرآن مجید کی بجائے گهروں دوکانوں اور گاڑیوں میں صوفیانہ کلام کو باعث برکت اور ثواب سمجھ کر سنتے ہیں..جاری ہے......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

اسلام اور خانقاہی نظام،26

اسلام اور خانقاہی نظام

حضر ت پیر ضیاءالحق“ کا عرس جنرل ضیاء نے افغانستان کے جہاد میں جو کردار ادا کیا - وہ بیان کا محتاج نہیں -اس جہاد کے بعد ان کی نگاہیں جہاد کشمیر پہ بھی تھیں اور یہی وہ نگاہ تھی جو کفر کو گوارا نہ تھی- لہٰذا جنرل صاحب کو راستے سے ہٹا دیا گیا - جب وہ منظر سے ہٹے تو تب کئی لوگوں کی نگاہوں سے پردہ ہٹا - جنرل کی زندگی سے بھی پردہ اٹھا تو وہ لوگوں کے محبوب راہنما بن گئے - ان کی محبوبیت سے ان کے سیاسی جانشینوں اور ان کے بیٹوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور انہیں حق بھی تھا- مگر ایک فائدہ انہوں نے وہ اٹھایا کہ جو ہمیشہ قوموں کی گمراہی کا باعث بنا ہے- اور یہ ہے مرنے کے بعد عظیم لوگوں کی پوجا کا تصور - اس تصور و عمل کی گمراہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان سے ملاحظہ کیجئے :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حبشہ میں عیسائیوں کاگرجا دیکھا جس میں تصاویر بھی آویزاں تھیں تو اس کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا گیا - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو یہ لوگ اس کی قبر کے پاس عبادت گاہ تعمیر کر دیتے اور پھر اس شخص کی تصاویر لٹکا دیتے-یہ لوگ اللہ کے ہاں بدترین لوگ ہیں-( رواہ البخاری :کتاب الجنائز باب بناءالمسجد علی القبر رقم الحدیث 1341و مسلم: کتاب المساجد باب النہی عن بناءالمسجد علی القبور)     بلاشبہ جنرل ضیاءالحق شریف النفس نمازی اور پرہیز گار انسان تھے مگر سب سے بڑا پرہیز کہ جسے کرنے کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ‘اس سے وہ پرہیز نہ کر سکے-وہ درباروں پہ بهی جاتے رہے - چادریں بهی  چڑھاتے رہے- اور اس کے ساتھ ساتھ عمرے کرتے رہے یعنی وہ اللہ کی عبادت بھی کرتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرکیہ اعمال کا ارتکاب بھی کرتے رہے-اب ان کی غیر معمولی موت کے بعد سب لوگ اپنے اپنے طور پر کہ کوئی جہاد کے حوالے سے ‘کوئی ان کے اسلامی اقدامات کے حوالے سے ‘کوئی ان کے قبروں پہ جانے کی وجہ سے ‘ ان سے محبت کا اظہار کرنے لگے اور اس اظہار کے لئے سب کا رخ ان کے پہلے عرس (برسی) پر ان کی قبر کی طرف ہو گیا-کئی توحید کا نام لینے والے بھی وہاں جا پہنچے- اور دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ان کی قبر فیصل مسجد کے پہلو میں بنائی گئی-اس ملک میں یہی رسم ہے -علامہ اقبال کی قبر شاہی مسجد کے پہلو میں بنادی گئی وغیرہ وغیرہ-تو کسی بزرگ کی قبر کے ساتھ مسجد بنا دی گئی- الغرض اس طرح سے قبروں کو نمایاں کرنے کا ایک چلن اور رواج ہمارے یہاں موجود ہے حالانکہ قبر کی جگہ قبرستان ہے نہ کہ پارک اور مسجدوں کے دامن .... بہرحال آئیے ! آپ کو بھی اس عرس کی جھلکیاں دکھائیں: اسٹیج سیکرٹری پکار پکار کر کہہ رہا تھا” شہید ضیاءالحق کے مزار اقدس کا راستہ - امنگوں کا رستہ ہے“ یعنی آئیے ! اور یہاں اپنی امنگیں پوری کرائیے-اب کچھ نوجوانوں کاایک قافلہ آ رہا تھا-انہوں نے سبز چادریں تھامی ہوئی تھیں - ان پر آیت الکرسی لکھی ہوئی تھی-یہ مخصوص لباس میں آگے آگے تھے اور پیر ضیاءالحق کے دربار کا وارث ان کا سابق بینکار اور وزیر بیٹا‘ اعجاز الحق پیچھے پیچھے آ رہا تھا-نعرہ رسالت اور نعر ہ حیدری زوروں پر تھا- ضیاءالحق کی ایک بڑی تصویر کا پورٹریٹ ایک شخص نے سر پر اٹھا رکھا تھا-وہ جلسہ گاہ میں اسے اٹھائے گھوم رہا تھا-ایسا ہی ایک پورٹریٹ جلسہ کی اسٹیج کے سامنے گاڑا گیا تھا-اس پر سبز گنبد کاغذوں کا بنایا گیا تھا-کچھ لوگ نان اور حلوہ ایک گاڑی میں رکھ کر لے آئے .... یہ لنگر وہ لوگوں میں تقسیم کر رہے تھے- جنرل صاحب کا طیارہ جس وقت کریش ہوا تھا اسی وقت دعا مانگی گئی -- یہ ایک انوکھا کام ہے جو حضرت پیر ضیاءالحق کے عرس پر شروع ہو گیا ہے جس طرح درباروں پہ چادریں چڑھتی ہیں اور اس کے گرد ڈھول بجتا ہے ‘ اسی طرح ایک چادر آئی -ڈھول اور چمٹے بج رہے تھے - جھنجنے چھنک رہے تھے اور ایک دیوانہ ملنگ ناچ رہا تھا - اس کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ناچ رہے تھے اور بینر پر لکھا تھا : ”عرس مبارک حضرت پیر ضیاءالحق شہید“ جنرل ضیاءالحق کی قبر پر وہ جو برسی شروع ہوئی وہ آہستہ آہستہ میلہ اور اب عرس بن گیا ہے-اس عرس میں اب وہی درباری اور خانقاہی رنگ غالب آتا جا رہا ہے - لوگوں کا جھمگھٹا بھی چھٹ گیا ہے اور اس بار تو
انتہائی کم لوگ تھے - دوتین ہزار سے زیادہ نہ ہوں گے - جناب اعجاز الحق نے ابتدائی برسیوں کو دیکھ کرضیاءالحق فنڈیشن بنائی - اسی فانڈیشن کے تحت آج اس عرس میں نواز شریف صاحب بھی موجود تھے اور حکمت یار بھی تھا -اس برسی کے بعد لگتا ہے کہ اعجاز صاحب کے ہاتھ میں اب وہ اعجاز نہیں رہا کہ جسے نواز شریف صاحب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے - جنرل ضیاءالحق کو ایک دوبار مجھے بھی بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا -بہرحال تاحال باقاعدگی سے یہ عرس منا رہے ہیں - وزارت عظمی کے طویل خوابوں کے بعد اب لگتا ہے کہ وہ مجاوری کی طرف کافی سفر کر آئے ہیں اور یہ سفر انہوں نے جاری رکھا تو مستقبل میں ایک روز یہ صاحب یا ان کا کوئی بیٹا مخدوم بن جائے گا کہ جس طرح مخدوم خلیق الزمان مخدوم فیصل صالح حیات اور دوسرے ایسے کئی مخدوم اور گدی نشین ہیں جو کہ گدیوں کے بل بوتے پر وزیر بنتے ہیں -  جناب اعجاز الحق آگے بڑھئے!.... ....: ایک بات اگرچہ اعجاز الحق صاحب کو کڑوی لگے مگر ہم بتائے دیتے ہیں کہ جنرل ضیاءالحق کی سیاسی وراثت میاں نواز شریف صاحب لے اڑے - اب آپ کے پاس فقط گدی نشینی کی وراثت ہے -اگر آپ کا مخدوم بننے کا پروگرام ہے تو .... اگر نہیں ہے تو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ برسی کو چھوڑئیے - یہ عرس کے جھنجھٹ سے نکلئے - آپ کے والد محترم سیاسی مجبوریوں سے یا نہ جانے کس بنا پر قبروں پہ پھیرے لگانے سے پرہیز نہ کرسکے - آپ اس چلن سے پرہیز کیجئے - توحید کا عقیدہ اپنائیے ! آگے بڑھئے ! اور جہاد کا کام کیجئے کہ جس طر ح جنرل ضیاءالحق اور جنرل اختر عبدالرحمان نے کیا تھا - اور جناب نواز شریف اور شہباز شریف صاحب سے بھی عرض کریں گے کہ اب درباروں کی بجائے فقط کعبے کے ہو جائیے. اللہ توحید وجہاد کی خالص نعمت سے نوازے( آمین )جاری ہے....
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

Monday 14 December 2015

اسلام اور خانقاہی نظام،25

اسلام اور خانقاہی نظام

سیکولرزم اور صوفیت کے جال: اس سے تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ یہ سیکولر اورمغرب زدہ لوگ جو اس ملک کے حکمران بنے ہوئے ہیں‘حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں‘اور مستقبل میں بھی ان کا یہ پروگرام ہے کہ وہ ہی حکمرانی کرتے رہیں-یہ ایک جانب تو دنیاوی زندگی اپنی مرضی سے بے لگام ہو کر گزارنا چاہتے ہیں-مغربی تہذیب کی آزادیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں- مگر اس کے ساتھ ساتھ چونکہ یہ لوگ مسلمان کہلاتے ہیں- مسلمان معاشروں سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں حکمرانی بھی مسلمانوں پر کرنا ہے-لہٰذا یہ اپنے اسلام(عقیدہ) کو ظاہر کرنے کے لئے‘اپنی نیکی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے‘اس دین اور مذہب کو اپناتے ہیں کہ جس مذہب کے نام پر روایات اور اعمال کا تعلق اس دین کے ساتھ سرے سے ہے ہی نہیں‘ کہ جسے اللہ نے نازل کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لوگوں تک پہنچایا اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس پر عمل کرکے دکھایا ... اور دوسری طرف بڑے بڑے سیاستدان پارٹی رہنما اکثر ان مزاروں پر حاضری دے کر یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہمارا اور خانقاہوں سے عقیدت رکهنے والوں کا عقیدہ یکساں ہے.لہٰذا یہ صوفی سیکولر لوگ سب ایک ہیں-ہمیں ان درباروں پر حاضری دے کر قبر والے کیلئے دعا کرنے پر اعتراض نہیں.ہمیں عتراض ان خرافات سے ہے جو خانقاہوں پر سر انجام دی جاتی ہیں.بعض پہلے صوفی ہوتے ہیں-بعد میں سیکولر بنتے ہیں. جیسے سائیں راشد کی گدی کے مالک پیرپگاڑو ‘ہالہ میں سائیں مخدوم نوح کی گدی کے وارث ‘مخدوم خلیق الزمان اور شاہ جیونہ کی گدی کے تاجدار فیصل صالح حیات ہیں اور اب بڑے بڑے سیاستدان صوفیت کی طرف آ رہے ہیں-پورے ملک میں گدی نشین حضرات کی لڑائیوں کے کئی قصے اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں-اسی گدی کیلئے بھٹو کی سالگرہ پر پانچ جنوری کولاڑکانہ میں ماں اور بیٹی کے درمیان جنگ ہوئی تھی-جس میں کئی لوگ گولی لگنے سے ہلاک اور زخمی ہوئے-نصرت بھٹو کا کہنا تھا کہ میری بیٹی نے میرے شوہر کے مزار پر قبضہ کرلیا- بہرحال یہ لڑائی ابھی بند نہیں ہوئی تهی اور غنویٰ بھٹو بھی اس منافع بخش درباری صنعت کے جھگڑے میں ایک فریق کی حیثیت سے کود پڑی ہے....
بے نظیر .... اور شہباز قلندر : کہتے ہیں دنیا میں اڑھائی قلندر ہوئے ہیں‘ایک پانی پت کے بو علی قلندر‘ایک شہباز قلندر اور رابعہ بصری آدھا قلندر تھیں-تو شاید آنے والے وقت میں باقی نصف کا پاٹ بی بی بے نظیر پر کر دیں.... اور یوں اڑھائی کے بجائے تین قلندر پورے ہو جائیں-ویسے قلندر اور بھٹو سائیں کے درمیان قلندرانہ تعلق پیدا ہو چکا ہے اور یہ شاید اسی تعلق کا سبب ہے کہ بابا بھٹو سائیں کے دربار کی مجاورہ مالکہ اور گدی نشینہ بی بی بے نظیر بابا بھٹو کے مزار پر حاضری دینے کے بعد عموماً شہباز قلندر کے دربار پر جا پہنچتی ہیں-اور 13جنوری 1994کے اخبارات کے مطابق انہوں نے کہاکہ میں نے قلندر کے دربار پرحاضری دی اور پورے ملک میں بارش برس گئی-ہم محترمہ کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ ذرا فرمان مصطفی بھی پڑھ کر دیکھیں:
 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی موقع پر فرمایا تھا:صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں حضرت خالد بن زید سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر ہمیں صبح کی نماز ایسی رات کو پڑھائی جس میں بارش ہوئی-چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا :کیا تمہیں پتہ ہے کہ اللہ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی کہ: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: آج صبح میرے بہت سے بندے مومن ہو گئے اور بہت سے کافر ہوگئے-لہٰذا جس نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل وکرم اور اس کی رحمت سے ہوئی ہے- وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں سے اس نے کفر کیا-اور جس نے یہ کہا کہ یہ بارش فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے ہوئی‘اس نے مجھ سے کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا-( صحیح البخاری :کتا ب الاذان باب یستقبل الامام الناس اذا سلم رقم الحدیث 846و صحیح مسلم: کتاب الایمان باب بیان کفر من قال مطرنا بالنوئ) قارئین محترم ....اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ یہ بارش محض اللہ کا فضل وکرم ہے اور یہ فضل وکر م اس نے ازخود کیا ہے یا کسی کی دعا اور فریاد پر کیا ہے-یہ وہی جانتا ہے‘باقی درباروں اور قبروں پہ جا کر مردہ لوگوں کو اللہ کے حضور واسطہ وسیلہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بزرگ بڑی پہنچ والے ہیں- ہماری فریادوں کو آگے پہنچاتے ہیں اور ہماری فریادوں سے واقف ہیں یعنی وہ غیب جانتے ہیں -یہ وہ غیر سائنٹیفک ‘غیر عقلی باطل عقیدہ ہے جسے قرآن وحدیث نے فضول اور شرک قرار دیا ہے-بہرحال ! سابق وزیراعظم بی بی بے نظیر کے بابا بھٹو سائیں کے دربار پر جب ہم آگے بڑھے تو بے شمار چادریں تھیں جو ترنگی بھی تھیں اور ایک رنگی یعنی سبز بھی تھیں-ایک چادر پہ لکھا ہو اتھا :ہم آپ کی ساتویں برسی پر آپ کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں-منجانب: یعقوب مسیح نائب صدر یونٹ 48ٹاون شپ زون نمبر 3لاہور. قارئین کرام !اب چادریں چڑهانے کا سلسلہ شروع ہو چکا بعید نہیں کہ دوسرے مزاروں کی طرح دیگر خرافات کا یہاں چرچا نہ ہو بلکہ بعض خرافات کی ابتدا ہو چکی ہے.....
کاش بی بی سمیت تمام لوگوں کو ان بزرگوں کے فوت ہونے کا بھی یقین ہو جائے تو ان کو مشکل کشا‘ حاجت روا ‘ کرنی والا ‘ دستگیر ، غریب نواز 'داتا غوث اعظم گنج بخش وغیرہ نہ مانیں جو خود کو زندہ نہ رکھ
سکے وہ دوسروں کو کیا زندگیاں دیں گے.یہ تمام قبروں والے دنیا کی میں بهی اللہ کے محتاج تهے اور مرنے کے بعد بهی اللہ کے محتاج ہیں.لہذا صرف اور صرف ایک اللہ کے ہو جائیں اور اللہ تعالی ہی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجهیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ حسنہ بنائیں-جاری ہے.......
تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...